تحریک نسواں(Feminism)
تحریر: محمد انور عباسی
تاریخ ۔۔۔ حقائق(منتخب اقتباس)
”روشن خیالی“ کی تحریک سے قبل مغربی معاشرے میں عورت کو معاشرے کا کوئی”مفید“فرد تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ ہیگل اور فرائیڈ دونوں نے عورت کے بارے میں کچھ مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔ شوپنہار نے تو صاف طور پر عورت کو انتہائی سادہ لوح اور کوتاہ نظر قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک عورت کو مکمل انسان نہیں کہا جا سکتا۔ اسی بنیاد پر عورت کو تو ووٹ کا بھی حق نہیں تھا۔ پروفیسر کرسٹن کے الفاظ میں:
ء1960اور 1970ء کے عشروں میں تحریک نسواں کے دوسرے دور میں مغربی ممالک میں بڑے جھگڑوں کے بعد اکثر خواتین کو بنیادی معاشرتی اور سیاسی حقوق مثلاحق ووٹ حاصل ہوئے۔ عیسائیت نے بھی عورت کو ازلی گناہ کی اصل ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ ان حالات میں کئی اہل فکر سامنے آئے جنہوں نے عورت کے حق میں آواز اٹھائی۔
روشن خیالی کی تحریک نے جدیدتModernism کے فلسفے کی روشنی میں مغربی انسان کو دوسرا بڑا ”تحفہ“جو دیا وہ جنسی میدان میں تحریک نسواں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ امر دلچسبی کا باعث ہو گا کہ اس تحریک کا آغاز خواتین نے نہیں بلکہ مردوں نے کیا تھا!
برطانیہ کا جریمی بینتھم (1791)ء غالبا ابتدائی مفکرین میں شمار ہوتا ہے جس نے مکمل مساواتِ مردوزن کا نعرہ دیا۔ روشن خیالی کا سب سے بڑا اور پیارا نعرہ یہ تھا کہ”انسان مکمل آزاد ہے“ یعنی وہ ہر قسم کے خیالات اور اعمال و افعال کو اپنا سکتاہے۔ اس کو پابند کرنے کیلئے کوئی مافوق الفطرت ہستی ہو ہی نہیں سکتی۔ تحریک نسواں میں عورتوں کو مکمل ”آزادی“ دینے سے قبل پہلے مرحلے میں ایک اور نعرہ دیا جانا مناسب سمجھا گیا کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ اسی کے ہمعصر مارکوس نے فرانس سے اسی قسم کے خیالات کا پرچار شروع کیا۔ اسی دور میں پہلی خاتون’میری وال سٹونی کرافٹ‘ نے تحریک نسواں میں بڑا نام پیدا کیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جب عورتوں کو گھروں سے نکلنا پڑا تو اٹھارویں صدی میں شہروں سے دیہاتوں کی جانب ہجرت کو جواز بخشنے کیلئے’خوبصورت‘نعروں کی ضرورت پڑی۔ اس پس منظر میں ”مساوات مردوزن“ بڑا ہی مقبول نعرہ ثابت ہوا۔ لیکن روشن خیالی کی تحریک اور ہیومن ازم نے بھی عورت کو دوسرے درجے ہی میں رکھا، اسے اوپر نہیں آنے دیا۔ سوزین پال نے بڑے کرب کا اظہار کرتے ہوئے بجا طور پر اس کا شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ2
”ہیومنسٹ، مرد یا عورت جب روشن خیالی کی تحریک میں وابستہ ہوتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمام انسان عقل وشعور کے مالک ہیں۔ لیکن عورتوں کو ایک غلط ناجائز اور عیارانہ طریقے سے اس اعزاز سے باہر رکھا گیا ہے کہ ہم عورتیں مردوں سے کم عقل و شعور رکھتی ہیں۔ یہ تو ہر فرد تسلیم کرے گا کہ فطری ساخت کے اعتبار سے عورت اور مرد کی تخلیق میں فرق رکھا گیا ہے اور یہ کسی کی اپنی خواہش پر نہیں چھوڑا گیا۔ اب اسکا کیا کریں کہ اس فرق کی موجودگی میں ہیومن ازم اور روشن خیالی کی تحریک میں بھی عورتیں وہ مقام حاصل نہیں کر پارہیں جس کی تڑپ انہیں مذہبی اخلاقیات اور خدا کو ترک کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔“
سوزین پال ایک نسخہ کیمیا ڈھونڈ لائی ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ اس اختلاف کو عورتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کو جائز قرار دینے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ لہذا سرے سے اس اختلاف کو ہی”نظری اور عملی طور“ پر ختم کرنا ہو گا تاکہ عورتیں معاشرے اور ہیومن ازم میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکیں۔3
یہ فطری اختلاف کس طرح نظری اور عملی طور پر ختم کیا جا رہا ہے اسکی ایک ہلکی سی جھلک ہم اس تحریر میں دیکھیں گے، تاہم عملی تصویر دیکھنے کیلئے مغربی معاشرے کو عمیق نظروں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ان اختلافات کو دور کرنے کیلئے مغرب میں چند’عملی‘ قدم اٹھائے گئے، لیکن ان کو جواز بخشنے کیلئے فلسفہ یا تھیوری کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ 1990ء میںQueer Theory سامنے لائی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ جنس مخالف کی کشش کوئی فطری جذبہ ہی نہیں، محض انسان کی فطری ہیجان اور بھوک ہے جو انسانی جسم میں موجود حسی جذبات ابھارنے والی مشنری ہر دم تیار کرتی رہتی ہے۔ اس کو تسکین دینے کیلئے جنس مخالف ہی کیوں لازمی ہو؟ اس کیلئے کوئی بھی ہم جنس پرستی کی راہ اپنائی جا سکتی ہے4۔ اس نظرئیے پر مبنی عملی معاشرے کے قیام کیلئے مغربی دنیا میں تقریبا ہر ملک میں قانون سازی ہو رہی ہے۔
تحریک نسواں کی تیسری لہر میں عورتوں کے کردار، حیثیت اور جنسی رویوں کے متعلق بڑی انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اس عہد میں خاندان کی حیثیت وہ نہیں رہی جو کچھ عشرے قبل میں معروف تھی، وہ حیثیت رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ عورتوں میں امتیازی جنسی رویوں کے خلاف وسیع پیمانے میں رد عمل اور احتجاج سامنے آیا۔ اخلاقیات کا تو خیر اب سوال ہی کیا، وہ تو اب قصہ پارینہ تھا، لبرل نظریات کے تحت پوسٹ ماڈرن ازم تحریکPostModernismکے زیر اثر اب ہر بات درست سمجھی جانے لگی تھی۔ پوسٹ ماڈرن تحریک کا سب سے بڑا تحفہ موضوعیت(Subjectivity)اور اضافیت(Relativity)ہے جس میں ہر نظریہ، ہر قول درست مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق پوسٹ ماڈرن مفکر کے الفاظ میں:
ہم ہر بات پر یقین کر سکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں ہم کسی بھی بات پر یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ عورتوں نے شادی کے ادارے ہی کے خلاف آواز بلند کر دی، کہ یہ ادارہ دراصل عورتوں کو غلام بنانے کا ایک آلہ تھا۔ شادی اور بچوں کی پیدائش اور پرورش سے ہی عورتیں مردوں کی”غلام“ بنتی ہیں۔ چنانچہ شادی کے بغیر ناجائز بچوں کی پیدائش اور پرورش کی حوصلہ افزائی کی گئی۔Dean Koontz ایک ناجائز اولاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتاہے کہ
بر خوردار تمھیں خوش ہونا چاہئے کہ تم ایک ناجائز اولاد ہو کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ تم آزاد ہو۔ حرامی بچوں کے اتنے رشتہ دار نہیں ہوتے جو جونکوں کی طرح ان کی روحوں کو چوس لیتے ہوں(Intensity: p.382)۔ پہلے مرحلے میں تویہی کچھ ہو سکتا تھا۔ اگلے مرحلے میں بچوں سے گلو خلاصی کی تدبیریں سوچی جانے لگیں۔
1970ء میں فائر سٹون نے اپنی کتابThe Dialectics of Sex میں لکھا کہ تحریک نسواں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عورتوں کے بارے میں غیر مساویانہ رویہ دراصل ان کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اسی وجہ سے وہ مردوں کے ماتحت زندگی گزارنے پر”مجبور“ ہوتی ہیں۔ مردوں کے برابر رتبہ حاصل کرنے کا بس ایک ہی علاج ہے کہ ٹسٹ ٹیوب بے بی کا سہارا لیا جائے چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی عورتوں اور مردوں کے درمیان ”مساوات“ پیدا کرسکتی ہے۔
ان کے خیال میں شادی اور خاندان کا ادارہ عورت کو محکوم بنانے کو ”مردانہ سازش“تھی۔ اس سازش کے خلاف جنگ یوں جیتی جا سکتی تھی کہ عورت بیوی اور ماں بننے کیلئے ازدواجی حدود یکسر مسترد کر دے اور ایک نعرہ بلند ہو کہ”عورت کا جسم اسکی اپنی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں!!!“ مردوں کے لئے یہ امر خوش کن تھا۔ عورت اور مرد دونوں اپنے اپنے گمان میں مسرور اور مطمئن ہو گئے۔ مشہور فیمینسٹ مصنفہ شیلا کرونن لکھتی ہیں کہ
شادی عورتوں کیلئے غلامی کے ہم معنی ہے اس لئے عورتوں کی تحریک نسواں کو شادی کے ادارے پر حملوں کو مرکزی اہمیت دینی چاہئے۔ بیٹی فرائیڈین جو قومی تنظیم برائے خواتین کی بانی ہے، شادی کے ادارے کو آرام دہ کنسٹریشن کیمپ کہہ کر پکارتی ہے جس سے عورتوں کو آزادی دلانا ضروری ہے۔ چنانچہ شادی شدہ عورتوں کو طلاق پر ابھارنے کیلئے ”بڑے بڑے فلسفے“ سامنے آئے۔ طلاق کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے میل کرانٹ زیلر نے دل لبھانے والے ادیبانہ جملے استعمال کرتے ہوئے اپنی مشہور کتابCreative Divorceمیں لکھا کہ طلاق دے کر خدا حافظ کر کے رخصت کر دینا دراصل ایک نئی نسبتا زیادہ آزاد اور خود اعتماد والی زندگی کو خوش آمدید کہنا ہے۔ تمھاری یہ طلاق تمھاری زندگی کی بہترین چیز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح معاشیات کے میدان میں کام کرنے والے مفکرین نے ”تحقیق“ کر کے”ثابت“ کیا کہ طلاق کے بعد کس طرح فریقین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور وہ نسبتا بہتر زندگی بسر کرنے لگے ہیں۔
1985ء میںWeitzmanکی ایک کتاب سامنے آئی جس کا نام ہےThe Divorce Revolution۔ کتاب کا نام ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ طلاق کوئی بری شے نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک انقلابی قدم ہے۔ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ طلاق کے بعد سابق شوہر کی آمدنی میں 42فیصد اضافہ ہوا ہے!
گلوریا سٹینن نے پیٹر کولیر اور ڈیوڈ ہارووتھ کی کتاب سے تحریک نسواں کے علمبرداروں کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ ہم ایک ذات پات پر مبنی معاشرے کے تینوں ستونوں، فیملی، نجی ملکیت اور ریاست، کو تباہ کرنا چاہتے ہیں! عورتوں کو مکمل آزادی دلانے کیلئے ان کو یہ احساس دلانا ضروری تھا جس کیلئے یہ فلسفہ گھڑا گیا کہ عورتیں اپنے جسم کی خود مالک ہیں اور مردوں کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کو استعمال کریں۔ گلوریا جو خود بھی تحریک نسواں کے کاروان میں شامل تھی، بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ امریکہ کے روایتی خاندانی ساخت پر حملوں کی وجہ سے تحریک ایک برائی کا خوفناک عفریت ہے۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ نوجوان عورتوں کو اپنے جنسی تجربات کرنے اور ایسی صلاحیت پیدا کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے بولنے پر تیار کرنے کا راستہ یہ ہے کہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے جسم کا کنٹرول خود حاصل کر رہی ہیں یا وہ گم شدہ کنٹرول دوبارہ حاصل کر رہی ہیں۔
اسی طرح 1960ء اور1970ء میں مساوات مردوزن سے آگے بڑھ کر تحریک نسواں کے مقاصد لبرل ازم کی ”برکات“ سے اپنے منطقی نتائج کی طرف آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ جب مستقل اقدار باقی نہ رہیں اور ہر چیز اضافی بن جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ عورتوں نے یہ نام نہاد آزادی حاصل تو کر لی مگر کس قیمت پر؟ یہ ابھی غالبا سوچنے کا موقع نہیں آیا۔ سیلویا نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ایک کمتر زندگی: امریکہ میں عورتوں کی آزادی کا افسانہ!
اس میں عورتوں کے بارے میں چشم کشا واقعات بیان کئے گئے ہیں کہ خاندان کی تباہی کے بعد عورتیں نہ گھر کی رہیں نہ باہر کی۔ افزائش نسل کیلئے عورتوں کا کردار مسلم ہے لیکن بقول فائر سٹون بچوں کے متعلق سوچتے ہوئے ان کی پیدائش کا عمل ذہن میں فورا ابھرتا ہے کہ وہ کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ جوں ہی اس عمل پیدائش میں عورتوں کے رول کو سامنے رکھیں گے، عورتوں کی ماتحتی اور غلامی کاتصور ہی سامنے آئے گا۔ لہذا عورتوں کو اس سارے جھنجھٹ سے نکالنے کیلئے واحد راستہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے آسانی فراہم کی گئی۔
پہلے مرحلے پر اسقاط حمل کو قانونا جواز بخشا گیا تھا لیکن بحث کی خاطر لفظ آزادی اور انسانی حقوق کے مارے ہوئے انفرادیت پسند ہمیں یہ دلیل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسقاط حمل میں مستقبل میں پیداہونے والے بچہ کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے لہذا اس کی مرضی کے بغیر اس کو دنیا میں آنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے! یہ تو سب ہی کو معلوم تھا کہ جینین میں پرورش پانے والا ایک گوشت کا لوتھڑا کس طرح اپنی مرضی کا اظہار کر سکتا ہے۔ اس کمزور دلیل کو سامنے لایا اس لئے گیا تھا کہ اس کی دھجیاں بکھیر کر اسقاط حمل کی راہ ہموار کی جا سکے۔ چنانچہ عین توقع کے مطابق اس دلیل کو رد کر دیا گیا۔ تھامسن نے لکھا ہے کہ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ عورت اپنے جسم کی مالک ہوتی ہے لہذا اگر عورتوں کو اپنے جسم کا مالک ہونے کی وجہ سے مکمل حقوق حاصل ہیں تو کسی دوسرے کو (یعنی پیدا ہونے والے بچے کو) ان کی مرضی کے خلاف ان کا جسم استعمال کرنے کا حق کس طرح دیا جاسکتا ہے یعنی ماں کی مرضی کے خلاف اس کے جسم میں پرورش پانے والے بچے کا کوئی حق ہو ہی نہیں سکتا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ماں جب چاہے اس سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ وہ اپنا جسم کسی کو استعمال کیوں کرنے دے! تاہم اگر کبھی اس کو بچے کی خواہش پیدا ہو جائے تو کراے کی ماں کا تصور دے کر اس کا ایک حل نکال لیا گیا، جسےCommon Surrogacy کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی نے ایک عورت کا مسئلہ تو حل کر لیا لیکن دوسری عورت پھر بھی غلام کی غلام ہی رہی!
پہلے مرحلے میں مرد، بچوں اور خاندان سے یوں گلوخلاصی کے بعد اگلا قدم مردوں سے مکمل نجات تھا چنانچہ عورت کی عورت سے شادی کا تصور اجاگر کیا گیا اور اس کے بعد بہر حال مغربی سرمایہ دار کا بے قید و لبرل معاشرہ آزاد منڈی کے ذریعے مصنوعی آلات جنسی تسکین کیلئے سامنے لے آیا تاکہ کسی سے بھی شادی وغیرہ کے جھنجھٹ سے جان بچائی جا سکے۔ یہ سب رویے اب مغربی معاشرے کا لازمی حصہ ہیں۔ ہمارے مسلمان معاشرے میں ہمارا لبرل طبقہ فی الحال اس حد تک نہیں گیا۔ مغرب میں بھی پہلے پہل بڑی احتیاط سے قدم رکھا گیا تھا۔ اسی طرح قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے یہ بھی ابتدائی نوعیت کے کام کا آغاز تو ہو ہی گیا۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر یہاں بھی بہت کچھ ملنے کے آثار شروع ہو گئے ہیں۔
تحریر: محمد انور عباسی
تاریخ ۔۔۔ حقائق(منتخب اقتباس)
”روشن خیالی“ کی تحریک سے قبل مغربی معاشرے میں عورت کو معاشرے کا کوئی”مفید“فرد تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ ہیگل اور فرائیڈ دونوں نے عورت کے بارے میں کچھ مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔ شوپنہار نے تو صاف طور پر عورت کو انتہائی سادہ لوح اور کوتاہ نظر قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک عورت کو مکمل انسان نہیں کہا جا سکتا۔ اسی بنیاد پر عورت کو تو ووٹ کا بھی حق نہیں تھا۔ پروفیسر کرسٹن کے الفاظ میں:
ء1960اور 1970ء کے عشروں میں تحریک نسواں کے دوسرے دور میں مغربی ممالک میں بڑے جھگڑوں کے بعد اکثر خواتین کو بنیادی معاشرتی اور سیاسی حقوق مثلاحق ووٹ حاصل ہوئے۔ عیسائیت نے بھی عورت کو ازلی گناہ کی اصل ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ ان حالات میں کئی اہل فکر سامنے آئے جنہوں نے عورت کے حق میں آواز اٹھائی۔
روشن خیالی کی تحریک نے جدیدتModernism کے فلسفے کی روشنی میں مغربی انسان کو دوسرا بڑا ”تحفہ“جو دیا وہ جنسی میدان میں تحریک نسواں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ امر دلچسبی کا باعث ہو گا کہ اس تحریک کا آغاز خواتین نے نہیں بلکہ مردوں نے کیا تھا!
برطانیہ کا جریمی بینتھم (1791)ء غالبا ابتدائی مفکرین میں شمار ہوتا ہے جس نے مکمل مساواتِ مردوزن کا نعرہ دیا۔ روشن خیالی کا سب سے بڑا اور پیارا نعرہ یہ تھا کہ”انسان مکمل آزاد ہے“ یعنی وہ ہر قسم کے خیالات اور اعمال و افعال کو اپنا سکتاہے۔ اس کو پابند کرنے کیلئے کوئی مافوق الفطرت ہستی ہو ہی نہیں سکتی۔ تحریک نسواں میں عورتوں کو مکمل ”آزادی“ دینے سے قبل پہلے مرحلے میں ایک اور نعرہ دیا جانا مناسب سمجھا گیا کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ اسی کے ہمعصر مارکوس نے فرانس سے اسی قسم کے خیالات کا پرچار شروع کیا۔ اسی دور میں پہلی خاتون’میری وال سٹونی کرافٹ‘ نے تحریک نسواں میں بڑا نام پیدا کیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جب عورتوں کو گھروں سے نکلنا پڑا تو اٹھارویں صدی میں شہروں سے دیہاتوں کی جانب ہجرت کو جواز بخشنے کیلئے’خوبصورت‘نعروں کی ضرورت پڑی۔ اس پس منظر میں ”مساوات مردوزن“ بڑا ہی مقبول نعرہ ثابت ہوا۔ لیکن روشن خیالی کی تحریک اور ہیومن ازم نے بھی عورت کو دوسرے درجے ہی میں رکھا، اسے اوپر نہیں آنے دیا۔ سوزین پال نے بڑے کرب کا اظہار کرتے ہوئے بجا طور پر اس کا شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ2
”ہیومنسٹ، مرد یا عورت جب روشن خیالی کی تحریک میں وابستہ ہوتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمام انسان عقل وشعور کے مالک ہیں۔ لیکن عورتوں کو ایک غلط ناجائز اور عیارانہ طریقے سے اس اعزاز سے باہر رکھا گیا ہے کہ ہم عورتیں مردوں سے کم عقل و شعور رکھتی ہیں۔ یہ تو ہر فرد تسلیم کرے گا کہ فطری ساخت کے اعتبار سے عورت اور مرد کی تخلیق میں فرق رکھا گیا ہے اور یہ کسی کی اپنی خواہش پر نہیں چھوڑا گیا۔ اب اسکا کیا کریں کہ اس فرق کی موجودگی میں ہیومن ازم اور روشن خیالی کی تحریک میں بھی عورتیں وہ مقام حاصل نہیں کر پارہیں جس کی تڑپ انہیں مذہبی اخلاقیات اور خدا کو ترک کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔“
سوزین پال ایک نسخہ کیمیا ڈھونڈ لائی ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ اس اختلاف کو عورتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کو جائز قرار دینے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ لہذا سرے سے اس اختلاف کو ہی”نظری اور عملی طور“ پر ختم کرنا ہو گا تاکہ عورتیں معاشرے اور ہیومن ازم میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکیں۔3
یہ فطری اختلاف کس طرح نظری اور عملی طور پر ختم کیا جا رہا ہے اسکی ایک ہلکی سی جھلک ہم اس تحریر میں دیکھیں گے، تاہم عملی تصویر دیکھنے کیلئے مغربی معاشرے کو عمیق نظروں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ان اختلافات کو دور کرنے کیلئے مغرب میں چند’عملی‘ قدم اٹھائے گئے، لیکن ان کو جواز بخشنے کیلئے فلسفہ یا تھیوری کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ 1990ء میںQueer Theory سامنے لائی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ جنس مخالف کی کشش کوئی فطری جذبہ ہی نہیں، محض انسان کی فطری ہیجان اور بھوک ہے جو انسانی جسم میں موجود حسی جذبات ابھارنے والی مشنری ہر دم تیار کرتی رہتی ہے۔ اس کو تسکین دینے کیلئے جنس مخالف ہی کیوں لازمی ہو؟ اس کیلئے کوئی بھی ہم جنس پرستی کی راہ اپنائی جا سکتی ہے4۔ اس نظرئیے پر مبنی عملی معاشرے کے قیام کیلئے مغربی دنیا میں تقریبا ہر ملک میں قانون سازی ہو رہی ہے۔
تحریک نسواں کی تیسری لہر میں عورتوں کے کردار، حیثیت اور جنسی رویوں کے متعلق بڑی انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اس عہد میں خاندان کی حیثیت وہ نہیں رہی جو کچھ عشرے قبل میں معروف تھی، وہ حیثیت رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ عورتوں میں امتیازی جنسی رویوں کے خلاف وسیع پیمانے میں رد عمل اور احتجاج سامنے آیا۔ اخلاقیات کا تو خیر اب سوال ہی کیا، وہ تو اب قصہ پارینہ تھا، لبرل نظریات کے تحت پوسٹ ماڈرن ازم تحریکPostModernismکے زیر اثر اب ہر بات درست سمجھی جانے لگی تھی۔ پوسٹ ماڈرن تحریک کا سب سے بڑا تحفہ موضوعیت(Subjectivity)اور اضافیت(Relativity)ہے جس میں ہر نظریہ، ہر قول درست مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق پوسٹ ماڈرن مفکر کے الفاظ میں:
ہم ہر بات پر یقین کر سکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں ہم کسی بھی بات پر یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ عورتوں نے شادی کے ادارے ہی کے خلاف آواز بلند کر دی، کہ یہ ادارہ دراصل عورتوں کو غلام بنانے کا ایک آلہ تھا۔ شادی اور بچوں کی پیدائش اور پرورش سے ہی عورتیں مردوں کی”غلام“ بنتی ہیں۔ چنانچہ شادی کے بغیر ناجائز بچوں کی پیدائش اور پرورش کی حوصلہ افزائی کی گئی۔Dean Koontz ایک ناجائز اولاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتاہے کہ
بر خوردار تمھیں خوش ہونا چاہئے کہ تم ایک ناجائز اولاد ہو کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ تم آزاد ہو۔ حرامی بچوں کے اتنے رشتہ دار نہیں ہوتے جو جونکوں کی طرح ان کی روحوں کو چوس لیتے ہوں(Intensity: p.382)۔ پہلے مرحلے میں تویہی کچھ ہو سکتا تھا۔ اگلے مرحلے میں بچوں سے گلو خلاصی کی تدبیریں سوچی جانے لگیں۔
1970ء میں فائر سٹون نے اپنی کتابThe Dialectics of Sex میں لکھا کہ تحریک نسواں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عورتوں کے بارے میں غیر مساویانہ رویہ دراصل ان کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اسی وجہ سے وہ مردوں کے ماتحت زندگی گزارنے پر”مجبور“ ہوتی ہیں۔ مردوں کے برابر رتبہ حاصل کرنے کا بس ایک ہی علاج ہے کہ ٹسٹ ٹیوب بے بی کا سہارا لیا جائے چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی عورتوں اور مردوں کے درمیان ”مساوات“ پیدا کرسکتی ہے۔
ان کے خیال میں شادی اور خاندان کا ادارہ عورت کو محکوم بنانے کو ”مردانہ سازش“تھی۔ اس سازش کے خلاف جنگ یوں جیتی جا سکتی تھی کہ عورت بیوی اور ماں بننے کیلئے ازدواجی حدود یکسر مسترد کر دے اور ایک نعرہ بلند ہو کہ”عورت کا جسم اسکی اپنی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں!!!“ مردوں کے لئے یہ امر خوش کن تھا۔ عورت اور مرد دونوں اپنے اپنے گمان میں مسرور اور مطمئن ہو گئے۔ مشہور فیمینسٹ مصنفہ شیلا کرونن لکھتی ہیں کہ
شادی عورتوں کیلئے غلامی کے ہم معنی ہے اس لئے عورتوں کی تحریک نسواں کو شادی کے ادارے پر حملوں کو مرکزی اہمیت دینی چاہئے۔ بیٹی فرائیڈین جو قومی تنظیم برائے خواتین کی بانی ہے، شادی کے ادارے کو آرام دہ کنسٹریشن کیمپ کہہ کر پکارتی ہے جس سے عورتوں کو آزادی دلانا ضروری ہے۔ چنانچہ شادی شدہ عورتوں کو طلاق پر ابھارنے کیلئے ”بڑے بڑے فلسفے“ سامنے آئے۔ طلاق کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے میل کرانٹ زیلر نے دل لبھانے والے ادیبانہ جملے استعمال کرتے ہوئے اپنی مشہور کتابCreative Divorceمیں لکھا کہ طلاق دے کر خدا حافظ کر کے رخصت کر دینا دراصل ایک نئی نسبتا زیادہ آزاد اور خود اعتماد والی زندگی کو خوش آمدید کہنا ہے۔ تمھاری یہ طلاق تمھاری زندگی کی بہترین چیز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح معاشیات کے میدان میں کام کرنے والے مفکرین نے ”تحقیق“ کر کے”ثابت“ کیا کہ طلاق کے بعد کس طرح فریقین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور وہ نسبتا بہتر زندگی بسر کرنے لگے ہیں۔
1985ء میںWeitzmanکی ایک کتاب سامنے آئی جس کا نام ہےThe Divorce Revolution۔ کتاب کا نام ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ طلاق کوئی بری شے نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک انقلابی قدم ہے۔ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ طلاق کے بعد سابق شوہر کی آمدنی میں 42فیصد اضافہ ہوا ہے!
گلوریا سٹینن نے پیٹر کولیر اور ڈیوڈ ہارووتھ کی کتاب سے تحریک نسواں کے علمبرداروں کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ ہم ایک ذات پات پر مبنی معاشرے کے تینوں ستونوں، فیملی، نجی ملکیت اور ریاست، کو تباہ کرنا چاہتے ہیں! عورتوں کو مکمل آزادی دلانے کیلئے ان کو یہ احساس دلانا ضروری تھا جس کیلئے یہ فلسفہ گھڑا گیا کہ عورتیں اپنے جسم کی خود مالک ہیں اور مردوں کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کو استعمال کریں۔ گلوریا جو خود بھی تحریک نسواں کے کاروان میں شامل تھی، بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ امریکہ کے روایتی خاندانی ساخت پر حملوں کی وجہ سے تحریک ایک برائی کا خوفناک عفریت ہے۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ نوجوان عورتوں کو اپنے جنسی تجربات کرنے اور ایسی صلاحیت پیدا کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے بولنے پر تیار کرنے کا راستہ یہ ہے کہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے جسم کا کنٹرول خود حاصل کر رہی ہیں یا وہ گم شدہ کنٹرول دوبارہ حاصل کر رہی ہیں۔
اسی طرح 1960ء اور1970ء میں مساوات مردوزن سے آگے بڑھ کر تحریک نسواں کے مقاصد لبرل ازم کی ”برکات“ سے اپنے منطقی نتائج کی طرف آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ جب مستقل اقدار باقی نہ رہیں اور ہر چیز اضافی بن جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ عورتوں نے یہ نام نہاد آزادی حاصل تو کر لی مگر کس قیمت پر؟ یہ ابھی غالبا سوچنے کا موقع نہیں آیا۔ سیلویا نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ایک کمتر زندگی: امریکہ میں عورتوں کی آزادی کا افسانہ!
اس میں عورتوں کے بارے میں چشم کشا واقعات بیان کئے گئے ہیں کہ خاندان کی تباہی کے بعد عورتیں نہ گھر کی رہیں نہ باہر کی۔ افزائش نسل کیلئے عورتوں کا کردار مسلم ہے لیکن بقول فائر سٹون بچوں کے متعلق سوچتے ہوئے ان کی پیدائش کا عمل ذہن میں فورا ابھرتا ہے کہ وہ کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ جوں ہی اس عمل پیدائش میں عورتوں کے رول کو سامنے رکھیں گے، عورتوں کی ماتحتی اور غلامی کاتصور ہی سامنے آئے گا۔ لہذا عورتوں کو اس سارے جھنجھٹ سے نکالنے کیلئے واحد راستہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے آسانی فراہم کی گئی۔
پہلے مرحلے پر اسقاط حمل کو قانونا جواز بخشا گیا تھا لیکن بحث کی خاطر لفظ آزادی اور انسانی حقوق کے مارے ہوئے انفرادیت پسند ہمیں یہ دلیل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسقاط حمل میں مستقبل میں پیداہونے والے بچہ کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے لہذا اس کی مرضی کے بغیر اس کو دنیا میں آنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے! یہ تو سب ہی کو معلوم تھا کہ جینین میں پرورش پانے والا ایک گوشت کا لوتھڑا کس طرح اپنی مرضی کا اظہار کر سکتا ہے۔ اس کمزور دلیل کو سامنے لایا اس لئے گیا تھا کہ اس کی دھجیاں بکھیر کر اسقاط حمل کی راہ ہموار کی جا سکے۔ چنانچہ عین توقع کے مطابق اس دلیل کو رد کر دیا گیا۔ تھامسن نے لکھا ہے کہ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ عورت اپنے جسم کی مالک ہوتی ہے لہذا اگر عورتوں کو اپنے جسم کا مالک ہونے کی وجہ سے مکمل حقوق حاصل ہیں تو کسی دوسرے کو (یعنی پیدا ہونے والے بچے کو) ان کی مرضی کے خلاف ان کا جسم استعمال کرنے کا حق کس طرح دیا جاسکتا ہے یعنی ماں کی مرضی کے خلاف اس کے جسم میں پرورش پانے والے بچے کا کوئی حق ہو ہی نہیں سکتا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ماں جب چاہے اس سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ وہ اپنا جسم کسی کو استعمال کیوں کرنے دے! تاہم اگر کبھی اس کو بچے کی خواہش پیدا ہو جائے تو کراے کی ماں کا تصور دے کر اس کا ایک حل نکال لیا گیا، جسےCommon Surrogacy کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی نے ایک عورت کا مسئلہ تو حل کر لیا لیکن دوسری عورت پھر بھی غلام کی غلام ہی رہی!
پہلے مرحلے میں مرد، بچوں اور خاندان سے یوں گلوخلاصی کے بعد اگلا قدم مردوں سے مکمل نجات تھا چنانچہ عورت کی عورت سے شادی کا تصور اجاگر کیا گیا اور اس کے بعد بہر حال مغربی سرمایہ دار کا بے قید و لبرل معاشرہ آزاد منڈی کے ذریعے مصنوعی آلات جنسی تسکین کیلئے سامنے لے آیا تاکہ کسی سے بھی شادی وغیرہ کے جھنجھٹ سے جان بچائی جا سکے۔ یہ سب رویے اب مغربی معاشرے کا لازمی حصہ ہیں۔ ہمارے مسلمان معاشرے میں ہمارا لبرل طبقہ فی الحال اس حد تک نہیں گیا۔ مغرب میں بھی پہلے پہل بڑی احتیاط سے قدم رکھا گیا تھا۔ اسی طرح قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے یہ بھی ابتدائی نوعیت کے کام کا آغاز تو ہو ہی گیا۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر یہاں بھی بہت کچھ ملنے کے آثار شروع ہو گئے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔