قرآن اور جدید سائنس دسویں قسط
جمع و ترتیب ۔ ۔ ۔ ۔ اسرار احمد صدیقی
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔
بحریات (Ocean logy)
میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ
مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ﴾ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚسورۃ الرحمٰن، آیت 19-20﴾
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی انکے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکائوٹ یا آڑ (partition ) کے ہے۔ تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے ۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتاہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لئے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموںسے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دومختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں انکے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکائوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت ، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ مظہر درج ذیل آیت قرآنی میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
وَ جَعَلَ بَیۡنَ الۡبَحۡرَیۡنِ حَاجِزًا ؕ [سورۃ النمل، آیت 61]
ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردئیے۔
یہ مظہر متعدد مقامات پر وقوع پزیر ہوتا ہے جن میں جبل الطارق (جبرالٹر) کے علاقے میں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے ملنے کا مقام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح کیپ پوائنٹ اور کیپ پینسولا جنوبی افریقہ میں بھی (پانی کے بیچ) ایک سفید پٹی واضح طور دیکھی جاسکتی ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے۔
لیکن جب قرآن پاک تازہ اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ (آڑ) کا تذکرہ کرتا ہے تو اس آڑ کے ساتھ ایک ممنوعہ علاقے کے بارے میں بھی بتاتا ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ ہٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ وَّ ہٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ۚ وَ جَعَلَ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخًا وَّ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا ﴿سورۃ الفرقان، آیت 53﴾
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا کر رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی (سمندری) مقامات پر جہاں (دریا کا)تازہ (میٹھا) اور (سمندرکا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندروں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت کہ کھاڑیوں (سمندر کا شاخ) میں تازہ پانی کو کھاری پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ پایکنو کلائن زون (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی ہے (یعنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے) جو (کھاری اور تازہ پانی کی) مختلف پرتوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔
اس رکاوٹ (یعنی علاقہ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تنا سب (شوریت) تازہ پانی اور کھاری پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل بحیرہ روم میں گرتا ہے۔
قرآن پاک میں بیان کئے گئے ان سائنسی مظاہر کی تصدیق ڈاکٹر ولیم ہے' (Dr. William Hay) نے بھی کی ہے، جو کولوراڈو یونیورسٹی امریکہ کے مشہور ماہر بحریات اور علوم ارضی کے پروفیسر ہیں۔
سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا
پروفیسر درگارائو (Darga Rao) دنیا کے جانے پہچانے ماہربحری ارضیات ہیں اور وہ شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی ، جدہ (سعودی عرب) میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے درج ذیل آیت مبارکہ پر تبصرہ کرنے کے لئے کہاگیا۔
ا اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿سورۃ النور، آیت 40﴾
ترجمہ:۔ یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہوجس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو ۔اسکے اوپر ایک اور موج آرہی ہو اور اسکے اوپر بادل ہو، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ اللہ جسے نور نہ بخشے اس کے لئے پھر کوئی نور نہیں۔
پروفیسر رائونے کہا کہ سائنس دان صرف حال ہی میںجدید آلات کی مدد سے یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ 20یا 30میٹر سے زیادہ گہرائی میں اضافی سازو سامان اور آلات سے لیس ہوئے بغیر غوطہ لگا سکے ۔ علائو ازیں ، انسانی جسم میں اتنی قوت برداشت نہیں کہ جو 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں پڑنے والے آبی دبائو کا سامنا کرتے ہوئے زندہ بھی رہ سکے۔ یہ آیت تمام سمندروں کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ ہر سمندر کو پرت در پرت تاریکی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ یہ آیت مبارک بطور خاص گہرے سمندروں کی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی اس آیت میں بھی وسیع اور گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ دیا گیا ہے، گہرے سمندر کی یہ تہہ در تہہ تاریکی دو اسباب کا نتیجہ ہے ۔
1۔ عام روشنی کی ایک شعاع سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ سات رنگ با ترتیب ، بنفشی ، کاسنی، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی اور سرخ ہے۔ روشنی کی شعاع جب پانی میں داخل ہوتی ہے تو انعطاف (Refrection) کے عمل سے گزرتی ہے اوپر کے دس سے پندرہ میٹر کے دوان پانی میں سرخ رنگ جذب ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر کوئی غوطہ خود پانی میں پچیس میٹر کی گہرائی تک جا پہنچے اور زخمی ہو جائے تو وہ اپنے خون میں سرخی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ سرخ رنگ کی روشنی اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح 30سے 50میٹر تک کی گہرائی تک آتے آتے نارنجی روشنی بھی مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے۔ پیلی روشنی 50 سے 110میٹر تک ، سبز روشنی 100سے 200میٹر تک، نیلی روشنی 200میٹر سے کچھ زیادہ تک جبکہ کاسنی اور بنفشی روشنی اس سے بھی کچھ زیادہ گہرائی تک پہنچتے پہنچتے مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہیں۔ پانی میںرنگوں کے اس طرح ترتیب وار غائب ہونے کی وجہ سے سمندر بھی تہہ در تہہ کرکے باریک ہوتا چلا جاتا ہے ، یعنی اندھیرے کا ظہور بھی روشنی کی پر توں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ 1000میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے۔
2۔ دھوپ کی شعاعیں بادلوں میں جذب ہوتی ہیں۔ جو نسبتاً روشنی کی شعا عوں کو اِدھر اُدھربکھیرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بادلوں کے نیچے تاریکی کی ایک پرت (تہہ) سی بن جاتی ہے۔ یہ تاریکی کی پہلی پرت ہے جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو وہ (سمندری) لہروں کی سطح سے ٹکرا کر پلٹتی ہیںاور جگمگانے کا ساتاثردیتی ہیں ، لہٰذا یہ (سمندری) لہریں ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں تاریکی کی وجہ بنتی ہیں۔ غیر منعکس شدہ روشنی ، سمندر کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ لہٰذا سمندر کے دو حصّے ہوئے ، سطح کی امتیازی علامت روشنی اور گرمی ہیں۔ جب کہ اندھیرا سمندری گہرائیوں کی وجہ سے ہے۔ علاوہ ازیں گہرے سمندر اور سطح سمندر کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والی چیز بھی لہریں ہی ہیں۔
اندرونی موجیں سمندر کے گہرے پانیوں کا احاطہ کرتی ہیں کیونکہ گہرے پانیوں کی کثافت اپنے اوپر موجود کم گہرائی والے پانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اندرونی پانیوں میں تاریکی کا راج ہوتا ہے ۔ سمندر کی اتنی گہرائی میں مچھلیاں بھی نہیں دیکھ سکتیں ۔روشنی کا واحد ذریعہ خود انکے جسم ہوتے ہیں۔
اسی بات کو قرآن پاک نہایت جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔
ترجمہ:۔ مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں, جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھاہو۔ بالفاظ دیگر ان لہروں کے اوپر مزید اقسام کی لہریں ہیں یعنی وہ لہریں جو سمندر کی سطح پر پائی جائیں۔ اسی تسلسل میں یہ آیت مبارکہ فرماتی ہے۔پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غرض اندھیروں میں جواوپر تلے پے درپے ہیں۔ جیسا کہ وضاحت کی گئی یہ بادل وہ پے در پے رکاوٹیں ہیں ۔ جو مختلف سطحوں پر روشنی کے مختلف رنگ جذب کرتے ہوئے اندھیرے کو بڑھا وا دیتی چلی جاتی ہیں۔ پروفیسر درگاائونے یہ کہتے ہوئے اپن بات مکمل کی 1400سال پہلے کوئی عام انسان اس مظہرکو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ معلومات یقیناً کسی مافوق الفطرت(super natural) ذریعے سے آئی ہیں۔
ترجمہ:۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے ۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔
جمع و ترتیب ۔ ۔ ۔ ۔ اسرار احمد صدیقی
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔
بحریات (Ocean logy)
میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ
مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ﴾ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚسورۃ الرحمٰن، آیت 19-20﴾
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی انکے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکائوٹ یا آڑ (partition ) کے ہے۔ تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے ۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتاہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لئے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموںسے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دومختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں انکے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکائوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت ، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ مظہر درج ذیل آیت قرآنی میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
وَ جَعَلَ بَیۡنَ الۡبَحۡرَیۡنِ حَاجِزًا ؕ [سورۃ النمل، آیت 61]
ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردئیے۔
یہ مظہر متعدد مقامات پر وقوع پزیر ہوتا ہے جن میں جبل الطارق (جبرالٹر) کے علاقے میں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے ملنے کا مقام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح کیپ پوائنٹ اور کیپ پینسولا جنوبی افریقہ میں بھی (پانی کے بیچ) ایک سفید پٹی واضح طور دیکھی جاسکتی ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے۔
لیکن جب قرآن پاک تازہ اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ (آڑ) کا تذکرہ کرتا ہے تو اس آڑ کے ساتھ ایک ممنوعہ علاقے کے بارے میں بھی بتاتا ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ ہٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ وَّ ہٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ۚ وَ جَعَلَ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخًا وَّ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا ﴿سورۃ الفرقان، آیت 53﴾
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا کر رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی (سمندری) مقامات پر جہاں (دریا کا)تازہ (میٹھا) اور (سمندرکا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندروں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت کہ کھاڑیوں (سمندر کا شاخ) میں تازہ پانی کو کھاری پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ پایکنو کلائن زون (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی ہے (یعنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے) جو (کھاری اور تازہ پانی کی) مختلف پرتوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔
اس رکاوٹ (یعنی علاقہ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تنا سب (شوریت) تازہ پانی اور کھاری پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل بحیرہ روم میں گرتا ہے۔
قرآن پاک میں بیان کئے گئے ان سائنسی مظاہر کی تصدیق ڈاکٹر ولیم ہے' (Dr. William Hay) نے بھی کی ہے، جو کولوراڈو یونیورسٹی امریکہ کے مشہور ماہر بحریات اور علوم ارضی کے پروفیسر ہیں۔
سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا
پروفیسر درگارائو (Darga Rao) دنیا کے جانے پہچانے ماہربحری ارضیات ہیں اور وہ شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی ، جدہ (سعودی عرب) میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے درج ذیل آیت مبارکہ پر تبصرہ کرنے کے لئے کہاگیا۔
ا اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿سورۃ النور، آیت 40﴾
ترجمہ:۔ یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہوجس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو ۔اسکے اوپر ایک اور موج آرہی ہو اور اسکے اوپر بادل ہو، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ اللہ جسے نور نہ بخشے اس کے لئے پھر کوئی نور نہیں۔
پروفیسر رائونے کہا کہ سائنس دان صرف حال ہی میںجدید آلات کی مدد سے یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ 20یا 30میٹر سے زیادہ گہرائی میں اضافی سازو سامان اور آلات سے لیس ہوئے بغیر غوطہ لگا سکے ۔ علائو ازیں ، انسانی جسم میں اتنی قوت برداشت نہیں کہ جو 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں پڑنے والے آبی دبائو کا سامنا کرتے ہوئے زندہ بھی رہ سکے۔ یہ آیت تمام سمندروں کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ ہر سمندر کو پرت در پرت تاریکی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ البتہ یہ آیت مبارک بطور خاص گہرے سمندروں کی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی اس آیت میں بھی وسیع اور گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ دیا گیا ہے، گہرے سمندر کی یہ تہہ در تہہ تاریکی دو اسباب کا نتیجہ ہے ۔
1۔ عام روشنی کی ایک شعاع سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ سات رنگ با ترتیب ، بنفشی ، کاسنی، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی اور سرخ ہے۔ روشنی کی شعاع جب پانی میں داخل ہوتی ہے تو انعطاف (Refrection) کے عمل سے گزرتی ہے اوپر کے دس سے پندرہ میٹر کے دوان پانی میں سرخ رنگ جذب ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر کوئی غوطہ خود پانی میں پچیس میٹر کی گہرائی تک جا پہنچے اور زخمی ہو جائے تو وہ اپنے خون میں سرخی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ سرخ رنگ کی روشنی اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح 30سے 50میٹر تک کی گہرائی تک آتے آتے نارنجی روشنی بھی مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے۔ پیلی روشنی 50 سے 110میٹر تک ، سبز روشنی 100سے 200میٹر تک، نیلی روشنی 200میٹر سے کچھ زیادہ تک جبکہ کاسنی اور بنفشی روشنی اس سے بھی کچھ زیادہ گہرائی تک پہنچتے پہنچتے مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہیں۔ پانی میںرنگوں کے اس طرح ترتیب وار غائب ہونے کی وجہ سے سمندر بھی تہہ در تہہ کرکے باریک ہوتا چلا جاتا ہے ، یعنی اندھیرے کا ظہور بھی روشنی کی پر توں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ 1000میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے۔
2۔ دھوپ کی شعاعیں بادلوں میں جذب ہوتی ہیں۔ جو نسبتاً روشنی کی شعا عوں کو اِدھر اُدھربکھیرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بادلوں کے نیچے تاریکی کی ایک پرت (تہہ) سی بن جاتی ہے۔ یہ تاریکی کی پہلی پرت ہے جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو وہ (سمندری) لہروں کی سطح سے ٹکرا کر پلٹتی ہیںاور جگمگانے کا ساتاثردیتی ہیں ، لہٰذا یہ (سمندری) لہریں ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں تاریکی کی وجہ بنتی ہیں۔ غیر منعکس شدہ روشنی ، سمندر کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ لہٰذا سمندر کے دو حصّے ہوئے ، سطح کی امتیازی علامت روشنی اور گرمی ہیں۔ جب کہ اندھیرا سمندری گہرائیوں کی وجہ سے ہے۔ علاوہ ازیں گہرے سمندر اور سطح سمندر کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والی چیز بھی لہریں ہی ہیں۔
اندرونی موجیں سمندر کے گہرے پانیوں کا احاطہ کرتی ہیں کیونکہ گہرے پانیوں کی کثافت اپنے اوپر موجود کم گہرائی والے پانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اندرونی پانیوں میں تاریکی کا راج ہوتا ہے ۔ سمندر کی اتنی گہرائی میں مچھلیاں بھی نہیں دیکھ سکتیں ۔روشنی کا واحد ذریعہ خود انکے جسم ہوتے ہیں۔
اسی بات کو قرآن پاک نہایت جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔
ترجمہ:۔ مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں, جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھاہو۔ بالفاظ دیگر ان لہروں کے اوپر مزید اقسام کی لہریں ہیں یعنی وہ لہریں جو سمندر کی سطح پر پائی جائیں۔ اسی تسلسل میں یہ آیت مبارکہ فرماتی ہے۔پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غرض اندھیروں میں جواوپر تلے پے درپے ہیں۔ جیسا کہ وضاحت کی گئی یہ بادل وہ پے در پے رکاوٹیں ہیں ۔ جو مختلف سطحوں پر روشنی کے مختلف رنگ جذب کرتے ہوئے اندھیرے کو بڑھا وا دیتی چلی جاتی ہیں۔ پروفیسر درگاائونے یہ کہتے ہوئے اپن بات مکمل کی 1400سال پہلے کوئی عام انسان اس مظہرکو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ معلومات یقیناً کسی مافوق الفطرت(super natural) ذریعے سے آئی ہیں۔
ترجمہ:۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے ۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔