نظریہ ارتقاء کے قائلین کی سب سے بڑی دلیل 1975 کی وہ تحقیق ہے جس کے مطابق چمپینزی اور انسان کے جینز میں 99فیصد مماثلت پائی گئی.
مگر جو بات "عوام"سے دانستہ یا نادانستہ طور پر پوشیدہ رکھی گئی، وہ یہ ہے کہ اس سٹڈی میں پورے انسانی جینوم یعنی کل جینیاتی مادے کے صرف 2فیصد کو تقابل کیلئے استعمال کیا گیا...!!!
وہ 2فیصد جس کے بارے میں سائنسدانوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ یہی کارآمد جینز یا ڈی این اے ہے اور باقی 98فیصد ڈی این اے بیکار ہے.
یہی وجہ ہے کہ 2005میں چمپینزی کے تقریباً مکمل جینوم کی دریافت کے باوجود پورے جینوم کے "مکمل نمونے"کا، 2003میں دریافت شدہ انسانی جینوم کے "مکمل نمونے"کے ساتھ موازنہ نہیں کیا گیا. ویسے بھی مکمل جینوم کا موازنہ آج تک بھی نہایت پیچیدہ اور تقریباً ناممکن ہے.
مذید بر آں، حالیہ تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ باقی 98فیصد ڈی این اے بیکار نہیں بلکہ اس 2فیصد کی درست کارکردگی میں معاون اور ضروری ہے.
لہٰذا جب آپ کسی ایوولیوشنسٹ یا ایسے بندے سے بات ہو جو نظریہ ارتقاء کی بنیاد پہ تخلیق انسان و خدا کا انکار کرے،اس سے انکے کزن چمپینزی کے ساتھ 99فیصد مماثلت کی خوشخبری سنیں تو انہیں یہ بتا کر کہ یہ مماثلت محض 2فیصد جینز میں ہے، دوبارہ سے اپنے آباء کو پہچاننے کی دعوت ضرور دیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔