کشش ثقل کی طلسماتی لہریں
حصہ اول
حاصل شدہ معلومات کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری کائنات بھی اصولوں کی قید سے آزاد نہیں، پوری کائنات ایک نظام کے ماتحت کام کررہی ہے اسی خاطر بہت سے سائنسی انکشافات جو کہ آج سےسو سال پہلے ٹیکنالوجی کی کمی کے باوجود محض اعداد و شمار کی بنا پر کیے گئے ، آج جدید سائنس ان پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہے ، لیکن اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اُس وقت لوگ سائنسدانوں کے اُن دعوؤں پر ہنستے تھے ۔ اسی وجہ سے جب البرٹ آئن سٹائن نے اپنا مشہورِ زمانہ عمومی نظریہ اضافت اور خصوصی نظریہ اضافت مکمل کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا تو دنیا میں چند افراد ہی تھے جو اِس کے اِس نظریے کو صحیح طرح سمجھ پائے جبکہ دیگر نے اس کو اہمیت نہ دی۔ اسی خاطر جب البرٹ آئن سٹائن کی چارلی چپلن سے مُلاقات ہوئی تو انہوں نے چارلی چپلن سے کہا :"میں آپ کے فن کا اس لئے قائل ہوں کہ آپ کے ایک حرف بھی نہ کہنے کے باوجود پوری دنیا سمجھ جاتی ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں"جس کے جواب میں چارلی چپلن نے کہا :"آپ کی بات ٹھیک ہے مگر اس معاملے میں آپ مجھ سے زیادہ بہترہیں کیونکہ پوری دنیا آپ کی بات کو نہیں سمجھ پاتی لیکن اس کے باوجود آپ کے کہے کا اعتراف کرتی ہے "۔آج بھی فلکیات کے چاہنے والے کائنات کے ان سربستہ رازوں کی کھوج میں ہمہ وقت مصروف ہیں جن کا انکشاف سو سال پہلے سائنسدان کرچکے ہیں، کشش ثقل کی لہریں (Gravitational waves)انہی رازوں کی ایک کڑی ہے ۔20ویں صدی میں نظریہ اضافت نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ۔ اس نے کائنات کے structureکو سمجھنے میں مدد فراہم کی ، ہمیں معلوم ہوا کہ کائنات دراصل ٹائم اور سپیس کے بُنے ہوئے جالوں پر مشتمل ہے ، اور یہ زمان و مکاں کی چادر انتہائی لچکدار ہے، کشش ثقل کا وجود بھی اسی زمان و مکاں کی چادر میں پڑنے والے گڑھوں کے باعث ہے، اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ فرض کریں ایک چادر کو چاروں کونوں سے باندھ دیا جائے اس چادر کو ہم زمان و مکاں کی چادر مان لیتے ہیں اس میں اگر کوئی وزنی پتھر یا لوہے کی گیند کو پھینکا جائے گا تو یہ لوہے کی گیند/وزنی پتھر اس چادر میں دباؤ پیدا کرے گا اور ایک گڑھا بنا دے گا، جب یہی لوہے کی گیند/وزنی پتھر حرکت کرے گا تو اس چادر میں vibration پیدا کرے گا جو پوری چادر میں محسوس کی جائیں گیں، بالکل اسی طرح سورج ، چاند، زمین اور دیگر اجسام کائنات کی ٹائم سپیس کی چادر میں گڑھے بنا دیتے ہیں، جو جسم جتنے زیادہ ماس کا حامل ہوگا اس کا گڑھابھی اتنا گہرا ہوگااور زیادہ دُور تک اس کے اثرات ہونگے، زمین سورج کے پیدا کردہ گڑھے میں گھوم رہی ہے ، جبکہ چاند زمین کے پیداکردہ گڑھے میں چکر کاٹ رہا ہے، اسی طرح جب کوئی چیز ٹائم سپیس کی اس چادر میں حرکت کرتی ہے تو زمان و مکاں کی چادر میں تھرتھراہٹ محسوس ہوتی ہے اور لہریں پیدا ہوتی ہیں، ان لہروں کا ذکر سب سے پہلے ہنری پوئن کئیر نے 1906ء میں کیا ، اس کے بعد آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافت میں اس کا ذکر کیا ،چونکہ ان لہروں کی دریافت انتہائی مشکل کام تھا جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ ایسی کسی لہرکا وجود نہیں اور آئن سٹائن سے غلطی ہوگئی ہے ، لیکن پھر 20ویں صدی کے وسط میں آئن سٹائن کے اِس نظریے پر تحقیق کے بعد سائنسدان نتیجے پر پہنچے کہ کششِ ثقل کی لہروں میں توانائی موجود ہوتی ہے جس کے باعث یہ معلوم ہوا کہ ان کو دریافت کیاجاسکتاہے، لیکن اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو دریافت کیسے کیا جائے ۔ ان کی کھوج لگانے سے قبل ہمیں یہ تحقیق کرنی ہوگی کہ یہ دِکھتی کیسی ہیں؟ فرض کیجئے کہ آپ ایک بلند و بالا عمارت پر کھڑے کسی حسین شہر کا نظارہ کررہے ہیں لیکن اچانک سے پل بھر کے لئے آپ کو یوں لگا جیسے پورے کا پورا شہر زمین سے اٹھ کر عمارت کے برابر اونچا ہوگیا ہے ،اسی سے اگلے لمحے سُکڑ کر چھوٹے سے قصبے جتنا ہوگیا ہے اور اس کے فوراً بعد سب کچھ اپنی اصل حالت میں واپس آگیا ہے تو یقیناً آپ اسے نظر کا دھوکا سمجھیں گے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک کشش ثقل کی آوارہ لہر کہیں دُور سے آتی ہوئی پل بھر میں اس شہر کی زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں ڈالتی گزر گئی جس کے باعث آپ کو یہ "جادُوئی منظر "دیکھنے کو ملا۔ کششِ ثقل کی لہریں زمان و مکاں میں طوفان برپا کرتی آگےبڑھتی رہتی ہیں ،ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے۔ ان کی شدت سفر کرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے ، ان کی شدت کا دارو مدار کسی بھی شے کے ماس پر ہوتا ہے، سورج سے لاکھوں گنا بڑے ستارے کے حرکت کرنے سے بڑی لہریں پیدا ہوتی ہیں جبکہ چھوٹی اشیاء کی حرکت سے انتہائی چھوٹی ناقابلِ مشاہدہ لہریں پیداہوتیں ہیں، کشش ثقل کی یہ لہریں ہر وقت کائنات میں ہر حرکت کرتی شے سے پیدا ہورہی ہے مگر ان کی شدت اس حد تک کم ہوتی ہے کہ اس کا دیدارکرنا ناممکن ہوتاہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی میلے میں آپ موجود ہوں تو وہاں پر موجود آوازوں کی وجہ سے آپ معلوم نہیں کرپائیں گے کہ کونسی آواز کہاں سے آرہی ہے لیکن اگر اُسی وقت کوئی شخص اونچی آواز میں لاؤڈ سپیکر پر بولے گا تو آواز کی شدت زیادہ ہونے کے باعث سب کو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ فلاں جگہ سے یہ آواز آرہی ہے ۔ بالکل اسی طرح کشش ثقل کی لہریں ہمہ وقت کائنات میں موجود رہتی ہیں مگر جب کوئی 2 انتہائی بڑے ستارے آپس میں ٹکراتے ہیں تب ان لہروں کو حساس آلات کی مدد سے نوٹ کیا جا سکتا ہے ۔ (جاری ہے)
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
#گریوٹیشنل_ویوز #کشش_ثقل_کی_لہریں #GravitationalWaves #Gravity #AlbertEinstein
حصہ اول
حاصل شدہ معلومات کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری کائنات بھی اصولوں کی قید سے آزاد نہیں، پوری کائنات ایک نظام کے ماتحت کام کررہی ہے اسی خاطر بہت سے سائنسی انکشافات جو کہ آج سےسو سال پہلے ٹیکنالوجی کی کمی کے باوجود محض اعداد و شمار کی بنا پر کیے گئے ، آج جدید سائنس ان پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہے ، لیکن اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اُس وقت لوگ سائنسدانوں کے اُن دعوؤں پر ہنستے تھے ۔ اسی وجہ سے جب البرٹ آئن سٹائن نے اپنا مشہورِ زمانہ عمومی نظریہ اضافت اور خصوصی نظریہ اضافت مکمل کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا تو دنیا میں چند افراد ہی تھے جو اِس کے اِس نظریے کو صحیح طرح سمجھ پائے جبکہ دیگر نے اس کو اہمیت نہ دی۔ اسی خاطر جب البرٹ آئن سٹائن کی چارلی چپلن سے مُلاقات ہوئی تو انہوں نے چارلی چپلن سے کہا :"میں آپ کے فن کا اس لئے قائل ہوں کہ آپ کے ایک حرف بھی نہ کہنے کے باوجود پوری دنیا سمجھ جاتی ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں"جس کے جواب میں چارلی چپلن نے کہا :"آپ کی بات ٹھیک ہے مگر اس معاملے میں آپ مجھ سے زیادہ بہترہیں کیونکہ پوری دنیا آپ کی بات کو نہیں سمجھ پاتی لیکن اس کے باوجود آپ کے کہے کا اعتراف کرتی ہے "۔آج بھی فلکیات کے چاہنے والے کائنات کے ان سربستہ رازوں کی کھوج میں ہمہ وقت مصروف ہیں جن کا انکشاف سو سال پہلے سائنسدان کرچکے ہیں، کشش ثقل کی لہریں (Gravitational waves)انہی رازوں کی ایک کڑی ہے ۔20ویں صدی میں نظریہ اضافت نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ۔ اس نے کائنات کے structureکو سمجھنے میں مدد فراہم کی ، ہمیں معلوم ہوا کہ کائنات دراصل ٹائم اور سپیس کے بُنے ہوئے جالوں پر مشتمل ہے ، اور یہ زمان و مکاں کی چادر انتہائی لچکدار ہے، کشش ثقل کا وجود بھی اسی زمان و مکاں کی چادر میں پڑنے والے گڑھوں کے باعث ہے، اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ فرض کریں ایک چادر کو چاروں کونوں سے باندھ دیا جائے اس چادر کو ہم زمان و مکاں کی چادر مان لیتے ہیں اس میں اگر کوئی وزنی پتھر یا لوہے کی گیند کو پھینکا جائے گا تو یہ لوہے کی گیند/وزنی پتھر اس چادر میں دباؤ پیدا کرے گا اور ایک گڑھا بنا دے گا، جب یہی لوہے کی گیند/وزنی پتھر حرکت کرے گا تو اس چادر میں vibration پیدا کرے گا جو پوری چادر میں محسوس کی جائیں گیں، بالکل اسی طرح سورج ، چاند، زمین اور دیگر اجسام کائنات کی ٹائم سپیس کی چادر میں گڑھے بنا دیتے ہیں، جو جسم جتنے زیادہ ماس کا حامل ہوگا اس کا گڑھابھی اتنا گہرا ہوگااور زیادہ دُور تک اس کے اثرات ہونگے، زمین سورج کے پیدا کردہ گڑھے میں گھوم رہی ہے ، جبکہ چاند زمین کے پیداکردہ گڑھے میں چکر کاٹ رہا ہے، اسی طرح جب کوئی چیز ٹائم سپیس کی اس چادر میں حرکت کرتی ہے تو زمان و مکاں کی چادر میں تھرتھراہٹ محسوس ہوتی ہے اور لہریں پیدا ہوتی ہیں، ان لہروں کا ذکر سب سے پہلے ہنری پوئن کئیر نے 1906ء میں کیا ، اس کے بعد آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافت میں اس کا ذکر کیا ،چونکہ ان لہروں کی دریافت انتہائی مشکل کام تھا جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ ایسی کسی لہرکا وجود نہیں اور آئن سٹائن سے غلطی ہوگئی ہے ، لیکن پھر 20ویں صدی کے وسط میں آئن سٹائن کے اِس نظریے پر تحقیق کے بعد سائنسدان نتیجے پر پہنچے کہ کششِ ثقل کی لہروں میں توانائی موجود ہوتی ہے جس کے باعث یہ معلوم ہوا کہ ان کو دریافت کیاجاسکتاہے، لیکن اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو دریافت کیسے کیا جائے ۔ ان کی کھوج لگانے سے قبل ہمیں یہ تحقیق کرنی ہوگی کہ یہ دِکھتی کیسی ہیں؟ فرض کیجئے کہ آپ ایک بلند و بالا عمارت پر کھڑے کسی حسین شہر کا نظارہ کررہے ہیں لیکن اچانک سے پل بھر کے لئے آپ کو یوں لگا جیسے پورے کا پورا شہر زمین سے اٹھ کر عمارت کے برابر اونچا ہوگیا ہے ،اسی سے اگلے لمحے سُکڑ کر چھوٹے سے قصبے جتنا ہوگیا ہے اور اس کے فوراً بعد سب کچھ اپنی اصل حالت میں واپس آگیا ہے تو یقیناً آپ اسے نظر کا دھوکا سمجھیں گے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک کشش ثقل کی آوارہ لہر کہیں دُور سے آتی ہوئی پل بھر میں اس شہر کی زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں ڈالتی گزر گئی جس کے باعث آپ کو یہ "جادُوئی منظر "دیکھنے کو ملا۔ کششِ ثقل کی لہریں زمان و مکاں میں طوفان برپا کرتی آگےبڑھتی رہتی ہیں ،ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے۔ ان کی شدت سفر کرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے ، ان کی شدت کا دارو مدار کسی بھی شے کے ماس پر ہوتا ہے، سورج سے لاکھوں گنا بڑے ستارے کے حرکت کرنے سے بڑی لہریں پیدا ہوتی ہیں جبکہ چھوٹی اشیاء کی حرکت سے انتہائی چھوٹی ناقابلِ مشاہدہ لہریں پیداہوتیں ہیں، کشش ثقل کی یہ لہریں ہر وقت کائنات میں ہر حرکت کرتی شے سے پیدا ہورہی ہے مگر ان کی شدت اس حد تک کم ہوتی ہے کہ اس کا دیدارکرنا ناممکن ہوتاہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی میلے میں آپ موجود ہوں تو وہاں پر موجود آوازوں کی وجہ سے آپ معلوم نہیں کرپائیں گے کہ کونسی آواز کہاں سے آرہی ہے لیکن اگر اُسی وقت کوئی شخص اونچی آواز میں لاؤڈ سپیکر پر بولے گا تو آواز کی شدت زیادہ ہونے کے باعث سب کو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ فلاں جگہ سے یہ آواز آرہی ہے ۔ بالکل اسی طرح کشش ثقل کی لہریں ہمہ وقت کائنات میں موجود رہتی ہیں مگر جب کوئی 2 انتہائی بڑے ستارے آپس میں ٹکراتے ہیں تب ان لہروں کو حساس آلات کی مدد سے نوٹ کیا جا سکتا ہے ۔ (جاری ہے)
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
#گریوٹیشنل_ویوز #کشش_ثقل_کی_لہریں #GravitationalWaves #Gravity #AlbertEinstein
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔