Saturday 26 January 2019

گستاخ رسول کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں

گستاخ رسول کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں
   بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم………. اما بعد  :
شاتم رسول کی سزا  اسلام میں  متنازع فیہ مسئلہ نہیں ہے۔تاریخ اسلام کے کسی دور میں اسکے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا گیا۔
لیکن دور جدید میں  بعض اہل قلم مغربی نظریات سے  اسی طرح متاثر ہوے   کہ انہوں نے  اپنے ہی عقیدےاور   اسلام کے بنیادی  احکام میں بےجا  مداخلت شروع کی ،اور غیر ضروری بحثوں میں پڑ کر    امت میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش شروع کردی ۔ مغربی نظریہ   کے نزد آزادی فکر   ”خیر اعلیٰ”   کی حیثیت رکھتی ہے  اور ہر شخص کو حق ہے کہ  وہ جو چاہے کہے اور لکھے ،   اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
اسی مغربی نظریے کے اپنانے کا یہ نقصان ہوا کہ  ایک ایسے مسئلے سے اختلاف کیا گیا ، جس پر ہمیشہ عالم اسلام متفق اور متحد رہا۔
پاکستان کے ائین کے مطابق  ناموس رسالت کی توہین کرنے والے کی سزا صرف اورصرف موت ہے۔ اور یہ سزا  عین شریعت خدا وندی اور  اسلام کے مطابق ہے۔نیز  گستاخ رسول کا قتل ہی عشق اور محبت رسول کی دلیل ہے۔
شاتم رسول صل اللہ علیہ وسلم کیلئے سزائے موت  کی مخالفت اور  اہانت رسول صل اللہ علیہ وسلم  پر احتجاج کو خلاف اسلام قرار دینا  دراصل مزاج اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔اور اجماع امت کی مخالفت ہے۔ گذشتہ چودہ سو سال سے یہ مسئلہ متفق علیہ رہا ہے۔ اور کسی نے بھی شاتم رسول کی سزائے موت کا  انکار نہیں کیا ہے۔
ا نَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا
(سورۃ احزاب ۔ایت۵۷)
ترجمہ:  بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ  اور اسکے رسول  صل اللہ علیہ وسلم  کو ایذاء  دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے
ومن یشاقق اللہ ورسولہ فان اللہ شدید العقاب (الانفال۔۱۳)
ترجمہ:  اور جو اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرتا ہے،سو  اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔
قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَايَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ
(بخاری،باب الرھن)
حضرت عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے سنا کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف کیلئے کیونکہ اس نے اللہ اور اسکے رسول کو تکلیفیں دی ہیں تو محمد بن مسلمہ اٹھ کھڑے ہوےاورپھر جا کر اسکو قتل کردیا۔اور پھر حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے اسکو قتل کردیا۔
اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ اور اسکے رسول کو اذیت پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ  اس نے اپنے اشعار کے ذریعے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔حضرت عمرو سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو  کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں  کے خلاف ابھارتا تھا۔یہ یہودی نبی صل اللہ علیہ وسلم کو اور انکے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا  تو نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اسکے قتل کا اعلان کیا اور محمد بن مسلمہ نے اسکو قتل کرکے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اسکےقتل کی اطلاع دےدی۔
بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الیٰ ابی رافع الیھودی رجالا من الانصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ ۔
(بخاری)
ترجمہ:
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا انتخاب فرمایا ،  جن کا امیر عبد اللہ بن عتیق  مقرر کیا ۔یہ ابو رافع نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔
عن انس بن مالک  ان النبی صل اللہ علیہ وسلم دخل مکہ یوم الفتح و علی راسہ المغفر فلما نزعہ جاء رجل فقال ابن خطل متعلق باستار الکعبہ فقال اقتلہ۔
(بخاری)
قال ابن تیمیہ فی الصارم المسلول وانہ کان یقول الشعر یھجو بہ رسول اللہ ویامرجاریتہ ان تغنیابہ
فھذا لہ ثلاث جرائم مبیحۃ الدم، قتل النفس ، والردۃ ، الھجاء۔
(الصارم۔صفحہ ۱۳۵)
امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل القینتین(اسمھما قریبہ و قرتنا)
(اصح السیر ۔صفحہ ۲۶۶)
ترجمہ:    حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے  تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ نے خود  اتارا  تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا   ور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسکو قتل کردو۔(بخاری)
ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے کُل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا ، اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا  حضور صل اللہ علیہ وسلم کی ان میں گستاخی۔
اور ابن خطل کے ان دونوں باندیوں کے قتل کانبی صل اللہ علیہ وسلم نےحکم دیا تھا۔
دراصل اشعار ابن خطل کے ہوتے تھے اور اسکو عوام کے سامنے گانے والی اسکی دو باندیاں تھیں۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ گستاخی ناموس رسالت  کی اشاعت میں مدد کرنے والے کو بھی قتل کا جائے گا۔
امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل الحویرث ابن نقیذ فی فتح مکہ  وکان ممن یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم(البدایہ والنھایہ)        وقتلہ علی رضی اللہ عنہ  (اصح السیر)
فتح مکہ کے دن نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے حویرث بن نقیذ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور یہ ان لوگوں میں سے تھا جو نبی صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچایا کرتے تھے۔حضرت علی نے اسکو قتل کیا۔
عن علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل و من سب اصحابہ جلد(الصارم المسلول صفحہ۹۲،۲۹۹)
ترجمہ:
حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو برا کہے اسے قتل کیا جاے اور جو صحابہ کو برا کہے اسکو کوڑے لگادئے جائیں۔
ان تمام دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ناموس رسالت کی گستاخی آدمی کو واجب القتل بنادیتی ہے اور اسکا  خون مباح ہوجاتا ہے۔اور یہ حکم حضرت آدم سے لے کر نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم تک سب کو شامل ہے، یعنی آدم علیہ السلا م سے لے کر نبی صل اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء ہیں،تو ان میں سے کسی ایک کی توہین سے بھی آدمی واجب القتل بن جاتا ہے۔

٭٭٭۔۔اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لے کر اپنےطور پر اس گستاخ  رسول کو قتل کیا تو   !!!

ان دلائل کے بعد  جس میں گستاخ رسول کو قتل کرنے کا حکم ملتا ہے۔ اور خود نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ایسے گستاخوں کو قتل کا حکم دیا ہے ۔ظاہر ہے اس وقت اسلامی حکومت تھی اور یہ کام اسلامی حاکم کے  حکم سےانجام پائے ہیں ۔لیکن اگر کسی نے انفرادی طور پر اُٹھ کر ایسے گستاخ کو قتل کردیا  تو اسکا  کیا حکم ہے۔آئیے    دیکھتے ہیں کہ نبوی زندگی میں اسکا کوئی مثال اگر ہےتو خود حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ایسےگستاخ کے قاتل کے ساتھ کیا  رویہ  اپنایا ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ اناعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ  النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا  كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ  فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ  النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ  أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَنْهَاهَا  فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ  مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ  فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ
 (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)
ترجمہ:
حضرت ابن عباس  سے روایت ہے کہ ایک نابینا   کی ام ولد باندی تھی جو کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں  دیتی تھی اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخیاں کرتی تھی، یہ نابینا  اسکو  روکتا  تھا مگر وہ  نہ رکتی تھی ۔ یہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی۔راوی کہتا ہے کہ جب ایک رات پھر نبی صل اللہ علیہ وسلم  کی شان میں گستاخیاں کرنی اور گالیں دینی شروع کیں تو اس  نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اسکے پیٹ پر رکھا اور اس پر  اپنا وزن ڈال کر دبا دیا  اور  مار ڈالا، عورت کی ٹانگوں کے  درمیان بچہ نکل پڑا،  جو کچھ وہاں تھا  خون الود  ہوا ۔

جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے ہاں ذکر ہوا۔آپ نے لوگوں کو جمع کیا ، پھر فرمایا کہ اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے کیا  جو کچھ میرا  اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجاے
تو نابینا  کھڑا ہوا،  لوگوں کو پھلانگتا ہوا  اس حالت میں آگے بڑا کہ  وہ کانپ رہا تھا،حتی کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا  اور عرض کیا کہ
 یا رسول اللہ میں ہوں اسے مارنے والا،  یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی  اور گستاخیاں کرتی تھی  میں اسے روکتا تھا وہ  نہ  رکتی تھی ، میں دھمکاتا تھا  وہ  باز نہیں آتی تھی  اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح  ہیں اور  وہ مجھ پر مہربان بھی تھی،لیکن آج رات جب اس نے آپکو گالیاں دینی  اور برا بھلا کہنا شروع کیا  تو میں نے خنجر لیا اور  اسکی پیٹ پر رکھا  اور زور لگا کر اسے مار ڈالا۔ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں گواہ   رہو  اسکا  خون  بے بدلہ (بے سزا) ہے۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ  رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا
(ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)
ترجمہ:
حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت  نبی صل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی  اور برا کہتی تھی تو ایک  شخص نے اس کا  گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی  ،تو  رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اسکے خون کو ناقابل  سزا قرار دے دیا۔
پہلا حدیث تو ایک مملوکہ باندی کا تھا اور دوسرا حدیث  غیر مملوکہ  غیر مسلم کا ہے، مگر غیرت ایمانی  نے کسی قسم کا  خیال کئے بغیر  جوش ایمانی میں جو کرنا تھا کردیا اور   حضور صل اللہ علیہ وسلم نے بھی اسکا بدلہ باطل قرار دیا ۔
دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم  کو گالیاں دینے والے  مباح الدم بن جاتا ہے اور اگر کوئی اس گستاخ  کو انفرادی طور پر قتل کرے تو  قاتل کیلئے کوئی سزا نہیں ہے۔ بلکہ اس گستاخ  کا قاتل ہر قسم کے جرم و سزا سے آزاد ہوگا۔نیز حق کا علمبردار بن کر ثواب عظیم کا مستحق بن جاتا ہے۔
گستاخ رسول کے قتل حکومت کے ذمہ ہے۔ اور عام آدمی قانون  کو اپنے ہاتھ میں نہ لے ،لیکن اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لے  کر اس گستاخ کو قتل کیا تو اس قاتل پر کوئی قصاص یا تاوان نہیں ہوگا کیونکہ مرتد مباح الدم ہوتا ہے اور جائز القتل ہوتا ہے۔ عام آدمی اگر اسکو قتل کردے تو  یہ آدمی مجرم نہیں ہوگا۔
٭٭٭۔۔  گستاخ رسول کا توبہ کرنا اور معافی طلب کرنا۔
مرتد اور گستاخ رسول کے توبہ کے بارے میں اکثر علماء کا مسلک یہ  ہے کہ صرف مرتد کی توبہ کو قبول کیا جاسکتا ہے ، لیکن وہ مرتد  جس نے اہانت رسول کی ہے تو اسکی توبہ قطعا قبول نہیں ۔ کیونکہ رسالت انبیاء کا حق ہے ، اور اپنے حق  کی معافی کا اختیار  بھی صرف ان انبیاء کے پاس تھا۔ انکے وفات کے بعد کسی کو  یہ حق حاصل نہیں کہ انبیاء کی توہین کرکے انکی عزت مجروح  کرنے والے  کی توبہ قبول کرلے۔
بعض علماء نے توبہ  کے بعد اسکےسزاے موت کو ٹالنے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔ لیکن اس شرط پر کہ وہ توبہ حقیقی توبہ ہو  اور یہ  مرتد  دل سے توبہ کرے۔کیونکہ جرم اسکا بہت بڑا ہے لھذا  توبہ بھی اسی درجہ کی ہونی چاہیے۔
چونکہ قرانی ایات اور احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ  یہ شخص اسلام سے نکل کر مرتد ہو اہے ،لھذا یہ آدمی  پہلے  اسلام کی تجدید کرے،اور علماء  اور عوام کے مجمع میں باقاعدہ  اپنے اسلام کی تجدید کرے۔ اور جس قدر اعلان اس کی گستاخی کا  ہوا ہے ، اسی قدر اعلان
اپنے تجدید اسلام  اور توبہ کا کرے۔
توبہ نام ہے تین چیزوں کی ۔۔۔
(۱) ۔۔۔۔گذشتہ گناہ پر انتہائی شرمندگی:۔
یعنی جو گناہ اس کیا ہے اور جو گستاخی اس نے کی ہے، اس سے رجوع اور توبہ کا کھلے عام اعلان کرے۔
نیز جن جن علاقوں تک اسکی گستاخی کی خبر پہنچی ہے تو وہاں تک یہ اپنے توبہ کی خبر بھی پہنچادے۔ اور کھلے عام رسائل ،اخبارات اور میڈیا کے سامنے  اپنے گناہ سے توبہ کرے۔ اور اپنے اس گناہ پر شدید  شرمندگی اور ندامت ظاہر کرے۔نیز لوگوں کے سامنے اپنی غلطی کا اقرار کرے۔ اور جو گستاخی اس نے کی ہے ،  اسکو بے دلیل اور بے ثبوت قرار دے کر  لوگوں کے سامنے  اسکا اقرار کردے۔
(۲)۔۔۔۔ نہایت عاجزی اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اپنے فعل پر حقیقی پیشمانی ظاہر کرئے۔
(۳)۔۔۔۔ آئندہ کیلئے ان گناہوں کے نہ کرنے کا پختہ عہد کرے۔بلکہ اپنے اس گناہ کی تلافی کیلئے ان  انبیاء مبارکہ  کے محاسن ،  بزرگی اور اعلیٰ مراتب کو  اسی عام ترین اعلان اور تقریر وتحریر کے ذریعے کرتے رہا کرے اور گذشتہ  کی غلطیاں طشت ازبام کرے۔تو  توبہ کی تکمیل ہوجاے۔

اللٰہ تعالٰی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین
https://darveshkhurasani.wordpress.com/gustakh/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔