Monday 28 January 2019

کیا قرآن کا واقعہ خضر علیہ السلام اور ذوالقرنین سکندر اعظم کی رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے؟

کیا قرآن کا واقعہ خضر علیہ السلام اور  ذوالقرنین سکندر اعظم کی رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے؟
دانیال تیموری کو جواب
(دوسری اور آخری قسط)
تحریر۔۔۔۔احید حسن
 •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
جانبدار غیر مسلم مستشرقین نے قرآن پر یہ الزام لگایا ہے کہ نعوذ بااللہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اور واقعہ خضر علیہ السلام سکندر اعظم کی رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں  سے لیا گیا ہے جن کی نسبت جیکب آف سیروغ۔۔۔Jacob Of Serugh....کی طرف کی جاتی ہے لیکن یہ جھوٹ ہے۔بعد میں تاریخی تحقیقات کی بنیاد پر خود یورپی مستشرقین نے کہا کہ سکندر اعظم اور واقعہ ذوالقرنین کے درمیان ایک تعلق پیدا کرنا ایک تاریخی غلطی ہے۔اس طرح دوسرے الفاظ میں وہ خود اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اور واقعہ خضر علیہ السلام سکندر اعظم کی رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں سے نہیں لیا گیا۔
قرآن کی سورہ 18،آیت نمبر 60 یعنی سورہ کہف میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی مچھلی ان کے خادم کی بھول کی وجہ سے "سراب" سے  معجزانہ طور پر بچ نکل جاتی ہے اور اس سے وہ خضر علیہ السلام سے ملاقات کا راستہ پاتے ہیں۔جب کہ سکندر اعظم کے بارے میں بیان کردہ فرضی کہانی میں اس کا باورچی مردہ مچھلی کو مختلف جھیلوں کے پانی میں ڈبوتا ہے اور جب مچھلی پر دوبارہ زندہ ہوتی ہے تو سکندر اعظم کو پتہ چلتا ہے کہ یہ آب حیات ہے۔اب اس میں مسئلہ یہ ہے کہ سراب کا مطلب کسی طرح بھی حیران کن یا معجزاتی نہیں۔سراب کا مطلب نظر کا دھوکہ ہے۔قرآن مجید کی آیت کے مطابق مچھلی سراب کی طرح گم ہوگئ اور قرآن یہ بھی نہیں کہتا کہ مچھلی شروع سے مردہ تھی۔صرف سکندر اعظم کی فرضی کہانی میں مچھلی کے دوبارہ زندہ ہونے کی بنیاد پر مستشرقین نے قرآن پہ الزام لگایا کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اور واقعہ خضر علیہ السلام نعوذ بااللہ رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں سے لیا گیا ہے جب کہ دونوں واقعات میں فرق صاف واضح ہے اور رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخے خود یورپی مستشرقین کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی یعنی 628ء کے بعد سے دسویں صدی عیسوی کے  ہیں جب کہ قرآن پہلے نازل ہوچکا تھا۔پھر قرآن نے یہ واقعہ کس طرح رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں سے چوری کیا جب کہ قرآن اس سے بہت پہلے نازل ہوچکا تھا۔
اب سکندر اعظم کی  فرضی مردہ مچھلی کے واقعے پر غور کیجیے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سکندر اعظم کی  اصل یونانی کہانی میں مردہ مچھلی کا بیان چار بار تبدیل ہوتا ہے اور قرآن کے نزول کے بعد یہ قرآن سے مشابہ واقعے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔دوسرے لفظوں میں قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اور واقعہ خضر علیہ السلام سکندر اعظم کی رومانس آف الگزینڈر سے نہیں لیا گیا بلکہ قرآن نے خود رومانس آف الگزینڈر کو متاثر کیا اور قرآن کے نزول کے بعد رومانس آف الگزینڈر کے نسخوں میں اس میں قرآن سے مشابہ کرنے کے لیے اس میں تبدیلیاں کی گئ۔رومانس کے تیسری صدی عیسوی کے نسخوں میں کسی مچھلی کا ذکر نہیں ہے۔چوتھی صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی کے نسخوں میں مچھلی کے مختصر واقعات ظاہر ہوتے ہیں جس میں مچھلی بچ نکلتی ہے لیکن باورچی دائمی بقا حاصل نہیں کرتا نہ ہی باورچی اس کے بارے میں کسی اور کو بتاتا ہے۔  چھٹی صدی عیسوی کے وسط کے نسخوں میں یعنی قرآن کے نزول کے بعد باورچی آب حیات ایک چاندی کے ایک برتن میں لیتا ہے اور کچھ سکندر اعظم کی بیٹی کو دیتا ہے۔اس کہانی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مردہ مچھلی اور باورچی یعنی خضر علیہ السلام کے آب حیات حاصل کرنے کا بیان قرآن کے نزول کے بعد ہی آتا ہے۔لہذا یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن سے نقل کر کے رومانس آف الگزینڈر میں قرآن کے مشابہ کہانی بنانے کے لیے اس میں تبدیلیاں کر دی گئ اور بعد میں یہ الزام لگا دیا گیا کہ قرآن نے یہ واقعہ رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں سے لیا جب کہ خود رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخے قرآن کے بعد یہ کہانی بیان کرتے ہیں جب کہ قرآن اسے پہلے ہی بیان کر چکا تھا۔
برانینن ویلر۔۔۔Brannon Wheeler....نے اس کا مزید تجزیہ کیا ہے اور کہا ہے کہ
"رومانس آف الگزینڈر اور قرآن کی آیات کے درمیان مچھلی کی شناخت کے معاملے کے خلاف کئ تحفظات ہیں۔دونوں کے درمیان مچھلی کی شناخت بذات خود مسئلہ پیدا کرتی ہے۔قرآن کی سورہ کہف کی آیات 60_65 میں مچھلی کی کہانی جیکب آف سیروغ کی کہانی میں مشترک بات پکائے جانے سے پہلے مچھلی کا بچ نکلنا اور ایک غیر معمولی پانی کا بیان ہے۔لیکن پھر بھی دونوں کہانیوں کا کوئ تعلق نہیں بنتا(غور کیحیے۔یہاں خود ایک یورپی مورخ کہ رہا ہے کہ دونوں کہانیاں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔دوسرے لفظوں میں وہ خود قرآن کے یہ کہانی رومانس آف الگزینڈر سے لینے کی تردید کر رہا ہے)۔دونوں کو ایک قرار دینا لازمی نہیں۔قرآن کے بیان کردہ واقعے میں مچھلی کےمردہ ہونے اور اس کے دوبارہ زندہ ہونے  کا یقین نہیں کیونکہ قرآن نے مچھلی کو مردہ قرار نہیں دیا اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ موسٰی علیہ السلام کی مچھلی سکندر اعظم کی کہانی کی طرح آب حیات میں جا کر دوبارہ زندہ ہوئ۔اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ قرآن میں بیان کردہ مچھلی مردہ تھی اور زندہ ہوکر بچ نکلی تو بھی قرآن نے کہیں نہیں کہا کہ یہ مچھلی آب حیات میں جا کر زندہ ہوئ۔موسٰی علیہ السلام کے ساتھی کے بیان کے مطابق یہ مچھلی تب پانی میں چلی گئی جب موسٰی علیہ السلام اور ان کا ساتھی چٹان پر آرام فرما تھے۔مغربی سکالرز نے قرآن کے بیان کو قرآن کی تفسیر میں بیان کردہ تفصیل سے  ملانے کی کوشش کی جب کہ قرآن کا حقیقی بیان اور تھا۔اس بات کی بہت کم علامت موجود ہے کہ قرآن کے واقعہ خضر علیہ السلام کو ابتدا میں رومانس آف الگزینڈر سے ملانے کی کوشش کی گئ جب کہ قرآن کا حقیقی بیان اور تھا۔"
اس طرح اس ساری بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک غیر جانبدار مغربی مورخ خود کہ رہا ہے کہ قرآن کے واقعہ خضر علیہ السلام اور رومانس آف الگزینڈر کی کہانیوں میں مماثلت فرضی ہے اور دونوں واقعات میں بہت فرق ہے۔اس طرح دوسرے الفاظ میں وہ خود کہ رہا ہے کہ قرآن کا واقعہ خضر علیہ السلام رومانس آف الگزینڈر سے نہیں لیا گیا۔ای ایے بج۔۔۔E.A.W.Budge...کی The History Of Alexander The Great Being The Syriac Version Of The Pseudo_Callisthenes 1889 اور  ایس گیرو۔۔۔S.Gero۔۔۔کی The Legend Of Alexander The Great In The Christian Orient,Bulletin Of The John Rylands University Library  Manchester ,1993,Volume 75,p.5 کے مطابق رومانس آف الگزینڈرکے شامی نسخے اسلام کی آمد کے بعد کے ہیں جب کہ قرآن پہلے ہی نازل ہوچکا تھا۔اس طرح یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اور واقعہ خضر علیہ السلام نعوذ بااللہ رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے اور اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ یہ ملحدین و مستشرقین کا قرآن پر جھوٹ الزام اور فریب ہے جس کے ذریعے وہ عوام کو دھوکا دے کر قرآن سے بد ظن کرنے اور کافر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے،وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے،وہ کس طرح ایک ایسی چیز کا علم حاصل کر سکتے تھے جو عرب میں نہیں بلکہ یونان میں تھی۔یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک وہ انسان جو پڑھنا لکھنا تک نہیں جانتا دنیا بھر کی کہانیوں کو ایک کتاب قرآن کی شکل میں دے کر جاہل عربوں کو دنیا کا ہیرو بنا دیتا ہے بلکہ دنیا بھر کے علم کے زندہ ہونے کا سبب بن کر اہل یورپ کی علم کی طرف واپسی کا سبب بن کر جدید دور کی ساری ترقی کا سبب بنتا ہے۔یہ کیسے ایک وحی اور خدا کی رہنمائی کے بغیر ممکن تھا(میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔اللٰہ تعالٰی مجھے ایک کروڑ زندگیاں عطا کر کے  میری ایک کروڑ جانیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی حرمت پر قبول فرمائے۔آمین)۔
قرآن کے مخالفین قرآن پر ہزار الزام لگاتے ہیں اور ان کا ہر الزام خود ان کے اپنے دوسرے الزام سے متصادم ہوتا ہے۔مستشرقین نے قرآن کے موسٰی علیہ السلام کی مچھلی کے واقعے سے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن میں بیان کردہ ذوالقرنین سکندر اعظم تھے جب کہ قرآن نے سکندر اعظم کے فرضی واقعے کے برعکس حوت کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی مچھلی کی بجائے وہیل یا میمل سپی شیز کا،کوئ جانور ہے۔یہی وجہ ہے کہ سر ویلس بج خود کہتے ہیں کہ رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخے یا کرسچن لیجنڈز میں بار بار اضافہ کیا گیا ہے اور اس کا جیکب آف سیروغ کی تصنیف ہونا بعید از امکان ہے۔اور یہ بات بھی خود یورپی مستشرقین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ چھٹی صدی کے بعد کے ہیں جب کہ قرآن ان سے پہلے نازل ہوچکا تھا۔
یورپ میں ذوالقرنین کی شناخت کہ وہ کون تھےکیا تھے کے بارے میں شدید اختلاف تھا۔بعد میں نولڈیک نے دعوی کیا کہ رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخے 514-515ء کے ہیں اور ذوالقرنین سکندر اعظم ہیں لیکن بعد کی تحقیقات نے ثابت کر دیا کہ رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخے یا کرسچن لیجنڈز اسلام کی آمد کے بعد یعنی 628ء کے بھی بعد  کی پیداوار ہیں،ہونوئس ،کموسکو اور زگلیڈی۔۔۔Hunnuis,Kmosko,Czegledy....واضح طور پر کہ چکے ہیں کہ رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں کا مصنف آرمینیا پر خازار حملوں کا Ex eventu علم رکھتا تھا جو کہ کسی واقعے کے وقوع کے بعد اندازے یا پیشین گوئی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ان کے مطابق رومانس آف الگزینڈر کا شامی نسخہ کوئ ایسی تاریخ نہیں دیتا جس سے وقت میں ایک حتمی لمحے یا terminus ad quemکا اندازہ لگایا جائے۔اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ ظاہر کر چکی ہے کہ یہ نسخے نزول قرآن کے بعد کے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ان میں موجودسکندر اعظم سے منسوب واقعات قرآن سے نقل کیے گئے۔اس طرح نولڈیک کا قرآن پر یہ الزام کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اور واقعہ خضر علیہ السلام نعوذ بااللہ رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے،جھوٹ ثابت ہوگیا۔قرآن پر یہ اعتراض کرنا کہ قرآن نے واضح طور پر ذوالقرنین کے بارے میں اور ان کی شناخت کے بارے میں سب کیوں نہیں بتادیا،فضول ہے کیونکہ قرآن سے حسدکرنے والوں اور شمنی رکھنے والوں نے پھر بھی قرآن پر اعتراض کرنے تھے اور اعتراض کا یہ سلسلہ ہمیشہ ہی جاری رہنا تھا جیسا کہ اب ملحدین و مستشرقین قرآن کی واضح واضح آیات کے غلط مفہوم بیان کرکے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔
ہماری اب تک کی اس مضمون کی دوقسطوں کی بحث ثابت کرتی ہے کہ دانیال تیموری کا قرآن پر واقعہ ذوالقرنین سکندر اعظم کی رومانس آف الگزینڈر سے اخذ کیے جانے کا الزام جھوٹ،بہتان،دجل اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ملحدین قرآن پر اعتراض کرتے ہیں اور الحمداللہ ہمیشہ منہ کی کھاتے ہیں اور ان شاء اللہ کھاتے رہیں گے۔قرآن کل بھی زندہ تھا،آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور جب ہم اس دنیا میں نہیں ہوں گے اللٰہ تعالٰی اور لوگ پیدا کرکے ان سے اپنی کتاب کی حفاظت و حرمت کا کام لیتا رہے گا اور ملحد ان شاء اللہ ہمیشہ شرمندہ رہیں گے۔آخر میں ملحدین کے نام ایک شعر
زہر غم کر چکا تھا میراکام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
الحمداللہ رب العٰلمین۔ھذا ماعندی۔و اللہ اعلم با الصواب

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔