Monday 26 March 2018

لبرل ڈیموکریسی کا چورن


لبرل ڈیموکریسی کا چورن
::::::::::::::::::::::::::::::::

امریکہ وہ ملک ہے جہاں آج بھی عورت اس نام نہاد جنسی مساوات کی تلاش میں ہے جس کا امریکہ سب سے زیادہ پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر ٹاپ لیول پر دیکھا جائے تو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی کچھ یوں ہے کہ 435سیٹس والے ہاؤس آف ریپریزینٹیٹیو اور اور 100سیٹس والے سینیٹ میں خواتین کی نمائندگی 20، 20فیصد ہے۔ دونوں ہی ایوانوں میں 20فیصد جیسی فکسڈ تعداد صاف بتا رہی ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس تعداد کو متعین کیا گیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈائریکٹ الیکشن میں دونوں ایوانوں کی یکساں ایوریج نکلے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹکٹ سے لے کر انتخاب تک ایک پورا سسٹم اس کے پیچھے رو بعمل ہوتا ہے۔ اسی امریکہ میں آج بھی عورت تنخواہ کے معاملے میں جنسی تفریق کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ نیویارک میں 2015ء کے دوران جہاں مرد نے اوسط سالانہ 52124ڈالرز تنخواہ لی وہیں عورت نے 46208ڈالرز تنخواہ وصول کی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے ہر ڈالر کے مقابلے میں عورت 89سینٹ تنخواہ لے رہی تھی اور یہ عورت اور مرد کی تنخواہ میں کسی ریاست کا کم سے کم فرق تھا۔ زیادہ سے زیادہ فرق ریاست ویامنگ کا تھا جہاں مرد نے سالانہ 55965ڈالرز تنخواہ وصول کی جبکہ عورت کے حصے میں 36064ڈالرز تنخواہ آئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے ہر ڈالر کے مقابلے میں عورت نے 64سینٹ تنخواہ حاصل کی۔ راستے پر چلتے ہوئے عورت کو آگے رکھنا، جب وہ گاڑی میں بیٹھے یا اترے تو اس کے لئے دروازہ کھولنا اور ہر نمائشی موقع پر یہ کہنا کہ "لیڈیز فرسٹ"وہ کل لولی پاپ ہے جو امریکہ یا لبرل ڈیموکریسی اس ماڈرن ورلڈ میں عورت کو دے رہے ہیں۔ جہاں بات اعلیٰ ایوانوں میں نمائندگی یا تنخواہوں میں مساوات کی آئے گی تو عورت جان لے کہ مساوات ہنوز امریکہ میں بھی دوراست۔

امریکی سسٹم کو پوری گہرائی کے ساتھ جاننے والے یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس کے پورے نظام کو پس منظر میں بیٹھی وال سٹریٹ کی طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں اور دو پارٹی سسٹم انہیں کا بنایا ہوا مصنوعی سیاسی سسٹم ہے جس میں دونوں پارٹیوں میں کوئی نظریاتی فرق نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے محلے کے بچے دو ٹیمیں بنا کر روز شام کو کرکٹ کھیلتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ امریکی کانگریس کا ہر رکن، ہر ریاست کا ہر گونر اور امریکہ کا ہر صدارتی امیدوار الیکشن وال سٹریٹ کے سیٹھوں سے ملنے والے چندے کی مدد سے ہی لڑتا ہے اور سیٹھ اسی کو چندہ دیتے ہیں جو نامزد بھی انہی کا ہو۔ اس جعلی نظام نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ایک عورت کو بھی امریکی صدر بنانے کا تجربہ کر لیا جائے۔ اب معاشرے کی حالت یہ ہے کہ وہ عورت کو مرد جتنی تنخواہ بھی دینے کو تیار نہیں تو خوف یہ لاحق ہوا کہ ووٹر خاتون امیدوار کو مسترد ہی نہ کردے۔ چنانچہ تماشا دیکھئے کہ ریپبلکنز کی جانب سے ایک مضحکہ خیز امیدوار لایا گیا، پھر اس امیدوار سے وہ بیان دلوائے گئے جو انتہا پسندی کے خلاف امریکہ کے قومی موقف سے ہی متصادم تھے اور اب آخری مرحلے میں اس کے سکینڈلز سامنے لا کر خود ریپبلکنز نے ہی اس سے ہاتھ کھینچنے شروع کر دیئے تاکہ اس امیدوار کے جیتنے کے امکانات ہی باقی نہ رہیں اور ہیلری کی فتح یقینی ہو سکے۔ خود ہیلری کا اپنا حال یہ ہے کہ جب وہ سینیٹر تھیں تو ان کے آفس میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں جنسی بنیاد پر 28فیصد کا فرق تھا یعنی وہ خود بھی جنسی مساوات پر حقیقی معنیٰ میں یقین نہیں رکھتیں۔ یہ ہے وہ جعلی لبرل ڈیموکریسی جس کا چورن ہمارے لبرل زعفران قرار دے کر ہمیں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو امریکہ میں ہونے والے اس فکسڈ میچ کو بھی ایک حقیقی مقابلے کے طور پر پیش کر رہے ہیں!
(تحریر: رعایت اللہ فاروقی صاحب)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔