اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔
اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد(Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔
اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپکو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عموماً بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور انکی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔
مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم، پابندیوں اور جانچ-پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا کہ یورپ میں انکے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو برا برتاؤ کیا، انکے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے چھین لینا، انکی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کردیا، مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا، اسلام کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اسکے برعکس، مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے، سیکھنے سکھانے اور غور و فکر، بجا لانے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو مسلم دنیا میں لانے کے خواہاں ہیں، اسلامی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔
مستفاد:
شیخ سلمان بن فہد العودہ کی ایک انگریزی تحریر سے اقتباس
’انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘، عبدالحمید ایم اے
اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد(Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔
اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپکو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عموماً بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور انکی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔
مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم، پابندیوں اور جانچ-پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا کہ یورپ میں انکے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو برا برتاؤ کیا، انکے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے چھین لینا، انکی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کردیا، مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا، اسلام کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اسکے برعکس، مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے، سیکھنے سکھانے اور غور و فکر، بجا لانے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو مسلم دنیا میں لانے کے خواہاں ہیں، اسلامی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔
مستفاد:
شیخ سلمان بن فہد العودہ کی ایک انگریزی تحریر سے اقتباس
’انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘، عبدالحمید ایم اے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔