خدا کی زات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل
خدا کی ذات کا اقرار یا انکار کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ خدا کی ذات کی ایک تعریف متعین کی جائے کہ خدا کیا ہوتا ہے۔تا کہ اس تعریف پہ ہم ان سب معبودوں کو پر کھیں جن کو خدا کہا جاتا ہے۔پھر جو اس تعریف پہ پورا اترے گا ہم اسے خدا تسلیم کریں گے باقی سب کا انکار کر دیں گے۔
جس خدا کو میں خدا کہتا ہوں وہ خدا ہے جس کی چار بنیادی صفات ہیں
وقت سے متاثر نہ ہونے والا یعنی دائمی
ہر جگہ موجود
سب سے زیادہ طاقتور
سب کچھ جاننے والا
جو چیز موجود ہی نہ ہو یا مکمل طور پر پوشیدہ ہو... اس کے خصوصیات پتہ نہ ہوں تو پھر کیسے اس کی ذات کے لیے تعریف متعین کی جا سکتی ہے...
موجود کا وجود ثابت کرنے کے لیے ہی یہ ساری بات ہورہی ہے۔جہاں تک بات ہے پوشیدہ ہونے کی تو کسی چیز کا پوشیدہ ہونا اس کی خصوصیات کی نفی نہیں کرتا۔ایٹم ،الیکٹران،پروٹان،نیوٹران،کوارک،نیوٹرائینو،الفاویوز،بیکٹیریا،وائرس سب پوشیدہ ہیں لیکن سب کی خصوصیات پہ سائنس میں کتابیں ہی نہیں بلکہ انسائیکلو پیڈیا لکھے جا چکے ہیں۔
اس لیے جو چیز پوشیدہ ہو وہ ہماری نظر کا قصور ہے اور محض اپنے علم کے قصور سے ہم اس پوشیدہ چیز کی خصوصیات کا انکار نہیں کرتے۔
یہ تعریف مذہب نے متعین کی لہزا لوگ مذہب والوں سے سوال کرتے ۔ہیں۔اس تعریف کو میں انشاءاللہ اپنے رب پہ ثابت کر کے پیش کر رہا ہوں۔
یہ 1786کی بات ہے۔ولیم ہرشل اور اس کی بہن نے مل کے سیارہ یورینس دریافت کیا۔جس کا مدار مقررہ اندازے سے مختلف تھا۔لہزا مفروضہ پیش ہوا کہ یورینس کے باہر ایک اور سیارہ موجود ہے جو یہ مدار متاثر کر رہا ہے۔یہ دعوی تھا اور یہ 1846میں تب ثابت ہوا جب نیپچون سیارہ دریافت ہوا۔میں بھی کہتا ہوں کہ میرا خدا ہے جو پوری کائنات کو متاثر کررہا ہے،جیسے بجلی کو ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن لیکن اس کی خصوصیات پرکھ سکتے ہیں اس طرح جیسے ہم ذہانت کو نہیں دیکھتے لیکن اسے باپ سکتے ہیں۔میرا دعوی ہے اسی طرح ہم خدا کے وجود کو مان کے اس کی خصوصیات کو بھی ثابت کر سکتے ہیں۔
اس طرح دعوی کیاگیا کہ ایک ایٹم ہیوی ویٹ کا ہے نیم ٹھوس ہے ملٹنگ پوائنٹ کم ہے۔یہ دعوی جرمینیم ایلیمنٹ کی دریافت کے بعد سچ ثابت ہوا۔
خدا کی پہلی خصوصیت کہ دائمی اور وقت سے متاثر ہونے والا۔اس کا ساینسی ثبوت:
دائمی اور وقت سے متاثر نہ ہونے والاeternal.وارن ہیزنبرگ کےuncertainty principle کے مطابق ایک ہی وقت میں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔اس کے مطابق تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں جس سے ان کا مقام اور والاسٹی ایک ہی وقت میں معلوم نہیں کی جا سکتی۔
مالکوم ڈبلیو براؤن کےin signal travel and faster than speed of light کی تحقیقات کے مطابق تمام الیکٹران تمام الیکٹران کو ایک قوت متاثر کرتی اور جورتی ہے جو کہ ہمارے وقت میں ہے لیکن اس سے متاثر نہیں ہوتی۔چونکہ الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں لہذا ان کو متاثر کرنے والی یہ قوت بھی پوری کائنات میں موجود ہے۔
لیذا ثابت یو گیا کی ایک ایسی نامعلوم قوت موجود ہے جو الیکٹران کو بھی اپنے اثر اے آزاد نہیں کرتی اور کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ہر جگہ موجود ہونے کا تصور سچ ثابت ہوگیا کی ایسی قوت یا توانائ ہوسکتی ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو۔
اس کے مطابق دو سپیس میں دور موجود مادی اجزاء یعنی الیکٹران میں سے کوئ جب اس وقت سے متاثر ہوتا ہے دور موجود دوسرا الیکٹران خود بخود متاثر ہوتا ہے۔یعنی یہ قوت ایک پی وقت میں کائنات کے مختلف عوامل پہ اثر انداز کوسکتی ہے اور پوری کائنات میں موجود ہے۔
یہ قوت سب الیکٹران کو متاثر کرتی ہے۔اس تصور کو ابquantum entanglement کہا جاتا ہے۔
اب میں خدا کی دوسری خصوصیت یعنی ہر جگہ موجود پہ آتا ہوں۔
کوانٹم مکینکس کے مطابق الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں اور ہر جگہ اس قوت کے اثر میں ہین لہزا یہ قوت کائنات کے ہر کونے میں موجود ہے۔
اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے:
ویکیوم انرجی وہ انرجی ہے حو پوری کائنات میں موجود ہے۔جس سے مادی ذرات بنے اور پھر ان سے کائنات بنی۔یہ قوت بھی کوانٹم فزکس کے مطابق ہر جگہ موجود ہے۔جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ہر جگہ موجود ہونا ثابت ہوگیا۔
میں اپنے ثبوت میں مادی نہیں وہ قوت بیان کر رہاہون جو اس سارے مادے کو متاثر کرتی ہے۔کوئ مادہ اس کے اثر سے باہر نہیں۔
اب میں اپنے تیسرے نقطے یعنی سب سے طاقتور پہ آتا ہوں۔
اس قوت نے ویکیوم انرجی کی صورت میں کوانٹم فلکچویشن سے اپنے اندر سے ورچول پارٹیکلز کو بنایا یعنی یہ پہلے تھی مادہ بعد میں اس سے بنا۔ کائنات میں ہر جگہ موجود ہو کر اس نے پہلے چھوٹے ذرات پھر ایٹم مالیکیول پھر ان سے ستارے سیارے کہکیشاؤں کو پوری کائنات کو بنایا ۔اب جو قوت اتنی بڑی کائنات تخلیق کر دے اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے۔
مادہ اور توانائ ایک ہی چیز کے دورخ ہیں ٹھیک لیکن پہلے مادہ نہیں تھا۔ویکیوم انرجی تھی جس سے یہ مادہ اور پوری کائنات کوانٹم فلکچویشن سے بنی۔لہذا مادہ اپنے وجود اور پیدائش کے لیے اس توانائ کا محتاج تھا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ بنتا اس سے۔لہزا یہ قوت مادے سے بڑھ کے ہوئ سب سے بڑی طاقتور جس نے خود سے کائنات کے سب مادے اور پوری کائنات کو تخلیق کیا۔اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے جو کائنات بنا کے رکھ دے۔سب سے بڑا طاقتور ہونا ثابت ہوگیا۔
اب تک ہر جگہ موجود ہونا ثابت،وقت کے اثر سے آزاد ہونا ثابت،کائنات تخلیق کر کے سب سے بڑی طاقت ہونا ثابت۔اب آگے چلتے ہیں۔
دوسرا ثبوت تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق توانائی نہ پیدا کی جاسکتی ہے نہ فنا کی جاسکتی ہے۔اور یہ توانائ تھی بھی مادے سے پہلے۔بذات خود مادہ اس توانائ سے بنا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ ہوتا۔اس نے کچھ کے نہ ہونے سے اتنی بڑی کائنات کو بنا کے رکھ دیا۔
دوسری بات یہ کہ تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانوں کے مطابق توانائی کو پیدا نہیں کیا جا سکتا یعنی یہ ہمیشہ سے ہے اور زمان یا وقت کے اثر سے آزاد ہے۔اس نے پوری کائنات کو تخلیق کیا یعنی مکان بھی اس نے بنایا لہذا یہ زمان و مکان یاٹائم اینڈ سپیس سے آزاد ہے۔
مادہ ایسی توانائ سے وجود میں لایا گیا جو کائنات میں ہر حگہ موجود،ہمیشہ سے موجود،سب سے بڑی طاقتور یہ سب خدا کی خصوصیات کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں لائ گئ۔پہلے سوا اس توانائ کے کچھ بھی نہیں تھا جو موجود،سب سے بڑی طاقتور،ہمیشہ سے آزاد یہ خدا کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔
اگر کائنات عدم سے وجود میں آگئی ہے تو اس وہ انرجی کا کیا رول رہ گیا..... اگر اس انرجی نے مادہ پیدا کیا تو پھر کائنات عدم سے کیسے وجود میں آیا....
اس انرجی کا رول یہ ہے کہ اسی نے ہی یہ سب مادہ اور کائنات پیدا کی۔وہ نہ ہوتی تو کچھ نہ ہوتا۔اس انرجی نے ہی کائنات کو عدم سے پیدا کیا۔
آپ اس توانائ کا وجود نہیں ٹھکرا سکتے۔میں نے سائنسی دلائل دیے۔اس کا وجود ٹھکرانے کے لیے آپ کو سائنس کا انکار کرنا پڑے گا۔
ایک ساینسی تصور ہے جسے کوانٹم بیلنسنگ کہتے ہیں۔اب میں اس پہ آتا ہوں۔
روس میں ایک تجربہ ہوا۔اس کا بیان:
روس میں سائنسدانوں نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں خلا یا ویکیوم پیدا کیا سکشن اپریٹس سے۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ توانائ رکھنے والے فوٹان وراثتی مادے یا ڈی این اے کے بننے کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ انرجی فوٹان کو پہلے سے پتہ تھا کہ کونسے ڈی این اے مالیکیول کو کہاں ملانا ہے۔اس توانائ نے وراثتی مادے کو ڈئ این اے مالیکیول آنے سے پہلے خود آکر اس کے آنے کے بعد اس مالیکیول کو ترتیب دیا۔اب ڈئ این اے وراثتی مادہ ہے۔اگر یہ توانائ زندگی کی بنیاد یعنی وراثتی مادے کو ترتیب دے سکتی ہے جس سے پھر زندہ اشیاء اور پروٹین بنتی ہیں اور اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس ڈی این اے کو ایسے بنانا ہے اور یہ وہاں پہلے آگئی تو یہ اس توانائ کے زندگی کے بنیادی اجزاء اور پہلے سے اشیاء کا علم یا علم الغیب رکھنے کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔یہ بھی ثابت یوگیا کہ یہ توانائ کائناتی عوامل کا علم رکھتی یے اور ان کو انجام دینے کے لیے پہلے ہی آجاتی ہے اس،کے مادی ذرات کے آنے سے پہلے۔اب یہ عالم الغیوب ہونے کا ثبوت ہوگیا۔
اب اس کا مزید ثبوت:
ڈبل سلٹ کا تجربہ۔اس تجربے میں الیکٹران کو ایک ڈبل سلٹ سے گزارا گیا اور اس کے دوسری طرف ایک کیمرا رکھ دیا گیا جو ان کو شناخت کرتا۔جب کیمرا ان الیکٹران کو دیکھتا تو یہ ایک ذرے کی طرح تعامل کرتے اور جب نہ دیکھتا تو یہ ایک موج کی طرح۔یعنی کائنات کی ہر چیز دو خصوصیات رکھتی ہے ایک زراتی اور ایک ویو۔آگر خدا مادی یا زراتی طور پہ عمل کرے تو عرش پہ موجود اور اگر ایک ویو بطور عمل کرے تو پوری کائنات میں موجود۔ایک ہی وقت میں خدا کا عرش اور کائنات میں موجود ہونا ثابت ہو گیا۔یہ در حقیقتuncertainty principle کا دوسرا نقطہ ہے۔
1970 کے عشرے کے اوائل میں روجر ووگلسینگ نے ایک آلہ بنایا جسے اس نے ایس ٹی آئ یاself thinking interface کا نام دیا۔اب اس کی وضاحت:
اس میں اس نے الیکٹران اور ان کو متاثر کرنے والی توانائ استعمال کی۔اس نے دیکھا کہ یہ توانائ خود بخود کمپیوٹر پہ الفاظ ٹائپ کر سکتی تھی،اس کے خیالات پڑھ سکتی تھی۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔اسے یقین آگیا کہ ایک ایسی نامعلوم قوت کائنات میں موجود ہے جو پہلے سے سب اشیاء کا علم رکھتی یے یعنی عالم الغیوب ہے۔یہ دیکھ کے وہ خدا کی شان میں پکار اٹھا
We can thank God for the coming mental paradigm shift, even the bloodshed it brings to get things restarted correctly with a Self thinking interfacig device directly to God!"
اب ایک سائنسدان خدا کی یہ نشانی دیکھ کے خدا پہ ایمان لا چکا ہے۔ہم کیوں نہ لائیں۔
اب میں چاروں صفات خداوندی کا سائنسی ثبوت پیش کر چکا ہوں۔اب آگے چلتے ہیں۔
اگر زمین جتنی جسامت کی ہے اس سے چھوٹی ہوتی تو اس کا کرہ ہوای یا ایٹما سفیر نہ ہوتا اگر یہ اس سے بڑی ہوتی تو اس کی فضا میں مشتری کی طرح ہائیڈروجن زیادہ ہوجاتی۔دونوں صورتوں میں اس پہ زندگی کا وجود ناممکن ہو جاتا۔
زمین جتنے فاصلے پی سورج سے ہے اگر یہ فاصلہ ایک فریکشن بھی کم ہوتا تو زندگی جل جاتی اور اگر زیادہ ہوتا تو یہ جم جاتی۔
اگر زمین اپنے محور کے گرد گردش نہ کرتی تو زمیں کے کچھ حصے ٹھنڈے باقی گرم ہوجاتے۔
کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟جب کہ سائنسداں خود اعتراف کر چکے ہیں کہ کائنات میں ایک ایسی ذہانت والی ہستی موجود ہے جس نے یہ سب کیا۔اس ہستی کو وہ عالمگیر ذہانت یاuniversal intelligence کہتے ہیں۔
پانی کے جمنے اور ابلنے کے درجہ حرارت میں سو کا فرق ہے۔اگر یہ فرق نہ ہوتا تو درجہ حرارت کی تبدیلیوں سے زندہ خلیوں یا سیلز میں موجود مالیکول اس کے جمنے یا ابلنے سے تباہ ہوجاتے اور زندگی ناممکن ہوجاتی۔
اگر پانی میں ہر چیز حل کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو یہ خون میں زندگی کے لیے لازمی غذائی اجزا نہ پہنچا پاتا پورے جسم کو
پانی کا ایک سرفیس ٹینشن نہ ہوتا تو پانی کشش ثقل یا گریویٹی کے خلاف اوپر کو جا کر پودے۔ کو پانی فراہم نہ کر سکتا
اگر پانی اوپر سے نیچے کی بجائے نیچے سے اوپر کو جمتا تو اس میں موجود آبی حیات مر جاتی۔کیا یہ سب اتفاقی ہے؟خود بخود ہو گیا؟
اگر زمین پہ آبی بخارات اور بارشوں کا نظام نہ ہوتا تو زمیں کا پانی کب کا ناخالص ہو چکا ہوتا۔کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟
انسانی ذہن ایک وقت میں دس لاکھ سے زیادہ پیغامات پراسیس کر سکتا ہے۔کیا ایسی طاقتور مشین کوئ بنا سکتا ہے؟
آج تک سائنس کو ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب حیران کن حد تک ہوگیا۔اس لیے اب وہ عالمگیر ذہانت کا لفظ استعمال کرتے ہیں جسے ہم خدا کہتے ہیں۔
فلکیات کے مایر فزکس روبرٹ جیسٹرو لکھتے ہیں
The Universe flashed into being, and we cannot find out what caused that to happen۔
فزکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے سٹیون ونبرگ کیا کہتے ہیں۔یہ پڑھیں
the universe was about a hundred thousands million degrees Centigrade...and the universe was filled with light.
وہ کہ رہے ہیں کہ پیدائش کے وقت کائنات میں روشنی تھی۔اب حدیث میں کیا ہے کہ اللٰہ ایک چھپاہوا خزانہ تھا اور قرآن کیا کہتا ہے کہ وہ زمین آسمان کا نور ہے۔ساینس بھی کہتی ہے کہ نور یعنی روشنی ہے۔اور کیا ثبوت چاہئے۔
کائنات کچھ مقرر شدہ سائنسی اصولوں پہ چل رہی ہے اور یہ بات سائنس مان چکی ہے۔کشش ثقل،قوانیں حرکت،تھرمو ڈائنامکس کے قوانین،مادے اور توانائ کے قوانین پوری کائنات میں یکساں ہیں جس کا مطلب اس کائنات کا خالق ایک ہے۔
آخر کائنات کو کیا ضرورت ہے کی کچھ لازمی اصول پہ چلے۔پھر یہ کس کے قانون اور اصول کی پابندی کر رہی ہے۔اس پہ سائنسدان خود حیران ہیں۔کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے رچرڈ فن مین کے مطابق
Why nature is mathematical is a mystery...The fact that there are rules at all is a kind of miracle
یہ حیران کن حقائق کس ہستی کا ثبوت ہیں؟
زندگی کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے تین بلین یعنی تین ارب حروف پہ مشتمل ایک طرح کاinstruction manual ہے جو سیل یا خلیہ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اپنے افعال انجام دینے ہیں۔اگر صرف ایک سیل کا ڈی این اے نکال کے لائن میں رکھا جائے تو یہ زمیں سے سیارہ مشتری کے درمیان موجود فاصلے سے بھی ساٹھ گنا زیادہ لمبائی تک پھیل جائے۔کیا یہ خود بخود بن گیا؟
آپ کو پتہ ہے خدا کی ذات کے یہ سائنسی حقائق دیکھ کے ملحد سائنسدان میریلنڈ ایڈمسن خدا پہ ایمان لے آیا ہے۔
سوشلسٹ اور فلاسفر مصنف میلکوم میگرائیڈ نے خدا کی ذات کے بارے میں یہ اعتراف کیا
I had a notion that somehow, besides questing, I was being pursued.
سی ایس لیوس نے خدا کی ذات کا اعتراف کرنے کے بعد یہ کہا
night after night, feeling whenever my mind lifted even for a second from my work, the steady, unrelenting approach of Him whom I so earnestly desired not to meet. I gave in, and admitted that God was God, and knelt and prayed: perhaps, that night, the most dejected and reluctant convert in all of England۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ ہمارے جسم کے تمام خلیے یادداشت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور قرآن نے کیا کہا کہ تمہارا جسم تمہارے گناہوں کی گواہی دے گا۔سائنس نے بھی ثابت کردیا کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ خلیے اچھے برے تجربات یاد رکھتے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں موجود ہے۔اس کا سائنسی ثبوت:
یو ایس نیشنل کینسر انسٹٹیوٹ کے ڈین ہیمر جو کہ جین سٹرکچر اینڈ ریگولیشن یونٹ کے وہاں انچارج ہیں انہوں نےvmat2 کے نام سے ایک جین دریافت کیا ہے جو انسان میں خدا پہ ایمان اور روحانی خیالات پیدا کرتا ہے۔
اس جین کو گاڈ جین کا نام دیا گیا ہے۔اس پہ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہےThe God Gene,how faith is hardwired into our genes۔
یہ جین انسانی دماغ میں مونو امائن پیغاماتی مادوں یا نیورو ٹرانسمیٹرز کو کنٹرول کرتا ہے۔یہ تحقیق انہوں نے ایک ہزار انسانوں پہ تجربات کر کے کی۔اس تحقیق کی حمایتLindon Eves اور نکولس مارٹن کیTwin studies اور ماہر نفسیات رابرٹ کلوننگر کی تحقیقات نے بھی کی ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والے ملحد سائنسدان اس کو مسترد کرنے کی ایک بھی عملی تحقیق پیش نہیں کر سکے۔جب کہ گاڈ جین کی تحقیق ایک ہزار انسانوں پہ کی گئ ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والا ملحد سائنسدان پی زیڈ مائرز بھی لکھتا ہے
It's a pump. A teeny-tiny pump responsible for packaging a neurotransmitter for export during brain activity. Yes, it's important, and it may even be active and necessary during higher order processing, like religious thought. But one thing it isn't is a 'god gene
اس میں وہ مان رہا ہے کہ یہ جین مذہبی تصورات پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے گاڈ جین ماننے سے انکاری ہے کیونکہ ضد کا کوئ علاج نہیں۔
Tim Spector کی 9ستمبر 2013کی تحقیق پڑھ لیں۔وہ کہتا ہے انسانی مذہبی تصورات جین میں ہوسکتے ہیں اور اس پہ جو تحقیق ہے اسےTwin Studies کا نام دیا گیا ہے۔
ٹم سپیکٹر لکھتا ہے
science has shown us clearly that one level of belief in God and overall spirituality is shaped not only by a mix of family environment and upbringing--which is not surprising--but also by our genes.
وہ مان رہا ہے کہ مذہب اور خدا کا تصور انسان کی فطرت یعنی اس کے جین میں شامل ہے۔
یہ تحقیق امریکہ،نیدرلینڈ،اور برطانیہ میں ہزاروں انسانوں پہ کی گئ۔اس نے ثابت کیا کہ خدا پہ ایمان کا 40-50% حصہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔
ٹم سپیکٹر مزید لکھتا ہے
Skeptics among you might say that the twin studies showing similarity for belief are just reflecting some cultural or family influence that wasn't properly corrected for in the study design. However in one study of adopted twins, the researchers looked at religious belief in a number of adopted twins raised apart. They found exactly the same result--greater similarity in identical twin pairs, even if raised apart. The conclusion is unavoidable: faith is definitely influenced by genes.
اس تحقیق میں ایک سائنسدان نک مارٹن خدا کے وجود کا منکر تھا لیکن تحقیقات نے ثابت کر دیا کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
صرف یہی نہیں۔نیورو سائنسدان اینڈریو نیوبرگ کی 2001کی تحقیق پڑھیں۔وہ لکھتا ہے
“If it’s a very emotional experience, then an emotional part of the brain is involved. If it’s an experience where they lose the sense of self, then areas of the brain that deal with the sense of self are involved.
یہ خیالات اس نے اپنی کتابWhy God would not go away,brain science and biology of belief میں بیان کیے۔
الپر اور نیوبرگ نے کہا ہے کہ یہ جین انسانی ذہن کا تناؤ بھی کم کرتے ہیں۔سائنسی تحقیقات ثابت کر چکی ہیں کہ خدا کے ماننے والوں میں نفسیاتی امراض کی شرح کم اور ملحدین میں زیادہ ہوتی ہے۔
میں ایک بار پھر خدا کی ذات کے کائناتی ثبوتوں پہ آنا چاہوں گا۔
فزکس کے مطابق پوری کائنات میں انرجی کاایک میدان موجود ہے جسے وہHiggs field کہتے ہیں۔خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا ایک اور سائنسی ثبوت۔
ستاروں کے گول ہونے کو ان کی گریویٹی یا کشش ثقل وضاحت نہیں کر سکتی۔پھر کس نے ان کو گول بنایا۔
گیس لاء کے مطابق گیس کا پھیلاؤ کا دباؤ گریویٹی سے زیادہ ہوتا ہے۔اس طرح ستاروں کی ہائیڈروجن گیس منتشر ہوجاتی۔لیکن پھر بھی وہ گول ہیں۔کس نے ان کو گول بنایا۔
اگر کائنات ایک دھماکے سے بنی تو اس کی کوئ ترتیب نہ ہوتی لیکن یہ ایک خاص ترتیب میں کیوں ہے۔دھماکے بےترتیبی پھیلاتے ہیں ترتیب نہیں۔پھر کائنات میں اتنا ربط اور نظم کیسے آیا۔
11/22/16, 2:09 AM - Soldier of peace: کارل مارکس،سگمند فرائیڈ،برٹرینڈ رسل،سبط حسن،علی عباس جلال پوری،جوش ملیح آبادی اور ارشد محمود کے فلسفے پڑھ کر خدا کو ذہن و ارتقاء کی پیداوار اور نظر کا دھوکا قرار دینے والے ملحدین،دہریوں،کمیونسٹوں،کامریڈ ز سے گذارش ہے کہ یا خدا کی ذات کے ان سائنسی حقائق کا انکار کر کے دکھائیں یا خدا کی ذات پہ ایمان لے آئیں
خدا کی ذات کا اقرار یا انکار کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ خدا کی ذات کی ایک تعریف متعین کی جائے کہ خدا کیا ہوتا ہے۔تا کہ اس تعریف پہ ہم ان سب معبودوں کو پر کھیں جن کو خدا کہا جاتا ہے۔پھر جو اس تعریف پہ پورا اترے گا ہم اسے خدا تسلیم کریں گے باقی سب کا انکار کر دیں گے۔
جس خدا کو میں خدا کہتا ہوں وہ خدا ہے جس کی چار بنیادی صفات ہیں
وقت سے متاثر نہ ہونے والا یعنی دائمی
ہر جگہ موجود
سب سے زیادہ طاقتور
سب کچھ جاننے والا
جو چیز موجود ہی نہ ہو یا مکمل طور پر پوشیدہ ہو... اس کے خصوصیات پتہ نہ ہوں تو پھر کیسے اس کی ذات کے لیے تعریف متعین کی جا سکتی ہے...
موجود کا وجود ثابت کرنے کے لیے ہی یہ ساری بات ہورہی ہے۔جہاں تک بات ہے پوشیدہ ہونے کی تو کسی چیز کا پوشیدہ ہونا اس کی خصوصیات کی نفی نہیں کرتا۔ایٹم ،الیکٹران،پروٹان،نیوٹران،کوارک،نیوٹرائینو،الفاویوز،بیکٹیریا،وائرس سب پوشیدہ ہیں لیکن سب کی خصوصیات پہ سائنس میں کتابیں ہی نہیں بلکہ انسائیکلو پیڈیا لکھے جا چکے ہیں۔
اس لیے جو چیز پوشیدہ ہو وہ ہماری نظر کا قصور ہے اور محض اپنے علم کے قصور سے ہم اس پوشیدہ چیز کی خصوصیات کا انکار نہیں کرتے۔
یہ تعریف مذہب نے متعین کی لہزا لوگ مذہب والوں سے سوال کرتے ۔ہیں۔اس تعریف کو میں انشاءاللہ اپنے رب پہ ثابت کر کے پیش کر رہا ہوں۔
یہ 1786کی بات ہے۔ولیم ہرشل اور اس کی بہن نے مل کے سیارہ یورینس دریافت کیا۔جس کا مدار مقررہ اندازے سے مختلف تھا۔لہزا مفروضہ پیش ہوا کہ یورینس کے باہر ایک اور سیارہ موجود ہے جو یہ مدار متاثر کر رہا ہے۔یہ دعوی تھا اور یہ 1846میں تب ثابت ہوا جب نیپچون سیارہ دریافت ہوا۔میں بھی کہتا ہوں کہ میرا خدا ہے جو پوری کائنات کو متاثر کررہا ہے،جیسے بجلی کو ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن لیکن اس کی خصوصیات پرکھ سکتے ہیں اس طرح جیسے ہم ذہانت کو نہیں دیکھتے لیکن اسے باپ سکتے ہیں۔میرا دعوی ہے اسی طرح ہم خدا کے وجود کو مان کے اس کی خصوصیات کو بھی ثابت کر سکتے ہیں۔
اس طرح دعوی کیاگیا کہ ایک ایٹم ہیوی ویٹ کا ہے نیم ٹھوس ہے ملٹنگ پوائنٹ کم ہے۔یہ دعوی جرمینیم ایلیمنٹ کی دریافت کے بعد سچ ثابت ہوا۔
خدا کی پہلی خصوصیت کہ دائمی اور وقت سے متاثر ہونے والا۔اس کا ساینسی ثبوت:
دائمی اور وقت سے متاثر نہ ہونے والاeternal.وارن ہیزنبرگ کےuncertainty principle کے مطابق ایک ہی وقت میں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔اس کے مطابق تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں جس سے ان کا مقام اور والاسٹی ایک ہی وقت میں معلوم نہیں کی جا سکتی۔
مالکوم ڈبلیو براؤن کےin signal travel and faster than speed of light کی تحقیقات کے مطابق تمام الیکٹران تمام الیکٹران کو ایک قوت متاثر کرتی اور جورتی ہے جو کہ ہمارے وقت میں ہے لیکن اس سے متاثر نہیں ہوتی۔چونکہ الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں لہذا ان کو متاثر کرنے والی یہ قوت بھی پوری کائنات میں موجود ہے۔
لیذا ثابت یو گیا کی ایک ایسی نامعلوم قوت موجود ہے جو الیکٹران کو بھی اپنے اثر اے آزاد نہیں کرتی اور کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ہر جگہ موجود ہونے کا تصور سچ ثابت ہوگیا کی ایسی قوت یا توانائ ہوسکتی ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو۔
اس کے مطابق دو سپیس میں دور موجود مادی اجزاء یعنی الیکٹران میں سے کوئ جب اس وقت سے متاثر ہوتا ہے دور موجود دوسرا الیکٹران خود بخود متاثر ہوتا ہے۔یعنی یہ قوت ایک پی وقت میں کائنات کے مختلف عوامل پہ اثر انداز کوسکتی ہے اور پوری کائنات میں موجود ہے۔
یہ قوت سب الیکٹران کو متاثر کرتی ہے۔اس تصور کو ابquantum entanglement کہا جاتا ہے۔
اب میں خدا کی دوسری خصوصیت یعنی ہر جگہ موجود پہ آتا ہوں۔
کوانٹم مکینکس کے مطابق الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں اور ہر جگہ اس قوت کے اثر میں ہین لہزا یہ قوت کائنات کے ہر کونے میں موجود ہے۔
اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے:
ویکیوم انرجی وہ انرجی ہے حو پوری کائنات میں موجود ہے۔جس سے مادی ذرات بنے اور پھر ان سے کائنات بنی۔یہ قوت بھی کوانٹم فزکس کے مطابق ہر جگہ موجود ہے۔جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ہر جگہ موجود ہونا ثابت ہوگیا۔
میں اپنے ثبوت میں مادی نہیں وہ قوت بیان کر رہاہون جو اس سارے مادے کو متاثر کرتی ہے۔کوئ مادہ اس کے اثر سے باہر نہیں۔
اب میں اپنے تیسرے نقطے یعنی سب سے طاقتور پہ آتا ہوں۔
اس قوت نے ویکیوم انرجی کی صورت میں کوانٹم فلکچویشن سے اپنے اندر سے ورچول پارٹیکلز کو بنایا یعنی یہ پہلے تھی مادہ بعد میں اس سے بنا۔ کائنات میں ہر جگہ موجود ہو کر اس نے پہلے چھوٹے ذرات پھر ایٹم مالیکیول پھر ان سے ستارے سیارے کہکیشاؤں کو پوری کائنات کو بنایا ۔اب جو قوت اتنی بڑی کائنات تخلیق کر دے اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے۔
مادہ اور توانائ ایک ہی چیز کے دورخ ہیں ٹھیک لیکن پہلے مادہ نہیں تھا۔ویکیوم انرجی تھی جس سے یہ مادہ اور پوری کائنات کوانٹم فلکچویشن سے بنی۔لہذا مادہ اپنے وجود اور پیدائش کے لیے اس توانائ کا محتاج تھا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ بنتا اس سے۔لہزا یہ قوت مادے سے بڑھ کے ہوئ سب سے بڑی طاقتور جس نے خود سے کائنات کے سب مادے اور پوری کائنات کو تخلیق کیا۔اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے جو کائنات بنا کے رکھ دے۔سب سے بڑا طاقتور ہونا ثابت ہوگیا۔
اب تک ہر جگہ موجود ہونا ثابت،وقت کے اثر سے آزاد ہونا ثابت،کائنات تخلیق کر کے سب سے بڑی طاقت ہونا ثابت۔اب آگے چلتے ہیں۔
دوسرا ثبوت تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق توانائی نہ پیدا کی جاسکتی ہے نہ فنا کی جاسکتی ہے۔اور یہ توانائ تھی بھی مادے سے پہلے۔بذات خود مادہ اس توانائ سے بنا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ ہوتا۔اس نے کچھ کے نہ ہونے سے اتنی بڑی کائنات کو بنا کے رکھ دیا۔
دوسری بات یہ کہ تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانوں کے مطابق توانائی کو پیدا نہیں کیا جا سکتا یعنی یہ ہمیشہ سے ہے اور زمان یا وقت کے اثر سے آزاد ہے۔اس نے پوری کائنات کو تخلیق کیا یعنی مکان بھی اس نے بنایا لہذا یہ زمان و مکان یاٹائم اینڈ سپیس سے آزاد ہے۔
مادہ ایسی توانائ سے وجود میں لایا گیا جو کائنات میں ہر حگہ موجود،ہمیشہ سے موجود،سب سے بڑی طاقتور یہ سب خدا کی خصوصیات کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں لائ گئ۔پہلے سوا اس توانائ کے کچھ بھی نہیں تھا جو موجود،سب سے بڑی طاقتور،ہمیشہ سے آزاد یہ خدا کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔
اگر کائنات عدم سے وجود میں آگئی ہے تو اس وہ انرجی کا کیا رول رہ گیا..... اگر اس انرجی نے مادہ پیدا کیا تو پھر کائنات عدم سے کیسے وجود میں آیا....
اس انرجی کا رول یہ ہے کہ اسی نے ہی یہ سب مادہ اور کائنات پیدا کی۔وہ نہ ہوتی تو کچھ نہ ہوتا۔اس انرجی نے ہی کائنات کو عدم سے پیدا کیا۔
آپ اس توانائ کا وجود نہیں ٹھکرا سکتے۔میں نے سائنسی دلائل دیے۔اس کا وجود ٹھکرانے کے لیے آپ کو سائنس کا انکار کرنا پڑے گا۔
ایک ساینسی تصور ہے جسے کوانٹم بیلنسنگ کہتے ہیں۔اب میں اس پہ آتا ہوں۔
روس میں ایک تجربہ ہوا۔اس کا بیان:
روس میں سائنسدانوں نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں خلا یا ویکیوم پیدا کیا سکشن اپریٹس سے۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ توانائ رکھنے والے فوٹان وراثتی مادے یا ڈی این اے کے بننے کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ انرجی فوٹان کو پہلے سے پتہ تھا کہ کونسے ڈی این اے مالیکیول کو کہاں ملانا ہے۔اس توانائ نے وراثتی مادے کو ڈئ این اے مالیکیول آنے سے پہلے خود آکر اس کے آنے کے بعد اس مالیکیول کو ترتیب دیا۔اب ڈئ این اے وراثتی مادہ ہے۔اگر یہ توانائ زندگی کی بنیاد یعنی وراثتی مادے کو ترتیب دے سکتی ہے جس سے پھر زندہ اشیاء اور پروٹین بنتی ہیں اور اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس ڈی این اے کو ایسے بنانا ہے اور یہ وہاں پہلے آگئی تو یہ اس توانائ کے زندگی کے بنیادی اجزاء اور پہلے سے اشیاء کا علم یا علم الغیب رکھنے کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔یہ بھی ثابت یوگیا کہ یہ توانائ کائناتی عوامل کا علم رکھتی یے اور ان کو انجام دینے کے لیے پہلے ہی آجاتی ہے اس،کے مادی ذرات کے آنے سے پہلے۔اب یہ عالم الغیوب ہونے کا ثبوت ہوگیا۔
اب اس کا مزید ثبوت:
ڈبل سلٹ کا تجربہ۔اس تجربے میں الیکٹران کو ایک ڈبل سلٹ سے گزارا گیا اور اس کے دوسری طرف ایک کیمرا رکھ دیا گیا جو ان کو شناخت کرتا۔جب کیمرا ان الیکٹران کو دیکھتا تو یہ ایک ذرے کی طرح تعامل کرتے اور جب نہ دیکھتا تو یہ ایک موج کی طرح۔یعنی کائنات کی ہر چیز دو خصوصیات رکھتی ہے ایک زراتی اور ایک ویو۔آگر خدا مادی یا زراتی طور پہ عمل کرے تو عرش پہ موجود اور اگر ایک ویو بطور عمل کرے تو پوری کائنات میں موجود۔ایک ہی وقت میں خدا کا عرش اور کائنات میں موجود ہونا ثابت ہو گیا۔یہ در حقیقتuncertainty principle کا دوسرا نقطہ ہے۔
1970 کے عشرے کے اوائل میں روجر ووگلسینگ نے ایک آلہ بنایا جسے اس نے ایس ٹی آئ یاself thinking interface کا نام دیا۔اب اس کی وضاحت:
اس میں اس نے الیکٹران اور ان کو متاثر کرنے والی توانائ استعمال کی۔اس نے دیکھا کہ یہ توانائ خود بخود کمپیوٹر پہ الفاظ ٹائپ کر سکتی تھی،اس کے خیالات پڑھ سکتی تھی۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔اسے یقین آگیا کہ ایک ایسی نامعلوم قوت کائنات میں موجود ہے جو پہلے سے سب اشیاء کا علم رکھتی یے یعنی عالم الغیوب ہے۔یہ دیکھ کے وہ خدا کی شان میں پکار اٹھا
We can thank God for the coming mental paradigm shift, even the bloodshed it brings to get things restarted correctly with a Self thinking interfacig device directly to God!"
اب ایک سائنسدان خدا کی یہ نشانی دیکھ کے خدا پہ ایمان لا چکا ہے۔ہم کیوں نہ لائیں۔
اب میں چاروں صفات خداوندی کا سائنسی ثبوت پیش کر چکا ہوں۔اب آگے چلتے ہیں۔
اگر زمین جتنی جسامت کی ہے اس سے چھوٹی ہوتی تو اس کا کرہ ہوای یا ایٹما سفیر نہ ہوتا اگر یہ اس سے بڑی ہوتی تو اس کی فضا میں مشتری کی طرح ہائیڈروجن زیادہ ہوجاتی۔دونوں صورتوں میں اس پہ زندگی کا وجود ناممکن ہو جاتا۔
زمین جتنے فاصلے پی سورج سے ہے اگر یہ فاصلہ ایک فریکشن بھی کم ہوتا تو زندگی جل جاتی اور اگر زیادہ ہوتا تو یہ جم جاتی۔
اگر زمین اپنے محور کے گرد گردش نہ کرتی تو زمیں کے کچھ حصے ٹھنڈے باقی گرم ہوجاتے۔
کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟جب کہ سائنسداں خود اعتراف کر چکے ہیں کہ کائنات میں ایک ایسی ذہانت والی ہستی موجود ہے جس نے یہ سب کیا۔اس ہستی کو وہ عالمگیر ذہانت یاuniversal intelligence کہتے ہیں۔
پانی کے جمنے اور ابلنے کے درجہ حرارت میں سو کا فرق ہے۔اگر یہ فرق نہ ہوتا تو درجہ حرارت کی تبدیلیوں سے زندہ خلیوں یا سیلز میں موجود مالیکول اس کے جمنے یا ابلنے سے تباہ ہوجاتے اور زندگی ناممکن ہوجاتی۔
اگر پانی میں ہر چیز حل کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو یہ خون میں زندگی کے لیے لازمی غذائی اجزا نہ پہنچا پاتا پورے جسم کو
پانی کا ایک سرفیس ٹینشن نہ ہوتا تو پانی کشش ثقل یا گریویٹی کے خلاف اوپر کو جا کر پودے۔ کو پانی فراہم نہ کر سکتا
اگر پانی اوپر سے نیچے کی بجائے نیچے سے اوپر کو جمتا تو اس میں موجود آبی حیات مر جاتی۔کیا یہ سب اتفاقی ہے؟خود بخود ہو گیا؟
اگر زمین پہ آبی بخارات اور بارشوں کا نظام نہ ہوتا تو زمیں کا پانی کب کا ناخالص ہو چکا ہوتا۔کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟
انسانی ذہن ایک وقت میں دس لاکھ سے زیادہ پیغامات پراسیس کر سکتا ہے۔کیا ایسی طاقتور مشین کوئ بنا سکتا ہے؟
آج تک سائنس کو ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب حیران کن حد تک ہوگیا۔اس لیے اب وہ عالمگیر ذہانت کا لفظ استعمال کرتے ہیں جسے ہم خدا کہتے ہیں۔
فلکیات کے مایر فزکس روبرٹ جیسٹرو لکھتے ہیں
The Universe flashed into being, and we cannot find out what caused that to happen۔
فزکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے سٹیون ونبرگ کیا کہتے ہیں۔یہ پڑھیں
the universe was about a hundred thousands million degrees Centigrade...and the universe was filled with light.
وہ کہ رہے ہیں کہ پیدائش کے وقت کائنات میں روشنی تھی۔اب حدیث میں کیا ہے کہ اللٰہ ایک چھپاہوا خزانہ تھا اور قرآن کیا کہتا ہے کہ وہ زمین آسمان کا نور ہے۔ساینس بھی کہتی ہے کہ نور یعنی روشنی ہے۔اور کیا ثبوت چاہئے۔
کائنات کچھ مقرر شدہ سائنسی اصولوں پہ چل رہی ہے اور یہ بات سائنس مان چکی ہے۔کشش ثقل،قوانیں حرکت،تھرمو ڈائنامکس کے قوانین،مادے اور توانائ کے قوانین پوری کائنات میں یکساں ہیں جس کا مطلب اس کائنات کا خالق ایک ہے۔
آخر کائنات کو کیا ضرورت ہے کی کچھ لازمی اصول پہ چلے۔پھر یہ کس کے قانون اور اصول کی پابندی کر رہی ہے۔اس پہ سائنسدان خود حیران ہیں۔کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے رچرڈ فن مین کے مطابق
Why nature is mathematical is a mystery...The fact that there are rules at all is a kind of miracle
یہ حیران کن حقائق کس ہستی کا ثبوت ہیں؟
زندگی کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے تین بلین یعنی تین ارب حروف پہ مشتمل ایک طرح کاinstruction manual ہے جو سیل یا خلیہ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اپنے افعال انجام دینے ہیں۔اگر صرف ایک سیل کا ڈی این اے نکال کے لائن میں رکھا جائے تو یہ زمیں سے سیارہ مشتری کے درمیان موجود فاصلے سے بھی ساٹھ گنا زیادہ لمبائی تک پھیل جائے۔کیا یہ خود بخود بن گیا؟
آپ کو پتہ ہے خدا کی ذات کے یہ سائنسی حقائق دیکھ کے ملحد سائنسدان میریلنڈ ایڈمسن خدا پہ ایمان لے آیا ہے۔
سوشلسٹ اور فلاسفر مصنف میلکوم میگرائیڈ نے خدا کی ذات کے بارے میں یہ اعتراف کیا
I had a notion that somehow, besides questing, I was being pursued.
سی ایس لیوس نے خدا کی ذات کا اعتراف کرنے کے بعد یہ کہا
night after night, feeling whenever my mind lifted even for a second from my work, the steady, unrelenting approach of Him whom I so earnestly desired not to meet. I gave in, and admitted that God was God, and knelt and prayed: perhaps, that night, the most dejected and reluctant convert in all of England۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ ہمارے جسم کے تمام خلیے یادداشت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور قرآن نے کیا کہا کہ تمہارا جسم تمہارے گناہوں کی گواہی دے گا۔سائنس نے بھی ثابت کردیا کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ خلیے اچھے برے تجربات یاد رکھتے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں موجود ہے۔اس کا سائنسی ثبوت:
یو ایس نیشنل کینسر انسٹٹیوٹ کے ڈین ہیمر جو کہ جین سٹرکچر اینڈ ریگولیشن یونٹ کے وہاں انچارج ہیں انہوں نےvmat2 کے نام سے ایک جین دریافت کیا ہے جو انسان میں خدا پہ ایمان اور روحانی خیالات پیدا کرتا ہے۔
اس جین کو گاڈ جین کا نام دیا گیا ہے۔اس پہ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہےThe God Gene,how faith is hardwired into our genes۔
یہ جین انسانی دماغ میں مونو امائن پیغاماتی مادوں یا نیورو ٹرانسمیٹرز کو کنٹرول کرتا ہے۔یہ تحقیق انہوں نے ایک ہزار انسانوں پہ تجربات کر کے کی۔اس تحقیق کی حمایتLindon Eves اور نکولس مارٹن کیTwin studies اور ماہر نفسیات رابرٹ کلوننگر کی تحقیقات نے بھی کی ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والے ملحد سائنسدان اس کو مسترد کرنے کی ایک بھی عملی تحقیق پیش نہیں کر سکے۔جب کہ گاڈ جین کی تحقیق ایک ہزار انسانوں پہ کی گئ ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والا ملحد سائنسدان پی زیڈ مائرز بھی لکھتا ہے
It's a pump. A teeny-tiny pump responsible for packaging a neurotransmitter for export during brain activity. Yes, it's important, and it may even be active and necessary during higher order processing, like religious thought. But one thing it isn't is a 'god gene
اس میں وہ مان رہا ہے کہ یہ جین مذہبی تصورات پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے گاڈ جین ماننے سے انکاری ہے کیونکہ ضد کا کوئ علاج نہیں۔
Tim Spector کی 9ستمبر 2013کی تحقیق پڑھ لیں۔وہ کہتا ہے انسانی مذہبی تصورات جین میں ہوسکتے ہیں اور اس پہ جو تحقیق ہے اسےTwin Studies کا نام دیا گیا ہے۔
ٹم سپیکٹر لکھتا ہے
science has shown us clearly that one level of belief in God and overall spirituality is shaped not only by a mix of family environment and upbringing--which is not surprising--but also by our genes.
وہ مان رہا ہے کہ مذہب اور خدا کا تصور انسان کی فطرت یعنی اس کے جین میں شامل ہے۔
یہ تحقیق امریکہ،نیدرلینڈ،اور برطانیہ میں ہزاروں انسانوں پہ کی گئ۔اس نے ثابت کیا کہ خدا پہ ایمان کا 40-50% حصہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔
ٹم سپیکٹر مزید لکھتا ہے
Skeptics among you might say that the twin studies showing similarity for belief are just reflecting some cultural or family influence that wasn't properly corrected for in the study design. However in one study of adopted twins, the researchers looked at religious belief in a number of adopted twins raised apart. They found exactly the same result--greater similarity in identical twin pairs, even if raised apart. The conclusion is unavoidable: faith is definitely influenced by genes.
اس تحقیق میں ایک سائنسدان نک مارٹن خدا کے وجود کا منکر تھا لیکن تحقیقات نے ثابت کر دیا کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
صرف یہی نہیں۔نیورو سائنسدان اینڈریو نیوبرگ کی 2001کی تحقیق پڑھیں۔وہ لکھتا ہے
“If it’s a very emotional experience, then an emotional part of the brain is involved. If it’s an experience where they lose the sense of self, then areas of the brain that deal with the sense of self are involved.
یہ خیالات اس نے اپنی کتابWhy God would not go away,brain science and biology of belief میں بیان کیے۔
الپر اور نیوبرگ نے کہا ہے کہ یہ جین انسانی ذہن کا تناؤ بھی کم کرتے ہیں۔سائنسی تحقیقات ثابت کر چکی ہیں کہ خدا کے ماننے والوں میں نفسیاتی امراض کی شرح کم اور ملحدین میں زیادہ ہوتی ہے۔
میں ایک بار پھر خدا کی ذات کے کائناتی ثبوتوں پہ آنا چاہوں گا۔
فزکس کے مطابق پوری کائنات میں انرجی کاایک میدان موجود ہے جسے وہHiggs field کہتے ہیں۔خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا ایک اور سائنسی ثبوت۔
ستاروں کے گول ہونے کو ان کی گریویٹی یا کشش ثقل وضاحت نہیں کر سکتی۔پھر کس نے ان کو گول بنایا۔
گیس لاء کے مطابق گیس کا پھیلاؤ کا دباؤ گریویٹی سے زیادہ ہوتا ہے۔اس طرح ستاروں کی ہائیڈروجن گیس منتشر ہوجاتی۔لیکن پھر بھی وہ گول ہیں۔کس نے ان کو گول بنایا۔
اگر کائنات ایک دھماکے سے بنی تو اس کی کوئ ترتیب نہ ہوتی لیکن یہ ایک خاص ترتیب میں کیوں ہے۔دھماکے بےترتیبی پھیلاتے ہیں ترتیب نہیں۔پھر کائنات میں اتنا ربط اور نظم کیسے آیا۔
11/22/16, 2:09 AM - Soldier of peace: کارل مارکس،سگمند فرائیڈ،برٹرینڈ رسل،سبط حسن،علی عباس جلال پوری،جوش ملیح آبادی اور ارشد محمود کے فلسفے پڑھ کر خدا کو ذہن و ارتقاء کی پیداوار اور نظر کا دھوکا قرار دینے والے ملحدین،دہریوں،کمیونسٹوں،کامریڈ ز سے گذارش ہے کہ یا خدا کی ذات کے ان سائنسی حقائق کا انکار کر کے دکھائیں یا خدا کی ذات پہ ایمان لے آئیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔