Friday, 25 January 2019

تاتارستان ، ایک بھلا دی جانے والی مسلم ریاست پر عیسائ روسی اور سوویت ملحد کمیونسٹ قبضے، ظلم اور درندگی کی تاریخ

تاتارستان ، ایک بھلا دی جانے والی مسلم ریاست پر عیسائ روسی اور سوویت ملحد کمیونسٹ قبضے، ظلم اور درندگی کی تاریخ
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
تاتارستان وفاق روس کی ایک وفاقی اکائی (جمہوریہ) ہے ۔ اس کا رقبہ 68 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 38 لاکھ ہے ۔ تاتارستان کا دار الحکومت مشہور تاریخی شہر قازان ہے ۔
           تاتارستان کے زیادہ تر لوگ تاتاری قومیت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ان کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ کل آبادی کا 53 فیصد ہیں ۔ تقریبا 39 فیصد آبادی یعنی 10 لاکھ لوگ روسی قومیت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کو 1552ء میں تاتارستان پر روسی قبضے کے بعد مقامی مسلم لوگوں کی زمینیں چھین کر آباد کیا گیا اور تب سے یہ لوگ یہاں پہ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ ساڑھے 3 فیصد چواش ،0.5 فیصد ماری اور 0.64فیصد ادمرت بھی تاتارستاں میں رہتے ہیں اور تاتاری زبان بولتے ہیں ۔ اس کے علاوہ قازاق ، ازبک ، باشکیر ، لزگین ، یوکرینی اور آذربائيجانی (آذری) بھی آباد ہیں ۔
           تاتارستان کی تاتاری آبادی کا مذہب اسلام ہے اور زیادہ تر لوگ سنی ہیں لیکن شیعہ بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں اور ایک چھوٹی سی اقلیت کیراشین تاتار آرتھوڈکس عیسائی ہیں ۔ روسی زیادہ تر آرتھوڈکس عیسائی ہیں جب کہ ان میں کچھ تعداد میں مسلمان بھی ہیں ۔
            تاتارستان میں اسلام ابن فضلان کے اس علاقے میں 922ء میں سفر کے دوران بغداد کے مبلغین کے ذریعے پہنچا ۔
    تاتارستان کو 1550ء میں زار روس ایوان چہارم ( روسی میں ایوان گروزنی یعنی ایوان خوفناک) کی فوجوں نے فتح کیا اور 1552ء میں قازان کا سقوط عمل میں آیا ۔ اس کے ساتھ ہی روسیوں نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے ، تاتاری مسلمانوں کی آبادی کے تیسرے حصے کو تہ تیغ کر دیا ، کچھ کو بزور شمشیر عیسائی بنا لیا گیا ۔ قازان شہر میں گرجے گھر بنا ديے گئے اور اس علاقے کی تمام مساجد کو گرا دیا گیا اور روسی حکومت نے مساجد کی تعمیر پر پابندی لگا دی ۔ زار روس ایوان چہارم نے تاتار مسلمانوں کے نشان ہلال کو گرجا گھروں میں صلیب کے نیچے یا پیروں میں لگانے کا حکم دیا اور اس کو مسلمانوں پر عیسائیوں کی فتح کا نشان قرار دیا ۔ آج بھی روس کے تمام پرانے اور بہت سے نئے گرجا گھروں میں صلیب کے نیچے چاند دیکھا جاسکتا ہے ۔ اور یہاں کے رہنے والے اکثر تاتاری مسلمانوں کو صلیب کے نیچے چاند لگانے کی وجہ معلوم نہیں کیونکہ روسیوں نے تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا ہے ۔ تاتارستان کے علاقے اور سائبیریا میں 15ویں صدی کے وسط سے 20 ویں صدی کے وسط تک دسیوں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، لیکن تاریخ اس کے بارے میں خاموش ہے اور مقامی مسلمان بھی اے نے بے حبر ہیں کیونکہ روسی سلطنت اور سویت اتحاد نے ان حقا‏ق کو دنیا کی نظروں سے چھپا کے رکھا ہے ۔ اب اس بارے میں یہاں کے مقامی مسلمانوں میں شعور بے دار ہو رہا ہے اور یہاں سے چھپنے والے ان کے چند ایک اخبارات مین ان اس بارے میں حقائق شائع ہو رہے ہیں ۔ تاتارسان کے کریملن میں قائم مسجد شہید کر کے یہاں گرجا قائم کر دیا گیا اور تاتارستان میں مساجد تعمیر کرنے پر پابندی 18ویں صدی تک رہی اور اس پابندی کو ملکہ کیتھرائن دوم نے ختم کیا اور پہلی مسجد 1770ء -1766ء میں کیتھرائن دوم کی سرپرستی میں بنائی گئی ۔ سویت اتحاد کے خاتمے کے بعد تاتارستان اک نیم خودمختار جمہوریہ بنا تو قازان شہر کی کریملن میں قل شریف مسجد دوبارہ تعمیر کر دی گئی ۔
            تاتارستان 19ویں صدی عیسوی میں یہودیت اور صوفی اسلام کا مرکز بنا اور تاتاری مقامی مذہبی روایات کی وجہ سے پوری روسی سلطنت میں دوسرے لوگوں سے دوستانہ تعلقات کی وجہ جانے جاتے تھے ۔ لیکن 1917ء کے انقلاب روس یا کیمونسٹ انقلاب کے بعد مذہب پسندوں کو دبا دیا گیا ۔ 1918ء سے 1920ء کی روسی خانہ جنگی دے دوران تاتار قوم پرستوں نے " ادیل یورال " کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنے گی کوشش کی ۔ جس میں انہیں عارضی کامیابی ملی ، کیونکہ انقلاب میں کامیابی ملنے کے بعد بالشویکوں یعنی سوویت ملحد کمیونسٹوں  نے اس ریاست کو ختم کر دیا اور 27 مئی 1920 ء کو تاتار خودمختار سویت جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا ، جب کہ وولگا تاتاروں کی اکثریت اس ریاست کی حدود سے باہر تھی ۔
تاتارستان کے دارالحکومت قازان شہر کو مسلمانوں نے قرون وسطیٰ کے اوائل میں قائم کیا تھا اور ترقی کے مختلف مدارج طے کرنے کے بعد یہ شہر 1438ء میں خانان قازان کی ریاست کا دارالحکومت بنا۔ 1552ء میں ایوان مہیب کی قیادت میں روس نے قازان پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ شہر میں زبردست قتل عام کیا گیا اور باقی بچ جانے والوں مسلمان باشندوں کو یا تو عیسائی بنا دیا گیا یا پھر زبردستی شہر سے بے دخل کر دیا گیا۔ ان کی جگہ روسی آبادی کو شہر میں بسایا گیا۔ اس کےعلاوہ روسیوں نے مسلمانوں کی قائم کردہ تمام مساجد اور محلات کا بھی خاتمہ کر دیا۔
1774ء کی جنگ قازان میں شہر ایک مرتبہ پھر مکمل طور پر تباہ ہوا۔ تعمیر نو کے بعد روس کی ملکہ کیتھرین اعظم نے شہر میں مساجد کی تعمیر کی اجازت بھی دے دی جس کےبعد مسجد مرجانی یہاں بننے والی پہلی مسجد تھی۔
انقلاب روس کے بعد اندرون روس اور سائبیریا کے مسلمانوں کی ایک کانگریس نے 12 دسمبر 1917ء کو ریاست ایدل اورال کے قیام کا اعلان کیا جس کا دارالحکومت قازان کو قرار دیا گیا۔ اس آزاد جمہوریہ کے قیام کا مقصد چھوٹی قومیتوں کی جمعیت بنانا تھا جس میں سب اپنی اپنی تہذيب و ثقافت کو تحفظ دے سکیں۔ لیکن اپریل 1918ء میں سوویت روس کی سرخ یعنی سوشلسٹ کمیونسٹ ملحد  افواج نے ریاست پر قبضہ کر لیا اور اگلے تین سالوں تک ہزاروں مسلم و ترک باشندوں کا قتل عام کیا۔ بعد ازاں شہر کی تمام مساجد اور گرجاؤں کو بھی تباہ کر دیا گیا جس میں تاریخی قل شریف مسجد بھی شامل تھی۔اذان،نماز،قرآن،مساجد پر پابندی لگادی گئی۔یہ پابندی ان سوشلسٹ کمیونسٹوں کی طرف سے تھی جو اپنے آپ کو عوام کو بیوقوف بناکر اپنا ہم خیال بنانے کے لئے کہتے ہیں کہ سوشلزم اسلام کے عین مطابق ہے اور سوشلسٹ لوگ مذہب کے خلاف نہیں ہوتے۔یہی جھوٹے نعرے جو اب پاکستان میں لگاکر عوام کو کمیونسٹ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے،اسی طرح کریمیا،تاتارستان،وسط ایشیا،افغانستان میں لگا کر سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار کی گئ لیکن منافق کمیونسٹوں نے اقتدار میں آتے ہی اپنی اسلام دشمنی کا کھل کر اظہار کرنا شروع کر دیا۔خدا کا نام لینا جرم ٹھہرا،مساجد گرادی گئ،لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ایک اندازے کے مطابق وسط ایشیا میں ڈیڑھ کروڑ مسلمان قتل کیے گئے۔یہ وہ نظام ہے جس کو آج منافق کمیونسٹ اسلام کے عین مطابق قرار دے کر عوام کو بیوقوف بناکر پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔
   قل شریف مسجد روس کے علاقے تاتارستان کے دارالحکومت قازان میں واقع مسجد ہے جو روس کی سب سے بڑی مسجد ہے جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
یہ مسجد 16 ویں صدی میں قازان میں تعمیر کی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کے مینار بھی تھے۔ اسے روایتی وولگا بلغاریہ انداز میں تیار کیا گیا تھا لیکن یورپی نشاۃ ثانیہ کے اولین دور کا اور عثمانی انداز بھی استعمال کیا گیا تھا۔ 1552ء میں سقوط قازان کے بعد روسیوں نے اس مسجد کو شہید کر دیا۔
تاتار دانشوروں کا کہنا ہے کہ قل شریف مسجد کے چند عنصر ماسکو میں قائم مشہور سینٹ بازل گرجے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن میں 8 مینار اور ایک مرکزی گنبد شامل ہے جو روایتی روسی طرز تعمیر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ 1996ء میں اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کا آغاز ہوا جو جدید طرز تعمیر کی حامل ہے۔ نئی مسجد کا افتتاح 24 جولائی 2005ء کو ہوا۔
       تاتارستان 1553ء سے ، روسی سلطنت کے اس پے قبضے سے 1917ء کے انقلاب روس تک روسی سلطنت میں شامل رہا اور 1917ء سے 1990ء تک سویت اتحاد میں روسی سویت وفاقی سوشلسٹ جمہوریہ میں ایک خودمحتار جمہوریہ کے طور پر شامل رہا ۔ 30 اگست 1990ء کو تاتارستان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور 1992ء ميں وفاق روس سے آزادی کے لئے ریفرینڈم کروایا گیا ، جس میں 62 فیصد لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ۔ 15 فروری 1994ء میں تاتارستان کی حکومت او روسی وفاقی حکومت کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ، جس کی رو سے تاتارستان دوسرے ملکوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کر سکتا ہے ۔ یہ معاہدہ وفاق روس کی طرف سے تاتارستان کی آزادی کو عارضی طور پر ماننے کے مترادف ہے ، کیونکہ اس معاہدے میں تاتارستان کے اقتدار اعلی کو تسلیم کیا گیا ہے ۔
سوویت اتحاد کے خاتمے کے بعد ہی شہر ترقی کی راہ پر آ سکا۔ شہر کے تاریخی مرکز کو ازسر نو تعمیر کیا گیا جن میں سب سے نمایاں قل شریف مسجد ہے، جو اب روس کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔
 

حوالہ جات:

https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قل_شریف_مسجد
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قازان
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/تاتارستان

نیچے تاتارستان کا نقشہ اور مشہور مساجد اور ایک گرجا گھر کی تصویریں ملاحظہ کیجیے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔