(حصہ اول): نظریۂ ارتقاء یا تھیوری آف ایوولوشن
مشہور یہودی چارلس ڈارون کا پیش کردہ نظریہ ارتقاء کہ تمام جاندار و انسان گرم سمندروں میں سادہ سالموں یا ملیکیول کے پیچیدہ سالموں یا مالیکیول میں اور پھر یک خلوی یاunicellular اور پھر کثیر خلوی یاmulticellular جانداروں اور پھر اس سے ہوتے ہوئے افریقی گوریلوں یا بن مانس اور اس سے پھر انسان میں تبدیل ہوئے۔کیا یہ نظریہ سچ ہے؟کیا جدید علم حیاتیات یا بیالوجی و جینیٹکس یا علم وراثت اس کی تصدیق کرتا ہے ؟سائنسدانوں کی کتنی تعداد اس پہ یقین رکھتی ہے؟اس بات کا جائزہ ہم اس مضمون کی لگاتار قسطوں میں میں گے۔
نظریہ ارتقاء سائنس کے انتہائ متنازعہ نظریات میں شمار ہوتا ہے،بلکہ یہ سائنس کا سب سے متنازعہ نظریہ ہے جس کی حمایت جدید علم وراثت یا جینیٹکس اور جدید علم حجریات یعنی فوسلز کا علم یاPalaoentology نہیں کر سکا جس سے اس کی صحت مزید مشکوک بلکہ مردود ہو گئ ہے۔یہ نظریہ کبھی قانون نہیں بن سکتاکیونکہ یہ غلطیوں سے بھرپور ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ معقول سائنسی شواہد نہ ہونے کی وجہ سے تنازعات کا شکار ہے۔اس کی بنیاد قدرتی چناو یا نیچرل سلیکشن کے اصول پہ رکھی گئی ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ کہ قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن ارتقائ عمل نہیں ہے۔پودوں و جانوروں میں موجود وراثتی مادہ ڈی این اے ان جانداروں کے درمیان ہمیں باہم منتخب ملاپ یاSelective breeding کی سہولت فراہم کرتا ہے۔اس سے نسل در نسل خاص خصوصیات رکھنے والے حیوان یا کتے پیدا کئے جا سکتے ہیں جو اچھی اور ماحول کے مطابق ڈھل جانے والی خصوصیات رکھتے ہوں لیکن قدرتی چناؤ کا یہ انسانی تجربہ کبھی بھی کئ نسلوں کے بعد کتوں سے بلیاں پیدا نہیں کرتا۔یعنی ایک جاندار قدرتی چناؤ سے بھی دوسرے جاندار میں تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ یہ چناؤ ڈی این اے اور کروموسوم کو تبدیل نہیں کرتا کہ ایک جانور کا ڈی این اے کوڈ اور کروموسوم کی مکمل تعداد ہی تبدیل ہو جائے اور وہ قسم دوسرے جانور کی قسم میں تبدیل ہو جائے۔جدید علم وراثت یا جینیٹکس کے مطابق یہ ناممکن ہے۔لہٰزا جانداروں کی دوسری قسم کے جانداروں میں باہم تبدیلی ناممکن ہے۔جدید ترین تجربہ گاہوں میں یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے اور ارتقاء کے حامی اس تبدیلی کا جینیٹکس سے ثبوت دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
اگر قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن کا یہ نظریہ سچ ہے تو شمالی امریکہ کے سرد علاقوں میں پائے جانے والے اسکیمو نسل کے لوگوں کے پر ہونی چاہئے تھے جو کہ انہیں سردی میں گرم رکھتے جب کہ ایسا نہیں ہے اور خط استوا کے گرم علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی جلد میںMelanin کم ہوتا جس سے ان کی جلد سفید ہوتی اور کم روشنی جذب کرتی اور ان کا جسم ٹھنڈا رہتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اگر یہ ارتقاء مکمل ابھی نہیں ہوا تو اس کی کوئ علامت تو ہو جب کہ وہ بھی نہیں ہے۔اسی طرح اگر قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن کا تصور درست تھا تو قطبین کے سرد علاقوں کے لوگوں کی جلد میلانن کی زیادتی سے سیاہ ہوتی تا کہ انہیں سردی زیادہ نہ لگے جب کہ وہ الٹا سفید ہے۔نیچرل سیلیکشن یا قدرتی چناؤ کا یہ تصور غلط ہے کیونکہ یہ وراثتی مادہ یا ڈی این اے میں کوئ ایسی تبدیلی نہیں کرتا جو اس میں پہلے نہ ہو جیسا کہ خط استوا کے انسانوں کی جلد کو سفید کرنے کی تا کہ وہ زیادہ گرمی سے محفوظ رہ سکیں۔اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ برفیلے اور گرم دونوں علاقوں کے ریچھ کے موٹے بال ہوتے ہیں جب کہ قدرتی چناؤ کے مظابق گرم علاقے کے تیندوے اور ریچھ کے بال کم موٹے ہوتے تاکہ گرمی سے بچاؤ ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔یہ سارے حقائق ڈارون کا قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن کا تصور غلط ثابت کرتے ہیں۔
کچھ حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نظریہ ڈارون نے نہیں بلکہ اس کے دادا نے 1794میں پیش کیا تھا۔جد نے بھی پش کیا ہو،یہ سائنسی حقائق سے متصادم ہے کیونکہ وقت ناممکن کو ممکن نہیں بناتا۔اس کا ایک تجربہ کیا گیا۔ایک کمپیوٹر یا شماری آلہ میں یہ ہدایت کوڈ کی گئ کہ وہ خود بخود ایک 26حروف پہ مشتمل ایک جملہ لکھ دے۔35ٹریلین کوششوں کے بعد بھی یہ صرف چودہ حروف ٹھیک لکھ سکا جب کہ کائنات جس کے اجزاء بھی شروع میں نہ تھے پہلے ان اجزاء کا بننا پھر اس سے یہ سب ہونا کیسے ممکن ہے۔اس بات کا امکان کتنا ہے کہ اپنے اندر سو مختلف شکلوں کی ساٹھ ہزار پروٹین رکھنے والا ایک سیل یا خلیہ خود بخود بن گیا۔یہ حقیقت میں نا ممکن ہے۔کیونکہ سائنسدانوں کے مطابق پینتیس ٹریلین سال بعد بھی صرف چودہ حروف درست نکلے کمپیوٹر میں جب کہ کائنات کی کل عمر ہی دس ارب سال ہے۔اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے۔
یہاں تک کہ یورپی تعلیمی نظام میں بھی طلباء کو اس نظریے پہ حرف بحرف یقین کرنے کو کہا جاتا ہے اور اگر کوئ اس پہ سوال اٹھائے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف مذہب کے معاملے میں آزادی سے سوچنے کی دعوت دی جاتی ہے جو کہ دوہرا معیار ہے۔کہا جاتا ہے کہ کچھ مچھلیاں سمندر سے نکل کے خشکی کے جانوروں میں تبدیل ہوگئ جب کہ مچھلیاں خشکی پہ سانس بھی نہیں لے پاتی۔ڈائنو سار کا حجری یا فوسل ریکارڈ ان کے اور مچھلیوں کے درمیان کوئ درمیانی جاندار ظاہر نہیں کرتا جس سے ظاہر ہو کہ ان کا ارتقاء سمندری مخلوق سے ہوا۔یہ فوسل ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے کیونکہ کوئ درمیانی جاندار بھی موجود نہیں۔
نظریہ ارتقا کے ماہرین نے زبردستی کچھ فوسل کو انسانی ارتقاء سے ملانے کی کوشش کی ہے جیسا کہ افریقہ میں دریافت ہونے والے بڑے اور پھیلے ہوئے پاؤ ں اور آگے بڑھے ہوئے جبڑے کے ایک ڈھانچے کو انسان کا جد امجد قرار دیا گیا جب کہ بعد میں یہ بن مانس کا ڈھانچہ ثابت ہوا۔
آج تک نظریہ ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے جانداروں کے درمیان ارتقاء کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے ور درمیانی جاندار اور ان کے فو سل دریافت نہیں ہو سکے جن کق ڈارون نے "نہ پائے جانے والے رابطے"یا مسنگ لنک قرار دیا تھا جب کہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ نظریہ ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے یہ لازمی ہیں جب کہ آج تک یہ دریافت نہینی ہوئے ۔اور ہمیں جاندارون کی الگ الگ قسمیں ملتی ہیں تو پھر ارتقاء کا نظریہ بغیر ثبوت کیسے مان لیا جائے گا۔
چیتا ثابت کرتا ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے کیونکہ سب چہرے ایک دوسرے سے اتنے ملتے ہوتے ہیں کہ اگر ایک چیتے کی جلد دوسرے چیتے کو لگا دی جائے تو تو اس،کا جسم عام جانوروں کی طرح اس کے خلاف ری ایکشن نہیں کرتا۔اگر ارتقاء درست تھا تو اتنے عرصے میں چیتوں میں تبدیلیاں لازمی آنی چاہیے تھی۔
نئے جانور کے حجری ثبوت یا فوسل ایتھوپیا میں دریافت کیے گئے۔اس جانور کے جبڑے میں دانت تھے۔اس جانور کو ارتقاء کے ماہرین یاEvolutionist نے تین سال کی عمر کا ایہ انسانی بچہ اور انسانی ارتقاء میں ایک درمیانی جاندار قرار دے کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ بن مانس کا ڈھانچہ تھا کیونکہ اس کا جبڑا بن مانس کی طرح آگے بڑھا ہوا تھا اور اس کا سر آج کے جدید بن مانس کی طرح تھا اور اس کی تحقیقی عمر پہ بھی کئ شکوک وشبہات ظاہر کیے گئے تھے۔اس طرح یہ جانور بھی انسانی ارتقاء کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔
کئ سال پہلے ارتقاء کے سائنسدانوں نے دعوی کیا کہ نیبراسکا یاNebraska انسان کا ایک دانت ملا ہے جو کہ انسان تو نہیں لیکن جدید انسان کے آباؤ اجداد میں شمار ہوتا ہے۔اسی ایک دانت سے انہوں نے یہ اخذ کیا کہ یہ بن مانس سے ملتا جلتا ایک ڈھانچہ ہے۔یہ جھوٹ تب ظاہر ہوا جب دوسرے سائنسدانوں کو یہ پتہ چلا کہ یہ دانت خنزیر سے مشبہت رکھنے والے ایک جانور کھردا میل یاPeccary کا تھا۔اس طرح ارتقاء کا نطریہ ایک بار پھر ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گیا۔
حقیقت میں قدیم حجری حیاتیات یا فوسلز بالکل مختلف نئ جاندار اقسام کو تو ظاہر کرتے ہیں مگر ارتقاء یا ایولوشن میں جانداروں کے درمیان ظاہری کڑیوں کو ثابت نہیں کرتے جو کہ نظریہ ارتقاء کی صحت پھر غلط ثابت قرار دیتا ہے اور جدید جینیٹکس اور علم حجریات یاPaleontology میں ترقی کے ساتھ ساتھ یہ نظریہ مزید غلط ثابت ہوتا جارہا ہے۔مائیکل ڈینٹن یاMichel Denton کے مطابق
"زمیں کے ہر کونے میں ارضیاتی یا جیولاجیکل سگرمی میں اضافے اوا اب تک نا معلوم کئ عجیب جاندار اقسام کی دریافت کے ساتھ نظریہ ارتقاء میں درمیانی سلسلوں یاMissing links کا تصور اتنا ہی غیر حقیقی ہوتا جا رہاہے جیسا کہ یہ ڈارون کے دور میں تھا۔حقیقیت یہ ہے کہ جانداروں کی تمام ارتقائ زنجیر یاEvolutionary tree میں یہ درمیانی ذرائع دریافت نہیں ہو سکے "۔
ارتقاء کے حامیوں نے سیلا کینتھ یاCoelacanth fish کو ارتقاء میں مچھلیوں اور خشکی کے جانداروں کے درمیان ایک درمیانی کڑی قرار دیا جس کی نامکمل ٹانگیں اور ابتدائی پھیپھڑے موجود ہیں اور ارتقاء کے ماہرین نے دعوی کیا تھا کہ یہ مچھلی 350ملین سال پہلے ٹانگوں،پیروں اور پھیپھڑوں والے ایک جانور میں تبدیل ہو گئ۔یہ نظریہ 1938میں تب غلط ثابت ہو گیا جب جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحل پہ مچھیروں نے ایک زندہ سیلا کینتھ مچھلی پکڑی جب کہ ارتقاء کے حامی یہ کہ چکے تھے کہ یہ مچھلی دوسرے جانوروں میں تبدیل پو چکی ہے۔بعد میں یہ پتہ چلا کہ کومورو یاComoro جزائر کے لوگ اس مچھلی کا شکار کئ سال سے کر رہے ہیں۔اس پہ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ 350ملین سال پہلی سیلا کینتھ مچھلی جیسی ہے اور اس عرصے میں اس میں کوئ ارتقاء نہیں ہوا۔اس طرح ارتقاء کے حامیوں کا ایک اور جھوٹ پکڑا گیا۔
ان گھوڑوں کے ارتقائ ثبوت کہاں ہیں جن کی ہڈیاں کمزور اور جلد ٹوٹ جانے والی تھی؟یہ بھی نہیں ملے۔اس طرح فوسل یا حجری ثبوت یی تو ظاہر کرتے ہیں کہ جانداروں کی ایک قسم پہلے موجود تھی اور پھر اس کی نسل مٹ گئ لیکن یہ کبھی ثابت نہیں کرتی کہ درمیانی اقسام موجود تھی جن سے بعد میں دوسرے جاندار بنے۔
نظریہ ارتقاء دعوی کرتا ہے کہ غیر نامیاتی مرکبات یاInorganic compounds سے زندگی رکھنے والے نامیاتی مرکبات یاOrganic compounds وجود میں آئے جب کہ یہ ناممکن ہے۔آج بھی دنیا کی جدید ترین تجربہ گاہوں میں سائنسدان تمام تر ذرائع کے بعد بھی غیر نامیاتی مرکبات کو زندگی کے لیے لازمی نامیاتی مرکبات میں تبدیل نہیں کر سکے۔
ڈارون نہیں جانتا تھا کہ ایک جاندار کی شخصیت کا تعین ڈی این اے سے ہوتا ہے۔بیرونی ماحول سے مطابقت یاEnvironmental adaptation کے لیے ڈی این اے کبھی تبدیل نہیں ہوتا جب کہ ارتقاء کے حامی و خدا کے منکر اسے ذبردستی منوانے پہ لگے ہوئے ہیں جس کا کوئ سائنسی ثبوت نہیں تا کہ اس نطریے کو بنیاد بنا کے خدا کے وجود کا انکار کیا جا سکے۔تمام پودوں اور درختوں کا ڈی این اے یا وراثتی مادہ قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن اور ماحولیاتی مطابقت یاAdaptation to external environments کے ذریعہ ارتقاء کے عمل کے نظریہ کو تباہ کر ڈالتا ہے کیونکہ یہ عوامل کبھی بھی جانداروں کے ڈی این اے میں تبدیلی کا سبب نہیں بنتے جب کہ جانداروں کی نئ اقسام کے وجود میں آنے کے لیے لازمی ہے کہ ان کا ڈی این اے مکمل تبدیل ہوجائے۔جدید جینیٹکس یا علم وراثت کے مطابق ڈارون کے پیش کردہ حیاتیاتی درخت یاEvolutionary tree میں موجود اسی فیصد جانداروں کا ڈی این اے ان جانداروں سے کافی حد تک مختلف ہے جن کو ڈارون نے ان کا جد امجد قرار دیا تھا۔ایک مادہ جاندار کا ماحولیاتی تجربہ اس کے انڈے میں موجود وراثتی کروموسوم کی تعداد کو کبھی تبدیل نہیں کرتا جب کہ نسل اور قسم کی ارتقائ تبدیلی کے لیے یہ لازمی ہے۔
یہ سائنسی حقیقت کہ تمام جانداروں کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے اپنے اندر خود بخود پیدا ہونے والی تبدیلیوں یاDNA ERRORS کی خود بخود قدرتی طور پہ مرمت کرتا ہے اور اپنے کوڈ کو تبدیل نہیں ہونے دیتا،یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے کیونکہ اگر ارتقاء کے دوران نئ جاندار نسل بننی تھی تو یہ مادہ بالکل تبدیل ہونا چاہیے تھا۔
حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون کہتا ہے کہ کائنات ربط سے بے ربطگی کی طرف جاتی ہے جس میں تمام توانائی حتمی طور پر ایک ناقابل استعمال توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اس طرح کائنات میں بے ربطگی یاEntropy بڑھتی چلی جاتی ہے۔جب کہ نظریہ ارتقاء کے مطابق زندگی مزید اچھی صورت اختیار کرتی ہے جب کہ حقیقیت میں تمام جانداروں کا وراثتی مادہ بتدریج ایک ناقص حالت اختیار کر رہا ہے بجائے اس کے کہ یہ بہتر صورت اختیار کرے جس سے نئ نسل وجود میں آئے۔جانداروں کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں اور نئ نسلیں وجود میں نہیں آرہی۔ارتقاء کا نظریہ حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانوں سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا جس سے ارتقاء کا نظریہ غلط قرار پاتا ہے کیونکہ سائنسی اصول ہے کہ ہر وہ نظریہ غلط قرار پاتا ہے جو ایک سائنسی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس بات کا بھی کوئ سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ جاندار اپنے جسم میں وراثتی کروموسوم کی تعداد مکمل تبدیل کر لیتے ہیں جن سے نئ نسل وجود مین آتی ہے۔یہ تصور جدید علم وراثت یا جینیٹکس کے بالکل برعکس ہے۔کروموسوم کی تعداد سب جانداروں میں قدرت کی طرف سے مقرر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک جاندار دوسرے جاندار سے کامیاب جنسی ملاپ نہیں کر سکتا جس سے نئ نسل وجود میں آئے۔گھوڑے اور گدھے کے جنسی ملاپ سے خچر پیدا ہوتا ہے جو کہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔پھر نئ نسل کیسے وجود میں آئ۔انسان سے ہمیشہ انسان پیدا ہوتا ہے اور کتے سے ہمیشہ ایک کتا۔وراثتی میں جانداروں کی ایک ہی قسم میں تبدیلی تو کر سکتے ہیں جانداروں کی اس قسم سے مختلف ایک نئ قسم پیدا نہی کر سکتے جیسا کہ کتے سے بکری کی پیدا ہونا ناممکن ہے۔جینیاتی تبدیلیوں سے انسان لمبے،چھوٹے قد،سرخ بال،سیاہ بال،بھوری نیلی آنکھوں والے ہو سکتے ہیں لیکن وہ پھر بھی انسان ہوتے ہیں کیونکہ یہ تبدیلی جینیاتی سطح پہ ہوتی ہے نہ کہ یہ کروموسوم کی تعداد ہی بدل جائے جس سے ایک نئ قسم کا جاندار وجود میں آئے۔جب کہ حقیقیت میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کروموسوم کی یہ تعداد تبدیل ہوجائے تو انسان بچہ پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔پھر اس کی نسل کیسے آگے بڑھے گی جس سے نئ نسل وجود میں آئے گی۔جینیٹکس یا علم وراثت کے یہ حقائق بھی نظریہ ارتقاء یا ایوولوشن کو غلط ثابت کرتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ مادے کو توانائی سے پیدا کیا جا سکتا یے اور توانائ کو مادے سے جیسا کہ ویکیوم انرجی سے ورچول پارٹیکل کا بننا۔جبکہ حقیقت میں خود ویکیوم انرجی پوری کائنات میں ہر حگہ موجود ہے جو کہ یہ ثابت کرتی ہے کہ ایک ایسی چیز موجود ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو سکتی ہے تو خدا ہر جگہ موجود کیوں نہیں ہو سکتا جو کہ اس توانائ کی سب خصوصیات رکھتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اس توانائی سے حقیقی ذرات یاVirtual particles بھی بنتے ہیں کو کہ بنتے اور پھر دوبارہ اسی توانائ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔لہٰذا خدا جس کی یہ توانائ مظہر ہے،اگر ایک جسم کا روپ دھار کے عرش پہ مستوی ہو اور پھر دوبارہ اپنی خدائ توانائ میں تبدیل ہو کر پوری کائنات میں موجود ہوجائے تو یہ کونسی ناممکن بات ہے۔یہ سب حقائق خدا کے وجود کو ثابت جب کہ نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایوولوشن کو غلط ثابت کرتے ہیں۔یعنی ایک ایسی قوت اس کائنات میں موجود ہے جو ویکیوم انرجی سے مادے کے ذرات پیدا کر کے کائنات کی تخلیق کر سکتی ہےجب کہ ارتقاء کا نظریہ خود سائنسی حقائق سے ہی غلط قرار پاتا ہے۔
مشہور یہودی چارلس ڈارون کا پیش کردہ نظریہ ارتقاء کہ تمام جاندار و انسان گرم سمندروں میں سادہ سالموں یا ملیکیول کے پیچیدہ سالموں یا مالیکیول میں اور پھر یک خلوی یاunicellular اور پھر کثیر خلوی یاmulticellular جانداروں اور پھر اس سے ہوتے ہوئے افریقی گوریلوں یا بن مانس اور اس سے پھر انسان میں تبدیل ہوئے۔کیا یہ نظریہ سچ ہے؟کیا جدید علم حیاتیات یا بیالوجی و جینیٹکس یا علم وراثت اس کی تصدیق کرتا ہے ؟سائنسدانوں کی کتنی تعداد اس پہ یقین رکھتی ہے؟اس بات کا جائزہ ہم اس مضمون کی لگاتار قسطوں میں میں گے۔
نظریہ ارتقاء سائنس کے انتہائ متنازعہ نظریات میں شمار ہوتا ہے،بلکہ یہ سائنس کا سب سے متنازعہ نظریہ ہے جس کی حمایت جدید علم وراثت یا جینیٹکس اور جدید علم حجریات یعنی فوسلز کا علم یاPalaoentology نہیں کر سکا جس سے اس کی صحت مزید مشکوک بلکہ مردود ہو گئ ہے۔یہ نظریہ کبھی قانون نہیں بن سکتاکیونکہ یہ غلطیوں سے بھرپور ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ معقول سائنسی شواہد نہ ہونے کی وجہ سے تنازعات کا شکار ہے۔اس کی بنیاد قدرتی چناو یا نیچرل سلیکشن کے اصول پہ رکھی گئی ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ کہ قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن ارتقائ عمل نہیں ہے۔پودوں و جانوروں میں موجود وراثتی مادہ ڈی این اے ان جانداروں کے درمیان ہمیں باہم منتخب ملاپ یاSelective breeding کی سہولت فراہم کرتا ہے۔اس سے نسل در نسل خاص خصوصیات رکھنے والے حیوان یا کتے پیدا کئے جا سکتے ہیں جو اچھی اور ماحول کے مطابق ڈھل جانے والی خصوصیات رکھتے ہوں لیکن قدرتی چناؤ کا یہ انسانی تجربہ کبھی بھی کئ نسلوں کے بعد کتوں سے بلیاں پیدا نہیں کرتا۔یعنی ایک جاندار قدرتی چناؤ سے بھی دوسرے جاندار میں تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ یہ چناؤ ڈی این اے اور کروموسوم کو تبدیل نہیں کرتا کہ ایک جانور کا ڈی این اے کوڈ اور کروموسوم کی مکمل تعداد ہی تبدیل ہو جائے اور وہ قسم دوسرے جانور کی قسم میں تبدیل ہو جائے۔جدید علم وراثت یا جینیٹکس کے مطابق یہ ناممکن ہے۔لہٰزا جانداروں کی دوسری قسم کے جانداروں میں باہم تبدیلی ناممکن ہے۔جدید ترین تجربہ گاہوں میں یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے اور ارتقاء کے حامی اس تبدیلی کا جینیٹکس سے ثبوت دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
اگر قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن کا یہ نظریہ سچ ہے تو شمالی امریکہ کے سرد علاقوں میں پائے جانے والے اسکیمو نسل کے لوگوں کے پر ہونی چاہئے تھے جو کہ انہیں سردی میں گرم رکھتے جب کہ ایسا نہیں ہے اور خط استوا کے گرم علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی جلد میںMelanin کم ہوتا جس سے ان کی جلد سفید ہوتی اور کم روشنی جذب کرتی اور ان کا جسم ٹھنڈا رہتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اگر یہ ارتقاء مکمل ابھی نہیں ہوا تو اس کی کوئ علامت تو ہو جب کہ وہ بھی نہیں ہے۔اسی طرح اگر قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن کا تصور درست تھا تو قطبین کے سرد علاقوں کے لوگوں کی جلد میلانن کی زیادتی سے سیاہ ہوتی تا کہ انہیں سردی زیادہ نہ لگے جب کہ وہ الٹا سفید ہے۔نیچرل سیلیکشن یا قدرتی چناؤ کا یہ تصور غلط ہے کیونکہ یہ وراثتی مادہ یا ڈی این اے میں کوئ ایسی تبدیلی نہیں کرتا جو اس میں پہلے نہ ہو جیسا کہ خط استوا کے انسانوں کی جلد کو سفید کرنے کی تا کہ وہ زیادہ گرمی سے محفوظ رہ سکیں۔اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ برفیلے اور گرم دونوں علاقوں کے ریچھ کے موٹے بال ہوتے ہیں جب کہ قدرتی چناؤ کے مظابق گرم علاقے کے تیندوے اور ریچھ کے بال کم موٹے ہوتے تاکہ گرمی سے بچاؤ ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔یہ سارے حقائق ڈارون کا قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن کا تصور غلط ثابت کرتے ہیں۔
کچھ حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نظریہ ڈارون نے نہیں بلکہ اس کے دادا نے 1794میں پیش کیا تھا۔جد نے بھی پش کیا ہو،یہ سائنسی حقائق سے متصادم ہے کیونکہ وقت ناممکن کو ممکن نہیں بناتا۔اس کا ایک تجربہ کیا گیا۔ایک کمپیوٹر یا شماری آلہ میں یہ ہدایت کوڈ کی گئ کہ وہ خود بخود ایک 26حروف پہ مشتمل ایک جملہ لکھ دے۔35ٹریلین کوششوں کے بعد بھی یہ صرف چودہ حروف ٹھیک لکھ سکا جب کہ کائنات جس کے اجزاء بھی شروع میں نہ تھے پہلے ان اجزاء کا بننا پھر اس سے یہ سب ہونا کیسے ممکن ہے۔اس بات کا امکان کتنا ہے کہ اپنے اندر سو مختلف شکلوں کی ساٹھ ہزار پروٹین رکھنے والا ایک سیل یا خلیہ خود بخود بن گیا۔یہ حقیقت میں نا ممکن ہے۔کیونکہ سائنسدانوں کے مطابق پینتیس ٹریلین سال بعد بھی صرف چودہ حروف درست نکلے کمپیوٹر میں جب کہ کائنات کی کل عمر ہی دس ارب سال ہے۔اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے۔
یہاں تک کہ یورپی تعلیمی نظام میں بھی طلباء کو اس نظریے پہ حرف بحرف یقین کرنے کو کہا جاتا ہے اور اگر کوئ اس پہ سوال اٹھائے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف مذہب کے معاملے میں آزادی سے سوچنے کی دعوت دی جاتی ہے جو کہ دوہرا معیار ہے۔کہا جاتا ہے کہ کچھ مچھلیاں سمندر سے نکل کے خشکی کے جانوروں میں تبدیل ہوگئ جب کہ مچھلیاں خشکی پہ سانس بھی نہیں لے پاتی۔ڈائنو سار کا حجری یا فوسل ریکارڈ ان کے اور مچھلیوں کے درمیان کوئ درمیانی جاندار ظاہر نہیں کرتا جس سے ظاہر ہو کہ ان کا ارتقاء سمندری مخلوق سے ہوا۔یہ فوسل ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے کیونکہ کوئ درمیانی جاندار بھی موجود نہیں۔
نظریہ ارتقا کے ماہرین نے زبردستی کچھ فوسل کو انسانی ارتقاء سے ملانے کی کوشش کی ہے جیسا کہ افریقہ میں دریافت ہونے والے بڑے اور پھیلے ہوئے پاؤ ں اور آگے بڑھے ہوئے جبڑے کے ایک ڈھانچے کو انسان کا جد امجد قرار دیا گیا جب کہ بعد میں یہ بن مانس کا ڈھانچہ ثابت ہوا۔
آج تک نظریہ ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے جانداروں کے درمیان ارتقاء کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے ور درمیانی جاندار اور ان کے فو سل دریافت نہیں ہو سکے جن کق ڈارون نے "نہ پائے جانے والے رابطے"یا مسنگ لنک قرار دیا تھا جب کہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ نظریہ ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے یہ لازمی ہیں جب کہ آج تک یہ دریافت نہینی ہوئے ۔اور ہمیں جاندارون کی الگ الگ قسمیں ملتی ہیں تو پھر ارتقاء کا نظریہ بغیر ثبوت کیسے مان لیا جائے گا۔
چیتا ثابت کرتا ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے کیونکہ سب چہرے ایک دوسرے سے اتنے ملتے ہوتے ہیں کہ اگر ایک چیتے کی جلد دوسرے چیتے کو لگا دی جائے تو تو اس،کا جسم عام جانوروں کی طرح اس کے خلاف ری ایکشن نہیں کرتا۔اگر ارتقاء درست تھا تو اتنے عرصے میں چیتوں میں تبدیلیاں لازمی آنی چاہیے تھی۔
نئے جانور کے حجری ثبوت یا فوسل ایتھوپیا میں دریافت کیے گئے۔اس جانور کے جبڑے میں دانت تھے۔اس جانور کو ارتقاء کے ماہرین یاEvolutionist نے تین سال کی عمر کا ایہ انسانی بچہ اور انسانی ارتقاء میں ایک درمیانی جاندار قرار دے کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ بن مانس کا ڈھانچہ تھا کیونکہ اس کا جبڑا بن مانس کی طرح آگے بڑھا ہوا تھا اور اس کا سر آج کے جدید بن مانس کی طرح تھا اور اس کی تحقیقی عمر پہ بھی کئ شکوک وشبہات ظاہر کیے گئے تھے۔اس طرح یہ جانور بھی انسانی ارتقاء کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔
کئ سال پہلے ارتقاء کے سائنسدانوں نے دعوی کیا کہ نیبراسکا یاNebraska انسان کا ایک دانت ملا ہے جو کہ انسان تو نہیں لیکن جدید انسان کے آباؤ اجداد میں شمار ہوتا ہے۔اسی ایک دانت سے انہوں نے یہ اخذ کیا کہ یہ بن مانس سے ملتا جلتا ایک ڈھانچہ ہے۔یہ جھوٹ تب ظاہر ہوا جب دوسرے سائنسدانوں کو یہ پتہ چلا کہ یہ دانت خنزیر سے مشبہت رکھنے والے ایک جانور کھردا میل یاPeccary کا تھا۔اس طرح ارتقاء کا نطریہ ایک بار پھر ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گیا۔
حقیقت میں قدیم حجری حیاتیات یا فوسلز بالکل مختلف نئ جاندار اقسام کو تو ظاہر کرتے ہیں مگر ارتقاء یا ایولوشن میں جانداروں کے درمیان ظاہری کڑیوں کو ثابت نہیں کرتے جو کہ نظریہ ارتقاء کی صحت پھر غلط ثابت قرار دیتا ہے اور جدید جینیٹکس اور علم حجریات یاPaleontology میں ترقی کے ساتھ ساتھ یہ نظریہ مزید غلط ثابت ہوتا جارہا ہے۔مائیکل ڈینٹن یاMichel Denton کے مطابق
"زمیں کے ہر کونے میں ارضیاتی یا جیولاجیکل سگرمی میں اضافے اوا اب تک نا معلوم کئ عجیب جاندار اقسام کی دریافت کے ساتھ نظریہ ارتقاء میں درمیانی سلسلوں یاMissing links کا تصور اتنا ہی غیر حقیقی ہوتا جا رہاہے جیسا کہ یہ ڈارون کے دور میں تھا۔حقیقیت یہ ہے کہ جانداروں کی تمام ارتقائ زنجیر یاEvolutionary tree میں یہ درمیانی ذرائع دریافت نہیں ہو سکے "۔
ارتقاء کے حامیوں نے سیلا کینتھ یاCoelacanth fish کو ارتقاء میں مچھلیوں اور خشکی کے جانداروں کے درمیان ایک درمیانی کڑی قرار دیا جس کی نامکمل ٹانگیں اور ابتدائی پھیپھڑے موجود ہیں اور ارتقاء کے ماہرین نے دعوی کیا تھا کہ یہ مچھلی 350ملین سال پہلے ٹانگوں،پیروں اور پھیپھڑوں والے ایک جانور میں تبدیل ہو گئ۔یہ نظریہ 1938میں تب غلط ثابت ہو گیا جب جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحل پہ مچھیروں نے ایک زندہ سیلا کینتھ مچھلی پکڑی جب کہ ارتقاء کے حامی یہ کہ چکے تھے کہ یہ مچھلی دوسرے جانوروں میں تبدیل پو چکی ہے۔بعد میں یہ پتہ چلا کہ کومورو یاComoro جزائر کے لوگ اس مچھلی کا شکار کئ سال سے کر رہے ہیں۔اس پہ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ 350ملین سال پہلی سیلا کینتھ مچھلی جیسی ہے اور اس عرصے میں اس میں کوئ ارتقاء نہیں ہوا۔اس طرح ارتقاء کے حامیوں کا ایک اور جھوٹ پکڑا گیا۔
ان گھوڑوں کے ارتقائ ثبوت کہاں ہیں جن کی ہڈیاں کمزور اور جلد ٹوٹ جانے والی تھی؟یہ بھی نہیں ملے۔اس طرح فوسل یا حجری ثبوت یی تو ظاہر کرتے ہیں کہ جانداروں کی ایک قسم پہلے موجود تھی اور پھر اس کی نسل مٹ گئ لیکن یہ کبھی ثابت نہیں کرتی کہ درمیانی اقسام موجود تھی جن سے بعد میں دوسرے جاندار بنے۔
نظریہ ارتقاء دعوی کرتا ہے کہ غیر نامیاتی مرکبات یاInorganic compounds سے زندگی رکھنے والے نامیاتی مرکبات یاOrganic compounds وجود میں آئے جب کہ یہ ناممکن ہے۔آج بھی دنیا کی جدید ترین تجربہ گاہوں میں سائنسدان تمام تر ذرائع کے بعد بھی غیر نامیاتی مرکبات کو زندگی کے لیے لازمی نامیاتی مرکبات میں تبدیل نہیں کر سکے۔
ڈارون نہیں جانتا تھا کہ ایک جاندار کی شخصیت کا تعین ڈی این اے سے ہوتا ہے۔بیرونی ماحول سے مطابقت یاEnvironmental adaptation کے لیے ڈی این اے کبھی تبدیل نہیں ہوتا جب کہ ارتقاء کے حامی و خدا کے منکر اسے ذبردستی منوانے پہ لگے ہوئے ہیں جس کا کوئ سائنسی ثبوت نہیں تا کہ اس نطریے کو بنیاد بنا کے خدا کے وجود کا انکار کیا جا سکے۔تمام پودوں اور درختوں کا ڈی این اے یا وراثتی مادہ قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن اور ماحولیاتی مطابقت یاAdaptation to external environments کے ذریعہ ارتقاء کے عمل کے نظریہ کو تباہ کر ڈالتا ہے کیونکہ یہ عوامل کبھی بھی جانداروں کے ڈی این اے میں تبدیلی کا سبب نہیں بنتے جب کہ جانداروں کی نئ اقسام کے وجود میں آنے کے لیے لازمی ہے کہ ان کا ڈی این اے مکمل تبدیل ہوجائے۔جدید جینیٹکس یا علم وراثت کے مطابق ڈارون کے پیش کردہ حیاتیاتی درخت یاEvolutionary tree میں موجود اسی فیصد جانداروں کا ڈی این اے ان جانداروں سے کافی حد تک مختلف ہے جن کو ڈارون نے ان کا جد امجد قرار دیا تھا۔ایک مادہ جاندار کا ماحولیاتی تجربہ اس کے انڈے میں موجود وراثتی کروموسوم کی تعداد کو کبھی تبدیل نہیں کرتا جب کہ نسل اور قسم کی ارتقائ تبدیلی کے لیے یہ لازمی ہے۔
یہ سائنسی حقیقت کہ تمام جانداروں کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے اپنے اندر خود بخود پیدا ہونے والی تبدیلیوں یاDNA ERRORS کی خود بخود قدرتی طور پہ مرمت کرتا ہے اور اپنے کوڈ کو تبدیل نہیں ہونے دیتا،یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے کیونکہ اگر ارتقاء کے دوران نئ جاندار نسل بننی تھی تو یہ مادہ بالکل تبدیل ہونا چاہیے تھا۔
حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون کہتا ہے کہ کائنات ربط سے بے ربطگی کی طرف جاتی ہے جس میں تمام توانائی حتمی طور پر ایک ناقابل استعمال توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اس طرح کائنات میں بے ربطگی یاEntropy بڑھتی چلی جاتی ہے۔جب کہ نظریہ ارتقاء کے مطابق زندگی مزید اچھی صورت اختیار کرتی ہے جب کہ حقیقیت میں تمام جانداروں کا وراثتی مادہ بتدریج ایک ناقص حالت اختیار کر رہا ہے بجائے اس کے کہ یہ بہتر صورت اختیار کرے جس سے نئ نسل وجود میں آئے۔جانداروں کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں اور نئ نسلیں وجود میں نہیں آرہی۔ارتقاء کا نظریہ حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانوں سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا جس سے ارتقاء کا نظریہ غلط قرار پاتا ہے کیونکہ سائنسی اصول ہے کہ ہر وہ نظریہ غلط قرار پاتا ہے جو ایک سائنسی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس بات کا بھی کوئ سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ جاندار اپنے جسم میں وراثتی کروموسوم کی تعداد مکمل تبدیل کر لیتے ہیں جن سے نئ نسل وجود مین آتی ہے۔یہ تصور جدید علم وراثت یا جینیٹکس کے بالکل برعکس ہے۔کروموسوم کی تعداد سب جانداروں میں قدرت کی طرف سے مقرر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک جاندار دوسرے جاندار سے کامیاب جنسی ملاپ نہیں کر سکتا جس سے نئ نسل وجود میں آئے۔گھوڑے اور گدھے کے جنسی ملاپ سے خچر پیدا ہوتا ہے جو کہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔پھر نئ نسل کیسے وجود میں آئ۔انسان سے ہمیشہ انسان پیدا ہوتا ہے اور کتے سے ہمیشہ ایک کتا۔وراثتی میں جانداروں کی ایک ہی قسم میں تبدیلی تو کر سکتے ہیں جانداروں کی اس قسم سے مختلف ایک نئ قسم پیدا نہی کر سکتے جیسا کہ کتے سے بکری کی پیدا ہونا ناممکن ہے۔جینیاتی تبدیلیوں سے انسان لمبے،چھوٹے قد،سرخ بال،سیاہ بال،بھوری نیلی آنکھوں والے ہو سکتے ہیں لیکن وہ پھر بھی انسان ہوتے ہیں کیونکہ یہ تبدیلی جینیاتی سطح پہ ہوتی ہے نہ کہ یہ کروموسوم کی تعداد ہی بدل جائے جس سے ایک نئ قسم کا جاندار وجود میں آئے۔جب کہ حقیقیت میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کروموسوم کی یہ تعداد تبدیل ہوجائے تو انسان بچہ پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔پھر اس کی نسل کیسے آگے بڑھے گی جس سے نئ نسل وجود میں آئے گی۔جینیٹکس یا علم وراثت کے یہ حقائق بھی نظریہ ارتقاء یا ایوولوشن کو غلط ثابت کرتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ مادے کو توانائی سے پیدا کیا جا سکتا یے اور توانائ کو مادے سے جیسا کہ ویکیوم انرجی سے ورچول پارٹیکل کا بننا۔جبکہ حقیقت میں خود ویکیوم انرجی پوری کائنات میں ہر حگہ موجود ہے جو کہ یہ ثابت کرتی ہے کہ ایک ایسی چیز موجود ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو سکتی ہے تو خدا ہر جگہ موجود کیوں نہیں ہو سکتا جو کہ اس توانائ کی سب خصوصیات رکھتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اس توانائی سے حقیقی ذرات یاVirtual particles بھی بنتے ہیں کو کہ بنتے اور پھر دوبارہ اسی توانائ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔لہٰذا خدا جس کی یہ توانائ مظہر ہے،اگر ایک جسم کا روپ دھار کے عرش پہ مستوی ہو اور پھر دوبارہ اپنی خدائ توانائ میں تبدیل ہو کر پوری کائنات میں موجود ہوجائے تو یہ کونسی ناممکن بات ہے۔یہ سب حقائق خدا کے وجود کو ثابت جب کہ نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایوولوشن کو غلط ثابت کرتے ہیں۔یعنی ایک ایسی قوت اس کائنات میں موجود ہے جو ویکیوم انرجی سے مادے کے ذرات پیدا کر کے کائنات کی تخلیق کر سکتی ہےجب کہ ارتقاء کا نظریہ خود سائنسی حقائق سے ہی غلط قرار پاتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔