Tuesday, 15 January 2019

سلطنت عثمانیہ کا زوال اور اس کے اسباب

سلطنت عثمانیہ کا زوال اور اس کے اسباب

تدوین و ترتیب اور اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانی ترکوں نے ایشیائے کوچک میں داخل ہونے کے بعد ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے تین سو سال میں دنیا کی وسیع ترین اور سب سے زیادہ طاقتور سلطنت کا روپ اختیار کر لیا اور اس میں بنیادی کردار ترک قوم کی شجاعت اور تنظیمی صلاحیت تھی جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ جیسی وسیع اور پائیدار سلطنت قائم ہوئی۔
جب کمزور سلطان آئے تو سلطنت کے امور وزراء انجام دینے لگے لیکن پھر بھی احکامات سلطان کی جانب سے صادر ہوتے تھے۔سلطان سلیمان قانونی کے زمانے تک فوج کی اعلٰی کمان سلطان کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور وہ خود جنگ میں شرکت کرتا تھا لیکن بعد کے حکمرانوں میں یہ طریقہ نہ رہا جس سے سلطان کے وقار کو ٹھیس پہنچی۔
پرتگیزیوں کی طرف سے 1488ء میں کیپ آف گڈ ہوپ کی دریافت کے بعد سلطنت عثمانیہ اور پرتگیزیوں کے درمیان سولہویں صدی عیسوی میں کئ بحری جنگیں ہوئیں۔ بحیرہ ہند میں یورپی موجودگی بڑھنے کے باوجود سلطنت عثمانیہ کی مشرق سے تجارت ترقی پذیر ہوئی اور اس دوران قاہرہ یمنی کافی کی تجارت کا مرکز بن گیا جس سے سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں اس شہر کی خوشحالی میں اضافہ ہوا۔ [1]
ایوان چہارم کی زیر سرپرستی روس اس دوران زیادہ سے زیادہ طاقتور ہو رہا تھا اور اس نے تاتار خانی مسلم ریاستوں کو فتح کر لیا۔لیکن یہ عرصہ بھی مکمل زوال کا نہ تھا لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دوران مسلم فتوحات اختتام پہ اور یورپی فتوحات آغاز پہ تھیں۔اس دوران1571ء میں کریمیا کی تاتار خانی سلطنت نے سلطنت عثمانیہ کی مدد سے ماسکو پہ حملہ کیا اور اسے جلا ڈالا۔[2]
اگلے سال پھر حملہ کیا گیا۔ کریمیا کی مسلم تاتار خانی سلطنت نے مشرقی یورپ پہ حملے جاری رکھے[3] اور سترہویں صدی عیسوی کے اختتام تک مشرقی یورپ میں ایک بڑی طاقت رہی[4] لیکن بعد ازاں اسے روس نے فتح کر لیا، کریمیا کی تمام مسلم آبادی کو تہہ تیغ کر دیا گیا، جب کہ باقی ماندہ کو جلاوطن کر دیا گیا جو کہ اب تک عیسائی روس کے زیر قبضہ ہے۔
اسی دور میں جنوبی یورپ میں اسپین کے فلپ ثانی کی زیر قیادت کیتھولک قوتوں نے بحیرہ روم میں عثمانی بحریہ کی قوت کو نقصان پہنچانے کے لیے گٹھ جوڑ کر لیا۔ 1571ء میں جنگ لیپانٹو میں شکست بحیرہ روم میں سلطنت کی برتری کے فوری خاتمے کا باعث بنی۔ اس لیے متعدد مورخوں نے جنگ لیپانٹو میں شکست کو عثمانی سلطنت کے زوال کا اشارہ قرار دیا ہے۔ اس طرح 16 ویں صدی کے اختتام تک فتوحات و کامیابیوں کے سنہرے دور کا خاتمہ ہو گیا۔اس سے پہلے 1565ء میں مالٹا کے جنگی سردار مالٹا پہ عثمانی حملے کو ناکام کر چکے تھے۔[5]
اس طرح حقیقت میں اسلامی دنیا کا وہ زوال جو سپین میں مسلمانوں کی شکست اور عیسائیوں کی طرف سے ان کی نسل کشی سے ہوا، بعد ازاں وسط ایشیا اور مغربی ایشیا میں مسلم تاتار خانی ریاستوں کے زوال سے ہوتا ہوا سلطنت عثمانیہ کی طرف آیا جس کو پہلی بڑی شکست 1565ء میں اور  بعد ازاں 1571ء میں ہوئی۔ میں عثمانیوں کو پہلی بڑی بحری شکست اٹھانا پڑی اور عیسائیوں کے مقدس اتحاد نے ترکی بحری بیڑے کا تقریباً خاتمہ کر دیا۔اس جنگ کے نتیجے میں بحیرۂ روم میں ترکوں کی برتری کا خاتمہ ہو گیا تاہم ترکوں سے بہت جلد اپنا بحری بیڑا دوبارہ تشکیل دیا اور مسیحیوں کو ملنے والی عارضی برتری کا خاتمہ کر دیا۔[6]
کوپرولو وزیری دور( 1656-1703ء) میں سلطنت کا انتظام بنیادی طور پہ کوپرولو خاندان کے وزرائے اعظم کے ہاتھ میں تھا جس میں کئ نئ فوجی فتوحات جیسا کہ جزیرہ کریٹ کی فتح( جو کہ 1699ء میں مکمل ہوئی)، جنوبی یوکرائن کی فتح شامل ہیں۔
14 جولائی 1683 – 26 جنوری 1699 تک عظیم ترکی جنگ ہوئی جس میں سلطنت عثمانیہ کو کئی معاصر یورپی طاقتوں جنہوں نے مل کر مقدس اتحاد (Holy League) قائم کیا، کے ساتھ ایک طویل جنگ لڑنی پڑی جس میں عیسائی مقدس اتحاد کو فتح حاصل ہوئی اور معاہدہ کارلویتز کے تحت آسٹریا کا ہنگری اور بلقان میں علاقوں پر اورپولینڈ-لتھوانیا کا پودولیا پر اور روس کا ازوف بندرگاہ پر
اور وینس کا موریہ اور اندرونی دیلماشا پر قبضہ ہوگیا۔[7]
1717ء میں آسٹریا نے بلغراد پہ قبضہ کر لیا، عثمانیوں کو شکست کھا کر آسٹریا سے معاہدہ کرنا پڑا جس کے تحت سربیا، بناط اور ولیچیا کے علاقوں پہ آسٹریا کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا۔اس نے ثابت کر دیا کہ اب عثمانی زوال پذیر ہیں اور یورپ کے لیے مزید خطرہ نہیں بن سکتے۔
سلطنت عثمانیہ کے تیز تر زوال کے باعث روسی سلطنت کو یہ سنہری موقع ملا کہ وہ تجارتی و عسکری توسیع کے لیے موقع سے فائدہ اٹھائے اور خانان کریمیا کی ریاست کو کچل دے۔ترکی اور روس کے درمیان ہونے والی جنگوں کے سلسلے  (Russo-Turkish Wars)کےدوران ایک معاہدہ ([[معاہدۂ کوچک کناری]]) طے پایا جس کے تحت کریمیا کی ریاست عثمانی اثر سے باہر نکل گئی البتہ اس پر روسی سیادت قائم نہیں ہوئی لیکن چند ہی سالوں بعد ملکہ کیتھرائن اعظم نے سلطنت عثمانیہ سے کيے گئے تمام معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 1783ء میں کریمیا کو روس میں شامل کر لیا۔[8]
1804-1815ء کے درمیان سرب انقلاب نے بلقان کے علاقے میں قوم پرستی کو جنم دیا۔ اس کے علاوہ حجاز کے علاقے میں سعود خاندان نے حکومت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد تیز کردی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی اور کچھ عرصے کے لیے مقدس سرزمین پہ قبضہ کرکے سلطنت عثمانیہ کے حاجیوں کا داخلہ بند کردیا لیکن بعد ازاں مصر کے محمد علی پاشا نے 1818ء میں سلطنت کے حکم پہ پہلی سعودی سلطنت کا خاتمہ کردیا اور سعودی عرب باغیوں اور عرب قوم پرستوں کو مقدس سرزمین سے باہر کر دیا۔1830ء میں سربیا کو خود مختاری دے دی گئی۔ 1830ء میں یونان سلطنت عثمانیہ کے ہاتھ سے نکل گیا، 1830ء میں فرانس نے الجیریا پہ قبضہ کر لیا، اس دوران ہوتا تو یہ کہ سلطنت کے عامل متحد ہوکر بغاوتوں اور یورپی خطرے کا مقابلہ کرتے لیکن اس انتہائی حساس موقع پہ محمد علی پاشا نے فرانسیسیوں کے ایما پر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔
اس دوران یورپی دباؤ کے تحت سلطنت کے عیسائی باشندوں کو ان تمام معاشی پابندیوں سے آزاد کر دیا گیا جس کا اطلاق مسلمانوں سمیت باقی آبادی پہ ہوتا تھا، اس طرح عیسائیوں کو مسلم آبادی کے مقابلے میں زیادہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔
1877-1878 کی روس ترک جنگ میں روس کی طرف سے ایسے پوسٹر تقسیم کئے گئے جن میں حقائق کے برعکس ترکوں پہ بلغاریہ کی خواتین کی عصمت دری اور بچوں کے قتل کا الزام لگایا گیا۔ بازی بشوک جیسے بے قاعدہ فوجی باقاعدہ فوج کے علاوہ جنگ میں بھرتی کیے جاتے تھے لیکن جب ان بے قاعدہ فوجیوں نے لوٹ مار، جنگی جرائم کئے تو سلطنت عثمانیہ نے خود ہی ان کو غیر مسلح کر دیا۔1878ء میں رومانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ میں روس کا ساتھ دیا اور جنگ میں شکست کے بعد خود مختار ہو گیا۔اس عرصے میں 1892ء میں یونان نے آزادی حاصل کی اور اصلاحات بھی ڈینیوب کی امارتوں میں قوم پرستی کو نہ روک سکیں اور 6 عشروں سے نیم خود مختار ان علاقوں سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، ولاچیا اور مالدووا نے بھی 1875ء میں سلطنت سے آزادی کا اعلان کر دیا اور 1877ء کی روس ترک جنگ کے بعد سربیا، رومانیا اور مونٹینیگرو کو باقاعدہ آزادی مل گئیں اور بلغاریہ کو خود مختاری عطا کر دی گئی البتہ بلقان کی دیگر ریاستیں بدستور عثمانی قبضے میں رہیں۔ زوال کے اسی دور میں سربیا کے ایک یہودی یہودا سولمن الکلائی نے صیہون کی طرف واپسی اور اسرائیل کی آزادی کا نظریہ پیش کیا۔1877-78ء کی ترک روس جنگ میں شکست کے بعد سلطنت مزید زوال پذیر ہوگئی۔ بلغاریہ کو سلطنت کے اندر ایک خود مختار سلطنت تسلیم کر لیا گیا، رومانیہ مکمل آزاد ہو گیا، سربیا اور مونٹی نیورو مکمل الگ ہوگئے،1878ء میں آسٹریا ہنگری نے سلطنت عثمانیہ کے صوبوں بوسنیا اور نوی پازار پہ قبضہ کر لیا، 1878ء میں معاہدہ برلن کے تحت برطانیہ نے سائپرس کا قبضہ حاصل کر لیا۔
1911ء کی ترک اٹلی جنگوں کے بعد سلطنت عثمانیہ اپنے تمام شمال افریقی علاقوں سے محروم ہو گئی جبکہ 1912-13ء کی بلقان جنگوں نے سلطنت کو اس کے تمام یورپی علاقوں سے محروم کر دیا اور سلطنت صرف موجودہ ترکی اور مشرق وسطی محدود ہوکر رہ گئی۔ بعد ازاں پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی ایما پہ عرب بغاوت نے سلطنت عثمانیہ کو اس کے عرب علاقوں سے بھی محروم کر دیا اور سلطنت صرف موجودہ ترکی تک محدود ہوگئی۔
پہلی جنگ عظیم سے قبل ترک سلطان عبد الحمید دوئم کو معزول کرنے والیYoung Turks تحریک یہودی الومیناتی کارندوں کے زیر اثر یونان کے ایک شہر میں قائم ہوئی اور ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں دھکیلنے کا تباہ کن فیصلہ کرنے والے Young Turks کے قائدین انور پاشا، طلعت پاشا اور جمال پاشا کا سیاسی اور عسکری کیرئیر طویل عرصہ اسی شہر سے وابستہ رہا۔ اسی طرح آرمینیائی نسل کشی(Armenian Genocide)میں بھی جس کا الزام حالیہ دنوں میں سلطنت عثمانیہ پر لگایا جا رہا ہے بھی جوان ترک کے دور حکومت میں ہی وقوع پذیر ہوئی اور جمال پاشا اسکا براہ راست ذمہ دار تھا کیونکہ ان دنوں عثمانی سلطان برائے نام حکمران تھا اور تمام حکومتی معاملات جوان ترکوں کے ہاتھ میں تھے جو الومیناتی ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔
1918ء میں اتحادیوں نے ازمیر اور قسطنطنیہ پہ بھی قبضہ کر لیا اور سلطان کو اس شرط پہ خلیفہ کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کی اجازت دی کہ وہ تمام عثمانی مقبوضہ جات یورپی اتحادیوں کے حوالے کر دے لیکن بعد ازاں بڑی چالاکی سے اپنے ایک کٹھ پتلی مصطفی کمال پاشا یعنی نام نہاد اتا ترک کو آگے لا کر ترکی میں سیکولر اور مغرب نواز حکومت قائم کر دی گئی اور مستقبل میں دوبارہ سلطنت عثمانیہ یا خلافت کے قیام کے خطرے کو روکنے کے لیے آخری عثمانی سلطان محمد ششم کو جلاوطن کرکے یورپ کے حوالے کر دیا گیا کہ کہیں وہ کسی مسلم ملک میں پناہ حاصل کرکے دوبارہ خطرہ نہ بن سکیں۔50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلٰی نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔
1566ء تک یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں فتوحات کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔ ان فتوحات کا سبب فوج کا معیاری نظم و ضبط اور جدید عسکری قوت تھی جس میں بارود کے استعمال اور مضبوط بحریہ کا کردار بہت اہم تھا۔ ریاست کی معیشت میں اہم ترین کردار تجارت کا تھا کیونکہ یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت کے تمام زمینی و سمندری راستے عثمانی سلطنت سے ہو کر گذرتے تھے۔
سلیم اور سلیمان کے ادوار میں عثمانی بحریہ دنیا کی عظیم ترین بحری قوت بنی جس نے بحیرہ روم کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا۔ ان فتوحات میں اہم ترین کردار عثمانی امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا کا رہا جس نے سلیمان کے دور میں کئی شاندار عسکری فتوحات حاصل کیں۔ جس میں اسپین کے خلاف تیونس اور الجزائر کی فتوحات اور سقوط غرناطہ کے بعد وہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں کی بحفاظت عثمانی سرزمین تک منتقلی اور 1543ء میں مقدس رومی سلطنت کے خلاف نیس کی فتح قابل ذکر ہیں۔ 16 ویں صدی میں مغربی یورپی قوتوں خصوصاً پرتگیزیوں کی خلیج فارس اور بحر ہند میں بڑھتی ہوئی قوت نے عثمانی بحریہ کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ عثمانیوں کی جانب سے مشرق اور جنوب کے راستے بند کر دینے کے باعث یورپی قوتیں ایشیا کے لیے نئے راستوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اور ہند و چین کے لیے نئے راستے دریافت کیے۔
1566ء میں سلیمان کا انتقال علاقائی فتوحات کے خاتمے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ مغربی یورپ کی سلطنتوں کا بطور بحری قوت ابھرنا اور یورپ سے ایشیا کے لیے متبادل راستوں اور "نئی دنیا" (امریکہ) کی دریافت نے عثمانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ایسے نازک وقت میں جب سلطنت عثمانیہ کو بیدار مغز حکمرانوں کی ضرورت تھی بدقسمتی سے اسے نالائق حکمرانوں کے طویل دور کو سہنا پڑا جس نے داخلی و عسکری محاذ پر مملکت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود 1683ء میں جنگ ویانا تک سلطنت کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا تاہم اس جنگ کے بعد یورپ میں سلطنت کی توسیع کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ مغربی یورپ کی جانب سے نئے تجارتی راستوں کی تلاش و دریافت کے علاوہ "نئی دنیا" سے اسپین میں بڑی مقدار میں چاندی کی آمد عثمانی سکے کی قدر میں تیزی سے بے قدری کا باعث بنی۔ سلیم ثانی کے دور میں صدر اعظم محمد پاشا صوقوللی نے معیشت کو استحکام بخشنے کے لیے سوئز نہر اور ڈون-وولگا نہر کی تعمیر کے منصوبہ جات پیش کیے لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
1712ء میں روس کے خلاف پرتھ مہم میں کامیابی اور اس کے بعد معاہدۂ پاسارووچ کے باعث 1718ء سے 1730ء تک کا دور پرامن رہا۔ اس دور میں سلطنت نے یورپ کی پیشقدمی کے خلاف مضبوط دفاع کے پیش نظر بلقان کے مختلف شہروں میں قلعہ بندیاں کیں۔ دیگر اصلاحات میں محصولات میں کمی؛ عثمانی سلطنت کے بیرون ممالک میں تصور کو بہتر بنانا اور نجی ملکیت و سرمایہ کاری کی اجازت شامل ہیں۔ عثمانیوں میں عسکری اصلاحات کا آغاز سلیم ثالث (1789ء-1807ء) کے دور میں ہوا جنہوں نے یورپی خطوط پر افواج کو جدید تر بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے۔ حالانکہ ان اقدامات کی مذہبی قیادت اور ینی چری دستوں نے کھل کر مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں ینی چری نے بغاوت بھی کی۔ اور سلیم کو اپنی اصلاحات کا خمیازہ حکومت اور جان دونوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں اٹھانا پڑا لیکن اس کے جانشیں محمود ثانی نے ان تمام اصلاحات کو نافذ کر کے دم لیا اور 1826ء میں ینی چری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔عثمانیوں کا دور زوال کو مورخین جدید دور بھی قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں سلطنت نے ہر محاذ پر شکست کھائی اور اس کی سرحدیں سکڑتی چلی گئیں تنظيمات (اصلاحات) کے باوجود مرکزی حکومت کی ناکامی کے باعث انتظامی عدم استحکام پیدا ہوا۔ 19 ویں صدی کے دوران سلطنت عثمانیہ سمیت کئی ممالک میں قوم پرستی کو عروج نصیب ہوا۔ نسلی قوم پرستی کی لعنت ان مغربی نظریات میں سب سے اہم تھی جو اس دوران سلطنت عثمانیہ میں وارد ہوئیں۔ اس دوران کئی انقلابی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آ گئیں۔ مملکت میں آئے دن بڑھتا ہوا بگاڑ کے جہاں دیگر کئی اسباب تھے وہیں زوال کی اہم ترین وجوہات میں قوم پرستی کا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔
دور تنظیمات (1839ء تا 1876ء) میں آئینی اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا گیا جس کے نتیجے میں ایک نسبتاً جدید فوج، بنکاری نظام کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جدید کارخانے قائم ہوئے۔ 1856ء میں خط ہمایوں کے ذریعے نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام عثمانی شہریوں کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ مسیحی اقلیتوں کو بھی خصوصی حقوق عطا کیے گئے جیسے 1863ء میں آرمینیائی دانشوروں کی مرتب کردہ 150 شقوں کے ضابطہ قانون کے تحت منظور شدہ دیوان نظام نامۂ ملت آرمینیان (Armenian National Constitution) ۔ اصلاحات کے اس دور کی سب سے اہم بات وہ دستور تھا جو قانون اساسی کہلاتا تھا جسے نوجوانان عثمان نے تحریر کیا اور 23 نومبر 1876ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کے ذریعے تمام شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری عطا کی گئیں۔سلطنت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل نہ رہی اور مختلف یورپی ممالک کی مداخلت و اتحاد کے ذریعے اس کے مسائل حل ہونے پڑے مثال کے طور پر جنگ کریمیا جس میں عثمانیوں نے روس کے خلاف برطانیہ اور فرانس سے اتحاد کیا۔ حالانکہ اس عرصے میں اسے "یورپ کا مرد بیمار" کہا گیا لیکن معاشی طور پر سلطنت کی بد حالی کا سبب اس کی ترقی پزیر معیشت میں نہیں تھا بلکہ وہ ثقافتی خلا تھا جو اسے یورپی قوتوں سے الگ کیے دیتا تھا۔ اقتصادی مسائل دراصل بیرونی سامراجیت اور ابھرتی ہوئی داخلی قوم پرستی جیسے مسائل سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سے تھے۔
اس دوران سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں فوجی بغاوتیں ہوتی رہیں، لیکن اس کے باوجود عثمانی ان مسائل پہ قابو پانے میں کامیاب رہے[9]
جب تک سلاطین مضبوط تھے ینی چری فوجی قابو میں رہے لیکن عنان حکومت کمزور ہاتھوں میں آتے ہی ینی چری سرکش ہو گئے اور بدعنوانی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور یہ فوج سلطنت کے لیے مستقل خطرہ بن گئی اور 1826ء میں محمود ثانی نے بالآخر اس کو ختم کر ڈالا۔ ینی چری کے خاتمے کو واقعۂ خیریہ کہا جاتا ہے۔
عثمانیوں کی ایک مخصوص مقام پر جاکر فتوحات کے رک جانے کی کئی وجوہات ہیں ایک تو دور قدیم میں جغرافیائی خصوصیات کے باعث محدودیت جن کی وجہ سے بہار کے ابتدائی دور سے خزاں کے آخری ایام تک کے جنگی موسم میں عثمانی فوج ویانا سے آگے نہیں جا سکتی تھی۔ دیگر وجوہات میں سرحدوں کے دونوں جانب دو مختلف حریفوں (یورپ میں آسٹریا اور ایشیا میں ایران کے صفوی حکمران) کے خلاف بیک وقت جنگ کرنا شامل ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے خلاف شیعہ صفوی سلطنت نے یورپ سے معاہدہ کر رکھا تھا جس کو تاریخ میں صفوی ہیبسبرگ معاہدہ کہتے ہیں۔ اس طرح شیعہ ایران کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کے خلاف یورپ کا ساتھ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے یورپ کی مکمل فتح اور اس کے ایک اسلامی براعظم میں تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔
سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی کا زمانہ یورپ میں 'ایج آف ڈسکوری' یعنی دریافتوں کا دور تھا اور سپین، پرتگال، نیدرلینڈز اور برطانوی بحری بیڑے دنیا بھر کے سمندر کھنگال رہے تھے۔ براعظم امریکہ کی دریافت اور اس پر قبضے سے یورپ کو بقیہ دنیا پر واضح برتری حاصل ہو گئی اور انھوں نے جگہ جگہ اپنی نوآبادیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔16ویں اور 17ویں صدیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ نے بقیہ دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جہاز رانی کی صنعت کے فروغ کی وجہ سے انھیں جہاز رانی کے لیے نت نئے آلات ایجاد کرنے اور انھیں بہتر بنانے کی ضرورت تھی جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں کو فروغ دیا۔[11]
سلطنت عثمانیہ سے ویسٹ فالیا امن معاہدہ نے یورپ کو سلطنت عثمانیہ کے خطرے سے آزاد کر دیااور اس دوران یورپ نے صنعتی ترقی کی اور بعد ازاں سلطنت عثمانیہ کو للکارنے اور ختم کرنے کے قابل ہو گیا۔ سلطنت یورپ کی ابھرتی قوت کا سامنا نہ کر سکی اور آہستہ آہستہ اپنی ایک عالمی فوجی قوت کی حیثیت کھو بیٹھی۔
لیکن مسلمان عمومی طور پہ تیزی سے بدلتے زمانے کے تقاضوں سے بے خبر رہے۔ اگر صرف سائنسی جمود ہی ہوتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا نقصان دین سے دوری، بعد میں آنے والے سلاطین عثمانی میں جہاد سے غفلت( ابتدائی عثمانی سلاطین میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور وہ بنفس نفیس جنگوں میں شریک ہوتے تھے لیکن 1571ء کے بعد آنے والے سلاطین سستی، کاہلی اور جہاد سے دوری کا شکار ہو گئے) اور قرآن کے فرمان ان کافروں کے مقابلے کے لیے ہر وہ ہتھیار تیار رکھو جس کی تم طاقت رکھتے ہو، سے غفلت تھی۔ لہذا ایسے وقت میں جب یورپ ہر صدی زیادہ سے زیادہ طاقتور ہو رہا تھا، مسلمانوں کی طرف سے جنگی ٹیکنالوجی اور جدید علوم سے غفلت بہت مضر ثابت ہوئی۔ 1700ء کے بعد ہمیں تمام اسلامی سلطنتوں کے خاتمے میں خواہ وہ عثمانی ہوں، یا مغل، جہاد اور سائنس سے دوری اور سلاطین کی دنیا میں غفلت، آپس کے اختلافات اور درباری عیاشی نظر آتی ہے
لیکن آپس کی جنگوں اور اختلافات کے لحاظ سے سلطنت عثمانیہ کا معیار رومی، ایرانی اور دنیا کی باقی سلطنتوں سے کافی بہتر رہا۔ سلطنت کی عمومی تاریخ میں تخت نشینی کی لڑائیاں جو دنیا کی تاریخ کہ ہر سلطنت خواہ وہ مسلم تھی یا غیر مسلم کا شیوہ اور روایت رہی ہیں، کم ملتی ہیں۔تمام بادشاہوں میں سے پانچ سے کم قتل کئے گئے دس سے کم معزول ہوئے لیکن اس کے برعکس رومی و ایرانی سلطنت میں بادشاہوں کا قتل معمول تھا۔ رومی سلطنت میں 1480 سال میں ساتھ سے ستر بادشاہ قتل کئے گئے۔ اگر عثمانی سلطنت 634 سال میں چار بادشاہوں کے قتل کے ساتھ اتنا عرصہ چلتی تو کل دس سے بارہ بادشاہ اتنے سالوں میں قتل ہوتے جو کہ رومی و ایرانی سلطنت سے کئ گنا بہتر ہے اور ثابت کرتا ہے کہ آپس کے اختلافات تاریخ میں مسلمانوں میں نہیں بلکہ غیر مسلم حکومتوں میں زیادہ ہوئے۔
1288ء میں سلطنت عثمانیہ کے قیام تا 1922ء 634 سال میں 37 حکمران آئے،اوسط ایک حکمران کی مدت سلطنت سترہ سال بنتی ہے جو کہ رومی سلطنت کی اوسط سات سال اور عباسی سلطنت کی اوسط بارہ سال سے کافی بہتر ہے۔
فکری، ذہنی و عسکری جمود نے عثمانیوں کے زوال پر مہر ثبت کر دیں کیونکہ عسکری طور پر جدید ہتھیاروں کا استعمال ہی وسیع پیمانے اور تیزی سے فتوحات کا سبب تھا۔
ینی چری، جن سے یورپ کی تمام افواج کانپتی تھیں، آرام پسند ہو گئیں اور ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے باعث ریاست کی تباہی کا سبب بنی۔ صفویوں سے یریوان (1635ء) اور بغداد (1639ء) چھیننے والے مراد چہارم (1612ء تا 1640ء) اس دور کے واحد حکمران جنہوں نے سیاسی و عسکری طور پر سلطنت کو مضبوط بنایا۔ مراد چہارم ہی وہ آخری سلطان تھے جنہوں بذات خود افواج کی قیادت کی۔ 16 ویں صدی کے اواخر اور 17 ویں صدی کے اوائل میں جلالی بغاوت (1519ء-1610ء) اور ینی چری بغاوت (1622ء) نے اناطولیہ میں بڑے پیمانے پر لاقانونیت اور فسادات کو فروغ دیا اور متعدد حکومتوں کے خاتمے کا سبب بنا۔ اس طرح 17 ویں صدی عثمانیوں کے لیے جمود اور زوال کی صدی رہی۔ 1530ء سے 1660ء تک کے دور میں حرم کی ملکی معاملات میں مداخلت اور اثرات سے بھی قطع نظر نہیں کیا جا سکتا جس میں سب سے اہم کردار نوجوان سلطان کی ماؤں کا رہا۔ اس دور کی نمایاں خواتین میں خرم سلطان، قصم سلطان اور تورخان خادج اور دیگر شامل ہیں۔
بعض یورپی مورخین یہ الزام لگاتے ہیں کہ عربی رسم الخط جس میں 1928ء تک ترکی زبان لکھی جاتی تھی، ترک الفاظ ادا کرنے کے لیے مناسب نہیں تھا اور یہ سلطنت کے تعلیمی زوال کے اسباب میں سے تھا لیکن یہ ایک انتہائی بھونڈا اعتراض ہے۔ ترک زبان عربی رسم الخط میں گزشتہ چھ سو سال سے زائد عرصے سے لکھی جا رہی تھی اور اس دوران مسلسل کئ صدیوں تک سلطنت عثمانیہ ایک عالمی طاقت رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ زوال کی وجہ دیگر مسائل تھے جن کا ذکر نیچے آئے گا کہ کہ زبان کے عربی رسم الخط کا مسئلہ۔
اگر ہم پرامن خلافت عثمانیہ کے سقوط کے اسباب پر غور کریں تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ عثمانی شاہی حرم میں دشمنان اسلام کی حسیناؤں یعنی یہودی و عیسائی خواتین کا خفیہ انداز میں جمع ہونا، حرم کی خواتین اور کنیزوں کی مکمل جانچ پڑتال نہ کرنا،کمال اتاترک جیسے غداروں اور دہریوں کا اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنا ،سلطنت کے آخری پچھتر سال میں مصر میں محمد علی پاشا کی بغاوت، بعد ازاں برطانوی جاسوس ایڈورڈ تھامس لارنس کے بھڑکانے پہ مکہ کے شاہی خاندان کا شریف مکہ کی قیادت میں عرب قومیت کے نام پہ ترک عثمانی سلطنت کے خلاف عالمی کفر خصوصاً برطانیہ کے ساتھ مل کر بغاوت،درباری غلام گردشوں اور سازشوں( جو کہ دنیا کی کسی بھی قوم کی تاریخ میں ہمیشہ ملوکیت اور نسل در نسل بادشاہت اور جدید دور میں باہم جمہوری سیاسی جماعتوں کی روایت رہی ہیں)، قوت ،ٹیکنالوجی ،تعلیم اور انتطامی امور کےجدیدتقاضوں سے غفلت، سلطنت کے مختلف علاقوں خصوصاً سلطنت کےعرب اور یورپی صوبوں میں اسلامی بھائی چارے اور اخوت کی جگہ یورپ کے اثر سے ابھرنے والے لسانی،قومی اور گروہی تعصب سلطنت عثمانیہ کے زوال اور خاتمے کے بنیادی اسباب تھے جس میں سب سے بڑا کردار مصطفی کمال پاشا یعنی نام نہاد اتا ترک کی زیر سرپرستی استعماری سازشوں اور عرب قومیت پرستوں نے ادا کیا۔ خود ایک برطانوی جنرل کے بقول سلطنت عثمانیہ کے فوجی دستے جو آخر وقت تک اتحادیوں سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، ان کو خود عربوں نے تباہ و برباد کیا۔[10]

حوالہ جات:

1:Faroqhi, Suraiya (1994). "Crisis and Change, 1590–1699". In İnalcık, Halil; Donald Quataert. An Economic and Social History of the Ottoman Empire, 1300–1914. 2. Cambridge University Press. pp. 507–08. ISBN 0521574560.
2:Davies, Brian L. (2007). Warfare, State and Society on the Black Sea Steppe: 1500–1700. Routledge. p. 16. ISBN 978-0415239868. Retrieved 11 February 2013.
3:Orest Subtelny (2000). Ukraine. University of Toronto Press. p. 106. ISBN 978-0802083906. Retrieved 11 February 2013.
4:Matsuki, Eizo. "The Crimean Tatars and their Russian-Captive Slaves" (PDF). Mediterranean Studies Group at Hitotsubashi University. Archived from the original (PDF) on 15 January 2013. Retrieved 11 February 2013
5:Fernand Braudel, The Mediterranean and the Mediterranean World in the Age of Philip II, vol. II ( University of California Press: Berkeley, 1995).
6:Kunt, Metin; Woodhead, Christine (1995). Süleyman the Magnificent and His Age: the Ottoman Empire in the Early Modern World. Longman. p. 53. ISBN 978-0582038271.
7:https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%8C_%DA%A9%DB%8C_%D8%AC%D9%86%DA%AF_%D8%B9%D8%B8%DB%8C%D9%85
8:https://www.abushamil.com/muslim-holocaust/
9:Halil İnalcık (1997). An Economic And Social History of the Ottoman Empire, Vol. 1 1300–1600. Cambridge University Press. p. 24. ISBN 978-0521574563. Retrieved 12 February 2013.
10:https://hamariweb.com/articles/92021
11:http://www.bbc.com/urdu/world-42037491

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔