نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید
(حصہ ہفتم،ساتواں حصہ)
ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ جب ڈارون نے جانداروں کی نئ سپی شیز یا اقسام کے وجود میں آنے کا نظریہ پیش کیا تو اس کے صرف دو سال بعد ایک جیسا جانور دریافت ہوا جس نے ثابت کیا کہ پرندے رینگنے والے جانوروں۔۔۔۔۔۔۔Reptiles......سے ایک نئ نسل کے طور پہ وجود میں آئے۔یہ جانور جنوبی جرمنی میں دریافت ہوا۔اس کو ایک سو پچاس سے ایک سو پینتالیس ملین سال پرانا جانور قرار دیا گیا۔اس کے جبڑے میں دانت تھے،پر تھے اور ایک لمبی دم تھی۔یہ دعوی کیا گیا کہ یہ جانور ظاہر کرتا ہے کہ اڑنے والے پرندے رینگنے والے جانوروں یا ڈائینو سار سے وجود میں آئے اور اس جانور کوArchaeopteryx یعنی اولین جناحہ کا لقب دیا گیا۔اس کی حقیقت کیا تھی۔اب اس کو دیکھتے ہیں۔اس پرDuane Gish Ph.Dنے ایک مضمون لکھا ہے جس کا نام ہےAs A Transitional Form Archaeopteryx Would Not Fly۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ارتقاء کے ماہرین کے دعوی کے بر عکس یہ جانور پرواز کرتا تھا۔بیدارد نے اس جانور اور دوسرے دو جانوروںIcthyornis And Hesperornisکے متعلق کہا کہ یہ سب مخلوقاتی پرندے تھے جو کہ پرندوں کی ابتداء کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے اور یہ جانور یا پرندہ تھا یا پروں والا رینگتے والا ایک جانور۔اس طرح اور اس طرح کی مثال رکھنے والے فوسل سے ملنے والے پیچیدہ جاندار مثلا سنیل،جیلی فش اور اس طرح کے دوسرے جاندار ظاہر کرتے ہیں کہ زنگی بغیر ارتقاء کے شروع ہوئ کیونکہ یہ فوسل بغیر درمیانی جانداروں کے اپنی اصلی شکل میں فوسل یا حجری حیاتیات میں ملتے ہیں۔سائنس کے مطابق کئ ملین سال پہلے ایسے جانور پائے جاتے تھے جو زمین پر رینگتے تھے اور ہوا میں اڑتے تھے۔ان کوFlying reptiles کا نام دیا جاتا ہے۔کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہArchaeopteryx بھی انہی جانوروں میں سے ہے نہ کہ ارتقاء کا ایک مسنگ لنک۔یہ حقیقت میں ایک پرندہ تھا جس کے پر تھے نہ کہ پرندے اور رینگنے والے جانوروں کے درمیان کا کوئ اور جانور۔اس کے کئ فوسل ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پر کے حوالے جدید پرندوں کے مشابہہ تھا جب کہ نہ اڑنے والے پرندوں جیسا کہ مور اور مرغی کے پر حقیقی پرندوں سے بہت مختلف ہیں۔اصلی جناحہ یاArchaeopteryx کے پروں کا تناسب حقیقی پرندوں جیسا ہے اور اس کی شعیبہ یاFurcula ہڈی بھی اڑنے والے پرندوں جیسی ہے۔اس کی اناٹومی یا جسمانی ساخت میں کوئ بات ایسی نہیں تھی جو اسے اڑنے سے روک سکتی اور یہ حقیقی پرندہ تھا نہ کہ ارتقاء کا ایک مسنگ لنک یا درمیانی سلسلہ۔ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ اس کی اکیس خصوصیات ڈائینو سار سے ملتی ہیں جب کہ گزشتہ دس سالوں کی تحقیق ظاہر کر چکی ہے کہ یہ کسی طرح بھی ڈائینو سار سے نہیں ملتا۔جب لندن میں باس کے ایک نمونے کی کھوپڑی کی ہڈی۔۔۔۔۔۔Cranuim......کا مطالعہ کیا گیا تو یہ ایک پرندے سے ملتی تھی نہ کہ ڈائینو سار سے۔بینٹن۔۔۔۔۔۔۔۔Benton......کہتا ہے کہ اس کی سر کی ہڈیاں اور کھوپڑی ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک حقیقی پرندہ تھا نہ کہ پرندوں کا جد امجد جس سے باقی پرندوں کی نسل وجود میں آئ۔ہاؤبٹز۔۔۔۔۔Haubutiz.....نے جدید سی ٹی سکین کے ذریعے اس کی جبڑے کی چوگوشہ ہڈی۔۔۔۔۔۔Quadrate......کا معائنہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ہڈی باقی پرندوں کی طرح دو منہ والی ہے نہ کہ ارتقاء کے ماہرین کے دعوی کے مطابق ایہ منہ والی۔ایل ڈی مارٹن اور ان کے معاون تحقیقات میں ظاہر کر چکے ہیں کہ اولین جناحہ یاArchaeopteryx کے دانت اصل پرندوں جیسے ہیں اور ٹخنے کی ہڈی کسی طرح ڈائینو سار سے نہیں ملتی۔اس طرح ارتقاء کے ماہرین کا یہ دعوی غلط ثابت ہوتا ہے کہ اولین جناحہ یاArchaeopteryx رینگنے والے جانوروں سے پرندوں کی نسل بننے کا ثبوت ہے۔
ارتقا کے ماہرین کا یہ دعوی کہ سب جانداروں میں چھ بنیادی عناصر یا بائیو ایلیمنٹس یعنی کاربن،آکسیجن،ہائیڈروجن،نائٹروجن،سلفر یا گندھک کا مشترک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ابتدا ایک مشترک جاندار سے ہوئ۔یہ دعوی بھی غلط ہے۔ان عناصر کا مشترک ہونا یہ تو ظاہر کر سکتا ہے کہ یہ سب جاندار اپنی خوراک زمین سے حاصل کرتے ہیں اور ان کا خالق ایک ہے لیکن یہ نہیں کہ ان کی ابتدا ایک مشترک ہے۔اگر وہ ہماری یہ بات نہیں مانتے تو انہیں ارتقاء کے حق میں اور ثبوت لانے ہوں گے جب کہ وہ ان ثبوتوں میں بھی ناکام ہو چکے ہیں اور غیر جانبدار سائنسدانوں کی تحقیقات ان کے ثبوت غلط ثابت کر چکی ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔
ارتقاء کے ماہرین یہ دعوی کرتے ہیں کہ آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور ہوائی کے جزائر میں پودوں اور جانوروں کی خاص اقسام کا پایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں زندگی بتدریج ارتقاء پذیر ہوتی رہی ہے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ان علاقوں کے جانداروں کی یہ سب ترکیب ارتقاء کا نتیجہ ہے تو اسی ارتقاء سے ان جزیروں میں صرف ایہ خاص قسم کے جانور کیوں بنے۔جانداروں کی سب اقسام کیوں نہیں بنی اگر ارتقاء ایک ہی جاندار سے سارے جاندار پیدا کر سکتا ہے کیونکہ یہاں جانداروں کی کچھ خاص اقسام پہ پائ جاتی ہیں۔اس طرح ارتقاء کے حامیوں کا یہ دعوی بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔
ارتقاء کے ماہرین کا دعوی ہے کہ 1994میں پاکستان میں پچاس ملین سال قدیم جانور کا ایک ڈھانچہ جسےAmbulocetus natansکہتے ہیں،یہ ظاہر کرتا ہے کہ فیل ماہی یا وہیل مچھلی اس جاندار سے بنی لیکن اس کےHooves چھوٹے ہیں اور یہ اپنی زندگی کا اکثر حصہ پانی میں گزارتا تھا۔جب کہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ حقیقت میں زمینی جانور تھا اور اسے ارتقاء کی درمیانی کڑی۔۔۔۔۔Transitional Form.....کہنا غلط ہے۔اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے جانوروں یعنی میملز کی طرح اس کی چار ٹانگیں تھیں اور چوڑے پنجے تھے۔نیشنل جیوگرافک نے اس کی پچھلی ٹانگوں کو پیروں کے بغیر دکھایا جب کہ کیرول۔۔۔۔۔Carrol.....کے مطابق اس کی پچھلی ٹانگیں بھی تھی اور یہ زمین پہ چل سکتا تھا۔کچھ سائنسدانوں کے مطابق اس کے پاؤں پنجے جیسے بھی نہیں تھے۔اس کا حوالہ ہےPictures From Carrol,Pattern And Process Of Vertebrate Evolution P335۔یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ نیشنل جیوگرافک سمیت باقی سائنسی جریدے کس طرح ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے عوام سے جھوٹ بولتے رہے ہیں۔عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کوئ ایک بندر کا ڈھانچہ اٹھا کے اس کو ارتقاء کا درمیانی سلسلہ کہنا شروع کر دے اور تصویروں میں اس کے پنجے اور چپو جیسے پیروں کی بنیاد پہ یہ کہے کہ یہ فیل ماہی یا وہیل مچھلی کا جد امجد ہے تو یہ جھوٹ عوام کو کیسے سمجھ آئے گا۔ارتقاء کے ماہرین عوام سے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جاتے ہیں اور عوام سائنس سے نابلد ہونے کی وجہ سے ان پہ یقین کر لیتی ہے جب کہ منصف سائسدان ان پہ سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔
ارتقاء کے ماہرین یہ دعوی کرتے ہیں کہ جدید انسان ایہ بن مانس کی....Sahelanthropus.....کی نسل سے وجود میں آئے جو کہ اس وقت موجود تھا جب انسان اور بن مانس زمین میں پھیلنا شروع ہوئے۔یہ دعوی 2001میں کیا گیا لیکن ارتقاء کا یہ دعوی بھی انتہائ متنازعہ اور مشکوک ہے۔نیچرل ہسٹری میوزیم کے برگیٹی سینٹ۔۔۔۔۔Brigitte Senut.....کے مطابق اس کی کھوپڑی اور خصوصاCanine دانت بجائے انسان کے مادہ گوریلا جیسے ہیں۔اس نے کہا کہ اس کو انسانوں کا جد امجد کہنے کے لئے لازمی ہے کہ اس کی کچھ خصوصیات انسانوں جیسی ہوں جب کہ ایسا نہیں ہے اور تحقیقات نہیں ظاہر کرتی کہ یہ انسان کی طرح دو پاؤں پہ چلنے والی مخلوق۔۔۔۔۔Biped Creature.....تھا۔ کچھ ماہرین اس بن مانس کو بن مانس کی ایک معدوم ہوجانے والی نسل قرار دیتے ہیں نہ کہ انسان کا جد امجد۔اس طرح یہ ثبوت بھی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ انسان بن مانس سے وجود میں آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ جانداروں میں پائ جانے والی کچھ مشترک خصوصیات یہ ظاہر تو کر سکتی ہیں کہ ان کا خالق ایک ہے لیکن یہ نہیں کہ یہ جاندار ارتقاء سے وجود میں آئے کیونکہ اب تک ارتقاء کے حامی جانوروں کی ایک سپی شیز یا قسم کے ڈی این اے کی تعداد تبدیل ہوجانے سے دوسری نسل میں تبدیل ہونے کا ثبوت نہیں فراہم کر سکے۔محض مفروضے اور نظریات پہ مبنی باتیں ہیں جن کا آج تک کوئ پختہ سائنسی ثبوت نہیں ملتا۔
ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ سب جانداروں کا ایک مشترک جد امجدEusthenopteron تھا جو کہ زمین پر آج سے 358ملین سال پہلے موجود تھا۔وہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ مچھلیIcthyostega یا خشکی و تری دونوں میں زندہ رہنے والے جانوروں۔۔۔۔۔Amphibians....میں تبدیل ہوگئ جب کہ وہ آج تک یہ ظاہر نہیں کر سکے کہ مچھلی کے تیرنے والے بازو یا فن ٹانگوں میں تبدیل کیسے ہوئے۔اس کے لیے دعوی کیا گیا کہ گرین لینڈ سے ملنے والے فوسل یا حجری حیاتیات اس کی تصدیق کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس فوسل کے درمیانی خان کی ہڈی مچھلی کے مشابہہ تھی جو کہ کچھ مچھلیوں میں سننے اور سانس لینے دونوں میں کام آتی ہے۔یہ کسی طرح ظاہر نہیں کرتی تھی کہ یہ مچھلی ایمفیبین کا درمیانی سلسلہ ہے۔گولڈ۔۔۔۔Gould.....اور ایلڈرج۔۔۔۔Eldredge....کیتے ہیں
"ارتقاء میں درمیانی سلسلوں کا ظاہر کرنا ناممکن ہے اور فوسل یا حجری حیاتیات کے ریکارڈ میں ان کی کوئ گواہی نہیں۔"
ارتقا کے حامیوں کے مطابق جب سے سیب کا پودا شمالی امریکہ میں متعارف کروایا گیا ہے تب سے سیب کے مگیسیہ۔۔۔۔۔Apple Maggots.....کی ایک نئ سپی شیز یا قسم وجود میں آرہی ہے جو کہ اپنے اجداد کے برعکس پھول کی خاردار لکڑی کو نہیں کھاتی۔یہ ایک احمقانہ دلیل ہے۔اس میں بھلا یہ کس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وہی جاندار نہیں رہی۔اور جاندار میں تبدیل ہوگئ۔
ارتقاء کے ماہرین کچھوے کو۔ زبردستی مچھلی کی نسل سے قرار دینے کے لیے اتنے بے چین ہیں کہ کبھی کس فوسل تو کبھی کس فوسل کو اس کا جد امجد قرار دیتے ہیں۔پہلے دعوی کیا گیا کہ یہOdontochelysسے وجود میں آیا۔پھر دعوی کیا گیا کہ یہEunotosaurusسے وجود میں آیا۔پھر دعوی کیا گیا کہ یہPappochelysسے وجود میں آیا اور اس کوGrandfather Turtle کا لقب دیا گیا۔ان کے مطابق یہ 240ملین سال پہلے ظاہر ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ اس کی کھوپڑی جدید کچھوے سے کچھ مختلف ہے اور دوسری بات یہ کہ اس کے خول کچھوے کی طرح ملے ہوئے نہیں ہیں۔اگرچہ ان کے دانت ہیں لیکن یہ پھر بھی حقیقی کچھوے لگتے ہیں کیونکہ آج بھی کچھ ایسے کچھوے پائے جاتے ہیں جن کے خول ملے ہوئے نہیں ہوتے۔جدید کچھوے کی طرح اس کے سینے کے عضلات۔۔۔۔۔۔Intercostal Muscles.....پسلیوں سے منسلک نہیں ہیں اور اسے کچھوے سے مختلف کوئ جانور قرار دے کے اسے ارتقاء کا درمیانی سلسلہ یا مسنگ لنک قرار دینا غلط ہے۔
(مضمون ابھی جاری ہے)
(حصہ ہفتم،ساتواں حصہ)
ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ جب ڈارون نے جانداروں کی نئ سپی شیز یا اقسام کے وجود میں آنے کا نظریہ پیش کیا تو اس کے صرف دو سال بعد ایک جیسا جانور دریافت ہوا جس نے ثابت کیا کہ پرندے رینگنے والے جانوروں۔۔۔۔۔۔۔Reptiles......سے ایک نئ نسل کے طور پہ وجود میں آئے۔یہ جانور جنوبی جرمنی میں دریافت ہوا۔اس کو ایک سو پچاس سے ایک سو پینتالیس ملین سال پرانا جانور قرار دیا گیا۔اس کے جبڑے میں دانت تھے،پر تھے اور ایک لمبی دم تھی۔یہ دعوی کیا گیا کہ یہ جانور ظاہر کرتا ہے کہ اڑنے والے پرندے رینگنے والے جانوروں یا ڈائینو سار سے وجود میں آئے اور اس جانور کوArchaeopteryx یعنی اولین جناحہ کا لقب دیا گیا۔اس کی حقیقت کیا تھی۔اب اس کو دیکھتے ہیں۔اس پرDuane Gish Ph.Dنے ایک مضمون لکھا ہے جس کا نام ہےAs A Transitional Form Archaeopteryx Would Not Fly۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ارتقاء کے ماہرین کے دعوی کے بر عکس یہ جانور پرواز کرتا تھا۔بیدارد نے اس جانور اور دوسرے دو جانوروںIcthyornis And Hesperornisکے متعلق کہا کہ یہ سب مخلوقاتی پرندے تھے جو کہ پرندوں کی ابتداء کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے اور یہ جانور یا پرندہ تھا یا پروں والا رینگتے والا ایک جانور۔اس طرح اور اس طرح کی مثال رکھنے والے فوسل سے ملنے والے پیچیدہ جاندار مثلا سنیل،جیلی فش اور اس طرح کے دوسرے جاندار ظاہر کرتے ہیں کہ زنگی بغیر ارتقاء کے شروع ہوئ کیونکہ یہ فوسل بغیر درمیانی جانداروں کے اپنی اصلی شکل میں فوسل یا حجری حیاتیات میں ملتے ہیں۔سائنس کے مطابق کئ ملین سال پہلے ایسے جانور پائے جاتے تھے جو زمین پر رینگتے تھے اور ہوا میں اڑتے تھے۔ان کوFlying reptiles کا نام دیا جاتا ہے۔کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہArchaeopteryx بھی انہی جانوروں میں سے ہے نہ کہ ارتقاء کا ایک مسنگ لنک۔یہ حقیقت میں ایک پرندہ تھا جس کے پر تھے نہ کہ پرندے اور رینگنے والے جانوروں کے درمیان کا کوئ اور جانور۔اس کے کئ فوسل ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پر کے حوالے جدید پرندوں کے مشابہہ تھا جب کہ نہ اڑنے والے پرندوں جیسا کہ مور اور مرغی کے پر حقیقی پرندوں سے بہت مختلف ہیں۔اصلی جناحہ یاArchaeopteryx کے پروں کا تناسب حقیقی پرندوں جیسا ہے اور اس کی شعیبہ یاFurcula ہڈی بھی اڑنے والے پرندوں جیسی ہے۔اس کی اناٹومی یا جسمانی ساخت میں کوئ بات ایسی نہیں تھی جو اسے اڑنے سے روک سکتی اور یہ حقیقی پرندہ تھا نہ کہ ارتقاء کا ایک مسنگ لنک یا درمیانی سلسلہ۔ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ اس کی اکیس خصوصیات ڈائینو سار سے ملتی ہیں جب کہ گزشتہ دس سالوں کی تحقیق ظاہر کر چکی ہے کہ یہ کسی طرح بھی ڈائینو سار سے نہیں ملتا۔جب لندن میں باس کے ایک نمونے کی کھوپڑی کی ہڈی۔۔۔۔۔۔Cranuim......کا مطالعہ کیا گیا تو یہ ایک پرندے سے ملتی تھی نہ کہ ڈائینو سار سے۔بینٹن۔۔۔۔۔۔۔۔Benton......کہتا ہے کہ اس کی سر کی ہڈیاں اور کھوپڑی ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک حقیقی پرندہ تھا نہ کہ پرندوں کا جد امجد جس سے باقی پرندوں کی نسل وجود میں آئ۔ہاؤبٹز۔۔۔۔۔Haubutiz.....نے جدید سی ٹی سکین کے ذریعے اس کی جبڑے کی چوگوشہ ہڈی۔۔۔۔۔۔Quadrate......کا معائنہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ہڈی باقی پرندوں کی طرح دو منہ والی ہے نہ کہ ارتقاء کے ماہرین کے دعوی کے مطابق ایہ منہ والی۔ایل ڈی مارٹن اور ان کے معاون تحقیقات میں ظاہر کر چکے ہیں کہ اولین جناحہ یاArchaeopteryx کے دانت اصل پرندوں جیسے ہیں اور ٹخنے کی ہڈی کسی طرح ڈائینو سار سے نہیں ملتی۔اس طرح ارتقاء کے ماہرین کا یہ دعوی غلط ثابت ہوتا ہے کہ اولین جناحہ یاArchaeopteryx رینگنے والے جانوروں سے پرندوں کی نسل بننے کا ثبوت ہے۔
ارتقا کے ماہرین کا یہ دعوی کہ سب جانداروں میں چھ بنیادی عناصر یا بائیو ایلیمنٹس یعنی کاربن،آکسیجن،ہائیڈروجن،نائٹروجن،سلفر یا گندھک کا مشترک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ابتدا ایک مشترک جاندار سے ہوئ۔یہ دعوی بھی غلط ہے۔ان عناصر کا مشترک ہونا یہ تو ظاہر کر سکتا ہے کہ یہ سب جاندار اپنی خوراک زمین سے حاصل کرتے ہیں اور ان کا خالق ایک ہے لیکن یہ نہیں کہ ان کی ابتدا ایک مشترک ہے۔اگر وہ ہماری یہ بات نہیں مانتے تو انہیں ارتقاء کے حق میں اور ثبوت لانے ہوں گے جب کہ وہ ان ثبوتوں میں بھی ناکام ہو چکے ہیں اور غیر جانبدار سائنسدانوں کی تحقیقات ان کے ثبوت غلط ثابت کر چکی ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔
ارتقاء کے ماہرین یہ دعوی کرتے ہیں کہ آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور ہوائی کے جزائر میں پودوں اور جانوروں کی خاص اقسام کا پایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں زندگی بتدریج ارتقاء پذیر ہوتی رہی ہے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ان علاقوں کے جانداروں کی یہ سب ترکیب ارتقاء کا نتیجہ ہے تو اسی ارتقاء سے ان جزیروں میں صرف ایہ خاص قسم کے جانور کیوں بنے۔جانداروں کی سب اقسام کیوں نہیں بنی اگر ارتقاء ایک ہی جاندار سے سارے جاندار پیدا کر سکتا ہے کیونکہ یہاں جانداروں کی کچھ خاص اقسام پہ پائ جاتی ہیں۔اس طرح ارتقاء کے حامیوں کا یہ دعوی بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔
ارتقاء کے ماہرین کا دعوی ہے کہ 1994میں پاکستان میں پچاس ملین سال قدیم جانور کا ایک ڈھانچہ جسےAmbulocetus natansکہتے ہیں،یہ ظاہر کرتا ہے کہ فیل ماہی یا وہیل مچھلی اس جاندار سے بنی لیکن اس کےHooves چھوٹے ہیں اور یہ اپنی زندگی کا اکثر حصہ پانی میں گزارتا تھا۔جب کہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ حقیقت میں زمینی جانور تھا اور اسے ارتقاء کی درمیانی کڑی۔۔۔۔۔Transitional Form.....کہنا غلط ہے۔اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے جانوروں یعنی میملز کی طرح اس کی چار ٹانگیں تھیں اور چوڑے پنجے تھے۔نیشنل جیوگرافک نے اس کی پچھلی ٹانگوں کو پیروں کے بغیر دکھایا جب کہ کیرول۔۔۔۔۔Carrol.....کے مطابق اس کی پچھلی ٹانگیں بھی تھی اور یہ زمین پہ چل سکتا تھا۔کچھ سائنسدانوں کے مطابق اس کے پاؤں پنجے جیسے بھی نہیں تھے۔اس کا حوالہ ہےPictures From Carrol,Pattern And Process Of Vertebrate Evolution P335۔یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ نیشنل جیوگرافک سمیت باقی سائنسی جریدے کس طرح ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے عوام سے جھوٹ بولتے رہے ہیں۔عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کوئ ایک بندر کا ڈھانچہ اٹھا کے اس کو ارتقاء کا درمیانی سلسلہ کہنا شروع کر دے اور تصویروں میں اس کے پنجے اور چپو جیسے پیروں کی بنیاد پہ یہ کہے کہ یہ فیل ماہی یا وہیل مچھلی کا جد امجد ہے تو یہ جھوٹ عوام کو کیسے سمجھ آئے گا۔ارتقاء کے ماہرین عوام سے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جاتے ہیں اور عوام سائنس سے نابلد ہونے کی وجہ سے ان پہ یقین کر لیتی ہے جب کہ منصف سائسدان ان پہ سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔
ارتقاء کے ماہرین یہ دعوی کرتے ہیں کہ جدید انسان ایہ بن مانس کی....Sahelanthropus.....کی نسل سے وجود میں آئے جو کہ اس وقت موجود تھا جب انسان اور بن مانس زمین میں پھیلنا شروع ہوئے۔یہ دعوی 2001میں کیا گیا لیکن ارتقاء کا یہ دعوی بھی انتہائ متنازعہ اور مشکوک ہے۔نیچرل ہسٹری میوزیم کے برگیٹی سینٹ۔۔۔۔۔Brigitte Senut.....کے مطابق اس کی کھوپڑی اور خصوصاCanine دانت بجائے انسان کے مادہ گوریلا جیسے ہیں۔اس نے کہا کہ اس کو انسانوں کا جد امجد کہنے کے لئے لازمی ہے کہ اس کی کچھ خصوصیات انسانوں جیسی ہوں جب کہ ایسا نہیں ہے اور تحقیقات نہیں ظاہر کرتی کہ یہ انسان کی طرح دو پاؤں پہ چلنے والی مخلوق۔۔۔۔۔Biped Creature.....تھا۔ کچھ ماہرین اس بن مانس کو بن مانس کی ایک معدوم ہوجانے والی نسل قرار دیتے ہیں نہ کہ انسان کا جد امجد۔اس طرح یہ ثبوت بھی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ انسان بن مانس سے وجود میں آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ جانداروں میں پائ جانے والی کچھ مشترک خصوصیات یہ ظاہر تو کر سکتی ہیں کہ ان کا خالق ایک ہے لیکن یہ نہیں کہ یہ جاندار ارتقاء سے وجود میں آئے کیونکہ اب تک ارتقاء کے حامی جانوروں کی ایک سپی شیز یا قسم کے ڈی این اے کی تعداد تبدیل ہوجانے سے دوسری نسل میں تبدیل ہونے کا ثبوت نہیں فراہم کر سکے۔محض مفروضے اور نظریات پہ مبنی باتیں ہیں جن کا آج تک کوئ پختہ سائنسی ثبوت نہیں ملتا۔
ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ سب جانداروں کا ایک مشترک جد امجدEusthenopteron تھا جو کہ زمین پر آج سے 358ملین سال پہلے موجود تھا۔وہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ مچھلیIcthyostega یا خشکی و تری دونوں میں زندہ رہنے والے جانوروں۔۔۔۔۔Amphibians....میں تبدیل ہوگئ جب کہ وہ آج تک یہ ظاہر نہیں کر سکے کہ مچھلی کے تیرنے والے بازو یا فن ٹانگوں میں تبدیل کیسے ہوئے۔اس کے لیے دعوی کیا گیا کہ گرین لینڈ سے ملنے والے فوسل یا حجری حیاتیات اس کی تصدیق کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس فوسل کے درمیانی خان کی ہڈی مچھلی کے مشابہہ تھی جو کہ کچھ مچھلیوں میں سننے اور سانس لینے دونوں میں کام آتی ہے۔یہ کسی طرح ظاہر نہیں کرتی تھی کہ یہ مچھلی ایمفیبین کا درمیانی سلسلہ ہے۔گولڈ۔۔۔۔Gould.....اور ایلڈرج۔۔۔۔Eldredge....کیتے ہیں
"ارتقاء میں درمیانی سلسلوں کا ظاہر کرنا ناممکن ہے اور فوسل یا حجری حیاتیات کے ریکارڈ میں ان کی کوئ گواہی نہیں۔"
ارتقا کے حامیوں کے مطابق جب سے سیب کا پودا شمالی امریکہ میں متعارف کروایا گیا ہے تب سے سیب کے مگیسیہ۔۔۔۔۔Apple Maggots.....کی ایک نئ سپی شیز یا قسم وجود میں آرہی ہے جو کہ اپنے اجداد کے برعکس پھول کی خاردار لکڑی کو نہیں کھاتی۔یہ ایک احمقانہ دلیل ہے۔اس میں بھلا یہ کس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وہی جاندار نہیں رہی۔اور جاندار میں تبدیل ہوگئ۔
ارتقاء کے ماہرین کچھوے کو۔ زبردستی مچھلی کی نسل سے قرار دینے کے لیے اتنے بے چین ہیں کہ کبھی کس فوسل تو کبھی کس فوسل کو اس کا جد امجد قرار دیتے ہیں۔پہلے دعوی کیا گیا کہ یہOdontochelysسے وجود میں آیا۔پھر دعوی کیا گیا کہ یہEunotosaurusسے وجود میں آیا۔پھر دعوی کیا گیا کہ یہPappochelysسے وجود میں آیا اور اس کوGrandfather Turtle کا لقب دیا گیا۔ان کے مطابق یہ 240ملین سال پہلے ظاہر ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ اس کی کھوپڑی جدید کچھوے سے کچھ مختلف ہے اور دوسری بات یہ کہ اس کے خول کچھوے کی طرح ملے ہوئے نہیں ہیں۔اگرچہ ان کے دانت ہیں لیکن یہ پھر بھی حقیقی کچھوے لگتے ہیں کیونکہ آج بھی کچھ ایسے کچھوے پائے جاتے ہیں جن کے خول ملے ہوئے نہیں ہوتے۔جدید کچھوے کی طرح اس کے سینے کے عضلات۔۔۔۔۔۔Intercostal Muscles.....پسلیوں سے منسلک نہیں ہیں اور اسے کچھوے سے مختلف کوئ جانور قرار دے کے اسے ارتقاء کا درمیانی سلسلہ یا مسنگ لنک قرار دینا غلط ہے۔
(مضمون ابھی جاری ہے)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔