نادانستگی میں کی گئی قرآنی غلطیاں(نعوذ بااللہ)
سوره المائدہ - 64 ( وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود کہتے ہیں کہ اﷲ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے ، ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور جو کچھ انہوں نے کہا اس کے باعث ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ فرماتا ہے، اور جو آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو سر کشی اور کفر میں اور بڑھا دے گی، اور ہم نے ان کے درمیان روزِ قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اﷲ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں، اور اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)
**** پتا نہیں یہ غلطی قران میں تحریف کرنے والوں سے بعد میں ہوئی نعوذ بااللہ یا براہ راست محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے ہی ہوئی ، بہرحال اس نے روانی میں اپنے الله کو انسانوں کی طرح دو ہاتھ عطا کر دئیے - اگر صرف ہاتھ کا ہی اشارہ ہوتا تو اسکو تمثیلی انداز سمجھا جاسکتا تھا مگر قران لکھنے والے نے تو کوئی ابہام ہی نہیں چھوڑا کہ خدا کی ہیت بھی انسان کی طرح ہی ہے.....
ایک بات تو اب ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ خدا دو ہاتھ رکھتا ہے.
//////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ
جواب۔۔۔۔۔۔۔
خدا کی ہئیت انسان جیسی ہے یا نہیں یہ بحث اگر کسی کو چھیڑنے کا حق ہے تو اس کو هے جو خدا کے وجود کو تسلیم بهی کرتا ہو اور اسے خالقِ کائنات بھی مانتا ہو ورنہ ایسا شخص جس کے لئیے خدا کا وجود اور عدم ایک جیسا ہو اس کے لئیے خدا کے اعضاء هونے نہ هونے یا انسان کے مانند هونے یا نہ هونے کی بحث کا کیا مطلب؟
اعتراض یا سوال اگر کسی کا بنتا بھی هے اس بارے میں تو وہ ایک مسلمان کا مسلمان سے بنتا ہے یا اگر کوئی ملحد بھی کر سکتا ہے تو وہ بھی صرف اتنا پوچھ سکتا ہے (بطورِ وضاحت) کہ اس آیت کا مطلب آپ لوگ کیا بیان کرتے ہیں؟ کیونکہ جب ان کے ہاں وجود اور عدم وجود ہی برابر ہے تو اعضاء کا هونا کسی برائی میں شمار کرکے اس کی بناء پر تحریف قرآن کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کہ کہا جائے چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے چونکہ اعضاء نہیں هونے چاہیئں اس لئیے یہ قرآن مجید میں تحریف کہلائے گی..
ایک مسلمان اگر دوسرے مسلمان سے یہ سوال کرے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کا کیا مطلب ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ ساتھ اس کو خالق و معبود بھی مانتا ہے جبکہ اس سوال کا تعلق اللہ کی معرفت کے وضوح کے اس اگلے مرحلے کے ساتھ هے جس کو جانتے رہنے کی اس کو موت تک نصیحت کی گئی ہے...
اللہ تعالیٰ کو خالق قادر اور معبود واحد وغیرہ جیسے بنیادی عقائد ماننے کا تعلق اس سوال سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس مرحلے سے ہے کہ جو ذات ان صفات سے متصف ہے کیا وہ شکل و هئیت میں کسی انسان کی طرح ہے یا اس ذات کو کسی طور بیان کیا جاسکتا ہے؟
تو جب ایسا هے تو یہ سوال صرف کسی مسلمان کا مسلمان سے بنتا ہے کیونکہ اس نے معرفتِ الہی اور معرفتِ دین میں آگے بڑھنا هے...
باقی آیت میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اعضاء کی تشبیہ کا جواب آسان ہے..
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا اس جیسا کوئی نہیں...لیس کمثلہ شئی اور ساتھ ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کی تشبیہات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی مسئلہ نہیں.. چونکہ مسئلہ وہاں پیدا هوتا هے جہاں سمجھ کا فقدان ہو کہ وہاں ہر دو بظاہر متضاد باتوں کا بتنگڑ بن جاتا ہے اگرچہ دونوں میں تطبیق کے کئی طریقے اور قرائن موجود ہوں..
ملحدین کے نزدیک یہ تضاد کا معاملہ تھا چونکہ وہاں عقل کی کمی تھی جب کہ مسلمانوں کے ہاں یہ دماغ پر زور ڈالنے اور دو باتوں کو جوڑ کر درست بات نکالنے کا معاملہ تھا چنانچہ علماء نے اس معاملے کی وضاحت میں فرمایا کہ اعضاء کی تشبیہ ہمارے لحاظ سے هے کہ ہمیں سمجھایا جارہا ہے ورنہ اللہ کی هئیت کی کیفیت کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں تو فرما دیا گیا ہے کہ اس جیسی کوئی شئی نہیں..
تو اتنی سی بات ہے کہ اعضاء جیسی تشبیہ ہمیں سمجھانے کے لئیے هے باقی اعضاء واقعی ہیں اور اگر ہیں تو کیسے ہیں اس کے بارے میں ہم اللہ کو کسی انسان جیسا ظاہر کرکے تحریف کا فضول دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا اس کے مثل کوئی شئی نہیں...
اس آیت میں اللٰہ تعالٰی یہود کا ایک خبیث قول نقل کر رہا ہے جو کہتے تھے کہ اللٰہ تعالٰی نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں یعنی کہ وہ بخیل اور فقیر ہے۔ان کا یہ مطلب اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ جکڑے جانے کا نہ تھا بلکہ اس سے وہ اللٰہ تعالٰی کو بخیل کہنا چاہتے تھے۔جیسا کہ عربی میں کسی شخص کو بخیل کہتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔فخاص نامی یہودی نے یہ کہا تھا اور اس کا دوسرا قول بھی تھا کہ نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی فقیر اور ہم غنی ہیں جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے پیٹا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ شماس ابن قیس نے یہ کہا تھا۔چنانچہ اللٰہ تعالٰی نے بھی ان کے اعتراضات کا ان کے الفاظ میں جواب دیا اور فر مایا کہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں یعنی وہ سب کچھ خرچ کرتا ہے۔اس کا فضل وسیع اور اس کی بخشش عام ہے۔
تفسیر ابن کثیر جلد دوم صفحہ 91،92
ابن کثیر نے اس آیت میں ہاتھ سے مراد اللٰہ تعالٰی کی طرف سے دنیا میں وسائل و رزق کی تقسیم قرار دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا سچ میں اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں؟
اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں بھی سہی تو وہ ہم انسانوں جیسے نہیں کیونکہ اس کے مثل کوئ نہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔وہ خالق ہے۔اور مخلوق اس جیسی اور وہ مخلوق جیسا نہیں ہو سکتا۔مخلوق خالق کی نقل ہوتی ہے لیکن خالق مخلوق کی نقل نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ یہاں ہاتھ کا لفظ استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔لازمی نہیں کہ یہاں حقیقت میں ہی ہاتھ مراد ہو۔صرف سمجھانے کے لیے استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اور اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں بھی تو وہ ہم انسانوں جیسے نہیں۔اور بات یہ کہ اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ثابت ہو بھی جائیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی کے وجود اور اس کی عظیم قدرت کا انکار ہوجائے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ اللٰہ تعالٰی کے مثل کوئ نہیں جیسا کہ قرآن نے کہا اور ہاتھ کا لفظ استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ابن کثیر نے اسکی تفسیر اللٰہ تعالٰی کی طرف سے رزق کی وسیع تقسیم اور سخاوت سے کی۔اور اگر پھر بھی کوئ اس بات کو نہ مانے تو اس کے جواب کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللٰہ تعالٰی کے مثل کوئ نہیں۔اگر ا س کے ہاتھ ہیں بھی تو وہ ہم جیسے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہاتھ کے مان لینے سے اللٰہ تعالٰی کی وسیع قدرت و طاقت کا انکار ثابت ہوتا ہے۔
Uncertainty principle کے مطابق کائنات کی ہر چیز دو پہلو رکھتی ہے۔ایک مادی اور دوسرا موجی۔اگر خدا ایک ہاتھ رکھے تو وہ بھی ثابت اگر ایک مادی وجود سے بالاترہو جائے تو وہ بھی ثابت۔کسی طرح بھی اس کی قدرت و طاقت کا انکار سامنے نہیں آتا۔بات بس سمجھنے کی ہے۔
من جانب۔۔سہیل احمد،طلحہ ایر،احید حسن
سوره المائدہ - 64 ( وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود کہتے ہیں کہ اﷲ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے ، ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور جو کچھ انہوں نے کہا اس کے باعث ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ فرماتا ہے، اور جو آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو سر کشی اور کفر میں اور بڑھا دے گی، اور ہم نے ان کے درمیان روزِ قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اﷲ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں، اور اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)
**** پتا نہیں یہ غلطی قران میں تحریف کرنے والوں سے بعد میں ہوئی نعوذ بااللہ یا براہ راست محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے ہی ہوئی ، بہرحال اس نے روانی میں اپنے الله کو انسانوں کی طرح دو ہاتھ عطا کر دئیے - اگر صرف ہاتھ کا ہی اشارہ ہوتا تو اسکو تمثیلی انداز سمجھا جاسکتا تھا مگر قران لکھنے والے نے تو کوئی ابہام ہی نہیں چھوڑا کہ خدا کی ہیت بھی انسان کی طرح ہی ہے.....
ایک بات تو اب ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ خدا دو ہاتھ رکھتا ہے.
//////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ
جواب۔۔۔۔۔۔۔
خدا کی ہئیت انسان جیسی ہے یا نہیں یہ بحث اگر کسی کو چھیڑنے کا حق ہے تو اس کو هے جو خدا کے وجود کو تسلیم بهی کرتا ہو اور اسے خالقِ کائنات بھی مانتا ہو ورنہ ایسا شخص جس کے لئیے خدا کا وجود اور عدم ایک جیسا ہو اس کے لئیے خدا کے اعضاء هونے نہ هونے یا انسان کے مانند هونے یا نہ هونے کی بحث کا کیا مطلب؟
اعتراض یا سوال اگر کسی کا بنتا بھی هے اس بارے میں تو وہ ایک مسلمان کا مسلمان سے بنتا ہے یا اگر کوئی ملحد بھی کر سکتا ہے تو وہ بھی صرف اتنا پوچھ سکتا ہے (بطورِ وضاحت) کہ اس آیت کا مطلب آپ لوگ کیا بیان کرتے ہیں؟ کیونکہ جب ان کے ہاں وجود اور عدم وجود ہی برابر ہے تو اعضاء کا هونا کسی برائی میں شمار کرکے اس کی بناء پر تحریف قرآن کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کہ کہا جائے چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے چونکہ اعضاء نہیں هونے چاہیئں اس لئیے یہ قرآن مجید میں تحریف کہلائے گی..
ایک مسلمان اگر دوسرے مسلمان سے یہ سوال کرے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کا کیا مطلب ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ ساتھ اس کو خالق و معبود بھی مانتا ہے جبکہ اس سوال کا تعلق اللہ کی معرفت کے وضوح کے اس اگلے مرحلے کے ساتھ هے جس کو جانتے رہنے کی اس کو موت تک نصیحت کی گئی ہے...
اللہ تعالیٰ کو خالق قادر اور معبود واحد وغیرہ جیسے بنیادی عقائد ماننے کا تعلق اس سوال سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس مرحلے سے ہے کہ جو ذات ان صفات سے متصف ہے کیا وہ شکل و هئیت میں کسی انسان کی طرح ہے یا اس ذات کو کسی طور بیان کیا جاسکتا ہے؟
تو جب ایسا هے تو یہ سوال صرف کسی مسلمان کا مسلمان سے بنتا ہے کیونکہ اس نے معرفتِ الہی اور معرفتِ دین میں آگے بڑھنا هے...
باقی آیت میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اعضاء کی تشبیہ کا جواب آسان ہے..
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا اس جیسا کوئی نہیں...لیس کمثلہ شئی اور ساتھ ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کی تشبیہات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی مسئلہ نہیں.. چونکہ مسئلہ وہاں پیدا هوتا هے جہاں سمجھ کا فقدان ہو کہ وہاں ہر دو بظاہر متضاد باتوں کا بتنگڑ بن جاتا ہے اگرچہ دونوں میں تطبیق کے کئی طریقے اور قرائن موجود ہوں..
ملحدین کے نزدیک یہ تضاد کا معاملہ تھا چونکہ وہاں عقل کی کمی تھی جب کہ مسلمانوں کے ہاں یہ دماغ پر زور ڈالنے اور دو باتوں کو جوڑ کر درست بات نکالنے کا معاملہ تھا چنانچہ علماء نے اس معاملے کی وضاحت میں فرمایا کہ اعضاء کی تشبیہ ہمارے لحاظ سے هے کہ ہمیں سمجھایا جارہا ہے ورنہ اللہ کی هئیت کی کیفیت کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں تو فرما دیا گیا ہے کہ اس جیسی کوئی شئی نہیں..
تو اتنی سی بات ہے کہ اعضاء جیسی تشبیہ ہمیں سمجھانے کے لئیے هے باقی اعضاء واقعی ہیں اور اگر ہیں تو کیسے ہیں اس کے بارے میں ہم اللہ کو کسی انسان جیسا ظاہر کرکے تحریف کا فضول دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا اس کے مثل کوئی شئی نہیں...
اس آیت میں اللٰہ تعالٰی یہود کا ایک خبیث قول نقل کر رہا ہے جو کہتے تھے کہ اللٰہ تعالٰی نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں یعنی کہ وہ بخیل اور فقیر ہے۔ان کا یہ مطلب اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ جکڑے جانے کا نہ تھا بلکہ اس سے وہ اللٰہ تعالٰی کو بخیل کہنا چاہتے تھے۔جیسا کہ عربی میں کسی شخص کو بخیل کہتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔فخاص نامی یہودی نے یہ کہا تھا اور اس کا دوسرا قول بھی تھا کہ نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی فقیر اور ہم غنی ہیں جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے پیٹا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ شماس ابن قیس نے یہ کہا تھا۔چنانچہ اللٰہ تعالٰی نے بھی ان کے اعتراضات کا ان کے الفاظ میں جواب دیا اور فر مایا کہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں یعنی وہ سب کچھ خرچ کرتا ہے۔اس کا فضل وسیع اور اس کی بخشش عام ہے۔
تفسیر ابن کثیر جلد دوم صفحہ 91،92
ابن کثیر نے اس آیت میں ہاتھ سے مراد اللٰہ تعالٰی کی طرف سے دنیا میں وسائل و رزق کی تقسیم قرار دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا سچ میں اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں؟
اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں بھی سہی تو وہ ہم انسانوں جیسے نہیں کیونکہ اس کے مثل کوئ نہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔وہ خالق ہے۔اور مخلوق اس جیسی اور وہ مخلوق جیسا نہیں ہو سکتا۔مخلوق خالق کی نقل ہوتی ہے لیکن خالق مخلوق کی نقل نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ یہاں ہاتھ کا لفظ استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔لازمی نہیں کہ یہاں حقیقت میں ہی ہاتھ مراد ہو۔صرف سمجھانے کے لیے استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اور اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں بھی تو وہ ہم انسانوں جیسے نہیں۔اور بات یہ کہ اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ثابت ہو بھی جائیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی کے وجود اور اس کی عظیم قدرت کا انکار ہوجائے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ اللٰہ تعالٰی کے مثل کوئ نہیں جیسا کہ قرآن نے کہا اور ہاتھ کا لفظ استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ابن کثیر نے اسکی تفسیر اللٰہ تعالٰی کی طرف سے رزق کی وسیع تقسیم اور سخاوت سے کی۔اور اگر پھر بھی کوئ اس بات کو نہ مانے تو اس کے جواب کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللٰہ تعالٰی کے مثل کوئ نہیں۔اگر ا س کے ہاتھ ہیں بھی تو وہ ہم جیسے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہاتھ کے مان لینے سے اللٰہ تعالٰی کی وسیع قدرت و طاقت کا انکار ثابت ہوتا ہے۔
Uncertainty principle کے مطابق کائنات کی ہر چیز دو پہلو رکھتی ہے۔ایک مادی اور دوسرا موجی۔اگر خدا ایک ہاتھ رکھے تو وہ بھی ثابت اگر ایک مادی وجود سے بالاترہو جائے تو وہ بھی ثابت۔کسی طرح بھی اس کی قدرت و طاقت کا انکار سامنے نہیں آتا۔بات بس سمجھنے کی ہے۔
من جانب۔۔سہیل احمد،طلحہ ایر،احید حسن
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔