نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید
(حصہ چہارم)
جانداروں کی نئ اقسام یا سپی شیز پہلے سے موجود جانداروں سے پیدا نہیں ہو رہی جس کا مطلب ہے ارتقا کا عمل نہیں ہو رہا۔اگر ارتقاء درست ہے تو اب کیوں نہیں ہو رہا اور اب کونسی طاقت نے اسے روکا ہوا ہے۔ہم صرف نئ اقسام دریافت کر رہے ہیں کن کا ہم کو پہلے پتہ نہیں تھا جو کہ ہماری کم علمی کو ظاہر کرتی ہیں جب کہ نئ اقسام کا پہلے موجود اقسام سے اس وقت بھی یا پہلے بننے کے عمل کا کوئ ثبوت نہیں۔
پہلے سے موجود اقسام میں ہمیں کوئ نئ ساخت یا اعضا نہیں ملتے۔اگر ارتقاء کا نظریہ درست ہے تو جانداروں میں بننے والے نئے اعضا کہاں ہیں۔اگر نہیں تو یہ کیوں نہیں بن رہے۔
جانداروں کے فوسل یا حجری ریکارڈ زمین میں اس ترتیب میں موجود نہیں ہیں جس طرح سائنسی کتابوں میں دکھائے جاتے ہیں حالانکہ اگر زندگی کی ترتیب وہی تھی جو ارتقاء کے حامی بیان کرتے ہیں تو فوسل بھی زمیں میں عمر اور عرصے کے لحاظ سے اسی طرح موجود ہونے چاہئے تھے لیکن یہ ریکارڈ ارتقاء کے نظریے سے ربط نہیں رکھتا جو کہ ارتقاء کو پھر غلط ثابت کرتا ہے بلکہ یہ ارتقا کی بیان کی جانے والی ترتیب سے کافی مختلف ترتیب میں موجود ہیں اور ارتقاء کے درمیانی سلسلے کے کوئ فوسل ریکارڈ موجود نہیں۔
ایسے فوسل بھی ملے ہیں جو زمین کی ایک نہیں کئ تہوں میں موحود ہیں جب کہ ارتقاء کے مطابق ان کو پرانی تہوں میں نہیں بلکہ وجود میں آنے کے بعد نئ تہوں میں ہونا چاہئے تھا۔مطلب کہ جانداروں کا فوسل ریکارڈ ارتقائ سلسلے یاEvolutionary tree کے برعکس ہے۔
پرانے ترین فوسل ریکارڈ میں بھی جانداروں کی انتہائ قدیم اقسام دریافت ہوئ ہیں جب کہ ارتقاء کے نظریے کے مطابق پہلے صرف سادہ جاندار موجود تھے اور ان سے پیچیدہ جاندار بنے۔
لختہ دار بحری جاندار یاTrilobite بھی قدیم تہوں میں پائے گئے جب کہ ارتقاء کے مطابق یہ محض 620ملین سال پہلے بننا شروع ہوئے۔
وجہ و اثر یا علت و معلول یاCause and Effect کے مطابق ہر چیز کی وجہ ہوتی ہے اور وجہ یا علت وجہ کے اثر یا معلول سے بڑی ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ سادہ یا چھوٹی چیز بیرونی یا خدائ مداخلت کے بغیر اپنے سے بڑی چیز نہیں بنا سکتی۔آپ اپنی ذہانت کو ایک دوسری اور اپنے سے بڑی ذہانت کی مدد کے بغیر نہیں بڑھا سکتے۔
حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق کائنات اپنے وجود کی وجہ خود نہیں ہو سکتی۔اس کے مطابق کائنات جو ہے اس سے کم نہیں ہو سکتی اور یہ موجودہ اور مکمل حالت میں ہی وجود میں آئ یا بنائ گئ جس کا مطلب ہے اسے کسی ہستی نے تخلیق کیا کیونکہ اس کے مطابق توانائی کو نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فنا۔کائنات کا کوئ پہلو توانائ سے خالی نہیں لہٰذا یہ قانون کائنات پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ارتقائ نظریے کے مطابق جس میں مادے نے توانائی حاصل کی اور یہ خود بخود زندگی کے مرکبات میں تبدیل ہو گیا کا جواب یہ ہے کہ محض مادہ و توانائی کسی کام کا نہیں جب تک ایک عظیم ذہانت یا اللٰہ اس سے مرکبات پیدا نہ کرائے۔اس عظیم ذہانت کی غیر موجودگی میں خدائ ذہانت کے بغیر توانائی الٹا اس نظام کی تباہی کا سبب بنتی۔
بگ بینگ کا نظریہ بھی بلکل غیر منطقی ہے۔کسی بھی دھماکے کا نتیجہ ہمیشہ ایک ترتیب سے پھیلنے والی چیز نہیں ہوتی جب کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ ایک خاص ترتیب سے ایسا ہورہا ہے۔اب تک ہونے والا یہ پھیلاؤ کیوں ہو رہا ہے جب کہ گریویٹی یا کشش ثقل ایسا نہ ہونے دیتی۔واضح جواب ہے کہ یہ اللٰہ تعالٰی کے حکم سے ہے۔دھماکے تباہی و بے ترتیبی پھیلاتے ہیں نہ کہ ایک منظم کائنات۔
فطرت میں ایسا کوئ طریقہ نہیں ہے جو ستاروں کو پیدا کرکے دکھائے۔گیس لاء کے مطابق پھیلتی ہوئ گیس کا بیرونی دباؤ اس کو اندر کھینچنے اور اسے مجتمع اور گول شکل میں رکھنے والی گریویٹی یا کشش ثقل سے زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستارے گول شکل میں کہکیشاؤں میں ہائیڈروجن پہ مشتمل ہیں اور اسی شکل میں موجود ہیں جب کہ گیس لاء کے مطابق اس گیس کو منتشر یوجانا چاہیے تھا۔کس قوت نے اس گیس کو عمل ایتلاف یاFusion reaction کے لیے ستاروں میں جمع کر رکھا ہے جس سے ان ستاروں میں ہائیڈروجن ایٹم مل کے ہیلیم اور توانائی کی ناقابل بیان مقدار بناتے ہیں۔ظاہر ہے وہ قوت اللٰہ تعالٰی ہے جو یہ کرا رہی ہے۔
نیچرل سلیکشن کے مطابق بہترین خصوصیات والے جاندار اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں جب کہ ارتقاء کے دوسرے پہلو کے مطابق اعضاء و جسمانی خصوصیات آہستہ آہستہ وجود میں آئ۔ان اعضا کے مکمل ہونے سے پہلے ان جانداروں کی نسل کیسے آگے بڑھی جب کہ یہ مکمل ارتقاء سے پہلے نیچرل سلیکشن یا قدرتی چناؤ کی بہترین خصوصیات بھی نہیں رکھتے تھے حالانکہ زندگی کی نامکمل خصوصیات میں ان کی نسل کوکم ہوجانا چاہیے تھا۔اب یہاں نظریہ ارتقاء کا ایک پہلو دوسرے پہلو کی نفی کر رہا ہے جو کہ اس نظریے کو پھر غلط ثابت کرتاہے۔
اگر زندگی سمندروں سے زمین پہ آئ تو رینگنے والے جانوروں یاReptiles کے چانے یا سکیلز کا اڑنے والے جانوروں کے پروں میں تبدیل ہونے کا کیا ثبوت ہے۔ان رینگنے والے جانوروں کے پھیپھڑے پرندوں کے پھیپھڑوں سے بہت مختلف ہیں اور یہ ارتقاء کا کوئ ثبوت فراہم نہیں کرتے۔
گھر میں استعمال ہونے والی سادہ کنگھی ارتقاء کے عمل سے وجود میں نہیں آسکتی نہ ہی کسی ملحد کی بہن خود بخود حاملہ ہو سکتی ہے۔اگر ہوجائے تو سوال کرتا ہے کہ یہ بچہ کس کا ہے تو پھر کائنات پہ سوال کیوں نہیں کہ یہ کائنات کس نے بنائ۔
اگر ہم تین پتھر پانی میں بے ترتیب بہتے ہوئے دیکھیں اور دوسرے تین پتھر کسی دیوار میں ترتیب میں جڑے دیکھیں تو لازمی کسی جوڑنے والے کا خیال آتا ہے۔اتنی بڑی کائنات ایسے بس امکان پہ خود بخود کیسے بن گئ۔
انسانی جسم خدائ تخلیق کی بہترین مثال ہے۔اگر خون جمانے والے اجزا زیادہ ہو جائیں تو خون دماغ و دک میں بننے سے فالج اور دل کا دورہ ہوجاتا ہے جب کہ قدرت نے جسم میں ان کا توازن رکھا ہے۔سپرم کو ماں کے پیٹ کے اندر تک لے جانے والے اس کو حرکت دینے والے سیلیا بالکل ایک شافٹ والی موٹر کی طرح ہوتے ہیں۔ہمارا جسم اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے اور کسی بھی بیرونی بافت یا ٹشو کے اپنے اندر داخلے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔یہ سارے حقاق تخلیق میں ایک عظیم ذہانت یا اللٰہ تعالٰی کے وجود کی دلیل ہیں۔ان کا حادثاتی ہونا ناممکن ہے۔ارتقاء کے نامور سائنسدان اور یونیورسٹی آف پٹز برگ کے ماہر بشریات یاAnthropology جیفری شوارٹز کے مطابقت نئ سپی شیز کا کسی بھی طرح سے ارتقاء سے بننا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔
زندگی کی ابتداء کے حوالے سے نامور سائنسدان لیزلی اوگرل نے جب یہ دیکھا کہ نہ لحمیات یا پروٹین اور نہ ہی نیوکلیائی ترشے یا نیو کلیئک ایسڈ ایک دوسرے کے بغیر پیدا نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دونوں ایک ہی وقت میں بیک وقت موجود تھے،یہ خود بخود نہیں بنے بلکہ ان کو کسی نے بنایا۔یی دیکھ کے اس نے کہا کہ زندگی کبھی بھی کیمیاوی طریقے سے پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔چونکہ وہ ارتقاء کا پکا حامی تھا تو اس نے اس کا دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ لحمیات یا پروٹین بنانے والا آر این اے پہلت بنا لیکن پھر وہ یی اعتراف کرنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ آر این اے کے بننے کے عوامل کا حقیقی طریقے ابھی تک واضح نہیں۔اس طرح خود بخود حیاتیاتی مادوں کے بننے کا نظریہ ناکام ہوجاتا ہے۔
ملر کا وہ تجربہ جس میں اس نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں ہائیڈروجن،آکسیجن،نائٹروجن کو ملا کر انہیں ایک برقی یا الیکٹرک جھٹکہ دیا جس میں دیکھا گیا کہ پروٹین کے بنیادی اجزا یا امائنو ایسڈ بن گئے،یہ تجربہ بھی بعد میں زندگی شروع کرنے والے کیمیاوی مادوں اور اس سے کسی سیل یا خلیے کے پیدا ہونے کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ارتقاء کا تصور ایک بار پھر ناکام ہوگیا۔
یہ دانشمندانہ سچ ہے کہ جاندار سپی شیز نسل در نسل قیام پذیر رہتی ہیں اور ان میں کوئ خاص تبدیلی نہیں آتی جع نئی نسل کے بننے کا سبب ہو۔
ماہرین بشریات یاAnthropologist نے حجریات یا فوسل ریکارڈ اور ڈی این اے سے ارتقائ سلسلے کی وضاحت کی کوشش کی لیکن یہ بھی فوسل ریکارڈ کے خلاف جاتی ہے۔یہاں تک کہ ایک اور لکھاری یہ کہنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ ڈی این اے معلومات کی تحقیق کے بعد بھی ارتقا کا عمل ثابت نہیں ہوا جس کا معنی یہ ہے کہ یہ فوسل رکھنے والے جاندار بھی کسی ہستی کی تخلیق ہیں۔یہاں تک کہ اللٰہ تعالٰی کے منکروں کا سربراہ رچرڈ ڈاکنز بھی یہ کہنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس خدا کے وجود کو جھٹلانے کا کوئ ثبوت نہ لہذا مذہب کے ماننے والے اسے مانتے ہیں۔سائنس کو اللٰہ کے وجود کی دلیل بننے سے کس حد تک روکا جاتا ہے اس کا اندازہ کنساس یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات یا بیالوجی کے ایک پروفیسر کے اس بیان سے لگایا جاتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر تمام سائنسی معلومات بھی ایک عظیم تخلیق کار خدا کی طرف اشارہ کرے تو پھر لگی یہ مفروضہ سائنس سے نکالا جائے گا کیونکہ یہ سائنسی فطرت سے میل نہیں کھاتا۔
ارتقاء کے اکثر حامی جیسا کہ سٹیفن جے گولڈ،ہارورڈ کے ایڈورڈ ولسن ،انگلینڈ کے رچرڈ ڈاکنز کارنل کے ولیل پووائن سب اللٰہ تعالٰی کے منکر تھے۔یہ لوگ اللٰہ تعالٰی کے انکار کی راہ ہموار کرنے کے کے لیے اس نظریے کو اتنی پابندی سے پکڑے ہوئے ہیں کہ مشہور سائنسی فلاسفر و ارتقاء کے حامی مائیکل ریوسRuse نے کہا تھا کہ ہمارا مذہب نظریہ ارتقاء ہے۔اس نے مزید کہا کہ وہ اشیاء کی خدائ کی بجائے مادی وضاحت کرنے پہ مجبور ہیں خواہ وہ کتنی ہی بدھی دلیل کیوں نہ ہوں۔ارتقاء کا ایک حامی ارتقاء کے دوسرے حامی کی ایک کتاب کا جائزہ لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم ارتقاء میں درمیانی سلسلوں یا مسنگ لنک کو شناخت نہیں کر سکتے اور انسان کس طرح بن مانس سے وجود میں آئے یہ محض انسانی سوچ کی تخلیق ہے اور ہم صرف ان نظریات پڑھاتے ہیں جو ہمارے ہاں رائج ہیں اور حقایق سے روگردانی کرتے ہیں۔
یہ سب حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء محض غیر حقیقی تحقیقات اور مفروضوں پہ مبنی ہے اور اسے سائنسدانوں اور یہود کے ایک گروہ نے ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے تا کہ اس کی بنیاد پہ اللٰہ تعالٰی کا انکار کیا جا سکے۔اس سارے ڈرامے کے پس منظر میں وہ یہودی فری میسن اقر الومیناتی ہیں جن کا مقصد دنیا بھر کے مذاہب کو تباہ کر کے الحاد کی راہ ہمورا کرنا ہے تا کہ ایک منکر و ملحد معاشرے کو مرضی سے اپنی گرفت میں کیا جا سکے بجائے اس کے ایہ نظریاتی و مذہبی معاشرہ کے جو ان کے خلاف مزاحمت کرے۔اس الحاد کو تقویت دینے کے لیے نام نہاد سائنسدان،دانشور،فلاسفر،ماہرین نفسیات میدان میں لائے گئے۔کارل مارکس کا اشتراکیت و سیکولزم کا نظریہ محض دنیا کی دولت کو عوام سے چھین کے ایک خفیہ یہودی ہاتھ کے ہاتھ میں دینا تھا۔ہاں جی وہی نظام جس کی ترویج کے لیے دیسی سرخے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں لٹریچر اور سوشل میڈیا ہر سطح پہ زور شور سے کام کر رہے ہیں اور اس میں مذہب و ملک کی سلامتی کا جنازہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بہانہ یہ ہے کہ یہ مزدور طبقےکی فلاح کا نظام معیشت ہے۔سگمنڈ فرائیڈ جیسے یہودی فری میسن کے جنسی تصورات پہ مبنی خیالات کا پرچار ایک مدرپدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے لیے تھا تا کہ انسان کو جیوانیت کی تہہ میں گرا کے اس کی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے اسے آسانی سے کنٹرول کیا جا سکے۔
(مضمون ابھی جاری ہے
(حصہ چہارم)
جانداروں کی نئ اقسام یا سپی شیز پہلے سے موجود جانداروں سے پیدا نہیں ہو رہی جس کا مطلب ہے ارتقا کا عمل نہیں ہو رہا۔اگر ارتقاء درست ہے تو اب کیوں نہیں ہو رہا اور اب کونسی طاقت نے اسے روکا ہوا ہے۔ہم صرف نئ اقسام دریافت کر رہے ہیں کن کا ہم کو پہلے پتہ نہیں تھا جو کہ ہماری کم علمی کو ظاہر کرتی ہیں جب کہ نئ اقسام کا پہلے موجود اقسام سے اس وقت بھی یا پہلے بننے کے عمل کا کوئ ثبوت نہیں۔
پہلے سے موجود اقسام میں ہمیں کوئ نئ ساخت یا اعضا نہیں ملتے۔اگر ارتقاء کا نظریہ درست ہے تو جانداروں میں بننے والے نئے اعضا کہاں ہیں۔اگر نہیں تو یہ کیوں نہیں بن رہے۔
جانداروں کے فوسل یا حجری ریکارڈ زمین میں اس ترتیب میں موجود نہیں ہیں جس طرح سائنسی کتابوں میں دکھائے جاتے ہیں حالانکہ اگر زندگی کی ترتیب وہی تھی جو ارتقاء کے حامی بیان کرتے ہیں تو فوسل بھی زمیں میں عمر اور عرصے کے لحاظ سے اسی طرح موجود ہونے چاہئے تھے لیکن یہ ریکارڈ ارتقاء کے نظریے سے ربط نہیں رکھتا جو کہ ارتقاء کو پھر غلط ثابت کرتا ہے بلکہ یہ ارتقا کی بیان کی جانے والی ترتیب سے کافی مختلف ترتیب میں موجود ہیں اور ارتقاء کے درمیانی سلسلے کے کوئ فوسل ریکارڈ موجود نہیں۔
ایسے فوسل بھی ملے ہیں جو زمین کی ایک نہیں کئ تہوں میں موحود ہیں جب کہ ارتقاء کے مطابق ان کو پرانی تہوں میں نہیں بلکہ وجود میں آنے کے بعد نئ تہوں میں ہونا چاہئے تھا۔مطلب کہ جانداروں کا فوسل ریکارڈ ارتقائ سلسلے یاEvolutionary tree کے برعکس ہے۔
پرانے ترین فوسل ریکارڈ میں بھی جانداروں کی انتہائ قدیم اقسام دریافت ہوئ ہیں جب کہ ارتقاء کے نظریے کے مطابق پہلے صرف سادہ جاندار موجود تھے اور ان سے پیچیدہ جاندار بنے۔
لختہ دار بحری جاندار یاTrilobite بھی قدیم تہوں میں پائے گئے جب کہ ارتقاء کے مطابق یہ محض 620ملین سال پہلے بننا شروع ہوئے۔
وجہ و اثر یا علت و معلول یاCause and Effect کے مطابق ہر چیز کی وجہ ہوتی ہے اور وجہ یا علت وجہ کے اثر یا معلول سے بڑی ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ سادہ یا چھوٹی چیز بیرونی یا خدائ مداخلت کے بغیر اپنے سے بڑی چیز نہیں بنا سکتی۔آپ اپنی ذہانت کو ایک دوسری اور اپنے سے بڑی ذہانت کی مدد کے بغیر نہیں بڑھا سکتے۔
حر حرکیات یا تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق کائنات اپنے وجود کی وجہ خود نہیں ہو سکتی۔اس کے مطابق کائنات جو ہے اس سے کم نہیں ہو سکتی اور یہ موجودہ اور مکمل حالت میں ہی وجود میں آئ یا بنائ گئ جس کا مطلب ہے اسے کسی ہستی نے تخلیق کیا کیونکہ اس کے مطابق توانائی کو نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فنا۔کائنات کا کوئ پہلو توانائ سے خالی نہیں لہٰذا یہ قانون کائنات پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ارتقائ نظریے کے مطابق جس میں مادے نے توانائی حاصل کی اور یہ خود بخود زندگی کے مرکبات میں تبدیل ہو گیا کا جواب یہ ہے کہ محض مادہ و توانائی کسی کام کا نہیں جب تک ایک عظیم ذہانت یا اللٰہ اس سے مرکبات پیدا نہ کرائے۔اس عظیم ذہانت کی غیر موجودگی میں خدائ ذہانت کے بغیر توانائی الٹا اس نظام کی تباہی کا سبب بنتی۔
بگ بینگ کا نظریہ بھی بلکل غیر منطقی ہے۔کسی بھی دھماکے کا نتیجہ ہمیشہ ایک ترتیب سے پھیلنے والی چیز نہیں ہوتی جب کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ ایک خاص ترتیب سے ایسا ہورہا ہے۔اب تک ہونے والا یہ پھیلاؤ کیوں ہو رہا ہے جب کہ گریویٹی یا کشش ثقل ایسا نہ ہونے دیتی۔واضح جواب ہے کہ یہ اللٰہ تعالٰی کے حکم سے ہے۔دھماکے تباہی و بے ترتیبی پھیلاتے ہیں نہ کہ ایک منظم کائنات۔
فطرت میں ایسا کوئ طریقہ نہیں ہے جو ستاروں کو پیدا کرکے دکھائے۔گیس لاء کے مطابق پھیلتی ہوئ گیس کا بیرونی دباؤ اس کو اندر کھینچنے اور اسے مجتمع اور گول شکل میں رکھنے والی گریویٹی یا کشش ثقل سے زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستارے گول شکل میں کہکیشاؤں میں ہائیڈروجن پہ مشتمل ہیں اور اسی شکل میں موجود ہیں جب کہ گیس لاء کے مطابق اس گیس کو منتشر یوجانا چاہیے تھا۔کس قوت نے اس گیس کو عمل ایتلاف یاFusion reaction کے لیے ستاروں میں جمع کر رکھا ہے جس سے ان ستاروں میں ہائیڈروجن ایٹم مل کے ہیلیم اور توانائی کی ناقابل بیان مقدار بناتے ہیں۔ظاہر ہے وہ قوت اللٰہ تعالٰی ہے جو یہ کرا رہی ہے۔
نیچرل سلیکشن کے مطابق بہترین خصوصیات والے جاندار اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں جب کہ ارتقاء کے دوسرے پہلو کے مطابق اعضاء و جسمانی خصوصیات آہستہ آہستہ وجود میں آئ۔ان اعضا کے مکمل ہونے سے پہلے ان جانداروں کی نسل کیسے آگے بڑھی جب کہ یہ مکمل ارتقاء سے پہلے نیچرل سلیکشن یا قدرتی چناؤ کی بہترین خصوصیات بھی نہیں رکھتے تھے حالانکہ زندگی کی نامکمل خصوصیات میں ان کی نسل کوکم ہوجانا چاہیے تھا۔اب یہاں نظریہ ارتقاء کا ایک پہلو دوسرے پہلو کی نفی کر رہا ہے جو کہ اس نظریے کو پھر غلط ثابت کرتاہے۔
اگر زندگی سمندروں سے زمین پہ آئ تو رینگنے والے جانوروں یاReptiles کے چانے یا سکیلز کا اڑنے والے جانوروں کے پروں میں تبدیل ہونے کا کیا ثبوت ہے۔ان رینگنے والے جانوروں کے پھیپھڑے پرندوں کے پھیپھڑوں سے بہت مختلف ہیں اور یہ ارتقاء کا کوئ ثبوت فراہم نہیں کرتے۔
گھر میں استعمال ہونے والی سادہ کنگھی ارتقاء کے عمل سے وجود میں نہیں آسکتی نہ ہی کسی ملحد کی بہن خود بخود حاملہ ہو سکتی ہے۔اگر ہوجائے تو سوال کرتا ہے کہ یہ بچہ کس کا ہے تو پھر کائنات پہ سوال کیوں نہیں کہ یہ کائنات کس نے بنائ۔
اگر ہم تین پتھر پانی میں بے ترتیب بہتے ہوئے دیکھیں اور دوسرے تین پتھر کسی دیوار میں ترتیب میں جڑے دیکھیں تو لازمی کسی جوڑنے والے کا خیال آتا ہے۔اتنی بڑی کائنات ایسے بس امکان پہ خود بخود کیسے بن گئ۔
انسانی جسم خدائ تخلیق کی بہترین مثال ہے۔اگر خون جمانے والے اجزا زیادہ ہو جائیں تو خون دماغ و دک میں بننے سے فالج اور دل کا دورہ ہوجاتا ہے جب کہ قدرت نے جسم میں ان کا توازن رکھا ہے۔سپرم کو ماں کے پیٹ کے اندر تک لے جانے والے اس کو حرکت دینے والے سیلیا بالکل ایک شافٹ والی موٹر کی طرح ہوتے ہیں۔ہمارا جسم اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے اور کسی بھی بیرونی بافت یا ٹشو کے اپنے اندر داخلے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔یہ سارے حقاق تخلیق میں ایک عظیم ذہانت یا اللٰہ تعالٰی کے وجود کی دلیل ہیں۔ان کا حادثاتی ہونا ناممکن ہے۔ارتقاء کے نامور سائنسدان اور یونیورسٹی آف پٹز برگ کے ماہر بشریات یاAnthropology جیفری شوارٹز کے مطابقت نئ سپی شیز کا کسی بھی طرح سے ارتقاء سے بننا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔
زندگی کی ابتداء کے حوالے سے نامور سائنسدان لیزلی اوگرل نے جب یہ دیکھا کہ نہ لحمیات یا پروٹین اور نہ ہی نیوکلیائی ترشے یا نیو کلیئک ایسڈ ایک دوسرے کے بغیر پیدا نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دونوں ایک ہی وقت میں بیک وقت موجود تھے،یہ خود بخود نہیں بنے بلکہ ان کو کسی نے بنایا۔یی دیکھ کے اس نے کہا کہ زندگی کبھی بھی کیمیاوی طریقے سے پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔چونکہ وہ ارتقاء کا پکا حامی تھا تو اس نے اس کا دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ لحمیات یا پروٹین بنانے والا آر این اے پہلت بنا لیکن پھر وہ یی اعتراف کرنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ آر این اے کے بننے کے عوامل کا حقیقی طریقے ابھی تک واضح نہیں۔اس طرح خود بخود حیاتیاتی مادوں کے بننے کا نظریہ ناکام ہوجاتا ہے۔
ملر کا وہ تجربہ جس میں اس نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں ہائیڈروجن،آکسیجن،نائٹروجن کو ملا کر انہیں ایک برقی یا الیکٹرک جھٹکہ دیا جس میں دیکھا گیا کہ پروٹین کے بنیادی اجزا یا امائنو ایسڈ بن گئے،یہ تجربہ بھی بعد میں زندگی شروع کرنے والے کیمیاوی مادوں اور اس سے کسی سیل یا خلیے کے پیدا ہونے کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ارتقاء کا تصور ایک بار پھر ناکام ہوگیا۔
یہ دانشمندانہ سچ ہے کہ جاندار سپی شیز نسل در نسل قیام پذیر رہتی ہیں اور ان میں کوئ خاص تبدیلی نہیں آتی جع نئی نسل کے بننے کا سبب ہو۔
ماہرین بشریات یاAnthropologist نے حجریات یا فوسل ریکارڈ اور ڈی این اے سے ارتقائ سلسلے کی وضاحت کی کوشش کی لیکن یہ بھی فوسل ریکارڈ کے خلاف جاتی ہے۔یہاں تک کہ ایک اور لکھاری یہ کہنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ ڈی این اے معلومات کی تحقیق کے بعد بھی ارتقا کا عمل ثابت نہیں ہوا جس کا معنی یہ ہے کہ یہ فوسل رکھنے والے جاندار بھی کسی ہستی کی تخلیق ہیں۔یہاں تک کہ اللٰہ تعالٰی کے منکروں کا سربراہ رچرڈ ڈاکنز بھی یہ کہنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس خدا کے وجود کو جھٹلانے کا کوئ ثبوت نہ لہذا مذہب کے ماننے والے اسے مانتے ہیں۔سائنس کو اللٰہ کے وجود کی دلیل بننے سے کس حد تک روکا جاتا ہے اس کا اندازہ کنساس یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات یا بیالوجی کے ایک پروفیسر کے اس بیان سے لگایا جاتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر تمام سائنسی معلومات بھی ایک عظیم تخلیق کار خدا کی طرف اشارہ کرے تو پھر لگی یہ مفروضہ سائنس سے نکالا جائے گا کیونکہ یہ سائنسی فطرت سے میل نہیں کھاتا۔
ارتقاء کے اکثر حامی جیسا کہ سٹیفن جے گولڈ،ہارورڈ کے ایڈورڈ ولسن ،انگلینڈ کے رچرڈ ڈاکنز کارنل کے ولیل پووائن سب اللٰہ تعالٰی کے منکر تھے۔یہ لوگ اللٰہ تعالٰی کے انکار کی راہ ہموار کرنے کے کے لیے اس نظریے کو اتنی پابندی سے پکڑے ہوئے ہیں کہ مشہور سائنسی فلاسفر و ارتقاء کے حامی مائیکل ریوسRuse نے کہا تھا کہ ہمارا مذہب نظریہ ارتقاء ہے۔اس نے مزید کہا کہ وہ اشیاء کی خدائ کی بجائے مادی وضاحت کرنے پہ مجبور ہیں خواہ وہ کتنی ہی بدھی دلیل کیوں نہ ہوں۔ارتقاء کا ایک حامی ارتقاء کے دوسرے حامی کی ایک کتاب کا جائزہ لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم ارتقاء میں درمیانی سلسلوں یا مسنگ لنک کو شناخت نہیں کر سکتے اور انسان کس طرح بن مانس سے وجود میں آئے یہ محض انسانی سوچ کی تخلیق ہے اور ہم صرف ان نظریات پڑھاتے ہیں جو ہمارے ہاں رائج ہیں اور حقایق سے روگردانی کرتے ہیں۔
یہ سب حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء محض غیر حقیقی تحقیقات اور مفروضوں پہ مبنی ہے اور اسے سائنسدانوں اور یہود کے ایک گروہ نے ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے تا کہ اس کی بنیاد پہ اللٰہ تعالٰی کا انکار کیا جا سکے۔اس سارے ڈرامے کے پس منظر میں وہ یہودی فری میسن اقر الومیناتی ہیں جن کا مقصد دنیا بھر کے مذاہب کو تباہ کر کے الحاد کی راہ ہمورا کرنا ہے تا کہ ایک منکر و ملحد معاشرے کو مرضی سے اپنی گرفت میں کیا جا سکے بجائے اس کے ایہ نظریاتی و مذہبی معاشرہ کے جو ان کے خلاف مزاحمت کرے۔اس الحاد کو تقویت دینے کے لیے نام نہاد سائنسدان،دانشور،فلاسفر،ماہرین نفسیات میدان میں لائے گئے۔کارل مارکس کا اشتراکیت و سیکولزم کا نظریہ محض دنیا کی دولت کو عوام سے چھین کے ایک خفیہ یہودی ہاتھ کے ہاتھ میں دینا تھا۔ہاں جی وہی نظام جس کی ترویج کے لیے دیسی سرخے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں لٹریچر اور سوشل میڈیا ہر سطح پہ زور شور سے کام کر رہے ہیں اور اس میں مذہب و ملک کی سلامتی کا جنازہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بہانہ یہ ہے کہ یہ مزدور طبقےکی فلاح کا نظام معیشت ہے۔سگمنڈ فرائیڈ جیسے یہودی فری میسن کے جنسی تصورات پہ مبنی خیالات کا پرچار ایک مدرپدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے لیے تھا تا کہ انسان کو جیوانیت کی تہہ میں گرا کے اس کی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے اسے آسانی سے کنٹرول کیا جا سکے۔
(مضمون ابھی جاری ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔