اسلام، سیکولرازم اور اقبال۔ پروفیسرمحمد انور صادق
اسلامی دنیا میں سیکولرازم کو فروغ دینا بھی عالمی نظام کے اہداف میں شامل ہے۔ جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی خیر خواہی بیان کیا جاتا ہے۔ دنیا میں عالمی نظام نافذ کرنے والوں کے نزدیک یورپ اور امریکہ کی ترقی اور خوش حالی کا راز چونک سیکولر نظامِ حیات کے اختیار کرنے میں پوشیدہ ہے اس لیے وہ اپنے تجربے کی روشنی میں مسلم معاشروں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں بھی سیکولر نظام حیات کو رواج دیںگے۔ امریکہ اور یورپ کی عالمی قیادت کی رائے میں مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ چونکہ ریاست کے معاملات میں مذہب کی بے جامدا خلت ہے اس لیے اگر اسلامی دنیا کے لوگ بھی آزادی اور خوش حالی کی منزل سے ہم کنار ہونا چاہتے ہیں تو انہیں بھی امریکہ اور یورپ کی پیروی میں مذہب کو ریاستی امور سے جدا کرنا ہوگا۔
نیا عالمی نظام نافذ کرنے والوں کی جانب سے مسلمان معاشروں میں سیکولرازم کے فلسفے کو رواج دینے کا مشورہ یا زیادہ بہتر الفاظ میں فیصلہ اس دلیل کی بنا پر کہ یورپ اور امریکہ کی ترقی اور خوش حالی کا راز اس فلسفے کی ترویج میں پوشیدہ ہے جو کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنے سے مسلم معاشروں کو نہ صرف اپنے دینی اصولوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ ایسا کرنے میں اُن کے تہذیبی تشخص کے مٹنے اور قومی تسلسل کے ٹوٹنے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ جب کہ اقبال کے ہاں اس دور میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اپنے تہذیبی تشخص اور قومی تسلسل کو قائم رکھنا ہے۔ جسے ہم سیکولر نظام حیات کو اپنا کر قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے غیروں کی جانب سے ترقی اور خوش حالی کے نام پر سیکولر نظام حیات کو اختیار کرنے کا مشورہ قبول کرنے سے پہلے ہمارے روشن خیال حکمرانوں اور سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں کو اقبال کے اس مشورے پر بھی غور کرنا ہوگا جس میں وہ کسی تصور یا فلسفے کی پیدائش کے تاریخی پس منظر کو جاننا از حد ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال نے فرمایا:
’’فکری ارتقا کو انسانی فعلیت کے دیگر پہلوؤں سے منقطع نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ فلسفہ کی کتابیں ہمیں یہ تو بتاتی ہیں کہ مختلف قوموں نے کیا سوچا ہے لیکن اُن مختلف معاشرتی اور سیاسی اسباب وعوامل کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتیں جن سے فکر انسانی کا کردار متعین ہوا فلسفے کی جامع تاریخ مرتب کرنا یقیناً ایک دشوار کام ہوگا۔‘‘(ڈاکٹر جاوید اقبال، شذرات فکر اقبال ، مجلس ترقی ادب ، ۲کلب روڈ، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص: ۱۱۱)
اقبال کے حوالے سے فلسفے کی تاریخ نویسی کا جو اہم اصول ہم نے بھی اوپر بیان کیا ہے جب ہم اُس کی روشنی میں سیکولرازم کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام حیات کی تشکیل میں کم از کم چار بڑے واقعات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے جنہیں یورپ کی تاریخ میں عام طور پر رینے ساں ، ریفار میشن، روشن خیالی کی تحریک اور صنعتی انقلاب کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ راقم کے خیال میں اگر یورپ کی تاریخ میں یہ واقعات رونما نہ ہوتے تو شاید سیکولرازم کا ظہور بھی عمل میں نہ آتا۔ بہر حال ان واقعات پر روشنی ڈالنے سے پہلے یورپ کی اُس تمدنی حالت کا شعور حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جس میں اُس وقت وہاں کے لوگ اپنی زندگی بسر کررہے تھے اور جس کے خلاف ردِ عمل کے طور پر سیکولر خیالات کا ظہور عمل میں آیا اور جس کے نتیجہ میں یورپ کے لوگوں نے عیسائیت کے عنصر کو جو وہاں کی غالب اکثریت کا مذہب تھا رفتہ رفتہ ریاست کے معاملات سے خارج کرنا شروع کردیا اور یوں سیکولر ازم کے فروغ کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی تاریخ میں عیسائیت کا آغاز رومی سلطنت کے زیر سایہ ہوا تھا جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ خدا کا حق خدا کو دو اور سیر ز کا حق سیرز کو دو جو گویا اِس امر کا اعلان تھا کہ مذہب اور ریاست دو جدا جدا معاملات ہیں جنہیں ایک دوسرے میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ تاہم مذہب اور ریاست کی یہ جدائی اُس وقت اپنے اختتام کو پہنچ گئی جب قسطنطین نے عیسائیت کا مذہب اختیار کرلیا اور دونوں اداروں کو ملا کر ایک کردیا جس کا نتیجہ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کے الفاظ میں یہ برآمد ہوتا ہے کہ یورپ کے ہر ملک میں دہری حکومت تھی ایک تو مقامی یعنی دینوی حکومت اور دوسری غیر ملکی حکومت جس کے اقتدارارت کا مصدر و مرکز پاپائے روماتھا۔ روما کے اثر کا مقامی اثر پر غالب ہونا ایک لازمی امر تھا۔ (مولانا ظفر علی خان (مترجم) ، معرکہ مذہب وسائنس، الفیصل تاجران کتب، لاہور، ص: ۳۸۱)چنانچہ چرچ اور سٹیٹ کے اِس گٹھ جوڑ کے اثرات یورپ کے تمدنی حالت پر کیا مرتب ہوئے اس کا اندازہ ہمیں مشہور اشترا کی دانش و رسید سبط حسن کے اس اقتباس سے بخوبی ہوسکتا ہے جو اُن کے ایک مضمون ’’تھیوکریسی‘‘ سے لیا گیا ہے جس میں وہ بجاطور پر تحریرکرتے ہیں:
مغربی مورخین کلیسا کے ہزار سالہ اقتدار کو عہد تاریک سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ وہاں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک تعصب ، تنگ نظری اور توہم پرستی کا اندھیرا چھایا رہا۔ کلیسا نے عقل وخرد پر پہرے بٹھارکھے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ کلیسائی عقائد سے سرِ مواختلاف کرسکے۔ ہر جگہ مذہبی عدالتیں قائم تھیں۔ یورپ کا ہر فرد بشر جس کو بادشاہوں کی براہ راست سرپرستی حاصل نہ تھی مذہبی عدالتوں کے خوف سے کانپتا رہتا تھا۔(سید سبط حسن ، نوید فکر، مکتبہ دانیال، عبداللہ ہارون روڈ، صدر کراچی، ۲۰۰۲ء، ص: ۲۳)
قرون وسطیٰ میں یورپ کے عام تمدنی حالات کے بارے میں کچھ ایسی ہی رائے کا اظہار ڈاکٹر مبارک علی نے بھی اپنی کتاب ’’یورپ کی تاریخ ‘‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے:
چرچ اور مذہبی عقائد نے قرونِ وسطیٰ ے معاشرے کو اس قدر سختی سے جکڑرکھا تھا کہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگ اس کی تعلیمات کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔ سائنس دان اپنی تحقیق کی بنیاد علم پر نہیں بلکہ مفروضوں پر رکھتے تھے کیونکہ اوّل تو انہیں تجربات کی سہولت نہیں تھی۔ دوم اُن کے تجربات مذہبی عقائد سے ٹکراتے تھے۔ اس لیے وہ مذہب سے منحرف ہونے پر گھبراتے تھے۔ (ڈاکٹر مبارک علی، یورپ کا عروج، فکشن ہاؤس، ۱۸ مزنگ روڈ، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص: ۹۰)
اس مقام پر اگر قرونِ وسطیٰ میں یورپ کی عام سماجی حالت کا خلاصہ بیان کردیا جائے تو بیجانہ ہوگا۔ چنانچہ اُس وقت کے یورپ کا معاشرہ مکمل طور پر چرچ، بادشاہ اور فیوڈل لار ڈز کے مشترکہ تسلط میں جکڑا ہوا تھا جنہوں نے نہ صرف عوام کے فکرونظر کی آزادی کو سلب کررکھا تھا بلکہ یورپ کا پورے کا پورا معاشرہ بھی جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا لیکن ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ کے مصداق دنیا میں کوئی معاشرہ بھی زیادہ دیر تک ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتااور اُس میں تبدیلی کا رونما ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہی کچھ یورپ کے ساتھ بھی ہوا اور وہاں جلدہی رینے ساں (Renaissance) کی تحریک جسے اُردو میں تحریک احیائے علوم کا نام دیا جاتا ہے، کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں لوگوں میں نئے نئے علوم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے چرچ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا شروع کردیا کیونکہ اب اُنہیں نئے سائنسی علوم کے حقائق جنہیں عام طور پر مشاہدات کے بنیاد پر اخذ کیا جاتا تھا براہِ راست مذہبی عقائد سے متصادم دکھائی دینے لگے تھے۔ چنانچہ یورپ کے رہنے والوں نے اس تصادم کا علاج سیکولرازم کے فلسفے میں تلاش کیا جس کی رو سے مذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار پایا اور اسے نہ صرف سائنس کی دنیا میں مداخلت سے روک دیا گیا بلکہ زندگی کے دوسرے امور سے بھی بے دخل کردیا گیا۔
اس کے برعکس اقبال چونکہ مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کے خیال کو نہ صرف غیر اسلامی قرار دیتے ہیں بلکہ وہ ان دونوں قوتوں کے مابین ہم آہنگیوں کو تلاش کرنے کے آرزو مند بھی ہیں اس لیے ہم اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ کم از کم اسلام کی حدود میں سیکولرازم کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اقبال کی رائے میں مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کا جو خیال عام طور سے رواج پاگیا ہے وہ درست نہیں ہے اور اُس کا اطلاق دنیا کے تمام مذاہب پر یکساں طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے نزدیک تصادم کا یہ خیال عیسائیت کے پس منظر میں یورپ کے مخصوص حالات کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جسے آنکھیں بند کرکے اسلام پر منطبق کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ کیونکہ اقبال کے نزدیک دنیا میں اسلام ہی وہ مذہب ہے جسے سائنسی علوم سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ چنانچہ اقبال نے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ جیسی معرکہ آرا کتاب لکھ کر جہاں تصادم کے اس خیال کر تردید کی ہے وہاں انہوں نے مذہب اور سائنس کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگیوں کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔ بہر حال اقبال ۶ مارچ ۱۹۲۷ء کو اپنے ایک اخباری بیان میں مذہب اور سائنس کے تصادم پر اظہار خیال کرتے ہوئے بجا طور پر فرماتے ہیں:
سائنس اور مذہب کاتصادم غیر اسلامی ہے۔ قرآن کے ہر صفحہ پر انسان کو مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ علم حاصل کرنے کے تلقین کی گئی ہے…. ڈاکٹر ولیم جان ڈریپر کی تصنیف معرکہ مذہب اور سائنس اصل میں مذہب اور سائنس کی ہنگامہ آرائی کی مظہر نہیں بلکہ عیسائیت اور سائنس کے تصادم کی تاریخ ہے۔ اس تصادم کی وجہ یہ تھی کہ یورپ کے حکما اور علما مسلمانوں کی علمی ترقی سے متاثر ہوئے تو اہل فرنگ کے خیالات بھی زبردست انقلاب پیدا ہونے لگا اور رومن کیتھولک مذہب والے اس علمی انقلاب سے متصادم ہوئے۔ (رفیق افضل (مرتب)، گفتار اقبال، ادارہ تحقیقات ، دانشگاہِ پنجاب، لاہور، ص: ۲۳)
بہر حال تحریک احیائے علوم کے علاوہ یورپ کی تاریخ میں جس دوسری بڑی تحریک نے وہاں کے لوگوں کو سیکولرازم کا فلسفہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا وہ ریفار میشن کی تحریک تھی جس کا پانی مارٹن لوتھر نامی ایک شخص تھاجو ۱۴۸۳ء میں جرمنی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ مارٹن لوتھر کی اس تحریک کا بنیادی مقصد دراصل عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق از سرِ نو بحال کرنا تھا جو خدا کی اطاعت اپنی جگہ اور بادشاہ کی اطاعت اپنی جگہ کے اصول پر مشتمل تھی۔ اب صاف ظاہر ہے کہ قرونِ وسطی کے معاشرے میں اس اصول کو از سرِ نو بحال کرنا بغاوت سے کم نہ تھا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ریاست اور چرچ کے ہزار سالہ گٹھ جوڑ کے ٹوٹنے کا اندیشہ تھا جس کی زد براہِ راست کلیسا کے مفادات پر پڑسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پوپ نے اپنے ایک فرمان میں لوتھر کے باغیانہ اقدامات کی پُر زور مذمت کی اور اُسے ایک ایسا جنگلی سور قرار دیا جو لارڈ کے باغ میں گھس آیا ہو لیکن اس سب کے باوجود جرمنی کے حکمرانوں نے جو پہلے ہی پوپ کی دخل اندازیوں سے تنگ آچکے تھے لوتھر کا بھرپور ساتھ دیا اور پوپ کے ظلم سے اُس کی حفاظت کی۔
اب ہمیں دیکھنایہ ہے کہ ریفارمیشن کی اس تحریک سے یورپ کی سرزمین پر سیکولرازم کا پودا کیسے فروغ پذیر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوتھرکی جارہ کردہ اس تحریک نے جہاں عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق از سر نو بحال کردیا تھا وہیں اُس نے یورپ کے پورے معاشرے کو بھی مختلف قومی ریاستوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اب چونکہ نئی پیدا ہونے والی قومی ریاستوں کو منظم اور مستحکم کرنے میں کلیسا کے فراہم کردہ شرعی قوانین کار گر ثابت نہ ہوسکتے تھے لہٰذا نئے سرے سے قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکمرانوں کو یونان اور روم کے وضع کردہ سول قوانین کا سہارا لینا پڑا جو اپنی نوعیت میں بڑی حد تک سیکولر مزاج کے حامل تھے۔ اب جگہ جگہ لا کالج قائم ہوچکے تھے جن میں رومن لا کی تعلیم دی جاتی تھی تاکہ قومی ریاستوں کی روز افزوں قانونی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔ دوسری طرف یہ تعلیم کلیسا کے حق میں بڑی مہلک ثابت ہوئی کیونکہ اس کی وجہ سے عدالتوں کا کردار بدل گیا تھا اور فیصلےمذہبی قوانین کی بجائے سیکولر قوانین کے تابع ہونےلگے اور یوں پورے کا پورا یورپین معاشرہ رفتہ رفتہ سیکولر نظامِ حیات کی گرفت میں آتا چلا گیا۔ اس صورتِ حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سید سبط حسن بجا طور پر لکھتے ہیں:
’دوسرا اہم رجحان جس سے سیکولر عناصر کو تقویت ملی وہ مذہبیقوانین کی جگہ سول قوانین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی۔ اس رجحان کو بھی اٹلی کی جمہوری حکومتوں نے ہی سہارا دیا۔ چونکہ کلیسا کے وضع کردہ فرسودہ قوانین نئی زندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے تھے لہٰذا …. ہر جگہ لا کالج قائم ہوگئے۔ ان درس گاہوں میں قدیم رومن لا کی تعلیم دی جاتی تھی۔‘(سید سبط حسن، نوید فکر، ص: ۷۸)
اقبال جب مسلمانوں کے موجودہ تمدنی حالات کا موازنہ یورپ کے اُن تمدنی حالات سے کرتے ہیں جو لوتھر کے زمانے میں موجود تھے تو انہیں اِن دونوں معاشروں کے احوال میں گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ تاہم وہ اس مماثلت کے باوجود مسلمانوں کی اصلاح لوتھر کے انداز میں کرنا پسند نہیں کرتے۔ راقم کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ اصلاحی نقطہ ہائے نظر کا وہ اختلاف ہے جو اسلام اور عیسائیت کی ماہیت کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ ازروئے اسلام دین کا تعلق انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے ہے جب کہ عیسائیت میں دین اور دنیا الگ الگ معاملات ہیں اور انہیں ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام میں اصلاحی کوششیں دین ودنیا کی یک جائی پر جب کہ عیسائیت میں ان دونوں کی جدائی پر منتج ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یورپ میں لوتھر نے عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق بحال کرکے زندگی کے دیگر شعبوں کو سیکولر نظام حیات کے حوالے کردیا تھا اس لیےاُس کا یہ تجربہ اسلامی دنیا میں دہرایا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ اقبال اسلام میں دین ودنیا کی یک جائی کے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے الہ آباد والے خطبے میں فرماتے ہیں:
’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے مربوط ومنسلک ہے جو خود اُس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ اگر ایک کورد کیا گیا تو دوسرا خودبخود مسترد ہوجائے گا۔ اس لیے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہو جائے۔‘(محمد جہانگیر عالم (مترجم)، اقبال کا خطبہ الٰہ آباد در اقبال، (جولائی ۱۹۸۴ء)، ص: ۶۰)
احیائے علوم اور اصلاح مذہب کی ان زوردار تحریکوں کے بعد جس تیسری تحریک نے یورپ کے مزاج کو زیادہ سے زیادہ سیکولر بنانے میں معاون کا کردار ادا کیا ہے اسے روشن خیالی (Enlightenment) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ روشن خیالی کی یہ تحریک ہالینڈ اور انگلستان سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ سارے یورپ میں پھیلتی چلی گئی اور بالآخر فرانس میں اپنے عروج کمال تک جاپہنچی۔ انگلستان میں اس تحریک کا آغاز بیکن، ہابز اور لاک وغیرہ کی تجربیت پسندی سے ہوا تھا جب کہ فرانس میں اسے والٹیر اور اُس کے قاموسی رفقا نے پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ جرمنی میں اس تحریک کا باعث ریفارمیشن سے مایوسی اور مذہبی تنازعات تھے۔ اس لیے لوگ عقل کی جانب لوٹے اور فطرتی مذہب اور رواداری کے حامی بنے۔ اِن لوگوں میں ولف اور لیسنگ وغیرہ شامل تھے۔ بہر حال روشن خیالی کی یہ تحریک جن اصولوں پر قائم کی گئی تھی اُن کا خلاصہ حسبِ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1۔ انسان فطرت پر قابو پاسکتا ہے۔
2۔ خدا کی ذات سے انکار نہیں مگر اُس کی بنائی ہوئی کائنات کو سمجھنا ضروری ہے۔
3۔ انسان خدا سے آزاد ہے۔
4۔ لوگوں پر حکمرانوں اور بادشاہوں کی بجائے قواعد وضوابط کے ذریعہ حکومت کی جائے۔
5۔ دنیا کے بارے میں علم تجربات سے حاصل ہوگا مذہبی عقائد سے نہیں۔ (ڈاکٹر مبارک علی ، یورپ کا عروج، ص: ۱۳۰)
یورپ میں احیائے علوم اور اصلاحِ مذہب کی تحریکوں کے ظہور اور ان کے نتائج کے بارے میں اقبال کے ردِ عمل کا احوال بیان کرنے کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ روشن خیالی کی تحریک پر وہ کیا رویّہ اختیارکرتے ہیں تاہم اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے مغربی تہذیب وثقافت کے متعلق اقبال کے مجموعی رویے کی وضاحت کرناضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ راقم کے نزدیک اقبال مغربی تہذیب کے بارے میں مجموعی طو پر اعتدال پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہیں جس کے مطابق وہ اُس کی خوبیوں کو اپنانے اور خرابیوں سے بچنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال جس طرح مسلمانوں کو یورپ میں فروغ پانے والے علوم وفنون کو حاصل کرنے اور وہاں کی تہذیب وثقافت کی ظاہری آب وتاب سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں اُسی طرح وہ اگر ایک طرف اسلامی دنیا میں روشن خیالی کے فروغ کا دل سے خیر مقدم کرتے ہیں تو دوسری جانب اس میں پوشیدہ خطروں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا بھی اپنا فرض خیال کرتے ہیں۔
چنانچہ اسی فرض کی بجا آوری میں اقبال روشن خیالی میں پوشیدہ خطروں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں فرماتے ہیں:
’بہر حال اُس تحریک کا جو حریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے ہم دل سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رحجان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔لہٰذا نسلیت اور قومیت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیائے اسلام میں کار فرما ہیں اُس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کرسکتے ہیں جس کی اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے۔‘(سید نذیر نیازی (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص: ۲۵۱)
انتشار انگیزی کے علاوہ اقبال کے نزدیک روشن خیالی کی تحریک میں ایک خطرہ اور بھی پوشیدہ ہے جسے وہ مذہب بیزاری کا نام دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ایک خط مورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ء میں اس خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے شیخ اعجاز احمد کے نام بجا طور پر لکھتے ہیں:
’اس وقت بالعموم انہی مسلمانوں کو ملازمت کے لیے پسند کیا جاتا ہے (خاص کر اعلیٰ ملازمتوں کے لیے) جن کی اسلامیت حکومت کے خیال میں کمزور ہو اور اس کمزوری کا نام وسعت خیال یا لبرل ازم رکھا جاتا ہے‘۔ (سید مظفر حسین برنی (مرتب)، کلیاتِ مکاتیب اقبال، اردو اکادمی ، دہلی، ۱۹۹۹ء، ص: ۳۱۶)
احیائے علوم، اصلاحِ مذہب اور روشن خیالی کی تحریکوں کے علاوہ صنعتی انقلاب کے ثمرات نے بھی سرزمین یورپ میں سیکولر نظام حیات کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ احیائے علوم اور روشن خیالی کی بدولت جیسا کہ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے لوگوں میں نہ صرف نئے نئے علوم کو حاصل کرنے کی تحریک پیدا ہوئی بلکہ اُن کے دلوں میں مشاہداتی منہاج کی مدد سے تسخیر فطرت کا جذبہ بھی بیدار ہوا جس کے نتیجہ میں وہاں نت نئے سائنسی علوم کا ظہور علم میں آیا چنانچہ یہی وہ سائنسی علوم ہیں جن کی بنیاد پر یورپ میں صنعتی انقلاب رونما ہوا اور وہاں بڑے پیمانے پر ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ وہ معاشرہ جس میں مذہب لوگوں کی اجتماعی زندگی سے خارج ہوکر محض فرد کا ذاتی معاملہ بن چکا ہو اور جہاں لوگوں کو سوچنے اور اپنے فیصلے آپ کرنے کی آزادی حاصل ہوچکی ہو اور جہاں بے پناہ ترقی اور خوشحالی کی بدولت لوگوں کو کھل کر کھیلنے کےتمام مواقع میسر ہوچکے ہوں تو وہاں سیکولر نظام حیات کو فروغ حاصل نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟
قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں سیکولرازم کے ظہور ، ارتقا اور عروج کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کرنے کے بعد اب ہمیں اِس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ اگر زندگی کا یہ فلسفہ یورپ کی عیسائی دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے تو کیا یہ اسلامی دنیا میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے اور کیا مسلمان معاشرے بھی اس پر عمل پیرا ہو کر وہی نتائج حاصل کرسکتے ہیں جو یورپین معاشروں نے حاصل کیے ہیں؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے جس کی بنیادی وجہ عیسائیت اور اسلام کے تاریخی پس منظر کا وہ اختلاف ہے جس نے ابتدا ہی میں ان دونوں مذاہب کے سماجی رویوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ عیسائیت کا ظہور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یہود کی قانون پرستی کے خلاف ایک شدید ردِ عمل کے طور پر اُس وقت ہوا تھا جب رومیوں نے فلسطینی علاقوں پر نہ صرف قبضہ کرلیا تھا بلکہ وہاں اپنے قوانین بھی نافذ کردئیے تھے۔ یہودیوں نے ان قوانین کی مخالفت کی جس کے نتیجہ میں وہاں کشت وخون بھی ہوا۔ چنانچہ اس تجربے کی روشنی میں حضرت عیسیٰؑ نے عدم تشدد کی پالیسی اختیار کی ا ور یہ کہہ کر ’’خدا کا حق خدا کے لیے اور سیزر کا حق سیزر کے لیے‘‘ ریاست کو مذہب سے جدا کردیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑکی اس پالیسی کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال ناؤمن کے حوالے سے اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں بجا طور پر لکھتے ہیں:
’ابتدائی مسیحیت نے ریاست، قانون، نظم امور پیدا واری اور اس قسم کے دوسرے حقائق کو مطلق اہمیت نہیں دی۔ بالفاظ دیگر اُس نے انسانی معاشرے کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔‘ (سید نذیر نیازی (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص: ۲۵۶)
اس کے برعکس اسلام اپنے ظہور کے وقت موجود سماجی حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے انہیں تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت محمدﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میں سب سے پہلے کثرت پرستی کے خلاف جو اُس وقت معاشرے کی سب سے بڑی برائی تھی اپنی مہم کا آغاز کیا اور لوگوں کو خدائے واحد کی عبادت کرنے کی دعوت دی تھی جس نے عرب معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ بہر حال ماہرین نفسیات کے خیال میں انسان کی سماجی زندگی اُس کے تصورِ خدا کا عکس ہوا کرتی ہے۔ اب چونکہ عربوں میں صدیوں سے کثرت پرستی کا رواج عام تھا اس لیے ان کے ہاں مرکزی قیادت کا فقدان تھا اور اُن کی سماجی زندگی مختلف شعبوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اسلام نے اس صورت حال کو بدلا اور وحدت پرستی کی بدولت نہ صرف انسانیت کو ایک پرچم تلے جمع کیا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں یا پھر دوسرے الفاظ میں دین ودنیا کو یک جا بھی کردیا اور یوں اسلام نے دین ودنیا کی وہ دوئی جسے عیسائیت نے رواج دیا تھا سرے سے مٹا دیا۔ چنانچہ عیسائیت اور اسلام کے اِس بنیادی فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندویؒ نے بجا طور پر فرمایا:
’اسلام دین ودنیا اور جنت ارضی وسماوی اور آسمانی بادشاہت اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت لے کر اوّل روز سےہی پیدا ہوا ۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ہیں۔ ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدودِ حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کوئی کسریٰ۔(سید سلیمان ندوی، سیرت النبی ، المصباح ۱۶، اردو بازار ، لاہور، ص: ۳۰)
اقبال کے نزدیک عیسائیت اور اسلام کے مابین زندگی کے بارے میں سماجی رویوں کا فرق دراصل دونوں مذاہب کی داخلی توانائی کا وہ فرق ہے جس کی بنیاد پر عیسائیت کو اپنے خارجی حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا جب کہ اسلام اپنے خارجی حالات کو یکسر تبدیل کرنے پر کمربستہ ہوگیا۔ اقبال کی رائے میں دنیا کے ان دونوں مذاہب کا بنیادی مقصد اگر چہ شرک اوربت پرستی کو ختم کرنا ہی تھا لیکن اپنی داخلی کمزوری کی وجہ سے عیسائیت کو بت پرستی سے مفاہمت اختیار کرنا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال یورپ کی عیسائیت کو بھی جاہلیت قدیمہ کا ایک ناقص ترجمہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے کبھی شرک اور بت پرستی سے کمپرومائز نہیں کیا بلکہ اُسے ہر ممکن طریقے سے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر وہ شے یا خیال جو اسلام کی روح سے متصادم ہوتا ہے وہ اُسے ہر گز قبول نہیں کرسکتا۔ راقم کے نزدیک اب چونکہ شرک اور بت پرستی کی طرح سیکولرازم بھی اسلام کی روح سے براہِ راست متصادم ہوتا ہے اس لیے وہ اُسے بھی اپنے ہاں جگہ دینے کا رواداد نہیں ہوسکتا۔ بہر حال شرک اور بت پرستی کے حوالے سے عیسائیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر نے جورائے ظاہر کی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ اس بارے میں وہ لکھتا ہے:
’اشاعت اسلام و اشاعت مسیحیت میں ایک بڑا اہم فرق ہے۔ مسیحیت کو کبھی بھی اتنی طاقت حاصل نہ ہوئی کہ دولت روما کی بت پرستی کا قلع قمع کرسکتی۔ جس قدر اس کو ترقی ہوئی اُسی قدر بت پرستی کا عنصر اس میں زیادہ ملتا گیا۔ لیکن عرب میں حضرت محمدﷺ نے قدیم بت پرستی کو ایسا مٹایا کہ اُس کا نشان تک باقی نہ رکھا۔ جن عقاید کی آپ کے جانشینوں نے تلقین کی اُن میں بت پرستی کا ڈھونڈنے سے بھی سراغ نہیں ملتا۔‘(ظفر علی خان (مترجم)، معرکہ مذہب وسائنس، ص: ۱۸۳)
اقبال کی رائے میں علوم وفنون کی طرح دنیا میں مذاہب بھی دوقسموں کے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زندگی کو ہاں کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو زندگی کو ناں کہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اسلام کا تعلق پہلی قسم کے مذاہب سے ہے جب کہ عیسائیت کو وہ دوسری قسم کے مذاہب کی صف میں شمار کرتے ہیں۔ راقم کے خیال میں زندگی کو ہاں کہنے والے مذاہب سے اقبال کی مراد وہ مذہب ہوتے ہیں جن میں اگر ایک طرف فرد کا رشتہ خدا سے استوار کیا جاتا ہے تو دوسری جانب اجتماعی زندگی کے معاملات ومسائل کو حل کرنے کے احکام بھی بتائے جاتے ہیں جب کہ زندگی کو ناں کہنے والے مذاہب میں صرف اللہ اور بندے کے تعلق پر ہی زور دیا جاتا ہے اور اجتماعی زندگی کے معاملات ومسائل کے حل کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم اسلام کو ایک مکمل نظام حیات قرار دے سکتے ہیں جس میں عبادات وعقائد کے ساتھ ساتھ معاملات کو بھی دیکھا جاتا ہے ۔ اس لیے اُسے کسی ’’ازم‘‘ کی ضرورت نہیں جب کہ عیسائیت میں ہمیں معاملات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ چنانچہ اقبال زندگی کو ناں یاہاں کہنے کے حوالے سے اسلام اور عیسائیت کا باہمی فرق شعر کی زبان میں یوں بیان فرماتے ہیں؎
کاروبارِ خسروی یا راہبی؟
کیا ہے آخر غایتِ دین نبی؟
مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ
(علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو)، ص: ۴۳۱)
راقم کے نزدیک اسلام ایک مکمل نظام حیات یا پھر دوسرے الفاظ میں دین ہے جس میں عقائد اور عبادات کے علاوہ معاملات کا عنصر بھی شامل ہے جب کہ عیسائیت صرف ایک مذہب ہے۔ اگر کسی قوم کے نظام حیات میں جسے اپنے آسمانی ہونے کا دعویٰ بھی ہو عقائد، عبادات اور معاملات کے تینوں عناصر یکجا موجود پائے جائیں تو ہم اُسے دین کا نام دیں گے لیکن اگر کسی نظام حیات میں صرف پہلے دو عناصر تو موجود ہوں اور معاملات کا تیسرا عنصر اُس میں مفقود ہو تو اُسے مذہب۔ سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس اصول کی روشنی میں اسلام ایک مکمل دین ہے اور عیسائیت ایک مذہب لیکن بنیادی سوال تو یہ ہے کہ ازروئے اسلام معاملات سے کیا مراد لی جاتی ہے؟ چنانچہ اسلام کی رو سے معاملات کا اطلاق سماجیات ، اقتصادیات، سیاسیات اور تہذیب وثقافت کے اُن تمام شعبوں پر ہوتا ہے جنہیں قرآنی تعلیمات کے مطابق چلانے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جس معاشرے میں رہنمائی کی یہ صورت ہو وہاں سیکولر ازم جیسے انسانی فلسفے کی ضرورت کیسے پڑسکتی ہے ؟ بہر حال سید سلیمان ندویؒ معاملات کے حوالے سے دنیا کے مختلف ادیان ومذاہب کی صف بندی کرتے ہوئے بجا طور پر فرماتے ہیں:
’دنیا کے مذاہب نے معاملات کو اپنی تعلیم کا حصہ بنانے میں مختلف رجحانات ظاہر کیے ہیں تو رات میں وہ مذہبی قوانین کا ضروری اور اہم جزو ہیں لیکن عیسائیت نے اُن کو نظر انداز کردیا ہے۔ ہندوستانی مذہبوں میں بھی دونوں قسمیں نظر آتی ہیں۔ عام ہندوؤں میں منوشا ستر اور اُس کی مختلف تشریحات انہی معاملات کی شاخیں ہیں مگر شاید بودھ مت نے اخلاق ہی کو بڑھا کر قانون بنانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ سب قومیں اپنے قانون کا ماخذ علم الٰہی علم مافوق انسانی کو قرار دیتی ہیں۔ (سید سلیمان ندوی ، سیرت النبیﷺ، ص: ۱۱)
اب ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام دین کے اصولوں پر مبنی ایک مکمل نظام حیات ہے جو انسان کی روحانی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اُن کی دنیاوی حاجات بھی پوری کرسکتا ہے تو پھر مسلمانوں کی موجودہ تمدنی حالت اور دیگر زمینی حقائق اُس کے اِس دعوے کی شہادت کیوں نہیں دیتے؟ راقم کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جب تک خلافت کا ادارہ قائم رہا اُس وقت تک ہمیں دین ودنیا کی مکمل ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے جو اُن کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن تھی لیکن ملوکیت کے سر اٹھاتے ہی ان دونوں میں جدائی کا عمل شروع ہوگیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور یوں مسلمان بھی اُسی فرض کا شکار ہوکر رہ گئے جس کا اُن سے پہلے عیسائی ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں میں دین ودنیا کی جدائی کا یہ عمل اُس وقت اور بھی تیز ہوجاتا ہے جب کہ مغربی اقوام نے مسلم ممالک پر نہ صرف زبردستی قبضہ جما لیا بلکہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کی خاطر اُن کی تعلیمی اور عدالتی نظام کو تبدیل کرکے اُس کی جگہ اپنے نصاب اور قوانین نافذ کردئیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام جو کبھی اپنے علاقوں میں دین کی صورت میں نافذ ہوا کرتا تھا غلامی میں ایک مذہب بن کر رہ گیا۔
اقبال کے نزدیک اسلام چونکہ بجائے خود ایک تقدیر ہے، جسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا اس لیے وہ صرف آزاد ماحول ہی میں اپنی توانائیوں کا فطری اظہار کرسکتا ہے جس کے پیش نظر انہوں نے برصغیر پاک وہند میں ایک اسلامی ریاست کے حصول کا خواب دیکھا جس میں اسلامی نظامِ حیات کو نافذ کرنا اس کا بنیادی مقصد قرار دیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے نہ صرف اس مقصد سے مکمل طور پر اتفاق کیا بلکہ اُس کے حصول کا بیڑا بھی اٹھایا جس میں وہ ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو کامیابی سے ہم کنار بھی ہوئے مگر آج ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اُس میں روشن خیالی کے نام پر سیکولر ازم کو مسلط کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور اُس کے لیے دلیل یہ دی جارہی ہے کہ سیکولر اصولوں پر چل کر ہی پاکستان کو ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنایا جاسکتا ہے۔ راقم کے نزدیک پاکستان میں اِس قسم کی باتیں کرنا نہ صرف اقبال اور قائد اعظم کے تاریخی مؤقف سے انحراف ہے بلکہ یہ اس بات کا برملا اظہار بھی ہے کہ اسلام گویا موجودہ عہد کے مسائل کو حل کرنے کا اہل نہیں۔ چنانچہ سید سبط حسن پاکستان میں سیکولر نظام کے نفاذ کی وکالت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں:
’سیکولر ازم سے اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور نہ اس سے پاکستان کی بقا و سالمیت پر کوئی ضرب پڑتی ہے بلکہ ہمارا خیال یہ ہے کہ سیکولر اصولوں ہی پر چل کر پاکستان ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور خوش حال ملک بن سکتا ہے۔‘(سید سبط حسن، نوید فکر، ص: ۷۱)
راقم کے خیال میں سید سبط حسن کا یہ خیال درست نہیں ہے اور اُسے اُن کی اس رائے سے بھی سخت اختلاف ہے کہ سیکولر ازم کو معاشرتی نظام کے لیے درست سمجھنے سے دین دار بے دین اور خدا پرست دہریہ نہیں ہوجاتا۔ کیونکہ راقم کے نزدیک سیکولرازم اور اسلام نہ صرف دو جداگانہ نظام ہائے حیات کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ ان دونوں کے اصولوں میں بھی بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ سیکولرازم مابعد الطبیعیات کے انکار پر مبنی وہ نظام حیات ہے جو صرف اسی دنیا اور اسی زمانے کی بات کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس اسلام مابعد الطبیعیات کو نہ صرف اپنا ماخذ ومصدر قرار دیتا ہے بلکہ وہ اس دنیا کے ساتھ ساتھ اس دنیا کی بات بھی کرتا ہے جسے وہ آخرت کا نام دیتا ہے۔ اس لیے جب کوئی فرد اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ بیک وقت مسلمان بھی ہے اور سیکولر بھی تو اُس کا یہ دعویٰ محل نظر دکھائی دیتا ہےکیونکہ ایسا فرد یا تو انتہائی سادہ لوحی کا شکار ہے جسے نہ اسلام کا پتا ہے نہ سیکولرازم کا یا پھر وہ گہرا سازشی ذہن رکھنے والا انسان جو اپنی مسلمانی کی آڑ میں پاکستان کی نظریاتی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتا ہے ۔ ایسے ہی سازشی انسانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کیا خوب لکھتے ہیں:
’روشن خیالوں کے منہ میں دو زبانیں ہوتی ہیں ایک دوسروں سے گفتگو کے لیے اور ایک اپنوں سے بات چیت کرنے کے لیے، اور سیکولرازم بلکہ الحاد ومذہب دشمنی کی ساری تبلیغ بھولے بھالے اسلامی ممالک کے لیے ہے جنہوں نے نئی نئی آزادی حاصل کی ہے۔(ابو الحسن ندوی، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، ۱۹۷۶ء، ص: ۲۰۶)
اس وقت پاکستان بھی ایسا ہی سازشی ذہن رکھنے والے روشن خیال دانشوروں کی زد میں ہے جو اس کا مقدرِ اسلام کے ساتھ جوڑنے کی بجائے سیکولر ازم کے ساتھ جوڑنے کےآرزو مند ہیں اور انہوں نے اس مقصد کے حصول کی خاطر تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی مہم بھی شروع کررکھی ہے جس کی ایک مثال تحریک پاکستان اور اُس کے مرکزی رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینا ہے۔(سید سبط حسن، نوید فکر، ص: ۱۵۸، ۱۶۱)
راقم کے نزدیک تحریک پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینا دراصل تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ہی تو ہے جس کی تردید کرنے کے لیے اگر چہ تاریخ کے اوراق میں ہزاروں شواہد موجود ہیں تاہم اس مقصد کے لیے اگر اقبال اور قائد اعظم کے درمیان ہونے والی خط وکتابت کا مطالعہ کرلیا جائے گا تو کافی ہوگا۔ مثال کے طور پر اقبال قائد اعظم محمد علی جناح کے نام پر اپنے ایک خط محررہ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء میں وہ ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام صرف اس لیے چاہتے ہیں کہ اُس میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ ممکن بنایا جاسکے جس کی بدولت اگر ایک طرف مسلمانوں کے معاشی مسائل حل کرنے میں مدد ملے تو دوسری جانب اُن کی تہذیب وثقافت کی حفاظت کو بھی ممکن بنایا جائے۔ بہر حال پاکستان میں سیکولر دانشوروں کی سرگرمیوں سے باخبر کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال روز نامہ جنگ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:
’اسی طرح قائد اعظم کے بارے میں متنازعہ چند سوالات اور باتیں پھیلائی جاتی رہی ہیں اُن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اسلامی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں تھے…. اس طرح یہ ادارے اور شخصیات ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں‘۔(ڈاکٹر وحید عشرت (مرتب)، اقبال ۸۵، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص: ۴۶۸)، (بشکریہ’اقبالیات‘)
اسلامی دنیا میں سیکولرازم کو فروغ دینا بھی عالمی نظام کے اہداف میں شامل ہے۔ جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی خیر خواہی بیان کیا جاتا ہے۔ دنیا میں عالمی نظام نافذ کرنے والوں کے نزدیک یورپ اور امریکہ کی ترقی اور خوش حالی کا راز چونک سیکولر نظامِ حیات کے اختیار کرنے میں پوشیدہ ہے اس لیے وہ اپنے تجربے کی روشنی میں مسلم معاشروں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں بھی سیکولر نظام حیات کو رواج دیںگے۔ امریکہ اور یورپ کی عالمی قیادت کی رائے میں مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ چونکہ ریاست کے معاملات میں مذہب کی بے جامدا خلت ہے اس لیے اگر اسلامی دنیا کے لوگ بھی آزادی اور خوش حالی کی منزل سے ہم کنار ہونا چاہتے ہیں تو انہیں بھی امریکہ اور یورپ کی پیروی میں مذہب کو ریاستی امور سے جدا کرنا ہوگا۔
نیا عالمی نظام نافذ کرنے والوں کی جانب سے مسلمان معاشروں میں سیکولرازم کے فلسفے کو رواج دینے کا مشورہ یا زیادہ بہتر الفاظ میں فیصلہ اس دلیل کی بنا پر کہ یورپ اور امریکہ کی ترقی اور خوش حالی کا راز اس فلسفے کی ترویج میں پوشیدہ ہے جو کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنے سے مسلم معاشروں کو نہ صرف اپنے دینی اصولوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ ایسا کرنے میں اُن کے تہذیبی تشخص کے مٹنے اور قومی تسلسل کے ٹوٹنے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ جب کہ اقبال کے ہاں اس دور میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اپنے تہذیبی تشخص اور قومی تسلسل کو قائم رکھنا ہے۔ جسے ہم سیکولر نظام حیات کو اپنا کر قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے غیروں کی جانب سے ترقی اور خوش حالی کے نام پر سیکولر نظام حیات کو اختیار کرنے کا مشورہ قبول کرنے سے پہلے ہمارے روشن خیال حکمرانوں اور سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں کو اقبال کے اس مشورے پر بھی غور کرنا ہوگا جس میں وہ کسی تصور یا فلسفے کی پیدائش کے تاریخی پس منظر کو جاننا از حد ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال نے فرمایا:
’’فکری ارتقا کو انسانی فعلیت کے دیگر پہلوؤں سے منقطع نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ فلسفہ کی کتابیں ہمیں یہ تو بتاتی ہیں کہ مختلف قوموں نے کیا سوچا ہے لیکن اُن مختلف معاشرتی اور سیاسی اسباب وعوامل کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتیں جن سے فکر انسانی کا کردار متعین ہوا فلسفے کی جامع تاریخ مرتب کرنا یقیناً ایک دشوار کام ہوگا۔‘‘(ڈاکٹر جاوید اقبال، شذرات فکر اقبال ، مجلس ترقی ادب ، ۲کلب روڈ، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص: ۱۱۱)
اقبال کے حوالے سے فلسفے کی تاریخ نویسی کا جو اہم اصول ہم نے بھی اوپر بیان کیا ہے جب ہم اُس کی روشنی میں سیکولرازم کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام حیات کی تشکیل میں کم از کم چار بڑے واقعات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے جنہیں یورپ کی تاریخ میں عام طور پر رینے ساں ، ریفار میشن، روشن خیالی کی تحریک اور صنعتی انقلاب کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ راقم کے خیال میں اگر یورپ کی تاریخ میں یہ واقعات رونما نہ ہوتے تو شاید سیکولرازم کا ظہور بھی عمل میں نہ آتا۔ بہر حال ان واقعات پر روشنی ڈالنے سے پہلے یورپ کی اُس تمدنی حالت کا شعور حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جس میں اُس وقت وہاں کے لوگ اپنی زندگی بسر کررہے تھے اور جس کے خلاف ردِ عمل کے طور پر سیکولر خیالات کا ظہور عمل میں آیا اور جس کے نتیجہ میں یورپ کے لوگوں نے عیسائیت کے عنصر کو جو وہاں کی غالب اکثریت کا مذہب تھا رفتہ رفتہ ریاست کے معاملات سے خارج کرنا شروع کردیا اور یوں سیکولر ازم کے فروغ کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی تاریخ میں عیسائیت کا آغاز رومی سلطنت کے زیر سایہ ہوا تھا جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ خدا کا حق خدا کو دو اور سیر ز کا حق سیرز کو دو جو گویا اِس امر کا اعلان تھا کہ مذہب اور ریاست دو جدا جدا معاملات ہیں جنہیں ایک دوسرے میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ تاہم مذہب اور ریاست کی یہ جدائی اُس وقت اپنے اختتام کو پہنچ گئی جب قسطنطین نے عیسائیت کا مذہب اختیار کرلیا اور دونوں اداروں کو ملا کر ایک کردیا جس کا نتیجہ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کے الفاظ میں یہ برآمد ہوتا ہے کہ یورپ کے ہر ملک میں دہری حکومت تھی ایک تو مقامی یعنی دینوی حکومت اور دوسری غیر ملکی حکومت جس کے اقتدارارت کا مصدر و مرکز پاپائے روماتھا۔ روما کے اثر کا مقامی اثر پر غالب ہونا ایک لازمی امر تھا۔ (مولانا ظفر علی خان (مترجم) ، معرکہ مذہب وسائنس، الفیصل تاجران کتب، لاہور، ص: ۳۸۱)چنانچہ چرچ اور سٹیٹ کے اِس گٹھ جوڑ کے اثرات یورپ کے تمدنی حالت پر کیا مرتب ہوئے اس کا اندازہ ہمیں مشہور اشترا کی دانش و رسید سبط حسن کے اس اقتباس سے بخوبی ہوسکتا ہے جو اُن کے ایک مضمون ’’تھیوکریسی‘‘ سے لیا گیا ہے جس میں وہ بجاطور پر تحریرکرتے ہیں:
مغربی مورخین کلیسا کے ہزار سالہ اقتدار کو عہد تاریک سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ وہاں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک تعصب ، تنگ نظری اور توہم پرستی کا اندھیرا چھایا رہا۔ کلیسا نے عقل وخرد پر پہرے بٹھارکھے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ کلیسائی عقائد سے سرِ مواختلاف کرسکے۔ ہر جگہ مذہبی عدالتیں قائم تھیں۔ یورپ کا ہر فرد بشر جس کو بادشاہوں کی براہ راست سرپرستی حاصل نہ تھی مذہبی عدالتوں کے خوف سے کانپتا رہتا تھا۔(سید سبط حسن ، نوید فکر، مکتبہ دانیال، عبداللہ ہارون روڈ، صدر کراچی، ۲۰۰۲ء، ص: ۲۳)
قرون وسطیٰ میں یورپ کے عام تمدنی حالات کے بارے میں کچھ ایسی ہی رائے کا اظہار ڈاکٹر مبارک علی نے بھی اپنی کتاب ’’یورپ کی تاریخ ‘‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے:
چرچ اور مذہبی عقائد نے قرونِ وسطیٰ ے معاشرے کو اس قدر سختی سے جکڑرکھا تھا کہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگ اس کی تعلیمات کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔ سائنس دان اپنی تحقیق کی بنیاد علم پر نہیں بلکہ مفروضوں پر رکھتے تھے کیونکہ اوّل تو انہیں تجربات کی سہولت نہیں تھی۔ دوم اُن کے تجربات مذہبی عقائد سے ٹکراتے تھے۔ اس لیے وہ مذہب سے منحرف ہونے پر گھبراتے تھے۔ (ڈاکٹر مبارک علی، یورپ کا عروج، فکشن ہاؤس، ۱۸ مزنگ روڈ، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص: ۹۰)
اس مقام پر اگر قرونِ وسطیٰ میں یورپ کی عام سماجی حالت کا خلاصہ بیان کردیا جائے تو بیجانہ ہوگا۔ چنانچہ اُس وقت کے یورپ کا معاشرہ مکمل طور پر چرچ، بادشاہ اور فیوڈل لار ڈز کے مشترکہ تسلط میں جکڑا ہوا تھا جنہوں نے نہ صرف عوام کے فکرونظر کی آزادی کو سلب کررکھا تھا بلکہ یورپ کا پورے کا پورا معاشرہ بھی جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا لیکن ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ کے مصداق دنیا میں کوئی معاشرہ بھی زیادہ دیر تک ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتااور اُس میں تبدیلی کا رونما ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہی کچھ یورپ کے ساتھ بھی ہوا اور وہاں جلدہی رینے ساں (Renaissance) کی تحریک جسے اُردو میں تحریک احیائے علوم کا نام دیا جاتا ہے، کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں لوگوں میں نئے نئے علوم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے چرچ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا شروع کردیا کیونکہ اب اُنہیں نئے سائنسی علوم کے حقائق جنہیں عام طور پر مشاہدات کے بنیاد پر اخذ کیا جاتا تھا براہِ راست مذہبی عقائد سے متصادم دکھائی دینے لگے تھے۔ چنانچہ یورپ کے رہنے والوں نے اس تصادم کا علاج سیکولرازم کے فلسفے میں تلاش کیا جس کی رو سے مذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار پایا اور اسے نہ صرف سائنس کی دنیا میں مداخلت سے روک دیا گیا بلکہ زندگی کے دوسرے امور سے بھی بے دخل کردیا گیا۔
اس کے برعکس اقبال چونکہ مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کے خیال کو نہ صرف غیر اسلامی قرار دیتے ہیں بلکہ وہ ان دونوں قوتوں کے مابین ہم آہنگیوں کو تلاش کرنے کے آرزو مند بھی ہیں اس لیے ہم اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ کم از کم اسلام کی حدود میں سیکولرازم کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اقبال کی رائے میں مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کا جو خیال عام طور سے رواج پاگیا ہے وہ درست نہیں ہے اور اُس کا اطلاق دنیا کے تمام مذاہب پر یکساں طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے نزدیک تصادم کا یہ خیال عیسائیت کے پس منظر میں یورپ کے مخصوص حالات کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جسے آنکھیں بند کرکے اسلام پر منطبق کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ کیونکہ اقبال کے نزدیک دنیا میں اسلام ہی وہ مذہب ہے جسے سائنسی علوم سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ چنانچہ اقبال نے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ جیسی معرکہ آرا کتاب لکھ کر جہاں تصادم کے اس خیال کر تردید کی ہے وہاں انہوں نے مذہب اور سائنس کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگیوں کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔ بہر حال اقبال ۶ مارچ ۱۹۲۷ء کو اپنے ایک اخباری بیان میں مذہب اور سائنس کے تصادم پر اظہار خیال کرتے ہوئے بجا طور پر فرماتے ہیں:
سائنس اور مذہب کاتصادم غیر اسلامی ہے۔ قرآن کے ہر صفحہ پر انسان کو مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ علم حاصل کرنے کے تلقین کی گئی ہے…. ڈاکٹر ولیم جان ڈریپر کی تصنیف معرکہ مذہب اور سائنس اصل میں مذہب اور سائنس کی ہنگامہ آرائی کی مظہر نہیں بلکہ عیسائیت اور سائنس کے تصادم کی تاریخ ہے۔ اس تصادم کی وجہ یہ تھی کہ یورپ کے حکما اور علما مسلمانوں کی علمی ترقی سے متاثر ہوئے تو اہل فرنگ کے خیالات بھی زبردست انقلاب پیدا ہونے لگا اور رومن کیتھولک مذہب والے اس علمی انقلاب سے متصادم ہوئے۔ (رفیق افضل (مرتب)، گفتار اقبال، ادارہ تحقیقات ، دانشگاہِ پنجاب، لاہور، ص: ۲۳)
بہر حال تحریک احیائے علوم کے علاوہ یورپ کی تاریخ میں جس دوسری بڑی تحریک نے وہاں کے لوگوں کو سیکولرازم کا فلسفہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا وہ ریفار میشن کی تحریک تھی جس کا پانی مارٹن لوتھر نامی ایک شخص تھاجو ۱۴۸۳ء میں جرمنی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ مارٹن لوتھر کی اس تحریک کا بنیادی مقصد دراصل عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق از سرِ نو بحال کرنا تھا جو خدا کی اطاعت اپنی جگہ اور بادشاہ کی اطاعت اپنی جگہ کے اصول پر مشتمل تھی۔ اب صاف ظاہر ہے کہ قرونِ وسطی کے معاشرے میں اس اصول کو از سرِ نو بحال کرنا بغاوت سے کم نہ تھا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ریاست اور چرچ کے ہزار سالہ گٹھ جوڑ کے ٹوٹنے کا اندیشہ تھا جس کی زد براہِ راست کلیسا کے مفادات پر پڑسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پوپ نے اپنے ایک فرمان میں لوتھر کے باغیانہ اقدامات کی پُر زور مذمت کی اور اُسے ایک ایسا جنگلی سور قرار دیا جو لارڈ کے باغ میں گھس آیا ہو لیکن اس سب کے باوجود جرمنی کے حکمرانوں نے جو پہلے ہی پوپ کی دخل اندازیوں سے تنگ آچکے تھے لوتھر کا بھرپور ساتھ دیا اور پوپ کے ظلم سے اُس کی حفاظت کی۔
اب ہمیں دیکھنایہ ہے کہ ریفارمیشن کی اس تحریک سے یورپ کی سرزمین پر سیکولرازم کا پودا کیسے فروغ پذیر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوتھرکی جارہ کردہ اس تحریک نے جہاں عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق از سر نو بحال کردیا تھا وہیں اُس نے یورپ کے پورے معاشرے کو بھی مختلف قومی ریاستوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اب چونکہ نئی پیدا ہونے والی قومی ریاستوں کو منظم اور مستحکم کرنے میں کلیسا کے فراہم کردہ شرعی قوانین کار گر ثابت نہ ہوسکتے تھے لہٰذا نئے سرے سے قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکمرانوں کو یونان اور روم کے وضع کردہ سول قوانین کا سہارا لینا پڑا جو اپنی نوعیت میں بڑی حد تک سیکولر مزاج کے حامل تھے۔ اب جگہ جگہ لا کالج قائم ہوچکے تھے جن میں رومن لا کی تعلیم دی جاتی تھی تاکہ قومی ریاستوں کی روز افزوں قانونی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔ دوسری طرف یہ تعلیم کلیسا کے حق میں بڑی مہلک ثابت ہوئی کیونکہ اس کی وجہ سے عدالتوں کا کردار بدل گیا تھا اور فیصلےمذہبی قوانین کی بجائے سیکولر قوانین کے تابع ہونےلگے اور یوں پورے کا پورا یورپین معاشرہ رفتہ رفتہ سیکولر نظامِ حیات کی گرفت میں آتا چلا گیا۔ اس صورتِ حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سید سبط حسن بجا طور پر لکھتے ہیں:
’دوسرا اہم رجحان جس سے سیکولر عناصر کو تقویت ملی وہ مذہبیقوانین کی جگہ سول قوانین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی۔ اس رجحان کو بھی اٹلی کی جمہوری حکومتوں نے ہی سہارا دیا۔ چونکہ کلیسا کے وضع کردہ فرسودہ قوانین نئی زندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے تھے لہٰذا …. ہر جگہ لا کالج قائم ہوگئے۔ ان درس گاہوں میں قدیم رومن لا کی تعلیم دی جاتی تھی۔‘(سید سبط حسن، نوید فکر، ص: ۷۸)
اقبال جب مسلمانوں کے موجودہ تمدنی حالات کا موازنہ یورپ کے اُن تمدنی حالات سے کرتے ہیں جو لوتھر کے زمانے میں موجود تھے تو انہیں اِن دونوں معاشروں کے احوال میں گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ تاہم وہ اس مماثلت کے باوجود مسلمانوں کی اصلاح لوتھر کے انداز میں کرنا پسند نہیں کرتے۔ راقم کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ اصلاحی نقطہ ہائے نظر کا وہ اختلاف ہے جو اسلام اور عیسائیت کی ماہیت کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ ازروئے اسلام دین کا تعلق انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے ہے جب کہ عیسائیت میں دین اور دنیا الگ الگ معاملات ہیں اور انہیں ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام میں اصلاحی کوششیں دین ودنیا کی یک جائی پر جب کہ عیسائیت میں ان دونوں کی جدائی پر منتج ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یورپ میں لوتھر نے عیسائیت کو اُس کی اصل روح کے مطابق بحال کرکے زندگی کے دیگر شعبوں کو سیکولر نظام حیات کے حوالے کردیا تھا اس لیےاُس کا یہ تجربہ اسلامی دنیا میں دہرایا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ اقبال اسلام میں دین ودنیا کی یک جائی کے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے الہ آباد والے خطبے میں فرماتے ہیں:
’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے مربوط ومنسلک ہے جو خود اُس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ اگر ایک کورد کیا گیا تو دوسرا خودبخود مسترد ہوجائے گا۔ اس لیے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہو جائے۔‘(محمد جہانگیر عالم (مترجم)، اقبال کا خطبہ الٰہ آباد در اقبال، (جولائی ۱۹۸۴ء)، ص: ۶۰)
احیائے علوم اور اصلاح مذہب کی ان زوردار تحریکوں کے بعد جس تیسری تحریک نے یورپ کے مزاج کو زیادہ سے زیادہ سیکولر بنانے میں معاون کا کردار ادا کیا ہے اسے روشن خیالی (Enlightenment) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ روشن خیالی کی یہ تحریک ہالینڈ اور انگلستان سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ سارے یورپ میں پھیلتی چلی گئی اور بالآخر فرانس میں اپنے عروج کمال تک جاپہنچی۔ انگلستان میں اس تحریک کا آغاز بیکن، ہابز اور لاک وغیرہ کی تجربیت پسندی سے ہوا تھا جب کہ فرانس میں اسے والٹیر اور اُس کے قاموسی رفقا نے پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ جرمنی میں اس تحریک کا باعث ریفارمیشن سے مایوسی اور مذہبی تنازعات تھے۔ اس لیے لوگ عقل کی جانب لوٹے اور فطرتی مذہب اور رواداری کے حامی بنے۔ اِن لوگوں میں ولف اور لیسنگ وغیرہ شامل تھے۔ بہر حال روشن خیالی کی یہ تحریک جن اصولوں پر قائم کی گئی تھی اُن کا خلاصہ حسبِ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1۔ انسان فطرت پر قابو پاسکتا ہے۔
2۔ خدا کی ذات سے انکار نہیں مگر اُس کی بنائی ہوئی کائنات کو سمجھنا ضروری ہے۔
3۔ انسان خدا سے آزاد ہے۔
4۔ لوگوں پر حکمرانوں اور بادشاہوں کی بجائے قواعد وضوابط کے ذریعہ حکومت کی جائے۔
5۔ دنیا کے بارے میں علم تجربات سے حاصل ہوگا مذہبی عقائد سے نہیں۔ (ڈاکٹر مبارک علی ، یورپ کا عروج، ص: ۱۳۰)
یورپ میں احیائے علوم اور اصلاحِ مذہب کی تحریکوں کے ظہور اور ان کے نتائج کے بارے میں اقبال کے ردِ عمل کا احوال بیان کرنے کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ روشن خیالی کی تحریک پر وہ کیا رویّہ اختیارکرتے ہیں تاہم اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے مغربی تہذیب وثقافت کے متعلق اقبال کے مجموعی رویے کی وضاحت کرناضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ راقم کے نزدیک اقبال مغربی تہذیب کے بارے میں مجموعی طو پر اعتدال پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہیں جس کے مطابق وہ اُس کی خوبیوں کو اپنانے اور خرابیوں سے بچنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال جس طرح مسلمانوں کو یورپ میں فروغ پانے والے علوم وفنون کو حاصل کرنے اور وہاں کی تہذیب وثقافت کی ظاہری آب وتاب سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں اُسی طرح وہ اگر ایک طرف اسلامی دنیا میں روشن خیالی کے فروغ کا دل سے خیر مقدم کرتے ہیں تو دوسری جانب اس میں پوشیدہ خطروں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا بھی اپنا فرض خیال کرتے ہیں۔
چنانچہ اسی فرض کی بجا آوری میں اقبال روشن خیالی میں پوشیدہ خطروں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں فرماتے ہیں:
’بہر حال اُس تحریک کا جو حریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے ہم دل سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رحجان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔لہٰذا نسلیت اور قومیت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیائے اسلام میں کار فرما ہیں اُس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کرسکتے ہیں جس کی اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے۔‘(سید نذیر نیازی (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص: ۲۵۱)
انتشار انگیزی کے علاوہ اقبال کے نزدیک روشن خیالی کی تحریک میں ایک خطرہ اور بھی پوشیدہ ہے جسے وہ مذہب بیزاری کا نام دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ایک خط مورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ء میں اس خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے شیخ اعجاز احمد کے نام بجا طور پر لکھتے ہیں:
’اس وقت بالعموم انہی مسلمانوں کو ملازمت کے لیے پسند کیا جاتا ہے (خاص کر اعلیٰ ملازمتوں کے لیے) جن کی اسلامیت حکومت کے خیال میں کمزور ہو اور اس کمزوری کا نام وسعت خیال یا لبرل ازم رکھا جاتا ہے‘۔ (سید مظفر حسین برنی (مرتب)، کلیاتِ مکاتیب اقبال، اردو اکادمی ، دہلی، ۱۹۹۹ء، ص: ۳۱۶)
احیائے علوم، اصلاحِ مذہب اور روشن خیالی کی تحریکوں کے علاوہ صنعتی انقلاب کے ثمرات نے بھی سرزمین یورپ میں سیکولر نظام حیات کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ احیائے علوم اور روشن خیالی کی بدولت جیسا کہ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے لوگوں میں نہ صرف نئے نئے علوم کو حاصل کرنے کی تحریک پیدا ہوئی بلکہ اُن کے دلوں میں مشاہداتی منہاج کی مدد سے تسخیر فطرت کا جذبہ بھی بیدار ہوا جس کے نتیجہ میں وہاں نت نئے سائنسی علوم کا ظہور علم میں آیا چنانچہ یہی وہ سائنسی علوم ہیں جن کی بنیاد پر یورپ میں صنعتی انقلاب رونما ہوا اور وہاں بڑے پیمانے پر ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ وہ معاشرہ جس میں مذہب لوگوں کی اجتماعی زندگی سے خارج ہوکر محض فرد کا ذاتی معاملہ بن چکا ہو اور جہاں لوگوں کو سوچنے اور اپنے فیصلے آپ کرنے کی آزادی حاصل ہوچکی ہو اور جہاں بے پناہ ترقی اور خوشحالی کی بدولت لوگوں کو کھل کر کھیلنے کےتمام مواقع میسر ہوچکے ہوں تو وہاں سیکولر نظام حیات کو فروغ حاصل نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟
قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں سیکولرازم کے ظہور ، ارتقا اور عروج کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کرنے کے بعد اب ہمیں اِس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ اگر زندگی کا یہ فلسفہ یورپ کی عیسائی دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے تو کیا یہ اسلامی دنیا میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے اور کیا مسلمان معاشرے بھی اس پر عمل پیرا ہو کر وہی نتائج حاصل کرسکتے ہیں جو یورپین معاشروں نے حاصل کیے ہیں؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے جس کی بنیادی وجہ عیسائیت اور اسلام کے تاریخی پس منظر کا وہ اختلاف ہے جس نے ابتدا ہی میں ان دونوں مذاہب کے سماجی رویوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ عیسائیت کا ظہور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یہود کی قانون پرستی کے خلاف ایک شدید ردِ عمل کے طور پر اُس وقت ہوا تھا جب رومیوں نے فلسطینی علاقوں پر نہ صرف قبضہ کرلیا تھا بلکہ وہاں اپنے قوانین بھی نافذ کردئیے تھے۔ یہودیوں نے ان قوانین کی مخالفت کی جس کے نتیجہ میں وہاں کشت وخون بھی ہوا۔ چنانچہ اس تجربے کی روشنی میں حضرت عیسیٰؑ نے عدم تشدد کی پالیسی اختیار کی ا ور یہ کہہ کر ’’خدا کا حق خدا کے لیے اور سیزر کا حق سیزر کے لیے‘‘ ریاست کو مذہب سے جدا کردیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑکی اس پالیسی کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال ناؤمن کے حوالے سے اپنے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں بجا طور پر لکھتے ہیں:
’ابتدائی مسیحیت نے ریاست، قانون، نظم امور پیدا واری اور اس قسم کے دوسرے حقائق کو مطلق اہمیت نہیں دی۔ بالفاظ دیگر اُس نے انسانی معاشرے کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔‘ (سید نذیر نیازی (مترجم)، تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص: ۲۵۶)
اس کے برعکس اسلام اپنے ظہور کے وقت موجود سماجی حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے انہیں تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت محمدﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میں سب سے پہلے کثرت پرستی کے خلاف جو اُس وقت معاشرے کی سب سے بڑی برائی تھی اپنی مہم کا آغاز کیا اور لوگوں کو خدائے واحد کی عبادت کرنے کی دعوت دی تھی جس نے عرب معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ بہر حال ماہرین نفسیات کے خیال میں انسان کی سماجی زندگی اُس کے تصورِ خدا کا عکس ہوا کرتی ہے۔ اب چونکہ عربوں میں صدیوں سے کثرت پرستی کا رواج عام تھا اس لیے ان کے ہاں مرکزی قیادت کا فقدان تھا اور اُن کی سماجی زندگی مختلف شعبوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اسلام نے اس صورت حال کو بدلا اور وحدت پرستی کی بدولت نہ صرف انسانیت کو ایک پرچم تلے جمع کیا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں یا پھر دوسرے الفاظ میں دین ودنیا کو یک جا بھی کردیا اور یوں اسلام نے دین ودنیا کی وہ دوئی جسے عیسائیت نے رواج دیا تھا سرے سے مٹا دیا۔ چنانچہ عیسائیت اور اسلام کے اِس بنیادی فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندویؒ نے بجا طور پر فرمایا:
’اسلام دین ودنیا اور جنت ارضی وسماوی اور آسمانی بادشاہت اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت لے کر اوّل روز سےہی پیدا ہوا ۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ہیں۔ ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدودِ حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کوئی کسریٰ۔(سید سلیمان ندوی، سیرت النبی ، المصباح ۱۶، اردو بازار ، لاہور، ص: ۳۰)
اقبال کے نزدیک عیسائیت اور اسلام کے مابین زندگی کے بارے میں سماجی رویوں کا فرق دراصل دونوں مذاہب کی داخلی توانائی کا وہ فرق ہے جس کی بنیاد پر عیسائیت کو اپنے خارجی حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا جب کہ اسلام اپنے خارجی حالات کو یکسر تبدیل کرنے پر کمربستہ ہوگیا۔ اقبال کی رائے میں دنیا کے ان دونوں مذاہب کا بنیادی مقصد اگر چہ شرک اوربت پرستی کو ختم کرنا ہی تھا لیکن اپنی داخلی کمزوری کی وجہ سے عیسائیت کو بت پرستی سے مفاہمت اختیار کرنا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال یورپ کی عیسائیت کو بھی جاہلیت قدیمہ کا ایک ناقص ترجمہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے کبھی شرک اور بت پرستی سے کمپرومائز نہیں کیا بلکہ اُسے ہر ممکن طریقے سے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر وہ شے یا خیال جو اسلام کی روح سے متصادم ہوتا ہے وہ اُسے ہر گز قبول نہیں کرسکتا۔ راقم کے نزدیک اب چونکہ شرک اور بت پرستی کی طرح سیکولرازم بھی اسلام کی روح سے براہِ راست متصادم ہوتا ہے اس لیے وہ اُسے بھی اپنے ہاں جگہ دینے کا رواداد نہیں ہوسکتا۔ بہر حال شرک اور بت پرستی کے حوالے سے عیسائیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر نے جورائے ظاہر کی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ اس بارے میں وہ لکھتا ہے:
’اشاعت اسلام و اشاعت مسیحیت میں ایک بڑا اہم فرق ہے۔ مسیحیت کو کبھی بھی اتنی طاقت حاصل نہ ہوئی کہ دولت روما کی بت پرستی کا قلع قمع کرسکتی۔ جس قدر اس کو ترقی ہوئی اُسی قدر بت پرستی کا عنصر اس میں زیادہ ملتا گیا۔ لیکن عرب میں حضرت محمدﷺ نے قدیم بت پرستی کو ایسا مٹایا کہ اُس کا نشان تک باقی نہ رکھا۔ جن عقاید کی آپ کے جانشینوں نے تلقین کی اُن میں بت پرستی کا ڈھونڈنے سے بھی سراغ نہیں ملتا۔‘(ظفر علی خان (مترجم)، معرکہ مذہب وسائنس، ص: ۱۸۳)
اقبال کی رائے میں علوم وفنون کی طرح دنیا میں مذاہب بھی دوقسموں کے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زندگی کو ہاں کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو زندگی کو ناں کہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اسلام کا تعلق پہلی قسم کے مذاہب سے ہے جب کہ عیسائیت کو وہ دوسری قسم کے مذاہب کی صف میں شمار کرتے ہیں۔ راقم کے خیال میں زندگی کو ہاں کہنے والے مذاہب سے اقبال کی مراد وہ مذہب ہوتے ہیں جن میں اگر ایک طرف فرد کا رشتہ خدا سے استوار کیا جاتا ہے تو دوسری جانب اجتماعی زندگی کے معاملات ومسائل کو حل کرنے کے احکام بھی بتائے جاتے ہیں جب کہ زندگی کو ناں کہنے والے مذاہب میں صرف اللہ اور بندے کے تعلق پر ہی زور دیا جاتا ہے اور اجتماعی زندگی کے معاملات ومسائل کے حل کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم اسلام کو ایک مکمل نظام حیات قرار دے سکتے ہیں جس میں عبادات وعقائد کے ساتھ ساتھ معاملات کو بھی دیکھا جاتا ہے ۔ اس لیے اُسے کسی ’’ازم‘‘ کی ضرورت نہیں جب کہ عیسائیت میں ہمیں معاملات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ چنانچہ اقبال زندگی کو ناں یاہاں کہنے کے حوالے سے اسلام اور عیسائیت کا باہمی فرق شعر کی زبان میں یوں بیان فرماتے ہیں؎
کاروبارِ خسروی یا راہبی؟
کیا ہے آخر غایتِ دین نبی؟
مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ
(علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال (اردو)، ص: ۴۳۱)
راقم کے نزدیک اسلام ایک مکمل نظام حیات یا پھر دوسرے الفاظ میں دین ہے جس میں عقائد اور عبادات کے علاوہ معاملات کا عنصر بھی شامل ہے جب کہ عیسائیت صرف ایک مذہب ہے۔ اگر کسی قوم کے نظام حیات میں جسے اپنے آسمانی ہونے کا دعویٰ بھی ہو عقائد، عبادات اور معاملات کے تینوں عناصر یکجا موجود پائے جائیں تو ہم اُسے دین کا نام دیں گے لیکن اگر کسی نظام حیات میں صرف پہلے دو عناصر تو موجود ہوں اور معاملات کا تیسرا عنصر اُس میں مفقود ہو تو اُسے مذہب۔ سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس اصول کی روشنی میں اسلام ایک مکمل دین ہے اور عیسائیت ایک مذہب لیکن بنیادی سوال تو یہ ہے کہ ازروئے اسلام معاملات سے کیا مراد لی جاتی ہے؟ چنانچہ اسلام کی رو سے معاملات کا اطلاق سماجیات ، اقتصادیات، سیاسیات اور تہذیب وثقافت کے اُن تمام شعبوں پر ہوتا ہے جنہیں قرآنی تعلیمات کے مطابق چلانے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جس معاشرے میں رہنمائی کی یہ صورت ہو وہاں سیکولر ازم جیسے انسانی فلسفے کی ضرورت کیسے پڑسکتی ہے ؟ بہر حال سید سلیمان ندویؒ معاملات کے حوالے سے دنیا کے مختلف ادیان ومذاہب کی صف بندی کرتے ہوئے بجا طور پر فرماتے ہیں:
’دنیا کے مذاہب نے معاملات کو اپنی تعلیم کا حصہ بنانے میں مختلف رجحانات ظاہر کیے ہیں تو رات میں وہ مذہبی قوانین کا ضروری اور اہم جزو ہیں لیکن عیسائیت نے اُن کو نظر انداز کردیا ہے۔ ہندوستانی مذہبوں میں بھی دونوں قسمیں نظر آتی ہیں۔ عام ہندوؤں میں منوشا ستر اور اُس کی مختلف تشریحات انہی معاملات کی شاخیں ہیں مگر شاید بودھ مت نے اخلاق ہی کو بڑھا کر قانون بنانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ سب قومیں اپنے قانون کا ماخذ علم الٰہی علم مافوق انسانی کو قرار دیتی ہیں۔ (سید سلیمان ندوی ، سیرت النبیﷺ، ص: ۱۱)
اب ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام دین کے اصولوں پر مبنی ایک مکمل نظام حیات ہے جو انسان کی روحانی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اُن کی دنیاوی حاجات بھی پوری کرسکتا ہے تو پھر مسلمانوں کی موجودہ تمدنی حالت اور دیگر زمینی حقائق اُس کے اِس دعوے کی شہادت کیوں نہیں دیتے؟ راقم کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جب تک خلافت کا ادارہ قائم رہا اُس وقت تک ہمیں دین ودنیا کی مکمل ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے جو اُن کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن تھی لیکن ملوکیت کے سر اٹھاتے ہی ان دونوں میں جدائی کا عمل شروع ہوگیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور یوں مسلمان بھی اُسی فرض کا شکار ہوکر رہ گئے جس کا اُن سے پہلے عیسائی ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں میں دین ودنیا کی جدائی کا یہ عمل اُس وقت اور بھی تیز ہوجاتا ہے جب کہ مغربی اقوام نے مسلم ممالک پر نہ صرف زبردستی قبضہ جما لیا بلکہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کی خاطر اُن کی تعلیمی اور عدالتی نظام کو تبدیل کرکے اُس کی جگہ اپنے نصاب اور قوانین نافذ کردئیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام جو کبھی اپنے علاقوں میں دین کی صورت میں نافذ ہوا کرتا تھا غلامی میں ایک مذہب بن کر رہ گیا۔
اقبال کے نزدیک اسلام چونکہ بجائے خود ایک تقدیر ہے، جسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا اس لیے وہ صرف آزاد ماحول ہی میں اپنی توانائیوں کا فطری اظہار کرسکتا ہے جس کے پیش نظر انہوں نے برصغیر پاک وہند میں ایک اسلامی ریاست کے حصول کا خواب دیکھا جس میں اسلامی نظامِ حیات کو نافذ کرنا اس کا بنیادی مقصد قرار دیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے نہ صرف اس مقصد سے مکمل طور پر اتفاق کیا بلکہ اُس کے حصول کا بیڑا بھی اٹھایا جس میں وہ ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو کامیابی سے ہم کنار بھی ہوئے مگر آج ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اُس میں روشن خیالی کے نام پر سیکولر ازم کو مسلط کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور اُس کے لیے دلیل یہ دی جارہی ہے کہ سیکولر اصولوں پر چل کر ہی پاکستان کو ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنایا جاسکتا ہے۔ راقم کے نزدیک پاکستان میں اِس قسم کی باتیں کرنا نہ صرف اقبال اور قائد اعظم کے تاریخی مؤقف سے انحراف ہے بلکہ یہ اس بات کا برملا اظہار بھی ہے کہ اسلام گویا موجودہ عہد کے مسائل کو حل کرنے کا اہل نہیں۔ چنانچہ سید سبط حسن پاکستان میں سیکولر نظام کے نفاذ کی وکالت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں:
’سیکولر ازم سے اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور نہ اس سے پاکستان کی بقا و سالمیت پر کوئی ضرب پڑتی ہے بلکہ ہمارا خیال یہ ہے کہ سیکولر اصولوں ہی پر چل کر پاکستان ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور خوش حال ملک بن سکتا ہے۔‘(سید سبط حسن، نوید فکر، ص: ۷۱)
راقم کے خیال میں سید سبط حسن کا یہ خیال درست نہیں ہے اور اُسے اُن کی اس رائے سے بھی سخت اختلاف ہے کہ سیکولر ازم کو معاشرتی نظام کے لیے درست سمجھنے سے دین دار بے دین اور خدا پرست دہریہ نہیں ہوجاتا۔ کیونکہ راقم کے نزدیک سیکولرازم اور اسلام نہ صرف دو جداگانہ نظام ہائے حیات کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ ان دونوں کے اصولوں میں بھی بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ سیکولرازم مابعد الطبیعیات کے انکار پر مبنی وہ نظام حیات ہے جو صرف اسی دنیا اور اسی زمانے کی بات کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس اسلام مابعد الطبیعیات کو نہ صرف اپنا ماخذ ومصدر قرار دیتا ہے بلکہ وہ اس دنیا کے ساتھ ساتھ اس دنیا کی بات بھی کرتا ہے جسے وہ آخرت کا نام دیتا ہے۔ اس لیے جب کوئی فرد اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ بیک وقت مسلمان بھی ہے اور سیکولر بھی تو اُس کا یہ دعویٰ محل نظر دکھائی دیتا ہےکیونکہ ایسا فرد یا تو انتہائی سادہ لوحی کا شکار ہے جسے نہ اسلام کا پتا ہے نہ سیکولرازم کا یا پھر وہ گہرا سازشی ذہن رکھنے والا انسان جو اپنی مسلمانی کی آڑ میں پاکستان کی نظریاتی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتا ہے ۔ ایسے ہی سازشی انسانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کیا خوب لکھتے ہیں:
’روشن خیالوں کے منہ میں دو زبانیں ہوتی ہیں ایک دوسروں سے گفتگو کے لیے اور ایک اپنوں سے بات چیت کرنے کے لیے، اور سیکولرازم بلکہ الحاد ومذہب دشمنی کی ساری تبلیغ بھولے بھالے اسلامی ممالک کے لیے ہے جنہوں نے نئی نئی آزادی حاصل کی ہے۔(ابو الحسن ندوی، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، ۱۹۷۶ء، ص: ۲۰۶)
اس وقت پاکستان بھی ایسا ہی سازشی ذہن رکھنے والے روشن خیال دانشوروں کی زد میں ہے جو اس کا مقدرِ اسلام کے ساتھ جوڑنے کی بجائے سیکولر ازم کے ساتھ جوڑنے کےآرزو مند ہیں اور انہوں نے اس مقصد کے حصول کی خاطر تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی مہم بھی شروع کررکھی ہے جس کی ایک مثال تحریک پاکستان اور اُس کے مرکزی رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینا ہے۔(سید سبط حسن، نوید فکر، ص: ۱۵۸، ۱۶۱)
راقم کے نزدیک تحریک پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دینا دراصل تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ہی تو ہے جس کی تردید کرنے کے لیے اگر چہ تاریخ کے اوراق میں ہزاروں شواہد موجود ہیں تاہم اس مقصد کے لیے اگر اقبال اور قائد اعظم کے درمیان ہونے والی خط وکتابت کا مطالعہ کرلیا جائے گا تو کافی ہوگا۔ مثال کے طور پر اقبال قائد اعظم محمد علی جناح کے نام پر اپنے ایک خط محررہ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء میں وہ ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام صرف اس لیے چاہتے ہیں کہ اُس میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ ممکن بنایا جاسکے جس کی بدولت اگر ایک طرف مسلمانوں کے معاشی مسائل حل کرنے میں مدد ملے تو دوسری جانب اُن کی تہذیب وثقافت کی حفاظت کو بھی ممکن بنایا جائے۔ بہر حال پاکستان میں سیکولر دانشوروں کی سرگرمیوں سے باخبر کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال روز نامہ جنگ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:
’اسی طرح قائد اعظم کے بارے میں متنازعہ چند سوالات اور باتیں پھیلائی جاتی رہی ہیں اُن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اسلامی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں تھے…. اس طرح یہ ادارے اور شخصیات ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں‘۔(ڈاکٹر وحید عشرت (مرتب)، اقبال ۸۵، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص: ۴۶۸)، (بشکریہ’اقبالیات‘)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔