Monday 28 January 2019

کیا قرآن کے مطابق زمین ہموار یعنی فلیٹ ہے؟کیا اس معاملے پر سائنس اور قرآن میں اختلاف ہے؟ ملحدین و مستشرقین کا قرآن پر ایک سائنسی اعتراض اور اس کا جواب

کیا قرآن کے مطابق زمین ہموار یعنی فلیٹ ہے؟کیا اس معاملے پر سائنس اور قرآن میں اختلاف ہے؟
ملحدین و مستشرقین کا قرآن پر ایک سائنسی اعتراض اور اس کا جواب
ترجمہ و ترتیب و اضافہ۔۔۔احید حسن
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ملحدین و مستشرقین قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار یا فلیٹ ہے اور اس کے لیے وہ قرآن کی دیگر آیات کے ساتھ ایک آیت والارض مددنھا پیش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کو پھیلایا گیا اور اس پھیلائے جانے سے مراد وہ یہ لیتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار ہے جب کہ سائنس کے مطابق زمین گول ہے۔اس اعتراض کی حقیقت کیا ہے۔اس کا جائزہ ہم قرآن مجید کی آیات سے واضح کریں گے ان شاء اللہ۔
قرآن پاک کے مطابق جب دن اور رات ملتے ہیں تو وہ ایک گیند یا کرہ بناتے ہیں۔قرآن مجید کی ایک آیت ہے
"اللٰہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو برحق پیدا کیا۔دن رات کو ڈھانپتا ہے اور رات دن کو( قرآن نے یُکَوِّرُ کا لفظ استعمال کیا ہے) سورج اور چاند اس کے تابع ہیں اور یہ سارے  اپنے مقررہ منزل پرحرکت میں ہیں( کُل یَجرِی)۔کیا وہ اللٰہ شان و شوکت والا اور بخشنے والا نہیں ہے؟"
عربی لفظ کرہ کا معنی گیند ہے۔قرآن کا لفظ یُکَوِّرُ یعنی گیند میں بدلنا اس کا فعل ہے۔قرآن کہتا ہے کہ دن اور رات کا ملنا ایک کرہ یا گیند بناتا ہے اور یہ کرہ تب ہی ممکن ہے جب ڈھانپی گئ چیز گول ہو ورنہ ایک ہموار شے کو تو کوئ بھی چیز ڈھانپ سکتی ہاور اس کے بیان میں کرہ کا لفظ لازم نہیں تھا۔
یہاں استعمال کئے گئے عربی لفظ کور کا مطلب ہے کسی ایک چیز کو دوسری پر منطبق کرنا یا (ایک چیز کو دوسری چیز پر) چکر دے کر (کوائل کی طرح) باندھنا ۔دن اور رات کو ایک دوسرے پر منطبق کرنا یا ایک دوسرے پر چکر دینا صرف اسی وقت ممکن ہے جب زمین کی ساخت کر وی ہو۔
زمین کسی گیند کی طرح بالکل ہی گول نہیں بلکہ ارضی کر وی (Geo spherical) ہے، یعنی قطبین(Poles ) پر سے تھوڑی سے چپٹی (Flate) ہوتی ہے۔
 یہاں قرآن واضح طور پر یہ بھی کہ رہا ہے کہ سارے کے سارے حرکت میں ہیں۔عربی گرائمر میں واحد ، دو اور جمع کے لیے الگ الگ صیغہ استمعال ہوتا ہے۔اگر قرآن کے مطابق صرف چاند اور سورج حرکت میں ہوتے تو قرآن اس کے لیے کلاھما یجریان یعنی وہ دو چاند اور سورج حرکت میں ہیں۔جب کہ قرآن نے کل یجری کا لفظ استعمال کیا جس کے مطابق زمین،سورج اور چاند سب حرکت میں ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ زمین کا ایک قطر یا ڈایامیٹر ہے اور قطر یا ڈایامیٹر کسی دائرے یا رداس کا دوگنا ہوتا ہے(قرآن 55،33)
"اے جن و انس کی جماعت!زمین و آسمان کے اقطار یا قطر سے نکل کر دکھاؤ اگر تم ایسا کر سکتے ہو اور یہ تم بغیر قوت و طاقت کے نہیں کر سکتے۔"
ڈایامیٹر کو عربی میں قطر کہتے ہیں اور رداس اور قطر کا لفظ صرف تب استعمال ہوتا ہے جب کوئ چیز گول ہو۔اس سے صاف واضح ہورہا ہے کہ قرآن کے مطابق زمین گول ہے۔
قرآن سورہ 50،آیت نمبر سات کے مطابق
"اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا۔۔مددنھا۔۔۔اور اس کے اندر پہاڑ گاڑ دیے اور اس کے اندر ہر طرح کے پودوں کا ایک جوڑہ پیدا کردیا۔"
اس میں قرآن کہتا ہےکہ اللہ تعالی نے زمین کو پھیلا دیا۔قرآن نے والارض مددنھا کے الفاظ استعمال کیے جس کا عربی گرائمر میں ترجمہ سطحی رقبے یا سرفیس ایریا کو زمین کی  تخلیق کے دور ان وسعت دینا ہے۔اس سے بالکل یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن زمین کو ہموار یا فلیٹ کہتا ہے۔
ہموار یا فلیٹ کے لیے عربی میں مسطح کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا فعل سطح ہے۔لیکن قرآن نے ان میں سے کوئ بھی لفظ استعمال نہیں کیا۔قرآن کہتا ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے زمین کووسعت دی جس کا مطلب ایک دائرے یعنی گول زمین کے سطحی رقبے کو وسعت دینےکا ہے۔
ہمارا نظام شمسی 57•4 بلین سال قدیم ہے۔زمین ہمارے سورج اور نظام شمسی کے ساتھ آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے بننا شروع ہوئ لیکن بننے کے فوری وقت ہی اس کا رداس یا ریڈیس 6400 کلومیٹر نہیں تھا بلکہ یہ چند کلومیٹر سے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا کیونکہ جیسے جیسے رداس بڑھتا ہے سطحی رقبہ بڑھتا ہے۔اس کی ریاضیاتی مساوات
surface area = 4πR2 ہے۔لہذا قرآن بالکل ٹھیک کہتا ہے کہ زمین کا سطحی رقبہ پھیلایا گیا۔یہ بائیبل کے بیان کے بالکل برعکس ہے جس کے مطابق زمین کو ایل ہی بار پیدا کیا گیا۔
 درج ذیل آیت مبارک میں زمین کی ساخت کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔
وَلْاَرْضَ بَعْدَ ذٰٰٰٰلِکَ دَحٰھَا
ترجمہ:۔پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے کی طرح بنایا۔
یہاں عربی عبارت دَ حٰھَا استعمال ہوئی ہے۔ جس کا مطلب ہے شتر مرغ کا انڈہ ۔ شتر مرغ کے انڈے کی شکل زمین کی ارضی کروی ساخت ہی سے مشابہت رکھتی ہے۔ پس یہ ثابت ہو ا کہ قرآن پاک میں زمین کی ساخت بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کی گئی ہے، حالانکہ نزول قرآن پاک کے وقت عام تصور یہی تھا کہ زمین چپٹی یعنی پلیٹ کی طر ح ہموار ہے۔
القرآن ، سورة لقمٰن، سورة ٣١ : آیت ٢٩
↑ القرآن ، سورة الزُمر، سورة ٣٩ : آیت ٥
↑ القرآن ، سورة النٰزعٰت، سورة ٧٩: آیت ٣٠
مولانا عبدالرحمان کیلانی  اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:  '' دحیٰ اور طحیٰ دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔ صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں، کہتے ہیں دحی المطر الحصٰی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا کر لے گئی۔ گویا ان دونوں الفاظ کامعنی دور دور تک بچھا دینا ہے نیز دحیٰ کے مفہوم میں گولائی کاتصور پایاجاتاہے۔ دحوہ شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے گول ہونے پر استدلال کیاہے۔''
وکی آن لائن ڈکشنری پر بھی ان الفاظ ، دحی اور دحیہ کے معانی دیکھے جاسکتے ہیں۔جبکہ سائنسدان زمین کی شکل کو  “Oblate Spheroid “  کی طرح کا قرار دیتے ہیں یعنی ایسی چیز جو قطبین پر شلجم کی طرح چپٹی ہو۔
اس آیت مبارکہ کی پرانی تشریحات میں اس کے معنی اس طرح ہیں "اس نے زمین کو پھیلا دیا" ۔ جبکہ istanbul faculty of theology کے H.B.Cantay اور ڈاکٹر علی اوزیک نے اپنی تفسیر میں اس کے وہ معنی دئیے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔
تشریحات میں فرق لفظ دحٰها کے معنی میں‌ اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ماخذ یا اشتقاق شتر مرغ سے نسبت رکھنے والے معانی سے ملتے جلتے ہیں۔
آئیے ان کی چند مثالیں دیکھتے ہیں:
الادحیۃ : شتر مرغ کا گھونسلا ، یا ریت میں انڈے دینے کی جگہ یا کھڈا۔
الادحوۃ : شتر مرغ کے انڈے کی جگہ
تداحیا: ایک سوراخ میں پتھر ڈالنا
علم زبان کے ماہر etymologist شمس الدین نے لغت میں‌ مدحی کے معنی شتر مرغ کے انڈے کا سوراخ یا گڑھا بیان کیا ہے۔ جبکہ کے بیضاوی کے نزدیک بھی "دحا" کے معنی بیضوی کے ہی ہیں۔ یہ اس لفظ کے اصل معنی نہیں ہیں۔ پرانے وقتوں میں چونکہ "دحا" کے لئے انڈے کی شکل کا ہونا بے معنی سمجھا گیا ، اس لئے اس کو پھیلانے کے معنی دے دئیے گئے۔
"دحا" کے اصل معنی شتر مرغ کے انڈے کے ہیں۔ علم زبان کے اصولوں کے تحت تمام عربی لغات نے مدحی کو شتر مرغ کے انڈے کے گڑھے یا سوراخ کے برابر قرار دیا ہے۔ م کو الگ کرنے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے شتر مرغ کا انڈا کہا ہے مگر "دحی" کو پھیلانے سے مماثلت دی گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظریات زمین کی شکل کے معاملہ میں انتہائی وضاحت کے حامل ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جنہوں نے اس آیت مبارکہ کی تشریح کے سلسلے میں "پھیلانے" کا مفہوم لیا ہے وہ بھی مکمل غلطی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہ ثانوی معنی ہیں اور قابل قبول ہیں۔ میری اپنی رائے بہر حال یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ کے معنی اس طرح ہیں "اور پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے جیسی شکل دی" ۔ اب اس سے پلے کہ میں تفسیر بیان کروں میں ایک اور نکتے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ کئی صدیوں قبل کے مشہور مفسروں جن میں بیضاوی ، رازی ، ابو السعود اور مدارک شامل ہیں ، نے اعلان کیا ہے کہ تخلیق کے وقت زمین پر کوئی جاندار چیز نہیں تھی اس لئے کہ وہ اس وقت آگ کی طرح تپتی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ اعلان اس وقت کیا جبکہ ان کے پاس موجودہ دور جیسی کسی قسم کی سائنسی معلومات نہیں تھیں۔ ان کے علم کی بنیاد صرف قرآنی سائنس ہی تھی۔ ان لوگوں کے ادراک اور قرآن فہمی کی تعریف نہ کرنا ناممکن ہے۔
اب ہم پھر اس علم کی طرف آتے ہیں جس کے تحت اس آیت کی تعبیر زمین کی بیضوی شکل کی نسبت سے متعلق ہے۔
(الف) تمام مخلوقات کے انڈوں میں سے شتر مرغ کا انڈا ہی ہے جو ایک کرے سے نزدیک ترین مشابہت رکھتا ہے۔
(ب) کرہ زمین کے شمالی اور جنوبی قطبین کا قطر diameter ، زمین کے خط استوا کی طرف سے قطر کی نسبت سے ، زمین کی جو شکل بناتا ہے وہ بیضوی ellipsoid ہے۔ خاص طور پر یہ زمینی صورت ، زیادہ صحیح طور پر کچھ بگڑی ہوئی ہے جیسے کہ ناشپاتی کی شکل ہوتی ہے ، اسے جیوائڈ Geoide کہتے ہیں۔ زمین کا استوائی ریڈیس 6373 کلومیٹر ہے جبکہ زمین کا قطبین کی طرف سے ریڈیس 6356 کلومیٹر ہے۔
(ج) یہ آیت مبارکہ واضح طور پر زمین کی شکل گولائی میں ظاہر کرتی ہے۔ مزید برآں اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی ابتدائی صورت میں زمین اس موجودہ شکل میں نہیں تھی۔ دراصل زمین کی سطح سخت solidification ہونے سے قبل زمین کی کوئی مخصوص شکل نہیں تھی۔ کائناتی طبیعات Astro-Physics کے مطابق زمین کی تخلیق کے دو نظریات ہیں ایک نظریے کے مطابق زمین پہلے سورج کا حصہ تھی جو ایک ٹکڑے کی طرح اچھل کر علیحدہ ہوگئی۔ جبکہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ سورج اور زمین دونوں ہی ایک سحابیہ Nebula سے دھماکے سے علیحدہ ہوئے۔ دونوں نظریات یہ مانتے ہیں کہ شروع میں زمین کسی مخصوص شکل کے بغیر تھی جس نے بعد میں بیضوی گول شکل اختیار کرلی۔ چناچہ یہ آیت کھلے طور پر زمین کی شکل بیضوی یا تکنیکی زبان میں Ellipsoidal ظاہر کرتی ہے
زمین کی گولائی والی شکل اور پھر جیسا کہ میں نے موضوع نمبر 8 میں بیان کیا (زمین کی محوری حرکت) جنہیں قرآن نے متعدد آیات میں عیاں کیا ہے ، ان لوگوں کے لئے ایک مکمل اور خوبصورت جواب ہے جو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اس آیت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اسے سورۃ النٰزعٰت میں بیان کیا گیا جو تخلیق سے متعلق متعدد اسرار کو بیان کرتی ہے۔ مزید یہ کہ آیات نمبر 28 سے نمبر 30 تک زمین کی تخلیق کا خلاصہ دے دیا گیا ہے۔ آیت 31 یہ اعلان کرتی ہے کہ جب زمین نے بیضوی شکل اختیار کرلی تو بالترتیب پہلے اس پر پانی کا انتظام کیا گیا۔ پھر اس پر ابتدائی نباتات کو چارے کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ جدید دور کے ارضی طبیعات کے علم کے نظریات اس ترتیب سے پوری طرح متفق ہیں۔ جب زمین نے اپنی بیضویشکل اختیار کرلی تو پھر اس پر کرہ آب (قشر ارض کا آبی حصہ بشمول سمندر اور سارے پانی کے) وجود میں آگیا اور سمندوں کی تشکیل ہوئی۔ نباتاتی حیات بعد میں ظہور پذیر ہوئے۔
اور اگر اسے شتر مرغ کے انڈہ دینے کی جگہ جیسا بھی کہ دیا جائے تو پھر بھی زمین کا بیضوی ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ جس جگہ انڈہ ہوتا ہے اس کے نیچے کی مٹی یا ریت خود بخود انڈے جیسی بیضوی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اگر اس آیت پر تحقیق اس مکمل ہم آہنگی کی بنیاد پر کی جائے تو اس کے مکمل اور معجزاتی علم اور دانائی کو با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
جس آیت سے اس کا ہموار ہونا معلوم ہوتا ہے وہ ہمارے دیکھنے کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے، جب ہم ایک جگہ یا کسی میدان میں کھڑے ہوکر اپنی نظر دوڑاتے ہیں ورنہ قرآن کے مطابق زمین گول ہے۔
اگر کسی مستطیل چیز کو بھی دور سے دیکھا جائے تو وہ بیضوی نظر آتی ہے اور اگر یہ دوری مزید بڑھ جائے تو وہ چیز بالکل گول نظر آنے لگتی ہے
سائنس دانوں کا زمین کے گول یا بیضوی ہونے کا جھگڑا اسی مقدمہ کیوجہ سے ہے۔
 قرآن یہ کہتا ہے کہ زمین کو تمہارے لیئے بچھونا بنا دیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمین چپٹی اور ہموار ہے۔ کیا یہ بات مسلمہ جدید سائنسی حقائق کے منافی نہیں؟"
اس سوال میں قرآن کریم کی سورہ نوح کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ بِسَاطًا (١٩)
"اور اللہ نے تمہارے لیئے زمین کو بچھونا بنایا ہے۔"
(سورۃ نوح 71 آیت 19)
لیکن مندرجہ بالا آیت کا جمہ مکمل نہیٰں، جمہ اس سے اگلی آیت میں جاری ہے جو پچھلی ایات کی وضاحت کرتا ہے۔ اس میں ارشاد ہے۔:
لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلا فِجَاجًا (٢٠)
" تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں پر چل سکو۔"
( سورۃ نوح 71 آیت 20)
اسی طرح کا ایک پیغام سورۃ طہٰ میں دہرایا گیا ہے:
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلا (٥٣)
"وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے چلنے کے لیئے اس میں راستے بنائے۔ "
( سورۃ طہٰ 20 آیت 53
زمین کی بالائی تہ یا قِشُر ارض کی موٹائی 30 میل سے بھی کم ہے اور اگر اس کا موازنہ زمین کے نصف قطر سے کیا جائے جس کی لمبائی 3750 میل ہے تو قشر ارض بہت ہی باریک معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ گہرائی میں واقع زمین کی تہیں بہت گرم، سیال اور ہر قسم کی زندگی کے لیئے ناسازگار ہیں، قشر ارض کا ٹھوس صورت اختیار کر لینے والا وہ خول ہے جس پر ہم زندہ رہ سکتے ہیں، لہذا قرآن مجید بجا طور پر اس کو ایک بچھونے یا قالین سے مشابہ قرار دیتا ہے تاکہ ہم اس کی شاہراہوں اور راستوں پر سفر کرسکیں۔
اور جہاں قرآن نے بچھونے کی بات کی تو اس کا واضح مطلب بھی قرآن نے بیان کر دیا کہ تاکہ تم راستوں میں سفر کر سکو اور زمین پر موجود ایک شخص کو ظاہری طور پر زمین ہموار چپٹی معلوم ہوتی ہے۔ورنہ قرآن کی کوئ آیت ایسی نہیں جس میں زمین کے مطلق گول ہونے کا انکار کر کے اسے ہموار قرار دیا گیا ہو۔قرآن نے مختلف مقامات پر زمین کے گول ہونے کا اشاروں میں بیان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ انسانوں کی آسانی کے لیے اسے کشادہ کیا گیا بچھونے کی طرح۔ان آیات سے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ زمین ہموار چپٹی ہے جب کہ خود قرآن کی دوسری آیات سے زمین کا واضح گول ہونا معلوم ہوتا ہے۔
اگر ہم عربی لغت کا مطالعہ کریں تو جن آیات سے زمین کے ہموار یا فلیٹ ہونے کا تصور ہوتا ہے،اس سے اور وضاحت سامنے آتی ہے
۔ لفظ ” مھد “و ” مھاد “ کامفہوم : دونوں ایسی جگہ کے معنی میں ہیں کہ جوبیٹھنے ، سونے اور آرام کرنے کے لیے تیار کی گئی ہواور اصل میں لفظ ” مھد “ اس جگہ کو کہاجاتاہے کہ جس میں بچہ کوسلاتے ہیں(گہوارہ یا اسی قسم کی کوئی چیز ) ۔
گویاانسان ایک ایسابچہ ّ ہے کہ جسے زمین کے گہوارے کے سپردکیاگیاہے اوراس گہوارے میں غذااوراس کی زندگی تما م وسائل موجود ہیں ۔
اس طرح یہ لفظ جس سے زمین کے ہموار ہونے کا گمان ہوتا ہے،اس کی عربی تشریح اور لغت اور کہانی بتاتی ہے۔زمین کو اللٰہ تعالٰی نے انسان کا گہوارہ قرار دیا جیسا کہ بچے کے سکون اور آرام کا گہوارہ ہوتا ہے۔ اور آگے اپنی تعریف کی کہ ہم بہت اچھا گہوارہ تیار کرنے والے ہیں لیکن ملحدین نے قرآنی لفظ ماھدون کا جان بوجھ کر غلط ترجمہ ہموار کرنے والے پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے۔اس آیت سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ زمین ہموار چپٹی ہے۔
اور عربی لغت میں فرش کا معنی قالین،کمبل،میدان سب معنوں میں استعمال ہوتاہے اور یہ لفظ کسی بہت بڑے کروی جسم یعنی زمین کے سطحی رقبے کے لیے استعمال کیا جائے تواس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس اے اس کے کروی یا گول ہونے کا انکار ہوگیا اور جہاں قرآن زمین کے پھیلاؤ کے لیے بساطا کا لفظ استعمال کرتا ہے تو یہ جان لیجئے کہ بساط کا لفظ بسط سے نکلا ہے جس کا معنی پھیلانا ہے اور یہ معنی ایک بار پھر زمین جیسے ایک گول جسم کے سطحی رقبے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس لفظ کے استعمال سے اس لفظ کے کہنے والے پر اس جسم کے گول ہونے کا انکار نہیں آتا۔ اور جب قرآن زمین کے بارے میں سُطِحَت یعنی پھیلائ گئ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو جان لیحیے کہ یہ لفظ سطح سے نکلا ہے اور یہاں پھیلاؤ سے مراد ایک کروی یعنی گول جسم یا زمین کاوہ سطحی رقبے کے حوالے سے پھیلاؤ ہے جب وہ تخلیق کی گئ اور جب قرآن کہتا ہے کہ والارض و ماطحاھا  تو اس کا معنی عربی لغت میں دوبارہ پھیلاؤ ہے جو کہ ایک بار پھر ایک کروی جسم یا زمین کے سطحی رقبے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔یہ پڑھیے
الطَّحَا : المنبسطُ من الأَرض
طحا ( فعل ):
طحا / طحا بـ يطحو ، اطْحُ ، طَحْوًا ، فهو طاحٍ ، والمفعول مطحوّ
طحا اللهُ الأرضَ : مدَّها وبسطها
آگے ملحد لکھتا ہے کہ
قرآن 2:22
الذي جعل لكم الارض فراشا والسماء بناء وانزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات رزقا لكم
ترجمہ: وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔
اسلام یہ نظریہ لے کر آیا تھا کہ زمین کے اوپر آسمان کثیر المنزلہ عمارت کی طرح ہیں۔ یہ کُل 7 تہیں یا منزلیں ہیں جنہیں 7 آسمان کہا جاتا ہے۔ یہ 7 آسمان زمین کی چپٹی سپاٹ سطح کے اوپر کھڑے کیے گئے ہیں۔
اس میں ملحد نے ایک بار پھر زمین کو قرآن سے ہموار ثابت کرکے قرآن پر اعتراض کی کوشش کی جب کہ زمین کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے ہی نہیں۔باقی جہاں تک سات آسمان کی بات ہے تو اج تک سائنس پہلے آسمان یعنی جو ہمیں زمین سے نظر آتا ہے،اس کی حدود دریافت نہیں کر سکی تو باقی آسمانوں پر اعتراض اور ان کا انکار کیسا۔پہلے تو پہلے آسمان کی حدود متعین کر لی جائیں اور پھر اعتراض کیا جائے لیکن سائنس ایک خاص حد کے بعد اپنی بے بسی کا اعلان کر کے باقی ساری کائنات کو ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی قرار دے دیتی ہے۔جب پوری کائنات کی ساری حدود دریافت کر لی جائیں اور سات آسمانوں کا وجود دریافت نہ ہو تو پھر کوئ اعتراض کرے۔جب کہ سائنس آج تک اس کائنات کے ایک فیصد راز بھی دریافت نہیں کر سکی۔پھر قرآن پر اعتراض کیسا اور اس کا انکار کیسا۔کیا کسی چیز کا نہ ملنا اس کے وجود کا انکار ہوسکتا ہے جب کہ ڈھونڈنے والا اپنی بے بسی کا خود اعتراف کر چکا ہو؟۔
والارض بعد ذلک دحٰها النزعت 79 ، آیت 30
اور پھر اس نے زمین کو بیضوی(شتر مرغ کے انڈے) کی شکل دی۔
علاوہ ازیں  یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان روزاول سے زمین کے کروی ہونے پر یقین رکھتے تھے ۔ اس کا ثبوت ماہرجغرافیہ دان محمد الادریسی  (1099–1165 or 1166) کاوہ  پہلہ عالمی نقشہ ہے جو اس نے 1154ء میں بنایاتھا۔اس میں زمین کے جنوبی حصے کو اوپر کی جانب دکھایا گیا تھا۔
اسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اسحاق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی نے 1080 ء میں سورج اورزمین ،دونوں کے محوِحرکت ہونے کانظریہ پیش کیا تھا،اس کے مطابق سورج اورزمین میں سے کوئی بھی مزکزِکائنات نہیں اور زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد بیضوی مداروںمیں حرکت کرتے ہیں ۔
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ زمین کو ’’ کرویہ ‘‘ یعنی بیضوی مانتے ہیں ،
ان کی رسمی یعنی (official ) ویب سائیٹ پر ان کا اپنا یہ بیان ہے کہ :
’’ الأرض كروية عند أهل العلم، قد حكى ابن حزم وجماعة آخرون إجماع أهل العلم على أنها كروية، يعني أنها منضمٌ بعضها إلى بعض مدرمحة، كالكرة، لكن الله بسط أعلاها لنا فجعل فيها الجبال الرواسي، وجعل فيها الحيوان والبحار رحمةً بنا، ولهذا قال: وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ [(20) سورة الغاشية]. فهي مسطوحة الظاهر لنا ليعيش عليها الناس ويطمئن عليها الناس، فكونها كروية لا يمنع تسطيح ظاهرها ؛ لأن الشيء الكبير العظيم إذا سُطح صار له ظهرٌ واسع ‘‘
یعنی اہل علم کے نزدیک زمین کروی (گول ، بیضوی ) ہے ، امام ابن حزم ؒ اوردیگر کئی حضرات نے بیان کیا ہے کہ زمین کے کرویہ ہونے پر اجماع ہے ،رابطہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور ان کے مجموع فتاوی ابن باز میں کم از کم تین مقامات پر انکی یہ تردید موجود ہے کہ میں کبھی زمین کے کروی ہونے کی نفی نہیں کی۔
ملحد کہتا ہے کہ سعودی عالم شیخ عبدالعزیز بن باز نے زمین کے گول ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ سارے اسلامی علماء زمین کو ہموار چپٹی مانتے ہیں۔یہاں ملحد نے جھوٹ بولا ہے۔شیخ عبدالعزیز بن باز اپنی ذات پر لگائے جانے والے اس الزام کی تردید کرچکے ہیں اور وہ خود لکھتے ہیں کہ قدیم اہل علم جیسا کہ ابن حزم کے نزدیک زمین گول ہے۔
آگے ملحد لکھتا ہے کہ اسلام کی آمد کے تین سو سال بعد تک کسی نے زمین کو گول قرار نہیں دیا۔ملحدین کی خدمت میں عرض ہے کہ ان تین سو سال تک یہ بحث شروع ہی نہیں ہوئ تھی کہ زمین گول ہے یا چپٹی کیونکہ تب تک سائنسی تعلیمات اور تحقیقات اچھی طرح فروغ پذیر نہیں ہوئ تھی۔جب سائنس کا تصور فروغ پذیر ہوا تو ابن حزم  اور ابن تیمیہ جیسے علماء نے بالکل زمین کے گول ہونے کا انکار نہیں کیا بلکہ ابن تیمیہ نے تو یہاں تک کہا کہ تمام اسلامی عالم زمین کے گول ہونے پر متفق ہیں۔ملحد کہتا ہے کہ تین سو سال تک کسی نے گول نہیں کہا۔ملحد ایک بھی ایسا عالم ثابت کر دے جس نے اسلام کے ابتدائی تین سو سال میں زمین کے گول ہونے کا انکار کیا ہو۔اگر اتنے عرصے میں سائنسی تعلیمات نہیں تھی تو پھر تاخیر سے گول کہنے پر اعتراض کیسا جب کہ کسی نے اس عرصے میں زمین کو ہموار بھی نہیں کہا تھا۔
 آگے ملحد نے دعوی کیا ہے کہ طبری اور ابن کثیر کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے لیکن میں نے جب ابن کثیر کی زمین کے حوالے سے قرآنی آیات کی تفسیر کا مطالعہ کیاتو مجھے ایسی کوئ بات نہیں ملی۔یہاں ملحد نے ایک بار پھر جھوٹ بولا۔جب کہ اس نے طبری کا بیان کرتے ہوئے حوالہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ابتدائی اسلامی اہل علم اس بات پر متفق تھے کہ زمین گول ہے۔
ملحد کہتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی تین سو سال میں کسی نے زمین کو گول نہیں کہا جب کہ اسلام کی آمد کے دوسو سال بعد مامون کے دور میں زمین کو گول تصور کر کے اس کے قبر کی پیمائش کی جا چکی تھی۔
ویکی پیڈیا کے مطابق قدیم مسلمان نہ سرف زمین کو گول تسلیم کرتے تھے بلکہ اس سائنسی تصور کو سمت قبلہ معلوم کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔
جب سے مسلمان سائنسی تعلیمات سے متعارف ہوئے ہیں تب سے اب تک یعنی 830ء سے اب تک مسلم مذہبی علماء سمیت  مسلمانوں کی اکثریت زمین کے گول ہونے پر متفق رہی ہے۔
اب تک کی بحث سے ہم ثابت کر چکے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین گول بیضوی ہے اور اسی رائے پر اہل اسلام کی اکثریت متفق رہی ہے۔ملحدین کا یہ اعتراض کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے محض جھوٹ اور دھوکا بازی پر مبنی ہے۔
ھذا ماعندی و اللہ اعلم با الصواب

حوالہ جات:
کیا قرآن کے مطابق زمین ہموار اور چپٹی ہے؟بنیامین مہر
http://www.speed-light.info/miracles_of_quran/earth.htm
In the 11th century, al-Biruni used spherical trigonometry to find the direction of Mecca from many cities and published it in The Determination of the Co-ordinates of Cities. See Lyons, 2009, p85
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Spherical_Earth
Gharā'ib al-funūn wa-mulah al-`uyūn (The Book of Curiosities of the Sciences and Marvels for the Eyes), 2.1 "On the mensuration of the Earth and its division into seven climes, as related by Ptolemy and others," (ff. 22b–23a)
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Spherical_Earth
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/%D8%B7%D8%AD%D8%A7/

http://makarem.ir/compilation/Reader.aspx?lid=4&mid=65092&catid=6483&pid=62062
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قرآن_اور_فلکیات
 https://www.siasat.pk/forum/showthread.php?422572-زمین-Ú©ÛŒ-حقیقت#ixzz4dqAMfNdZ

http://quraaninurdu.blogspot.com/2010/04/blog-post_6299.html?m=1قرآنی آیات اور سائنسی حقائق
ڈاکٹر ہلوک نور باقی (ترکی)
مترجم: سید محمد فیروز شاہ
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DB%8C%D8%B6%D9%88%DB%8C-%D8%B4%DA%A9%D9%84.26917/

Muhammad Hamidullah. L'Islam et son impulsion scientifique originelle, Tiers-Monde, 1982, vol. 23, n° 92, p. 789.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Spherical_Earth

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔