ایک ملحد کا کہنا ہے کہ انسان کو وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے ننگا رہنا چاہیے اور عورتوں کو برقعہ اتار دینا چاہیے کیونکہ اس سے جسم پر سورج کی روشنی نہ پڑنے سے وٹامن ڈی نہیں بنتا۔
بسم اللٰہ الرحمن الرحیم
ملحد کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے برقعہ اتارنا اور جسم کو ننگا کرنا لازمی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ حقیقت میں سائنسی طور پر اس وٹامن کی کتنی اہمیت ہے اور کیا واقعی اسکی کمی پوری کرنے کے لیے کپڑے اتار دینا لازمی ہے؟اگر یہ وٹامن اتنا ہی اہم ہے تو بیچارے قطبین کے لوگ جہاں طح مہینے رات رہتی ہے موسم انتہائ درد ہے کپڑے اتارنا تو دور کی بات جرسی تک نہیں اتاری جا سکتی اور سردی کے علاوہ باقی دنوں میں جو دھوپ نکلتی ہے وہ بھی واجبی سی نکلتی ہے تو پھر اتنے اہم وٹامن کی کمی اور مناسب سورج کی روشنی حاصل نہ کر پانے پر ان لوگوں کو تو مر جانا چاہیے کیوں کہ اتنا اہم وٹامن ہے اور اسلام جیسےبقول ملحدین کے "قدامت پسند"مذہب نے اپنے ماننے والوں کو اس وٹامن سے محروم کر رکھا ہے۔اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ اس وٹامن کی کمی پوری کرنے کے لیے نہ ہی ہر وقت دھوپ میں رہنا ضروری ہے اور نہ ہی سارے کپڑے اتارنا۔یہ بات خود سائنسی ذرائع کہتے ہیں۔سائنسی ذرائع کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے روزانہ صرف پندرہ سے بیس منٹ دھوپ میں رہنا کافی ہے جس میں جسم کا چالیس فیصد حصہ براہ راست سورج کی روشنی کی زد میں ہو۔اب یہ چالیس فیصد حصہ ایک مسلمان خاتون اپنے گھر میں پردے میں بیٹھ کر گھٹنے سے نیچے اور کہنیوں تک بازو اور چہرہ کھول کر بغیر کسی غیر مرد کے سامنے جائے کر سکتی ہے۔وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کی کسی سائنسی وضاحت میں نہیں لکھا کہ سارے کپڑے اتار ڈالو۔جہاں تک بات ہے برقعے کی تو وہ مسلم خواتین صرف تب اوڑھتی ہیں جب وہ باہر جاتی ہیں،ہمیشہ نہیں۔جب وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے پورا جسم ننگا کرنا ضروری ہی نہیں اور دھوپ بھی صرف پندرہ سے بیس منٹ لگوانی ہے اور برقعہ بھی صرف خاص حالات میں پہنا جاتا ہے تو پردے پر اعتراض کہاں کی سائنسی عقلمندی ہے۔اگرپردہ کرنے کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی ہوسکتی ہے تو پھر یہ کمی تو دفاتر میں کام کرنے والے لوگوں میں زیادہ ہو جو صبح سے دوپہر تک کا وہ وقت دفتر میں گزارتے ہیں جب وٹامن ڈی بنانے والی سورج کی الٹرا وائلٹ یا بالائے بنفشی شعاعیں میسر ہوتی ہیں۔اس کا مطلب پھر دفاتر کے لوگ جو بند کمروں میں بیٹھ کے سالوں سے کام کر رہے ہیں سورج کی روشنی سے دور وہ بھی مر جائیں یا وٹامن ڈی حیسا "اہم"وٹامن جس کے حصول کے لیے ننگا ہونا اور برقعہ اتار دینا لازمی ہے بقول ملحد کے،تو پھر وہ سب دفتری کام چھوڑ کر ننگے ہوکر جا کر دھوپ میں بیٹھ جائیں۔یہ احمقانہ منطق پیش کی ہے اس ملحد نے جس کا مقصد صرف اور صرف اسلامی پردے کا مذاق اڑانا ہے۔
سیاہ رنگت کے لوگ جن کی جلد میںMelanin pigment پایا جاتا ہے ان میں سورج کی روشنی اچھی طرح جذب نہیں ہوسکتی۔اس کا مطلب ہے کہ پھر وہ اپنی سیاہ کھال کسی قصائی سے اتر وادیں۔سائنس کے مطابق بند گھر جس میں روشنی کا داخلہ نہ ہو وہ بھی ان الٹراوائلٹ یا بالائے بنفشی شعاعیں کا راستہ روکتے ہیں۔پھر اگر یہ کمی پوری کرنے کے لیے پردہ اتار دینا لازمی ہے تو کیا انسان اپنے گھر بھی گرا دیں؟جب کہ ایسا نہیں ہے۔محض پندرہ سے بیس منٹ دھوپ روزانہ جسم کے چالیس فیصد حصہ پر کافی ہے۔اس کے لیے ہمیشہ کا ننگا ہونا اور پردہ اتار دینا ضروری نہیں ہے۔
گیارہ یورپی ممالک میںEuronut Seneca Study جو کہ وٹامن ڈی کی کمی پر کی گئی،اس میں پتہ چلا کہ 47% عورتوں اور چھتیس فیصد مردوں میں وٹامن ڈی کی سطح نارمل سے کم تھی۔اب یورپی خواتین کونساپردہ کرتی ہیں جو ان میں اس وٹامن کی کمی ہوگئ۔
سعودیہ عرب کے شہر جدہ میں 1172خواتین پر تحقیق کی گئ جس میں سے اسی فیصد میں وٹامن ڈی کی کمی تھی اور یہ کمی پردہ کرنے والی اور اپنے ہاتھ بازو چہرہ کھلے رکھنے والی عورتوں میں برابر تھی۔اب اگر پردہ ہی اس کی وجہ ہے تو یہ کمی تحقیق میں شامل خواتین کے دونوں گروہوں میں کیوں برابر تھی۔بعد میں اس تحقیق سے یہ اخذ کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کی وجوہات صرف سورج کی روشنی کی کمی نہیں بلکہ خواراک میں موجود وٹامن ڈی کی کم مقدار اور موٹاپا بھی ہیں۔
وٹامن ڈی کی کمی چین اور منگولیا میں بھی بہت زیادہ ہے۔وہاں کی خواتین کونسا پردہ کرتی ہیں۔وسطی چین کے شہرLinixian کی 25% آبادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار تھی اور ان میں وٹامن ڈی کی کمی سے ہونے والی ہڈیوں کی بیماری سوکھا پن یاRickets بھی بہت زیادہ تھی جب کہ وہاں کوئ پردہ نہیں کیا جاتا۔جب کہ اس وٹامن کی کمی جاپان میں کم ہے اور تحقیق کے مطابق اس کی وجہ وہاں مچھلی کا کثرت سے استعمال ہے۔یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کے لیے کپڑے اور نقاب اتارنا لازمی نہیں بلکہ گردے،موٹاپے کے امراض سے بچاؤ اور اچھی خوراک لازمی ہیں۔
کینیڈا میں ہونے والی تحقیق کے مطابق دودھ کا استعمال اس وٹامن کی کمی کو روکتا ہے۔یہ تحقیق چھ سے اناسی سال کے 5306افراد پر کی گئی۔بحر الکاہل کے جزائر میں بھی یہی دیکھا گیا کہ یہ کمی خواتین میں زیادہ ہے۔یہ وہاں کے اعدادوشمار میں جہاں صرف واجبی قسم کا لباس پہنا جاتا ہے۔اگر صرف کپڑے اور نقاب اتارکر اس کی کمی پوری ہوتی تو یہ اعدادوشمار کونسی کمی ظاہر کر رہے ہیں۔
ترکی میں ہونے والی تحقیق میں مردوں اور عورتوں میں وٹامن ڈی کی سطح میں کوئ فرق نہیں دیکھا گیا جب کہ وہاں پورے کپڑے پہننے اور عبایا کا رواج ہے۔
یہ تھی تحقیقات جب کہ صرف کچھ تحقیقات چند فیصد کا فرق بتاتی ہیں پردہ کرنے والی خواتین میں جس کو پھر کینیڈا اور جاپان کی تحقیقات کے مطابق مچھلی اور مناسب مقدار میں دودھ کے استعمال سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
اور بات یہ کہ وٹامن ڈی کی کمی خط استوا کے گرم علاقوں جیسا کہ سنگا پور میں بھی دیکھی گئ ہے جہاں سارا سال سورج کی روشنی وسیع مقدار میں میسر ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین کے نزدیک صرف سورج کی روشنی اکیلی ہی وٹامن ڈی کی بڑی اور اہم وجہ نہیں۔یہ پڑھیں
The high prevalence of vitamin D deficiency in a sunny tropical region reinforces the need to recognize that sunlight alone is not the precursor for optimal vitamin D status.
اس مطالعے میں بھی وٹامن ڈی کی کمی خواتین میں زیادہ دیکھی گئ۔جب کہ یہ تحقیق ہالینڈ کی ہے جہاں پردے کا رواج نہیں۔
Gender
-
related vitamin D deficiency in a Dutch post
-
Medieval farming community
Veselka, Barbara
1
, Hoogland, Menno L.P.
1
and Waters
-
Rist, Andrea L.
1
1.
Human Osteoarchaeology Laboratory, Faculty of Archaeology, Leiden University, the Netherlands.
The most common cause of vitamin D deficiency is inadequate sunlight
-
based dermal synthesis. In subadults this conditions is called rickets, in adults osteomalacia. In Beemster, a post
-
Medieval rural community in the Netherlands, rickets was present in 30.4% of the subadults under the age of four years (n=71). This research explores vitamin D deficiency in adults from Beemster with a multidisciplinary approach including macroscopic, radiological and microscopic analyses. Fourteen out of twenty two cases of residual rickets in the Beemster adults (n=200) are females, providing information on gender
-
related risk of developing rickets.
دنیا میں ایک بلین یعنی ایک ارب انسان وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں جن میں سے تقریبا آدھے مرد ہیں۔اب مرد کونسا پردہ کرتے ہیں جو ان میں جسم پر دھوپ نہ پڑنے کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی ہوگئ۔
اس سے بہتر ایک اور تحقیق ہے جو کراچی میں ہوئ۔اس میں 300افرد پر تحقیق کی گئ جس میں سے 194مرد تھے۔لیکن جب وٹامن ڈی کی کمی کا مردوں اور عورتوں سے موازنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ الٹا یہ کمی مردوں میں زیادہ تھی۔اب مرد کونسا پردہ تھے جو ان میں وٹامن ڈی کی کمی ہوگئ۔یی پڑھیں
Eighty six percent of the men and 82% of the females were found to have serum 25(OH) vitamin D levels less than the 30 ng/dL cut off for vitamin D sufficiency.
یہ ساری گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کاپردہ کرنے سے کوئ تعلق نہیں۔اس کمی کی شرح مردوں میں عورتوں سے زیادہ ہوسکتی ہے جب کہ مرد تو دنیا میں کہیں بھی نقاب کر کے یا عبایا اوڑھ کر باہر نہیں نکلتے۔ دانیال تیموری نے سائنسی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے اور اسلام دشمنی میں سائنسی حقائق بھی بھول گیا۔
مضمون کے حوالہ جات۔۔
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3311638/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4723156/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3068797/
http://www.jarcp.com/703-the-global-epidemiology-of-vitamin-d-status.html
http://www.archivesofrheumatology.org/full-text/548
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4723156/
https://www.hindawi.com/journals/bri/2016/8920503/
تحریر۔۔ڈاکٹر احید حسن
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔