ملحدین کا قرآن کی آیت پر اعتراض اور اسکا جواب
سوره عنکبوت - آیت نمبر 3
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں)
گا ، گی ، گے کا صیغہ مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس واقعہ کی طرف منسوب ہوتا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہ ہوا ہو ... اوپر والی آیت میں الله خود فرما رہا ہے کہ وہ ..... جان لیں گے...
یعنی (نعوذ بااللہ) تسلیم کر رہا ہے کہ اس نے ابھی جانا نہیں .... اور یہ لاعلمی پر دلالت کرتا ہے(نعوذ بااللہ) ..
کیا اللٰہ تعالٰی کو پہلے ان لوگوں کاپتہ نہیں تھا کہ وہ کیسے ہیں؟(نعوذ بااللہ)۔اگرپہلے سے پتہ تھا تو پھر آزمانے کا کیا مطلب ہے
جواب
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴿٣﴾
ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالٰی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں۔ (۱)
٣۔١ یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالٰی ان کی مدد فرمائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ' (صحیح بخاری) حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریح میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔
فلیعلمن سے مراد ان گمراہ فرقہ ہے۔جس نے یہ عقیدہ اخذ کیا جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے۔خدا کو اس کا علم ہوتا جاتاہے۔اور اس عقیدے کو وہ لوگ اپنی اصلاح میں بدا کہتے ہیں۔حالانکہ بے شمار آیات سے معلوم ہوتاہے۔کہ کائنات اور اس میں ظہور پزیر ہونے والے تمام واقعات کا علم بھی اس ذات کی طرح ازلی بلندی ہے۔اور اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات سےجو اللہ تعالی کے حدثعلم کا وہم پیدا ہوتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے۔ماضی۔حال ۔مستقبل کی تقسیم صرف ،ہم انسانوں کے لیے ہےاللہ تعلی کے لیے زمانے کی یہ تقسیم کوئی چیز نہیں۔کیونکہ ہر واقعہ خواہ وہ ہمارے ماضی سے تعلق رکھتا ہویا حال یا مستقبل سےاس کے لیے غیب نہیں بلکہ شہادت ہی شہادت ہے۔اسی لیے اللہ تعالی نے مستقبل کی خبروں کو بے شمار مقامات پرزمانہ ماضی کے صیغہ میں زکر فرمایا۔جیسے(ونادی اصحب الجنھ اصحب النار)(44:7)اور (واذالشمس کورت)(1:81) لیکن یہ ایسے واقعات کے متعلق ہوتا ہے۔جو انسان کے تجربہ و مشاہدہ میں نہ آسکتے ہوں۔اور جو انسانوں کے تجربہ اور مشاہدہ میں آسکتے ہوں۔تو ان کا تعلق حال اور مستقبل سے ہوگا۔لہذااللہ تعالی نے یہاں مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔اور اس کا مطلب صرف ہی نہیں ہاتاکہ میں جان لیں یا معلوم کرلیں۔بلکہ یہ بھی ہوتا ہے۔کہ تم جان لوجیساکہ اس مقام پر یا اور بھیکئی مقامات پرایسا انداز اختیار کیا گیاہے۔
حوالہ:احسن البیان۔تیسیرالقران۔
سوره عنکبوت - آیت نمبر 3
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں)
گا ، گی ، گے کا صیغہ مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس واقعہ کی طرف منسوب ہوتا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہ ہوا ہو ... اوپر والی آیت میں الله خود فرما رہا ہے کہ وہ ..... جان لیں گے...
یعنی (نعوذ بااللہ) تسلیم کر رہا ہے کہ اس نے ابھی جانا نہیں .... اور یہ لاعلمی پر دلالت کرتا ہے(نعوذ بااللہ) ..
کیا اللٰہ تعالٰی کو پہلے ان لوگوں کاپتہ نہیں تھا کہ وہ کیسے ہیں؟(نعوذ بااللہ)۔اگرپہلے سے پتہ تھا تو پھر آزمانے کا کیا مطلب ہے
جواب
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴿٣﴾
ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالٰی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں۔ (۱)
٣۔١ یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالٰی ان کی مدد فرمائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ' (صحیح بخاری) حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریح میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔
فلیعلمن سے مراد ان گمراہ فرقہ ہے۔جس نے یہ عقیدہ اخذ کیا جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے۔خدا کو اس کا علم ہوتا جاتاہے۔اور اس عقیدے کو وہ لوگ اپنی اصلاح میں بدا کہتے ہیں۔حالانکہ بے شمار آیات سے معلوم ہوتاہے۔کہ کائنات اور اس میں ظہور پزیر ہونے والے تمام واقعات کا علم بھی اس ذات کی طرح ازلی بلندی ہے۔اور اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات سےجو اللہ تعالی کے حدثعلم کا وہم پیدا ہوتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے۔ماضی۔حال ۔مستقبل کی تقسیم صرف ،ہم انسانوں کے لیے ہےاللہ تعلی کے لیے زمانے کی یہ تقسیم کوئی چیز نہیں۔کیونکہ ہر واقعہ خواہ وہ ہمارے ماضی سے تعلق رکھتا ہویا حال یا مستقبل سےاس کے لیے غیب نہیں بلکہ شہادت ہی شہادت ہے۔اسی لیے اللہ تعالی نے مستقبل کی خبروں کو بے شمار مقامات پرزمانہ ماضی کے صیغہ میں زکر فرمایا۔جیسے(ونادی اصحب الجنھ اصحب النار)(44:7)اور (واذالشمس کورت)(1:81) لیکن یہ ایسے واقعات کے متعلق ہوتا ہے۔جو انسان کے تجربہ و مشاہدہ میں نہ آسکتے ہوں۔اور جو انسانوں کے تجربہ اور مشاہدہ میں آسکتے ہوں۔تو ان کا تعلق حال اور مستقبل سے ہوگا۔لہذااللہ تعالی نے یہاں مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔اور اس کا مطلب صرف ہی نہیں ہاتاکہ میں جان لیں یا معلوم کرلیں۔بلکہ یہ بھی ہوتا ہے۔کہ تم جان لوجیساکہ اس مقام پر یا اور بھیکئی مقامات پرایسا انداز اختیار کیا گیاہے۔
حوالہ:احسن البیان۔تیسیرالقران۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔