نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید
( آخری اورآٹھواں حصہ)
ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ گھوڑے ایک چھوٹے جاندار سے وجود میں آئے جسےEohippus کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گھوڑوں کے ارتقاء کا جو سلسلہ ارتقاء کے ماہرین کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے،اس میں کئ درمیانی سلسلے موجود نہیں اور جو فوسل یا حجری حیاتیات کا ریکارڈ ملتا ہے وہ ان کی مشابہت بجائے گھوڑوں کے اور ایسے جانوروں سے کرتا ہے جن کی الگ حیثیت کے طور پہ شناخت کی جا چکی ہے۔ان کا فوسل ریکارڈ بھی نا مکمل ہے اور یہ دوسرے جانوروں سے خلط ملط ہے مثلا اس سلسلے میںParahippus کا فوسل ریکارڈ نامکمل ہے اور حقیقت میں اسے دو الگ جانوروںMiohippus اورMerychippus میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کا گھوڑوں سے کوئ تعلق نہیں ظاہر ہوتا۔1992میں گھوڑوں کے ارتقاء کے سلسلے کو اور چیلنج کیا گیا اور ظاہر ہوا کہ اس سلسلے میں پائے جانے والے پانچ جانور اور قسم کے ہیں اور ان کا گھوڑوں کے ارتقاء سے کوئ تعلق نہیں۔جن جانوروں کو گھوڑوں کا جد امجد قرار دیا جاتا ہے،انہی جانوروں کے زمانے کے گھوڑوں کے حقیقی فوسل بھی ملے ہیں۔یعنی گھوڑے ان جانوروں سے وجود میں نہیں آئے بلکہ ان جانوروں کے زمانے میں حقیقی گھوڑے موجود تھے۔
جہاں تک گھونگے کے ارتقاء کی بات ہے تو ماہرین یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ادن کے حجری حیاتیات کے ریکارڈ میں ان میں کوئ واضح ارتقائ تبدیلی نہیں دیکھی گئی اور یہ فوسل ریکارڈ میں بغیر کسی ارتقاء کے ابتدائی کیمبرین عرصے میں اچانک ملتے ہیں جو کہ ان کی خدائ تخلیق ظاہر کرتے ہیں۔افریقی جھیلوں میں پائ جانے والی سنیل ارتقاء کا کوئ واضح عمل ظاہر نہیں کرتی۔
چین میں ملنے والے ایک مردہ پرندے کے ڈھانچے کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا کہ یہ ایک سو تیس ملین سال پرانا فوسل یا حجری حیاتیاتی ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ تمام پرندے اس سے ارتقاء پذیر ہوئے۔اس کوArchaeornithura کا نام دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ اس کی اپنی خصوصیات ایک مکمل پرندے جیسی ہیں۔جن یہ خود ایہ پرندہ ہے تو اس بنیاد پہ یہ کہنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ باقی پرندے اس سے وجود میں آئے جب کہ ساتھ یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ اس وقت اس کے ہم عصر دوسرے پرندے بھی موجود تھے۔
ارتقاء کے ماہرین کی طرف سے دعوی کیا جاتا ہے کہ جراثیم یا بیکٹیریا نائیلون کو ہضم کرنے والے کیمیاوی مادے یا انزائم تیار کر چکے ہیں۔یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہی بیکٹیریا اپنی نسل تبدیل کر کے ایہ کیڑے،پھر گھونگے،مچھلی،مینڈک،مگر مچھ،خرگوش،بکری،بندر،بن مانس اور پھر انسان میں تبدیل ہو جائے گا۔اس کا کوئ ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا آج تک جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے
ارتقاء کے حامی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں انسانی جنین یا ایمبریو کے باقی جانوروں کی طرح بال ہوتے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ جانور اور انسان ایک ہی جانور سے وجود میں آئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی جسم میں کبھی بھی بادل پیدا کرنے والے جلدی عضوHair Follicle کی تعداد تبدیل نہیں ہوتی۔بلکہ یہ تین طرح کے بال پیدا کرتے ہیں،ایک ماں کے پیٹ میں جو بعد میں جھڑ جاتے ہیں،دوسرے بلوغت کے وقت اور تیسر عمومی لیکن بال پیدا کرنے والےHair Follicles کی تعداد ایک رہتی ہے اور اسے ارتقائ تبدیلی کہنا غلط ہے۔
ارتقاء کے حامی دعوی کرتے ہیں کہ انسان کے جسم میں ایسے اعضا موجود ہیں جن کا کوئ فعل نہیں لیکن وہ انسان کے ارتقاء کو دوسرے جانوروں سے ظاہر کرتے ہیں۔حقیقیت یہ ہے کہ 1890میں ان اعضا کی تعداد جن کو ارتقاء کے حامی فضول یاVestigial Organs کہتے ہیں 180تھی اور اب یہ تعداد صفر ہو چکی ہے۔سائنس دریافت کر چکی ہے کہ ان بے مقصد کہے جانے والے اعضاء کے بھی کئ مفید استعمال ہیں۔مثلا چھوٹی آنت اور بڑی آنت کے ملنے کے مقام پہ موجود اپنڈکس کو ارتقاء کے حامی بے مقصد عضو اور ارتقاء کی نشانی کہتے تھے لیکن اب سائنس یہ دریافت کر چکی ہے کہ یہ عضو مدافعاتی یاImmine Function انجام دیتا ہے اور بڑی آنت سے چھوٹی آنت میں داخل ہونے والے جراثیم مار دیتا ہے۔اس طرح چھوٹی آنت بڑی آنت کے برعکس جراثیمی اثر سے پاک رہتی ہے۔کیا کمال تخلیق ہے خالق کی۔سبحان اللہ
اس طرح گلے میں پائے جانے والے ٹانسلز غدود غذا کے غذا کی نالی میں داخلے کے وقت اس میں موجود جراثیم مارنے کا کام انجام دیتے ہیں جب کہ ارتقاء کے حامی پہلے اسے بھی بے مقصد عضو قرار دیتے تھے۔اس طرح دماغ میں پائے جانے والے غدودPineal gland کو بھی بے مقصد عضو کیا جاتا تھا لیکن آج سائنس ثابت کر چکی ہے کہ یہ نیند لانے والا قدرتی کیمیاوی مادہ یا ہارمونMelatonin پیدا کرتا ہے۔
ارتقاء کے حامیوں کے ایک اور دعوے کے مطابق فیل ماہی یا وہیل مچھلی کی چھوٹی پچھلی ٹانگیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ زمین پہ چلنے والے جانوروں سے وجود میں آئ۔حقیقت یہ ہے کہ وہیل کے پیڑو یاPelvis کی ہڈیاں اس لیے قدرتی طور پر بڑی ہوتی ہیں تا کہ ان میں جنسی اعضاء سما سکیں اور ان ہڈیوں سے ان کی چھوٹی ٹانگوں کا گمان ہوتا ہے جب کہ حقیقیت میں ایسا نہیں ہے۔
انسان اور دوسرے جانوروں کے درمیان پائ جانے والی مشابہت یہ ظاہر تو کر سکتی ہے کہ ان سب جانداروں کا خالق ایک ہے لیکن ارتقاء کو نہیں اور ارتقاء کے ماہرین ارتقاء کا ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ارتقاء کے ماہرین کا دعوی ہے کہ بچوں جو دودھ پلانے والے جانور یا میملز کچھ رینگنے والے جانوروں یا ریپٹائلز سے وجود میں آئے۔ اس کے لیے انہوں نے جو ارتقائ سلسلہ بیان کیا ہے آج تک وہ زمین پر کسی ایک جگہ پہ نہیں ملا بلکہ مختلف بر اعظموں کے مختلف فوسل یا حجری حیاتیات پہ مبنی ہے جب کہ کسی بھی بر اعظم میں ایک جیسے جانوروں کا پایا جانا مشکل ہے اور اس وقت تو اور بھی مشکل ہے جب زندگی ارتقاء کے مرحلے میں ہو۔دوسرا یہ کہ اس سلسلے میں بیان کیے جانے والے فوسل بذات خود ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔اس کی مکمل تفصیل یہاں مضمون طویل ہوجانے کی وجہ سے بیان نہیں کی جارہی۔
ارتقاء کے حامی ڈی این اے سے پروٹین بننے کے تمام جانداروں میں مشترک عملCentral Dogma کو ارتقاء کی نشانی قرار دیتے ہیں۔بار پھر وہی پہ آجاتی ہے کہ یہ ارتقاء کی نہیں،سب کے ایل خالق کی نشانی ہے،اگر واقعی ارتقاء ٹھیک ہے تو کروموسوم کی تعداد بدلنے سے ایک نئ قسم کے جاندار کے وجود میں آنے کا ثبوت دے۔جب کہ اس میں ارتقاء ناکام ہوجاتا ہے۔
انفلوئنزا وائرس میں آنے والی سالانہ وراثتی تبدیلیاں جن سے یہ جراثیم جسم کی اپنے خلاف مدافعت یاImmunity کو ناکام بنا دیتا ہے،صرف اس بات کا اظہار ہیں کہ یہ تبدیلی اس کے اندر ہی ہورہی ہے اور یہ لاکھوں سال سے ہورہی ہے۔لاکھوں سال سے ہونے والی اس تبدیلی سے یہ وائرس،وائرس سے جانور نہیں بن گیا۔
انسانی آنکھ میں پائے جانے والے ایک عضلاتی حصےPlica Semilunaris کے بارے میں ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ یہ ہمارے جانور آباء و اجداد کی تیسری آنکھ تھی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ارتقاء کی نشانی نہیں بلکہ آنکھ میں ایک مفید عمل انجام دینے والا حصہ ہے جو آنکھوں کی حرکت کے دوران آنکھ کی رطوبت پیدا کرنے والے اشکی غدود یاLacrimal Gland سے اس کی رطوبت کا آنکھ میں اخراج کراتا ہے تا کہ آنکھ گیلی رہے،اس کے علاوہ یہ آنکھوں کی حرکت میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔جب کہ ارتقاء کے حامی اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان پہلے ایک جانور تھا اور یہ اس کی تیسری آنکھ کی نشانی ہے۔
ارتقاء کے حامی دعوی کرتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کی ہر چیز کو پکڑنے کی کوشش کرنے کا خودکار عمل۔۔۔۔۔Grasp Reflex.....ارتقاء کی نشانی ہے۔جب کہ حقیقت میں یہ بچے کے دماغ کی بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ حرکی نشونما۔۔۔۔۔Motor Development.....کو ظاہر کرتی ہے۔
ارتقاء کے حامی دعوی کرتے ہیں کہ انسان کے خصیوں یاTestes سے مادہ منویہ یا سپرم عضو تناسل میں منتقل کرنے والی نالی۔۔۔۔۔Vas deferens.....کا خم دار ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے اجداد جانور کے جنسی اعضاء اندر تھے۔اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ نالی سپرم ذخیرہ کرنے،ان کی نشوونما اور ان کو خوراک فراہم کرنے کا کام انجام دیتی ہے جب کہ ارتقاء کے حامی اسے بھی زبردستی ارتقاء کی نشانی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ارتقاء کا حامیوں کا ایک اور دعوی ہے کہ کینسر یا سرطان کا علاج اس لیے مشکل ہے کیونکہ اس کے سیل یا خلیے علاج کے خلاف ارتقاء کے عمل کے تحت مزاحمت کرتے ہیں۔یہ بھی ایک بیوقوفانہ دلیل ہے۔کینسر کے خلیے صرف اپنے وراثتی مادے یا ڈی این اے میں تبدیلی یا میوٹیشن کی وجہ سے خود بخود بڑھنا شرور ہوجاتے ہیں لیکن اس سے یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس جاندار کے اندر ایک اور جاندار پیدا کردیں۔یہ مائیکرو ایوولوشن ہے جب کہ حقیقیMacro Evolution جس سے ایک جاندار سے نئ نسل اور نئی قسم کا ایک اور جاندار بن جائے ناممکن ہے اور آج تک اس کا کوئ ثبوت نہیں ملتا۔
اس کے ساتھ ہی میرا مضمون مکمل ہوتا ہے ورنہ ارتقاء کے نظریے کی سائنسی غلطیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اس پہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔آخر میں میرا ارتقاء کے حامیوں سے صرف ایک سوال ہے۔وہ یہ کہ اگر زندگی ایک سیل یا خلیے سے شروع ہو کر انسان تک ارتقاء کے عمل سے پہنچی ہے اور اس میں خدا کا کوئ ہاتھ نہیں ہے تو زمین پہ پائے جانے والے کئ بے آباد جزائر پر جہاں بارش،پانی،ہوا،مٹی سب دستیاب تھا،وہاں انسان بتدریج بن مانس سے وجود میں کیوں نہیں آئے؟وہاں جانوروں کی ساری نسلیں وجود میں کیوں نہیں آئ؟آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ نظریہ کوئ حتمی ثبوت فراہم کیوں نہیں کر سکا؟
میرے اس مضمون پر کسی ساتھی کو کوئ اشکالات یا سوالات ہیں تو وہ پوری آزادی سے پوچھ سکتا ہے۔انشاءاللہ سائنسی دلائل سے جواب دیا جائے گا۔
قارئین کی قیمتی رائے اور مفید سوالات کا انتظار رہے گا۔
منجانب ڈاکٹر احید حسن
( آخری اورآٹھواں حصہ)
ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ گھوڑے ایک چھوٹے جاندار سے وجود میں آئے جسےEohippus کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گھوڑوں کے ارتقاء کا جو سلسلہ ارتقاء کے ماہرین کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے،اس میں کئ درمیانی سلسلے موجود نہیں اور جو فوسل یا حجری حیاتیات کا ریکارڈ ملتا ہے وہ ان کی مشابہت بجائے گھوڑوں کے اور ایسے جانوروں سے کرتا ہے جن کی الگ حیثیت کے طور پہ شناخت کی جا چکی ہے۔ان کا فوسل ریکارڈ بھی نا مکمل ہے اور یہ دوسرے جانوروں سے خلط ملط ہے مثلا اس سلسلے میںParahippus کا فوسل ریکارڈ نامکمل ہے اور حقیقت میں اسے دو الگ جانوروںMiohippus اورMerychippus میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کا گھوڑوں سے کوئ تعلق نہیں ظاہر ہوتا۔1992میں گھوڑوں کے ارتقاء کے سلسلے کو اور چیلنج کیا گیا اور ظاہر ہوا کہ اس سلسلے میں پائے جانے والے پانچ جانور اور قسم کے ہیں اور ان کا گھوڑوں کے ارتقاء سے کوئ تعلق نہیں۔جن جانوروں کو گھوڑوں کا جد امجد قرار دیا جاتا ہے،انہی جانوروں کے زمانے کے گھوڑوں کے حقیقی فوسل بھی ملے ہیں۔یعنی گھوڑے ان جانوروں سے وجود میں نہیں آئے بلکہ ان جانوروں کے زمانے میں حقیقی گھوڑے موجود تھے۔
جہاں تک گھونگے کے ارتقاء کی بات ہے تو ماہرین یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ادن کے حجری حیاتیات کے ریکارڈ میں ان میں کوئ واضح ارتقائ تبدیلی نہیں دیکھی گئی اور یہ فوسل ریکارڈ میں بغیر کسی ارتقاء کے ابتدائی کیمبرین عرصے میں اچانک ملتے ہیں جو کہ ان کی خدائ تخلیق ظاہر کرتے ہیں۔افریقی جھیلوں میں پائ جانے والی سنیل ارتقاء کا کوئ واضح عمل ظاہر نہیں کرتی۔
چین میں ملنے والے ایک مردہ پرندے کے ڈھانچے کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا کہ یہ ایک سو تیس ملین سال پرانا فوسل یا حجری حیاتیاتی ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ تمام پرندے اس سے ارتقاء پذیر ہوئے۔اس کوArchaeornithura کا نام دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ اس کی اپنی خصوصیات ایک مکمل پرندے جیسی ہیں۔جن یہ خود ایہ پرندہ ہے تو اس بنیاد پہ یہ کہنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ باقی پرندے اس سے وجود میں آئے جب کہ ساتھ یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ اس وقت اس کے ہم عصر دوسرے پرندے بھی موجود تھے۔
ارتقاء کے ماہرین کی طرف سے دعوی کیا جاتا ہے کہ جراثیم یا بیکٹیریا نائیلون کو ہضم کرنے والے کیمیاوی مادے یا انزائم تیار کر چکے ہیں۔یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہی بیکٹیریا اپنی نسل تبدیل کر کے ایہ کیڑے،پھر گھونگے،مچھلی،مینڈک،مگر مچھ،خرگوش،بکری،بندر،بن مانس اور پھر انسان میں تبدیل ہو جائے گا۔اس کا کوئ ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا آج تک جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے
ارتقاء کے حامی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں انسانی جنین یا ایمبریو کے باقی جانوروں کی طرح بال ہوتے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ جانور اور انسان ایک ہی جانور سے وجود میں آئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی جسم میں کبھی بھی بادل پیدا کرنے والے جلدی عضوHair Follicle کی تعداد تبدیل نہیں ہوتی۔بلکہ یہ تین طرح کے بال پیدا کرتے ہیں،ایک ماں کے پیٹ میں جو بعد میں جھڑ جاتے ہیں،دوسرے بلوغت کے وقت اور تیسر عمومی لیکن بال پیدا کرنے والےHair Follicles کی تعداد ایک رہتی ہے اور اسے ارتقائ تبدیلی کہنا غلط ہے۔
ارتقاء کے حامی دعوی کرتے ہیں کہ انسان کے جسم میں ایسے اعضا موجود ہیں جن کا کوئ فعل نہیں لیکن وہ انسان کے ارتقاء کو دوسرے جانوروں سے ظاہر کرتے ہیں۔حقیقیت یہ ہے کہ 1890میں ان اعضا کی تعداد جن کو ارتقاء کے حامی فضول یاVestigial Organs کہتے ہیں 180تھی اور اب یہ تعداد صفر ہو چکی ہے۔سائنس دریافت کر چکی ہے کہ ان بے مقصد کہے جانے والے اعضاء کے بھی کئ مفید استعمال ہیں۔مثلا چھوٹی آنت اور بڑی آنت کے ملنے کے مقام پہ موجود اپنڈکس کو ارتقاء کے حامی بے مقصد عضو اور ارتقاء کی نشانی کہتے تھے لیکن اب سائنس یہ دریافت کر چکی ہے کہ یہ عضو مدافعاتی یاImmine Function انجام دیتا ہے اور بڑی آنت سے چھوٹی آنت میں داخل ہونے والے جراثیم مار دیتا ہے۔اس طرح چھوٹی آنت بڑی آنت کے برعکس جراثیمی اثر سے پاک رہتی ہے۔کیا کمال تخلیق ہے خالق کی۔سبحان اللہ
اس طرح گلے میں پائے جانے والے ٹانسلز غدود غذا کے غذا کی نالی میں داخلے کے وقت اس میں موجود جراثیم مارنے کا کام انجام دیتے ہیں جب کہ ارتقاء کے حامی پہلے اسے بھی بے مقصد عضو قرار دیتے تھے۔اس طرح دماغ میں پائے جانے والے غدودPineal gland کو بھی بے مقصد عضو کیا جاتا تھا لیکن آج سائنس ثابت کر چکی ہے کہ یہ نیند لانے والا قدرتی کیمیاوی مادہ یا ہارمونMelatonin پیدا کرتا ہے۔
ارتقاء کے حامیوں کے ایک اور دعوے کے مطابق فیل ماہی یا وہیل مچھلی کی چھوٹی پچھلی ٹانگیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ زمین پہ چلنے والے جانوروں سے وجود میں آئ۔حقیقت یہ ہے کہ وہیل کے پیڑو یاPelvis کی ہڈیاں اس لیے قدرتی طور پر بڑی ہوتی ہیں تا کہ ان میں جنسی اعضاء سما سکیں اور ان ہڈیوں سے ان کی چھوٹی ٹانگوں کا گمان ہوتا ہے جب کہ حقیقیت میں ایسا نہیں ہے۔
انسان اور دوسرے جانوروں کے درمیان پائ جانے والی مشابہت یہ ظاہر تو کر سکتی ہے کہ ان سب جانداروں کا خالق ایک ہے لیکن ارتقاء کو نہیں اور ارتقاء کے ماہرین ارتقاء کا ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ارتقاء کے ماہرین کا دعوی ہے کہ بچوں جو دودھ پلانے والے جانور یا میملز کچھ رینگنے والے جانوروں یا ریپٹائلز سے وجود میں آئے۔ اس کے لیے انہوں نے جو ارتقائ سلسلہ بیان کیا ہے آج تک وہ زمین پر کسی ایک جگہ پہ نہیں ملا بلکہ مختلف بر اعظموں کے مختلف فوسل یا حجری حیاتیات پہ مبنی ہے جب کہ کسی بھی بر اعظم میں ایک جیسے جانوروں کا پایا جانا مشکل ہے اور اس وقت تو اور بھی مشکل ہے جب زندگی ارتقاء کے مرحلے میں ہو۔دوسرا یہ کہ اس سلسلے میں بیان کیے جانے والے فوسل بذات خود ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔اس کی مکمل تفصیل یہاں مضمون طویل ہوجانے کی وجہ سے بیان نہیں کی جارہی۔
ارتقاء کے حامی ڈی این اے سے پروٹین بننے کے تمام جانداروں میں مشترک عملCentral Dogma کو ارتقاء کی نشانی قرار دیتے ہیں۔بار پھر وہی پہ آجاتی ہے کہ یہ ارتقاء کی نہیں،سب کے ایل خالق کی نشانی ہے،اگر واقعی ارتقاء ٹھیک ہے تو کروموسوم کی تعداد بدلنے سے ایک نئ قسم کے جاندار کے وجود میں آنے کا ثبوت دے۔جب کہ اس میں ارتقاء ناکام ہوجاتا ہے۔
انفلوئنزا وائرس میں آنے والی سالانہ وراثتی تبدیلیاں جن سے یہ جراثیم جسم کی اپنے خلاف مدافعت یاImmunity کو ناکام بنا دیتا ہے،صرف اس بات کا اظہار ہیں کہ یہ تبدیلی اس کے اندر ہی ہورہی ہے اور یہ لاکھوں سال سے ہورہی ہے۔لاکھوں سال سے ہونے والی اس تبدیلی سے یہ وائرس،وائرس سے جانور نہیں بن گیا۔
انسانی آنکھ میں پائے جانے والے ایک عضلاتی حصےPlica Semilunaris کے بارے میں ارتقاء کے ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ یہ ہمارے جانور آباء و اجداد کی تیسری آنکھ تھی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ارتقاء کی نشانی نہیں بلکہ آنکھ میں ایک مفید عمل انجام دینے والا حصہ ہے جو آنکھوں کی حرکت کے دوران آنکھ کی رطوبت پیدا کرنے والے اشکی غدود یاLacrimal Gland سے اس کی رطوبت کا آنکھ میں اخراج کراتا ہے تا کہ آنکھ گیلی رہے،اس کے علاوہ یہ آنکھوں کی حرکت میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔جب کہ ارتقاء کے حامی اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان پہلے ایک جانور تھا اور یہ اس کی تیسری آنکھ کی نشانی ہے۔
ارتقاء کے حامی دعوی کرتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کی ہر چیز کو پکڑنے کی کوشش کرنے کا خودکار عمل۔۔۔۔۔Grasp Reflex.....ارتقاء کی نشانی ہے۔جب کہ حقیقت میں یہ بچے کے دماغ کی بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ حرکی نشونما۔۔۔۔۔Motor Development.....کو ظاہر کرتی ہے۔
ارتقاء کے حامی دعوی کرتے ہیں کہ انسان کے خصیوں یاTestes سے مادہ منویہ یا سپرم عضو تناسل میں منتقل کرنے والی نالی۔۔۔۔۔Vas deferens.....کا خم دار ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے اجداد جانور کے جنسی اعضاء اندر تھے۔اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ نالی سپرم ذخیرہ کرنے،ان کی نشوونما اور ان کو خوراک فراہم کرنے کا کام انجام دیتی ہے جب کہ ارتقاء کے حامی اسے بھی زبردستی ارتقاء کی نشانی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ارتقاء کا حامیوں کا ایک اور دعوی ہے کہ کینسر یا سرطان کا علاج اس لیے مشکل ہے کیونکہ اس کے سیل یا خلیے علاج کے خلاف ارتقاء کے عمل کے تحت مزاحمت کرتے ہیں۔یہ بھی ایک بیوقوفانہ دلیل ہے۔کینسر کے خلیے صرف اپنے وراثتی مادے یا ڈی این اے میں تبدیلی یا میوٹیشن کی وجہ سے خود بخود بڑھنا شرور ہوجاتے ہیں لیکن اس سے یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس جاندار کے اندر ایک اور جاندار پیدا کردیں۔یہ مائیکرو ایوولوشن ہے جب کہ حقیقیMacro Evolution جس سے ایک جاندار سے نئ نسل اور نئی قسم کا ایک اور جاندار بن جائے ناممکن ہے اور آج تک اس کا کوئ ثبوت نہیں ملتا۔
اس کے ساتھ ہی میرا مضمون مکمل ہوتا ہے ورنہ ارتقاء کے نظریے کی سائنسی غلطیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اس پہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔آخر میں میرا ارتقاء کے حامیوں سے صرف ایک سوال ہے۔وہ یہ کہ اگر زندگی ایک سیل یا خلیے سے شروع ہو کر انسان تک ارتقاء کے عمل سے پہنچی ہے اور اس میں خدا کا کوئ ہاتھ نہیں ہے تو زمین پہ پائے جانے والے کئ بے آباد جزائر پر جہاں بارش،پانی،ہوا،مٹی سب دستیاب تھا،وہاں انسان بتدریج بن مانس سے وجود میں کیوں نہیں آئے؟وہاں جانوروں کی ساری نسلیں وجود میں کیوں نہیں آئ؟آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ نظریہ کوئ حتمی ثبوت فراہم کیوں نہیں کر سکا؟
میرے اس مضمون پر کسی ساتھی کو کوئ اشکالات یا سوالات ہیں تو وہ پوری آزادی سے پوچھ سکتا ہے۔انشاءاللہ سائنسی دلائل سے جواب دیا جائے گا۔
قارئین کی قیمتی رائے اور مفید سوالات کا انتظار رہے گا۔
منجانب ڈاکٹر احید حسن
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔