ملحدین کا قرآن کی گرائمر پر اعتراض اور یہ اعتراض کہ قرآن کی عربی کے الفاظ دوسری زبانوں سے لیے گئے اور ان کا جواب۔۔۔۔
سوال۔۔۔۔
ایک ملحد کا اعتراض ہے کہ قرآن میں گرائمر کی غلطیاں ہیں نعوذ بااللہ۔وہ کہتا ہے قرآن صابیوں کو الصابئون کہتا ہے جب کہ الصابئین کہنا چاہئے،سورہ بقرہ آیت 177میں الصابرین کو الصابرون کہنا چاہیے،سورہ الاعراف میں قریب کے لفظ کو قریبۃ،سورہ الحج میں اِختَصَمو فی ربھم کو اختصموا فی ربھما،سورہ توبہ آیت 62،69میں لفظ کاالذی کو کاالذینا،سورہ منافقون میں لفظ اَکُن کو اَکُونَ اور سورہ حجرات آیت 9میں لفظ اِقتَتَلُوا کو اِقتَتَلا ہو نا چاہیے۔علمی و تحقیقی جواب عنایت کیا جائے۔عین نوازش ہوگی۔
جواب۔۔۔۔۔
عربی زبان میں گرامر کی جو قدیم ترین کتابیں لکھی گئیں وہ نزولِ قرآن کے دو سو برس بعد لکھی گئیں اور غیر عربوں نے لکھیں۔ اگر قرآنِ مجید میں گرامیٹیکل مسٹیک ہوتی تو کفارِ مکہ اور مشرکین اور پوری عرب دنیا خاموش نہ رہتی اور اس غلطی کا بتنگڑ بنا دیتی۔ وہ عرب فصحاءجو قرآن کے چیلنج کے جواب میں خاموش تھے، وہ اس غلطی کی نشاندہی کرتے۔ لیکن کبھی بھی کسی بڑے سے بڑے ادیب اور عرب کے بڑے سے بڑے شاعر نے قرآنِ مجید کے کسی اسلوب یا انداز کو عربی زبان اور گرامر سے متعارض نہیں کہا۔
اردو زبان میں قدیم ترین گرامر ایک مغربی مصنف ڈاکٹر گِل کرائسٹ نے لکھی تھی۔ گل کرائسٹ کی گرامر اردو کی قدیم ترین گرامر ہے۔ اردو وہ ہے جو مرزا غالب نے لکھی ہے، خواہ گل کرائسٹ کچھ بھی کہے۔ مرزا غالب کی کوئی تحریر اگر ڈاکٹر گل کرائسٹ کے سارے قواعد کے خلاف بھی ہو گی تو یہی کہا جائے گا کہ گل کرائسٹ کی کتاب غلط ہے، اس نے اردو زبان کے قواعد کو غلط سمجھا ہے۔ گل کرائسٹ کے کسی بیان سے مرزا اسد اللہ غالب کا کلام غلط نہیں ہوگا۔ اور اردو وہ ہے جو ذوق نے لکھی۔ اردو وہ ہے جو میر تقی میر نے لکھی۔ اگر ان اساطینِ اردو کے بر خلاف اردو کے کسی بڑے سے بڑے ماہرِ صرف نے کوئی بات لکھی ہے تو وہ غلط ہے۔
لہٰذا عربی زبان وہ ہے جو قرآنِ پاک میں بیان ہوئی ہے۔ عربی زبان وہ ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے نکلی۔ جس کو دشمنوں نے، اپنوں پرایوں دونوں نے عربی زبان کا اعلیٰ ترین معیار قرار دیا۔ جنہوں نے قرآنِ مجید کے ادبی اعجاز کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔ لہٰذا اس اصول کی رو سے قرآنِ مجید اور حدیث رسول کی زبان ہی اصل، معیاری اور ٹکسالی عربی زبان ہو گی اور اگر گرامر کی کسی کتاب میں اس کے خلاف لکھا گیا ہے تو غلط لکھا گیا ہے۔
ان کا جواب ہر اس تفسیر میں جواب موجود ہے جہاں لغوی ابحاث مذکور ہیں۔اعراب القران ، ابن کثیر ، قرطبی، بغوی، کئی تفاسیر میں جوابات موجود ہیں۔
وہاں سے تلاش کر سکتے ہیں۔
البقرہ ایت 177
الصابرین فی الباساء ولضراء۔۔۔۔(وَالصَّابِرِينَ) الواو عاطفة الصابرين اسم منصوب على المدح بفعل محذوف تقديره: أمدح.
الصابرون تب ہونا چاہیئے تھا اگر پیچھے والموفون پر عطف ہوتا، لیکن وہ دور ہے،تو عطف نہیں کیا گیا بلکہ، فعل محذوف امدح کیلئے مفعول بنایا ہے اس وجہ سے منصوب ہے، امدح الصابرین ہے، کہ صبر کرنے والوں کی مدح اور تعریف کرتا ہوں،
ابن کثیر رحمہ اللّٰه، نے اس جگہ تفسیر نقل کی ہے کہ صبر پر ترغیب دینے کیلئے اس کو علیحدہ فعل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ صبر کرنے والے بہت ہی قابل مدح و تعریف لوگ ہیں۔
سورہ الحج
اختصموا فی ربھم۔فالذین کفروا قطعت لھم ثیاب۔۔۔۔{۞ هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ} [الحج : 19]
اس میں کیا مسئلہ ہے ؟
ربھم ہی درست بنے گا،
جو کہے ربھما ہونا چاہیے تو اسے خصمان کا ترجمہ معلوم نہیں،
آیت کا مطلب ہے کہ، یہ دو گروہ اپنے خدا کے بارے میں لڑ رہے تھے۔
دونوں گروہ سے مراد کفار اور مسلمان ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللّٰه نے صحیح بخاری میں اس آیت کے نزول کے بارے میں حدیث نقل کی ہے کہ یہ غزوہ بدر کے موقع مبارزہ کے جو اختصام ہوا تھا اس کے بارے میں نازل ہوا ہے صحیح مسلم میں بھی اسی کے بارے میں حدیث وارد ہے۔
چنانچہ جب بات دونوں گروہوں کے بارے میں ہے۔ تو گروہ میں ایک شخص تو نہیں ہوتا، زیادہ لوگ ہوتے ہیں تو ضمیر بھی جمع کی لائی جائے گی ، ربھم کی ضمیر کی ہوسکتی ہے۔
سورہ المنافقون
وانفقوا مما رزقنکم من قبل ان یاتی احدکم الموت فیقول رب لولا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق و اکن من الصلحین۔۔۔۔۔{وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ} [المنافقون : 10]
فأصدق "نصب على جواب التمني بالفاء . "وأكون "عطف على "فأصدق "وهي قراءة ابن عمرو وابن محيصن ومجاهد . وقرأ الباقون "وأكن "بالجزم عطفا على موضع الفاء ; لأن قوله : "فأصدق "لو لم تكن الفاء لكان مجزوما ; أي أصدق . ومثله من يضلل الله فلا هادي له ويذرهم فيمن جزم۔
ابن عمرو، ابن محیصن اور مجاھد کی قرآت میں 'اکون'ہے۔
دیگر قرآتوں میں اکن ہے ۔
اور یہ ،
فاصدق میں 'ف'کی وجہ سے ہے۔
اگر ف کو تمنا کے معنی میں لیں گے تو، اکون پڑھا جا سکتا ہے، اور اگر ف کو سبببیہ لیا جائے تو ، ف سبببیہ کی وجہ سے ، اس کے بعد ان مقدر ہوگا،
اور فعل مضارع پر اکون کا عطف ہوگا۔جسکی وجہ سے، اکون فعل تام کی بجائے ناقص ہوگا اور اکن پڑھا جائے گا۔
تو اس پر اعتراض کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔
سورہ توبہ میں آیت 69میں۔
(وَخُضْتُمْ كَالَّذِي) أي كالذين الجار والمجرور متعلقان بمحذوف مفعول مطلق الجملة معطوفة وجملة.
وخضتم خوضا كالذين خاضوا . و "الذي "اسم ناقص مثل من ، يعبر به عن الواحد والجمع ۔
الذی اسم ناقص ہے۔ ما اور من کی طرح، یہ واحد اور جمع دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں اسکی کئی مثالیں ہیں ۔
اس پر اعتراض نہیں بن سکتا۔
{وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ} [الحجرات : 9]
اس کا جواب بھی وہی ہے جو ، ربھم کا جواب تھا، یہاں پر بھی اقتتلوا ہی ہوگا، کیونکہ پیچھے لفظ، طائفتان آیا ہے۔
طائفہ گروہ کو کہا جاتا ہے۔ اور گروہ جماعت ہی ہوتی ہے ایک شخص نہیں۔ جماعت میں زیادہ لوگ ہوتے ہیں جمع کا صیغہ ہی استعمال ہوگا ۔
جو کہے کہ اقتتلا ہونا چاہیئے اسے عربی زبان سے واقفیت نہیں ہے۔
بات زیادہ لوگوں کی ہورہی ہے تو صیغہ بھی جمع کا آئے گا۔ اقتتلوا ہی درست ہے۔
کسی دوسری زبان لے الفاظ سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ اس زبان کے الفاظ اگر کسی اور جگہ استعمال ہوئے تو وہ ان سے چوری ہوگی ۔ ؟
زبانیں تو انسانوں ہی میں رواج پائی ہیں۔ انسان تو دنیا میں مختلف جگہوں پر پھیلے ہیں۔ اکثر جگہوں کی زبانوں کے الفاظ ایک دوسرے کے مشابہہ بھی ہو جائیں تو اس اس یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ایک نےدوسرے سے چوری کیے ہیں ؟ ؟
اگر فارسی یا پشتو زبان والا اردو کا لفظ اپنے کسی کتاب میں استعمال کرے تو کیا یہ دعوی کیا جائے گا کہ اس زبان کے لوگوں سے کتاب چوری کی ہے ؟ ؟ ۔؟
ایسے اعتراض کرنے والوں پر افسوس ہوتا ہے۔
عربی زبان مرکزی سامی زبانوں میں سے ایک ہے جو لسانیات کے ماہرین کے مطابق پہلی بار پتھر کے زمانے میں شمال مغربی عرب میں بولی گئ۔اس کا نام قدیم عراق سے موجودہ سعودیہ اور صحرائے سینا تک رہنے والے عرب لوگوں کے نام سے عربی پڑا۔اس کے بولنے والوں کی تعداد 420ملین سے زائد ہے اور یہ اس طرح دنیا کی چھ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شامل ہے۔یہ اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانوں میں سے ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق جدید عربی قرآن پاک کی عربی سے اخذ کی گئ ہے۔لہذا یہ اعتراض کہ قرآن میں عربی گرایمر کی غلطیاں ہیں،بے بنیاد ہے کیونکہ جدید عربی بذات خود قرآن سے اخذ کی گئ یے اور اس کا لکھنے کا انداز بھی قرآن سے متاثر ہے اور یہ قرآنی قوانین گرائمر پہ مبنی ہے۔عربی نے دنیا کی کئ زبانوں مثلا فارسی،اردو،بلوچی،سندھی،پنجابی،سرائیکی،ترکی،کازک،ملائ،کردی،بوسنیائ،بنگالی،ہندی،انڈونیشیائ اور ہوسی زبان کو متاثر کیا ہے۔قرون وسطی میں یورپ میں سائنس،فلسفہ اور منطق عربی میں پڑھائ جاتی رہی۔اس لیے یورپ کی سب زبانیں عربی سے متاثرہوئ ہیں۔عربی کے کئ لفظ یونانی،اطالوی،سپینی اور پرتگیزی زبان میں موجود ہیں۔عربی قدیم سامی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے لہذا باقی سامی زبانوں جیسا کہ آرامی،عبرانی و افریقی زبانوں کے الفاظ عربی میں اور عربی کے الفاظ ان زبانوں میں مستعمل ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کے الفاظ ان زبانوں سے لئے گیے بلکہ یہ حقیقت ثابت کر رہی ہے کہ ان سب زبانوں کی مشترک پیدائش کی وجہ سے ان کے کچھ الفاظ مشترک ہیں اور قرآن کو ان زبانوں کے کچھ الفاظ چوری کا الزام دینا سوا بہتان کے کچھ نہیں۔جہاں تک فارسی کی بات ہے تو یہ زبان انڈو یورپی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے جن کی تاریخ عربی زبان اور باقی افریقی ایشیا ئ زبانوں سے کم پرانی ہے۔اس طرح فارسی جن انڈو یورپی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے وہ ان خانہ بدوش انسانوں۔۔۔۔۔Nomads.....سے پیدا ہوئ جو افریقی ایشائی زبانوں جس میں عربی بھی شامل ہے،کے بولنے والے تھے،اس طرح در حقیقت جن خانہ بدوش انسان قبائل سے عربی پیدا ہوئ،انہی قبائل کی ایک شاخ سے انڈویورپی زبانیں جیسا کہ فاردی پیدا ہوئ۔چونکہ دونوں کی ابتدا مشترکہ انسانی قبیلہ سے ہے،لہذا دونوں زبانوں میں الفاظ کی مشابہت ہوسکتی ہے لیکن ایک بات ماہرین کے نزدیک طے ہے کہ عربی سمیت باقی افریقی ایشیائی زبانیں زیادہ قدیم ہیں۔باقی اثرات چونکہ عربی بولنے والے قدیم عرب قبائل چونکہ پہلےعراق میں رہتے تھے لہذا عربی و فارسی کا اسلام سے ہزاروں سال پہلے ایک دوسرے سے متاثر ہونا فطری تھا۔زبان کی قس تاریخ کو دیکھتے ہوۓ قرآن پہ الزام لگانا کہ قرآن نے دوسری زبانوں کے الفاظ چوری کیے ہیں،قرآن پر بہتان و الزام کے سوا کچھ نہیں۔
منجانب۔۔۔۔Shohel parvej,Enger Maaz,Ahead Hasan
عربی گرائمر و لغت کی تشریح و جواب محترمEnger Maaz,Shohel pervej,Sanwal Abbasi اور عربی زبان کی تاریخ اور اس پر فارسی اثرات کا جواب احید حسن کی طرف سے لکھا گیا ہے
سوال۔۔۔۔
ایک ملحد کا اعتراض ہے کہ قرآن میں گرائمر کی غلطیاں ہیں نعوذ بااللہ۔وہ کہتا ہے قرآن صابیوں کو الصابئون کہتا ہے جب کہ الصابئین کہنا چاہئے،سورہ بقرہ آیت 177میں الصابرین کو الصابرون کہنا چاہیے،سورہ الاعراف میں قریب کے لفظ کو قریبۃ،سورہ الحج میں اِختَصَمو فی ربھم کو اختصموا فی ربھما،سورہ توبہ آیت 62،69میں لفظ کاالذی کو کاالذینا،سورہ منافقون میں لفظ اَکُن کو اَکُونَ اور سورہ حجرات آیت 9میں لفظ اِقتَتَلُوا کو اِقتَتَلا ہو نا چاہیے۔علمی و تحقیقی جواب عنایت کیا جائے۔عین نوازش ہوگی۔
جواب۔۔۔۔۔
عربی زبان میں گرامر کی جو قدیم ترین کتابیں لکھی گئیں وہ نزولِ قرآن کے دو سو برس بعد لکھی گئیں اور غیر عربوں نے لکھیں۔ اگر قرآنِ مجید میں گرامیٹیکل مسٹیک ہوتی تو کفارِ مکہ اور مشرکین اور پوری عرب دنیا خاموش نہ رہتی اور اس غلطی کا بتنگڑ بنا دیتی۔ وہ عرب فصحاءجو قرآن کے چیلنج کے جواب میں خاموش تھے، وہ اس غلطی کی نشاندہی کرتے۔ لیکن کبھی بھی کسی بڑے سے بڑے ادیب اور عرب کے بڑے سے بڑے شاعر نے قرآنِ مجید کے کسی اسلوب یا انداز کو عربی زبان اور گرامر سے متعارض نہیں کہا۔
اردو زبان میں قدیم ترین گرامر ایک مغربی مصنف ڈاکٹر گِل کرائسٹ نے لکھی تھی۔ گل کرائسٹ کی گرامر اردو کی قدیم ترین گرامر ہے۔ اردو وہ ہے جو مرزا غالب نے لکھی ہے، خواہ گل کرائسٹ کچھ بھی کہے۔ مرزا غالب کی کوئی تحریر اگر ڈاکٹر گل کرائسٹ کے سارے قواعد کے خلاف بھی ہو گی تو یہی کہا جائے گا کہ گل کرائسٹ کی کتاب غلط ہے، اس نے اردو زبان کے قواعد کو غلط سمجھا ہے۔ گل کرائسٹ کے کسی بیان سے مرزا اسد اللہ غالب کا کلام غلط نہیں ہوگا۔ اور اردو وہ ہے جو ذوق نے لکھی۔ اردو وہ ہے جو میر تقی میر نے لکھی۔ اگر ان اساطینِ اردو کے بر خلاف اردو کے کسی بڑے سے بڑے ماہرِ صرف نے کوئی بات لکھی ہے تو وہ غلط ہے۔
لہٰذا عربی زبان وہ ہے جو قرآنِ پاک میں بیان ہوئی ہے۔ عربی زبان وہ ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے نکلی۔ جس کو دشمنوں نے، اپنوں پرایوں دونوں نے عربی زبان کا اعلیٰ ترین معیار قرار دیا۔ جنہوں نے قرآنِ مجید کے ادبی اعجاز کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔ لہٰذا اس اصول کی رو سے قرآنِ مجید اور حدیث رسول کی زبان ہی اصل، معیاری اور ٹکسالی عربی زبان ہو گی اور اگر گرامر کی کسی کتاب میں اس کے خلاف لکھا گیا ہے تو غلط لکھا گیا ہے۔
ان کا جواب ہر اس تفسیر میں جواب موجود ہے جہاں لغوی ابحاث مذکور ہیں۔اعراب القران ، ابن کثیر ، قرطبی، بغوی، کئی تفاسیر میں جوابات موجود ہیں۔
وہاں سے تلاش کر سکتے ہیں۔
البقرہ ایت 177
الصابرین فی الباساء ولضراء۔۔۔۔(وَالصَّابِرِينَ) الواو عاطفة الصابرين اسم منصوب على المدح بفعل محذوف تقديره: أمدح.
الصابرون تب ہونا چاہیئے تھا اگر پیچھے والموفون پر عطف ہوتا، لیکن وہ دور ہے،تو عطف نہیں کیا گیا بلکہ، فعل محذوف امدح کیلئے مفعول بنایا ہے اس وجہ سے منصوب ہے، امدح الصابرین ہے، کہ صبر کرنے والوں کی مدح اور تعریف کرتا ہوں،
ابن کثیر رحمہ اللّٰه، نے اس جگہ تفسیر نقل کی ہے کہ صبر پر ترغیب دینے کیلئے اس کو علیحدہ فعل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ صبر کرنے والے بہت ہی قابل مدح و تعریف لوگ ہیں۔
سورہ الحج
اختصموا فی ربھم۔فالذین کفروا قطعت لھم ثیاب۔۔۔۔{۞ هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ} [الحج : 19]
اس میں کیا مسئلہ ہے ؟
ربھم ہی درست بنے گا،
جو کہے ربھما ہونا چاہیے تو اسے خصمان کا ترجمہ معلوم نہیں،
آیت کا مطلب ہے کہ، یہ دو گروہ اپنے خدا کے بارے میں لڑ رہے تھے۔
دونوں گروہ سے مراد کفار اور مسلمان ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللّٰه نے صحیح بخاری میں اس آیت کے نزول کے بارے میں حدیث نقل کی ہے کہ یہ غزوہ بدر کے موقع مبارزہ کے جو اختصام ہوا تھا اس کے بارے میں نازل ہوا ہے صحیح مسلم میں بھی اسی کے بارے میں حدیث وارد ہے۔
چنانچہ جب بات دونوں گروہوں کے بارے میں ہے۔ تو گروہ میں ایک شخص تو نہیں ہوتا، زیادہ لوگ ہوتے ہیں تو ضمیر بھی جمع کی لائی جائے گی ، ربھم کی ضمیر کی ہوسکتی ہے۔
سورہ المنافقون
وانفقوا مما رزقنکم من قبل ان یاتی احدکم الموت فیقول رب لولا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق و اکن من الصلحین۔۔۔۔۔{وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ} [المنافقون : 10]
فأصدق "نصب على جواب التمني بالفاء . "وأكون "عطف على "فأصدق "وهي قراءة ابن عمرو وابن محيصن ومجاهد . وقرأ الباقون "وأكن "بالجزم عطفا على موضع الفاء ; لأن قوله : "فأصدق "لو لم تكن الفاء لكان مجزوما ; أي أصدق . ومثله من يضلل الله فلا هادي له ويذرهم فيمن جزم۔
ابن عمرو، ابن محیصن اور مجاھد کی قرآت میں 'اکون'ہے۔
دیگر قرآتوں میں اکن ہے ۔
اور یہ ،
فاصدق میں 'ف'کی وجہ سے ہے۔
اگر ف کو تمنا کے معنی میں لیں گے تو، اکون پڑھا جا سکتا ہے، اور اگر ف کو سبببیہ لیا جائے تو ، ف سبببیہ کی وجہ سے ، اس کے بعد ان مقدر ہوگا،
اور فعل مضارع پر اکون کا عطف ہوگا۔جسکی وجہ سے، اکون فعل تام کی بجائے ناقص ہوگا اور اکن پڑھا جائے گا۔
تو اس پر اعتراض کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔
سورہ توبہ میں آیت 69میں۔
(وَخُضْتُمْ كَالَّذِي) أي كالذين الجار والمجرور متعلقان بمحذوف مفعول مطلق الجملة معطوفة وجملة.
وخضتم خوضا كالذين خاضوا . و "الذي "اسم ناقص مثل من ، يعبر به عن الواحد والجمع ۔
الذی اسم ناقص ہے۔ ما اور من کی طرح، یہ واحد اور جمع دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں اسکی کئی مثالیں ہیں ۔
اس پر اعتراض نہیں بن سکتا۔
{وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ} [الحجرات : 9]
اس کا جواب بھی وہی ہے جو ، ربھم کا جواب تھا، یہاں پر بھی اقتتلوا ہی ہوگا، کیونکہ پیچھے لفظ، طائفتان آیا ہے۔
طائفہ گروہ کو کہا جاتا ہے۔ اور گروہ جماعت ہی ہوتی ہے ایک شخص نہیں۔ جماعت میں زیادہ لوگ ہوتے ہیں جمع کا صیغہ ہی استعمال ہوگا ۔
جو کہے کہ اقتتلا ہونا چاہیئے اسے عربی زبان سے واقفیت نہیں ہے۔
بات زیادہ لوگوں کی ہورہی ہے تو صیغہ بھی جمع کا آئے گا۔ اقتتلوا ہی درست ہے۔
کسی دوسری زبان لے الفاظ سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ اس زبان کے الفاظ اگر کسی اور جگہ استعمال ہوئے تو وہ ان سے چوری ہوگی ۔ ؟
زبانیں تو انسانوں ہی میں رواج پائی ہیں۔ انسان تو دنیا میں مختلف جگہوں پر پھیلے ہیں۔ اکثر جگہوں کی زبانوں کے الفاظ ایک دوسرے کے مشابہہ بھی ہو جائیں تو اس اس یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ایک نےدوسرے سے چوری کیے ہیں ؟ ؟
اگر فارسی یا پشتو زبان والا اردو کا لفظ اپنے کسی کتاب میں استعمال کرے تو کیا یہ دعوی کیا جائے گا کہ اس زبان کے لوگوں سے کتاب چوری کی ہے ؟ ؟ ۔؟
ایسے اعتراض کرنے والوں پر افسوس ہوتا ہے۔
عربی زبان مرکزی سامی زبانوں میں سے ایک ہے جو لسانیات کے ماہرین کے مطابق پہلی بار پتھر کے زمانے میں شمال مغربی عرب میں بولی گئ۔اس کا نام قدیم عراق سے موجودہ سعودیہ اور صحرائے سینا تک رہنے والے عرب لوگوں کے نام سے عربی پڑا۔اس کے بولنے والوں کی تعداد 420ملین سے زائد ہے اور یہ اس طرح دنیا کی چھ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شامل ہے۔یہ اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانوں میں سے ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق جدید عربی قرآن پاک کی عربی سے اخذ کی گئ ہے۔لہذا یہ اعتراض کہ قرآن میں عربی گرایمر کی غلطیاں ہیں،بے بنیاد ہے کیونکہ جدید عربی بذات خود قرآن سے اخذ کی گئ یے اور اس کا لکھنے کا انداز بھی قرآن سے متاثر ہے اور یہ قرآنی قوانین گرائمر پہ مبنی ہے۔عربی نے دنیا کی کئ زبانوں مثلا فارسی،اردو،بلوچی،سندھی،پنجابی،سرائیکی،ترکی،کازک،ملائ،کردی،بوسنیائ،بنگالی،ہندی،انڈونیشیائ اور ہوسی زبان کو متاثر کیا ہے۔قرون وسطی میں یورپ میں سائنس،فلسفہ اور منطق عربی میں پڑھائ جاتی رہی۔اس لیے یورپ کی سب زبانیں عربی سے متاثرہوئ ہیں۔عربی کے کئ لفظ یونانی،اطالوی،سپینی اور پرتگیزی زبان میں موجود ہیں۔عربی قدیم سامی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے لہذا باقی سامی زبانوں جیسا کہ آرامی،عبرانی و افریقی زبانوں کے الفاظ عربی میں اور عربی کے الفاظ ان زبانوں میں مستعمل ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کے الفاظ ان زبانوں سے لئے گیے بلکہ یہ حقیقت ثابت کر رہی ہے کہ ان سب زبانوں کی مشترک پیدائش کی وجہ سے ان کے کچھ الفاظ مشترک ہیں اور قرآن کو ان زبانوں کے کچھ الفاظ چوری کا الزام دینا سوا بہتان کے کچھ نہیں۔جہاں تک فارسی کی بات ہے تو یہ زبان انڈو یورپی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے جن کی تاریخ عربی زبان اور باقی افریقی ایشیا ئ زبانوں سے کم پرانی ہے۔اس طرح فارسی جن انڈو یورپی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے وہ ان خانہ بدوش انسانوں۔۔۔۔۔Nomads.....سے پیدا ہوئ جو افریقی ایشائی زبانوں جس میں عربی بھی شامل ہے،کے بولنے والے تھے،اس طرح در حقیقت جن خانہ بدوش انسان قبائل سے عربی پیدا ہوئ،انہی قبائل کی ایک شاخ سے انڈویورپی زبانیں جیسا کہ فاردی پیدا ہوئ۔چونکہ دونوں کی ابتدا مشترکہ انسانی قبیلہ سے ہے،لہذا دونوں زبانوں میں الفاظ کی مشابہت ہوسکتی ہے لیکن ایک بات ماہرین کے نزدیک طے ہے کہ عربی سمیت باقی افریقی ایشیائی زبانیں زیادہ قدیم ہیں۔باقی اثرات چونکہ عربی بولنے والے قدیم عرب قبائل چونکہ پہلےعراق میں رہتے تھے لہذا عربی و فارسی کا اسلام سے ہزاروں سال پہلے ایک دوسرے سے متاثر ہونا فطری تھا۔زبان کی قس تاریخ کو دیکھتے ہوۓ قرآن پہ الزام لگانا کہ قرآن نے دوسری زبانوں کے الفاظ چوری کیے ہیں،قرآن پر بہتان و الزام کے سوا کچھ نہیں۔
منجانب۔۔۔۔Shohel parvej,Enger Maaz,Ahead Hasan
عربی گرائمر و لغت کی تشریح و جواب محترمEnger Maaz,Shohel pervej,Sanwal Abbasi اور عربی زبان کی تاریخ اور اس پر فارسی اثرات کا جواب احید حسن کی طرف سے لکھا گیا ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔