Monday, 19 March 2018

تاریخ ایران اور خورس اعظم یا سائرس اعظم


قبل مسیح میں جب وہ ریاست کے ایک امیر کے گھر پیدا ہوا تو فارس ایک چھوٹی سی ریاست تھی، لیکن اُس نے اپنی غیر معمولی شجاعت ، قوت اور تدبر کے باعث ایک امیر سے ترقی کرکے اپنے لیے شہنشاہوں کی صف میں جگہ پیدا کرلی۔ اُس کی قیادت میں فارس نے جنوب مغربی ایشیا ، وسطی ایشیا، یورپ کے بعض علاقے اور کوہ قاف تک فتح کرکے’’ ہخامنشی‘‘سلطنت کی بنیاد رکھی، جس کے بعد وہ آگے بڑھا اور مغرب میں بحیرہ روم اور درہ دانیال سے لے کر مشرق میں ہندوکش تک کا علاقہ فتح کرلیا۔ اس طرح اُس نے اپنے وقت کی تاریخ کی سب سے عظیم سلطنت قائم کی۔
صرف یہی نہیں بلکہ اُس نے دوسری دو بڑی سلطنتوں میڈیا اور لیڈیا کو زیر کرکے فارس کی چھوٹی سی ریاست کو ایک عظیم الشان سلطنت میں بدل دیا۔یہودی اُس دور میں سلطنت بابل کے غلام تھے، اُس نے بابل پر حملہ کیا اور یہودیوں کو بابل کی غلامی سے آزاد کراکر فارس میں لاکر تہران بالا میں آباد کیا، جس کے بعد یہودی ہمیشہ اہل فارس کے ممنون احسان رہے۔ اُس کا دوسرا بڑا کارنامہ مذہبی رواداری بھی تھا، بابل کی فتح کے بعد اس نے اسرائیلیوں کو فلسطین جانے کی اجازت دے دی اور بیت المقدس کی تعمیر ثانی کا حکم صادر کیا اوراس سلسلے میں ہر طرح کی مدد بھی فرہم کی اور وہ تمام طلائی اورنقرئی ظروف جو مذہبی طور پر مقدس سمجھے جاتے تھے اُس نے یہودیوں کے حوالے کردیے۔
بابل کے دیوتا مروخ کی قدر و منزلت کی اوراُن تمام بتوں کو جو دوسرے مقامات سے لائے گئے تھے ، اُن کی اصل جگہ پہنچادیا۔ اِنہی کارناموں اور خوبیوں کی وجہ سے تاریخ میں اُسے ’’نجات دہندہ ‘‘ اور ’’بابائے قوم‘‘ کے خطاب سے بھی پکارا گیا۔ بابائے قوم اور قوم کا یہ نجات دہندہ کوئی اور نہیں بلکہ کورش بزرگ(قورش بزرگ) تھا، جسے دنیا خورس اعظم اور سائرس اعظم کے نام سے بھی جانتی ہے۔ معلوم تاریخ میں خورس یا کورش یا قورش یا سائرس کا شمار دنیا کے بڑے فاتحین میں ہوتا ہے۔
سائرس اعظم کے بعد ایران نے کئی صدیوں تک کبھی اکلوتی اور کبھی مخالف سپر پاور کے طور پر دنیا پر راج کیا،چھ صدی قبل مسیح میں بابل دنیا کی واحد سپر پاور تھا تو ایران اس کے مقابلے میں اُٹھا اور بابل کو تہس نہس کرکے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا، مصر طاقت کے طور پر ابھرا تو اس کا مقابلہ بھی ایران کی سپر پاور سے تھا،اسکندر اعظم کی صورت میں یونان نے سپر پاور کی حیثیت حاصل کی تواُس کے سامنے بھی کوئی بڑی طاقت تھی تووہ ایران ہی تھا، اسکندر اعظم سے شکست کھانے کے باوجود ایران کی سپر پاور کی حیثیت ختم نہ ہوئی، یونان کے بعد رومی سلطنت نے طاقت پکڑی تواُس وقت بھی دنیا میں دو ہی طاقتیں تھیں، ایک روم اور دوسرا ایران تھا۔ یوں سائرس اعظم سے لے کر ظہور اسلام کے درمیانی بارہ سو سال کی تاریخ میں دوسری عالمی طاقتیں تو بدلتی رہیں لیکن ایران بطور سپر پاور اپنی جگہ پر موجود رہا۔
ساتویں صدی عیسوی میں عربوں نے اُٹھ کر کسریٰ کے محلات کو روند ڈالا تو ایران کی حیثیت بطور عالمی طاقت کا خاتمہ ہوگیا ، جس کے بعد ایران کو دوبارہ پورے قد پر کھڑے ہونے کا موقع نہ مل سکا۔عربوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کی شکل میں آٹھ سو سال تک ایران سمیت دنیا کے بڑے حصے پربطور سپر پاور حکومت کی۔ تیرہویں صدی میں عرب کمزور پڑنا شروع ہوئے اور سولہویں صدی کے آغاز میں خلافت بنو عباس کا بھی خاتمہ ہوگیالیکن پھر بھی ایران کو اُبھرنے کا موقع نہ ملا، بلکہ ایرانیوں کے بجائے یہ ترک تھے جن کے سامنے اگلی چھ صدیوں تک دنیا سرنگوں رہی۔ لیکن حقیقت میں ایران کو جو زخم خطہ عرب سے لگے وہ ایرانی کبھی نہ بھول سکے۔ یہی وجہ ہے اسلام قبول کرلینے کے باوجودایرانیوں کے اندر سے بطور قومی عصبیت گئی اور نہ ہی کبھی ایران یہ بھولا کہ وہ ایک عالمی طاقت تھا جسے عربوں نے ختم کیا تھا۔
نو سو سال تک تو ایران کی ایک نہ چل سکی۔ ایرانیوں نے بطور ملک و قوم دوبارہ عروج سولہویں صدی عیسوی میں صفوی حکمران شاہ طہماسپ کے دور میں حاصل کرنا شروع کیا۔ صفوی حکمران اِس دوران دنیا کی واحد عالمی طاقت سلطنت عثمانیہ کے خلاف چھیڑ چھاڑ کرکے عثمانی سلاطین کو ناصرف یورپ کی جانب بڑھنے سے روکتے رہے بلکہ ایران کے روس کے ساتھ فوجی اور معاشی تعلقات بھی اس کے کچھ عرصہ بعد فروغ پانا شروع ہوگئے۔
عربوں کے ساتھ ایران کی مخاصمت کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایرانیوں کو ہمیشہ سے دُکھ رہا کہ عربوں کے ہاتھوں اُن کی عالمی سپر پاور کی حیثیت کا خاتمہ ہوا، دوم عربوں کی اپنی سپر پاور کی حیثیت کا خاتمہ ہونے کے باوجود عرب علاقے چار صدیوں تک اُس عثمانی سلطنت کا حصہ رہے جس کے خلاف ایران فرانس جیسے یورپی ممالک کا اتحادی رہا تھا ۔یورپ اور روس کے ساتھ اس اتحاد کا ایران کو فائدہ بھی بہت ہوا۔مثال کے طور پر عثمانی سلطنت کمزور ہونا شروع ہوئی اور روس کے ساتھ ساتھ یورپ میں استعماری قوتوں نے عالمی طاروس کے ساتھ ساتھ یورپ میں استعماری قوتوں نے عالمی طاقت کا روپ دھارکر دنیا کے مختلف ممالک کو اپنی کالونی بنانا شروع کیا تو پرتگال سے لے کر فرانس تک اور برطانیہ سے لے کر اٹلی تک کسی ملک نے ایران کی طرف منہ نہ کیا۔ ایران پہلی جنگ عظیم کی دستبرد اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں سے بھی اسی لیے مکمل طور پر محفوظ رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو قطبوں میں بٹ گئی، اس دوران ایران اپنی کامیاب عالمی حکمت عملی کی وجہ سے کبھی امریکہ کا صف اول کا اتحادی رہا تو کبھی روس کے انتہائی قریب چلا گیا، خطے کے دوسرے ممالک کے برعکس اُس وقت کی عالمی طاقتوں نے ایران کو اپنا باجگزار بنانے یا اس پر قبضہ کرنے کا بھی نہیں سوچا۔ اسی عرصے میں ایران نے عرب علاقوں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانا شروع کیا تو عرب خطے میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔
دس سال تک لڑی جانے والی ایران عراق جنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی،اُدھر ایک جانب عرب خطے پر پانچ سو سال تک اپنے جھنڈے لہرانے والے ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم ہوگئے تو دوسری جانب اردن اور مصر سمیت عرب خطہ کے بعض دیگر ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی راہ پر گامزن ہوئے تو ایران اسرائیل کے خلاف خم ٹھونک کر اور اسرائیل مخالف جذبات کا داعی بن کر میدان میں آگیا اور عرب خطے میں اپنے سیاسی اور اسٹریٹیجک عزائم واضح کردیے ۔
ایران نے خطے میں پی ایل او کے متوازی ’’حزب اللہ‘‘ کو کھڑا کیا اور یوں لبنان میں اپنے حمایتیوں کی پوزیشن مستحکم کرلی۔ایران آج بھی بحرین سے لے کر سعودی عرب تک اور عراق سے لے کر غرب اردن تک کے علاقے کو اپنی ڈھائی ہزار سال پرانی ’’ ہخامنشی سلطنت‘‘ کا حصہ سمجھتا ہے۔ اگرچہ ایران پر ایک مسلک کی چھاپ کی وجہ سے اِسے ایک مذہبی ریاست بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن کسی خاص مسلک کو فروغ دینے کے بجائے خطے میں ایران کے مضبوط سیاسی عزائم ضرور ہیں، اپنے اِن سیاسی عزائم کو پورا کرنے کیلئے ایران مختلف ’’ٹولز‘‘ استعمال کرتا رہتا ہے، ایران کے یہ سیاسی عزائم بھی محض اپنی چودہ سو سال پرانی عظمت رفتہ بحال کرنے کا خواب پورا کرنے کیلئے ہے۔’’بحرین میں احتجاج، شام میں خانہ جنگی، عراق میں لڑائی اور یمن میں بغاوت‘‘ دراصل اسی خواب کو پورا کرنے کی کڑیاں ہیں۔
قارئین کرام!!خورس اعظم بابل پر حملہ کرنے کیلئے آگے بڑھا تو اُس کے جرنیلوں نے عرب علاقوں کے مختصر راستے سے گزرنے کا مشور دیا لیکن ڈھائی ہزار سال پہلے خورس اعظم نے اپنے جرنیلوں کو جواب دیا تھا’’عرب خطہ آگ کا صحرا ہے، آگے بڑھنا ہے تو جتنا ممکن ہوسکے، اس سے بچ کر چلو، اس کی پٹیوں پر چلو لیکن اس کے قلب سے نہ گزرنا‘‘۔بعد ازاں اپنی اس ہدایت پر خود خورس عمل نہ کرسکا اور بابل کی مہم کے کئی سال بعد خورس اعظم عرب خطے سے گزرتے ہوئے ایک مہم کے دوران میدان جنگ میں مارا گیا۔
قوموں اور ملکوں کا اپنی عظمت رفتہ کا خواب دیکھنا کوئی غلط یا بری بات بھی نہیں ، ایران کو بھی یقینا اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کا خواب دیکھنے کا پورا پورا حق ہے،مگر اُس کا یہ خواب آگ کا صحرا(خطہ عرب) عبور کیے بغیر پورا نہیں ہوسکتا لیکن کیا کیا جائے کہ آگ تو آگ ہے، پھیلتی ہے تو اپنے پرائے کی تمیز اور پہچان بھول جاتی ہے۔ اہل فارس دوسروں کی تاریخ کو چھوڑیں اپنی تاریخ ہی پڑھ لیں، جب تک عربوں کی کڑوی کسیلی سن کر اہل فارس گونگے(عجمی) بنے رہے تو عظمت اُن پر برستی رہی۔
لیکن جیسے ہی ایرانی زبان کھول کر اور کوڑا لے کر عربوں پر لپکے تو آگ کے صحرا نے اُن کی عظمت کو جلاکر بھسم کردیا۔
اپنی عظمت رفتہ کے خواب ضرور دیکھیں لیکن تھوڑی سی اپنے عظیم بادشاہ خورس اعظم کی بھی سن لیں!
منقول منجانب حرف ناز،مصنف نازیہ مصطفٰی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔