خدا کی ذات کے ایک ہونے پہ سائنسی و فلسفیانہ دلائل
دنیا کا سب سے سادہ ایٹم یا جوہر ہائیڈروجن ایٹم ہے جو مثبت چارج رکھنے والے ایک پروٹان اور منفی چارج رکھنے والے ایک الیکٹران پر مشتمل ہے جو کہ مثبت چارج رکھنے والے پروٹان کے گرد گردش کرتا ہے۔کائنات کا 75% مادہ ہائیڈروجن اور باقی ہیلیم پر مشتمل ہے جو کہ ہمارے ستاروں میں موجود ہے جہاں نیوکلیائی عمل ایتلاف(Nuclear Fusion Reaction) میں ہائیڈروجن کے ہم جا یا ائسوٹوپ ڈیوٹریم یاDeutrium اور ٹریٹیم یاTritium مل کر ہیلیم بناتے ہیں۔اس عمل کے دوران آئن سٹائن کے نظریہ اضافت یاTheory Of Relativity کے مطابق اضافی مادہ توانائ اور روشنی کی ناقابل بیان مقدار میں استعمال ہوجاتا ہے جس سے سورج اور باقی ستاروں کا مرکزی درجہ حرارت کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔یہی وہ قدرتی عمل ہے جو ہائیڈروجن بم میں مصنوعی طور پر استمعال کیا جاتا ہے۔اس طرح ہائیڈروجن بم کسی علاقے پر ایک جلتے ہوئے سورج کے گر جانے جیسی تباہی لا سکتا ہے۔
ماہرین طبعیات یا فزکس نے پروٹان اور الیکٹران کی کمیت یا ماس،گھماؤ یاSpin،پروٹان کے قبر یا ڈایا میٹر ،الیکٹران اور پروٹان کے بسہمی فاصلے اور چارج کی درست پیمائش کر لی ہے۔پروٹان اور الیکٹران کی ماس یا کمیت کی نسبت 1837ہے۔یعنی ایک پروٹان الیکٹران سے 1837گنا بھاری ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ نسبت اتنی کیوں ہے۔1500یا 2000کیوں نہیں ہوجاتی۔اور دوسری بات یہ ہے کہ سائنسدان الیکٹران پر سو سال سے تحقیقات کر رہے ہیں۔اس سو سال میں یہ نسبت تبدیل کیوں نہیں ہوئ۔اگر کائنات کے بہت سے خدا ہیں تو کیا ان کا آپس میں اتنا اتفاق ہے کہ یہ نسبت کبھی تبدیل نہ ہو۔ایک باپ سے پیدا ہونے والے بیٹے،ایک ماں سے پیدا ہونے والی بیٹیاں ایک جیسی شکل اور ایک جیسے مزاج کی نہیں ہو سکتیں،تو کائنات کے سب خدا ایک دوسرے کے مد مقابل ہونے کے باوجود اس نسبت کو کیوں تبدیل نہیں کر دیتے۔ایک منطقی عقل اس بات کو ماننے سے قاصر ہے۔لہذا سائنس کا کہنا ہے کہ ایک عالمگیر ذہانت اکیلی اس کائنات کے سب اصول مرتب کرتی ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں۔اس نسبت کا ہمشیہ ایک رہنا ظاہر کرتا ہے کہ خدا کئ نہیں بلکہ ایک ہے۔
جب ہماری زمیں پہ پائ جانے والی۔ ہائیڈروجن کا ہمارے سورج اور کائنات کی باقی ہائیڈروجن سے موازنہ کیا جاتا ہے تو ان سب میں الیکٹران،پروٹان،اس کی کمیت یا ماس اور چارج کا کوئ فرق نہیں ملتا ہمیں۔اس کا کیا سبب ہے؟کیا ایک ہی عالمگیر ذہانت و طاقت ہے جو ہر جگہ اس کو یکساں رکھے ہوئے ہے؟کیا اس کا اپنے جیسی کسی اور ذہانت سے کبھی مقابلہ نہیں ہوا؟یہ سب حقیقت بتاتی ہے کہ وہ عالمگیر زہانت یا خالق ایک ہی ہے جس نے اس کائنات کے ایک ایک ذرے کے اصول متعین کر دیے ہیں۔یعنی کہ اس کائنات کا مالک و خالق ایک ہے
ہمارا سورج ملکی وے کہکشاں کے دو سو بلین یا دوسو ارب ستاروں میں سے ایک ہے۔ہماری اس ملکی وے کہکشاں کے سب ستاروں کی ہائیڈروجن کائنات کی باقی ہائیڈروجن جیسی ہے۔کائنات میں اب تک دوسو بلین کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ہماری نزدیک ترین کہکشاں اینڈرومیڈا ۔۔۔۔Andromeda Galaxy.... ہے۔یہ بھی اپنی ہائیڈروجن میں ہماری زمیں جیسی ہے۔
کائنات میں بنیادی طور پہ چار قوتیں کارفرما ہیں۔وہ کشش ثقل۔۔۔۔Gravitational Force.....برقی مقناطیسی قوت۔۔۔۔۔Electromagnetic Force........کمزور نیوکلیائی قوت۔۔۔۔۔Weak Nuclear Force.....اور طاقتور نیوکلیائی قوت۔۔۔۔Strong Nuclear Force....ہیں۔یہ قوتیں کائنات میں ہر جگہ یکساں ہیں اور کائنات میں کہیں بھی ان کے بنیادی اصول تبدیل نہیں ہوتے۔آخر وہ کونسی ایسی قوت ہے جو یہ اصول تبدیل نہیں ہونے دیتی۔کیا کئ خداؤں کے ہوتے ہوئے ان قوانین کا یکساں ہونا ممکن ہے؟یہ بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔اگر کوئ اور خدا موجود ہے تو وہ اس کائنات کے یہ بنیادی قوانین تبدیل کیوں نہیں کر دیتا۔اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس کائنات کو چلانے والی بنیادی ہستی ایک ہی ہے۔
اب ہم خدا کے ایک ہونے کی وحدانی دلیل یاUnity argument کی طرف آتے ہیں۔یہ کہ کائنات کی ایک منظم ساخت ایک خدا کی دلیل ہے۔مسلم ماہرین علم الکلام یا الٰہیات۔۔۔۔Theology.....کے مطابق کائنات خدا کا عکس ہے۔کائنات کی تمام اچھی خصوصیات اللٰہ تعالٰی سے اخذ کی گئی ہیں جو کہ اس کی حتمی و حقیقی وجہ ہے۔کائنات متحد،منظم اور یکساں حالت میں ہے۔لہذا اس کا خالق ایک ہے۔یہ بے ربطگی،بے ترتیبی،اور بے اصولی پہ مبنی ہوتی اگر اس کے خالق و مالک ایک سے زیادہ ہوتے۔
جہاں تک اس کی وجودیاتی دلیل ۔۔۔۔Ontological argument.......کی بات ہے تو اس کی وضاحت اس طرح ہے۔خدا وہ ہے جس سے بڑھ کر کوئ عظیم و طاقتور نہیں۔اگر خدا موجود نہیں تو کوئ بھی موجود چیز اس سے بڑی ہوسکتی ہے لیکن یہ بات پھر خدا کے سب سے عظیم و طاقتور ہونے کی تعریف کے خلاف ہے لہذا خدا سے بڑھ کر یا اس کے برابر کا کوئ موجود نہیں۔اگر ہم کہ دیں کہ موجود خدا سے بڑا ایک اور خدا ہے،اس سے بڑا ایک اور خدا ہے،اور اس سے بڑا ایک اور خدا موجود ہے اور آخر میں ایک ایسا خدا موجود ہے جس دے بڑھ کر کوئ عظیم و طاقتور نہیں۔اس تصور کوself..ol..vojudکہا جاتا ہے جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا ایک ہی ہے کیونکہ خدا موجود ہے۔اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا ہے وہی جس سے بڑھ کر کوئ طاقتور نہیں۔اگر اس سے بڑھ کر کوئ طاقتور ہے تو پھر وہ خدا ہی نہ ہوا لیکن چونکہ خدا اس کائنات کی ایک سائنسی حقیقیت ہے لہذا اس کا وجود موجود ہے اور اس سے بڑھ کر کوئ موجود نہیں اور وہ ایک ہے۔خدا ہے وہی جس میں طاقت و عظمت کی تمام خصوصیات لا متناہی حد میں موجود ہوں اور اس جیسا یا اس سے بڑھ کر کوئ نہ ہو۔اس تعریف کے مطابق خدا سے بڑھ کر کوئ نہیں لہذا وہ ایک ہے۔
دمشق کے جان۔۔۔۔John Of Damascus....کے فلسفے کے مطابق خدا چونکہ ایک مکمل ہستی ہے لہذا وہ لاجواب ہے جس کا جواب و مقابلہ کوئ نہیں۔صرف ایک طریقہ جس میں کوئ جھوٹے خدا کو سچے خدا اللہ سے تمیز کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام جھوٹے خدا اپنی اچھائ،اختیار،طاقت،حکمت میں اس سچے خدا سے کم ہوں گے۔لہذا وہ جھوٹے خدا خدا نہیں ہو سکتی اور ہم یہ حقیقت پا لیتے ہیں کہ دنیا میں پوجے جانے والے کروڑوں خداؤں میں سے صرف ایک ہی خدا سچا ہے جو خدائ کی سب خصوصیات رکھتا ہے اور باقی خدا جو خدائ کی دعویدار لیکن خدائ صفات میں ناقص ہیں،کبھی خدا نہیں ہو سکتے اور اس طرح دنیا میں کروڑوں خداؤں کی پکار میں ہم ایک حقیقی خدا یعنی اللٰہ کو پا لیتے ہیں اور ہماری اصل خدا کی تلاش تکمیل کو پہنچتی ہے۔
تھامس ایکوینس بھی خدا کے بارے میں اسی طرح کے ایک فلسفے پہ یقین رکھتا ہے۔
اگر اس کائنات میں ایک سے ذیادہ خدا ہوتے تو یہ کئ مالکوں و سربراہوں کی وجہ سے بد نظمی کی حالت میں ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ خدا ایک ہے۔
چونکہ خدا ایک مکمل ہستی ہے،لہذا اگر خدا ایک سے زیادہ ہوتے تو ان کو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے مختلف ہونا پڑتا اور تکمیل سے اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز مکمل نہیں لیکن خدا کبھی بھی نامکمل نہیں ہوسکتا لہذا تکمیل کی خاصیت نہ رکھنے والے باقی خدا،خدا کہلانے کے حقدار نہیں اور خدا ایک ہے۔
اگر خدا ایک لامحدود ہستی ہے تو اس کو جسمانی اعضا سے پاک ہونا چاہیے کیونکہ لامحدودیت میں اعضاء لازمی نہیں۔خدا کا لا محدود ہونا اس کے کسی جسمانی عضو یا جسمانی حیثیت کا محتاج نہیں اور کائنات میں دو لامحدود ہستیوں کا ہونا ناممکن ہے کیونکہ ایک کو دوسرے سے مختلف ہونا پڑے گا اور خدا کی خصوصیات کا اختلاف دوسرے خدا کو خدائ خصوصیات سے اختلاف کی وجہ سے جھوٹا کر دے گا۔اس لیے خدا ایک ہے۔
دوسرا یہ دعوی کہ خدا نے اپنے جیسے چھوٹے خدا پیدا کیے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ وہ چھوٹے خدا جب خود ایک بڑے خدا کے پیدا کردہ ہوئے تو وہ خدا نہ ہوئے کیونکہ خدا ہے ہی وہی جس کو نہ کسی نے پیدا کیا اور نہ کوئ اسے فنا کر سکتا ہے۔
حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانون کے مطابق کائنات میں نا قابل استعمال توانائ یاEntropy بڑھ رہی ہے یعنی ہم انسان اشیاء پہ اپنا اختیار آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں اور تمام مادہ زوال کی طرف رواں دواں ہے لیکن پھر بھی کائنات ایک ربط کی حالت میں ہے اور یہ ربط ایک عظیم خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔کائنات کا یہ ربط ان قوانین طبیعیات یا قوانین فزکس کی وجہ سے ہے جن کو اس کائنات کے خالق نے تخلیق کیا لیکن ان قوانین کا پابند نہیں کیونکہ یہ قوانین جس مادے پہ لاگو ہوتے ہیں وہ مادہ بذات خود اس خالق کا پیدا کردہ ہے۔لہذا یہ قوانین اپنے لاگو ہونے کے کے لیے کائنات اور مادے کے پابند ہیں۔اگر یہ مادہ اور کائنات نہ ہوتی تو یہ قوانین کسی کام کے نہیں تھے۔لہذا یہ قوانین خود کائنات کی تخلیق کے پابند ہیں جس کو خدا نے تخلیق کیا۔دوسرے لفظوں میں براہ راست خدا کے پابند ہیں یہ قوانین اور خدا ان قوانین سے خود تو بالاتر ہے لیکن کائنات کو ان کا پابند بنا دیا۔دوسری بات یہ کہ جب خدا نے یہ کائنات تخلیق کی تو اس وقت یہ قوانین موجود نہیں تھے کیونکہ یہ بعد میں پیدا ہونے والی کائنات پہ لاگو ہوئے۔اگر خدا ان قوانین کا پابند ہوتا تو بغیر ان قوانین کے یہ کائنات پیدا بھی نہ کر سکتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اس طرح سٹیفن ہاکنگ اور وہ سائنسدان جو خدا کو ان قوانین کا پابند کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کا کائنات پیدا کرنے کے بعد کائنات میں کوئ عمل دخل نہیں اور وہ تو اڑتی چڑیا کے پر بھی نہیں گن سکتا،وہ لوگ غلط ثابت ہوتے ہیں۔کیونکہ اگر خدا اس کائنات کا بنیادی مادہ ہی ختم کر دے تو یہ قوانین خود بخود ختم ہوجائیں گے۔دونوں صورتوں میں خدا کو ان قوانین کا پابند کہنا بالکل غلط ہے۔دوسری بات یہ کہ سائنسدان خود قیامت کا وجود تسلیم کر چکے ہیں اور قیامت کی سائنسی تعریف پہ ہے کہ کائنات کے بنیادی قانون ختم ہو جائیں گے،کشش ثقل ختم برقی مقناطیسی قوت ختم ،سیارے ستارے آپس میں ٹکرا ٹکرا کر ٹوٹ جائیں گے اور کائنات ریزہ ریزہ ہوجاۓ گی۔لہذا یہ قوانین بھی حتمی نہیں۔خدا جب چاہے ان کو ختم کر کے قیامت لے آئے اور خدا کو ان قوانین کا پابند کہنا خود سائنسی حقائق کی خلاف ورزی ہے۔
امکانیات یاProbability کے مطابق ان مستقل،مرتب، اور مربوط قوانین کو چلانے والی کئ ذہانتوں کا وجود ناممکن ہے،لہذا خدا ایک ہے۔
خدا نے اس کائنات کو کچھ سائنسی اصولوں کا پابند کیوں کیا۔کیونکہ اس سے کائنات میں ربط پیدا کرنا،اسے قیام پذیر حالت میں رکھنا اور انسان کو بھی اس خدا کے اصولوں کی پابندی کا درس دینا تھا جس پہ پوری کائنات چل رہی ہے۔
تمام مادہ ایک دوسرے کو کشش کیوں کرتا ہے۔نظریاتی طور پہ یہHiggs Bosen انرجی فیلڈ کی وجہ سے ہے جو کہ پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے جو کہ ایک بار پھر خدا کے پوری کائنات میں ہر جگہ موجود ہونے کا ثبوت ہے۔
چونکہ کائنات کے یہ سائنسی قوانین پوری کائنات میں مشترک اور یکساں ہیں لہذا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا مالک ایک ہے،اگر اس کائنات کے خالق کئ ہوتے تو یہ قوانین بھی مختلف ہوتے۔
دوسری بات کائناتی دلیل یاCosmological Argument کی ہے۔اس کے مطابق ہر موجود چیز کی ایک وجہ ہے،کائنات موجود ہے،اس کی بھی ایک وجہ ہے،یہ وجود میں آئ،اس کو وجود میں لانے کی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ خدا ہے۔سوال یہ ہے کہ پھر خدا کی کیا وجہ ہے یعنی خدا کو کس نے پیدا کیا۔اس کا جواب بہت آسان ہے۔حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق توانائی کو نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فنا۔یعنی یہ توانائ ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ رہے گی،کائنات اس توانائ سے ویکیوم انرجی کی صورت میں بنی،یہ پوری کائنات میں موجود،اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا کائنات میں،ہمیشہ سے موجود بھی ہے سائنس کے مطابق اور ہمیشہ موجود بھی رہے گی تو یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خدا کے وجود کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے جب کہ خود سائنس کے مطابق طبعیات یا فزکس،حیاتیات یا بیالوجی کے سب قوانین کا علم رکھنے والی ایک ذہانت ان اصولوں کو چلائے ہوئے ہے جیسا کہ فریڈ ہائل۔۔۔۔Fred Hoyle.....نے کہا۔
دلیلِ طلب یاArgument For Desire کے بارے میں سی ایس لیوس کا کہنا ہے کہ ہر وہ چیز جس کی انسان خواہش رکھتا یے،اس کا حقیقی وجود ہوتا ہے جو کہ خواہش کا مقصد ہوتا ہے،انسان کی تمام معلوم خواہشات کا مقصود ایک حقیقی چیز تھی۔خدا کو جاننے کی خواہش اتنی ہی بنیادی خواہش ہے جتنی کہ کوئ اور خواہش۔لہذا اس خواہش کا مقصود یعنی خدا موجود ہے۔کیا وہ خدا صرف ایک ہے؟اس کا حتمی و آخری جواب۔سائنس کے مطابق کائنات کی ابتداء ویکیوم انرجی میں کوانٹم فلکچویشن سے ہوی جو پوری کائنات میں موجود،وہ توانائ کائنات کے سب افعال انجام دیتی ہے،اس کے بغیر کائنات کا کوئ عمل واقع نہیں ہو سکتا کیونکہ توانائ سب عوامل کے لئے لازمی ہے،ان عوامل کو انجام دینے کے لیے وہ توانائ وہاں پہلے سے ہی موجود یعنی ان عوامل کا پہلے سے علم رکھنے والی تو یہ سب خدا کے وجود کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔چونکہ سائنس کے مطابق وہ ویکیوم انرجی ایک ہی چیز ہے جس سے اس ساری کائنات کی تخلیق ہوی لہذا خدا بھی ایک ہے۔
دنیا کا سب سے سادہ ایٹم یا جوہر ہائیڈروجن ایٹم ہے جو مثبت چارج رکھنے والے ایک پروٹان اور منفی چارج رکھنے والے ایک الیکٹران پر مشتمل ہے جو کہ مثبت چارج رکھنے والے پروٹان کے گرد گردش کرتا ہے۔کائنات کا 75% مادہ ہائیڈروجن اور باقی ہیلیم پر مشتمل ہے جو کہ ہمارے ستاروں میں موجود ہے جہاں نیوکلیائی عمل ایتلاف(Nuclear Fusion Reaction) میں ہائیڈروجن کے ہم جا یا ائسوٹوپ ڈیوٹریم یاDeutrium اور ٹریٹیم یاTritium مل کر ہیلیم بناتے ہیں۔اس عمل کے دوران آئن سٹائن کے نظریہ اضافت یاTheory Of Relativity کے مطابق اضافی مادہ توانائ اور روشنی کی ناقابل بیان مقدار میں استعمال ہوجاتا ہے جس سے سورج اور باقی ستاروں کا مرکزی درجہ حرارت کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔یہی وہ قدرتی عمل ہے جو ہائیڈروجن بم میں مصنوعی طور پر استمعال کیا جاتا ہے۔اس طرح ہائیڈروجن بم کسی علاقے پر ایک جلتے ہوئے سورج کے گر جانے جیسی تباہی لا سکتا ہے۔
ماہرین طبعیات یا فزکس نے پروٹان اور الیکٹران کی کمیت یا ماس،گھماؤ یاSpin،پروٹان کے قبر یا ڈایا میٹر ،الیکٹران اور پروٹان کے بسہمی فاصلے اور چارج کی درست پیمائش کر لی ہے۔پروٹان اور الیکٹران کی ماس یا کمیت کی نسبت 1837ہے۔یعنی ایک پروٹان الیکٹران سے 1837گنا بھاری ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ نسبت اتنی کیوں ہے۔1500یا 2000کیوں نہیں ہوجاتی۔اور دوسری بات یہ ہے کہ سائنسدان الیکٹران پر سو سال سے تحقیقات کر رہے ہیں۔اس سو سال میں یہ نسبت تبدیل کیوں نہیں ہوئ۔اگر کائنات کے بہت سے خدا ہیں تو کیا ان کا آپس میں اتنا اتفاق ہے کہ یہ نسبت کبھی تبدیل نہ ہو۔ایک باپ سے پیدا ہونے والے بیٹے،ایک ماں سے پیدا ہونے والی بیٹیاں ایک جیسی شکل اور ایک جیسے مزاج کی نہیں ہو سکتیں،تو کائنات کے سب خدا ایک دوسرے کے مد مقابل ہونے کے باوجود اس نسبت کو کیوں تبدیل نہیں کر دیتے۔ایک منطقی عقل اس بات کو ماننے سے قاصر ہے۔لہذا سائنس کا کہنا ہے کہ ایک عالمگیر ذہانت اکیلی اس کائنات کے سب اصول مرتب کرتی ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں۔اس نسبت کا ہمشیہ ایک رہنا ظاہر کرتا ہے کہ خدا کئ نہیں بلکہ ایک ہے۔
جب ہماری زمیں پہ پائ جانے والی۔ ہائیڈروجن کا ہمارے سورج اور کائنات کی باقی ہائیڈروجن سے موازنہ کیا جاتا ہے تو ان سب میں الیکٹران،پروٹان،اس کی کمیت یا ماس اور چارج کا کوئ فرق نہیں ملتا ہمیں۔اس کا کیا سبب ہے؟کیا ایک ہی عالمگیر ذہانت و طاقت ہے جو ہر جگہ اس کو یکساں رکھے ہوئے ہے؟کیا اس کا اپنے جیسی کسی اور ذہانت سے کبھی مقابلہ نہیں ہوا؟یہ سب حقیقت بتاتی ہے کہ وہ عالمگیر زہانت یا خالق ایک ہی ہے جس نے اس کائنات کے ایک ایک ذرے کے اصول متعین کر دیے ہیں۔یعنی کہ اس کائنات کا مالک و خالق ایک ہے
ہمارا سورج ملکی وے کہکشاں کے دو سو بلین یا دوسو ارب ستاروں میں سے ایک ہے۔ہماری اس ملکی وے کہکشاں کے سب ستاروں کی ہائیڈروجن کائنات کی باقی ہائیڈروجن جیسی ہے۔کائنات میں اب تک دوسو بلین کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ہماری نزدیک ترین کہکشاں اینڈرومیڈا ۔۔۔۔Andromeda Galaxy.... ہے۔یہ بھی اپنی ہائیڈروجن میں ہماری زمیں جیسی ہے۔
کائنات میں بنیادی طور پہ چار قوتیں کارفرما ہیں۔وہ کشش ثقل۔۔۔۔Gravitational Force.....برقی مقناطیسی قوت۔۔۔۔۔Electromagnetic Force........کمزور نیوکلیائی قوت۔۔۔۔۔Weak Nuclear Force.....اور طاقتور نیوکلیائی قوت۔۔۔۔Strong Nuclear Force....ہیں۔یہ قوتیں کائنات میں ہر جگہ یکساں ہیں اور کائنات میں کہیں بھی ان کے بنیادی اصول تبدیل نہیں ہوتے۔آخر وہ کونسی ایسی قوت ہے جو یہ اصول تبدیل نہیں ہونے دیتی۔کیا کئ خداؤں کے ہوتے ہوئے ان قوانین کا یکساں ہونا ممکن ہے؟یہ بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔اگر کوئ اور خدا موجود ہے تو وہ اس کائنات کے یہ بنیادی قوانین تبدیل کیوں نہیں کر دیتا۔اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس کائنات کو چلانے والی بنیادی ہستی ایک ہی ہے۔
اب ہم خدا کے ایک ہونے کی وحدانی دلیل یاUnity argument کی طرف آتے ہیں۔یہ کہ کائنات کی ایک منظم ساخت ایک خدا کی دلیل ہے۔مسلم ماہرین علم الکلام یا الٰہیات۔۔۔۔Theology.....کے مطابق کائنات خدا کا عکس ہے۔کائنات کی تمام اچھی خصوصیات اللٰہ تعالٰی سے اخذ کی گئی ہیں جو کہ اس کی حتمی و حقیقی وجہ ہے۔کائنات متحد،منظم اور یکساں حالت میں ہے۔لہذا اس کا خالق ایک ہے۔یہ بے ربطگی،بے ترتیبی،اور بے اصولی پہ مبنی ہوتی اگر اس کے خالق و مالک ایک سے زیادہ ہوتے۔
جہاں تک اس کی وجودیاتی دلیل ۔۔۔۔Ontological argument.......کی بات ہے تو اس کی وضاحت اس طرح ہے۔خدا وہ ہے جس سے بڑھ کر کوئ عظیم و طاقتور نہیں۔اگر خدا موجود نہیں تو کوئ بھی موجود چیز اس سے بڑی ہوسکتی ہے لیکن یہ بات پھر خدا کے سب سے عظیم و طاقتور ہونے کی تعریف کے خلاف ہے لہذا خدا سے بڑھ کر یا اس کے برابر کا کوئ موجود نہیں۔اگر ہم کہ دیں کہ موجود خدا سے بڑا ایک اور خدا ہے،اس سے بڑا ایک اور خدا ہے،اور اس سے بڑا ایک اور خدا موجود ہے اور آخر میں ایک ایسا خدا موجود ہے جس دے بڑھ کر کوئ عظیم و طاقتور نہیں۔اس تصور کوself..ol..vojudکہا جاتا ہے جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا ایک ہی ہے کیونکہ خدا موجود ہے۔اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا ہے وہی جس سے بڑھ کر کوئ طاقتور نہیں۔اگر اس سے بڑھ کر کوئ طاقتور ہے تو پھر وہ خدا ہی نہ ہوا لیکن چونکہ خدا اس کائنات کی ایک سائنسی حقیقیت ہے لہذا اس کا وجود موجود ہے اور اس سے بڑھ کر کوئ موجود نہیں اور وہ ایک ہے۔خدا ہے وہی جس میں طاقت و عظمت کی تمام خصوصیات لا متناہی حد میں موجود ہوں اور اس جیسا یا اس سے بڑھ کر کوئ نہ ہو۔اس تعریف کے مطابق خدا سے بڑھ کر کوئ نہیں لہذا وہ ایک ہے۔
دمشق کے جان۔۔۔۔John Of Damascus....کے فلسفے کے مطابق خدا چونکہ ایک مکمل ہستی ہے لہذا وہ لاجواب ہے جس کا جواب و مقابلہ کوئ نہیں۔صرف ایک طریقہ جس میں کوئ جھوٹے خدا کو سچے خدا اللہ سے تمیز کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام جھوٹے خدا اپنی اچھائ،اختیار،طاقت،حکمت میں اس سچے خدا سے کم ہوں گے۔لہذا وہ جھوٹے خدا خدا نہیں ہو سکتی اور ہم یہ حقیقت پا لیتے ہیں کہ دنیا میں پوجے جانے والے کروڑوں خداؤں میں سے صرف ایک ہی خدا سچا ہے جو خدائ کی سب خصوصیات رکھتا ہے اور باقی خدا جو خدائ کی دعویدار لیکن خدائ صفات میں ناقص ہیں،کبھی خدا نہیں ہو سکتے اور اس طرح دنیا میں کروڑوں خداؤں کی پکار میں ہم ایک حقیقی خدا یعنی اللٰہ کو پا لیتے ہیں اور ہماری اصل خدا کی تلاش تکمیل کو پہنچتی ہے۔
تھامس ایکوینس بھی خدا کے بارے میں اسی طرح کے ایک فلسفے پہ یقین رکھتا ہے۔
اگر اس کائنات میں ایک سے ذیادہ خدا ہوتے تو یہ کئ مالکوں و سربراہوں کی وجہ سے بد نظمی کی حالت میں ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ خدا ایک ہے۔
چونکہ خدا ایک مکمل ہستی ہے،لہذا اگر خدا ایک سے زیادہ ہوتے تو ان کو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے مختلف ہونا پڑتا اور تکمیل سے اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز مکمل نہیں لیکن خدا کبھی بھی نامکمل نہیں ہوسکتا لہذا تکمیل کی خاصیت نہ رکھنے والے باقی خدا،خدا کہلانے کے حقدار نہیں اور خدا ایک ہے۔
اگر خدا ایک لامحدود ہستی ہے تو اس کو جسمانی اعضا سے پاک ہونا چاہیے کیونکہ لامحدودیت میں اعضاء لازمی نہیں۔خدا کا لا محدود ہونا اس کے کسی جسمانی عضو یا جسمانی حیثیت کا محتاج نہیں اور کائنات میں دو لامحدود ہستیوں کا ہونا ناممکن ہے کیونکہ ایک کو دوسرے سے مختلف ہونا پڑے گا اور خدا کی خصوصیات کا اختلاف دوسرے خدا کو خدائ خصوصیات سے اختلاف کی وجہ سے جھوٹا کر دے گا۔اس لیے خدا ایک ہے۔
دوسرا یہ دعوی کہ خدا نے اپنے جیسے چھوٹے خدا پیدا کیے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ وہ چھوٹے خدا جب خود ایک بڑے خدا کے پیدا کردہ ہوئے تو وہ خدا نہ ہوئے کیونکہ خدا ہے ہی وہی جس کو نہ کسی نے پیدا کیا اور نہ کوئ اسے فنا کر سکتا ہے۔
حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانون کے مطابق کائنات میں نا قابل استعمال توانائ یاEntropy بڑھ رہی ہے یعنی ہم انسان اشیاء پہ اپنا اختیار آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں اور تمام مادہ زوال کی طرف رواں دواں ہے لیکن پھر بھی کائنات ایک ربط کی حالت میں ہے اور یہ ربط ایک عظیم خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔کائنات کا یہ ربط ان قوانین طبیعیات یا قوانین فزکس کی وجہ سے ہے جن کو اس کائنات کے خالق نے تخلیق کیا لیکن ان قوانین کا پابند نہیں کیونکہ یہ قوانین جس مادے پہ لاگو ہوتے ہیں وہ مادہ بذات خود اس خالق کا پیدا کردہ ہے۔لہذا یہ قوانین اپنے لاگو ہونے کے کے لیے کائنات اور مادے کے پابند ہیں۔اگر یہ مادہ اور کائنات نہ ہوتی تو یہ قوانین کسی کام کے نہیں تھے۔لہذا یہ قوانین خود کائنات کی تخلیق کے پابند ہیں جس کو خدا نے تخلیق کیا۔دوسرے لفظوں میں براہ راست خدا کے پابند ہیں یہ قوانین اور خدا ان قوانین سے خود تو بالاتر ہے لیکن کائنات کو ان کا پابند بنا دیا۔دوسری بات یہ کہ جب خدا نے یہ کائنات تخلیق کی تو اس وقت یہ قوانین موجود نہیں تھے کیونکہ یہ بعد میں پیدا ہونے والی کائنات پہ لاگو ہوئے۔اگر خدا ان قوانین کا پابند ہوتا تو بغیر ان قوانین کے یہ کائنات پیدا بھی نہ کر سکتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اس طرح سٹیفن ہاکنگ اور وہ سائنسدان جو خدا کو ان قوانین کا پابند کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کا کائنات پیدا کرنے کے بعد کائنات میں کوئ عمل دخل نہیں اور وہ تو اڑتی چڑیا کے پر بھی نہیں گن سکتا،وہ لوگ غلط ثابت ہوتے ہیں۔کیونکہ اگر خدا اس کائنات کا بنیادی مادہ ہی ختم کر دے تو یہ قوانین خود بخود ختم ہوجائیں گے۔دونوں صورتوں میں خدا کو ان قوانین کا پابند کہنا بالکل غلط ہے۔دوسری بات یہ کہ سائنسدان خود قیامت کا وجود تسلیم کر چکے ہیں اور قیامت کی سائنسی تعریف پہ ہے کہ کائنات کے بنیادی قانون ختم ہو جائیں گے،کشش ثقل ختم برقی مقناطیسی قوت ختم ،سیارے ستارے آپس میں ٹکرا ٹکرا کر ٹوٹ جائیں گے اور کائنات ریزہ ریزہ ہوجاۓ گی۔لہذا یہ قوانین بھی حتمی نہیں۔خدا جب چاہے ان کو ختم کر کے قیامت لے آئے اور خدا کو ان قوانین کا پابند کہنا خود سائنسی حقائق کی خلاف ورزی ہے۔
امکانیات یاProbability کے مطابق ان مستقل،مرتب، اور مربوط قوانین کو چلانے والی کئ ذہانتوں کا وجود ناممکن ہے،لہذا خدا ایک ہے۔
خدا نے اس کائنات کو کچھ سائنسی اصولوں کا پابند کیوں کیا۔کیونکہ اس سے کائنات میں ربط پیدا کرنا،اسے قیام پذیر حالت میں رکھنا اور انسان کو بھی اس خدا کے اصولوں کی پابندی کا درس دینا تھا جس پہ پوری کائنات چل رہی ہے۔
تمام مادہ ایک دوسرے کو کشش کیوں کرتا ہے۔نظریاتی طور پہ یہHiggs Bosen انرجی فیلڈ کی وجہ سے ہے جو کہ پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے جو کہ ایک بار پھر خدا کے پوری کائنات میں ہر جگہ موجود ہونے کا ثبوت ہے۔
چونکہ کائنات کے یہ سائنسی قوانین پوری کائنات میں مشترک اور یکساں ہیں لہذا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا مالک ایک ہے،اگر اس کائنات کے خالق کئ ہوتے تو یہ قوانین بھی مختلف ہوتے۔
دوسری بات کائناتی دلیل یاCosmological Argument کی ہے۔اس کے مطابق ہر موجود چیز کی ایک وجہ ہے،کائنات موجود ہے،اس کی بھی ایک وجہ ہے،یہ وجود میں آئ،اس کو وجود میں لانے کی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ خدا ہے۔سوال یہ ہے کہ پھر خدا کی کیا وجہ ہے یعنی خدا کو کس نے پیدا کیا۔اس کا جواب بہت آسان ہے۔حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق توانائی کو نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فنا۔یعنی یہ توانائ ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ رہے گی،کائنات اس توانائ سے ویکیوم انرجی کی صورت میں بنی،یہ پوری کائنات میں موجود،اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا کائنات میں،ہمیشہ سے موجود بھی ہے سائنس کے مطابق اور ہمیشہ موجود بھی رہے گی تو یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خدا کے وجود کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے جب کہ خود سائنس کے مطابق طبعیات یا فزکس،حیاتیات یا بیالوجی کے سب قوانین کا علم رکھنے والی ایک ذہانت ان اصولوں کو چلائے ہوئے ہے جیسا کہ فریڈ ہائل۔۔۔۔Fred Hoyle.....نے کہا۔
دلیلِ طلب یاArgument For Desire کے بارے میں سی ایس لیوس کا کہنا ہے کہ ہر وہ چیز جس کی انسان خواہش رکھتا یے،اس کا حقیقی وجود ہوتا ہے جو کہ خواہش کا مقصد ہوتا ہے،انسان کی تمام معلوم خواہشات کا مقصود ایک حقیقی چیز تھی۔خدا کو جاننے کی خواہش اتنی ہی بنیادی خواہش ہے جتنی کہ کوئ اور خواہش۔لہذا اس خواہش کا مقصود یعنی خدا موجود ہے۔کیا وہ خدا صرف ایک ہے؟اس کا حتمی و آخری جواب۔سائنس کے مطابق کائنات کی ابتداء ویکیوم انرجی میں کوانٹم فلکچویشن سے ہوی جو پوری کائنات میں موجود،وہ توانائ کائنات کے سب افعال انجام دیتی ہے،اس کے بغیر کائنات کا کوئ عمل واقع نہیں ہو سکتا کیونکہ توانائ سب عوامل کے لئے لازمی ہے،ان عوامل کو انجام دینے کے لیے وہ توانائ وہاں پہلے سے ہی موجود یعنی ان عوامل کا پہلے سے علم رکھنے والی تو یہ سب خدا کے وجود کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔چونکہ سائنس کے مطابق وہ ویکیوم انرجی ایک ہی چیز ہے جس سے اس ساری کائنات کی تخلیق ہوی لہذا خدا بھی ایک ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔