Friday 10 November 2017

قرآن پاک میں موجود لفظ سامری کے تاریخی وجود کے بارے میں مستشرقین و ملحدین کے اعتراضات اور ان کا تاریخ،آرکیالوجی اور جدید جینیٹکس سے جواب

قرآن پاک میں موجود لفظ سامری کے تاریخی وجود کے بارے میں مستشرقین و ملحدین کے اعتراضات اور ان کا تاریخ،آرکیالوجی اور جدید جینیٹکس سے جواب بشکریہ:
http://www.islamic-awareness.org/…/…/External/samaritan.html
ترجمہ: احید حسن
🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇🎇
قرآن پاک میں مذکور ہے
قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَـتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَاَضَلَّهُـمُ السَّامِـرِىُّ ۔فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّـمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُـمْ مَّوْعِدِىْ۔قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُـمِّلْنَـآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِىُّ۔فَاَخْرَجَ لَـهُـمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّـهٝ خُـوَارٌ فَقَالُوْا هٰذَآ اِلٰـهُكُمْ وَاِلٰـهُ مُوْسٰىۖ فَـنَسِىْ
فرمایا تیری قوم کو تیرے بعد ہم نے آزمائش میں ڈال دیا ہے اور انہیں سامری نے گمراہ کردیا ہے۔
پھر موسٰی اپنی قوم کی طرف غصہ میں بھرے ہوئے افسوس کرتے ہوئے لوٹے، کہا اے میری قوم کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا، پھر کیا تم پر بہت زمانہ گزر گیا تھا یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غصہ نازل ہو تب تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی۔کہا ہم نے اپنے اختیار سے آپ سے وعدہ خلافی نہیں کی لیکن ہم سے اس قوم کے زیور کا بوجھ اٹھوایا گیا تھا سو ہم نے اسے ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈال دیا۔پھر ان کے لیے ایک بچھڑا نکال لایا ایک جسم جس میں گائے کی آواز تھی، پھر کہا یہ تمہارا اور موسٰی کا معبود ہے، سو وہ بھول گیا ہے(قرآن کریم،سورہ 20،آیات 85 تا 88)
قرآن کریم کی ان آیات کے بارے میں مستشرقین و ملحدین کا کہنا ہے کہ قرآن کے بیان کے مطابق سامریہ اور سامری قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں موجود تھے جب کہ سامری یا سَماروی قوم ایک علیحدہ حیثیت کے طور پہ حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے پانچ سو سال بعد ساتویں صدی قبل مسیح میں ابھری اور اس طرح قرآن کا بیان نعوذ بااللہ تاریخی طور پہ غلط ہے۔اب ہم اس بات کی تحقیق اور اس کا جواب عرض کرتے ہیں۔
قرآن پہ ملحدین و مستشرقین کا یہ اعتراض بائبل کے باب بادشاہ یا کنگز 17:29 میں مذکور تفصیل پہ مبنی ہے۔بائبل کے اس باب میں ایک لفظ شومرونم( Shomronim) کی نسبت بتوں کی پوجا کی طرف کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پہ ملحدین و مستشرقین کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ شومرونم سماروی ہیں جس قوم سے قرآن پاک میں مذکور سامری تعلق رکھتا تھا اور اس طرح قرآن نے نعوذ بااللہ غلط کہا کیوں کہ بائبل کے مطابق شومرونم جس کو بائبل نے سماروی قوم قرار دیا ہے،ساتویں صدی قبل مسیح میں ابھری جب کہ قرآن اس قوم کے ایک فرد سامری کا بیان حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں یعنی اس قوم کے ایک الگ حیثیت کے طور پہ ابھرنے سے پانچ سو سال پہلے کر رہا ہے جو کہ نعوذ بااللہ غلط ہے۔ملحدین و مستشرقین کے اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ بائبل میں مذکور شومرونم کسی طرح بھی سماروی قوم کا نہیں اور نہ ہی سَماروی قوم خود کو اس لقب سے پکارتی ہے۔لہذا قرآن کا نہیں بلکہ بائبل کا بیان غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سماروی قوم خود کو شمیرن( Shamerin) کے نام سے پکارتی ہے جس کا مطلب تورات کا نگہبان ہے۔اس طرح خود سماروی قوم کا اپنے متعلق بیان بائبل کے بیان کو غلط ثابت کر رہا ہے۔دوسری بات یہ کہ سماروی قوم بذات خود اپنے آباؤ اجداد اور خود کو شہر سامریہ کے باشندوں سے الگ گردانتی ہے۔لہذا ملحدین و مستشرقین کا یہ کہنا کہ سامریہ شہر اور اس کی سماروی قوم ساتویں صدی قبل مسیح میں ابھری خود سماروی قوم کے اپنے بیان کے خلاف ہے کیونکہ سماروی قوم خود کو سامریہ کے باشندوں سے الگ گردانتی ہے اور خود کو بائبل کے بیان کے مطابق ساتویں صدی قبل مسیح کی پیداوار نہیں بلکہ بنی اسرائیل یعنی یہود کا ایک قدیم قبیلہ گردانتی ہے جس کا شجرہ نسب حضرت یوسف علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔اس طرح سماروی قوم ایک طرح سے خود خود بائبل کے بیان کو غلط اور قرآن کے بیان کو اپنے متعلق درست تسلیم کرتی ہے جس کے مطابق یہ قوم ساتویں صدی قبل مسیح کی پیداوار نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا ایک قدیم قبیلہ ہے جو کہ حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں بھی موجود تھا۔اس طرح قرآن کا بیان درست اور بائبل کا بیان غلط قرار پاتا ہے۔عبرانی بائبل کے باب بادشاہ اول یا کنگز ون کے سماروی سرگزشت یا Samaritan Chronicles کے مطابق شہر سامریہ کی بنیاد اومری( Omri) نے رکھی اور اس شہر اور اس کے نواحی شہر کے باشندوں کو شومرون کے نام پہ شومرونم کہا جاتا تھا۔لہذا خود بائبل کے دوسرے بیان کے مطابق شہر سامریہ کے باشندوں اور سماروی قوم کے درمیان فرق پیش کیا گیا ہے۔یعنی سادہ لفظوں میں شومرونم سے مراد شہر سامریہ کے باشندے ہیں اور اس لفظ کا سماروی قوم کی طرف سے خود کو شمیرن یعنی تورات کا نگہبان کہنے کے لفظ سے بالکل الگ ہے۔لہذا بائبل میں مذکور شومرونم یا شہر سامریہ کے باشندوں کے لفظ کی بنیاد پہ یہ کہنا کہ سامریہ شہر ساتویں صدی قبل مسیح میں آباد ہوا اور قرآن کا بیان نعوذ بااللہ غلط ہے تو یہ بات خود سماروی قوم کے اپنے اور عبرانی بائبل کے دوسرے بیان کے خلاف ہے۔لہذا بائبل کے حوالے سے ملحدین و مستشرقین کا قرآن پہ یہ اعتراض مکمل طور پر غلط ہے۔لیکن مغربی مستشرقین نے بائبل کو غلطی سے بچانے اور قرآن پہ اپنے اعتراض کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ اس حقیقت کو نظر انداز کیا۔مثال کے طور پہ سماروی قوم کے متعلق اج سے سو سال قبل جیمز منٹگمری نے کہا تھا
"سماروی قوم خود کو شمیرم کے نام سے پکارتی ہے جس کا مطلب تورات کا نگہبان ہے۔"
اسی طرح The Interpreters Dictionary Of Bible لکھتی ہے
"سماروی قوم خود کو شومرونم یعنی سماریہ کے باشندوں کی بجائے شمیرم یعنی تورات کے نگہبان کے نام سے پکارے جانا پسند کرتی ہے۔"
سماروی قوم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے The Encyclopedia Judaica لکھتا ہے
"سماروی قوم کے نام کے متعلق ہمیں کم رہنمائی حاصل ہے۔بائبل۔ کنگز 17:29 میں ان کے لیے شومرونم کی اصطلاح استعمال کرتی ہے جس کا مطلب غالبا سماروی قوم کی بجائے سامریہ کے باشندے ہیں۔خود سماروی قوم خود کو شومرونم کے لفظ سے نہیں پکارتی بلکہ وہ لمبے عرصے سے خود کو شمیرن یعنی تورات کے نگہبان کے نام سے پکارتی ہے-"
مستشرقین کے دعوے کے برعکس،بائبل میں کنگز 17 کا شومرونم کا بیان ہمیں سَماروی قوم کی ابتدا کے مطابق کچھ نہیں بتاتا کیوں کہ اس لفظ کا مطلب سامریہ کے باشندے ہیں جب کہ سماروی قوم خود کو اس سے الگ قرار دیتی ہے۔لہذا خود سماروی قوم کے مطابق ان کی ساتویں صدی قبل مسیح میں ابتدا کا بائبل کا تصور غلط اور قرآن کا تصور درست قرار پاتا ہے جس کے مطابق سامری کی سماروی قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں بھی موجود تھی۔1993ء میں پبلش ہونے والی A Companion To Samaritan Studies کو سماروی قوم کے مطالعے کے لیے ڈکشنری ڈیسک ریفرنس کی حیثیت سمجھا جا سکتا ہے۔یہ لکھتی ہے
"پرانے اہل علم سماروی قوم کی ابتدا کے متعلق بائبل کے باب کنگز کے بیان کو مستند تاریخی بیان مانتے تھے۔لیکن یہ تصور کہ بائبل کا یہ بیان ہمیں سَماروی قوم کی ابتدا کے متلعق کوئی مستند معلومات فراہم کرتا ہے،تو بائبل کا یہ تصور مسترد کیا جا چکا ہے اور یہی وہ غلط تصور تھا جو فلیویس جوزیفس جیسے ابتدائی یہودی مورخین نے اپنایا تھا۔ایگر( Egger) ہمیں بتاتا ہے کہ سماروی قوم کے متعلق جوزیفس کے کتنے حوالوں کو سماروی قوم کے متعلق مناسب طور پہ نہیں سمجھا جا سکتا کیوں کہ جوزیفس سماروی قوم کے مخالف یہود سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے اس مخالفت میں بار بار سماروی قوم کی مذمت کی ہے۔"
2002ء کی اپنی تصنیف The Keepers:An Introduction To The History And Culture Of The Samaritans میں اینڈرسن اور گائلز نے لکھا ہے کہ سماروی قوم کے متعلق بائبل کے باب کنگز 17 کے بیان کو سماروی قوم کی تاریخ کا کسی طرح بھی درست بیان نہیں سمجھا جاسکتا۔ان کے مطابق سامریہ شہر میں بسنے والے بسنے والے کوتھی( Cutheans) نسل کے لوگ شمال کے باشندے تھے نہ کہ سماروی قوم کے باشندے۔آشوری بادشاہ سرگون کی طرف سے سامریہ شہر سے بنی اسرائیل کی جلاوطنی یہود کے اشرافِیَہ تک محدود تھی اور ان کی جگہ بسائے جانے والے کوتھی نسل کے لوگ سامریہ شہر میں اقلیت میں تھے۔بائبل کا باب کنگز دوم شہر کی اکثریت کو نظر انداز کرکے صرف اس اقلیت کو مدنظر رکھ کر بات کرتا ہے نہ کہ سماروی قوم کے متعلق۔"
لہذا سماروی قوم اور اس کے فرد سامری کے متعلق بائبل کے باب کنگز دوم کا بیان تاریخی طور پہ غلط ہے۔کنگز دوم سترہ اور عبرانی بائبل کے دوسرے بیانات کا مقصد حریفین جیسا کہ سماروی قوم پہ یروشلم کی برتری ظاہر کرنا ہے۔
اس سماروی قوم کی نسل کے کچھ افراد اج بھی مقبوضہ فلسطین میں موجود ہیں جن کی تعداد 700 کے لگ بھگ ہے۔مزید یہ کہ اس بات کی کوئی گواہی نہیں کہ بعد کے سماروی قوم کے افراد سامریہ میں موجود رہے۔لہذا سماروی قوم کو سامریہ کے باشندے قرار دے کر ان کی ابتدا کو ساتویں صدی قبل مسیح تک محدود کرنا بالکل غلط ہے۔
سماروی قوم کی رہائش گاہ کے بارے میں ابتدائی ترین حوالے سامریہ کی بجائے شیچم( Schechem) کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔سماروی قوم کے مذہب اور ثقافت سے کسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قوم کبھی سامریہ میں بت پرستوں کے زیر اثر رہی۔یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ جدید بائبلی محققین کے مطابق فلسطین کی قدیم یہودی سلطنتوں جودہ اور سلطنت اسرائیل کے درمیان اختلاف متحدہ سلطنت کے زمانے تک وسیع ہے اور بائبل کی کنگز دوم نے یروشلم کو شمالی یہودی سلطنتوں جن میں سماروی قوم بھی شامل تھی،پر ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔لہذا سماروی قوم کے بارے میں بائبل کا بیان جانبدارانہ اور غیر مستند ہے۔لہذا سماروی قوم کی ساتویں صدی قبل مسیح میں سامریہ میں ابتدا کا بائبل کا تصور بیشتر محققین کی نظر میں غلط ہے۔دی انسائیکلو پیڈیا جیوڈیکا نے سماروی قوم کی تفصیل کے تحت لکھا ہے
"بیسویں صدی عیسوی تک سماروی قوم کی ابتدا کے بارے میں بائبل کا تصور حتمی مانا جاتا تھا۔لیکن اب اس کے بارے میں سماروی گزارشات( The Samaritan Chronicles) کی یہ بات زیادہ مستند مانی جانے لگی ہے جس کے مطابق سماروی قوم کی ابتدا ساتویں صدی قبل مسیح میں نہیں ہوئی بلکہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قبیلوں افریم اور مناسح( Ephraim And Manasseh) کی براہ راست نسل ہیں اور یہاں تک کہ سترہویں صدی عیسوی تک ان کے اعلی ربی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہوتے تھے۔ان یعنی سماروی قوم کا دعوی ہے کہ وہ مستقل طور پہ وسطی فلسطین میں مقیم رہے ہیں۔یہاں تک کہ اج تک سماروی قوم کے افراد خود کو حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے قرار دیتے ہیں اور اس بات پہ ان کو بہت فخر ہے۔اگر سامری کی سماروی قوم حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے ہے تو یہ یقینا حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں بھی موجود تھی اور اس طرح سامری کے حوالے سے قرآن کا بیان بالکل درست ہے۔یہاں تک کہ قدیم یہودی ربی سماروی قوم کو خالص یہودی نسل سمجھتے تھے۔جینیسس ربہ( Genesis Rabba) میں ربی میر کے حوالے سے سماروی قوم کی حضرت یوسف علیہ السلام کے قبیلے سے ابتداکا بیان موجود ہے جس میں سماروی خود کو حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے قرار دیتے ہیں۔ ہمارا نتیجہ اب تک یہی ہے کہ سماروی قوم کی ابتدا ساتویں صدی قبل مسیح میں نہیں ہوئی بلکہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے ایک قدیم یہودی نسل ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں بھی موجود تھی اور علم آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات جیسا کہ 1967/68،1978/79کی تحقیقات شمالی فلسطین میں آشوری قبضے سے قبل اور بعد سماروی قوم کے اجداد یعنی افریم اور مناسح قبیلے کے مستقل طور پہ موجود ہونے کی تصدیق کر چکی ہیں۔یہ تحقیقات قرآن کے اس بیان کی تائید کرتی ہیں جس کے مطابق سماروی قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں بھی موجود تھی اور یہ بات سماروی قوم کے اس دعوے کی بھی تائید کرتی ہے جس کے مطابق وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔لیکن سماروی گزارشات اور عبرانی بائبل دونوں سے اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سماروی قوم نے کب اپنے لیے شمیرن کا خاص لقب استعمال کرنا شروع کیا۔لہذا اس بارے میں قرآن کے بیان کی تردید بالکل ممکن نہیں۔ قرآن کے مطابق شمیرن یا سماروی کا یہ لقب سماروی قوم کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں موجود تھا۔
جدید سائنسی علم وراثت یعنی جینیٹکس کی تحقیقات ثابت کر چکی ہیں کہ قرآن میں مذکور سامری کی سماروی قوم حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سامری کی سماروی قوم کے حوالے سے قرآن کا ان کے حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں موجود ہونے کا بیان تاریخ کی طرح سائنسی طور پہ بھی مکمل طور پر درست ہے۔جدید جینیٹکس ثابت کر چکی ہے کہ سماروی قوم کا وائے کروموسوم یہود نسل کے اجداد سے ہے اور ان کا مائیٹوکونڈریل ڈی این اے غیر یہودی نسل سے ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ سماروی قدیم یہودی نسل ہیں جن میں قدیم زمانے میں غیر یہود سے شادیوں کی وجہ سے غیر یہودی خواتین کا مائیٹوکونڈریل ڈی این اے پایا جاتا ہے۔مزید برآں جینیٹکس کی جدید تحقیقات کے مطابق سماروی قوم اور یہودیوں کے اجداد شمالی فلسطین پہ آشوری قبضے کے وقت جا کر مشترک ہوجاتے ہیں اور اس سے پہلے یہ ایک ہی والد کی اولاد ہیں۔لہذا حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے ہونے کا سماروی قوم کا دعوی اور حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں ان کے موجود ہونے کا قرآن کا دعوی دونوں سائنسی طور پہ درست ہیں کیوں کہ حضرت موسی علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام سے لگ بھگ چھ سو سال بعد پیدا ہوئے۔جینیٹکس کی ان تحقیقات کے مطابق اج سے 2000 سے 3500 سال قبل یہود اور سماروی قوم کے اجداد ایک تھے اور اس سے قبل یہ ایک ہی قوم تھے۔لہذا قرآن کا بیان مکمل طور پہ درست ہے جب قرآن سامری کو حضرت موسی علیہ السلام کی قوم سے قرار دیتا ہے اور ملحدین و مستشرقین کا یہ اعتراض تاریخی،علم آثار قدیمہ اور جینیٹکس تینوں طرح سے غلط ہے جس کے مطابق سماروی قوم کی ابتدا ساتویں صدی قبل مسیح میں ہوئی۔لہذا ملحدین و مستشرقین کو چاہیے کہ ضد چھوڑ کر یہ تاریخی و سائنسی ثبوت تسلیم کریں اور مان لیں کہ قرآن پہ ان کے اعتراضات تاریخی اور سائنسی ہر طرح سے غلط ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔