قرآن کی حفاظت پر ملحدین و غیر مسلمین کے اعتراضات اور ان کی حقیقت
ملحدین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا یہ کہنا کہ ان کا قرآن اصل حالت میں موجود ہے،ایک فرضی تصور کے سوا کچھ نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے اور ناول بھی آج تک محفوظ ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زبان تبدیل ہوتی ہے،الفاظ کا استمعال تبدیل ہوتا ہے،ہو سکتا ہے کتاب محفوظ رہ جائے لیکن اس کے معانی بدل جاتے ہیں۔اگر اج مصنف کہے کہ فلاں عورت نے ایسا کہا تو بعد میں اس کا نیا ایڈیشن نکالنے والا اس میں الفاظ و شخصیت کی تبدیلی کر سکتا ہے۔وہ فلاں عورت کی جگہ یہ لکھ سکتا ہے کہ فلاں فاحشہ نے یہ کہا۔قرآن کی بنیاد چونکہ بزرگ و برتر ہستیوں اور قیامت تک کی تعلیمات پہ مبنی ہے۔اس لئے قرآن کو ایسی تبدیلی سے روکنے کے لیے نہ صرف اسے دائمی بنا دیا گیا بلکہ اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت بھی کر دی گئ تا کہ کسی کو شک کی بھی گنجائش نہ رہے۔علاوہ ازیں کسی عام کتاب کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن آتا ہے جیسا کہ بائیبل کے کئ نظر ثانی شدہ ایڈیشن آچکے ہیں۔قرآن قیامت تک کے لیے اس نظر ثانی سے آزاد ہے جس سے اس کے متن و الفاظ میں تبدیلی کا امکان ہو۔اس کے الفاظ قیامت تک کے لیے متعین کر دیے گئے ہیں تا کہ کوئ بھی اس میں تبدیلی کر کے اللٰہ تعالٰی کے احکامات میں ردو بدل نہ کر سکے۔ایسے احکامات جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہیں جن جے لیے قیامت تک کوئ اور پیغمبر نہیں آنا۔لہذا اس نادر و نایاب کلام کی حفاظت ایک لازمی امر تھا جس کا ذمہ اللٰہ نے خود لیا۔جیسا کہ قرآن میں ہے۔ترجمہ
جب ان پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے،کہتے ہیں کہ ہمیں اور قرآن لا کے دو یا اس میں تبدیلی کر کے دو۔کہ دیجئے کہ میں اس میں کوئ تبدیلی نہیں کر سکتا بلکہ میں اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا گیا۔میں اس نافرنانی کی صورت میں اپنے رب کے یوم عظیم کے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
قرآن میں دو ہزار الفاظ ہیں جو بار بار دہرائے جانے کے بعد آٹھ ہزار ہو جاتے ہیں۔ان میں سے کوئ لفظ ایسا نہیں جو جدید عربی میں استعمال نہ ہوتا ھو۔قرآن کے الفاظ کی اس کی عربی زبان کے ذریعے یہ حفاظت کسی انسانی عمل سے ممکن نہیں تھی بلکہ اللٰہ نے نہ صرف اس قرآن بلکہ اس کی زبان کو بھی زندہ رکھا اور آج بھی عربی دنیا کے بیس ممالک کی قومی زبان ہے۔جب کہ ملحد و غیر مسلم کہتے ہیں کہ اا میں خدا کا کوئ کارنامہ نہیں نعوذ بااللہ۔وہ کہتے ہیں کہ انسان ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی صورت میں اس قرآن کو آج تک زندہ کر رکھا ہے۔اگر ہم اس اعتراض کا منصفانہ تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ قرآن کے نزول کے زمانے سے آج تک کئ کتابیں لکھی گئ،وہ مشہور بھی ہوئ،پسند بھی کی گئ،پھر کیا ہوا یا وہ ناپید ہوگئ یا کچھ نہ کچھ لازمی تبدیل ہو گئ۔زرتشت کی کتابیں ہوں یا اس زمانے کے روم و ایران کی تاریخ پہ مبنی کتابیں،یہود کی تورات ہو یا ہندومت کی مقدس کتابیں وہ اس عرصے میں کتنی تبدیل ہوگئی۔اگر کتابوں کی حفاظت انسان کرتے ہیں تو عیسائ جو پہلے بھی مسلمانوں سے تعداد میں زیادہ تھے اب بھی زیادہ ہیں اپنی انجیل کو تحریف سے محفوظ کیوں نہ کر سکے،ہندو اپنی کتب کو اصل حالت میں محفوظ کیوں نہ کر سکے،کیا چودہ سو سال سے آج تک سوا قرآن کے کوئ ایسی کتاب ہے جو دعوی کر سکے کہ وہ لفظ بہ لفظ محفوظ ہے اور اس میں تبدیلی کی کوشش ناکام بنا دی گئ۔پھر انسان کیسے کتابوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
ملحدین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا یہ کہنا کہ ان کا قرآن اصل حالت میں موجود ہے،ایک فرضی تصور کے سوا کچھ نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے اور ناول بھی آج تک محفوظ ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زبان تبدیل ہوتی ہے،الفاظ کا استمعال تبدیل ہوتا ہے،ہو سکتا ہے کتاب محفوظ رہ جائے لیکن اس کے معانی بدل جاتے ہیں۔اگر اج مصنف کہے کہ فلاں عورت نے ایسا کہا تو بعد میں اس کا نیا ایڈیشن نکالنے والا اس میں الفاظ و شخصیت کی تبدیلی کر سکتا ہے۔وہ فلاں عورت کی جگہ یہ لکھ سکتا ہے کہ فلاں فاحشہ نے یہ کہا۔قرآن کی بنیاد چونکہ بزرگ و برتر ہستیوں اور قیامت تک کی تعلیمات پہ مبنی ہے۔اس لئے قرآن کو ایسی تبدیلی سے روکنے کے لیے نہ صرف اسے دائمی بنا دیا گیا بلکہ اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت بھی کر دی گئ تا کہ کسی کو شک کی بھی گنجائش نہ رہے۔علاوہ ازیں کسی عام کتاب کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن آتا ہے جیسا کہ بائیبل کے کئ نظر ثانی شدہ ایڈیشن آچکے ہیں۔قرآن قیامت تک کے لیے اس نظر ثانی سے آزاد ہے جس سے اس کے متن و الفاظ میں تبدیلی کا امکان ہو۔اس کے الفاظ قیامت تک کے لیے متعین کر دیے گئے ہیں تا کہ کوئ بھی اس میں تبدیلی کر کے اللٰہ تعالٰی کے احکامات میں ردو بدل نہ کر سکے۔ایسے احکامات جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہیں جن جے لیے قیامت تک کوئ اور پیغمبر نہیں آنا۔لہذا اس نادر و نایاب کلام کی حفاظت ایک لازمی امر تھا جس کا ذمہ اللٰہ نے خود لیا۔جیسا کہ قرآن میں ہے۔ترجمہ
جب ان پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے،کہتے ہیں کہ ہمیں اور قرآن لا کے دو یا اس میں تبدیلی کر کے دو۔کہ دیجئے کہ میں اس میں کوئ تبدیلی نہیں کر سکتا بلکہ میں اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا گیا۔میں اس نافرنانی کی صورت میں اپنے رب کے یوم عظیم کے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
قرآن میں دو ہزار الفاظ ہیں جو بار بار دہرائے جانے کے بعد آٹھ ہزار ہو جاتے ہیں۔ان میں سے کوئ لفظ ایسا نہیں جو جدید عربی میں استعمال نہ ہوتا ھو۔قرآن کے الفاظ کی اس کی عربی زبان کے ذریعے یہ حفاظت کسی انسانی عمل سے ممکن نہیں تھی بلکہ اللٰہ نے نہ صرف اس قرآن بلکہ اس کی زبان کو بھی زندہ رکھا اور آج بھی عربی دنیا کے بیس ممالک کی قومی زبان ہے۔جب کہ ملحد و غیر مسلم کہتے ہیں کہ اا میں خدا کا کوئ کارنامہ نہیں نعوذ بااللہ۔وہ کہتے ہیں کہ انسان ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی صورت میں اس قرآن کو آج تک زندہ کر رکھا ہے۔اگر ہم اس اعتراض کا منصفانہ تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ قرآن کے نزول کے زمانے سے آج تک کئ کتابیں لکھی گئ،وہ مشہور بھی ہوئ،پسند بھی کی گئ،پھر کیا ہوا یا وہ ناپید ہوگئ یا کچھ نہ کچھ لازمی تبدیل ہو گئ۔زرتشت کی کتابیں ہوں یا اس زمانے کے روم و ایران کی تاریخ پہ مبنی کتابیں،یہود کی تورات ہو یا ہندومت کی مقدس کتابیں وہ اس عرصے میں کتنی تبدیل ہوگئی۔اگر کتابوں کی حفاظت انسان کرتے ہیں تو عیسائ جو پہلے بھی مسلمانوں سے تعداد میں زیادہ تھے اب بھی زیادہ ہیں اپنی انجیل کو تحریف سے محفوظ کیوں نہ کر سکے،ہندو اپنی کتب کو اصل حالت میں محفوظ کیوں نہ کر سکے،کیا چودہ سو سال سے آج تک سوا قرآن کے کوئ ایسی کتاب ہے جو دعوی کر سکے کہ وہ لفظ بہ لفظ محفوظ ہے اور اس میں تبدیلی کی کوشش ناکام بنا دی گئ۔پھر انسان کیسے کتابوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔