Saturday, 18 November 2017

قرآن اور جدید سائنس ساتویں قسط

قرآن اور جدید سائنس ساتویں قسط
جمع و ترتیب ۔ ۔ ۔ ۔ اسرار احمد صدیقی
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔

آبیات (Hydrology)
آبی چکر: (water cycle)
آج ہم جس تصور کو آبی چکر (water cycle ) کے نام سے جانتے ہیں، اسے پہلے 1580ء میں برنارڈپیلیسی (Bernard Pallissy) نامی ایک شخص نے پیش کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ سمندر وں سے کس طرح پانی بخارات میں تبدیل ہوتی ہے اور کس طرح وہ سرد ہو کر بادلوں کی شکل میں آتا ہے۔ پھر یہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں، بلند تر ہوتے ہیں ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ یہ پانی جھیلوں، جھرنوں ، ندیوں اور دریائوں کی شکل میں آتا ہے اور بہتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتا ہے اس طرح پانی کا یہ چکر جاری رہتا ہے ۔
ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلس (Thallas) نامی ایک یونانی فلسفی کو یقین تھا کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار (اسپرے) پیدا ہوتی ہے۔ تیز ہوا اسی پھوار کو اٹھالیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کر برسا دیتی ہے۔ یہی بارش ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں، پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین میں پانی کا ماخذ کیا ہے۔انکا خیال تھا کہ ہوا کی زبردست قوت کے زیراثر سمند ر کی پانی براعظموں (خشکی) میں اندرونی حصوں میں چلاآتا ہے۔ انہیں یہ یقین بھی تھا کہ یہ پانی ایک خفیہ راستے یا عظیم گہرائی سے آتا ہے، سمند ر سے ملا ہوا یہ تصوراتی راستہ افلاطون کے زمانے سے ٹار ٹار س کہلاتا تھا ۔ حتی کے اٹھاویں صدی کے عظیم مفکّر ڈسکارٹس (Descartus) نے بھی انہی خیالات سے اتفاق کیا ہے۔
انسیویں صدی عیسوی تک اوسطو (Aristotle) کا نظریہ ہی زیادہ مقبو ل و معروف رہا۔ اس نظریے کے مطابق پہاڑوں کے سرد غاروں میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور وہ زیر زمین جھیلیں بناتا ہے جو چشموں کا باعث بنتی ہیں ۔
آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ بارش کا پانی زمین پر موجود دراڈوں کے راستے رس رس کر زیر زمین پہنچتا ہے اور چشموں کی وجہ بنتا ہے۔ درج ذیل آیات قرآنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔
اَ لَمْ تَرَ اَ نَّ اللّٰہَ اَنْزَ لَ مِنَ السَّمَا ئِ مَآ ئً فَسَلَکَہ یَنَا بِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِ جُ بِہ زَرْ عًا مُّخْتَالِفًا اَلْوَ انُہ ہ
ترجمہ:۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعے سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔
وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَیُحۡیٖ بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿سورۃ الروم، آیت 24﴾
ترجمہ:۔ وہ آسمان سے پانی برساتا ہے ۔ پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اسکی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسۡکَنّٰہُ فِی الۡاَرۡضِ ٭ۖ وَ اِنَّا عَلٰی ذَہَابٍۭ بِہٖ لَقٰدِرُوۡنَ ﴿ۚسورۃ المومنون، آیت 18﴾
ترجمہ:۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کر سکتے ہیں۔

تبخیر (Evaporation)
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ ﴿ۙسورۃ الطارق، آیت 11﴾
ترجمہ:۔ قسم ہے آسمان کی جو (پانی )کو لوٹاتا ہے (اپنے چکر میں)

بادلوں کو بار آور کرتی ہوائیں

وَ اَرۡسَلۡنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسۡقَیۡنٰکُمُوۡہُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ لَہٗ بِخٰزِنِیۡنَ ﴿سورۃ الحجر، آیت 22﴾
ترجمہ:۔ ۔ اور ہم ہی ہوائیں چلاتے ہیں (جو بادلوں کے پانی سے) بھری ہوئی (ہوتی ہیں) اور ہم ہی آسمان سے مینہ برساتے ہیں اور ہم ہی تم کا اسکا پانی پلاتے ہیں اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔

یہاں عربی لفظ لواقح ّاستعمال کیا گیا ہے، جو لاقح کی جمع ہے اور لاقحہ سے نکلا ہے، جس کا مطلب بار آور کرنا یا پھر دیناہے، اسی سیاق و سباق میں، بار آور سے مراد یہ ہے کہ ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی تو ضیحات ، قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں
:
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیۡنَہٗ ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِیۡہَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَیُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَصۡرِفُہٗ عَنۡ مَّنۡ یَّشَآءُ ؕ یَکَادُ سَنَا بَرۡقِہٖ یَذۡہَبُ بِالۡاَبۡصَارِ ﴿ؕسورۃ النور، آیت 43﴾

ترجمہ:۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالٰی بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اسکے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف (Condense)ابربنا دیتا ہے ۔پھر تم دیکھتے ہو کہ اسکے اندر میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں جیسے (بادلوں)سے اولے برساتا ہے۔ پھر جسے چاہتا ہے انکا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اسکی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کئے دیتی ہے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ کَیۡفَ یَشَآءُ وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿ۚسورۃ الروم، آیت 48﴾
ترجمہ:۔ اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے ، جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے ، پھر تودیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکا یک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔