Friday 10 November 2017

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد میں موجود دیگر پیغمبروں کے حوالے سے ملحدین کے تاریخی مفروضے اور ان کی اصل حقیقت

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد میں موجود دیگر پیغمبروں کے حوالے سے ملحدین کے تاریخی مفروضے اور ان کی اصل حقیقت
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم ابراہیمی مذاہب کے خدا ہیں۔یہ بات تین ابراہیمی مذاہب میں سے کس نے کی۔نہ ابراہیم علیہ السلام کو یہود نے خدا کہا نہ عیسائیوں نے نہ مسلمانوں نے
ابراہیم ابراہیمی مذاہب کے خدا ہیں۔اس کی کوئی دلیل نہیں۔
تو ابراہیم علیہ السلام نے خدا کو ایک کہا لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ میں خدا ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام جد امجد ہیں تمام ابراہیمی مذاہب کے نہ کہ یہ ان کو براہ راست خدا قرار دے دیا جائے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ ہندو لفظ برہمن ابراہیم سے اخذ کیا گیا۔
مجھے اج تک ملحدین کی سمجھ نہیں آئی۔کبھی کہتے ہیں ابراہیم علیہ السلام تاریخ کی فرضی شخصیت ہیں۔کبھی کہتے ہیں فلاں فلاں الفاظ ان سے اخذ کئے گئے۔کیا ملحدین ایک بات پہ متفق نہیں ہوسکتے۔ اگر وہ فرضی شخصیت ہیں تو ان سے منسوب اور ان سے اخذ شدہ الفاظ کہاں سے آئے۔اگر ان سے کچھ اخذ کیا گیا ہے تو لازمی طور پہ ماننا پڑے گا کہ ابراہیم علیہ السلام تاریخ کی فرضی شخصیت نہیں بلکہ حقیقی شخصیت ہیں اور جو اخذ ہوا اس پہ بھی ہم بات کر لیں گے۔
کیا ناموں میں تھوڑی سی مشابہت سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندو لفظ برہمن ابراہیم سے اخذ کیا گیا؟ کیا سائنس اندازے مانتی ہے؟ لفظ برہمن کی ساری تاریخ اور اصل پڑھیں۔
The origins of Brahma are uncertain, in part because several related words such as one for Ultimate Reality (Brahman) and priest (Brahmin) are found in the Vedic literature. The existence of a distinct deity named Brahma is evidenced in late Vedic text.A distinction between spiritual concept of Brahman and deity Brahma, is that the former is gender neutral abstract metaphysical concept in Hinduism,while the latter is one of the many masculine gods in Hindu mythology.The spiritual concept of Brahman is far older and some scholars suggest deity Brahma may have emerged as a personal conception and visible icon of the impersonal universal principle called Brahman.
In Sanskrit grammar, the noun stem brahman forms two distinct nouns; one is a neuter noun brahman, whose nominative singular form is brahma; this noun has a generalized and abstract meaning.
Contrasted to the neuter noun is the masculine noun brahmán, whose nominative singular form is Brahma.This singular form is used as the proper name of the deity, Brahma.
اسی لئے میں کہتا ہوں کہ سبط حسن علی عباس جلال پوری جاہل ملحد مصنف ہیں جن کو ٹھیک سے تاریخ تک کا نہیں پتہ۔مناسب ہے کہ آنکھیں بند کرکے ان کے پیچھے نہ چلیں
لفظ ابراہیم کے جو معنی ہیں وہ کئ لوگوں کے باپ کے ہیں جب کہ برہمن کا لفظ ہندوؤں کے وید ادب میں حتمی حقیقت اور ،پنڈت کے لفظوں میں استعمال ہوتا ہے۔دونوں لفظی میں معنوی مشابہت تک نہیں۔برہمن ہندوؤں کا خدا ہے جب کہ ابراہیم علیہ السلام کا لفظی معنی جد امجد،دونوں کے معنی مختلف استعمال مختلف۔ پھر کیسے کہ سکتے ہیں کہ برہمن ابراہیم کی بگڑی ہوئ شکل ہے
اور یہ پڑھیں لفظ برہمہ کی اصل اور معنی مشہور کولن ڈکشنری کے مطابق
Word origin of 'Brahma'
from Sanskrit, from brahman praise
اس میں بھی کہیں وہ اصل اور معنی نہیں دیا گیا جو کچھ لوگ کہتے ہیں
https://www.google.com/…/www.collinsdic…/amp/english/brahma…
ملحدین کہتے ہیں کہ ابراہیم نے کسی واضح توحید یا وحدانیت کا اعلان نہیں کیا۔ اس کی کوئی دلیل۔جب کہ ابراہیم علیہ السلام کی تاریخ تو دوسری طرف،ملحد مورخین اور کچھ ملحد ماہرین آثار قدیمہ ابراہیم علیہ السلام کو حقیقی شخصیت تک نہیں مانتے،تاریخ ماننا تو بعد کی بات۔
حضرت یعقوب علیہ السلام،یوسف علیہ السلام،موسی علیہ السلام،اسماعیل علیہ السلام اور سب وہ پیغمبر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ایک ہی خدا کو پکارتے تھے جو کہ حقیقی اور فطرتی خدا تھا۔اور میرے پاس اس کے ثبوت میں قرآن ہے اور قرآن کو میں دنیا کی سچی ترین کتاب ثابت کرسکتا ہوں الحمد للہ کیونکہ قرآن کے تاریخی و سائنسی انکشافات اتنے حیران کن ہیں جو اسے سچی کتاب ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ملحدین کہتے ہیں کہ ابراہیمی مذاہب نے ابراہیم علیہ السلام کو سیاسی خدا بنا دیا اور ہندوؤں نے روحانی طور پہ تخلیق کا خدا بنا لیا۔
ابراہیم علیہ السلام کو زندگی میں کب سیاسی اقتدار ملا۔ وہ کس ملک کے حکمران رہے۔یا ان کی زندگی کے بعد کس ابراہیمی مذہب نے انہیں خدا قرار دیا جب کہ کسی بھی ابراہیمی مذہب میں ابراہیم علیہ السلام کی پوجا کا حکم نہیں اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام کی کوئ بات اپنی طرف سے ہے اور نہ ہی کسی ابراہیمی مذہب نے انہیں آسمانی خدا قرار دیا ہے۔پھر کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہ سیاسی و آسمانی خدا بن گئے۔ ایک خدا کی تلقین حضرت نوح علیہ السلام اور ان سے پہلے شیث علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کر چکے تھے۔پھر ملحدین کیسے کہ سکتے ہیں کہ توحید حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایجاد کی اور اس سے پہلے اس کا کوئ وجود نہیں تھا
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کا نام ساری نہیں بلکہ سرائی( Sarah) بیان کیا جاتا ہے جو کہ عبرانی نام ہے۔اس نام کا مطلب ہے عزت والی عورت یا شہزادی جب کہ ہندو سراواستی( Sarawasti) علم،موسیقی،ادب،فن اور فطرت کی دیوی ہے۔دونوں الفاظ کے معنی میں فرق ہے اور ابراہیمی مذاہب نے کبھی حضرت سارہ علیہا السلام کو دیوی قرار نہیں دیا جب کہ ہندو لفظ سراواستی سنسکرت کے لفظ ساراس سے اخذ کیا گیا ہے جس کا معنی پانی،مائع یا جھیل کے ہیں۔یہ پڑھیں

Means "possessing water" from Sanskrit सरस् (saras) meaning "fluid, water, lake" and वती (vati) meaning "having". This is the name of a Hindu river goddess, also associated with learning and the arts, who is the wife of Brahma.
https://www.behindthename.com/name/saraswati
ہندوؤں کے نزدیک یہ پانی اور دریا کی دیوی ہے۔اگر اس ساری کہانی اور دونوں ناموں کا موازنہ کریں تو کسی صورت یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سراواستی سارہ نام کی بگڑی ہوئ شکل ہے۔ویکی پیڈیا کے مطابق سراواستی کا لفظ سنسکرت کے دو لفظوں سارا یعنی جوہر یا روح اور واس یعنی بزات خود سے نکلا ہے۔اس طرح سراواستی کا مطلب ہے علم کی روح رکھنے والی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کے معنی معزز خاتون اور شہزادی کے ہیں اور سنسکرت کی سارا کے معنی جوہر یا روح کے ہیں۔دونوں لفظوں میں کوئی معنوی مشابہت نہیں۔ کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہندو دیوی Sarawasti سارہ سے اخذ کی گئی۔
اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تاریخ میں نہ آرکیالوجی یعنی علم آثار قدیمہ میں کہ ابراہیم علیہ السلام نے مصر یا ہندوستان کی طرف ہجرت کی۔یہ دعوی علی عباس جلال پوری کرتا ہے لیکن اس نے اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔جلال پوری غلط کہتا ہے۔تاریخ میں اس کا کوئ ثبوت نہیں۔
آگے ملحدین کہتے ہیں کہ بائبل میں غلام بھی ابراہیم علیہ السلام کو خداوند کہتا ہے۔بائبل میں تو حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی خداوند کہا گیا ہے۔ہم نے کب کہا کہ ابراہیم علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام خداوند ہیں۔ہم سے ان کتابوں یعنی تو رات اور انجیل کی بات نہ کیجئے جن کا تحریف شدہ ہونا خود آرکیالوجی ثابت کر چکی ہے۔ ملحدین کہتے ہیں کہ قربانی خشفہ کے چڑھاوے سے اخذ کی گئی۔ ملحدین کو جاننا چاہیے کہ خشفہ ایک دیوتا کے نام کا چڑھاوا ہے جب کہ ابراہیم علیہ السلام نے قربانی خالص اللہ تعالی کے لیے کی اور قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے۔علی عباس جلال پوری کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ قربانی خشفہ کے چڑھاوے سے اخذ کی گئی جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہابیل اور قابیل بھی اللہ تعالی کے نام پہ یہ قربانی کر چکے تھے۔مذہبی قربانی کی رسم خشفہ کی رسم سے زیادہ پرانی ہے۔پھر کیسے کہ سکتے ہیں کہ مذہبی قربانی خشفہ کے چڑھاوے سے اخذ کی گئی۔
ملحدین کہتے ہیں کہ برہمہ کا پوتا ڈکشہ خوبصورت آواز کا مالک تھا جس کی طرف داؤد علیہ السلام کی نسبت کی گئ ہے۔پہلی بات یہ کہ ہم نے اس معاملے کی تحقیق کی اور خوبصورت آواز کی تنسیب جو ڈکشہ کی طرف کی گئ ہو ہمیں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملا۔ڈکشہ کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے
Daksha (spiritual power) is the male energy which generates the gods in eternity. In the Satapatha Brahmana, Daksha is identified with Prajapati, the creator. As son of Aditi, he is one of the Adityas, and he is also reckoned among the Viswadevas.
اس کی مزید تفصیلات جو درج ذیل لنک پہ ہیں
http://www.mythfolklore.net/india/encyclopedia/daksha.htm
اور باقی بھی ہم نے مطالعہ کی ہیں اس میں بھی ہمیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔جب کہ تو رات اور انجیل کا عہد نامہ قدیم یا old testament 600-500 قبل مسیح میں مرتب ہوچکا تھا اور اس بات کا کوی ثبوت نہیں کہ عہد نامہ قدیم کے مصنفین کے پاس ہندو تعلیمات پہنچ چکی تھیں۔اس بات کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہندی تعلیمات سے آگاہ تھے اور انہوں نے جنات کا تصور نعوذ بااللہ ہندی تعلیمات سے لیا۔اس بات کا ثبوت پیش کرنا پڑے گا ملحدین کو اور اس کی روشنی میں ہم اس پہ مزید تفصیلی گفتگو کریں گے ان شاء اللہ۔
ملحدین کہتے ہیں کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے اسماعیل علیہ السلام بھی تھے اسحاق علیہ السلام کے علاوہ۔یہ بالکل غلط ہے۔جدید جینیٹکس کی تحقیق کے مطابق عربوں اور یہودیوں کے جد امجد ایک ہیں جس سے ہمارے اس بیان کو تقویت ملتی ہے کہ یہود کے جد امجد حضرت اسحاق علیہ السلام اور عربوں کے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک ہی والد یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔مزید تفصیل کے لیے یہ لنک مطالعہ کریں

http://www.sciencemag.org/…/jews-and-arabs-share-recent-anc…
اور یہ الزام سو فیصد غلط ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ بااللہ پارسی اور یہودی مذہب کی آمیزش کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پارسی مذہب کی تعلیمات تک سے واقف نہیں تھے اور نہ ہی اس مذہب کی عربی کتابیں مکہ یا مدینہ منورہ میں میسر تھیں۔قرآن کے تاریخی و سائنسی انکشافات جو اس زمانے میں کسی کو معلوم نہیں تھے، ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن اور اسلام کسی کی نقل نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک پیغام ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام سے کوئی اختلاف نہیں ہوا نہ ہی اس کا تاریخ میں کوئی ثبوت ہے۔ملحدین اس اختلاف کا ثبوت فراہم کریں جو ان کے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔
مزید یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب سے بچنے کے بعد ہندوستان کا سفر نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آسمان پہ اٹھا لئے گیے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ کرشنا کا لفظ کرائیسٹ یعنی عیسی سے نکلا ہے۔یہ بھی بالکل غلط ہے۔کرشنا کا لفظ سنسکرت کے لفظ Kṛṣṇa سے نکلا ہے جس کا مطلب سیاہ ہے۔غروب ہوتے ہوئے چاند کو بھی کہاجاتا ہے جب کہ بعض کی نظر میں اس کا مطلب پرکشش بھی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کرشنا حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے والدین تھے جن کے نام Devaki and Vasudeva, Yashoda (foster mother) and Nanda Baba (foster father) ہیں اور مزید یہ کہ کرشنا کے 25 دسمبر کو پیدا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ تو مذکور ہے کہ وہ شمالی ہندوستان میں 3,228 قبل مسیح میں پیدا ہوا لیکن یہ کہیں پہ نہیں ہے کہ وہ 25 دسمبر کو پیدا ہوا۔مزید یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے نام کی تشبہ کسی طرح کرشنا کی طرف نہیں کی جا سکتی۔اگر کرائسٹ کے لفظ کی اصل کی درج ذیل تاریخ پڑھیں تو بات مزید واضح ہوجائے گی۔
The title given to Jesus of Nazareth, Old English crist (by 830, perhaps 675), from Latin Christus, from Greek khristos "the anointed" (translation of Hebrew mashiah; see messiah), noun use of verbal adjective of khriein "to rub, anoint" (see chrism). The Latin term drove out Old English Hæland "healer, savior," as the preferred descriptive term for Jesus.

A title, treated as a proper name in Old English, but not regularly capitalized until 17c. Pronunciation with long -i- is result of Irish missionary work in England, 7c.-8c. The ch- form, regular since c. 1500 in English, was rare before. Capitalization of the word begins 14c. but is not fixed until 17c. The 17c. mystical sect of the Familists edged it toward a verb with Christed "made one with Christ."
http://www.etymonline.com/index.php?term=christ
یہ ساری گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد میں موجود دیگر پیغمبروں کے متلعق ملحدین کے مفروضے تاریخی طور پہ بالکل غلط ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں۔
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔