کیا سلطنت عثمانیہ کی مشہور عالم ینی چری فوج میں عیسائی بچوں اور غلاموں کو زبردستی بھرتی کیا جاتا تھا؟ سلطنت عثمانیہ پہ لبرلز و ملحدین کا ایک اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ینی چری فوج سلطنت عثمانیہ کی فوج کا اہم ترین جزو تھی جو شروع میں جنگی غلاموں اور تربیت یافتہ عیسائی بچوں پہ مشتمل تھی جو بڑے ہو کر اس کے سپاہی بنتے لیکن بعد ازاں اس میں مسلم عیسائی آزاد افراد سب کو شامل ہونے کی اجازت تھی۔ لبرلز و ملحدین کا سلطنت عثمانیہ پہ اعتراض ہے کہ ان بچوں کو اغوا کرکے یا زبردستی فوج نیں بھرتی کیا جاتا تھا جب کہ ایسا نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مغربی مصنفین بالفور اور گڈون کے مطابق ینی چری( لفظی معنی نئے فوجی) سلطنت عثمانیہ کی افواج کا اہم اور اعلٰی پیادہ سپاہیوں پہ مشتمل حصہ تھے جو سلطان کے ذاتی محافظ اور پیادہ دستوں کا کردار ادا کرتے تھے۔ خود مغربی مورخین تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ فوج اتنی اعلٰی فوج تھی جو سلطان کے ذاتی محافظوں اور تجربہ کار ترین اور اعلٰی سپاہیوں پہ مشتمل تھی۔ اس صورت میں لبرلز و ملحدین کا یہ اعتراض کہ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے مفتوح قوموں کے بچوں کو زبردستی اس فوج میں بھرتی کرکے ان کا استحصال کیا جاتا تھا، بالکل جھوٹ ہے بلکہ یہ بچے بڑے ہو کر اپنے زمانے کی سب سے طاقتور سلطنت کی اتنی اعلٰی فوج کا اہم جزو بنتے تھے جو سلطان کی ذاتی محافظ اور فوجی دستوں میں اعلٰی ترین سماجی و دستوری اثر و رسوخ رکھتی تھی۔ 1،2
ان کو مورخین نے سلطنت عثمانیہ کے House hold troops کا نام دیا ہے جو کہ جنگی اصطلاح میں سب سے تجربہ کار اور اعلٰی ترین جنگی یونٹ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ینی چری دنیا کی پہلی باقاعدہ فوج تھی جو 14 ویں صدی میں تیار کی گئی اور 1826ء میں سلطان محمود ثانی نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ ینی چری ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب "نئی فوج" ہے (ینی مطلب نئی اور چری مطلب فوج)۔علاوہ ازیں ینی چری امن کے زمانے میں پولیس اہلکاروں، پولیس قومی رضاکاروں اور آگ بجھانے والے عملے کے طور پہ بھی کام کرتے۔3
عثمانی سلطنت نے تمام اہم مہمات میں ینی چری کا استعمال کیا جس میں فتح قسطنطنیہ 1453ء، مملوکوں کے خلاف فتوحات اور آسٹریا اور ہنگری کے خلاف جنگیں بھی شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں ان کو باقی فوجیوں سے الگ نظر آنے کے لیے داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن یہ پابندی بھی ہمیشہ نہیں رہی۔سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ان کو داڑھی رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ابتدا میں ان کو شادیاں کرنے کی ریٹائرمنٹ یعنی 35_45 سال کی عمر تک اجازت نہیں تھی تاکہ یہ اپنے کام سے مکمل وفادار رہیں 1566ء میں سلطان سلیم ثانی نے ینی چری کو شادیاں کرنے کی بھی اجازت دے دی۔جنگ میں ینی چری دستوں کی قیادت ہمیشہ سلطان خود کرتا تھا۔ ان کی باقاعدہ تنخواہ اور پینشن تھی اور ان کو معاشرے میں اعلٰی مقام حاصل تھا۔4
غیر مسلم مورخ مارک ایل سٹائن خود Guarding the Frontier: Ottoman Border Forts and Garrisons in Europe میں لکھتا ہے کہ ان کی خاص وردی اور زائد منافع کے ساتھ خاطر خواہ تنخواہ ہوتی تھی۔5
جب تک عثمانی سلاطین نے ان پہ پابندیاں رکھیں سب کچھ ٹھیک رہا اور جب فوجی پابندیاں ہٹا لی گئیں ساری خرابیاں پیدا ہوگئیں۔1622ء میں ینی چری نے بغاوت کے دوران سلطان عثمان ثانی کو قتل کر دیا جو اصلاحات کرنا چاہتے تھے۔18 ویں صدی کے اوائل میں ینی چری حکومتی معاملات میں مداخلت کرنے لگے اور انہوں نے اچھا خاصا اثر و رسوخ قائم کر لیا۔ انہوں نے عسکری تنظیم کو جدید بنانے کے اقدامات کی مخالفت کی بلکہ اپنی محلاتی سازشوں کے ذریعے سلطانوں کو بھی تخت سے ہٹانے لگے اور وہ ریاست کے اندر ایک ریاست بن گئے جنہوں نے بارہا بغاوت کی یہاں تک کہ بعض مواقع پہ تخت پہ ایک سلطان کو قتل کرکے اپنی مرضی کے سلطان بھی مقرر کئے۔ جب بھرتی کی حکمت عملی نرم کر دی گئی تو اس میں کافی لوگ شامل ہونے لگے جس سے سترہویں صدی کے بعد سلطنت کی فوجی برتری ماند پڑنے لگی اور سلطنت زوال پذیر ہونے لگی اور یہ فوج ملک کے بجٹ کے لیے بھاری ثابت ہوئی بعد میں۔
اس صورت حال میں محمود ثانی نے ینی چری کے خاتمے کا تہیہ کر لیا۔ 1826ء میں ینی چری نے محسوس کیا کہ سلطان نئی فوج تشکیل دینا چاہتا ہے اور 14 جون 1826ء کو انہوں نے استنبول میں بغاوت کردی لیکن اس مرتبہ فوج اور عوام ان کے خلاف ہو گئی۔ سلطان کے گھڑ سوار دستوں "سپاہیوں" نے انہیں چھاؤنیوں میں جالیا اور توپ خانے سے ان پر گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں ینی چری کی بڑی تعداد ماری گئی اور اگلے دو سال کے اندر اندر ملک بھر سے ینی چری افواج کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ینی چری کے خاتمے کو ترکی زبان میں واقعۂ خیریہ (Vaka-i Hayriye) کہا جاتا ہے۔
اس ینی چری فوج نے جنگ میں نت نئے تجربات کئے اور 1605ء میں یہ یورپ کی پہلی فوجوں میں بن گئ جنہوں نے جنگ میں گولیوں کی بوچھاڑ کی گھومتی قطاریں استعمال کیں۔6
ینی چری دنیا کی پہلی باقاعدہ فوج تھی جس نے بارود کا استعمال کیا۔ اس نے 15 ویں صدی میں ہی بندوقوں کا استعمال شروع کیا۔ابتدا میں ینی چری ماہر تیر انداز تھے لیکن 1440ء کی دہائی میں بارود کی دستیابی پر انہوں نے بندوقیں سنبھال لیں۔یہ فوج جنگ میں تفنگ یا بندوق، گرینیڈ، توپیں اور پستول استعمال کرنے والی اولین فوجوں میں شامل تھی۔ ان کی جنگ کے لیے انجینئر، دھماکہ خیز مواد اور تکنیکی ماہرین بطور تربیت کی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قوت میں اور اضافہ ہوتا گیا اور سترہویں صدی عیسوی میں یہ حکومت کو اپنے ہاتھ میں کئے ہوئے تھے جو کہ ایک بار پھر اس الزام کی تردید کرتا ہے جس کے مطابق ان ینی چری فوجوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔ 1566ء میں سلطان سلیم دوم نے ان کو شادی کی اجازت دے دی۔1622ء میں یہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ سلطنت کے لیے خطرہ بن گئے اور سلطنت کو نااہل ینی چری کی وجہ سے زوال کا شکار ہونا پڑا اور پے درپے فوجی شکستیں ہوئیں۔4
عثمانیوں نے سلطان مراد اول (1362–1389) کی قیادت میں سب سے پہلے جنگی ہر پانچ میں سے ایک جنگی قیدی کو اس فوج کے لیے مختص کیا۔7
غلاموں اور عیسائی بچوں کی اس فوج کو سلطنت عثمانیہ اور عثمانی معاشرے میں اتنا اہم اور اعلٰی مقام حاصل تھا کہ ہر مسلم ترک خاندان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ان کا بیٹا ینی چری میں بھرتی ہو لہٰذا 1683ء میں ینی چری کے غلام ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئ اور جب صرف عیسائی بچوں کی بھرتی کی پابندی ختم ہوئی تو ان معاشی و سماجی فوائد کو دیکھتے ہوئے ہزاروں ترکوں نے اپنے بچے اس فوج میں بھرتی کرائے۔ جس فوج میں اتنی معاشی و سماجی فوائد ہوں کہ آزاد لوگ اس فوج میں شامل ہونے کو ترسیں اس فوج کو لبرلز و ملحدین کس طرح جھوٹ بولتے ہوئے غلاموں اور اغوا شدہ بچوں کی فوج کہتے ہیں۔8
عثمانی سلطان کو ان کے والد کی حیثیت حاصل تھی اور یہ بچے سلطنت عثمانیہ کے سلطان کے بچے سمجھے جاتے تھے۔ ان کو اعلٰی تنخواہ ملتی، معاشرے میں ان کو اعلٰی مقام حاصل تھا اور جنگ میں حاصل کردہ مال غنیمت میں ان کو حصہ ملتا۔ مغربی مورخ گڈون کے مطابق ابتدا میں ان کو ریٹائرمنٹ تک جس کی حد 35_45سال تھی شادی کی اجازت نہیں تھی، بعد میں وہ شادی کر سکتے تھے، لیکن بعد ازاں یہ پابندی بھی ہٹا لی گئ اور نسل در نسل ان کے بچے فوج میں بھرتی ہونے لگے۔9
اور یہ بچے ہمیشہ نہیں بلکہ سلطنت کے ابتدائی دنوں میں ہر تین سے سات سال بعد لیے جاتے تھے۔اس زمانے میں اکثر فوجیوں کو باقاعدہ تنخواہ نہیں دی جاتی تھی جب کہ یہ باقاعدہ تنخواہ دار فوج تھی۔ ان میں سے کئ منتظم اور اہل علم بنتے، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو پینشن دی جاتی اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی۔ سلطنت کے بعد کے دنوں میں ان کو فوجی معاملات کے علاوہ تجارت اور دیگر معاملات کی اجازت دینے سے سلطنت کو فوجی زوال کا سامنا کرنا پڑا اور سلطنت کی فوجی طاقت متاثر ہوئی۔
ابتدا میں اس میں مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلم نوجوانوں کو اسلام قبول کرنے کے بعد شامل کیا جاتا تھا اور اس میں مفتوح قوموں سے ان خاندانوں کے بچے اور جنگی غلام لیے جاتے تھے جن کے غیر مسلم یا عیسائی والدین اپنے بچوں کو عثمانی فوج میں بھرتی کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن یہ بات مکمل جھوٹ ہے اور اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں کہ مفتوح قوموں سے بچوں کو اغوا کرکے ان کو مسلمان بنا کر اس فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ ان کو سلطنت عثمانیہ میں اتنی عزت حاصل تھی کہ ان کا براہ راست تعلق سلطان سے ہوتا تھا۔یہ دنیا کی پہلی منظم اور باقاعدہ فوج تھی جسے سخت تربیت دی جاتی تھی۔ یہ باقاعدہ چھاؤنیوں کے اندر رہتے تھے اور زمانہ امن میں پولیس اور آگ بجھانے والے دستوں کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں ہر تین ماہ بعد باقاعدگی سے نقد تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ تنخواہیں کی ادائیگی کے وقت سلطان خود ینی چری کے لباس میں چھاؤنی آتا تھا اور خود بھی قطار میں لگ کر تنخواہ حاصل کرتا تھا۔10،11
اگرچہ ابتدا میں اس میں جنگی غلاموں اور عیسائی بچوں کو بھرتی کیا گیا لیکن مستقل طور پہ یہ سلسلہ نہیں رہا اور بعد ازاں باقی لوگوں کو بھی اس فوج میں شامل ہونے کی اجازت مل گئی لیکن اس میں زبردستی اغوا کرکے بھرتی کا نظام نہیں بلکہ ہر چالیس گھروں میں سے ایک گھر سے بچے لینے کا نظام ایک سرکاری ٹیکس تھا اور ان چالیس عیسائی گھروں سے اسی گھر سے بچہ لیا جاتا جس کے والدین اسے خوشی سے عثمانی سلطان کی تربیت میں دینے کے لیے راضی ہوتے اور لئے گئے بچے کو مکمل حقوق حاصل ہوتے تھے،وہ سلطان کا زیر تربیت سپاہی ہوتا اور تربیت کے بعد وہ سلطنت کی اعلٰی ترین فوج کا معزز فوجی ہوتا جس کا سرپرست براہ راست عثمانی سلطان ہوتا لیکن بعد ازاں سلطان مراد سوم( 1546_1566ء) کے بعد اس میں دیگر افراد کو بھی شامل کیا جانے لگا اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہ نظام مکمل ختم کر دیا گیا اور اس میں سب کو صلاحیت کے مطابق شامل ہونے کی اجازت تھی۔12
بعد ازاں 1683ء میں سلطان مراد چہارم نے عیسائی گھروں سے بچے لینے کا یہ سلسلہ ختم کر دیا اور ہر عیسائی مسلمان جو چاہتا اس میں شامل ہو سکتا تھا۔13
مغربی مورخ گلن اور ٹم کین کے مطابق صرف 1380_1648ء تک عیسائی بچوں کو لیا گیا۔14
ابتدائی دنوں میں ہر طرح کے عیسائی بچے بھرتی کر لیے جاتے تھے لیکن جب بعد ازاں خود ہی عیسائیوں کی طرف سے اس فوج کے لیے پیش کیے جانے والے بچے زیادہ آنے لگے تو البانیہ، بوسنیا اور بلغاریہ کے بچوں کو ترجیج دی گئی۔15
اس ینی چری فوج کے کئ افراد نے بعد ازاں اپنے خاندانوں کے لیے اہم نام کمایا جس میں البانیہ کا سکندر بیگ اور بوسنیا کا محمد پاشا تھا جو تین سلاطین عثمانیہ کے دور میں وزیر اعظم منتحب ہوا اور چودہ سال سے زائد عرصہ در حقیقت سلطنت عثمانیہ کا اصل حکمران رہا۔16
سچ تو یہ ہے کہ ایک عیسائی مصنف Michael Goodyear
اپنے ایک مضمون The Devşirme: The Lifeblood of the Janissary Corps میں لکھتا ہے کہ خود عیسائی والدین اپنے بچوں کے بہتر اور اعلٰی مستقبل کے لیے اپنے بچوں کو اس فوج میں بھرتی کرتے تھے اور ان میں سے جو سلطنت عثمانیہ میں اعلٰی مقامات پہ فائز ہوتے اپنے والدین اور خاندان کے لیے معاون ثابت ہوتے تھے۔ مائیکل کے مطابق سلطنت عثمانیہ کی اس حکمت عملی نے غریب عیسائی افراد کے بچوں کو اس طرح ترقی کرنے کا موقع دیا اور مائیکل کے مطابق ایسے واقعات تک موجود ہیں جب عیسائی خود سلطنت عثمانیہ کے افسران کو رشوت کی پیشکش کرتے کہ وہ ان کے بچوں کو ینی چری فوج میں بھرتی کرا دیں جب کہ جو اپنے بچوں کو نہ بھیجنا چاہتے ان کی کوشش ہوتی کہ ہمارے بچے ہمارے ساتھ رہیں۔13
لہٰذا یہ بات مکمل جھوٹ ہے کہ یہ فوج میں اغوا کرکے زبردستی بھرتی کیے جاتے اور وہاں ان کا استحصال ہوتا۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو یہ فوج سلطنت عثمانیہ کی اتنی وفادار نہ ہوتی کہ سلطنت عثمانیہ اس فوج کی سرپرستی میں یورپ، افریقہ اور ایشیا میں وہ اعلٰی معرکے جیت سکے جو آج بھی ترکوں کی تاریخ کا شاندار پہلو ہیں۔ جس فوج کو اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی سلطنت میں اتنا بڑا مقام حاصل ہو کہ خود سلطان ان کو ذاتی محافظ کے طور پہ رکھتا ہو، خود ان کے ساتھ قطار میں کھڑا ہوکر تنخواہ لیتا ہو اس فوج کو زبردستی بھرتی کیے گئے غیر مسلم افراد کی فوج کہنا بالکل جھوٹ اور تعصب پہ مبنی ہے۔
اور بات یہ ہے کہ ینی چری فوج میں ہمیشہ عیسائی افراد کے بچوں اور جنگی قیدیوں کو مسلمان کرکے بھرتی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ تاریخ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ینی چری فوج کے ابتدائی دستے عیسائی بچوں اور جنگی غلاموں پہ مشتمل تھے جن کو یہ انتخاب دیا گیا کہ وہ رہائی کے بدلے میں اسلام قبول کرکے سلطنت عثمانیہ کی ینی چری فوج میں شریک ہو سکتے ہیں ورنہ جو شریک نہ ہوا اس پہ جنگی غلام کے دیگر قوانین برقرار رکھے گئے اور جو مسلمان ہو گیا اس کو عزت سے اس اعلٰی فوج میں بھرتی کر لیا گیا تھا۔ اس طرح مغربی مورخ نکول کے مطابق جہاں اور لوگ بیس سال سے کم جنگی غلاموں کو قتل کر ڈالتے تھے وہاں سلطنت عثمانیہ ان کو فوج میں بھرتی کر لیتی تھی۔17
سلطنت عثمانیہ کی طرف سے جنگی قیدیوں کو عزت کے ساتھ اپنی اعلٰی فوج میں بھرتی کرنا جنگی غلاموں کے ساتھ اس حیرانی سلوک سے ہزار گنا بہتر تھا جو روم و ایران اور صلیبی اپنے جنگی غلاموں کے ساتھ کرتے تھے اور خود مغربی مورخ ڈاکٹر Dr. David Nicolle کے مطابق مشرق وسطی کے اسلامی معاشرے میں غلام کا تصور اس سے بہت مختلف تھا جو آج کل سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں مسلم غلام کو سترہویں صدی عیسوی تک وہ سب حقوق حاصل ہوتے تھے جو آج ایک عام فرد کو حاصل ہوتے ہیں۔ 18
بلکہ وہ فخر سے اپنے آپ کو غلام کہتے اور اتنے طاقتور ہوئے کہ ان میں سے بعض نے اپنی سلطنتیں تک قائم کیں جس کی ایک مثال مصر کے مملوک سلاطین ہیں۔
اس ینی چری فوج میں غیر مسلم افراد خصوصا عیسائیوں کے بھرتی شدہ بچوں کو معاشرے وہ اعلٰی معاشی و سماجی مقام حاصل تھا کہ خود غیر مسلم یونانی مورخ Dimitri Kitsikis اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ کئ عیسائی خاندان خود ینی چری فوج میں اپنے بچوں کو اس نظام کے تحت بھرتی کرنے کو خود تیار رہتے تھے جس کو ترک devşirme کہتے تھے کیوں کہ یہ نظام ینی چری فوج میں لیے گئے عیسائی بچوں کے لیے سماجی ترقی کے مواقع فراہم کرتا تھا۔ بھرتی کیے گئے یہ بچے ایک دن ینی چری فوج میں کرنل یا مدبر بن سکتے تھے اور اپنے آبائی علاقے میں گورنر، گورنر جنرل یہاں تک کہ وزیر اعظم بن کر آسکتے تھے۔19
اس یورپی عیسائی مورخ کا اپنا یہ بیان لبرلز و ملحدین کے اس اعتراض کی تردید کرتا ہے جس کے مطابق ینی چری فوج میں عیسائیوں کے بچوں کو زبردستی اور اغوا کرکے بھرتی کیا جاتا تھا۔غلاموں، اقلیتوں اور مفتوح قوموں کو مسلمانوں کے سوا آج تک کسی قوم نے اتنے حقوق نہیں دیے۔ اس صورت میں لبرلز و ملحدین کس منہ سے کہتے ہیں کہ ینی چری فوج میں عیسائیوں کے بچوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔
حوالہ جات:
1:Balfour, Patrick; Kinross, Baron (1977). The Ottoman Centuries: The Rise and Fall of the Turkish Empire. London: Perennial. ISBN 978-0-688-08093-8.p.52
2:Goodwin, Jason (1998). Lords of the Horizons: A History of the Ottoman Empire. New York: H. Holt, 59,179–181. ISBN 0-8050-4081-1.
3:Goodwin, Godfrey (2001). The Janissaries. UK: Saqi Books. ISBN 978-0-86356-055-2; anecdotal and not scholarly says Aksan (1998), pp. 59, 179–181
4:Balfour, Patrick; Kinross, Baron (1977). The Ottoman Centuries: The Rise and Fall of the Turkish Empire. London: Perennial. ISBN 978-0-688-08093-8.p.292_295
5:Mark L. Stein, Guarding the Frontier: Ottoman Border Forts and Garrisons in Europe, (I.B. Tauris, 2007), 67.
6:Börekçi, Günhan (2006). "A Contribution to the Military Revolution Debate: The Janissaries' Use of Volley Fire During the Long Ottoman-Habsburg War of 1593–1606 and the Problem of Origins". Acta Orientalia Academiae Scientiarum Hungaricae. 59: 407–438.
7:Kafadar, Cemal (1995). Between Two Worlds: The Construction of the Ottoman State. University of California Press. pp. 111–3. ISBN 978-0-520-20600-7.
8:Ágoston, Gábor (2014). "Firearms and Military Adaptation: The Ottomans and the European Military Revolution, 1450–1800". Journal of World History. 25: 119–20.
9:Goodwin, Godfrey. 1997. The Janissaries. London, UK: Saqi Book Depot. ISBN 9780863560552
10:Uzunçarşılı, İsmail (1988). Osmanlı Devleti Teşkilatından Kapıkulu Ocakları: Acemi Ocağı ve Yeniçeri Ocağı. Ankara: Türk Tarih Kurumu. ISBN 975-16-0056-1, pp 66–67, 376–377, 405–406, 411–463, 482–483
11:https://ur.m.wikipedia.org/wiki/ینی_چری
12:http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Janissary#cite_note-Hook-2
13:https://balkaniumblog.wordpress.com/2017/01/07/the-devsirme-the-lifeblood-of-the-janissary-corps/
14:Hubbard, Glenn and Tim Kane. (2013) (2013). Balance: The Economics of Great Powers From Ancient Rome to Modern America. Simon & Schuster. pp. 152–154. ISBN 978-1-4767-0025-0.
15:Encyclopædia Britannica. Eleventh Edition, vol. 15, p 151.
16:Imamović, Mustafa (1996). Historija Bošnjaka. Sarajevo: BZK Preporod. ISBN 9958-815-00-1
17:Nicolle, David, and Christa Hook. 1995. The Janissaries. Elite series, 58. London, UK: Osprey. ISBN 9781855324138
18:https://www.realmofhistory.com/2018/06/19/facts-ottoman-janissaries/
19:Kitsikis, Dimitri (1996). Türk Yunan İmparatorluğu. Istanbul,Simurg Kitabevi