Thursday 24 January 2019

کیا اسلام میں موسیقی جائز ہے؟

موسیقی اور اسلام

نبی علیہ السلام کی موجودگی میں گانا گایا جانا اور آپ کا کچھ نہ کہنا:

یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اسلام کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں۔۔ایک وہ وقت بھی تھا کہ حضرت علی /  عبدالرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شراب پی کر نماز پڑھائی تو سورہ کافرون غلط پڑھ دی تھی اب اس سے کوئی یہ دلیل اٹھائے کہ شراب پی کر نماز پڑھانا جائز ہے۔۔۔۔

اسہی واقعہ کے بعد حکم اترا تھا کہ جب نشہ اتر جائے تو نماز کے لئے آؤ تو کیا کہا جاسکتا ہے کہ باقی اوقات میں شراب جائز ہے؟

اسی طرح ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے۔۔کہ جب نبی علیہ السلام مدینہ تشریف لائے تو مدینے کی بچیوں نے گا کر آپ کا استقبال کیا۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ علیہ السلام مدینہ تشریف لائے تو مدینہ میں اسلام نافذ نہیں تھا اور یہ بات تو علماء جانتے ہیں کہ موسیقی کے حرام ہونے کا حکم کب نازل ہوا۔۔۔۔۔

شادی کے موقع پر جو دف بجانے کے احکام سے موسیقی کے جائز ہونے کا فتویٰ لیتے ہیں تو میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ یہ اجازت صرف اس بات کے لئے تھی کہ نکاح کی تشہیر ہو جائے ۔۔۔۔اس دور میں نکاح کی تشہیر اور ذرائع سے بھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے زمانے میں یہ حکم نافذ تھا کہ اگر دف کی آواز آتی تو اپنے غلام کو کہتے کہ جاکر دیکھو کہ اگر شادی کا موقع ہے تو چھوڑ دو اور اگر ویسے بجا رہے ہیں تو روک دو۔۔۔۔۔۔

قرآن و حدیث سے موسیقی کا رد

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
و من الناسِ من یشتری لھوالحدیث فیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین (لقمان٦)

ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کو خریدتے ہیں تا کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں بن سمجھے اور اس کی ہنسی اڑائیں ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ درِمنثور میں حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ مذکورالصدر تاجر (نضر بن حارث) باہر سے ایک گانے والی کنیز خرید کر لایا تھا اور اس کے ذریعہ اس نے لوگوں کو قرآن سننے سے روکنے کی یہ صورت نکالی کہ جو لوگ قرآن کا ارادہ کریں اپنی اس کنیز (لونڈی) سے اس کو گانا سنواتا تھا اور کہتا تھا کہ محمد (ﷺ) تم کو قرآن سنا کر کہتے ہیں کہ نماز پڑھو روزہ رکھو اور اپنی جان دو جس میں تکلیف ہی تکلیف ہے آؤ تم یہ گانا سنو اور جشن وطرب مناؤ ‘‘لھوالحدیث‘‘ کے معنی اور تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ حضرت ابنِ مسعود، ابنِ عباس، جابرؓ کی ایک روایت میں اس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے۔ (معارف القرآن ص٢٠ ج٧ )

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اس آیت کے متعلق امام بخاریؒنقل کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا ‘‘الغناء و اشباھہ‘‘ (ادب المفرد ٣٤٠) ترجمہ: کہ اس سے مراد گانا بجانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں۔

عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم اس سے مراد گانا بجانا ہے۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے صحابہؓ و تابعین نے اس آیت سے گانے باجے راگ و رنگ مراد لئے ہیں۔
(تفسیر ابنِ کثیر ص٤٠ ج٤)

دوسری آیت: والذین لا یشھدون الزور و اذا مروا باالغو مروا کراما (الفرقان ٧٢)
ترجمہ: اور جو لوگ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ طور سے گزرتے ہیں۔

حضرت محمد بن حنفیہ، حضرت مجاہد اور حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ‘‘ الزور‘‘ سے مراد غنا یعنی گانا ہے۔

تیسری آیت: افمن ھذا الحدیث تعجبون وتضحکون و لا تبکون و انتم سامدون (النجم٥٩ تا ٦١)
ترجمہ: پس کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں اور تم کھیل رہے ہو۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ ‘‘ سامدون‘‘ سے مراد غنا (گانا) ہے کفار و مشرکین جب قرآن سنتے تو گانا بجانا شروع کر دیتے تاکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو قرآن سے ہٹا کا اس میں مشغول کر دیا جائے۔( روح المعانی ص٧٣ ج٢٧ )

چوتھی آیت: و سترز من ستطعت منھم بصوتک (بنی اسرائیل ٦٤)
ترجمہ: ان میں سے جسے تو اپنی آواز سنا کر بہکا سکتا ہے بہکا لے۔
(عن مجاھد تفسیرہ بالغناء و المزامیر اللھوالباطل روح المعانی ج١٥ ص١١١ )
امام تفسیر حضرت مجاھد فرماتے ہیں ‘‘بصوتک‘‘ سے مراد گانا بجانا باجے گاجے بیہودہ گوئی اور باطل خرافات ہیں۔

موسیقی اور ارشاداتِ نبی ﷺ

ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ سے آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے آپﷺ نے فرمایا
‘‘اذاتخذ الفئ دولا والامانتہ مغنما الزکواہ مغرما و تعلیم لغیرالدین و ا طاع الرجل امرأتہ وعق امہ و ادنی صدیقہ واقصی اباہ و ظھرت الا صوات فی المساجد و ساد القیلتہ فاسقھم و کان زعیم القوم ارزلھم و اکرم الرجل مخافت شرہ و ظھرت القینات و المغازف و شربت الخمور و لعن آخر ھذہ الامتہ اولھا فلیرتقبوا عند ذالک ریحاحمراء و زلزلتہ و خسفا و مسکا و قذفا و ایات تتابع کنظام بال قطع سلکہ فتتابع ‘‘ (ترمذی ص٤٤ ج٢)
ترجمہ: جب مال غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے اور
امانت کومال غنیمت سمجھ لیا جائے
اور زکٰوہ کو ایک تاوان سمجھا جانے لگے
اور جب علم دین کو دنیا طلبی کے لئے سیکھا جانے لگے
اور جب بیوی کی اطاعت کی جانے لگے اور ماں کی نافرمانی شروع ہو جائے
دوست کو قریب کیا جائے اور باپ کو دور رکھا جائے
اور مسجدوں میں شوروغل ہونے لگے
اور قبیلہ کا سردار ان کا فاسق بدکار بن جائے
اور جب قوم کا سردار ان کا بدترین آدمی بن جائے
اور جب شریر آدمی کی عزت اس کے خوف سے کی جانے لگے
اور جب گانے والی عورتیں اور باجوں گاجوں کا رواج عام ہو جائے
اور جب شرابیں پی جانے لگیں
اور اس امت کے آخری لوگ پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں تو
اس وقت تم انتظار کرو ایک سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں بگڑ جانے کا اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گے جیسے کی ہار کی لڑی ٹوٹ جائے اور اس کے دانے بیک وقت بکھر جاتے ہیں۔

دوسری روایت:
ترمذی نے عمران بن حصینؓ نے آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا
‘‘ فی ھذہ الا متہ خسف و مسح و قذف فقال رجل من المسلمین یا رسول اللہ و متی ذٰلک قال اذا ظھرت القینات و المغازف و شربت الخمور ‘‘ (ترمذی ص٤٤ ج ٢)
ترجمہ: اس امت میں بھی زمین میں دھنسنے، صورتیں بگڑنے اور پتھروں کی بارش کے واقعات رونما ہوں گے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ ایسا کب ہو گا آپﷺ نے ارشاد فرمایا جب گانے والیوں اور باجوں کا عام رواج ہو جائے گا اور کثرت سے شرابیں پی جائیں گی۔

ایک اور روایت: ابنِ ماجہ اور ابنِ حبان نے ابی مالک اشعریؓ سے آنحضرتﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے آپﷺ نے فرمایا ‘‘ یشرب ناس من امتی الخمر یسھمونھا بغیر اسمھا یضرب عل روؤسھم بالمغازق القینات یخسف اللہ بھم الارض و یجعل منھم القردہ و الخنازیر‘‘ (ترغیب و ترہیب ص ٢٠٩ج ٣)

ترجمہ: میری امت کے کچھ لوگ شرابیں پئیں گے اور ان کا نام کچھ اور رکھ دیں گے ان کے سامنے باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا۔

ایک اور روایت: ابنِ حبان نے حضرت ابو ہریرہؓ سے آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے آپﷺ نے فرمایا ‘‘ آخری زمانہ میں (یعنی قیامت کے قریب) میری امت کے کچھ لوگوں کی صورتیں مسخ کر کے بندروں اور خنزیروں کی شکلوں میں بدل دیا جائے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا وہ لوگ مسلمان ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں وہ لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور وہ لوگ روزے بھی رکھیں گے۔ صحابہ نے پوچھا پھر ان کا یہ حال کیوں ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا وہ لوگ باجوں گاجوں اور گانے والی عورتوں کے عادی ہو جائیں گے اور شرابیں پئیں گے ایک رات جب وہ شراب نوشی اور کھیل کود میں مشغول ہوں گے تو صبح تک ان کی صورتیں مسخ ہو چکی ہوں گی۔ (ابنِ حبان)

موسیقی کی آواز سننے پر صحابہ کرام کا معمول

ابو داؤد نے حضرت نافعؒ سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
‘‘ سمع ابن عمر مزمارا قال فو ضع اصبعیہ علی اذنیہ و نآی عن الطریق و قال لی یا نافع ھل تسمع شیئا قال فقلت لا قال فرفع اصبعیہ من اذنیہ و قال کنت مع رسول اللہ ﷺ فسمع مثل ھذا فصنع مثل ھذا ‘‘ (ابو داؤد ص ٣٢٦ج ٢)

ترجمہ: عبداللہ بن عمرؓ نے ایک دفعہ (ایک چرواہے) کی بانسری کی آواز سنی تو اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں رکھ لیں اور پھر مجھ سے فرمایا اے نافع کیا تجھے آواز آرہی ہے۔ نافع فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کہ نہیں (یعنی آواز آنا بند ہو گئی) نافع فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنی انگلیاں کانوں سے ہٹائیں اور فرمایا کہ میں ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے ساتھ تھا آپﷺ نے اسی طرح آواز سنی تو اس طرح فرمایا۔

بعثت نبوی کے اہم مقاصد میں سے ایک مقصد آلات موسیقی کا ختم کرنا

امام احمد بن حنبلؒ نے حضرت ابو امامہؓ سے آنحضرتﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا:
‘‘ان اللہ بعثنی رحمتہ و حدی للعلمین و امرنی ان امحق المزامیر و العازف و الخمور و لاوثان التی تعبد فی الجاھلیتہ‘‘
(کنز العمال ص٣٣٥ ج٧ ۔ مسند احمد ص٢٦٨ ج ٥)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں ک لئے رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بانسریوں اور گانے بجانے کے سامان اور شراب اور ان بتوں کو ختم کردوں جو زمانہ جاہلیت میں پوجے جاتے تھے۔

کنز العمال کی روایت میں ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘بعثت بکسر المزامیر’’
ترجمہ: میں آلات موسیقی کو توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔

ایک روایت میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا :
’’امرت بھدم الطبل و المزامر’’
ترجمہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ڈھول اور بانسری کو مٹا دوں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔