Saturday 3 March 2018

میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ اگر مستشرقین نہ ہوتے تو آج کل کے ملحدین کا کیا بنتا

میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ اگر مستشرقین نہ ہوتے تو آج کل کے ملحدین کا کیا بنتا ۔ موسمی ملحدین جن کی اپنی کوئی علمی حثیت نہیں وہ تو یتیم ہو کر رہ جاتے ۔ یہ انہی مستشرقین کی دین ہے کہ موسمی ملحدین صدیوں قبل ان کے کیئے گئے اعتراضات بار بار دہراتے رہتے ہیں اور ہر بار عزت افزائی کے ساتھ جواب دیا جاتا ہے ۔ لیکن چین ان کو پھر بھی نہیں آتا ۔حال ہی میں ملحدین کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے نسب مبارک پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نسل اسماعیل میں سے نہیں تھے نعوذو باللہ!
یہ وہ اعتراض ہے جو مستشرقین نے اٹھایا اور اس کا تسلی بخش جواب دے کر ان کا تو منہ بند کر دیا گیا لیکن علمی یتیم اور عقل سے بے بہرہ ملحدین کا حال بندر کے ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا جیسا ہو گیا  اور انہیں اس پر اپنی دکانداری چلانے کا موقع مل گیا ۔اپنی دانست میں موسمی ملحدین نے یہ اعتراض دہرا کر بہت بڑا کارنامہ کیا ہے جسے بڑے فخر سے وہ بطور چیلنج دہراتے پھر رہے ہیں!
مستشرقین کے اس اعتراض کے سارق ملحدین کی خارشی طبع کی تسلی کے لیئے مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب مستشرقین کی اپنی ہی زبانی پیش خدمت ہے :۔
٭ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگا رجیمز ہیسٹنگز لکھتا ہے کہ :۔
"حضرت محمد ﷺ ایک اسماعیلی تھے۔جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ دین ابراہیمی کی طرف رجوع کریں  اور ان خدائی وعدوں سے بہرہ یاب ہوں جو نسل اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ کیئے گئے ہیں۔"
(انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس  جلد 8)
٭ گبن وہ مشہور مؤرخ ہے جس کو پورا مغرب قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی حثیت اہل مغرب کے ہاں مسلم ہے ۔ وہ بھی اسلام کے خلاف معاندانہ جذبات رکھتا ہے۔ لیکن مستشرقین نے جس طرح حضور اکرم ﷺ کے نسب نامہ کو  جس طرح مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :۔
"حضرت محمد ﷺ کی اصل کو حقیر اور عامیانہ ثابت کرنے کی کوشش عیسائیوں کی ایک غیر دانشمندانہ تہمت ہے ۔ جس سے ان کے مخالف کا  مقام گھٹنے کے بجائے بڑھا ہے ۔"
اس کے علاوہ گبن اپنی اسی کتاب کے فٹ نوٹ پر لکھتا ہے کہ :۔ "تھیوفینز جو کہ پرانے زمانے کے یونانیوں میں سے ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نسل اسماعیل علیہ السلام میں سے تھے ۔"
اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے کہ :۔ "ابولفداء  اور گیگنیئر نے اپنی اپنی کتابوں میں حضرت محمد ﷺ کا جو نسب نامہ لکھا ہے وہی مستند ہے۔"
یاد رہے کہ یہ وہی نسب نامہ ہے جو حضور اکرم ﷺ کے نسل اسماعیل میں سے ہونے کی گواہی دیتا ہے۔
(ایڈورڈ گبن: دی ڈیکلائین اینڈ فال آف رومن ایمپائر جلد 5)
٭ مسٹر فاسٹر بھی اس بات کی گواہی دیتا نظر آتا ہے ۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ :۔
"----خاص عرب کے لوگوں کی یہ قدیمی روایت ہے کہ قیدار اور اس کی اولاد ابتداء میں حجاز میں آباد ہوئی تھی ۔چنانچہ قوم قریش اور خصوصاََ مکہ کے بادشاہ اور کعبہ کے متولی ہمیشہ اس بزرگ کی نسل سے ہونے کا دعوی کرتے تھے۔ اور خاص کر حضرت محمد ﷺ نے اسی بنیاد پر کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور قیدار کی اولاد میں سے ہیں ، اپنی قوم کی دینی و دنیوی عظمتوں کے استحقاق کی تائید کی ہے۔"
(بحوالہ : سیرت محمدی ﷺ  از سرسید احمد خان)
حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین اور ان کے سارق ملحدین چاہے جتنی مرضی کوششیں کر لیں جتنا مرضی پروپیگنڈہ کر لیں  اپنی پوری طاقت صرف کر لیں لیکن حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان عالیشان کو جھٹلانا ان کے بس سے باہر ہے :۔
"حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:۔ اللہ عزوجل نے اولاد ابراہیم میں سے اسماعیل کو چنا، اولاد اسماعیل سے کنانہ کو چنا، بنی کنانہ سے قریش کو چنا ، قریش سے بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم سے مجھے چنا۔"
(سنن الترمذی)
عربوں میں بے شمار خامیاں تھیں  وہ لوگ جہالت، بربریت، بدکاری  اور نخوت و تکبر کی دلدل میں سرتاپا ڈوبے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ان میں کچھ خوبیاں بھی تھیں جو انہیں دیگر اقوام عالم سے ممتاز بناتی ہیں ۔یہ قوم جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ تھی۔ ان کی قوت حافظہ بھی مثالی تھی ۔ اس کے علاوہ اپنے خیالات کے اظہارانہیں جو قدرت حاصل تھی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے ۔اپنی اس قوت حافظہ کو انہوں نے اپنے نسب نامے حفظ کرنے کے لیئے دل کھول کر استعمال کیا تھا ۔ہر کوئی نہ صرف اپنا نسب نامہ یاد رکھتا بلکہ دیگر قبائل کے نسب ناموں کو بھی اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتا ۔ تاکہ وقت آنے پر وہ دیگر قبائل کے نسب ناموں کی کمزوریوں کو واضح کر کے اپنی نسبی برتری ثابت کر سکے ۔
اس کے علاوہ عرب جھوٹ بولنے سے بھی سخت نفرت کرتے تھے اور انہیں یہ بات بلکل بھی گوارا نہ تھی کہ ان کی شہرت ایک جھوٹے کی حثیت سے ہو۔اسی لیئے ہرقل کے دربار میں ابوسفیان خواہش کے باوجود حضور اکرم ﷺ کے خلاف کوئی جھوٹی بات نہ کر سکے ۔ عربوں کی یہ روایتیں کسی بھی تاریخی روایت کے مقابل مستند قرار دی جا سکتی ہیں اور ان روایات کے مطابق خانہ کعبہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اور عربوں کی ایک قسم جو "عرب مستعربہ"کہلاتی تھی وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھی ۔قریش اسی عربی النسل کا ایک قبیلہ تھا جس ایک معزز ترین شاخ بنو ہاشم تھی ۔اس دور میں تمام عرب قریش کا نسل اسماعیل میں سے ہونے کی وجہ سے احترام کرتا تھا اور کسی کو بھی ان کے اسماعیل علیہ السلام کی نسل مین سے ہونے میں کوئی شبہہ نہ تھا۔
(ضیاء النبی ﷺ جلد7)
علاوہ ازیں اگر حضور اکرم ﷺ نسل اسماعیل علیہ السلام سے نہ ہوتے تو یہود مدینہ آپ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لاتے ۔ یہود مدینہ کا آپ ﷺ پر ایمان نہ لانا صرف اور صرف اسی وجہ سے تھا کہ آپ ﷺ نسل اسماعیل میں سے تھے ۔ اور نبوت یہود سے چھن کر نسل اسماعیل میں منتقل ہو چکی تھی ۔ جو کہ یہود کی سیاسی و مذہبی برتری پر ایک کاری ضرب تھی ۔
الغرض
حضور اکرم ﷺ کا نسل اسماعیل میں سے ہونے کی حقیقت کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کرنا نہ صرف روایات عرب کے برخلاف ہے بلکہ خود مستشرقین کی تحقیق بھی اس کے منافی ہے ۔ اس لیئے ملحدین سے گزارش ہے کہ دوسروں کا تھوکا چاٹنے کے بجائے  کچھ اپنی عقل کا استعمال کریں تاکہ ان کی علمی حثیت اور اوقات بھی واضح ہو سکے!!!  

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔