الحاد کا ابتدائی تصور
ازقلم: عامر خان نیازی
استفادہ : اسوہ حسنہ
اللہ تعالیٰ نے جو آسمانی
ہدایت اس دنیا کو عطا فرمائی وہ بنیادی طور پر تین عقائد پر مشتمل ہے:
1.عقیدہ توحید
2.نبوت و رسالت
3.آخرت
ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کو ایک رب نے تخلیق کیا ہے اور تخلیق کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے لا تعلق نہیں ہوا بلکہ اس کائنات کا نظام بھی وہی چلا رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھلائی جسے اخلاقیات یا دین فطرت کہتے ہیں اور انسانوں میں سے ہی چند لوگوں کو پیغمبر منتخب کرکے ان سے بذریعہ وحی خطاب فرمایا جس کا مقصد انسانوں کو اپنے حقیقی خالق و مالک کی پہچان کے علاوہ انہیں پاکیزہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار سکھلانا مقصود تھا مزید براں بنی نوع انسان کو ابدی حیات کی طرف توجہ دلانا کہ ان کی یہ دنیاوی زندگی موت پر ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دوبارہ ایک نئی دنیا میں پیدا کیا جائے گا جہاں اس سے موجودہ زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ جس نے اس دنیا میں دین فطرت اور دین وحی پر عمل کیا ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی یا جنت میں داخل ہو جائے گا اور جس نے اس سے اعراض کیا ، اس کا مستقل ٹھکانا جہنم ٹھہرے گا۔
موجودہ دور کی اصطلاح میں الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور اللہ پر عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اوپر بیان کئے گئے تینوں عقائد ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی دو کو غیر موثر کردیتا ہے اس لئے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہی کہلائے گا۔
الحاد کا لفظی معنی و مفہوم :
الحاد ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ( ل ح د) ہے جس کا معنی مڑ جانا یا چلتے چلتے کسی مخالف سمت رخ اختیار کرلینا اور اصطلاحی طور پر المیل عن الحق حق سے مڑ جانا حق سے انحراف کرلینا الحاد کہلاتاہے ۔
جس طرح ایک مخصوص قبر لحد کہلاتی ہے یعنی قبر کھودتے جائیں پھر دائیں یا بائیں جانب اسے کھودنا شروع کردیں تو قبر لحد والی کہلاتی ہیں تو اس میں بھی ایک طرح کا مڑنا اور پھر جانا پایاجاتا ہے اسی طرح حق سے پھرنا،حق سے مڑنا اور حق سے مڑ کر دوسرا راستہ اختیا ر کرلینا یہ الحاد کہلاتا ہے۔
الحاد استقامت کے مقابل اور اس کا مخالف ہے۔کیونکہ استقامت اپنے آپ کو سیدھا رکھنا اور سیدھا کرلینے کا نام ہے اور استقامت میں مستقل اطاعت کی طرف اشارہ ہے یعنی استقامت ایک ایسی شئے ہے جس میں بندہ اپنے آپ کو سیدھا رکھتا ہے اوراستقامت میں اطاعت کا تسلسل دوام اور لگاتار ہونا پایا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں الحاد یہ ہے کہ بندہ استقامت کی راہ سے پھر اور مڑ جائے اور انحراف اختیار کرلے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پرایک سیدھا خط کھینچا اور دائیں بائیں بہت سے خطوط کھینچے تھے اور جو سیدھا خط آپ ﷺ نے کھینچا تھا اسی کے بارے میں فرمایا تھا ھذا سبیل اللہیہ یہ اللہ کا راستہ ہے جو کہ بالکل سیدھا ہے اور جو دائیں بائیں خطوط ہیں انکے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان کھڑا ہے اور جو سیدھے راستے سے پھر اور مڑ جاتا ہے وہ انحراف اختیار کرلیتا ہے یعنی وہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتا ہے اور پھر وہ سبیل شیطان اختیار کرلیتا ہے
یہ الحاد کی شرعی حقیقت ہے
موجودہ زمانے میں الحاد کی بدترین شکل خالق کائنات سے انکاری ہے جبکہ کچھ الحاد کی مخصوص شکلیں مسلمانوں کے فرقوں میں بھی پائی جاتی ہیں
شرعی اعتبار سے ایک بندہ اللہ کی وحی کا راستہ منتخب کرلے اور قرآن و صحیح پر چلنا شروع کردے تو یہ استقامت اور حق کا راستہ ہے اور اگر دائیں بائیں جاتاہے تو گویا وہ الحاد کا راستہ اختیار کر بیٹھتا ہے جس کی آخری شکل انکار الہی کا راستہ اختیا ر کر بیٹھنا ہے جو کہ استقامت اوراطاعت وحق سے مکمل اعلان جنگ ہے.
کیونکہ اللہ رب العزت صرف دین اسلام ہی قبول فرماتا ہے
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام:153)
اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو ۔
حق کا راستہ دکھانے کے لیے نبی کریم ﷺکی تعلیمات موجود ہیں اور کتاب وسنت کی صورت میں اللہ تعالی کی وحی موجود ہے جس کے ساتھ چمٹے رہنا استقامت ، ہدایت اور صراط مستقیم ہے ان کو چھوڑ کر دائیں بائیں جانب جانا الحاد کہلاتا ہے.
الحاد چھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور بڑا بھی کچھ الحاد وہ ہے جس کا تعلق مسلمانوں کے فرقوں اور عقائد سے ہے اور مستقل الحاد وہ ہے جس کا تعلق وحی الہی سے مکمل روگردانی کرنا ہے.
الحاد کی سب سے قبیح شکل یہ ہے کہ ایک بندہ اپنی عقل کو دین فطرت پر مقدم کرے اور اپنی عقل کی حکمرانی اس طرح قائم کرنے کی کوشش کرے کہ وہ حکمرانی اللہ کی وحی سے سراسر مخالف ہو یعنی قرآن وسنت کے مقابلے میں سائنس و عقل کو پیش کرنا اور وجود باری تعالٰی سے مکمل انکار کرنا یہ الحاد کی سب سے قبیح ترین شکل ہے کیونکہ اللہ تعالی کی وحی سے مکمل انکاری اور عقل کی ترجمانی سراسر گمراہی کا راستہ ہے وحی الٰہی کا راستہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کا راستہ ہے جو کہ خیرو برکت والا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں انسان کی ذاتی خواہش پسندی ،ذاتی عقل ،ذاتی رائے یہ ظلمات اور تاریکیاں ہیں ،انسان ان تاریکیوں میں بھٹکتا جاتا ہے اور پھر کبھی اسے حق دکھائی نہیں دیتا لہٰذا ایک انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی وحی کے راستے کا انتخاب کرےاور اسی پر گامزن رہے اسی پر جیتا رہے کیونکہ یہی خیر وبرکت اور ہدایت کا راستہ ہے ۔
عہد قدیم میں الحاد کا ابتدائی تصور :
کیا زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور پایا جاتاتھا؟
یہاں ایک ضروری بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم الحاد کا معنی اردو زبان میں لیتے ہیں تو اس کا تصور زمانہ قدیم میں کہیں بھی موجود نہیں تھا کیونکہ اردو زبان میں الحاد کا معنی ہر خالق اور وجود باری تعالیٰ کا انکار ہے اور اگر عربی زبان میں الحاد مراد لیں گے تونام کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملا ملحدین موجود تھے
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [فصلت:40]
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں سےاعراض و انحراف کرتے ہیں وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے.
یہاں ہم ملحدین کی تاریخ جاننے کے لئے کوئی تاریخی کتاب یا کسی فلاسفر کی کتاب اٹھا کر مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ قرآن کریم سے ملحدین کا ٹولہ جاننے کی کوشش کریں گے کیونکہ اس سے پہلے میں اپنی گزشتہ تحریر میں تفصیلا الحاد کا مکمل تاریخی پس منظر بیان کر چکا ہوں.
مختلف تفاسیر کے مطابق :
الحاد کا لغوی معنی: ”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔
”الالحاد: المیل والعدول، ومنه اللحد فی القبر، لأنه میل الی ناحیة منه “(تفسیرسورۃ حم سجدۃ:40)
’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا زیادہ مشہوراورصحیح ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد،
فالملحد هو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)
”ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “۔
ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)
”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں۔
ہم الحاد کے معنی و مفہوم جاننے کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور تھایا نہیں ؟؟
قدیم زمانہ سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے لیکن اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیا. بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی رب کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو مذہب کے بعض فرقوں جیسے جین مت میں رب کائنات کا تصور نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند فلسفی ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اللہ کا انکار کیا۔ عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے ہاں ایسا ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہر دور میں کافی بڑی تعداد میں دنیا میں موجود رہے
بہرصورت جب سے انسان نے اللہ تعالی کے احکامات میں اپنی من مانی شروع کی وہاں سے الحاد کی تاریخ رقمطراز ہوتی ہے ، اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا اس وقت ان کی قوم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا میں غرق تھی
اول الحاد کی تاریخ یہاں سے شروع ہوتی ہے، آپ علیہ السلام نے کم وبیش ساڑے نو سو سال قوم کو اللہ کی طرف بلایا اور قوم جواب کیا دیتی تھی آئیے قرآن کریم سے پوچھتے ہیں اللہ تعالی نے سورہ ھود میں قوم نوح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ [هود: 25 - 27]
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کےاور کوئی نہیں جو بےسوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں ۔
یہی ابتدائی الحادی سوچ ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت کا اجتماع ممکن نہیں اور اسی طرح اہل اسلام اور اسلام پر پختہ لوگوں کو دنیا کے حقائق سے دور سمجھنا اور ان کو نیچا گرداننا اس وقت کے ملحدین کا شیوہ تھا جوکہ آج بھی ہے اسی طرح قوم نوح کی حالت سورہ نوح میں مفصل بیان کی گئی ہےکہ قوم نوح کتنے بتوں کی عبادت کرتے تھے؟ اور ان کے کیا نام تھے۔؟ وغیرہ۔
قوم نوح کی اللہ کے دین سے انحراف واعراض کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی طرف آئے ہوئے نبی سے عذاب الہی کی طالب تھی۔ جس کا نقشہ رب کائنات نے یوں کھینچا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
قَالُوا يَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ [هود: 32]
اے نوح علیہ السلام تم نے ہم سے بحث کرلی بہت زیادہ بحث کی ہے اب اگر تو سچا ہے تو جس چیز سے ہمیں ڈرا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ ٓاگر تو سچوں سے ہے۔
اس طلب عذاب الہی کے بعد اللہ تعالی نےاس قوم پر درد ناک عذاب نازل کردیا اور مؤمنین کے علاوہ باقی سب تباہ و برباد ہوگئے یہی حال ہر اس انسان کا ہوگا جو اللہ تعالی کے احکامات سے منہ پھیرنے والا ہوگا۔
ہم مضمون کے اختصار کے لئے پہلے دنیا میں آنے والے نبی کے بعدآخری دنیا میں آنے والے نبی محمد عربی ﷺ اور اس کے زمانے میں پائے جانے والے ملحدین کی طرف آتے ہیں،
نبی اکرم ﷺکے دور کے مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے منکر تو نہ تھے لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔
جس طرح سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ میں باقاعدہ ملحدین کے نام سے کوئی نہیں تھا ویسا ہی آپ ﷺ کےزمانہ میں بھی ملحدین کے نام سے کوئی خاص طبقہ موجود نہیں تھا لیکن عملا آخرت کا انکار کرنے والے پائے جاتے تھے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ[الجاثية: 24]
ان لوگوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے ،ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارڈالتا ہے در اصل انہیں اس کا کوئی علم ہی نہیں ہے یہ تو صرف گمان کررہے ہیں۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف صاحب اپنی تفسیر احسن البیان میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: یہ دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے ،وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی پہلی اور آخری زندگی ہے ،اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت وحیات کا سلسلہ محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے ، جیسے فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت پر لوٹ آتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ کسی صانع اور مدبر کے از خود یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔
جبکہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں یہی دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار بھی کرتے تھے اس عقیدہ سے متعلق قرآن کریم سے پوچھتے ہیں اللہ تعالی سورۃ یونس میں حکم صادر فرمارہے ہیں ، آپ ان مشرکین سے پوچھ لیں تمہیں رزق دینے والا ، زندہ کو مردے سے نکالنے والا کون ہیں تو وہ جواب دیں گے اللہ ہی ہے جیسا کہ فرمایا:
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ [يونس: 31]
آپ کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے ،اور وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندے کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں میں تدبیر کرتا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ، تو ان سے کہیے پھر کیوں نہیں ڈرتے۔
اسلام میں الحاد کی ابتدا خوارج کی شکل میں ہوئی جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ بنو تمیم سے ایک آدمی اللہ کے نبی ﷺکی تقسیم پر اعتراض کررہاتھا ۔
عن أبي سعيد قال بينا النبي صلى الله عليه وسلم يقسم جاء عبد الله بن ذي الخويصرة التميمي فقال اعدل يا رسول الله فقال ويلك ومن يعدل إذا لم أعدل قال عمر بن الخطاب دعني أضرب عنقه قال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاته وصيامه مع صيامه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية (صحيح البخاري:6933)
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ ہم میں مال تقسیم فرمارہے تھے اتنے میں عبد اللہ بن ذو خویصرہ تمیمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ انصاف کر آپ ﷺ نے فرمایا : تم برباد ہو اگر میں انصاف نہ کروں تو کون کرےگا ۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑا دوں ،آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس کے اور ساتھی بھی ہیں جن کو تمہاری نماز اور روزہ اپنی نماز اور روزے کے بدلے حقیر دکھائی دیںنگے اور یہ لوگ دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر قوس سے نکل جاتا ہے۔
خلاصہ:
عالمی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کرلیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں اورقرآن اور حدیث کے مطالعے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہےکہ جو آج کے ملحدین ہیں ان کا قدیم زمانے میں کوئی وجود نہیں تھا لیکن انبیاء کرام علیہ السلام اور آخرت کا انکار کرنے والے دین سے منحرف ملحد بہت تھے۔ جن کی بندرنما بدترین شکل آج بھی دیکھی جا سکتی ہے.
ازقلم: عامر خان نیازی
استفادہ : اسوہ حسنہ
اللہ تعالیٰ نے جو آسمانی
ہدایت اس دنیا کو عطا فرمائی وہ بنیادی طور پر تین عقائد پر مشتمل ہے:
1.عقیدہ توحید
2.نبوت و رسالت
3.آخرت
ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کو ایک رب نے تخلیق کیا ہے اور تخلیق کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے لا تعلق نہیں ہوا بلکہ اس کائنات کا نظام بھی وہی چلا رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھلائی جسے اخلاقیات یا دین فطرت کہتے ہیں اور انسانوں میں سے ہی چند لوگوں کو پیغمبر منتخب کرکے ان سے بذریعہ وحی خطاب فرمایا جس کا مقصد انسانوں کو اپنے حقیقی خالق و مالک کی پہچان کے علاوہ انہیں پاکیزہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار سکھلانا مقصود تھا مزید براں بنی نوع انسان کو ابدی حیات کی طرف توجہ دلانا کہ ان کی یہ دنیاوی زندگی موت پر ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دوبارہ ایک نئی دنیا میں پیدا کیا جائے گا جہاں اس سے موجودہ زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ جس نے اس دنیا میں دین فطرت اور دین وحی پر عمل کیا ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی یا جنت میں داخل ہو جائے گا اور جس نے اس سے اعراض کیا ، اس کا مستقل ٹھکانا جہنم ٹھہرے گا۔
موجودہ دور کی اصطلاح میں الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور اللہ پر عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اوپر بیان کئے گئے تینوں عقائد ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی دو کو غیر موثر کردیتا ہے اس لئے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہی کہلائے گا۔
الحاد کا لفظی معنی و مفہوم :
الحاد ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ( ل ح د) ہے جس کا معنی مڑ جانا یا چلتے چلتے کسی مخالف سمت رخ اختیار کرلینا اور اصطلاحی طور پر المیل عن الحق حق سے مڑ جانا حق سے انحراف کرلینا الحاد کہلاتاہے ۔
جس طرح ایک مخصوص قبر لحد کہلاتی ہے یعنی قبر کھودتے جائیں پھر دائیں یا بائیں جانب اسے کھودنا شروع کردیں تو قبر لحد والی کہلاتی ہیں تو اس میں بھی ایک طرح کا مڑنا اور پھر جانا پایاجاتا ہے اسی طرح حق سے پھرنا،حق سے مڑنا اور حق سے مڑ کر دوسرا راستہ اختیا ر کرلینا یہ الحاد کہلاتا ہے۔
الحاد استقامت کے مقابل اور اس کا مخالف ہے۔کیونکہ استقامت اپنے آپ کو سیدھا رکھنا اور سیدھا کرلینے کا نام ہے اور استقامت میں مستقل اطاعت کی طرف اشارہ ہے یعنی استقامت ایک ایسی شئے ہے جس میں بندہ اپنے آپ کو سیدھا رکھتا ہے اوراستقامت میں اطاعت کا تسلسل دوام اور لگاتار ہونا پایا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں الحاد یہ ہے کہ بندہ استقامت کی راہ سے پھر اور مڑ جائے اور انحراف اختیار کرلے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پرایک سیدھا خط کھینچا اور دائیں بائیں بہت سے خطوط کھینچے تھے اور جو سیدھا خط آپ ﷺ نے کھینچا تھا اسی کے بارے میں فرمایا تھا ھذا سبیل اللہیہ یہ اللہ کا راستہ ہے جو کہ بالکل سیدھا ہے اور جو دائیں بائیں خطوط ہیں انکے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان کھڑا ہے اور جو سیدھے راستے سے پھر اور مڑ جاتا ہے وہ انحراف اختیار کرلیتا ہے یعنی وہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتا ہے اور پھر وہ سبیل شیطان اختیار کرلیتا ہے
یہ الحاد کی شرعی حقیقت ہے
موجودہ زمانے میں الحاد کی بدترین شکل خالق کائنات سے انکاری ہے جبکہ کچھ الحاد کی مخصوص شکلیں مسلمانوں کے فرقوں میں بھی پائی جاتی ہیں
شرعی اعتبار سے ایک بندہ اللہ کی وحی کا راستہ منتخب کرلے اور قرآن و صحیح پر چلنا شروع کردے تو یہ استقامت اور حق کا راستہ ہے اور اگر دائیں بائیں جاتاہے تو گویا وہ الحاد کا راستہ اختیار کر بیٹھتا ہے جس کی آخری شکل انکار الہی کا راستہ اختیا ر کر بیٹھنا ہے جو کہ استقامت اوراطاعت وحق سے مکمل اعلان جنگ ہے.
کیونکہ اللہ رب العزت صرف دین اسلام ہی قبول فرماتا ہے
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام:153)
اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو ۔
حق کا راستہ دکھانے کے لیے نبی کریم ﷺکی تعلیمات موجود ہیں اور کتاب وسنت کی صورت میں اللہ تعالی کی وحی موجود ہے جس کے ساتھ چمٹے رہنا استقامت ، ہدایت اور صراط مستقیم ہے ان کو چھوڑ کر دائیں بائیں جانب جانا الحاد کہلاتا ہے.
الحاد چھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور بڑا بھی کچھ الحاد وہ ہے جس کا تعلق مسلمانوں کے فرقوں اور عقائد سے ہے اور مستقل الحاد وہ ہے جس کا تعلق وحی الہی سے مکمل روگردانی کرنا ہے.
الحاد کی سب سے قبیح شکل یہ ہے کہ ایک بندہ اپنی عقل کو دین فطرت پر مقدم کرے اور اپنی عقل کی حکمرانی اس طرح قائم کرنے کی کوشش کرے کہ وہ حکمرانی اللہ کی وحی سے سراسر مخالف ہو یعنی قرآن وسنت کے مقابلے میں سائنس و عقل کو پیش کرنا اور وجود باری تعالٰی سے مکمل انکار کرنا یہ الحاد کی سب سے قبیح ترین شکل ہے کیونکہ اللہ تعالی کی وحی سے مکمل انکاری اور عقل کی ترجمانی سراسر گمراہی کا راستہ ہے وحی الٰہی کا راستہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کا راستہ ہے جو کہ خیرو برکت والا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں انسان کی ذاتی خواہش پسندی ،ذاتی عقل ،ذاتی رائے یہ ظلمات اور تاریکیاں ہیں ،انسان ان تاریکیوں میں بھٹکتا جاتا ہے اور پھر کبھی اسے حق دکھائی نہیں دیتا لہٰذا ایک انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی وحی کے راستے کا انتخاب کرےاور اسی پر گامزن رہے اسی پر جیتا رہے کیونکہ یہی خیر وبرکت اور ہدایت کا راستہ ہے ۔
عہد قدیم میں الحاد کا ابتدائی تصور :
کیا زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور پایا جاتاتھا؟
یہاں ایک ضروری بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم الحاد کا معنی اردو زبان میں لیتے ہیں تو اس کا تصور زمانہ قدیم میں کہیں بھی موجود نہیں تھا کیونکہ اردو زبان میں الحاد کا معنی ہر خالق اور وجود باری تعالیٰ کا انکار ہے اور اگر عربی زبان میں الحاد مراد لیں گے تونام کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملا ملحدین موجود تھے
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [فصلت:40]
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں سےاعراض و انحراف کرتے ہیں وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے.
یہاں ہم ملحدین کی تاریخ جاننے کے لئے کوئی تاریخی کتاب یا کسی فلاسفر کی کتاب اٹھا کر مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ قرآن کریم سے ملحدین کا ٹولہ جاننے کی کوشش کریں گے کیونکہ اس سے پہلے میں اپنی گزشتہ تحریر میں تفصیلا الحاد کا مکمل تاریخی پس منظر بیان کر چکا ہوں.
مختلف تفاسیر کے مطابق :
الحاد کا لغوی معنی: ”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔
”الالحاد: المیل والعدول، ومنه اللحد فی القبر، لأنه میل الی ناحیة منه “(تفسیرسورۃ حم سجدۃ:40)
’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا زیادہ مشہوراورصحیح ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد،
فالملحد هو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)
”ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “۔
ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)
”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں۔
ہم الحاد کے معنی و مفہوم جاننے کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور تھایا نہیں ؟؟
قدیم زمانہ سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے لیکن اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیا. بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی رب کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو مذہب کے بعض فرقوں جیسے جین مت میں رب کائنات کا تصور نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند فلسفی ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اللہ کا انکار کیا۔ عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے ہاں ایسا ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہر دور میں کافی بڑی تعداد میں دنیا میں موجود رہے
بہرصورت جب سے انسان نے اللہ تعالی کے احکامات میں اپنی من مانی شروع کی وہاں سے الحاد کی تاریخ رقمطراز ہوتی ہے ، اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا اس وقت ان کی قوم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا میں غرق تھی
اول الحاد کی تاریخ یہاں سے شروع ہوتی ہے، آپ علیہ السلام نے کم وبیش ساڑے نو سو سال قوم کو اللہ کی طرف بلایا اور قوم جواب کیا دیتی تھی آئیے قرآن کریم سے پوچھتے ہیں اللہ تعالی نے سورہ ھود میں قوم نوح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ [هود: 25 - 27]
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کےاور کوئی نہیں جو بےسوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں ۔
یہی ابتدائی الحادی سوچ ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت کا اجتماع ممکن نہیں اور اسی طرح اہل اسلام اور اسلام پر پختہ لوگوں کو دنیا کے حقائق سے دور سمجھنا اور ان کو نیچا گرداننا اس وقت کے ملحدین کا شیوہ تھا جوکہ آج بھی ہے اسی طرح قوم نوح کی حالت سورہ نوح میں مفصل بیان کی گئی ہےکہ قوم نوح کتنے بتوں کی عبادت کرتے تھے؟ اور ان کے کیا نام تھے۔؟ وغیرہ۔
قوم نوح کی اللہ کے دین سے انحراف واعراض کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی طرف آئے ہوئے نبی سے عذاب الہی کی طالب تھی۔ جس کا نقشہ رب کائنات نے یوں کھینچا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
قَالُوا يَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ [هود: 32]
اے نوح علیہ السلام تم نے ہم سے بحث کرلی بہت زیادہ بحث کی ہے اب اگر تو سچا ہے تو جس چیز سے ہمیں ڈرا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ ٓاگر تو سچوں سے ہے۔
اس طلب عذاب الہی کے بعد اللہ تعالی نےاس قوم پر درد ناک عذاب نازل کردیا اور مؤمنین کے علاوہ باقی سب تباہ و برباد ہوگئے یہی حال ہر اس انسان کا ہوگا جو اللہ تعالی کے احکامات سے منہ پھیرنے والا ہوگا۔
ہم مضمون کے اختصار کے لئے پہلے دنیا میں آنے والے نبی کے بعدآخری دنیا میں آنے والے نبی محمد عربی ﷺ اور اس کے زمانے میں پائے جانے والے ملحدین کی طرف آتے ہیں،
نبی اکرم ﷺکے دور کے مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے منکر تو نہ تھے لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔
جس طرح سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ میں باقاعدہ ملحدین کے نام سے کوئی نہیں تھا ویسا ہی آپ ﷺ کےزمانہ میں بھی ملحدین کے نام سے کوئی خاص طبقہ موجود نہیں تھا لیکن عملا آخرت کا انکار کرنے والے پائے جاتے تھے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ[الجاثية: 24]
ان لوگوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے ،ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارڈالتا ہے در اصل انہیں اس کا کوئی علم ہی نہیں ہے یہ تو صرف گمان کررہے ہیں۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف صاحب اپنی تفسیر احسن البیان میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: یہ دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے ،وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی پہلی اور آخری زندگی ہے ،اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت وحیات کا سلسلہ محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے ، جیسے فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت پر لوٹ آتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ کسی صانع اور مدبر کے از خود یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔
جبکہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں یہی دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار بھی کرتے تھے اس عقیدہ سے متعلق قرآن کریم سے پوچھتے ہیں اللہ تعالی سورۃ یونس میں حکم صادر فرمارہے ہیں ، آپ ان مشرکین سے پوچھ لیں تمہیں رزق دینے والا ، زندہ کو مردے سے نکالنے والا کون ہیں تو وہ جواب دیں گے اللہ ہی ہے جیسا کہ فرمایا:
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ [يونس: 31]
آپ کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے ،اور وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندے کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں میں تدبیر کرتا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ، تو ان سے کہیے پھر کیوں نہیں ڈرتے۔
اسلام میں الحاد کی ابتدا خوارج کی شکل میں ہوئی جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ بنو تمیم سے ایک آدمی اللہ کے نبی ﷺکی تقسیم پر اعتراض کررہاتھا ۔
عن أبي سعيد قال بينا النبي صلى الله عليه وسلم يقسم جاء عبد الله بن ذي الخويصرة التميمي فقال اعدل يا رسول الله فقال ويلك ومن يعدل إذا لم أعدل قال عمر بن الخطاب دعني أضرب عنقه قال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاته وصيامه مع صيامه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية (صحيح البخاري:6933)
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ ہم میں مال تقسیم فرمارہے تھے اتنے میں عبد اللہ بن ذو خویصرہ تمیمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ انصاف کر آپ ﷺ نے فرمایا : تم برباد ہو اگر میں انصاف نہ کروں تو کون کرےگا ۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑا دوں ،آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس کے اور ساتھی بھی ہیں جن کو تمہاری نماز اور روزہ اپنی نماز اور روزے کے بدلے حقیر دکھائی دیںنگے اور یہ لوگ دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر قوس سے نکل جاتا ہے۔
خلاصہ:
عالمی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کرلیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں اورقرآن اور حدیث کے مطالعے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہےکہ جو آج کے ملحدین ہیں ان کا قدیم زمانے میں کوئی وجود نہیں تھا لیکن انبیاء کرام علیہ السلام اور آخرت کا انکار کرنے والے دین سے منحرف ملحد بہت تھے۔ جن کی بندرنما بدترین شکل آج بھی دیکھی جا سکتی ہے.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔