Tuesday, 15 January 2019

سلطنت عثمانیہ پہ آرمینیائی قتل عام کا الزام، اس کے اصل حقائق اور اس میں یورپ کا منافقانہ کردار

سلطنت عثمانیہ پہ آرمینیائی قتل عام کا الزام، اس کے اصل حقائق اور اس میں یورپ کا منافقانہ کردار
تدوین و اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24 اپریل 1915ء کو اس قتل عام کی شروعات کا دن قرار دیا جاتا ہے جو تاریخ میں ارمنی قتل عام جسے ارمنی ہولوکاسٹ، ارمنی نسل کشی یا عظیم آفت کے نام سے مشہور ہے۔یہ دن سلطنت عثمانیہ کی ارمنی آبادی کے مبینہ قتل عام کے آغاز کا تھا جو ان دنوں مضبوط عثمانی خلیفہ کی جگہ ایک کٹھ پتلی خلیفہ سلطان عبدالمجید دوم کے زیر اہتمام تھی جب کہ حقیقت میں وہ خود سیکولر جوان ترک تحریک کے زیر قبضہ تھی جو سلطنت کے سارے امور چلا رہی تھی۔ اس دن سیکولر ترک جوان تحریک نے قسطنطنیہ میں 250 ارمنی دانشوروں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا۔ ارمنی اور مغربی ذرائع کا الزام ہے کہ اس کے بعد ارمنی باشندوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر سینکڑوں میل تک شامی صحرا کی خاک چھاننے کے لیے چھوڑ دیا اور یہ کارروائی بلا تخصیص عمر و صنف کی گئی اور ارمنی خواتین کو جنسی زیادتی و جبر کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ارمنی قتل عام مرگِ انبوہ (Holocaust) کے بعد سب سے زیادہ مطالعہ کیا جانے والا قتل عام ہے۔ان مبینہ واقعات میں قتل عام کے علاوہ جبری ملک بدری اور قید و بند کی صعوبتیں بھی شمار کی جاتی ہیں اور عموماً اس میں 10 سے 15 لاکھ ارمنی باشندوں کے قتل کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔لیکن اندازے آٹھ لاکھ سے اٹھارہ لاکھ کے درمیان ہیں۔[1]آج تک مرنے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں لیکن اکثر مغربی مورخین اسے آٹھ لاکھ سے زائد قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ کی طرف سے پندرہ لاکھ کے قتل کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔[2]  اس کے لیے سب سے پہلے نسل کشی کی اصطلاح پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک یہودی وکیل رفائیل لیمکن نے 1943ء میں پیش کی ورنہ اس سے پہلے کبھی اسے نسل کشی نہیں کہا گیا۔[3،4]
سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں آرمینیائی باشندوں کو ایک ملت تسلیم کیا گیا تھا، ان کا مذہبی نمائندہ قسطنطنیہ میں موجود ہوتا تھا اور آرمینیائی باشندے اپنی عیسائی عبادات اور زندگی میں آزاد تھے بلکہ سلطنت عثمانیہ نے ان علاقوں کا نظام بھی ان کے اپنے مقامی رہنماؤں کے حوالے کر رکھا تھا اور سلطنت ان کے معاملات میں بہت کم مداخلت کرتی تھی۔ ان مقامی آرمینیائی رہنماؤں نے خود کو تو عیاشی میں رکھا جب کہ عوام کی اکثریت غربت کا شکار تھی۔[5]
24 جولائی 1908ء میں جوان ترک تحریک کے افسران نے جن میں بعض خفیہ یہودی بھی تھے، سلطان کو معزول کرکے ملک میں آئینی بادشاہت قائم کر دی۔[6] اس میں دو طرح کے گروہ شامل تھے۔ ایک لبرل آئینی افسران اور دوسرے جوان ترک جو زیادہ شدت پسند قوم پرست اور اسلامی طبقے کے مخالف تھے۔ یہ طبقہ آرمینیائی باشندوں کا بھی بہت بڑا مخالف تھا۔[7]
ان کا ایک خفیہ ونگ Committee of Union and Progress تھا جو مغرب پسند فوجی افسران پہ مشتمل تھا اور ان سب نے مل کر سلطان کو معزول کردیا۔ اس دوران فوج کے اسلام پسند اور سیکولر نوجوان ترکوں میں سلطان کی معزولی پہ جنگ شروع ہوگئی جس میں آرمینیائی عیسائیوں نے سیکولر جوان تحریک کا ساتھ دیا، لہذا جھڑپوں میں ترکوں کے ساتھ پندرہ سے تیس ہزار آرمینیائی بھی مارے گئے۔اس دوران آرمینیا میں روس کے ایما پہ کئ تنظیمیں بن گئیں جیسا کہ   Armenian Revolutionary Federation جن میں سے کئ نے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ سلطان عبدالحمید نے عالمی طاقتوں کو معاہدہ برلن میں یقین دہانی کرائی کہ آرمینیا میں نسلی و مذہبی امتیاز کی خبریں بیجا ہیں اور ساری کاروائی باہر کے عناصر کے ایما پہ ہورہی ہے۔اس دوران ترکی اور دیگر علاقوں میں فسادات میں خود ایک جرمن پادری کے مطابق اٹھاسی ہزار آرمینیائی باشندے مارے گئے لیکن مغربی مورخین اور عالمی طاقتوں نے بڑھا چڑھا کر اس کو تین لاکھ تک بیان کیا۔[8]
اس جنگ میں بلقان سے نکالے گئے مسلمانوں نے بھی حصہ لیا۔1914ء میں جنگ عظیم اول شروع ہوئی اور سیکولر جوان ترک تحریک کے انور پاشا نے روس سے کاکیشس کے علاقے چھیننے کے لیے جنگ کا فیصلہ کیا لیکن اس کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست ہوئی جس کی ذمہ داری اس نے آرمینیائی باشندوں پہ ڈالی۔[9]
سیکولر جوان ترک تحریک کے انور پاشا نے الزام لگایا کہ آرمینیا کی Armenian Patriarchate نے ملک کے راز روس کو فراہم کیے ہیں اور اس نے فوج کے آرمینیائی باشندوں کو غیر مسلح کر دیا۔[10]
The Memoirs of Naim Bey
کے مطابق بعد ازاں سیکولر ترک جوان ترقی تنظیم کے افراد نے ان غیر مسلح آرمینیائی فوجی باشندوں کو قتل کر دیا۔[11]
اس دوران اس پارٹی کے جودت بے کی طرف سے آرمینیائی باشندوں کو چار ہزار فوجی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا اور انکار پہ سب کو قتل کی دھمکی دی گئی۔ اس دوران امریکی سفیر نے یہ قتل عام روکنے کی گزارش کی لیکن مغرب نواز جوان ترک تحریک کے طلعت اور انور پاشا نے اسے جنگ کا حصہ کہ کر اسے روکنے سے انکار کردیا۔[12]
1915ء میں جوان ترک تحریک کے طلعت پاشا نے آرمینیائی باشندوں کو غداری اور بغاوت کے جرم میں ترکی سے نکالنے اور ان کے قتل کا حکم دے دیا۔[13]
مورخ Taner Akçam کے مطابق ٹیلی گرام ظاہر کرتا ہے کہ آرمینیائی باشندوں کا یہ سب قتل عام سیکولر جوان ترک تحریک کے طلعت پاشا کے حکم پہ کیا گیا۔[14]
سیکولر جوان ترک تحریک کے طلعت پاشا اور جمال پاشا نے لاکھوں آرمینیائی باشندوں کو وطن سے نکال کر شام کے صحراؤں میں جلاوطن کر دیا جس دوران بھوک، قحط، بیماری اور قتل سے کئ ہزار یا لاکھ باشندے موت کا شکار ہو گئے۔[15]
جرمنی کے فوجی اتاچی میجر جنرل Otto von Lossow نے بھی اس قتل عام کا ذمہ دار طلعت پاشا کو قرار دیا۔[16]
اس دوران طلعت پاشا کی سیکولر فوج کی طرف سے کئ آرمینیائی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ بعض اوقات تو ایک ایک خاتون کے ساتھ پندرہ فوجیوں نے جنسی زیادتی کی۔[17]
بچ جانے والوں کو ترکی کی شام کے ساتھ منسلک سرحد کے قریب ایک جگہ پہ طلعت پاشا کے دست راست Şükrü Kaya کی طرف سے کیمپوں میں حراست کا نشانہ بنایا گیا۔ سیکولر جوان ترک تحریک کے خفیہ ونگ Committee of Union and Progress نے اس سارے کام کے لیے ایک مخصوص تنظیم بنائی تھی۔ اس تنظیم کے کمال پاشا نے کئ آرمینیائی باشندوں کو زندہ جلایا۔[18]
کئ ہزار آرمینیائی باشندوں کو دریائے فرات اور بحیرہ کیسپین میں ڈبو دیا گیا۔ سیکولر ترک تحریک  Committee of Union and Progress کے ڈاکٹروں بہاءالدین شاکر اور ناظم بے نے زہریلی گیس، مارفین اور ٹائیفائیڈ جراثیم کے ذریعے کئ ہزار آرمینیائی باشندوں کا خاتمہ کیا۔ جلاوطن کئے جانے والے باشندوں کی جائیدادیں ضبط کر دی گئیں جس پہ خود کئ ترک رہنماؤں جیسا کہ احمد رضا نے شدید تنقید کی۔[19]
بعد ازاں مشہور اسلام دشمن ترک مصطفی کمال پاشا یعنی نام نہاد اتا ترک کے زیر حکومت 1930ء تک آرمینیائی باشندوں کی ساری جائداد ضبط کی جا چکی تھی۔
مغربی مورخین سلطنت عثمانیہ کے عروج کے زمانے میں ترکوں کی طرف سے آرمینیائی باشندوں کی ڈکیتی، قتل عام، اغوا اور جبری مذہبی تبدیلی کا الزام لگاتے ہیں لیکن اس بات کی تصدیق اس زمانے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں کرتا بلکہ کئ مغربی مورخین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں ان کو وسیع مذہبی آزادی حاصل تھی لیکن برطانیہ، فرانس اور روس عیسائی اقلیتوں کے حقوق کا بہانہ بنا کر بار بار سلطنت عثمانیہ پہ حملہ آور ہوتے رہے تاکہ اس کے زیادہ سے زیادہ حصے ہتھیا سکیں اور جو بلقان سے عیسائیوں نے ستر لاکھ مسلمانوں کو ترکی کی طرف جلا وطن اور کئ لاکھ کو قتل کر دیا اس سے چشم پوشی کی گئی۔ عالمی طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کے ہر صوبے کی طرح آرمینیا کی عیسائی اقلیت کو بھی بغاوت پہ اکسایا اور عیسائی اقلیت کے حقوق، ان کے قتل، جبری مذہبی تبدیلی کا الزام لگا کر آرمینیا میں مسلح جدوجہد کے بیج ڈالے گئے جب کہ بلقان اور کاکیشس کے علاقے میں مسلمانوں کے ساتھ جو عیسائی کر رہے تھے اور ایک کروڑ کے قریب مسلمان جلاوطن اور قتل کر دیے گئے، روس کی طرف سےکاکیشس کی نوے فیصد آبادی کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، اس کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا۔
خود کئ مغربی مورخین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس قتل عام میں سلطنت عثمانیہ کا حکمران عبدالحمید براہ راست ملوث نہیں تھا لیکن اکثر مغربی جرائد نے اس کا ذمہ دار سلطان کو قرار دیا اور مغربی میڈیا میں سلطان کو خونی سلطان، پاگل سلطان اور لعنتی سلطان جیسے القابات سے نوازا گیا۔[20]
ترکی کے تاریخ دانوں کے مطابق ان واقعات سے پہلے 1905ء سے لے کر 1920ء تک آرمینیا میں موجود لاکھوں آذری مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور لاکھوں کو بے دخل کر کے آذربائیجان اور دیگر علاقوں میں جانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ لوگ خود کو آذری ترک کہتے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں آرمینیا کے آذریوں کا قتل عام)۔ آرمینیا کے لوگ ایک ریاست کی تشکیل کے لیے آذربائیجان کے علاقوں پر تسلط اور آذربائیجانیوں کے قتل عام کے بعد ترکی کے کچھ علاقوں پر بھی نظر گاڑے ہوئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی میں آباد آرمینیائی باشندے کھلم کھلا فرانس، برطانیہ اور روس کے حامی تھے۔ چنانچہ سلطنت عثمانیہ پہ ان دنوں قابض سیکولر ترک قوم پرست جوان تحریک  نے اپنا ردِ عمل دکھایا۔ اس کے علاوہ سلطنت عثمانیہ کی جانشیں ترک جمہوریہ (موجودہ ترکی) ان واقعات کو قتل عام نہیں سمجھتا بلکہ اس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے ارمنی باشندوں کی تعداد بہت بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے حالانکہ جہاں جنگ عظیم اول کے دوران سلطنت کے دیگر باشندے مارے گئے وہیں ارمنی بھی جنگ کا نشانہ بنے، ان کا باضابطہ قتل عام ہرگز نہیں کیا گیا تھا۔
اس سارے قتل عام کے ذمہ دار سیکولر جوان ترک تحریک کے طلعت پاشا، انور پاشا اور احمد عزت پاشا تھے جو بعد ازاں کورٹ مارشل کے ڈر سے 1918ء میں ترکی سے بھاگ گئے۔جنگ عظیم اول کے بعد اتحادیوں کے حکم پہ عثمانی سلطان محمد ششم جس کی حیثیت محض ایک کٹھ پتلی کی تھی، کو جنگ عظیم اول میں سلطنت عثمانیہ کو دھکیلنے والے سیکولر نوجوان ترک تحریک کے کارکنوں کی چھان بین کرنے کا کہا گیا جس کے نتیجے میں 130 افراد جنگ عظیم اول اور آرمینیائی قتل عام کے  مشکوک قرار پائے جن میں سے اکثر اعلٰی افسران تھے۔[21]
سیکولر جوان ترک تحریک کے یہی لوگ یونانی اور شامی عوام کے قتل عام کے بھی ذمہ دار تھے جن کا الزام اسلام دشمن طبقے اور مغربی مورخین نے سلطنت عثمانیہ پہ عائد کر دیا جب کہ 1919ء کی ترک فوجی عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس سارے معاملے کی ذمہ دار سلطنت عثمانیہ اور خلیفہ کی سخت سیکولر مخالف اتحاد اور ترقی پارٹی کو قرار دیا جس کا بنیادی کردار طلعت پاشا، کمال پاشا، انور پاشا اور ڈاکٹر ناظم کو قرار دیا گیا۔[22] لیکن اس سارے معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ وہ یورپ جو آج اس واقعے پہ زور کرتا ہے، اس کا کردار منافقانہ رہا اور اس کی طرف سے اس قتل عام کو روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی اور جن افراد کو ترکی کی فوجی عدالت نے اس سارے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا تھا الٹا ان کوبرطانیہ کے زیر سرپرستی مالٹا میں پناہ دی گئی اور بعد ازاں ان کو اکیس برطانوی قیدیوں کے بدلے میں رہا کردیا گیا جن میں سے ایک لارڈ کرزن کا رشتہ دار بھی تھا۔[23]
یہ منافقانہ کردار اس یورپ اور امریکہ کی طرف سے تھا جس نے اس قتل عام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اس کا الزام سلطنت عثمانیہ اور اسلام پسند طبقے پہ عائد کر دیا جب کہ اس میں عثمانی سلطان نہیں بلکہ سیکولر جوان ترک تحریک کے رہنماؤں کا کردار تھا جن کے ہاتھ میں سارے فیصلے تھے اور سلطان کی حیثیت کٹھ پتلی کی تھی اور خود یورپ اپنے ان کارندوں کو سزا نہیں دینا چاہتا تھا لہذا اس کی طرف سے سزا کی جگہ فرضی ٹرائلز اور تفتیش پہ گزارا کیا گیا اور طلعت پاشا جیسے اس واقعے کے ذمہ دار افراد جرمنی جیسے یورپی ممالک میں مزے سے مقیم رہے جن میں سے دو ذمہ داروں کو بعد ازاں آرمینیا نے ایک خفیہ آپریشن میں بدلے کے طور پہ قتل کرا دیا۔اور تو اور روس جیسا ملک جس کے آرمینیائی حامی تھے، اس قتل عام کے دوران خاموش رہا اور اس کو سوا چند صورتوں کے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
منافقت تو یہ ہے کہ قریب کے علاقوں میں جنگ عظیم اول میں مصروف اتحادی افواج اس سارے قتل عام کا تماشا دیکھتی رہیں جس کا آج انہی کی طرف سے ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔
Free University of Berlin
کے پروفیسر وولفبینگ کے مطابق خود جرمنی جو کہ جنگ میں ترکی کا اتحادی تھا، اس سارے قتل عام پہ خاموش رہا۔[24] اور آج اسی جرمنی کی طرف سے نسل کشی کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے بلکہ الٹا جنرل Hans von Seeckt
کی رپورٹ کے مطابق جرمنی اس سارے قتل عام کی ذمہ دار سیکولر جوان ترک تحریک کا حمایتی رہا۔[25] ایک اور جرمن Seeckt نے اس سارے مسئلے کا ذمہ دار یہودیوں اور آرمینیائی باشندوں کو قرار دیا جو خفیہ طور پہ اتحادیوں کے لیے کام کر رہے تھے۔[26] اس نے اپنی حکومت سے خود کہا کہ آرمینیائی مسئلے میں عیسائی بھائی چارے سے زیادہ ترک اتحاد اور جنگ عظیم اہم ہے۔ سیکولر ترک اتحاد اور ترقی پارٹی آرمینیائی باشندوں کا مکمل خاتمہ چاہتی تھی۔[27] خود عثمانی سلطان عبدالمجید دوم نے کہا کہ یہ قتل عام اسلام اور ترکی کے نام پہ ایک دھبہ ہے اور اس کے ذمہ دار سیکولر جوان ترک تحریک کے طلعت اور انور پاشا ہیں۔[28]
ترک سٹیٹ کونسل کے سربراہ Reşid Akif Paşa نے خود تسلیم کیا کہ اس نسل کشی کے براہ راست حکم سیکولر جوان ترک تحریک کی طرف سے آئے تھے۔[29]  جب کہ کئ ترک سیاستدان اس قتل عام کے مخالف تھے جن میں سے ایک Mehmet Celal Bey بھی تھا۔ اس نے کئ ہزار آرمینیائی باشندوں کی جان بچائی۔[30]
Hasan Mazhar Bey
جیسے افسران نے بھی اس کے خلاف شدید احتجاج کیا لیکن اس کو بعد ازاں دوسرے علاقے کی طرف بھیج دیا گیا۔[31] بغداد کے والی Süleyman Nazif نے اس قتل عام پہ احتجاج کرتے ہوئے استعفی دے دیا۔[32]
حالیہ چند سالوں میں ترکی کو ارمنی قتل عام کو تسلیم کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا رہا ہے حتٰی کہ چند ذرائع کے مطابق ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت میں چند رکاوٹوں میں ارمنی قتل عام کو تسلیم نہ کرنا اور شمالی قبرص کا معاملہ سرفہرست ہیں۔آرمینیا ترکی کی یورپی یونیں میں داخلے کے خلاف ہے اور اس نے اعتراض کیا ہے کہ ترکوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران آرمینیائی لوگوں کا قتل عام کیا جس میں دس لاکھ لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ترکی اس دعوے کو مسترد کرتا چلا آرہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران صرف تین سے پانچ لاکھ کے درمیان آرمینیائی باشندے مارے گئے تھے اور اتنی ہی تعداد میں ترک بھی مارے گئے تھے لیکن میدان جنگ کے علاوہ قحط سالی کی وجہ سے بھی ہلاکتیں ہوئی تھیں لیکن ترکی آرمینیا کی جانب سے اس قتل عام کے لیے وضع کردہ نسل کشی کی اصطلاح کو بالکل مسترد کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آرمینیا نے عثمانی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی تھی اور ترکی پر حملہ کرنے والی روسی فوجوں کا ساتھ دیا تھا اور یہ کہ اس خانہ جنگی میں تین سے لے کر پانچ لاکھ تک آرمینیائی باشندے اور اتنی ہی تعداد میں ترک باشندے بھی ہلاک ہوئے۔[33]
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے تاریخ دانوں سے کہا کہ وہ تاریخ کا غیر جانبدارنہ مطالعہ کریں جس سے یہ ثابت ہو گا کہ ترکوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران آرمینیائی باشندوں کا قتل عام نہیں کیا تھا۔طیب رجب اردوگان نے کہا کہ ان کا ملک اپنے تاریخی دستاویزات کو تاریخ دانوں کے لیے کھولنے کے لیے تیار ہے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ترکی نے آرمینیائی باشندوں کا قتل عام نہیں کیا تھا۔[34]
انقرہ میں حکومت کا عشروں سے یہی موقف رہا ہے کہ ان ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور وہ انسان جو عثمانی دور میں آرمینیا میں مارے گئے تھے، وہاں جاری رہنے والی خانہ جنگی اور بدامنی کا نشانہ بنے تھے۔[35] آج تک کئ بار ترکی کی حکومت کی طرف سے آرمینیا اور عالمی برادری کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کی تاریخی تحقیقات دوبارہ کرے اور پندرہ لاکھ وہ قتل ثابت کرکے دکھائے جس کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن عالمی برادری اور آرمینیائی حکومت کا جواب ترکی سے اس واقعے پہ معذرت کرنے کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔
اس کو جدید دنیا کی پہلی نسل کشی قرار دیا گیا اور اب 2019ء تک 29 ممالک اسے نسل کشی تسلیم کرتے ہیں لیکن امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کروڑوں کی تعداد میں اصل آبادی کی نسل کشی اور آرمینیائی عوام کے قتل سے کچھ عرصہ پہلے آرمینیائی مسلح دہشت گردوں کی طرف سے ازرباییجان کی آذری آبادی کے لاکھوں کی تعداد میں قتل  کو آج تک کسی مغربی انسانی حقوق کے ٹھیکدار نے نسل کشی قرار دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ پورا واقعہ سلطنت عثمانیہ اور ترکی کے خلاف ایک پروپیگنڈا اور میڈیا جنگ ہے جسے اب تک وقفے وقفے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج تک استعماری طاقتیں امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، عراق، افغانستان، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا کے اصل عوام کی گوروں کی طرف سے کی گئی نسل کشی کو نظر انداز کرکے ترکی پہ زور دیتے ہیں کہ وہ اسے نسل کشی تسلیم کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آرمینیائی لوگوں کے قتل عام کا یہ واقعہ خود سلطنت عثمانیہ کی طرف سے نہیں بلکہ ان دنوں میں ہوا جب عثمانی سلطان کا اقتدار صرف نام کا تھا اور حکومت اقتدار اختیار فیصلے ہر چیز یورپی ہاتھوں اور خفیہ یہودی الومیناتی ہاتھوں میں کھیلنے والے سیکولرنوجوان ترک کر رہے تھے اور خود    International Association of Genocide Scholars اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ یہ قتل عام ترک نوجوانوں کی حکومت کے حکم سے ہوا۔[36] لہٰذا اس قتل عام کا الزام سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ یا اسلام پسند طبقے کو دینا اور اسے جہاد قرار دینا جہالت اور اسلام پسند طبقے پہ بہتان ہے بلکہ اس قتل عام میں خود یورپی طاقتیں اور خفیہ الومیناتی ہاتھ بھی شریک ہیں جن کے ہاتھ میں یہ سیکولر جوان ترک کھیل رہے تھے جنہوں نے ان عالمی طاقتوں کے ایما پہ سلطنت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں دھکیل دیا تھا تاکہ جنگ کے بہانے سلطنت عثمانیہ اور خلافت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ قتل عام سلطنت عثمانیہ کے سلطان یا اسلام پسند طبقے یا مجاہدین کی طرف سے نہیں بلکہ فاشسٹ جوان ترک قوم پرستوں کی طرف سے ہوا جس میں اسلام کا نام زبردستی گھسیٹا جاتا ہے، کو اس واقعے کے ایک عربی عینی شاہد  Fà'iz el-Ghusein نے بھی تسلیم کیا ہے۔[37]
Arnold Toynbee
نامی ایک مغربی مصنف خود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ قتل عام جوان ترک تنظیم کے قائدین کی طرف سے ہوا جن میں اسلام پسندی کے جذبات کم اور قوم پرستی کے جذبات زیادہ تھے۔[38]
آرمینیا کی عیسائی اقلیت کا قتل کرنے والے اگر ان جوان سیکولر ترکوں کو اگر اسلام کا خیال ہوتا تو یہ ان آرمینیائی باشندوں کا قتل عام نہ کرتے جو اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ان آرمینیائی باشندوں کا بھی قتل کیا گیا جو اسلام قبول کر چکے تھے، جو کہ ثابت کر رہا ہے کہ اس واقعے کا محرک اور اس کے ذمہ دار اسلامی طبقہ یا جہاد نہیں بلکہ سیکولر نوجوان ترکوں کی ترک قوم پرستی تھی جو ان دنوں سلطنت عثمانیہ کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور خلیفہ کی حیثیت محض ایک لقب والی تھی۔ جب اسلامی طبقوں اور علماء کی طرف سے ان سیکولر نوجوان ترکوں سے کہا گیا کہ کم از کم ان آرمینیائی باشندوں کو تو چھوڑ دو جو اسلام قبول کر چکے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سیاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔[39] یہ بات صاف ظاہر کر رہی ہے آرمینیائی عیسائی اقلیت کے اس قتل کا اصل محرک سیکولر ترک جوانوں کی  سیاست اور قوم پرستی تھی نہ کہ اسلام اور اس سارے واقعے کے ذمہ دار سیکولر جوان ترک تحریک کے رہنما تھے نہ کہ عثمانی سلطان جو خود اس سارے قتل عام کا مخالف تھا اور آج تک ایک بھی تاریخی ٹرائل یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس واقعے کا ذمہ دار سلطنت عثمانیہ کا سلطان تھا۔

حوالہ جات:

1:https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%D9%85%D9%86%DB%8C_%D9%82%D8%AA%D9%84_%D8%B9%D8%A7%D9%85
2:John G. Heidenrich (2001). How to prevent genocide: a guide for policymakers, scholars, and the concerned citizen. Greenwood Publishing Group. p. 5. ISBN 978-0-275-96987-5.
3:Totally Unofficial: The Autobiography of Raphael Lemkin. New Haven and London: Yale University Press. 2013. pp. 19–20. ISBN 9780300186963.
4:The Armenian Genocide (1915–16): Overview, United States Holocaust Memorial Museum
5:Barsoumian, Hagop (1982), "The Dual Role of the Armenian Amira Class within the Ottoman Government and the Armenian Millet (1750–1850)", in Braude, Benjamin; Lewis, Bernard, Christians and Jews in the Ottoman Empire: The Functioning of a Plural Society, I, New York: Holmes & Meier
6:"Young Turk Revolution". matrix.msu.edu. Archived from the original on 22 December 2015. Retrieved 13 December 2015.
7:Balakian, Peter (2003). The Burning Tigris: The Armenian Genocide and America's Response. New York: HarperCollins. ISBN 0-06-019840-0.
8:"Armenian Genocide". history.com. History.
9:Balakian, Peter (2003). The Burning Tigris: The Armenian Genocide and America's Response. New York: HarperCollins. ISBN 0-06-019840-0.
10:Suny, Ronald Grigor (2015). "They Can Live in the Desert but Nowhere Else": A History of the Armenian Genocide. Princeton University Press. p. 244. ISBN 1400865581.
11:Balakian, Peter (2003). The Burning Tigris: The Armenian Genocide and America's Response. New York: HarperCollins. ISBN 0-06-019840-0.
12:Morgenthau, Henry (2010) [First published 1918]. Ambassador Morgenthau's Story: A Personal Account of the Armenian Genocide. Cosimo, Inc. ISBN 978-1-61640-396-6. Retrieved 15 April 2016.
13:Motta, Giuseppe (2014). Less Than Nations: Volume 1 and 2 : Central-Eastern European minorities after WWI. Newcastle upon Tyne: Cambridge Scholars Publishing. pp. 11–2. ISBN 1443858595.
14:Akçam, Taner (2004). From empire to republic: Turkish nationalism and the Armenian genocide. Zed Books. p. 174. ISBN 978-1-84277-527-1.
15:"Génocide arménien: le scénario". L'Histoire (in French). 1 April 2009. Djemal Pacha avait parfaitement conscience qu'abandonner les Arméniens dans le désert signifiait les condamner à une mort assurée.
16:Dadrian, Vahakn N (1995). The History of the Armenian Genocide: Ethnic Conflict from the Balkans to Anatolia to the Caucasus. Oxford: Berghahn Books. ISBN 1-57181-666-6.
17:Gust, Wolfgang (2013). The Armenian Genocide: Evidence from the German Foreign Office Archives, 1915–1916. Berghahn Books. pp. 26–27. ISBN 978-1-78238-143-3.
18:Auron, Yair (2000). "The Banality of Indifference: Zionism and the Armenian Genocide". New Brunswick, New Jersey: Transaction Publishers.
19:Bayur, Yusuf Hikmet, Türk İnkılabı Tarihi. Ankara: Türk Tarih Kurumu Basımevi, 1983, vol. 3, pt. 3, as cited in Dadrian, History of the Armenian Genocide, pp. 223–24.
20:Balakian, Peter (2003). The Burning Tigris: The Armenian Genocide and America's Response. New York: HarperCollins. ISBN 0-06-019840-0.
21:Akçam, Taner (1996). Armenien und der Völkermord: Die Istanbuler Prozesse und die Türkische Nationalbewegung (in German). Hamburg: Hamburger Edition. p. 185.
22:Libaridian, Gerald J. (2007). Modern Armenia people, nation, state. New Brunswick, N.J.: Publishers. pp. 134–35. ISBN 1-4128-1351-4.
23:Bonello, Giovanni (2008). Histories of Malta – Confessions and Transgressions, Vol.9. Fondazzjoni Patrimonju Malti. ISBN 978-99932-7-224-3.
24:Fisk, Robert (2005). The Great War for Civilisation: The Conquest of the Middle East. New York: Alfred A Knopf. ISBN 1-84115-007-X.
25:Dabag, Mihran (2007). "The Decisive Generation: Self-authorization and delegations in deciding a genocide". In Kinloch, Graham C. Genocide : Approaches, Case Studies, And Responses. New York: Algora Pub. pp. 113–135. ISBN 0875863817. OCLC 437191890.
26:Dabag, Mihran (2007). "The Decisive Generation: Self-authorization and delegations in deciding a genocide". In Kinloch, Graham C. Genocide : Approaches, Case Studies, And Responses. New York: Algora Pub. pp. 113–135. ISBN 0875863817. OCLC 437191890.
27:Ahmet Refik (transcribed by Hamide Koyukan), Kafkas Yolunda İki Komite İki Kıtal, Ankara, Kebikeç Yayınları, 1994, ISBN 975-7981-00-1, p. 27.
28:Najmuddin; Najmuddin, Dilshad; Shahzad (2006). Armenia: A Resume with Notes on Seth's Armenians in India. Trafford Publishing. ISBN 1-4669-5461-2.
29:Dadrian, Vahakn N (1995). The History of the Armenian Genocide: Ethnic Conflict from the Balkans to Anatolia to the Caucasus. Oxford: Berghahn Books. ISBN 1-57181-666-6.
30:"Türk Schindler'i: Vali Celal Bey". NTVMSNBC (in Turkish). 4 August 2010.
31:Kieser, Hans-Lukas (2006). Turkey Beyond Nationalism Towards Post-Nationalist Identities. London: I.B. Tauris & Co. p. 119. ISBN 978-0-85771-757-3.
32:Dadrian, Vahakn N.; Akçam, Taner (2011). Judgment at Istanbul the Armenian genocide trials (English ed.). New York: Berghahn Books. p. 28. ISBN 0-85745-286-X.
33:https://m.dw.com/ur/%D8%A2%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D9%86%D8%B3%D9%84-%DA%A9%D8%B4%DB%8C-%D8%AC%D8%B1%D9%85%D9%86-%D8%AA%D8%B1%DA%A9-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%AE%D8%B7%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA/a-19296085
34:https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/03/printable/050309_turkey_arminia_ra.shtml
35:http://humgaam.net/%D8%A2%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B4%D9%86%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D9%82%D8%AA%D9%84-%D8%B9%D8%A7%D9%85-%D9%BE%DA%86%DA%BE%D9%84%DB%8C-%D8%B5%D8%AF%DB%8C/
36:International Association of Genocide Scholars (13 June 2005). "Letter to Prime Minister Erdogan". Genocide Watch. Archived from the original on 4 June 2007.
37:El-Ghusein, Fà'iz (1918). Martyred Armenia. ISBN 0-87899-003-8.
38:Toynbee, Arnold Joseph. Turkey: a Past and a Future. 1917, pp. 22–23.
39:El-Ghusein, Fà'iz (1918). Martyred Armenia. ISBN 0-87899-003-8.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔