ملحدین کا اعتراض کہ اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا کیا اور شیطان ساری برائی کی جڑ ہے۔لہذا نعوذ بااللہ شیطان کو پیدا کرکے اللٰہ تعالٰی نے دنیا کی سب برائی کو پیدا کیا اور اس اعتراض کا جواب
(Problem Of Evil And Its Solution)
انسان اور جنات دو مخلوقات ہیں جو اپنے ہر عمل میں آزاد ہیں۔عمل کی یہی ازادی ہے جو انسان و جنات کو دی گئ ہے۔شیطان عیسائیوں کے نزدیک فرشتہ ہے لیکن ہم اسے جن مانتے ہیں۔خود قرآن نے کہا کہ وہ جنات میں سے تھا۔جب وہ تھا ہی ایسی مخلوقات میں سے جو اپنے ہر عمل میں آزاد پیدا ک گئ ان کو سمجھ بوجھ دی گئی طاعت و عبادت کا سارا راستہ بتادیا گیا۔جس پر وہ شیطان کافی عرصہ قائم بھی رہا۔اور خود اسی خدا کی عطا کردہ آزادی کا غلط استعمال کر کے اس نے اپنے آپ کو شیطان کہلوایا اور ساری دنیا کی برائ کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا تو اس میں قصور خدا کا ہوا جس نے انسان و جنات کی شخصی آزادی برقرار رکھی یا اس شیطان کا جس نے اس آزادی کا غلط استعمال کیا اور دنیا کی سب برائ پیدا کرنے کی وجہ بنا؟
کیا یہ بات خالق و مالک و رحیم کہلوانے والے رب کو زیب دیتی تھی کہ کائنات کی ہر مخلوق کو کٹھ پتلی بناتا زبردستی ان سے عبادت کراتا۔ان کی مرضی و رضا سلب کر لیتا؟
قرآن وحدیث کی تعلیمات پر چلنے والے سب مسلمان شیطان کو مخلوقات مینی میں سے مانتے ہیں۔قرآن نے کہا کہ شیطان جنات میں سے ہے اور جنات مخلوقات میں شمار ہوتے ہیں۔
مخلوق کا مطلب ہے خالق کی پید کردہ چیز۔ کائنات کی ہر چیز خالق کی پیدا کردہ ہے اور پیدا کی گئ چیز مخلوقات کہلاتی ہیں اور کچھ نہیں۔
شعور و فکر و سمجھ بوجھ یہ صلاحیت جنات میں بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف بھی پیغمبر بھیجے گئے۔
برائ خالق سے نہیں ہے۔شیطان سے ہے۔خالق نے برائ نام کی کوئ چیز پیدا نہیں کی۔شیطان کی طرف سے اپنی آزادی کے غلط استعمال سے برائ کا جنم ہے۔شیطان خالق نے برا پیدا نہیں کیا تھا۔وہ شروع میں نیک تھا۔فرشتوں کے ساتھ عبادات میں تھا۔بعد میں آدم کے حسد اور خالق کی آزادی کے غلط استعمال سے خود بھی برا ہوااور دنیا کی سب برائ کی وجہ بنا۔پھر کوئ کیسے کہ سکتا ہے کہ یہ برائ خالق نے پیدا کی۔
برائ کا خالق خدا ہوتا تو شیطان شروع ہی سے برا ہوتا جب کہ وہ پہلے نیک تھا۔اپنی آزادی و حسدکے غلط استعمال سے برا ہوا۔اب اس کی برائ کو خدا پر نہیں ڈالا جا سکتا۔
آزادی و حسد اس نے اپنی آزادی کے حق کا غلط استعمال کر کے لی۔اگر خدا انسان و جنات کو آزادی نہ دیتا تو پھر دوسرا اعتراض ہوتا کہ ہم کو کٹھ پتلی کیوں بنایا۔
اور خدا کو یہ بات نہیں زیب دیتی کہ زبردستی سب سے عبادت کرائے۔اسے یہ بات زیب دیتی تھی کہ کچھ مخلوقات اپنی فہم و عقل سے اسے پہچانیں۔اس مقصد کے لیے انہیں عقل آزادی و رہنمائی فراہم کر دی گئی۔جس کا استعمال کچھ لوگ ٹھیک کرتے ہیں اور کچھ غلط۔اس کی مثال ایسی ہے جیسا کالج کا پروفیسر لیکچر کے بعد چھٹی دے دیتا ہے۔اور کہ دیتا ہے کہ ایک سال بعد امتحان ہوگا۔اب کچھ اس آزادی کا غلط استعمال کر کے ناکام ہوں گے اور کچھ ٹھیک استمعال کر کے کامیاب۔اور جو ناکام ہونے والا اس آزادی و ناکامی کا ذمہ دار کالج کو کہے گا احمق کہلائے گا۔
پھر آپ کی طرح کی کوئ مخلوق اعتراض کرتی کہ کٹھ پتلی بنا کے رکھا عزت نفس چھین لی زبردستی کی عبادت کرا رہا ہے۔کیا اس آزادی کے نہ دینے سے خداوندی پر ہونے والے اعتراضات ختم ہوجاتے؟نہیں تو پھر جب اعتراضات ختم ہی نہیں ہونے تو خدا کائنات کا خالق آپ کے اعتراض کو دیکھے یا اپنی رضا کو۔وہ جو کرے تو انسان کون ہیں اس کے کام میں ٹانگ اڑانے والے۔
شیطان سمیت ہر وہ چیز جو اللٰہ تعالٰی نے پیدا کی شروع میں اچھی تھی اور اس میں برائ شیطان کی بغاوت اور انسان کے اعمال سے بعد میں پیدا ہوئ۔اپنی ان ساری برائیوں کا ذمہ دار اس خدا کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا جس نے کائنات کی ہر چیز کو اچھی فطرت پر پیدا کیا اور پھر اسے اچھا رکھنے اور اچھا رہنے کی ذمہ داری انسان کو سونپ دی اور انسان کو اس ہدائت و گمراہی دونوں راستے بتا کر عمل میں آزاد کر دیا۔اب انسان کی اپنی طرف سے پیدا کردہ برائ اور اس آزادی کے غلط استعمال کی ذمہ داری اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی۔اور اس طرح شیطان کی بغاوت و برائ کی ذمہ داری بھی اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ وہ اپنے انتخاب میں آزاد تھا اور اس نے بغاوت کا راستہ چنا۔فخر،حسد،بے اطمینانی اور احساس برتری شیطان میں ہیدا ہوچکے تھے۔اس نے اللٰہ تعالٰی سے بغاوت کر کے گویا اللٰہ تعالٰی سے اس کا مرتبہ خداوندی چھیننے کی کوشش کی لیکن خود راندہ درگاہ ہوا۔
اب یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں اللٰہ تعالٰی سب انسانوں سے اپنی عبادت چاہتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت محض عبادت نہیں۔یہ کسی بھی انسان کے لشکر رحمانی یا لشکر شیطانی میں شامل ہونے کا معیار ہے۔جو بھی اس عبادت سے انکار کرے گا لشکر شیطان کا رکن کہلائے گا کیونکہ شیطان نت بھی سجدے سے انکار کیا تھااور جو اسے پورا کرے گا لشکر رحمانی کا رکن کہلائے گا۔
یہ آزادئ انتخاب در حقیقت خدا کی انسان سے محبت اور انسان کی عزت نفس برقرار رکھنے کی ایک علامت ہے۔اگر یہ آزادی نہ دی جاتی تو انسان کس طرح کائنات میں خدا کا خلیفہ کہلاتاجو اپنی طرف سے سوا عبادت کے کچھ بھی نہ کر سکتا ہو۔اس طرح اس آزادی سے انسان کو محض اللٰہ تعالٰی کا بندہ نہیں بلکہ اللٰہ تعالٰی کے دوست اور نائب کا رتبہ دیا گیا۔
جنات و انسان کو دی گئی یہی آزادی تھی کہ شیطان کی بغاوت پر شیطان کو اور آدم و حوا علیہ السلام کی غلطی پر آدم و حوا علیہ السلام کو فنا نہیں کر دیا گیا۔بلکہ ان کی آزادی برقرار رکھ کر انہیں اپنے اعمال کی اصلاح کا موقع فراہم کیا گیا اور ان پر حجت تمام کر دی گئی تاکہ بعد میں ملنے والی جزا و سزا پر وہ یہ نہ کہ سکیں کہ انہیں اصلاح کا موقع کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ خالق کی طرف سے خالق کے نظام کے ہر باغی کو اصلاح کا موقع دیا جاتا ہے اور وقتا فوقتا اس پر آزمائش ڈال کر اسے تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کرے ورنہ اس سے بڑی مصیبت آسکتی ہے۔جو اس تنبیہ پر اپنی اصلاح کر لیتا ہے ٹھیک ورنہ مہلت ختم ہوتے ہی اس پر بڑا عذاب نازل کیا جاتا ہے یا اس کا انجام قبر و قیامت تک کے لیے موخر کر دیا جاتا ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ مذہب خوف کی علامت ہے۔خوف دلا کر اللٰہ تعالٰی کی عبادت کرائ جاتی ہے۔اگر مذہب خوف کی علامت ہوتا تو شیطان کو اس کی بغاوت کے وقت اور آدم و حوا علیہ السلام کو ان کی غلطی کے وقت عبرت کا نشان بنا دیا جاتا لیکن نہیں۔صرف انجام بتا دیا گیا اور اعمال کی آزادی دے دی گئی۔اس آزادی کے ساتھ اگر جزا و سزا کا تصور نہ دیا جاتا تو آزادی رکھنے والی مخلوق خالق کی زمین کو فساد سے بھر ڈالتی۔لہذا انسان کو پابندی سے آزاد کر کے ایک ایسی عبادت کی تلقین کی گئی جس کی بنیاد اللٰہ تعالٰی کی محبت،عشق،جنون اور فرمانبرداری پر ہے۔کوئ بھی بھی فرمانبرداری جس کی بنیاد کسی دوسری چیز پر ہو قابل قدر نہ ہوگی۔
مزید برآں خالق نے شیطان کو آزادی اس لیے بھی دی کیونکہ اس نے خالق کے نظام کائنات کو چیلنج کیا جس کے مقابلے میں خالق نے بھی اپنا نظام کائنات و عمل نافذ کرنے کا اعلان کیا۔اگر فوری بغاوت پر شیطان کو مار دیا جاتا تو اس کے چیلینج کے مقابلے میں خالق کے نظام معافی و جزا و سزا کا نفاذ کس طرح ہوتا۔پھر نعوذ بااللہ خدا اس چیلنج میں ناکام ہوتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اس طرح خدا کی اچھائی کے مقابلے میں شیطان نے جس بغاوت و دھوکے کی راہ ہمورا کی اسی دن سے ہی اس نے خدا کی اچھائی کے مقابلے میں برائ کی بنیاد رکھ دی اور برائ کا سربراہ قرار پایا۔اس طرح اس برائ کی جڑ شیطان کی بغاوت تھی خالق کی ذات نہیں۔اللٰہ تعالٰی خود جرم نہیں کرتا لیکن وہ آزادئ عمل کے قانون کے تحت اس برائ کا ذمہ دار بھی نہیں قرار پاتا۔
مزید برآں اس برائ کے مقابلے میں خالق کی طرف سے معافی و درگزر خالق کی اس رحمانی صفت کا اظہار ہے جو وہ اپنی مخلوق کے لیے رکھتا ہے۔لیکن شیطان آج تک خالق کا مقابلہ کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ اچھائی پر غالب ہے اور اس اچھائی و برائ کی جنگ کا آغاز خالق نے نہیں بلکہ شیطان کی خالق کے ایک حکم سے بغاوت نے کیا۔
اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس جن کو پیدا کیا جو اپنی آزادی عمل کا غلط استعمال کر کے شیطان بن گیا اور اس میں خالق کا کوئ قصور نہیں۔خالق نے شیطان کے اندر برائ کا مادہ رکھ کر اسے پیدا نہیں کیا بلکہ یہ اس کا اپنا انتخاب و عمل تھا جس نے اس شیطان کو یہ کرنے پر مجبور کیا۔
تحریر۔ڈاکٹر احید حسن
(Problem Of Evil And Its Solution)
انسان اور جنات دو مخلوقات ہیں جو اپنے ہر عمل میں آزاد ہیں۔عمل کی یہی ازادی ہے جو انسان و جنات کو دی گئ ہے۔شیطان عیسائیوں کے نزدیک فرشتہ ہے لیکن ہم اسے جن مانتے ہیں۔خود قرآن نے کہا کہ وہ جنات میں سے تھا۔جب وہ تھا ہی ایسی مخلوقات میں سے جو اپنے ہر عمل میں آزاد پیدا ک گئ ان کو سمجھ بوجھ دی گئی طاعت و عبادت کا سارا راستہ بتادیا گیا۔جس پر وہ شیطان کافی عرصہ قائم بھی رہا۔اور خود اسی خدا کی عطا کردہ آزادی کا غلط استعمال کر کے اس نے اپنے آپ کو شیطان کہلوایا اور ساری دنیا کی برائ کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا تو اس میں قصور خدا کا ہوا جس نے انسان و جنات کی شخصی آزادی برقرار رکھی یا اس شیطان کا جس نے اس آزادی کا غلط استعمال کیا اور دنیا کی سب برائ پیدا کرنے کی وجہ بنا؟
کیا یہ بات خالق و مالک و رحیم کہلوانے والے رب کو زیب دیتی تھی کہ کائنات کی ہر مخلوق کو کٹھ پتلی بناتا زبردستی ان سے عبادت کراتا۔ان کی مرضی و رضا سلب کر لیتا؟
قرآن وحدیث کی تعلیمات پر چلنے والے سب مسلمان شیطان کو مخلوقات مینی میں سے مانتے ہیں۔قرآن نے کہا کہ شیطان جنات میں سے ہے اور جنات مخلوقات میں شمار ہوتے ہیں۔
مخلوق کا مطلب ہے خالق کی پید کردہ چیز۔ کائنات کی ہر چیز خالق کی پیدا کردہ ہے اور پیدا کی گئ چیز مخلوقات کہلاتی ہیں اور کچھ نہیں۔
شعور و فکر و سمجھ بوجھ یہ صلاحیت جنات میں بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف بھی پیغمبر بھیجے گئے۔
برائ خالق سے نہیں ہے۔شیطان سے ہے۔خالق نے برائ نام کی کوئ چیز پیدا نہیں کی۔شیطان کی طرف سے اپنی آزادی کے غلط استعمال سے برائ کا جنم ہے۔شیطان خالق نے برا پیدا نہیں کیا تھا۔وہ شروع میں نیک تھا۔فرشتوں کے ساتھ عبادات میں تھا۔بعد میں آدم کے حسد اور خالق کی آزادی کے غلط استعمال سے خود بھی برا ہوااور دنیا کی سب برائ کی وجہ بنا۔پھر کوئ کیسے کہ سکتا ہے کہ یہ برائ خالق نے پیدا کی۔
برائ کا خالق خدا ہوتا تو شیطان شروع ہی سے برا ہوتا جب کہ وہ پہلے نیک تھا۔اپنی آزادی و حسدکے غلط استعمال سے برا ہوا۔اب اس کی برائ کو خدا پر نہیں ڈالا جا سکتا۔
آزادی و حسد اس نے اپنی آزادی کے حق کا غلط استعمال کر کے لی۔اگر خدا انسان و جنات کو آزادی نہ دیتا تو پھر دوسرا اعتراض ہوتا کہ ہم کو کٹھ پتلی کیوں بنایا۔
اور خدا کو یہ بات نہیں زیب دیتی کہ زبردستی سب سے عبادت کرائے۔اسے یہ بات زیب دیتی تھی کہ کچھ مخلوقات اپنی فہم و عقل سے اسے پہچانیں۔اس مقصد کے لیے انہیں عقل آزادی و رہنمائی فراہم کر دی گئی۔جس کا استعمال کچھ لوگ ٹھیک کرتے ہیں اور کچھ غلط۔اس کی مثال ایسی ہے جیسا کالج کا پروفیسر لیکچر کے بعد چھٹی دے دیتا ہے۔اور کہ دیتا ہے کہ ایک سال بعد امتحان ہوگا۔اب کچھ اس آزادی کا غلط استعمال کر کے ناکام ہوں گے اور کچھ ٹھیک استمعال کر کے کامیاب۔اور جو ناکام ہونے والا اس آزادی و ناکامی کا ذمہ دار کالج کو کہے گا احمق کہلائے گا۔
پھر آپ کی طرح کی کوئ مخلوق اعتراض کرتی کہ کٹھ پتلی بنا کے رکھا عزت نفس چھین لی زبردستی کی عبادت کرا رہا ہے۔کیا اس آزادی کے نہ دینے سے خداوندی پر ہونے والے اعتراضات ختم ہوجاتے؟نہیں تو پھر جب اعتراضات ختم ہی نہیں ہونے تو خدا کائنات کا خالق آپ کے اعتراض کو دیکھے یا اپنی رضا کو۔وہ جو کرے تو انسان کون ہیں اس کے کام میں ٹانگ اڑانے والے۔
شیطان سمیت ہر وہ چیز جو اللٰہ تعالٰی نے پیدا کی شروع میں اچھی تھی اور اس میں برائ شیطان کی بغاوت اور انسان کے اعمال سے بعد میں پیدا ہوئ۔اپنی ان ساری برائیوں کا ذمہ دار اس خدا کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا جس نے کائنات کی ہر چیز کو اچھی فطرت پر پیدا کیا اور پھر اسے اچھا رکھنے اور اچھا رہنے کی ذمہ داری انسان کو سونپ دی اور انسان کو اس ہدائت و گمراہی دونوں راستے بتا کر عمل میں آزاد کر دیا۔اب انسان کی اپنی طرف سے پیدا کردہ برائ اور اس آزادی کے غلط استعمال کی ذمہ داری اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی۔اور اس طرح شیطان کی بغاوت و برائ کی ذمہ داری بھی اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ وہ اپنے انتخاب میں آزاد تھا اور اس نے بغاوت کا راستہ چنا۔فخر،حسد،بے اطمینانی اور احساس برتری شیطان میں ہیدا ہوچکے تھے۔اس نے اللٰہ تعالٰی سے بغاوت کر کے گویا اللٰہ تعالٰی سے اس کا مرتبہ خداوندی چھیننے کی کوشش کی لیکن خود راندہ درگاہ ہوا۔
اب یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں اللٰہ تعالٰی سب انسانوں سے اپنی عبادت چاہتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت محض عبادت نہیں۔یہ کسی بھی انسان کے لشکر رحمانی یا لشکر شیطانی میں شامل ہونے کا معیار ہے۔جو بھی اس عبادت سے انکار کرے گا لشکر شیطان کا رکن کہلائے گا کیونکہ شیطان نت بھی سجدے سے انکار کیا تھااور جو اسے پورا کرے گا لشکر رحمانی کا رکن کہلائے گا۔
یہ آزادئ انتخاب در حقیقت خدا کی انسان سے محبت اور انسان کی عزت نفس برقرار رکھنے کی ایک علامت ہے۔اگر یہ آزادی نہ دی جاتی تو انسان کس طرح کائنات میں خدا کا خلیفہ کہلاتاجو اپنی طرف سے سوا عبادت کے کچھ بھی نہ کر سکتا ہو۔اس طرح اس آزادی سے انسان کو محض اللٰہ تعالٰی کا بندہ نہیں بلکہ اللٰہ تعالٰی کے دوست اور نائب کا رتبہ دیا گیا۔
جنات و انسان کو دی گئی یہی آزادی تھی کہ شیطان کی بغاوت پر شیطان کو اور آدم و حوا علیہ السلام کی غلطی پر آدم و حوا علیہ السلام کو فنا نہیں کر دیا گیا۔بلکہ ان کی آزادی برقرار رکھ کر انہیں اپنے اعمال کی اصلاح کا موقع فراہم کیا گیا اور ان پر حجت تمام کر دی گئی تاکہ بعد میں ملنے والی جزا و سزا پر وہ یہ نہ کہ سکیں کہ انہیں اصلاح کا موقع کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ خالق کی طرف سے خالق کے نظام کے ہر باغی کو اصلاح کا موقع دیا جاتا ہے اور وقتا فوقتا اس پر آزمائش ڈال کر اسے تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کرے ورنہ اس سے بڑی مصیبت آسکتی ہے۔جو اس تنبیہ پر اپنی اصلاح کر لیتا ہے ٹھیک ورنہ مہلت ختم ہوتے ہی اس پر بڑا عذاب نازل کیا جاتا ہے یا اس کا انجام قبر و قیامت تک کے لیے موخر کر دیا جاتا ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ مذہب خوف کی علامت ہے۔خوف دلا کر اللٰہ تعالٰی کی عبادت کرائ جاتی ہے۔اگر مذہب خوف کی علامت ہوتا تو شیطان کو اس کی بغاوت کے وقت اور آدم و حوا علیہ السلام کو ان کی غلطی کے وقت عبرت کا نشان بنا دیا جاتا لیکن نہیں۔صرف انجام بتا دیا گیا اور اعمال کی آزادی دے دی گئی۔اس آزادی کے ساتھ اگر جزا و سزا کا تصور نہ دیا جاتا تو آزادی رکھنے والی مخلوق خالق کی زمین کو فساد سے بھر ڈالتی۔لہذا انسان کو پابندی سے آزاد کر کے ایک ایسی عبادت کی تلقین کی گئی جس کی بنیاد اللٰہ تعالٰی کی محبت،عشق،جنون اور فرمانبرداری پر ہے۔کوئ بھی بھی فرمانبرداری جس کی بنیاد کسی دوسری چیز پر ہو قابل قدر نہ ہوگی۔
مزید برآں خالق نے شیطان کو آزادی اس لیے بھی دی کیونکہ اس نے خالق کے نظام کائنات کو چیلنج کیا جس کے مقابلے میں خالق نے بھی اپنا نظام کائنات و عمل نافذ کرنے کا اعلان کیا۔اگر فوری بغاوت پر شیطان کو مار دیا جاتا تو اس کے چیلینج کے مقابلے میں خالق کے نظام معافی و جزا و سزا کا نفاذ کس طرح ہوتا۔پھر نعوذ بااللہ خدا اس چیلنج میں ناکام ہوتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اس طرح خدا کی اچھائی کے مقابلے میں شیطان نے جس بغاوت و دھوکے کی راہ ہمورا کی اسی دن سے ہی اس نے خدا کی اچھائی کے مقابلے میں برائ کی بنیاد رکھ دی اور برائ کا سربراہ قرار پایا۔اس طرح اس برائ کی جڑ شیطان کی بغاوت تھی خالق کی ذات نہیں۔اللٰہ تعالٰی خود جرم نہیں کرتا لیکن وہ آزادئ عمل کے قانون کے تحت اس برائ کا ذمہ دار بھی نہیں قرار پاتا۔
مزید برآں اس برائ کے مقابلے میں خالق کی طرف سے معافی و درگزر خالق کی اس رحمانی صفت کا اظہار ہے جو وہ اپنی مخلوق کے لیے رکھتا ہے۔لیکن شیطان آج تک خالق کا مقابلہ کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ اچھائی پر غالب ہے اور اس اچھائی و برائ کی جنگ کا آغاز خالق نے نہیں بلکہ شیطان کی خالق کے ایک حکم سے بغاوت نے کیا۔
اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس جن کو پیدا کیا جو اپنی آزادی عمل کا غلط استعمال کر کے شیطان بن گیا اور اس میں خالق کا کوئ قصور نہیں۔خالق نے شیطان کے اندر برائ کا مادہ رکھ کر اسے پیدا نہیں کیا بلکہ یہ اس کا اپنا انتخاب و عمل تھا جس نے اس شیطان کو یہ کرنے پر مجبور کیا۔
تحریر۔ڈاکٹر احید حسن
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔