Tuesday 10 April 2018

نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید (حصہ سوم)


نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید
(حصہ سوم)
اگر زندگی امکانی طور پر یا خود بخود پیدا ہوسکتی ہے تو خدا خود بخود کیوں موجود نہیں ہو سکتا۔
خدا کے منکر دعوی کرتے ہیں کہ کئ بلین سال کے عرصے میں ایک ناممکن خود بخود ممکن ہو جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس عرصے میں خدا کیوں نہیں ممکن ہو سکتا جس کا وہ انکار کرتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر ممکن چیز کے ساتھ خدا نہ صرف ممکن بلکہ حقیقی طور پہ موجود ہے۔
حقیقت میں خدا کا وجود انسان کے وجود سے زیادہ ممکن ہے کیونکہ اگر ارتقاء کے عمل سے انسان وجود میں آسکتا ہے تو خدا کے وجود کے لیے نو بلین اضافی سال موجود ہیں جب کہ زمین کے سورج کی عمر  محض6 •4بلین سال سے موجود ہےلیکن ارتقاء کے حامی ارتقاء کے غلط نظریے میں ہر چیز مان سکتے ہیں لیکن خدا کو نہیں۔ہم کہتے ہیں ارتقاء ہے ہی غلط جب کہ خدا بغیر کسی ارتقاء کے ہمیشہ سے موجود ہے۔
جدید الحاد و تصور خدا کے منکرین کے قائد مشہور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور مشہور ملحد جارج والڈ نے لکھا کہ ہر کائنات کی ہر  ممکن چیز دو بلین سال کے عرصے میں ہوجاتی ہے جب کہ اگر کائنات کی عمر تیرہ بلین سال ہے اور زمین کے سورج کی عمر چار اعشاریہ چھ بلین سال ہے تو خدا کے پاس اپنے وجود کے لیے نو بلین سال اضافی موجود ہیں لیکن ارتقاء کے ماہرین اس عرصے میں ہر بات کو ممکن ماننے کو تیار ہیں لیکن خدا کو ماننے سے انکاری ہیں اور اس انکار میں وہ بذات خود اپنے ارتقاء کے نظریے کا انکار کر رہے ہیں کیونکہ اگر اتنے عرصے میں ایک چیز بن سکتے ہے دوسری نہیں تو پھر پہلی چیز کے ارتقاء کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔لیکن ارتقاء کے ماہرین ارتقاء کے بت کی پوجا کرنے میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ یہ حقائق بھول جاتے ہیں۔
یہاں میں ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ گوریلا،بن مانس میں کروموسوم کی تعداد انسان سے زیادہ ہے اور انسان کا ارتقاء ان سے ثابت ہی نہیں ہوتا۔سائنسی علم وراثت یا جینیٹکس کے مطابق بھی 24کروموسوم والے بن مانس کا انسان میں ارتقاء ناممکن ہے کیونکہ اس علم کے مطابق اگر کروموسوم کا ایک جوڑا بھی کم ہوجائے تو نسل آگے ہی نہیں بڑھ سکتی۔اس لیے ارتقاء کے ماہرین نے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے یہ جھوٹ گھڑ کیا تھا کہ انسان میں بھی کروموسوم کی تعداد 23ہے۔خدا کے منکر سائنسدان تھیور فلس پینٹر نے اس جھوٹ کی قیادت کی اور 1921میں ایک مضمون میں یہ دعوی کیا کہ انسان میں کروموسوم کی تعداد 24ہے۔خدا کے منکر دوسرے سائنسدانوں نے اس کی تصدیق میں مقالے لکھ ڈالے لیکن یہ سائنسی فراڈ اور دغا 1956میں واضح ہو گیا جب سائنسدانوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ انسان میں بن مانس کے برعکس کروموسوم کی تعداد 23ہے لیکن ساتھ ہی عوام سے جھوٹ بولا گیا کہ ان سے کروموسوم کی گنتی کرنے میں غلطی ہوئ تھی۔کیا کروموسوم کی ٹھیک تعداد گننا اتنا مشکل تھا کہ تیس سال تک یہ نہ ہوسکا جب جینیٹکس اس دوران ترقی کر کے کہاں پہنچ چکی تھی اور باقی جانداروں جیسا کہ کتوں تک کے کروموسوم کی تعداد کا تعین بھی ٹھیک طرح سے کیا جا چکا تھا۔اس دوران خدا کے منکر کمیونسٹوں جیسا کہ ہٹلر،روس کے سٹائن اور چین کے موزے تنگ نے اس بات کی تعلیم پہ پابندی لگا دی کہ جاندار سپی شیز یا اقسام جو خود خدا نے پیدا کیا۔اس طرح ایک سازش کے تحت نظریہ ارتقاء کو پروان چڑھایا گیا تا کہ اس کو بنیاد بنا کے خدا کا انکار کیا جا سکے۔
18 دسمبر 1912کو برطانوی جیولاجیکل سوسائیٹی نے برٹش میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے تعاون سے ایک انسانی کھوپڑی کی حقیقت بے نقاب کی جسے ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں درمیانی سلسلہ یا مسنگ لنک قرار دیا گیا تھا اور پوری دنیا میں یہ ڈھنڈھورا پیٹا گیا کہ مسنگ لنک مل گئے اور ڈارون کا نظریہ ثابت ہو گیا۔چالیس سال تک اس کھوپڑی کو انسان کے بن مانس سے پیدا ہونے کا ثبوت بنا کے پیش کیا گیا اور اس دوران برٹش میوزیم نے جھوٹ پکڑے جانے کے ڈر سے کسی کو یہ کھوپڑی دیکھنے کی اجازت تک نہ دی اور کہا کہ ہمارے پاس گواہی موجود ہے مگر ہم یہ کسی کو نہیں دکھائیں گے اور آپ کو ہماری بات پہ یقین رکھنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ کھوپڑی وہ کسی کو دور سے بھی نہیں دکھا سکتے کیونکہ اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے جب کہ دور سے دکھانے سے وہ کھوپڑی کہاں چلی جاتی۔جب کہ حقیقی وجہ یہ تھی کہ یہ سب جھوٹ تھا اور جھوٹ پکڑے جانے کے ڈر سے یہ کسی کو نہیں دکھائی گئ۔تیس سال تک یہ کسی کو نہیں دکھائی گئ اور سائنسدانوں نے بھی اس کے دیکھنے پہ اس لیے اصرار نہیں کیا کہ وہ بھی خدا کے منکر اور ڈارون کے نظریے کے قائل تھے یا خود بھی اس جھوٹ کے منصوبے کا حصہ تھے۔
1949 تک ارتقاء کے ماہرین یہ دعوی کرتے رہے اور اب بھی کرتے ہیں کہ انسان بن مانس سے ارتقاء پا کر افریقہ میں پیدا ہوا اور اس تصور کو مزید تقویت دینے کے لیے وہ کھوپڑی کسی کو نہیں دکھائی گئ لیکن آخرکار لوئس لیکی سمیت کچھ نمایاں سائنسدانوں کے اصرار پہ برٹش میوزیم یہ کھوپڑی چالیس سال بعد کسی کو دکھانے پہ قائل ہو گیا۔
ہسٹری چینل کی ایک ڈوکومینٹری کے مطابق لوئس لیکی نے کہا کہ یہ کھوپڑی اتنا بڑا فراڈ تھا کہ عہ پندرہ فٹ دور سے اس کی حقیقت بتا سکتا تھا کیونکہ اس کے جبڑوں اور باقی کھوپڑی کا رنگ مختلف تھا۔اس کا مطلب ہے کہ کس طرح  کچھ طاقتور دہریے اور ملحد سائنسدان جھوٹی گواہیوں کا سہارہ لے کے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا،پرچار کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔
1978 میں امریکی میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے گیرتھ نیلسن نے لکھا
"یہ خیال کہ ایک انسان فوسل یا حجری حیاتیات کے ریکارڈ کا معائنہ کر کے جانداروں کے ارتقاء کا سلسلہ پا لے گا تو یہ خیال محض سوچ کا دھوکا ہے"۔
نیچر سائنس کے ایک لکھاری ہنری گی نے 1999میں لکھا
"کوئ بھی فوسل اپنی پیدائشی سند کے ساتھ زمین میں دفن نہیں ہے کہ ہم اس سے ارتقاء کا نتیجہ اخذ کر لیں کیونکہ یہ پہلے جانداروں سے نئے جادندار اقسام کے بننے کو ظاہر نہیں کرتا۔یہ محض انسانی ذہن کی ایک تخلیق ہے۔ایک فوسل کو لے کر اس سے ارتقاء کو ثابت کرنے کی بات کرنا رات کو سوتے وقت بچوں کو سنائ جانے والی کہانی کی طرح ہے جس کی کوئ سائنسی بنیاد نہیں"۔
ارتقاء کے ماہرین ارتقاء کی حمایت میں یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ بچہ بننے کے عمل کے دوران سب جانوروں کے جنین یا ایمبریو ایک جیسے ہوتے ہیں جو کہ ان کے ایک ہی جاندار سے ارتقاء کو ظاہر کرتے ہیں جب کہ ابتدائی طور پہ وہ مختلف ہوتے ہیں پھر کچھ دنوں کے لیے ایک دوسرے کے مشابہہ ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں جب کہ ڈارون اور ہیکل نے انہیں شروع میں متشابہ قرار دیا تھا۔
1981 میں کینیڈین ماہر حیاتیات یا ماہر بیالوجی سٹیون سکیڈنگ نے کہا کہ جانوروں میں پائے جانے والے غیر مستعمل اعضا یاVestigial organs ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی کوئ سائنسی گواہی پیش نہیں کرتے کیونکہ حیوانی انسان میں ایسے اعضا ڈھونڈنا مشکل ہے جن کا کوئ استعمال نہ ہو جیسا کہ انسان کا اپنڈکس جس کو پہلے اضافی عضو سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس کے جسمانی افعال کا پتہ چلایا جا چکا ہے۔
یہ سب سائنسی حقائق کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر ارتقاء کی بجائے کوئ اور سائنسی نظریہ ہوتا تو وہ کب کا ناکافی سائنسی گواہیوں کی وجہ سےمسترد ہو چکا ہوتا لیکن سائنس پہ قابض کچھ الحادی و یہودی گروہ یہ حقائق عوام سے چھپا کے رکھتے ہیں تا کہ اس نظریے کا پرچار کر کے عوام میں خدا کے انکار کی تحریک چلائی جا سکے۔یاد رہے کہ یہ وہی سائنسی طبقہ ہے جو ایڈز کا علاج نہیں آنے دیتا،ڈینگی کے خاتمے کی تحقیقات ناکام کر دیتا ہے،مائیکرو آرگنزم یا خوردبینی جانداروں پر خفیہ تحقیقات کر کے انہیں حیاتیاتی ہتھیار بطور تیار رکھتا ہے۔غضب تو یہ ہے کہ سائنس بھی الحاد کی سازشوں اور طاقتور فری میسن الومیناتی اور صیہونی اثر سے آزاد نہیں جو کہ نظری ارتقا یا تھیوری آف ایولوشن جیسے جھوٹ پہ مبنی نظریات کا پرچار کر کے کدا کے انکار اور الحاد کی راہ ہموار کرتے ہیں تا کہ دنیا سے خدا،مذہب اور اخلاقیات کا تصور مٹا کر انسان کو کٹھ پتلی اور آسانی سے کنٹرول کیا جا سکنے والا ایک کھلونا بنایا جا سکے۔
(مضمون ابھی جاری ہے)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔