سیکولرازم اور اسلام
سیکولرزم ایک ایسا طرز زندگی ہے جس میں ریاستی اداروں اور مذہبی معاملات کو الگ الگ کر دیا جائے“ ۔ کیمبرج انگلش ڈکشنری کے مطابق ”سیاسی و معاشرتی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت کا نام
سیکولرزم ہے“ ۔ امریکن ہری
ٹیج ڈکشنری کے مطابق ”اجتماعی معاملات مذہب کو شامل کیے بغیر چلانے کا نام سیکولرزم ہے“ ۔ آکسفورڈ ، مریم ویبسٹرز اور دیگر معتبر انگریزی لغات
کے مطابق سیکولرزم کی تعریف یہی ہے۔ یعنی مذہب اور خدا اگر ہیں بھی تو انفرادی
زندگی تک، اس سے آگے جانے کی ان کو اجازت نہیں۔ یورپ کے تاریک دور کے اندر پادریوں
کی مداخلت حد سے بڑھ گئی، افراد پر تحقیق، جستجو اور علم کے دروازے بند کر دیے
گئے۔ کئی سائنسدانوں کو قتل بھی کر دیا گیا۔ لوگوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ
عیسائیت کی اندھی تقلید کریں اور اس کے مقابلے میں اپنے دماغ کی کھڑکیاں بالکل بند
کر لیں۔اس وقت عیسائیت میں چونکہ بہت ذیادہ تحریف ہو چکی تھی۔ اس کو اللہ کے سچے
دین کی حیثیت حاصل نہ تھی۔ اس لیے وہ انسانی ذہنوں میں ابھرنے والے سوالوں کے جواب
نہ دے سکا۔ نتیجے کے طور پر لوگوں نے مذہب سے بغاوت شروع کر دی۔ چودہویں صدی عیسوی
میں اٹلی سے تحریک احیاءالعلوم(Renaissance) کا باقاعدہ
آغاز ہوا ۔ پھر یہ تحریک پورے یورپ میں پھیلتی چلی گئی ۔مذہبی طبقے نے بھی شدت سے
مقابلہ کیا لیکن جدید ذہن کا اعتماد حاصل نہ کر سکنے کی بدولت جلد ہی بازی ہار
گیا۔ اختیارات کی ڈور جدید طبقے کے ہاتھ میں آ گئی۔ جس نے مذہبی معاملات کو
انفرادی حد تک محدود کر دیا۔ انفرادی مذہبی معاملات میں آزادی دے دی گئی لیکن
ریاستی معاملات میں مذہب کے یکسر نکال باہر کیا گیا۔مختلف مذاہب کے درمیان ہم
آہنگی پیدا کرنے کے لیے ”انسانیت“ کا لفظ استعمال
کیا گیا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیکولرزم صرف مذہب سے آزادی کا نام ہے یا یہ
خود ایک نظام زندگی ہے۔ سیکولرزم تمام اجتماعی معاملات کو انسانی عقل سے حل کرنے
پر زور دیتا ہے۔ وہ انفرادی زندگی میں تو کسی خدا کو ماننے کی اجازت دے دیتا ہے
لیکن اپنے اجتماعی معاملات اس خدا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔لہٰذا سیکولرزم
خود ایک نظام زندگی ہے۔ یہ کسی مذہب کو اپنے اوپر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔
اگر کوئی بھی مذہب اس کے تابع رہنا چاہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ دنیا کے
اکثر مذاہب مثلاً عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت وغیرہ نے سیکولرزم کے آگے
ہتھیار ڈال دیے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اول سیکولر طبقے کے ہاتھ میں ریاستی قوت کا
ہونا۔ دوم ان مذاہب کا اجتماعی معاملات کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا۔ہندو
مت، عیسائیت، یہودیت اور بدھ مت وہ بڑے مذاہب ہیں جنہوں نے اجتماعی زندگی گزارنے
اور ریاستی معاملات چلانے کا کوئی نظام نہیں دیا ہے اور نہ وہ اپنے پیروکاروں سے
یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کی بھاگ ڈوراپنے ہاتھ میں لیں۔ اکثر مذاہب محض اخلاقی
اصولوں کا مجموعہ ہیں۔ان میں بھی انسانوں نے اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کر لی ہے۔
اس لیے ان میں اب مزاحمت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی اور انہوں نے مکمل طور پر
اپنے آپ کو سیکولرز کے حوالے کر دیا۔ کیا سیکولرزم مذہب کے معاملات کے بارے میں
غیر جانبدار ہے؟ سیکورلزم کی پوری تاریخ پر نظر ڈالنے سے اس کا جواب نفی میں ملتا
ہے۔ سیکولرزم اس وقت تک غیر جانبدار رہتا ہے جب تک کہ کوئی مذہب ریاستی معاملات سے
لاتعلق رہتا ہے۔ ریاستی معاملات میں مداخلت کرنے پر سیکولرزم بھی حرکت میں آجاتا
ہے اور مذہبی طبقے کے ساتھ لڑنے اور ان کو کچلنے پر بھرپور زور دیتا ہے۔اشتراکیت
کو سیکورلزم کی ایک انتہا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ جس میں مذہب کو ایک افیون
سمجھا جاتا تھا۔ مذہب کی ادنیٰ اور انفرادی رسومات کو بھی جرم قرار دے دیا
گیا۔اشتراکیت کے غلبے کے موقع پر روس اور دیگر ممالک میں مذہب کے ماننے والوں پر
سخت مظالم ڈھائے گئے۔ لاکھوں افراد کو قتل کر دیا گیا۔ عبادت خانے مسمار کر دیے
گئے۔ مذہبی تعلیم کو ناجائز قرار دے دیا گیا۔اشتراکی معاشرہ مذہب سے مکمل طور پر
کٹ گیا۔البتہ یورپ وغیرہ میں انفرادی حد تک مذہبی معاملات کی نہ صرف اجازت دی گئی
بلکہ افراد کو سہولیات بھی دی گئیں۔ مذہب کی اس محدود شکل کی تبلیغ کی اجازت بھی
دی گئی۔ جہاں تک باقی مذاہب کی بات ہے تو انہوں نے سیکولرزم کے آگے ہتھیار ڈال
دیے۔ لیکن اسلام اور سیکولرزم کا ٹکراﺅ شروع ہو گیا۔ اسلام باقی مذاہب سے یکسر مختلف ہے۔ یہ وہ دین ہے جس میں
زندگی کے ہر پہلو کے متعلق رہنمائی موجود ہے۔ یہ ایک مکمل دین ہے۔ زندگی کا کوئی
شعبہ خواہ وہ سیاست ہو، تجارت ہو، شادی بیاہ کے معاملات ہوںیا انفرادی زندگی کے
اصول و ضوابط اسلام سے باہر نہیں رہ سکتا۔ اسلام ریاست کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ
وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے باغی ہو کر نظام زندگی چلائے۔اسلام ریاست سمیت کسی کی ماتحتی قبول نہیں
کرتا۔ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک منظم جماعت بنانے کی دعوت دیتا ہے۔ جس کا کام نہ
صرف انفرادی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی ہے بلکہ پورے کے پورے دین کو بطور نظام زندگی غالب کر دینے کی ذمہ
داری سونپتا ہے۔ وہ سیکولرز م کی طرح اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس
کے غلبے کی راہ میں جو بھی رکاوٹ آئے اسے بزور قوت دور کر دو۔ اور اس وقت تک
جدوجہد کرتے رہو جب تک کہ اسلام پوری دنیا میں غالب نہ آ جائے۔ اسلام اپنے ماننے
والوں کے دل و دماغ بند نہیں کرتا بلکہ سائنسی تحقیق کو فرض قرار دیتا ہے۔ کائنات
کے اندر غور و فکر کرنا ، اس کی پوشیدہ حقیقتوں کو عیاں کرنا، مختلف مخلوقات پر ریسرچ
کرنا یہ اسلام کی فطرت ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ ساری دنیا انسان کے لیے ہی پیدا کی
گئی ہے کہ وہ اسے مسخر کرے ، اس سے فائدہ اٹھائے۔ کوئی آدمی ہندو، عیسائی اور بدھ
مت ہوئے تو سیکولر رہ سکتا ہے لیکن مسلمان بیک وقت سیکولر اور مسلمان نہیں رہ
سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے قرآن اور سیرت رسول ﷺ کے ایک بہت بڑے حصے کا واضح انکار کرنا پڑے گا۔ اسلام کئی صدیاں دنیا کا
غالب نظام زندگی رہا۔ مسلمانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر ایک لمبا عرصہ حکومت کی۔
حکومت اور اقتدار چھن جانے کے بعد باقی مذاہب کی طرح کمپرومائز نہیں کیا بلکہ اس کی
تعلیمات پر عمل کرکے اس کے ماننے والوں نے پھر اپنے قدموںپر کھڑا ہونا شروع کر دیا
۔ اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دنیا کی تمام سیکولر طاقتیں آج مل کر پوری دنیا کے
مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچارہی ہیں۔ ثقافتی اور تہذیبی یلغار کی جارہی ہے۔
علمی طور پر شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اسلام کے ماننے والوں کو اس بات پر
قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ باقی مذاہب کی طرح آپ بھی اسلام کو ایک محدود
مذہب تصور کرلیں۔ ریاستی معاملات میں مذہب کو نہ لائیں۔ لیکن تمام تر کمزور ی کے
باوجود آج پوری دنیا میں اسلامی تحریکیں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔ بیلٹ اور بلٹ
دونوں مقامات پر اسلام کا راستہ پوری قوت سے روکا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود
خود مغربی اداروں کے مطابق اسلام دنیا میں سب سے ذیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اور
ہر علاقے میں ایک مضبوط قوت کے طور پر بھی سامنے آرہا ہے۔کئی ممالک میں تو یہ خطرہ
محسوس کیا جارہا ہے کہ بہت جلد آباد ی کا تناسب الٹ جائے گا یعنی آج کی اکثریت کل
کی اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ وہ وقت دور نہیںجب اسلام ماضی کی طرح پھر پوری
دنیا میں غالب آ جائے گا۔ اس قوت کو روکنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ نکل کے
صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر
پھر ہوشیار ہو گا
اشتراکیت یعنی سوشلزم بھی سرمایہ داری کی ہی ایک شکل ہے اور اس کی طرف رستہ
ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بڑی ڈھٹائی اور جھوٹ و فریب سے دونوں کو الگ قرار دیتے
ہیں۔
مندرجہ زیل دلائل اس بات کو واضح کرتے ہیں۔
یعنی اس بات کی دلیل درج ذیل ناقابل تردید حقائق ہیں:
1) لبرل ازم اور اشتراکیت دونوں کی بنیادیں تنویری(enlightenment) علمیت سے ماخوذ ہیں، اسی لئے یہ دونوں انسان کو قائم بالذات قرار دیتے ہیں
2) اشتراکیت بھی انہی اہداف (آزادی، مساوات و ترقی) کو حق اور مقصد قرار دیتی ھے جنہیں لبرل سرمایہ داری حق کہتی ھے
3) مارکس واضح طور پر کہتا ھے کہ اشتراکیت لبرل یا مارکیٹ سرمایہ داری سے
برآمد ھوتی ھے
4) مارکس نے لبرل سرمایہ داری پر جو تنقید کی اسکا حاصل یہ ھے مارکیٹ کے ذریعے
آزادی اور لامتناہی ترقی کا حصول ممکن نہیں ھوتا کیونکہ مارکیٹ صرف ایک مخصوص (برجوا) طبقے کی آزادی میں اضافہ کرتی ھے نہ کہ پوری انسانیت کی۔ اسی لئے مارکیٹ
ایک خاص حد کے بعد ترقی (بڑھوتری سرمایہ میں اضافے) کے عمل میں رکاوٹ بن جاتی ھے
5) اگر کسی اشتراکی سے سوال کیا جائے کہ بتاؤ جو معاشرہ و ریاست تم قائم کرو
گے وہ کن چیزوں کا حصول ممکن بنائے گا، تو اسکا جواب ھوگا: ‘آزادی، مساوات اور ترقی’
6) یہی وجہ ھے کہ اشتراکی علاقے (مثلا روس، چین، کیوبا
وغیرھم) ھوں یا لبرل ممالک (امریکہ و یورپ)، عملا ہر جگہ حرص و
حسد سے مغلوب، نفس پرست، خدا و آخرت بیزار اور گناھوں کی اثیر ایک ہی قسم کی
انفرادیت و معاشرت پروان چڑھتی ھے
کسی کے ذاتی غلط اعمال کو عبادات سے منسلک کرنا بہت غلط اور اسلامی
شعائر کی توہین ہے۔اگر کوئ ایک کام غلط کر رہا
ہے تو یہ نہیں کہ باقی اچھے کام بھی چھوڑ
دے۔اگر ایک نیکی نہیں کر سکتا تو یہ مطلب نہیں کہ باقی نیکیاں بھی چھوڑ دے۔دنیا
میں اگر کسی کے سو روپے گرتے ہیں تو وہ اپنے باقی ہزار روپے خود نہیں گرا دیتا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔