اسلام پہ قتل و غارت اور دہشت گردی کا الزام لگانے والے ملحدین کے پسندیدہ ملک امریکہ کی طرف سے ہیروشیما اور ناگاساکی پہ ایٹمی حملے اور تین لاکھ انسانوں کے چند سیکنڈوں میں قتل کی درد ناک اور انسانیت سوز داستان جب انسانیت شرما اٹھی
پیشکش:
فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
6 اور 9 اگست 1945 کودوسری جنگ عظیم میں ایک انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا جو آج بھی تاریخ کا بدترین دن مانا جاتا ہے۔اس دن کو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان لوگوں کی جان لی۔ دوسری جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔آج اس دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسوں امڈ پڑتے ہیں کہ کیا ایسے انسان بھی ہوسکتے ہیں جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان منٹوں میں لے لیتا ہیں۔ اس واقعے نے پورے انسانیت کے دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت بگلنے لگا۔اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔ایٹم بم انسانیت کے لیے انتہائی تباہ کن ہے ۔جب بھی اس کا استعمال ہوا ہے ہمیشہ اس نے تباہی مجھائی ہے۔
اس دوران جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو(Hiro Heto)نے امریکہ کو یہ پیش کش کی تھی کہ اگر وہ جاپانی بادشاہت کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرے تو جاپان ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہے اس مفاہمت کو \\\"Peace Feeler\\\"کا نام بھی دیا گیا تاہم امریکیوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا ۔ امریکہ ایک طرف اپنے جوہری بموں کی عملی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہتا تھا تو دوسری طرف پرل ہاربرکا انتقام لینے کا تہیہ کئے بیٹھا تھا چنانچہ اس نے جوہری بم کے دھماکے کے محض 21دن کے بعد 6اگست 1945کو جاپان کے سب سے بڑے جزیرے \\\"Hanshu\\\"کے ساحلی شہر\\\"Hiroshima\\\" پر نو ہزار ٹن وزنی ایٹم بم اینولا گے (Anola Gay)بی 29 جہا ز کے ذریعے گرا دیا۔اس جہاز کا پائلٹ کرنل Paul Tibbetsتھا جس نے صبح آٹھ بج کرپندرہ منٹ پر تقریباً آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے معصوم شہریوں پر دنیا کا سب سے پہلا اور تباہ کن ایٹم بم پھینک دیا ۔اس بم کا کو ڈ نیم Little Boy\\\"ــ\\\"تھا اس کے گرتے ہی ستر ہزار کے قریب بے گنا ہ شہری موقع پر ہی دم توڑ گئے اور تقریباً ایک لاکھ کے قریب زخمی ہوئے اور ان میں سے اکثر بے چارے ناقا بل علاج زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ اس میں معصوم پھول جیسے بچے بھی شامل تھے اور لاچار و بے بس عورتیں ، بوڑھے اور نوجوان بھی شامل تھے۔
لٹل بوائے (Little Boy) جاپانی شہر ہیروشیما پر 6 اگست، 1945 کو ریاستہائے متحدہ امریکا کی طرف سے گرائے جانے والے ایٹم بم کا رمزی نام تھا۔ یہ صرف دو استعمال ہونے والے جوہری ہتھیاروں میں سے یہ پہلا بم تھا۔ جبکہ دوسرا فیٹ مین تھا جو ناگاساکی پر گرایا گیا تھا۔یہ پہلا یورینیم ساختہ بم تھا جس میں 64 کلو یورینیم کا استعمال ہوا تھا۔ اس کا دھماکا ایسا تھا گویا ایک کروڑ پچاس لاکھ کلوگرام بارود کا دھماکا کیا گیا ہو۔ لٹل بوائے نامی ایسے 36 بم بنائے گئے تھے۔
امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 اگست 1945 کو بی 29 بمبار طیاروں کی مدد سے جاپانی شہر ہیروشیما اور 9 اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیا، فضا میں ساڑھے نو کلو میٹر بلندی سے گرائے جانے والے ایٹم بم نے محض 44 سیکنڈ میں زمین پر پہنچ کر قیامت برپا کر دی۔
فیٹ مین (Fat Man) جاپانی شہر ناگاساکی پر 9 اگست، 1945 کو ریاستہائے متحدہ امریکا کی طرف سے گرائے جانے والے ایٹم بم کا رمزی نام تھا۔ یہ صرف دو استعمال ہونے والے جوہری ہتھیاروں میں سے یہ دوسرا بم تھا۔ جبکہ پہلا لٹل بوائے تھا جو ہیروشیما پر گرایا گیا تھا۔یہ پہلا پلوٹونیم ساختہ بم تھا اور اس میں صرف 4.6 کلو پلوٹونیم استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے دھماکے سے دو کروڑ دس لاکھ کلوگرام بارود جتنی توانائی خارج ہوئی۔ پہلی کھیپ میں اس جیسے 150 تباہی کے سامان بنائے گئے تھے۔فیٹ مین کوناگاساکی گرانے والا پائلٹ چارلس سوینی تھا۔
6 اگست 1945 کی صبح آٹھ بجکر سولہ منٹ پر ”لٹل بوائے” نامی ایٹم بم نے جو قیامت ڈھائی اس نے پلک جھپکتے ہی نوے ہزار لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا۔کیونکہ ایٹم بم گرنے کے بعد سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں درجہ حرارت ایک لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔جس نے ہر شئے کو پگھلا کر رکھ دیا۔اور لمحوں میں پورا شہر ملیامیٹ ہوگیا۔انسان جل بھن کر راکھ،لاکھوں اپاہج بہت سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے۔دوسری جنگ عظیم کے شروع میں جاپان کے شہر ہیروشیما کی آبادی قریب تین لاکھ اکاسی ہزار تھی۔یہ شہر فوجی سازوسامان کے حوالے سے اہم شہر تھا۔اس وجہ سے جاپانی فوج نے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا انخلاء کیا۔اور حملے کے وقت یہاں آبادی تین لاکھ کے قریب تھی۔
صبح کے آٹھ بجکر پندرہ منٹ پر طیارے سے ایٹم بم زمین کے رخ چھوڑ دیا گیا۔ 43 سیکنڈ بعد انسانی تاریخ کا بہت بڑا دھماکہ ہوا۔یہ دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ فضا میں ساڑھے گیارہ میل بلندی پر اڑتا ہوا طیارہ بھی ہچکولے کھانے لگا۔ہر طرف تاریکی چھا گئی۔کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔سب کچھ سخت تپش سے پگھل چکا تھا۔نہ ہی فضا میں پرندے بچے اور نہ ہی زمین پر انسان و حیوان۔ جہاں پر ایٹم بم گرا وہاں پر اردگرد کسی عمارت کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔آگ نے ساڑھے چار میل تک کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔چونکہ ہر چیز تباہ و برباد ہو چکی تھی۔
کینسر اور لمبے عرصے تک بیماری سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد قریب دو لاکھ تک ہے۔ایٹمی حملے سے ساٹھ فیصد افراد آگ کے شعلوں سے جھلس کر ہلاک ہوئے،جبکہ تیس فیصد ملبہ گرنے اور دس فیصد دیگر وجوہات کی بناء پر موت کے منہ میں چلے گئے۔صرف تین دن کے وقفے سے یعنی نو اگست کو امریکہ نے جاپان کے شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹمی حملہ کیا جس میں قریب اسی ہزار لوگ مارے گئے۔ ہیروشما کی تباہی کے بعد امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کا کہنا تھا کہ اگر جاپان ہتھیار پھینکنے کے حوالے سے شرائط تسلیم نہیں کرتا تو ’وہ ہوا سے تباہی کی بارش کی توقع رکھے، ایسی جیسی دنیا میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی ہوگی۔
نو اگست سنہ 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان کے صنعتی شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا تھا۔
اس ایٹمی حملے کے چھ روز بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیے تھے۔
ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل گذشتہ تین روز میں ہیروشیما پر دنیا کے پہلے ایٹمی حملے میں کم از کم ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
نو اگست سنہ 1945 کو ناگاساکی پر گرانے جانے والے ایٹم بم کو امریکہ کی جانب سے ’فیٹ مین‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ بوکسکار نامی طیارے سے گرایا گیا جس نے ماریانا جزائر سے پرواز کی اور اس کے پائلٹ کا نام میجر جنرل چارلس سوینے تھا۔
ناگاساکی ابتدائی طور پر ایٹم بم سے نشانہ بنانے کے اہداف میں شامل نہیں تھا، اسے حملے سے محض دو ہفتے شامل کیا تھا۔
اس روز امریکی جانب سے کاکورا شہر کا نشانہ بنایا جانا تھا تاہم خراب موسمی حالات کی وجہ سے بوکسکار کا رخ ناگاساکی کی جانب موڑ دیا گیا۔
مقامی وقت کے مطابق پلوٹونیم سے لیس یہ بم ناگاساکی کی فضا میں 11 بج کر 2 سیکنڈ پر پھٹا تھا۔
امریکہ ایٹم بم کے استعمال کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی توجیح کے طور پر پیش کرتا ہے، اس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہونے والی فوجی اور شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اس کا استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ جاپان پہلے ہی ہتھیار پھیکنے کے لیے تیار تھا اور امریکہ کی جانب سے ایٹم بم محض اپنی فوجی برتری کے اظہار کے لیے گرائے گئے تھے۔
اس ایٹم بم نے ناگاساکی شہر کا تقریبا 30 فیصد حصہ تباہ کر دیا اور صنعتی علاقہ بالکل زمین بوس ہوگیا تھا۔
زندہ بچ جانے والے بیشتر افراد ہولناک زخموں کا شکار ہوئے تھے۔
ناگاساکی پر حملے کے بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیئے۔یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا۔
امریکی کی جانب سے کیے گئے دونوں حملوں کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی ملبے کا ڈھیر بن گئے جب کہ قریبی شہر بھی حملہ برداشت نہ کرسکے اور زمین بوس ہو گئے، دھماکے کی شدت 18 کلومیٹر تک محسوس کی گئی۔
حملوں میں مجموعی طور پر2 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں امریکا، برطانیہ اور ہالینڈ کے جنگی قیدی بھی شامل تھے جب کہ 2 لاکھ افراد زندگی بھر کیلئے ایٹمی شعاعوں کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ جنگ کے بعد امریکی فوجیوں کی طرف سے ہزاروں جاپانی لڑکیوں کی عزتیں لوٹی گئیں۔
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق ناگاساکی پہ ایٹمی حملے کی کچھ تصاویر ایک جاپانی فوٹوگرافر یوسوکے یاماہاتا نے بنائیں جو ایٹمی حملے کے اگلے روز ناگاساکی میں پہنچے تھے۔ یوسوکے یاماہاتا نے شہر کی لرزہ خیز بربادی کی متعدد تصاویر بنائیں لیکن یہ تصاویر امریکی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیں اور 70 سال تک کسی کو ان کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ یہ تصاویر امریکی جرنیل ڈگلس میک آرتھر کے خصوصی حکم پر جاپانی فوٹوگرافر سے چھینی گئی تھیں تاکہ امریکہ کے ظلم پر پردہ ڈالا جاسکے۔ اتفاق سے یاماہاتا ان تصاویر کے نیگیٹو چھپانے میں کامیاب ہوگیا اور بعد ازاں انہی نیگٹوز سے اس نے دوبارہ تصاویر بنا لیں، اور تباہی و بربادی کی 24 بھیانک تصاویر پر مشتمل یہ البم اب پہلی بار دنیا کے سامنے آگیا ہے۔
۔“ یاماہاتا کی تصاویر جاپان پر ٹوٹنے والی قیامت کی دل ہلادینے والی منظر کشی کرتی ہیں۔ ان تصاویر میں حملے کا نشانہ بننے والے جاپانی بچوں کے ڈھانچے نظر آتے ہیں جن کے اوپر سے گوشت پگھل چکا ہے۔ کچھ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی کھوپڑیاں بکھری پڑی ہیں جبکہ ان کے اندر سے گوشت اور دماغ پگھل کر باہر بہہ چکا ہے۔
اصل جگہ سے طویل مسافت پر واقع تھے، وہاں بھی لوگوں کی آنکھوں کا یہ حال تھا کہ گویا انہیں کھوپڑی سے باہر نکال دیا گیا ہو، ان کی آنکھوں کی بیرونی جلد مرغی کی چربی کی طرح زرد نظر آتی تھی۔ بینائی سے محروم ہوجانے والے یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھ آگے کی طرف پھیلا کر راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے نظر آتے تھے۔ تصاویر میں ناگاساکی شہر کی بربادی واضح نظر آتی ہے۔ میلوں دور تک صرف ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں جبکہ شہر کا آسمان گہرے دھویں کی تہہ میں لپٹا نظر آتا ہے۔
نسانی تاریخ میں ایٹم بم اسی امریکہ نے جاپان پر گرائے جو آج خود کو امن کا سب سے بڑا دعویدار گردانتا ہے، جس کے پاس روس کے بعد دنیا کے سب سے زیا دہ جوہری ہتھیار ہیں ایک طرف تخفیف اسلحہ کا ڈھونگ ہے لیکن ساتھ ساتھ یہی امریکہ نئے جوہری ہتھیاروں کے آئے روزتجربات کرتا رہتاہے ۔ اب تووہ جوہری ہتھیاروں سے کہیں آگے نکل کر لیزر ٹیکنا لوجی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔وہ دنیا کوتو NPTاورCTBT کی طرح کے معاہدوں میں جکڑنا چاہتا ہے تاہم اپنے آپ کواور اپنے لے پالک بچے اسرائیل کو ہر قسم کے معاہدے سے ممتازاور بالاتر رکھنا چاہتا ہے
گو کہ امریکہ کو پرل ہاربر پر ہونے والے حملے اور نقصانا ت کا بدلہ لینے کا پورا پورا حق حاصل تھا لیکن معصوم شہریوں پر ان بہیمانہ حملوں کا کوئی بھی جوازمہیا نہیں کیاجاسکتا ۔کیوں کہ جنگی قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ حملہ وہ کسی فوجی چھائونی ، ائر فورس کے کسی اڈے یا پھر نیول ہیڈ کواٹر پر کر دیتا تو شاید جاپانیوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کا درد رکھنے والے لوگ اسے برداشت کر لیتے لیکن معصوم شہریوں کی ہلاکت نے جاپانی قوم کے علاوہ بے شمار اہل دردلوگوں کو بھی رُلا رُلا دیا ۔
اس وقت جاپان بھی ایک جوہری طاقت ہوتا تو امریکہ جاپان پر جوہری حملہ تو کیا ایک عام حملہ کرنے کی بھی جسارت نہ کرتا۔ آج پاکستان کا جوہری پروگرام ہی وہ طاقت ہے جو انڈیا کو کسی بھی قسم کی پاکستان مخالف مہم جوئی سے روکے ہوئے ہے ۔اگر 1971میں پاکستان بھی ایک جوہری طاقت ہوتا تو بھارت کو کبھی بھی مشرقی پاکستان میں مداخلت کرنے اور اپنی فوجیں داخل کرنے کی ہمت نہ ہوتی ۔ خود جاپانی عہدیدار ان بھی جوہری طاقت کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور شمالی کوریا کے جوہری طاقت بننے کے بعد انہیںاس کی ضرورت کا اور بھی زیادہ احساس ہونے لگا ہے یہاں تک کہ صدر نکسن کے دور کے یہودی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے 1969میں کہا تھا کہ \\\"اسرائیل اور جاپان کے مستقبل کے تحفظ کے لئے (جوہری ) بم نہ رکھنے کی بجائے اس کا حصول زیادہ بہتر ہو گا ـ\\\" ۔ اگر ہنری کسنجر جاپان اور اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لئے جوہری ہتھیاروں کے حصول کا مشورہ دیتا ہے تو سعودی عرب اور ایرا ن کے متعلق اس کا کیا خیال ہے ؟کیا انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی ممکنہ اسرائیلی جنگی خطرے کے پیش نظر جوہری ٹیکنالوجی حاصل کریں ۔جو اصول اسرائیل کے لئے ہے وہ بھلا سعودی عرب اور ایران کے لئے کیوں نہیں ؟ آج اگر ایران اور شمالی کوریا کے علاوہ دوسری جوہری طاقتیں بھی ایٹمی تجربات کی راہ پرگامزن ہیں تو وہ صرف اور صرف مستقبل میں ہیرو شیما یاناگا ساکی جیسی ناگہانی صورت حال سے بچنے کے لئے ہی تو ایسا کرنا چاہتی ہیں ورنہ کون سا ایسا ملک ہو گا جسے اپنے عوام کا تحفظ عزیز نہ ہو ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کے ہر خطے کو \\\"Hiroshima\\\"اور \\\"Nagasaki\\\"جیسے کسی بھی المیے سے محفوظ و مامون رکھے اور جوہری طاقتو ں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی توفیق دے۔
قارئین یہ تھی جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پہ امریکہ کے ظالمانہ اور ایٹمی حملوں کی داستان جس میں لاکھوں انسان جل کر راکھ ہوگئے اور ہزاروں بھاپ بن کر اڑ گئے۔یہ وہ ظلم ہے جو انسانی تاریخ میں کسی قوم نے کسی قوم کے ساتھ نہیں کیا لیکن اسلام دشمن طبقے اور ملحدین کی زبانیں اسلام کے خلاف چلتی ہیں،یہاں ان کی زبانوں پہ فالج پڑ جاتا ہے،ان کی عقل اندھی ہوجاتی ہے۔ان کی نظر میں دنیا کی ساری برائی کی جڑ اسلام ہے لیکن انسانیت کے ان قاتلوں،ظالموں اور دہشت گردوں کے خلاف ان کی زبانیں گنگ رہتی ہیں۔اللٰہ تعالٰی انسانیت کے ان قاتلوں سے پوری انسانیت کو محفوظ رکھے۔آمین
حوالہ جات:
http://www.nawaiwaqt.com.pk/overseas/22-Aug-2010/63481
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/08/150809_japan_nagasaki_memorial_sh
https://www.express.pk/story/897599/
https://www.geourdu.com/hiroshima-nuclear-attack-war-usa-project/
http://dailypakistan.com.pk/daily-bites/23-Sep-2016/450195
No automatic alt text available.
No automatic alt text available.
No automatic alt text available.
Image may contain: plant and food
Image may contain: outdoor
پیشکش:
فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
6 اور 9 اگست 1945 کودوسری جنگ عظیم میں ایک انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا جو آج بھی تاریخ کا بدترین دن مانا جاتا ہے۔اس دن کو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان لوگوں کی جان لی۔ دوسری جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔آج اس دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسوں امڈ پڑتے ہیں کہ کیا ایسے انسان بھی ہوسکتے ہیں جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان منٹوں میں لے لیتا ہیں۔ اس واقعے نے پورے انسانیت کے دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت بگلنے لگا۔اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔ایٹم بم انسانیت کے لیے انتہائی تباہ کن ہے ۔جب بھی اس کا استعمال ہوا ہے ہمیشہ اس نے تباہی مجھائی ہے۔
اس دوران جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو(Hiro Heto)نے امریکہ کو یہ پیش کش کی تھی کہ اگر وہ جاپانی بادشاہت کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرے تو جاپان ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہے اس مفاہمت کو \\\"Peace Feeler\\\"کا نام بھی دیا گیا تاہم امریکیوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا ۔ امریکہ ایک طرف اپنے جوہری بموں کی عملی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہتا تھا تو دوسری طرف پرل ہاربرکا انتقام لینے کا تہیہ کئے بیٹھا تھا چنانچہ اس نے جوہری بم کے دھماکے کے محض 21دن کے بعد 6اگست 1945کو جاپان کے سب سے بڑے جزیرے \\\"Hanshu\\\"کے ساحلی شہر\\\"Hiroshima\\\" پر نو ہزار ٹن وزنی ایٹم بم اینولا گے (Anola Gay)بی 29 جہا ز کے ذریعے گرا دیا۔اس جہاز کا پائلٹ کرنل Paul Tibbetsتھا جس نے صبح آٹھ بج کرپندرہ منٹ پر تقریباً آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے معصوم شہریوں پر دنیا کا سب سے پہلا اور تباہ کن ایٹم بم پھینک دیا ۔اس بم کا کو ڈ نیم Little Boy\\\"ــ\\\"تھا اس کے گرتے ہی ستر ہزار کے قریب بے گنا ہ شہری موقع پر ہی دم توڑ گئے اور تقریباً ایک لاکھ کے قریب زخمی ہوئے اور ان میں سے اکثر بے چارے ناقا بل علاج زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ اس میں معصوم پھول جیسے بچے بھی شامل تھے اور لاچار و بے بس عورتیں ، بوڑھے اور نوجوان بھی شامل تھے۔
لٹل بوائے (Little Boy) جاپانی شہر ہیروشیما پر 6 اگست، 1945 کو ریاستہائے متحدہ امریکا کی طرف سے گرائے جانے والے ایٹم بم کا رمزی نام تھا۔ یہ صرف دو استعمال ہونے والے جوہری ہتھیاروں میں سے یہ پہلا بم تھا۔ جبکہ دوسرا فیٹ مین تھا جو ناگاساکی پر گرایا گیا تھا۔یہ پہلا یورینیم ساختہ بم تھا جس میں 64 کلو یورینیم کا استعمال ہوا تھا۔ اس کا دھماکا ایسا تھا گویا ایک کروڑ پچاس لاکھ کلوگرام بارود کا دھماکا کیا گیا ہو۔ لٹل بوائے نامی ایسے 36 بم بنائے گئے تھے۔
امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 اگست 1945 کو بی 29 بمبار طیاروں کی مدد سے جاپانی شہر ہیروشیما اور 9 اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیا، فضا میں ساڑھے نو کلو میٹر بلندی سے گرائے جانے والے ایٹم بم نے محض 44 سیکنڈ میں زمین پر پہنچ کر قیامت برپا کر دی۔
فیٹ مین (Fat Man) جاپانی شہر ناگاساکی پر 9 اگست، 1945 کو ریاستہائے متحدہ امریکا کی طرف سے گرائے جانے والے ایٹم بم کا رمزی نام تھا۔ یہ صرف دو استعمال ہونے والے جوہری ہتھیاروں میں سے یہ دوسرا بم تھا۔ جبکہ پہلا لٹل بوائے تھا جو ہیروشیما پر گرایا گیا تھا۔یہ پہلا پلوٹونیم ساختہ بم تھا اور اس میں صرف 4.6 کلو پلوٹونیم استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے دھماکے سے دو کروڑ دس لاکھ کلوگرام بارود جتنی توانائی خارج ہوئی۔ پہلی کھیپ میں اس جیسے 150 تباہی کے سامان بنائے گئے تھے۔فیٹ مین کوناگاساکی گرانے والا پائلٹ چارلس سوینی تھا۔
6 اگست 1945 کی صبح آٹھ بجکر سولہ منٹ پر ”لٹل بوائے” نامی ایٹم بم نے جو قیامت ڈھائی اس نے پلک جھپکتے ہی نوے ہزار لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا۔کیونکہ ایٹم بم گرنے کے بعد سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں درجہ حرارت ایک لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔جس نے ہر شئے کو پگھلا کر رکھ دیا۔اور لمحوں میں پورا شہر ملیامیٹ ہوگیا۔انسان جل بھن کر راکھ،لاکھوں اپاہج بہت سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے۔دوسری جنگ عظیم کے شروع میں جاپان کے شہر ہیروشیما کی آبادی قریب تین لاکھ اکاسی ہزار تھی۔یہ شہر فوجی سازوسامان کے حوالے سے اہم شہر تھا۔اس وجہ سے جاپانی فوج نے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا انخلاء کیا۔اور حملے کے وقت یہاں آبادی تین لاکھ کے قریب تھی۔
صبح کے آٹھ بجکر پندرہ منٹ پر طیارے سے ایٹم بم زمین کے رخ چھوڑ دیا گیا۔ 43 سیکنڈ بعد انسانی تاریخ کا بہت بڑا دھماکہ ہوا۔یہ دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ فضا میں ساڑھے گیارہ میل بلندی پر اڑتا ہوا طیارہ بھی ہچکولے کھانے لگا۔ہر طرف تاریکی چھا گئی۔کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔سب کچھ سخت تپش سے پگھل چکا تھا۔نہ ہی فضا میں پرندے بچے اور نہ ہی زمین پر انسان و حیوان۔ جہاں پر ایٹم بم گرا وہاں پر اردگرد کسی عمارت کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔آگ نے ساڑھے چار میل تک کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔چونکہ ہر چیز تباہ و برباد ہو چکی تھی۔
کینسر اور لمبے عرصے تک بیماری سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد قریب دو لاکھ تک ہے۔ایٹمی حملے سے ساٹھ فیصد افراد آگ کے شعلوں سے جھلس کر ہلاک ہوئے،جبکہ تیس فیصد ملبہ گرنے اور دس فیصد دیگر وجوہات کی بناء پر موت کے منہ میں چلے گئے۔صرف تین دن کے وقفے سے یعنی نو اگست کو امریکہ نے جاپان کے شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹمی حملہ کیا جس میں قریب اسی ہزار لوگ مارے گئے۔ ہیروشما کی تباہی کے بعد امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کا کہنا تھا کہ اگر جاپان ہتھیار پھینکنے کے حوالے سے شرائط تسلیم نہیں کرتا تو ’وہ ہوا سے تباہی کی بارش کی توقع رکھے، ایسی جیسی دنیا میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی ہوگی۔
نو اگست سنہ 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان کے صنعتی شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا تھا۔
اس ایٹمی حملے کے چھ روز بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیے تھے۔
ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل گذشتہ تین روز میں ہیروشیما پر دنیا کے پہلے ایٹمی حملے میں کم از کم ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
نو اگست سنہ 1945 کو ناگاساکی پر گرانے جانے والے ایٹم بم کو امریکہ کی جانب سے ’فیٹ مین‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ بوکسکار نامی طیارے سے گرایا گیا جس نے ماریانا جزائر سے پرواز کی اور اس کے پائلٹ کا نام میجر جنرل چارلس سوینے تھا۔
ناگاساکی ابتدائی طور پر ایٹم بم سے نشانہ بنانے کے اہداف میں شامل نہیں تھا، اسے حملے سے محض دو ہفتے شامل کیا تھا۔
اس روز امریکی جانب سے کاکورا شہر کا نشانہ بنایا جانا تھا تاہم خراب موسمی حالات کی وجہ سے بوکسکار کا رخ ناگاساکی کی جانب موڑ دیا گیا۔
مقامی وقت کے مطابق پلوٹونیم سے لیس یہ بم ناگاساکی کی فضا میں 11 بج کر 2 سیکنڈ پر پھٹا تھا۔
امریکہ ایٹم بم کے استعمال کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی توجیح کے طور پر پیش کرتا ہے، اس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہونے والی فوجی اور شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اس کا استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ جاپان پہلے ہی ہتھیار پھیکنے کے لیے تیار تھا اور امریکہ کی جانب سے ایٹم بم محض اپنی فوجی برتری کے اظہار کے لیے گرائے گئے تھے۔
اس ایٹم بم نے ناگاساکی شہر کا تقریبا 30 فیصد حصہ تباہ کر دیا اور صنعتی علاقہ بالکل زمین بوس ہوگیا تھا۔
زندہ بچ جانے والے بیشتر افراد ہولناک زخموں کا شکار ہوئے تھے۔
ناگاساکی پر حملے کے بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیئے۔یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا۔
امریکی کی جانب سے کیے گئے دونوں حملوں کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی ملبے کا ڈھیر بن گئے جب کہ قریبی شہر بھی حملہ برداشت نہ کرسکے اور زمین بوس ہو گئے، دھماکے کی شدت 18 کلومیٹر تک محسوس کی گئی۔
حملوں میں مجموعی طور پر2 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں امریکا، برطانیہ اور ہالینڈ کے جنگی قیدی بھی شامل تھے جب کہ 2 لاکھ افراد زندگی بھر کیلئے ایٹمی شعاعوں کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ جنگ کے بعد امریکی فوجیوں کی طرف سے ہزاروں جاپانی لڑکیوں کی عزتیں لوٹی گئیں۔
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق ناگاساکی پہ ایٹمی حملے کی کچھ تصاویر ایک جاپانی فوٹوگرافر یوسوکے یاماہاتا نے بنائیں جو ایٹمی حملے کے اگلے روز ناگاساکی میں پہنچے تھے۔ یوسوکے یاماہاتا نے شہر کی لرزہ خیز بربادی کی متعدد تصاویر بنائیں لیکن یہ تصاویر امریکی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیں اور 70 سال تک کسی کو ان کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ یہ تصاویر امریکی جرنیل ڈگلس میک آرتھر کے خصوصی حکم پر جاپانی فوٹوگرافر سے چھینی گئی تھیں تاکہ امریکہ کے ظلم پر پردہ ڈالا جاسکے۔ اتفاق سے یاماہاتا ان تصاویر کے نیگیٹو چھپانے میں کامیاب ہوگیا اور بعد ازاں انہی نیگٹوز سے اس نے دوبارہ تصاویر بنا لیں، اور تباہی و بربادی کی 24 بھیانک تصاویر پر مشتمل یہ البم اب پہلی بار دنیا کے سامنے آگیا ہے۔
۔“ یاماہاتا کی تصاویر جاپان پر ٹوٹنے والی قیامت کی دل ہلادینے والی منظر کشی کرتی ہیں۔ ان تصاویر میں حملے کا نشانہ بننے والے جاپانی بچوں کے ڈھانچے نظر آتے ہیں جن کے اوپر سے گوشت پگھل چکا ہے۔ کچھ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی کھوپڑیاں بکھری پڑی ہیں جبکہ ان کے اندر سے گوشت اور دماغ پگھل کر باہر بہہ چکا ہے۔
اصل جگہ سے طویل مسافت پر واقع تھے، وہاں بھی لوگوں کی آنکھوں کا یہ حال تھا کہ گویا انہیں کھوپڑی سے باہر نکال دیا گیا ہو، ان کی آنکھوں کی بیرونی جلد مرغی کی چربی کی طرح زرد نظر آتی تھی۔ بینائی سے محروم ہوجانے والے یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھ آگے کی طرف پھیلا کر راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے نظر آتے تھے۔ تصاویر میں ناگاساکی شہر کی بربادی واضح نظر آتی ہے۔ میلوں دور تک صرف ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں جبکہ شہر کا آسمان گہرے دھویں کی تہہ میں لپٹا نظر آتا ہے۔
نسانی تاریخ میں ایٹم بم اسی امریکہ نے جاپان پر گرائے جو آج خود کو امن کا سب سے بڑا دعویدار گردانتا ہے، جس کے پاس روس کے بعد دنیا کے سب سے زیا دہ جوہری ہتھیار ہیں ایک طرف تخفیف اسلحہ کا ڈھونگ ہے لیکن ساتھ ساتھ یہی امریکہ نئے جوہری ہتھیاروں کے آئے روزتجربات کرتا رہتاہے ۔ اب تووہ جوہری ہتھیاروں سے کہیں آگے نکل کر لیزر ٹیکنا لوجی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔وہ دنیا کوتو NPTاورCTBT کی طرح کے معاہدوں میں جکڑنا چاہتا ہے تاہم اپنے آپ کواور اپنے لے پالک بچے اسرائیل کو ہر قسم کے معاہدے سے ممتازاور بالاتر رکھنا چاہتا ہے
گو کہ امریکہ کو پرل ہاربر پر ہونے والے حملے اور نقصانا ت کا بدلہ لینے کا پورا پورا حق حاصل تھا لیکن معصوم شہریوں پر ان بہیمانہ حملوں کا کوئی بھی جوازمہیا نہیں کیاجاسکتا ۔کیوں کہ جنگی قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ حملہ وہ کسی فوجی چھائونی ، ائر فورس کے کسی اڈے یا پھر نیول ہیڈ کواٹر پر کر دیتا تو شاید جاپانیوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کا درد رکھنے والے لوگ اسے برداشت کر لیتے لیکن معصوم شہریوں کی ہلاکت نے جاپانی قوم کے علاوہ بے شمار اہل دردلوگوں کو بھی رُلا رُلا دیا ۔
اس وقت جاپان بھی ایک جوہری طاقت ہوتا تو امریکہ جاپان پر جوہری حملہ تو کیا ایک عام حملہ کرنے کی بھی جسارت نہ کرتا۔ آج پاکستان کا جوہری پروگرام ہی وہ طاقت ہے جو انڈیا کو کسی بھی قسم کی پاکستان مخالف مہم جوئی سے روکے ہوئے ہے ۔اگر 1971میں پاکستان بھی ایک جوہری طاقت ہوتا تو بھارت کو کبھی بھی مشرقی پاکستان میں مداخلت کرنے اور اپنی فوجیں داخل کرنے کی ہمت نہ ہوتی ۔ خود جاپانی عہدیدار ان بھی جوہری طاقت کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور شمالی کوریا کے جوہری طاقت بننے کے بعد انہیںاس کی ضرورت کا اور بھی زیادہ احساس ہونے لگا ہے یہاں تک کہ صدر نکسن کے دور کے یہودی امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے 1969میں کہا تھا کہ \\\"اسرائیل اور جاپان کے مستقبل کے تحفظ کے لئے (جوہری ) بم نہ رکھنے کی بجائے اس کا حصول زیادہ بہتر ہو گا ـ\\\" ۔ اگر ہنری کسنجر جاپان اور اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لئے جوہری ہتھیاروں کے حصول کا مشورہ دیتا ہے تو سعودی عرب اور ایرا ن کے متعلق اس کا کیا خیال ہے ؟کیا انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی ممکنہ اسرائیلی جنگی خطرے کے پیش نظر جوہری ٹیکنالوجی حاصل کریں ۔جو اصول اسرائیل کے لئے ہے وہ بھلا سعودی عرب اور ایران کے لئے کیوں نہیں ؟ آج اگر ایران اور شمالی کوریا کے علاوہ دوسری جوہری طاقتیں بھی ایٹمی تجربات کی راہ پرگامزن ہیں تو وہ صرف اور صرف مستقبل میں ہیرو شیما یاناگا ساکی جیسی ناگہانی صورت حال سے بچنے کے لئے ہی تو ایسا کرنا چاہتی ہیں ورنہ کون سا ایسا ملک ہو گا جسے اپنے عوام کا تحفظ عزیز نہ ہو ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کے ہر خطے کو \\\"Hiroshima\\\"اور \\\"Nagasaki\\\"جیسے کسی بھی المیے سے محفوظ و مامون رکھے اور جوہری طاقتو ں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی توفیق دے۔
قارئین یہ تھی جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پہ امریکہ کے ظالمانہ اور ایٹمی حملوں کی داستان جس میں لاکھوں انسان جل کر راکھ ہوگئے اور ہزاروں بھاپ بن کر اڑ گئے۔یہ وہ ظلم ہے جو انسانی تاریخ میں کسی قوم نے کسی قوم کے ساتھ نہیں کیا لیکن اسلام دشمن طبقے اور ملحدین کی زبانیں اسلام کے خلاف چلتی ہیں،یہاں ان کی زبانوں پہ فالج پڑ جاتا ہے،ان کی عقل اندھی ہوجاتی ہے۔ان کی نظر میں دنیا کی ساری برائی کی جڑ اسلام ہے لیکن انسانیت کے ان قاتلوں،ظالموں اور دہشت گردوں کے خلاف ان کی زبانیں گنگ رہتی ہیں۔اللٰہ تعالٰی انسانیت کے ان قاتلوں سے پوری انسانیت کو محفوظ رکھے۔آمین
حوالہ جات:
http://www.nawaiwaqt.com.pk/overseas/22-Aug-2010/63481
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/08/150809_japan_nagasaki_memorial_sh
https://www.express.pk/story/897599/
https://www.geourdu.com/hiroshima-nuclear-attack-war-usa-project/
http://dailypakistan.com.pk/daily-bites/23-Sep-2016/450195
No automatic alt text available.
No automatic alt text available.
No automatic alt text available.
Image may contain: plant and food
Image may contain: outdoor
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔