اہل مغرب کے اخلاق وعدل کاافسانہ۔فرید اللہ الصافی
آج مسلمانوں کی اکثریت شعوری اور لاشعوری طور پر یہ ذہن میں رکھتی ہے اور بعض تو زبان سے اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ غیر مسلم خاص طور پر یور پ کا معاشرہ عدل کا داعی اور اخلاق کا پیکر ہے۔ اس بات کو میزان عدل پر پیش کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اسلام نے نظریات کی اصلاح کو سب سے مقدم رکھا ہے اور اس کی تصحیح پر بڑا زور دیا ہے اور جہاں کہیں اس میں فساد کا شائبہ نظر آیا اسلام نے اس کا مکمل تدارک کیا ہے۔ سب سے پہلے اخلاق کا جامع مفہوم جاننا ضروری ہے تاکہ مسئلے کو جاننے میں آسانی ہو اور کسی قسم کی پیچیدگی آڑے نہ آئے۔
اہل علم ودانش نے اخلاق کا جامع مفہوم کچھ اس طرح بیان کیا ہے: دوسرے انسان کو تکلیف نہ دینا، سخاوت اور خیر کا برتن دوسرے پرانڈیلنا، اور ہنستے اور مسکراتے چہرے اور چمکتے ماتھے سے دوسروں کے ساتھ میل ملاپ کرنا۔
اس کے بعد تمہید کے طور پر اس دعوے کو یاد رکھا جائےکہ انسان کو انسان ہمیشہ آسمانی دین بناتا ہے اور جس قدر انسان خالق کی رشد وہدایت سے دورہوتا جائے گا اسی قدر ظلمتوں کے پہاڑ اس پر چھاتے جائیں گے، اور آخر کار سفاکیت وجہالت اس کا میلا لباس بن کر اس کے روح وجسم کو ڈھانپتے ہوئے اسے انسانی صفات سے عاری کرکے صفات مذمومہ اور اخلاق قبیحہ کا چشمہ بنادے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ انسان اپنی فطرت کا جنازہ نکال کر اس مقام پر فائز ہو جائے کہ:
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَہٗ سُوْۗءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَـنًا۔ (الفاطر۵۳:۸)
کہ اس کے منعکس چشمے میں اسے برا اچھا اور حسین قبیح نظر آئےگا، جو دراصل نتیجہ ہے اللہ کے اس فرمان کا:
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ۔(الانعام۶: ۱۲۵)
کہ جس کسی کو اللہ صحیح راستہ دکھانے کا ارادہ کرے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کسی کی گمراہی کا اللہ ارادہ کرے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ گویا کہ وہ آسمان میں چڑھتا ہے۔ اسی طرح اللہ ناپاکی مسلط کرتا ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے۔ گویا کہ اس کے شب وروز اندھیروں میں اور اس کا اخلاق وکردار کم ظرفی کا شکار ہوکر غلاظتوں میں ڈوب جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر دین کی صورت میں ربانی سہارانہ ہو تو انسان اپنے جہل کی وجہ سے درندوں کو شکست دے کر ان کی صفوں کو چیر تا ہوا ان سے بھی آگے نکل جاتا ہے کیونکہ درندوں کی درندگی صرف طاقت کی بنا پر ہے جبکہ یہاں طاقت کا ساتھ عقل بھی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار کی دنیاوی تیزی اور عقلی جاذبیت کے باوجود کلام اللہ میں ان کی اصل صورت واضح کرتے ہوئے کبھی انہیں عام حیوانات سے تشبیہ دی جاتی ہے اور کبھی گدھے اور کتے کو ان کی مثال کے لیے پیش کیاجاتا ہے۔ اس کے بعد مسئلے کو مزید واضح کرنے کے لیے محترم قارئین کرام سے میں کچھ سوال اور استفسار کرنا چاہتا ہوں:
1۔ کیا ایسے انسان کو صاحب خلق کہا جاسکتا ہے جو مخلوق کے ساتھ تو ظاہری اخلاق سے پیش آئے اور خالق سے وہ ہر قسم کی بداخلاقی کو صرف جائز ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ عملاً تمام بغاوتوں اور بداخلاقیوں کا مرتکب بھی ہو؟
2۔ کیا اخلاق وانصاف کتوں کو اکراماً اپنے ہاتھوں سے غسل دینے اور انسانوں کے خون کو گندے پانی کی طرح ندی نالوں میں بہانے کا نام ہے؟ اور یہ بات جذبات کی حد تک نہیں بلکہ دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ آج دنیامیں مشرق سے لے کر مغرب تک جہاں بھی ظلم ہورہا ہے خاص طو رپر
مسلم اقوام پر اس کی کڑی ان اخلاق کے پیکروں اور منصفوں سے بلاواسطہ یا بالواسطہ جڑتی ہے ، جن کے اخلاق وکردار کے بے حس دنیا گیت گاتی ہے، کیا نادانوں کے کانوں میں بوجھ ہے جس نے انہیں مظلوم کی معصوم آواز سننے سے بہرا کردیا ہے یا ان کی بصارت وبصیرت پر پردے پڑے ہوئے ہیں جو حقائق کی نقشہ کشی کرنے سے انہیں قاصر کررہے ہیں؟
3۔ کیا اخلاق اس چیز کا نام ہے کہ بغل میں چھری اور زبان سے محبت کا دعویٰ یا پھر دھوکے کا:کہ دل میں عداوت ونفرت اور لبوں پر مسکراہٹ ۔ اس اخلاق سے تو اصحاب فراست نے صدیوں پہلے پناہ مانگی تھی۔
4۔ عقل کے بخیلوں اور اغیار کی تقلید کا چشمہ لگانے والوں کو یاد رہے کہ بچوں کی کم سنی کا فائدہ اسی طرح اٹھایا جاتا ہے کہ لبوں پر مسکراہٹ دکھا کر اور ہاتھ میں ٹافی تھما کر ان سے اپنے مطالب پورے کیے جاتے ہیں۔
5۔ مزید یاد رہے کہ ان لوگوں میںکچھ جو ظاہری اخلاق نظر آرہا ہے یہ دراصل انہوں نے تمہارے دین سے سیکھا ہے۔ اب لائق یہ ہے کہ ان سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے اس دین سے متاثر ہوا جائے جو صرف اپنوں کو نہیں بلکہ اغیار کو بھی ترقی کے منازل طے کراتا ہے اور کیا خیال ہے کہ اگر اپنے گھر کا بندہ اس پر کاربند ہو تو اس کی شان کا اندازہ لگایا جاسکے گا؟ اس کے ساتھ ساتھ ہم حقیقت پر مبنی اس حق گوئی سے بھی کوئی عار نہیں محسوس کرتے کہ: ایک اخلاق کا کمزور مؤحد مسلمان اعلیٰ اخلاق رکھنے والے کافر سے ہزار درجے بہتر ہے۔ کیا ہم اغیار کے تاثر کی وجہ سے قرآن کے اس فرمان کو بھول چکے ہیں یا نعوذ باللہ اس سے انکاری ہیں کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ۔ (التوبہ۹: ۸۲)
کہ اے ایمان والو! بے شک مشرک پلید ہیں۔ اور مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ جب تک زمین میں ایک بھی لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنے والا ہے اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوگی۔
آخر میں یہ بات یادرہے کہ یہ محض سیاسی گفتگو نہیں بلکہ یہ ایک اہم اسلامی عقیدے الولاء والبراء کا تقاضا اور سورۃ المجادلہ کی اس آیت کا مصداق ہے کہ:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۔ (المجادلہ ۵۸: ۲۲)
کہ آپ ان لوگوں کو جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں ہر گز اس طرح نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرنے والے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہوں اگرچہ یہ ان کے آباؤ اجداد، ان کے بیٹے، ان کے بھائی اور ان کے کنبے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اس نظریے اور تفریق کو بھلا دینا درحقیقت جنگ بدر اور ان بدری صحابہ کی شعوری اور لاشعوری طور پر توہین ہے جو دینی رشتے سے وفا کرتے ہوئے اپنے آباؤ اجداد اور اپنے اعز ہ کے مقابلے میں تلوار یں لے کر میدان میں نکلے اور پھر ان کے سرتن سے جدا کرتے چلے گئے اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ ان پر ماتم کرنے کی بجائے فتح کے گیت بھی گائے۔اللہ تعالیٰ ان کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
آج مسلمانوں کی اکثریت شعوری اور لاشعوری طور پر یہ ذہن میں رکھتی ہے اور بعض تو زبان سے اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ غیر مسلم خاص طور پر یور پ کا معاشرہ عدل کا داعی اور اخلاق کا پیکر ہے۔ اس بات کو میزان عدل پر پیش کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اسلام نے نظریات کی اصلاح کو سب سے مقدم رکھا ہے اور اس کی تصحیح پر بڑا زور دیا ہے اور جہاں کہیں اس میں فساد کا شائبہ نظر آیا اسلام نے اس کا مکمل تدارک کیا ہے۔ سب سے پہلے اخلاق کا جامع مفہوم جاننا ضروری ہے تاکہ مسئلے کو جاننے میں آسانی ہو اور کسی قسم کی پیچیدگی آڑے نہ آئے۔
اہل علم ودانش نے اخلاق کا جامع مفہوم کچھ اس طرح بیان کیا ہے: دوسرے انسان کو تکلیف نہ دینا، سخاوت اور خیر کا برتن دوسرے پرانڈیلنا، اور ہنستے اور مسکراتے چہرے اور چمکتے ماتھے سے دوسروں کے ساتھ میل ملاپ کرنا۔
اس کے بعد تمہید کے طور پر اس دعوے کو یاد رکھا جائےکہ انسان کو انسان ہمیشہ آسمانی دین بناتا ہے اور جس قدر انسان خالق کی رشد وہدایت سے دورہوتا جائے گا اسی قدر ظلمتوں کے پہاڑ اس پر چھاتے جائیں گے، اور آخر کار سفاکیت وجہالت اس کا میلا لباس بن کر اس کے روح وجسم کو ڈھانپتے ہوئے اسے انسانی صفات سے عاری کرکے صفات مذمومہ اور اخلاق قبیحہ کا چشمہ بنادے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ انسان اپنی فطرت کا جنازہ نکال کر اس مقام پر فائز ہو جائے کہ:
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَہٗ سُوْۗءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَـنًا۔ (الفاطر۵۳:۸)
کہ اس کے منعکس چشمے میں اسے برا اچھا اور حسین قبیح نظر آئےگا، جو دراصل نتیجہ ہے اللہ کے اس فرمان کا:
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ۔(الانعام۶: ۱۲۵)
کہ جس کسی کو اللہ صحیح راستہ دکھانے کا ارادہ کرے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کسی کی گمراہی کا اللہ ارادہ کرے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ گویا کہ وہ آسمان میں چڑھتا ہے۔ اسی طرح اللہ ناپاکی مسلط کرتا ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے۔ گویا کہ اس کے شب وروز اندھیروں میں اور اس کا اخلاق وکردار کم ظرفی کا شکار ہوکر غلاظتوں میں ڈوب جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر دین کی صورت میں ربانی سہارانہ ہو تو انسان اپنے جہل کی وجہ سے درندوں کو شکست دے کر ان کی صفوں کو چیر تا ہوا ان سے بھی آگے نکل جاتا ہے کیونکہ درندوں کی درندگی صرف طاقت کی بنا پر ہے جبکہ یہاں طاقت کا ساتھ عقل بھی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار کی دنیاوی تیزی اور عقلی جاذبیت کے باوجود کلام اللہ میں ان کی اصل صورت واضح کرتے ہوئے کبھی انہیں عام حیوانات سے تشبیہ دی جاتی ہے اور کبھی گدھے اور کتے کو ان کی مثال کے لیے پیش کیاجاتا ہے۔ اس کے بعد مسئلے کو مزید واضح کرنے کے لیے محترم قارئین کرام سے میں کچھ سوال اور استفسار کرنا چاہتا ہوں:
1۔ کیا ایسے انسان کو صاحب خلق کہا جاسکتا ہے جو مخلوق کے ساتھ تو ظاہری اخلاق سے پیش آئے اور خالق سے وہ ہر قسم کی بداخلاقی کو صرف جائز ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ عملاً تمام بغاوتوں اور بداخلاقیوں کا مرتکب بھی ہو؟
2۔ کیا اخلاق وانصاف کتوں کو اکراماً اپنے ہاتھوں سے غسل دینے اور انسانوں کے خون کو گندے پانی کی طرح ندی نالوں میں بہانے کا نام ہے؟ اور یہ بات جذبات کی حد تک نہیں بلکہ دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ آج دنیامیں مشرق سے لے کر مغرب تک جہاں بھی ظلم ہورہا ہے خاص طو رپر
مسلم اقوام پر اس کی کڑی ان اخلاق کے پیکروں اور منصفوں سے بلاواسطہ یا بالواسطہ جڑتی ہے ، جن کے اخلاق وکردار کے بے حس دنیا گیت گاتی ہے، کیا نادانوں کے کانوں میں بوجھ ہے جس نے انہیں مظلوم کی معصوم آواز سننے سے بہرا کردیا ہے یا ان کی بصارت وبصیرت پر پردے پڑے ہوئے ہیں جو حقائق کی نقشہ کشی کرنے سے انہیں قاصر کررہے ہیں؟
3۔ کیا اخلاق اس چیز کا نام ہے کہ بغل میں چھری اور زبان سے محبت کا دعویٰ یا پھر دھوکے کا:کہ دل میں عداوت ونفرت اور لبوں پر مسکراہٹ ۔ اس اخلاق سے تو اصحاب فراست نے صدیوں پہلے پناہ مانگی تھی۔
4۔ عقل کے بخیلوں اور اغیار کی تقلید کا چشمہ لگانے والوں کو یاد رہے کہ بچوں کی کم سنی کا فائدہ اسی طرح اٹھایا جاتا ہے کہ لبوں پر مسکراہٹ دکھا کر اور ہاتھ میں ٹافی تھما کر ان سے اپنے مطالب پورے کیے جاتے ہیں۔
5۔ مزید یاد رہے کہ ان لوگوں میںکچھ جو ظاہری اخلاق نظر آرہا ہے یہ دراصل انہوں نے تمہارے دین سے سیکھا ہے۔ اب لائق یہ ہے کہ ان سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے اس دین سے متاثر ہوا جائے جو صرف اپنوں کو نہیں بلکہ اغیار کو بھی ترقی کے منازل طے کراتا ہے اور کیا خیال ہے کہ اگر اپنے گھر کا بندہ اس پر کاربند ہو تو اس کی شان کا اندازہ لگایا جاسکے گا؟ اس کے ساتھ ساتھ ہم حقیقت پر مبنی اس حق گوئی سے بھی کوئی عار نہیں محسوس کرتے کہ: ایک اخلاق کا کمزور مؤحد مسلمان اعلیٰ اخلاق رکھنے والے کافر سے ہزار درجے بہتر ہے۔ کیا ہم اغیار کے تاثر کی وجہ سے قرآن کے اس فرمان کو بھول چکے ہیں یا نعوذ باللہ اس سے انکاری ہیں کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ۔ (التوبہ۹: ۸۲)
کہ اے ایمان والو! بے شک مشرک پلید ہیں۔ اور مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ جب تک زمین میں ایک بھی لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنے والا ہے اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوگی۔
آخر میں یہ بات یادرہے کہ یہ محض سیاسی گفتگو نہیں بلکہ یہ ایک اہم اسلامی عقیدے الولاء والبراء کا تقاضا اور سورۃ المجادلہ کی اس آیت کا مصداق ہے کہ:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۔ (المجادلہ ۵۸: ۲۲)
کہ آپ ان لوگوں کو جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں ہر گز اس طرح نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرنے والے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہوں اگرچہ یہ ان کے آباؤ اجداد، ان کے بیٹے، ان کے بھائی اور ان کے کنبے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اس نظریے اور تفریق کو بھلا دینا درحقیقت جنگ بدر اور ان بدری صحابہ کی شعوری اور لاشعوری طور پر توہین ہے جو دینی رشتے سے وفا کرتے ہوئے اپنے آباؤ اجداد اور اپنے اعز ہ کے مقابلے میں تلوار یں لے کر میدان میں نکلے اور پھر ان کے سرتن سے جدا کرتے چلے گئے اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ ان پر ماتم کرنے کی بجائے فتح کے گیت بھی گائے۔اللہ تعالیٰ ان کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔