Friday 10 November 2017

قرآن نے حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن کیوں قرار دیا ہے جب کہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام سے ایک ہزار سال پہلے گزر چکے تھے؟

قرآن نے حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن کیوں قرار دیا ہے جب کہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام سے ایک ہزار سال پہلے گزر چکے تھے؟
قرآن پہ ملحدین و مستشرقین کا ایک اور اعتراض اور اس کا جواب

بشکریہ و ترجمہ:
http://www.letmeturnthetables.com/…/why-quran-calls-mary-si…
☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪☪
قرآن پاک میں ہے
يَآ اُخْتَ هَارُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا
اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ ہی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکار تھی(سورہ نمبر 19، آیت نمبر 28)
اس آیت کے تناظر میں ملحدین و مستشرقین کا اعتراض ہے کہ قرآن نے حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن کیوں قرار دیا ہے جب کہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام سے ایک ہزار سال پہلے گزر چکے تھے۔
قرآن کا حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن قرار دینا قرآن کا وہ خاص انداز ہے جس میں قرآن بار بار انسان سے مخاطب ہوتا ہے۔قرآن کے بیان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی سگی بہن ہیں۔قرآن میں حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن قرار دینے کا مطلب ان کو حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے قرار دینا ہے کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے تھیں۔قرآن کے اس خاص انداز کو سمجھنے کے لئے قرآن کی دیگر آیات اور طرز بیان پہ توجہ کیجیے۔قرآن مجید میں ہے
وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُـمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۖ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۖ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُـمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ۚ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ
اور مدین کی طرف اس کے بھائی شعیب کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل پہنچ چکی ہے، سو ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان دار ہو(قرآن، سورہ نمبر 7، آیت نمبر 85)
قرآن نے حضرت شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کا بھائی قرار دیا جب کہ وہ ان کے سگے بھائی نہیں تھے بلکہ اہل مدین کی طرف پیغمبر کے طور پہ مبعوث کیے گئے تھے۔
اسی طرح قرآن میں مذکور ہے
وَاِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُـمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۖ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيْـهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُـمَّ تُوْبُـوٓا اِلَيْهِ ۚ اِنَّ رَبِّىْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا( قرآن، سورہ نمبر 11، آیت نمبر 61)
اس میں قرآن نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم، قوم ثمود کا بھائی قرار دیا ہے جب کہ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کے سگے بھائی نہیں تھے اور نہ ہی قرآن میں کہیں یہ مذکور ہے بلکہ ان کی طرف پیغمبر کے طور پہ مبعوث کیے گئے تھے۔یہ قرآن کا خاص انداز ہے جس میں قرآن بار بار انسان سے مخاطب ہوتا ہے۔ان دونوں بیانات کا مطلب یہ ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام مدین کے لوگوں سے تھے اور حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود سے تھے۔بالکل اسی طرح قرآن حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن قرار دیتا ہے کیونکہ وہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد کی خاتون فرد تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا یہ انداز روزہ مرہ عربی طرز کلام کا ایک حصہ ہے۔عرب میں بنو مضر کے کسی فرد کو یا اخا مضر یعنی مضر کا بھائی کہا جاتا تھا۔اسی طرح قرآن نے اسی عربی انداز میں حضرت ہود علیہ السلام کو قوم عاد کا بھائی قرار دیا جب کہ وہ ان کے سگے بھائی نہیں تھے بلکہ ان کی طرف پیغمبر کے طور پہ مبعوث کیے گئے تھے۔اسی طرح عرب میں نسل قریش کے کسی فرد کو اخا قریش یعنی قریش کا بھائی اور اہل عرب کو اخا عرب یعنی عربی فرد کہا جاتا تھا۔قرآن نے عربوں کے انداز میں اپنے اس وقت کے مخاطبین یعنی اہل عرب کو مخاطب کیا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی سگی بہن تھیں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب میں نجران آیا تو نجران کے عیسائیوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم لوگ قرآن میں حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن کیوں پڑھتے ہو جب کہ حضرت موسی علیہ السلام( اور حضرت ہارون علیہ السلام) حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت پہلے گزر چکے تھے۔جب میں(یعنی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس آیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا۔اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پرانے وقتوں میں لوگ اپنے افراد کے نام کو اپنے پیغمبروں اور نیک لوگوں کے نام سے پکارتے تھے( صحیح مسلم، حدیث نمبر 3692)۔
قرآن نے جب حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن کیا تو اس کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیان کی صورت میں خود ہی فرما دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث شریف کا مطلب یہی ہے کہ قرآن نے حضرت مریم علیہا السلام کا حضرت ہارون علیہ السلام سے تعلق اس لیے بیان کیا کیونکہ وہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد یعنی بنی اسرائیل سے تھیں اور بنی اسرائیل میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے افراد کے نام اپنی نسل سے منسوب کرتے تھے۔لہذا جب لوگوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے بغیر والد کے پیدا ہونے پہ حضرت مریم علیہا السلام کے کردار پہ شک ہوا تو انہوں نے انہیں ان کی نسل یعنی حضرت ہارون علیہ السلام کا حوالہ دے کر کہا کہ اے ہارون علیہ السلام کی بہن نہ تو تیرا والد ایسا تھا اور نہ ہی تیری والدہ۔
یہی انداز جو اہل عرب اور قرآن کا تھا، عہد نامہ قدیم میں عبرانی بائبل نے بھی اپنایا ہے۔عہد نامہ قدیم میں حضرت یحیی علیہ السلام کی والدہ أليصابات یا الیصبہ یا علشبہ یعنی الزبتھ کو حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے قرار دیا گیا ہے( لیوک 1:5) اور ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ یہ الیصبہ حضرت مریم علیہا السلام کی کی کزن تھیں جب کہ حضرت مریم علیہا السلام حضرت یحیی علیہ السلام کی والدہ سے لگ بھگ چھ سو سال پہلے گزر چکی تھیں۔اگر اس کے مطلب پہ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس مطلب سے بالکل وہی مراد ہے جو اوپر ہم نے بیان کیا اور اگر بائبل کے بیان کے مطابق حضرت مریم علیہا السلام حضرت یحیی علیہ السلام کی والدہ کی کزن ہوسکتی ہیں تو ان کو بڑی آسانی سے حضرت ہارون علیہ السلام کی والدہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔بات صرف سمجھنے کی ہے۔
اسی طرح بائبل، جینیسس 13:8 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کو بھائی قرار دیا گیا ہے جب کہ وہ سگے بھائی نہیں تھے اور ایڈم کلارک اس کی وضاحت میں لکھتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بالکل اسی طرح قرآن نے حضرت مریم علیہا السلام کو جب حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن قرار دیا تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ ان کی اولاد سے تھیں اور اس طرح اپنے افرا کو پکارنا بنی اسرائیل میں عام تھا اور اہل عرب کا انداز بھی یہی ہے۔یہ قرآن کا خوبصورت طرز بیان تھا جس کو ملحدین و مستشرقین نے اعتراض بنا دیا۔
ملحدین و مستشرقین کہتے ہیں کہ بائبل کے مطابق حضرت مریم علیہا السلام حضرت موسی علیہ السلام کی بہن کا نام بھی تھا۔قرآن میں کہیں پہ مذکور نہیں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی کوئی بہن مریم کے نام سے تھیں۔اگر تھیں بھی تو یہ بات زیر توجہ رہنی چاہیے کہ پیغمبروں اور نیک لوگوں سے منسوب نام اولاد کو دینا بنی اسرائیل میں عام تھا۔ممکن ہے بالکل اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کا نام ان کی پیدائش کے وقت مریم رکھا گیا ہو اور تاریخ اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ نام بنی اسرائیل میں عام تھا۔رہی بات یہ کہ قرآن نے حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن کیوں قرار دیا تو اس کا جواب ہم اوپر درج کر چکے ہیں۔لہذا دو ناموں میں ملاوٹ کا اعتراض بھی غلط قرار پاتا ہے اور اللہ تعالی ہی سب سے زیادہ جانتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔