Saturday, 18 November 2017

قرآن اور جدید سائنس قسط اول


قرآن اور جدید سائنس قسط اول
جمع و ترتیب
اسرار احمد صدیقی

قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔

مجموعی جائزہ
جس وقت اور زمانے سے انسانی زندگی اس سیارے یعنی زمین پر نمودار ہوئی ہے انسان نے ہمیشہ سے فطرت ، تخلیق کے اس عظیم منصوبے میں اسکی اپنی حیثیت اور خود زندگی کا مقصد سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ سچ کی اس تلاش میں صدیوں کی مدت میں اور مختلف تہذیبوں نے منظم مذہب کو زندگی کی شکل دی۔ اور بڑی حد تک (انسانی) تاریخ کا راستہ متعین کیا ۔ جبکہ بعض مذاہب کی بنیاد لکھے ہوئی متن (یعنی کتابوں) پر ہے۔ جن کے پیرو کار اسے الہامی (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف) سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جبکہ باقی کا انحصار صرف انسانی تجربے پر ہوتا ہے۔ قرآن جو مذہب اسلام کا اہم ذریعہ ہے، اس کے پیرو کار یعنی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ مکمل طور پر کلام الہٰی ہے مسلمان اس بات پر یقین کرتے ہیں۔ کہ اس (قرآن) میں تمام انسانیت کے لئے ہدایت موجود ہے۔ چونکہ قرآن کے پیغام کو ہر دور کے لئے مانا جاتا ہے اس لیے یہ ہر زمانے کے متعلق ہونا چاہیے۔ لیکن کیا قرآن اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے؟
اس مضمون میں میری کوشش اور ارادہ یہ ہے کہ میں خاص طور پر ثا بت شدہ سائنسی دریافتوں کی روشنی میں قرآن کے کلام الہٰی ہونے کا ایک حقیقی جائزہ پیش کرو۔ تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی تھا کہ معجزہ کو یا جس چیز کو معجزہ سمجھا جاتا تھا، انسانی منطق اوردلیل پرسبقت حاصل تھی۔ عام تعریف معجزہ کی یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو عام زندگی کے بر خلاف ہو اور جس کی انسان کے پاس کوئی تشریح نہیں ہوتی۔ تا ہم ہمیں کسی چیز کو معجزہ ماننے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے۔

1993ء میں ٹائمز آف انڈیا (اخبار کا نام) ممبئی میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ایک پیر جس کا نام بابا پائیلٹ تھا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مسلسل تین دن اور تین رات تک ایک پانی بھرے ٹینک (Tank) میں زیر آب (یعنی پانی کے اندر) رہا ہے۔ تا ہم جب رپورٹروں نے چا ہا کہ وہ اس ٹینک کی تہہ کا جا ئزہ لیں جس میں اس نے معجزانہ کرتب کرنے کا دعوی کیا تھا تو اُس نے انکار کر دیا اور جواب یہ دیا کہ کوئی کس طر ح رحم مادر کا معاینہ کر سکتا ہے جبکہ وہ بچہ جننے والی ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ پیر کچھ چھپا رہا تھا ۔اس نے یہ جھوٹا دعویٰ صرف اپنی شہرت کے لئے کیا تھا۔ یقینی طور پر کوئی بھی اس جدید دور کا آدمی جس کی سوچ کی صلا حیت بہت ہی کم ہو اس قسم کا معجزہ قبول نہیں کرے گا۔ اگر ایسے ہی معجزے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ہونے کے معیار ہو تو پھر ہمیں دنیا کے تمام مشہور جادوگر جو اپنی حیران کن جادوئی چالوں (شعبدہ بازی) اور بصری دھوکوں کے لئے جانے جاتے ہیں حقیقی خدائی نمائندے ماننے پڑیں گے (یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے بھیجے ہوئے)۔ ایک کتاب جو الہٰی کلام ہونے کا دعویٰ کرتی ہو تو خودبخود وہ ایک معجزہ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہی ہوتی ہے۔ ایسا دعویٰ کسی بھی دور میں اُس دور کے معیا ر کے مطابق آسانی سے غلط یا صحیح ثابت ہونے چاہیے۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعا لیٰ کی آخری وحی اور کتاب ہے جوکہ معجزوں کا معجزہ ہے اور یہ انسانوں کے لئے ایک رحمت نازل کی گئی ہے اسی لئے آئیے ہم اس عقیدے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے تحقیق کریں۔

قرآن مجید کا چیلنج (Challenge)
تمام تہذیبوں میں ادب اور شاعری انسانی اظہار اور تخلیق کا ہتھیار رہی ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کو اب ایک خاص مقام حاصل ہے اسی طرح ایک دور میں یہ مقام ادب اور شاعری کو حاصل تھا۔ یہاں تک کہ غیرمسلم علماء بھی ایک بات پر متفق ہے کہ قرآن عربی ادب کی نہایت عمدہ کتاب ہے۔ قرآن بنی نوع انسان کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسی کتاب بنا کر لاؤ۔

” وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ O فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَO

ترجمہ: ’’اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہوo پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہےo‘‘ “

قرآن کا چیلنج یہ ہے کہ قرآن میں موجود سورتوں کی طرح کوئی ایک دوسری سورت بنا لاؤ، اور اسی چیلنج کو قرآن نے کئی مرتبہ دُہرایا ہے۔ قرآن کے ایک سورت بنانے کا چیلنج یہ ہے کہ وہ بنائی جانی والی سورت کی خوبصورتی، فصاحت، گہرائی اور معنی کم از کم قرآ نی سورت جیسی ہونی چاہیے۔ تا ہم ایک جدید سوچ کا معقول آدمی کبھی بھی کسی ایسی مذہبی کتاب کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا جو حتیٰ الامکان عمدہ شاعری میں کی گئی ہو کہ یہ دنیا (گول نہیں بلکہ) چپٹی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں انسانی دلیل، منطق (logic) اور سائنس کو ترجیح دی جاتی ہیں ۔ بہت سے لوگ قرآن کی غیرمعمولی زبان کو اور اس کے کلام الٰہی ہونے کو نہیں مانتے۔ کوئی بھی کتاب جو کلام الٰہی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہو تو وہ منطق (logic) اور دلیل کے لحاظ سے بھی قابل قبول ہونی چاہیے۔
مشہور ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) کے مطابق:
” "سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔"

اسی لیے آئیے کہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن اور جدید سائنس میں مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں کہ بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار چھ سو چھتیس آیات ہیں، جن میں ایک ہزار سے زیادہ سائنس کے متعلق ہیں، (یعنی ان میں سائنسی معلومات موجود ہیں)
ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس قہقرائی حرکت (یوٹرن U-turn) کرتی ہے (یعنی طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے) اس لئے قرآنی تعلیمات کے ساتھ موازنے کے لئے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش کیا جائے گا۔ قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے بحث نہیں کی جا سکتی جو خود سائنسی طور پر ثابت نہیں ہیں۔

فلکیات (Astronomy)
: قرآن اور فلکیات
کائنات کی تخلیق

” أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ
ترجمہ: ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘ “
اس قرآنی آیت اوربگ بینگ کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیں ! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں ظاہر ہوئی، وہ اپنے اندر ایسی غیرمعمولی سائنسی حقیقت لئے ہوئے ہو۔

پھیلتی ہوئی کائنات:
1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشانیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہو کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن پاک میں کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتاہے:
” وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ “
عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ بنتا ہے اور یہ ایک ایسی کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وسعتیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہوں۔ عصرحاضر کا مشہور ترین فلکی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں لکھتا ہے۔ یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں صدی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔
غور فرمائیے کہ قرآن پاک کے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، اس کے باوجود متشکک ذہین رکھنے والے بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں فلکیاتی حقائق کا موجود ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ عرب اس علم میں بہت ما ہر تھے۔ فلکیات میں عربوں کی مہارت کی حد تک تو ان کا خیال درست ہے لیکن اس نکتے کا ادراک کرنے میں وہ ناکام ہوچکے ہیں کہ فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا۔
علاوہ ازیں اوپر بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق، مثلا بگ بینگ سے کائنات کی ابتداء وغیرہ سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں ترقی کے عروج پر تھے لہٰذا قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کسی بھی طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار نہیں دئیے جا سکتے۔ درحقیقت اس کے برعکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لئے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔