سٹیلائٹ کے زریعہ لئے گئے سمندر کے فوٹو سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سمندر یا بحر ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ وہ سب کے سب آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں،کیونکہ ان کے درجۂ حرارت ، کھاراپن کثافت اور آکسیجن کی مقدار کی بنیاد پر ان کی نوعیت الگ الگ اور مختلف ہیں۔ سٹیلائٹ کے ذریعہ لئے گئے فوٹو سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ مختلف رنگ کے ہیں۔ ان میں سے کچھ گہرے نیلے رنگ کے ہیں تو کچھ کالے اور اسی طرح کچھ سمندر پیلے رنگ کے ہیں۔ایسا صرف اس لئے ہے کہ ان تمام سمندر یا بحور کے درجۂ حرارت مختلف ہیں۔ تھرمل فوٹو ٹیکنیک کے ذریعہ لئے گئے سمندری اور بحری عکسوں سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سمندر یا بحور ایک دوسرے سے ایک باریک سفید خط(White line ) کے ذریعہ الگ رہ کر بہتے ہیں۔ اسی سفید خط یا لائن کو برزخ یاBarrier کہتے ہیں۔اسی سفید باریک خط کو جو تمام سمندروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں اور یہ سمندر کی لہریں یا ندیاں ایک دوسرے کے ساتھ بہہ کر بھی ایک دوسرے سے ملتے نہیں ہیں، اسی خصوصیت کو سورہ رحمن چیپٹر نمبر 55اور آیت نمبر 18-20میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ’’ اس نے چلائے دو دریا مل کر بہنے والے۔ دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے‘‘۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ تمام پانی، جو سمندروں ، ندیوں، نالوں، جھرنوں ، تالابوں وغیرہ میں ملتے ہیں سب کے سب ایک ہی ذریعہ سے دستیاب ہوتے ہیں۔وہ یہ ہے کہ ہائیڈروجن کے دو ایٹم آکسیجن کے ایک ایٹم سے مل کر پانی بناتے ہیں۔ اور یہی تخلیق پوری کائنات میں ہے اور یہ پانی ہمیشہ اور ہر حالت میں بہتا ہی رہتا ہے۔ برزخوں کے درمیان یا برزخ سے الگ ہوکر، لیکن جب سمندر میں اس پانی کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سمندروں کے درمیان یہی پانی ندی اور دریا کی شکل میں اور اکثر مختلف دھارائوں اور موجوں کی شکل میں بہتے ہیں۔ اس کے باوجود برزخ کی وجہ سے آپس میں ایک نوعیت کا پانی دوسری نوعیت کے پانی سے بالکل نہیں ملتا ہے۔قرآن کریم نے اس معجزہ کو اپنے مخصوص انداز میں بیان فرمایا ہے۔سمندری پانی کی گہرائی کے اعتبار سے سمندر کے تین حصے ہوتے ہیں۔
1۔ باتھل زون(Bathal zone ) یہ زون سمندر کی سطح سے دو ہزار میٹر گہرا ہوتا ہے ۔چھوٹی مچھلیاں اور پانی کے جہاز اسی زون میں چلتے ہیں، چونکہ یہ باتھل زون سمندر کا اوپری حصہ ہے اس لئے سورج کی روشنی بھی اس زون میں پہنچتی ہیں لہٰذا اس زون میں کافی دور تک روشنی ہوتی ہے اور پانی بھی گرم ہوتا ہے۔ گرم پانی کی رَو بھی اوپر اوپر سمندر کے اس زون میں بہتی رہتی ہے۔یہ رَو گرم ممالک سے ٹھنڈے ممالک کی طرف بہتی ہے۔ ان روئوں کے بہنے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ سمندر میں بڑی بڑی اور گہری ندیاں بہتی ہیں۔ انہی ندیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اپنی اپنی سمندری خصوصیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملتی نہیں ہیں۔
2۔ اس باتھل زون کے ٹھیک نیچے ابیسل زون ’ Abyssal Zone ‘ ہوتا ہے۔ اس کی گہرائی بھی دو ہزار میٹر ہوتی ہے۔ اسے سمندر کا درمیانی زون کہا جاتا ہے۔ اس زون میں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لئے یہاں اندھیرا ہوتا ہے ۔ چونکہ روشنی نہیں پہنچتی ہے ، اس لئے اس درمیانی زون میں گرمی بھی بہت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا ٹھنڈی زیادہ ہوتی ہے۔ اس زون میں درمیانی وزن کے سمندری جانور زندگی گزارتے ہیں۔ پہلا زون دوسرے زون سے ایک برزخ کے ذریعہ الگ ہوکر بہتا ہے۔
3 ۔ ہاڈل زون ’ Hadal Zone‘ یہ زون سمندر کا تیسرا اور گہرا زون ہے۔ اس کی گہرائی چھ ہزار میٹر تک ہوتی ہے، جو سمندر کی تہہ تک پہنچتی ہے۔ اس آخری اور گہرے زون میں سورج کی روشنی بالکل نہیں پہنچتی ہے۔ اس میں زبردست اندھیرا ہوتا ہے۔ اس آخری زون میں بے حد ٹھنڈک کی وجہ سے برف کی تہہ جمی رہتی ہے۔ اس زون میں پانی کا پریشر بھی بے حد ہوتا ہے۔ ایسے جانور جو بہت بڑے ، طاقتور ، اور وزنی ہوتے ہیں اس زون میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زون در حقیقت تین اندھیروں کے نیچے ہوتا ہے۔ اور ایسا اندھیرا ہوتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نظر نہیں آسکتا ہے۔سمندر کے اندر کی یہ تاریکی غالباً کائنات کی تمام تاریکیوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں روشنی کی معمولی سے معمولی کرن کا بھی گزر ممکن نہیں ہوتا ہے۔ تاریکی کی اس کیفیت کو قرآن کریم میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے۔سورہ النور 24، آیت نمبر 40 ’’یا جیسے اندھیرے گہرے دریا میں چڑھتی آتی ہے۔ اس پر ایک لہر اس کے اوپر ایک لہر اس کے اوپر بادل ایک پر ایک اندھیرے ہیں‘‘۔اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے ارشاد گرامی کے مطابق صرف گہرے سمندر میں ہی یہ تین زون ہوتے ہیں۔ اس تاریکی کے بارے میں انیسویں صدی سے قبل کسی کو سمندر کی اس کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔ جب اٹھارہویں صدی کے آخیر اور انیسویں صدی کے شروع میں نئے نئے سائنسی انکشافات ہوئے تو ان اندھیروں اور تاریکیوں کے بارے میں پتہ چلا جب کہ یہ حالت قرآن کریم کے ذریعہ ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کے بدوئوں کے سامنے آچکی تھی۔ سائنس کی تاریخ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نئے نئے آلات ایجاد ہوئے اور سمندر کی گہرائی کے ناپنے کا موقع ملا جس کے ذریعہ روشنی پانی کے اندر داخل کی جاتی ہے اور اس کی گہرائی کا پتہ لگا یا جاتا ہے اس آلہ کوSecchi Disk کہتے ہیں۔ یہ ایک سفید آلہ ہے جسے سمندر کے اندر پہنچا کر سمندر کی گہرائی ناپ لیتے ہیں۔ لیکن خود اس آلہ کو سمندر کے اندر ننگی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس آلہ کو 1930کے بعد الیکٹرولائٹیک سیل کے ذریعہ استعمال میں لاکر خاطر خواہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔اب سائنس اور بھی نئی تحقیق کرکے سمندر کے دیگر رموز کو آشکار کرنے میں سرگرداں ہے۔ ان رموز کا ذکر قرآن کریم میں پہلے سے موجودہے ۔ پروفیسر درگا پرساد رائو علم البحر کے بین الاقوامی ماہر ہیں۔ یہ کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ میں پروفیسر رہے ہیں۔ اس آیت کے متعلق پروفیسر درگا پرساد رائو نے کہا تھا کہ سائنس داں جدید آلات کے ذریعہ اب یہ جاننے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ سمندر کے اندر نیچے گہرائی میں بالکل اندھیرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کسی چیز کی مدد کے بغیر 20سے 30میٹر تک پانی کے اندر غوطہ لگا سکتا ہے، مگر گہرے سمندر میں 200میٹر سے زیادہ گہرائی میں وہ زندہ بھی نہیں رہ سکتا ہے ، مگر اس آیت کا اطلاق تمام سمندروں پر نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ اس طرح کے اندھیروں کو ہر سمندر میں نہیں پایا جاسکتا ہے کہ اندھیرے کی تہہ کے اوپر دوسرے اندھیرے کی تہہ ہو۔ بلکہ یہ آیت خصوصیت کے ساتھ صرف گہرے سمندروں کی تاریکی کے بارے میں بتاتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم میں یہ ارشاد ہوا بلکہ ’’ ایک بڑے گہرے سمندر میں اندھیرا‘‘ گہرے سمندر میں اندھیرے کے پیدا ہونے کی دو اہم وجہیں ہیں۔
(1 ) ہم سب جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ بات ’’ قوس قزح‘‘ میں صاف نظر آتی ہے۔ یہ سات رنگی مجموعہ بنفشی،نیلا، آسمانی، سبز، زرد، نارنجی اور سرخ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب روشنی کی شعاع پانی سے ٹکراتی ہے تو عمل ’’ انعطاف‘‘ کے نتیجے میں مڑ جاتی ہے اور اس عمل سے روشنی کے سرخ رنگ کو پانی 10سے 15میٹر کی گہرائی تک جذب کر لیتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی غوطہ خور پانی میں 25میٹر کی گہرائی پر زخمی ہوجائے اور اس کے زخم سے خون بہنے لگے تو وہ زخمی آدمی اپنے خون کو بھی 25میٹر کی گہرائی پر نہیں دیکھ سکتا ہے کیونکہ اس گہرائی تک شعاع کا سرخ رنگ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی طرح نارنجی رنگ کی شعاع 30سے 50میٹر کی سمندری گہرائی میں بالکل جذب ہوجاتی ہے ۔ زرد رنگ 50سے 100میٹر کی گہرائی میں جبکہ سبز رنگ 100میٹر سے 200میٹر کی گہرائی تک اور آسمانی رنگ لگ بھگ 200میٹر تک جبکہ نیلا اور بنفشی رنگ 200میٹر سے زیادہ گہرائی پر جذب ہوجاتے ہیں۔لہٰذا جس طرح مختلف رنگ ایک ایک کرکے نہایت کامیابی کے ساتھ غائب ہوجاتے ہیں اسی طرح تاریکی بھی تہہ بہ تہہ بڑھتی جاتی ہے یعنی تاریکی جیسے جیسے روشنی غائب ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ 1000میٹر کی گہرائی میں بالکل اندھیرا چھا جاتا ہے۔
(2 ) دوسری وجہ اندھیرا ہونے کی یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں جب بادلوں سے ٹکراتی ہیں تو کچھ روشنی اس میں جذب ہوجاتی ہے اور باقی روشنی منتشر شعاعوں میں بدل جاتی ہے جس کے سبب بادلوں کے نیچے اندھیرے کی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ یہ اندھیرے کی پہلی تہہ ہے پھر جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو سطحی موجیں ان کے کچھ حصے کو منعکس کردیتی ہیں اور کچھ حصہ سمندر کے اندر نفوذ کر جاتا ہے، چنانچہ یہ موجیں ہی ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں سمندر کے دو حصے ہوجاتے ہیں۔(1 ) سمندر کا سطحی حصہ (2 ) سمندر کا اندرونی گہرا حصہ۔ سطحی حصہ تو روشنی اور گرمی کی وجہ سے جبکہ گہرا حصہ اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر آنے لگتا ہے یا پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور فرق ان دونوں حصوں میں موجوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اندرونی موجیں دریائوں اور سمندروں کے گہرے پانی کو ڈھانپے ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ گہرے پانی کی کثافت ، اس کے اوپر موجود پانی کی کثافت سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اندرونی موجوں کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ مچھلی بھی سمندر کی گہرائی میں دیکھنے کے قابل نہیں رہتی ہے اور اس کے اپنے جسم سے حاصل ہونے والی روشنی ہی اس
کے لئے واحد ذریعہ ہوتی ہے۔
پروفیسر درگا رائو کا حتمی طور پر یہ کہنا ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل یہ ناممکن تھا کہ ایک عام آدمی اس حیرت انگیز عمل کو اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کرسکے ۔اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سمندر کے اندر کی تاریکی کا اس طرح ذکر ثبوت کے ساتھ کرنا صرف کسی مافوق الفطرت کے ہی بس کی بات ہے۔ عام انسان کی نہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور اس کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، جس نے قرآن کریم کے ذریعہ ایسے ایسے رموز آشکار کیا ہے جو اللہ کی خلّاقی کے مظاہر ہیں۔
جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ماہر علمِ ریاضی اور منطق کے لیکچرار ہیں ، اور کینڈا کے ایک سرگرم مبلغ ہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی عظیم خدمت کرنے کے لئے قرآن ِمجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے ، جو اس کےمبلغ پیرو کاروں کی مدد کرے تاکہ مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لایا جا سکے ۔GaryMiller
تاہم نتیجہ اس کے بالکل برعکس تھا میلر کی دستاویز جائز تھیں اور تشریح اور ملاحظات مثبت تھے ۔ مسلمانوں سے بھی اچھے جو وہ قرآنِ مجید کے متعلق دے سکتے تھے ۔ اس نے قرآنِ مجید کو بالکل ایسا ہی لیا جیسا ہونا چاہیئے تھا ،اور ان کا نتیجہ یہ تھا کہ:
یہ قرآنِ مجید کسی انسان کا کام نہیں۔
پروفیسر گیری میلر کے لئے بڑا مسئلہ قرآنِ مجید کی بہت سی آیات کی بناوٹ تھی جو اسے چیلنج کر رہی تھیں للکار رہی تھیں مثلاً:
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا۔
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔(النساء ، 82)
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔(البقرہ، 23)
اگر چہ پروفیسر میلر شروع شروع میں للکار رہا تھا اور چیلنج کر رہا تھا ،مگر بعد میں اس کا یہ رویہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو گیا اور پھر اس نے بیان کیا کہ اس کو قرآن سے کیا ملا؟
مندرجہ ذیل کچھ نکات ہیں جو پروفیسر میلر کے لیکچر”حیرت انگیز قرآن“میں بیان کئے ہیں:
یہاں کوئی مصنف (لکھنے والا) ایسا نہیں ملے گا جو ایک کتاب لکھے اور پھر سب کو للکارے اور چیلنج کرے کہ یہ کتاب غلطیوں (اغلاط)سے پاک ہے۔قرآن کا معاملہ کچھ دوسرا ہے۔ یہ پڑھنے والے کو کہتا ہے کہ اس میں غلطیاں نہیں ہیں۔اور پھر تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ اس میں غلطیاں ہیں اور تم اپنی اس بات پر سچے ہو تو یہ غلطیاں تلاش کرکے دکھا دو۔یا تم سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو۔
وصی احمد نعمانی
1۔ باتھل زون(Bathal zone ) یہ زون سمندر کی سطح سے دو ہزار میٹر گہرا ہوتا ہے ۔چھوٹی مچھلیاں اور پانی کے جہاز اسی زون میں چلتے ہیں، چونکہ یہ باتھل زون سمندر کا اوپری حصہ ہے اس لئے سورج کی روشنی بھی اس زون میں پہنچتی ہیں لہٰذا اس زون میں کافی دور تک روشنی ہوتی ہے اور پانی بھی گرم ہوتا ہے۔ گرم پانی کی رَو بھی اوپر اوپر سمندر کے اس زون میں بہتی رہتی ہے۔یہ رَو گرم ممالک سے ٹھنڈے ممالک کی طرف بہتی ہے۔ ان روئوں کے بہنے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ سمندر میں بڑی بڑی اور گہری ندیاں بہتی ہیں۔ انہی ندیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اپنی اپنی سمندری خصوصیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملتی نہیں ہیں۔
2۔ اس باتھل زون کے ٹھیک نیچے ابیسل زون ’ Abyssal Zone ‘ ہوتا ہے۔ اس کی گہرائی بھی دو ہزار میٹر ہوتی ہے۔ اسے سمندر کا درمیانی زون کہا جاتا ہے۔ اس زون میں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لئے یہاں اندھیرا ہوتا ہے ۔ چونکہ روشنی نہیں پہنچتی ہے ، اس لئے اس درمیانی زون میں گرمی بھی بہت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا ٹھنڈی زیادہ ہوتی ہے۔ اس زون میں درمیانی وزن کے سمندری جانور زندگی گزارتے ہیں۔ پہلا زون دوسرے زون سے ایک برزخ کے ذریعہ الگ ہوکر بہتا ہے۔
3 ۔ ہاڈل زون ’ Hadal Zone‘ یہ زون سمندر کا تیسرا اور گہرا زون ہے۔ اس کی گہرائی چھ ہزار میٹر تک ہوتی ہے، جو سمندر کی تہہ تک پہنچتی ہے۔ اس آخری اور گہرے زون میں سورج کی روشنی بالکل نہیں پہنچتی ہے۔ اس میں زبردست اندھیرا ہوتا ہے۔ اس آخری زون میں بے حد ٹھنڈک کی وجہ سے برف کی تہہ جمی رہتی ہے۔ اس زون میں پانی کا پریشر بھی بے حد ہوتا ہے۔ ایسے جانور جو بہت بڑے ، طاقتور ، اور وزنی ہوتے ہیں اس زون میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زون در حقیقت تین اندھیروں کے نیچے ہوتا ہے۔ اور ایسا اندھیرا ہوتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نظر نہیں آسکتا ہے۔سمندر کے اندر کی یہ تاریکی غالباً کائنات کی تمام تاریکیوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں روشنی کی معمولی سے معمولی کرن کا بھی گزر ممکن نہیں ہوتا ہے۔ تاریکی کی اس کیفیت کو قرآن کریم میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے۔سورہ النور 24، آیت نمبر 40 ’’یا جیسے اندھیرے گہرے دریا میں چڑھتی آتی ہے۔ اس پر ایک لہر اس کے اوپر ایک لہر اس کے اوپر بادل ایک پر ایک اندھیرے ہیں‘‘۔اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے ارشاد گرامی کے مطابق صرف گہرے سمندر میں ہی یہ تین زون ہوتے ہیں۔ اس تاریکی کے بارے میں انیسویں صدی سے قبل کسی کو سمندر کی اس کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔ جب اٹھارہویں صدی کے آخیر اور انیسویں صدی کے شروع میں نئے نئے سائنسی انکشافات ہوئے تو ان اندھیروں اور تاریکیوں کے بارے میں پتہ چلا جب کہ یہ حالت قرآن کریم کے ذریعہ ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کے بدوئوں کے سامنے آچکی تھی۔ سائنس کی تاریخ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نئے نئے آلات ایجاد ہوئے اور سمندر کی گہرائی کے ناپنے کا موقع ملا جس کے ذریعہ روشنی پانی کے اندر داخل کی جاتی ہے اور اس کی گہرائی کا پتہ لگا یا جاتا ہے اس آلہ کوSecchi Disk کہتے ہیں۔ یہ ایک سفید آلہ ہے جسے سمندر کے اندر پہنچا کر سمندر کی گہرائی ناپ لیتے ہیں۔ لیکن خود اس آلہ کو سمندر کے اندر ننگی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس آلہ کو 1930کے بعد الیکٹرولائٹیک سیل کے ذریعہ استعمال میں لاکر خاطر خواہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔اب سائنس اور بھی نئی تحقیق کرکے سمندر کے دیگر رموز کو آشکار کرنے میں سرگرداں ہے۔ ان رموز کا ذکر قرآن کریم میں پہلے سے موجودہے ۔ پروفیسر درگا پرساد رائو علم البحر کے بین الاقوامی ماہر ہیں۔ یہ کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ میں پروفیسر رہے ہیں۔ اس آیت کے متعلق پروفیسر درگا پرساد رائو نے کہا تھا کہ سائنس داں جدید آلات کے ذریعہ اب یہ جاننے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ سمندر کے اندر نیچے گہرائی میں بالکل اندھیرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کسی چیز کی مدد کے بغیر 20سے 30میٹر تک پانی کے اندر غوطہ لگا سکتا ہے، مگر گہرے سمندر میں 200میٹر سے زیادہ گہرائی میں وہ زندہ بھی نہیں رہ سکتا ہے ، مگر اس آیت کا اطلاق تمام سمندروں پر نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ اس طرح کے اندھیروں کو ہر سمندر میں نہیں پایا جاسکتا ہے کہ اندھیرے کی تہہ کے اوپر دوسرے اندھیرے کی تہہ ہو۔ بلکہ یہ آیت خصوصیت کے ساتھ صرف گہرے سمندروں کی تاریکی کے بارے میں بتاتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم میں یہ ارشاد ہوا بلکہ ’’ ایک بڑے گہرے سمندر میں اندھیرا‘‘ گہرے سمندر میں اندھیرے کے پیدا ہونے کی دو اہم وجہیں ہیں۔
(1 ) ہم سب جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ بات ’’ قوس قزح‘‘ میں صاف نظر آتی ہے۔ یہ سات رنگی مجموعہ بنفشی،نیلا، آسمانی، سبز، زرد، نارنجی اور سرخ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب روشنی کی شعاع پانی سے ٹکراتی ہے تو عمل ’’ انعطاف‘‘ کے نتیجے میں مڑ جاتی ہے اور اس عمل سے روشنی کے سرخ رنگ کو پانی 10سے 15میٹر کی گہرائی تک جذب کر لیتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی غوطہ خور پانی میں 25میٹر کی گہرائی پر زخمی ہوجائے اور اس کے زخم سے خون بہنے لگے تو وہ زخمی آدمی اپنے خون کو بھی 25میٹر کی گہرائی پر نہیں دیکھ سکتا ہے کیونکہ اس گہرائی تک شعاع کا سرخ رنگ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی طرح نارنجی رنگ کی شعاع 30سے 50میٹر کی سمندری گہرائی میں بالکل جذب ہوجاتی ہے ۔ زرد رنگ 50سے 100میٹر کی گہرائی میں جبکہ سبز رنگ 100میٹر سے 200میٹر کی گہرائی تک اور آسمانی رنگ لگ بھگ 200میٹر تک جبکہ نیلا اور بنفشی رنگ 200میٹر سے زیادہ گہرائی پر جذب ہوجاتے ہیں۔لہٰذا جس طرح مختلف رنگ ایک ایک کرکے نہایت کامیابی کے ساتھ غائب ہوجاتے ہیں اسی طرح تاریکی بھی تہہ بہ تہہ بڑھتی جاتی ہے یعنی تاریکی جیسے جیسے روشنی غائب ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ 1000میٹر کی گہرائی میں بالکل اندھیرا چھا جاتا ہے۔
(2 ) دوسری وجہ اندھیرا ہونے کی یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں جب بادلوں سے ٹکراتی ہیں تو کچھ روشنی اس میں جذب ہوجاتی ہے اور باقی روشنی منتشر شعاعوں میں بدل جاتی ہے جس کے سبب بادلوں کے نیچے اندھیرے کی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ یہ اندھیرے کی پہلی تہہ ہے پھر جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو سطحی موجیں ان کے کچھ حصے کو منعکس کردیتی ہیں اور کچھ حصہ سمندر کے اندر نفوذ کر جاتا ہے، چنانچہ یہ موجیں ہی ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں سمندر کے دو حصے ہوجاتے ہیں۔(1 ) سمندر کا سطحی حصہ (2 ) سمندر کا اندرونی گہرا حصہ۔ سطحی حصہ تو روشنی اور گرمی کی وجہ سے جبکہ گہرا حصہ اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر آنے لگتا ہے یا پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور فرق ان دونوں حصوں میں موجوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اندرونی موجیں دریائوں اور سمندروں کے گہرے پانی کو ڈھانپے ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ گہرے پانی کی کثافت ، اس کے اوپر موجود پانی کی کثافت سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اندرونی موجوں کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ مچھلی بھی سمندر کی گہرائی میں دیکھنے کے قابل نہیں رہتی ہے اور اس کے اپنے جسم سے حاصل ہونے والی روشنی ہی اس
کے لئے واحد ذریعہ ہوتی ہے۔
پروفیسر درگا رائو کا حتمی طور پر یہ کہنا ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل یہ ناممکن تھا کہ ایک عام آدمی اس حیرت انگیز عمل کو اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کرسکے ۔اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سمندر کے اندر کی تاریکی کا اس طرح ذکر ثبوت کے ساتھ کرنا صرف کسی مافوق الفطرت کے ہی بس کی بات ہے۔ عام انسان کی نہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور اس کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، جس نے قرآن کریم کے ذریعہ ایسے ایسے رموز آشکار کیا ہے جو اللہ کی خلّاقی کے مظاہر ہیں۔
جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ماہر علمِ ریاضی اور منطق کے لیکچرار ہیں ، اور کینڈا کے ایک سرگرم مبلغ ہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی عظیم خدمت کرنے کے لئے قرآن ِمجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے ، جو اس کےمبلغ پیرو کاروں کی مدد کرے تاکہ مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لایا جا سکے ۔GaryMiller
تاہم نتیجہ اس کے بالکل برعکس تھا میلر کی دستاویز جائز تھیں اور تشریح اور ملاحظات مثبت تھے ۔ مسلمانوں سے بھی اچھے جو وہ قرآنِ مجید کے متعلق دے سکتے تھے ۔ اس نے قرآنِ مجید کو بالکل ایسا ہی لیا جیسا ہونا چاہیئے تھا ،اور ان کا نتیجہ یہ تھا کہ:
یہ قرآنِ مجید کسی انسان کا کام نہیں۔
پروفیسر گیری میلر کے لئے بڑا مسئلہ قرآنِ مجید کی بہت سی آیات کی بناوٹ تھی جو اسے چیلنج کر رہی تھیں للکار رہی تھیں مثلاً:
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا۔
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔(النساء ، 82)
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔(البقرہ، 23)
اگر چہ پروفیسر میلر شروع شروع میں للکار رہا تھا اور چیلنج کر رہا تھا ،مگر بعد میں اس کا یہ رویہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو گیا اور پھر اس نے بیان کیا کہ اس کو قرآن سے کیا ملا؟
مندرجہ ذیل کچھ نکات ہیں جو پروفیسر میلر کے لیکچر”حیرت انگیز قرآن“میں بیان کئے ہیں:
یہاں کوئی مصنف (لکھنے والا) ایسا نہیں ملے گا جو ایک کتاب لکھے اور پھر سب کو للکارے اور چیلنج کرے کہ یہ کتاب غلطیوں (اغلاط)سے پاک ہے۔قرآن کا معاملہ کچھ دوسرا ہے۔ یہ پڑھنے والے کو کہتا ہے کہ اس میں غلطیاں نہیں ہیں۔اور پھر تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ اس میں غلطیاں ہیں اور تم اپنی اس بات پر سچے ہو تو یہ غلطیاں تلاش کرکے دکھا دو۔یا تم سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو۔
وصی احمد نعمانی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔