بخاری کی کچھ روایات پہ منکرین حدیث کا اعتراض اور اس کا جواب
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
1:ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نبوت سے پہلے) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھے پر رکھ لیتے (تاکہ تم پر آسانی ہو جائے) جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )
اب اس حدیث کی وضاحت پڑھیں
تشریح : اللہ پاک نے آپ کو بچپن ہی سے بے شرمی اور جملہ برائیوں سے بچایاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اقدس میں کنواری عورتوں سے بھی زیادہ شرم تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سنا اور نقل کیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ اترا اور اس نے فوراً آپ کا تہبند باندھ دیا۔ ( ارشادالساری )
صرف اعتراض کرنا ہے منکرین حدیث کو۔ شرم کرنی چاہیے ان کو۔اس حدیث کو تو پیش کیا لیکن اس حدیث کی وہ وضاحت اور تشریح چھپا لی جو بخاری نے اس کی کی ہے۔منکرین حدیث نے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے اور انہیں بخاری کے بارے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
2:ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے پہر کی دونمازوں ( ظہر یا عصر ) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میراغالب گمان یہ ہے کہ وہ عصرہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو ( جلد باز قسم کے ) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نمازکی رکعتیں کم ہو گئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذو الیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو پھر تکبیر کہی اور پھرتکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
اس کی تشریح یہ لکھی ہے علماء نے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھولتے تو امت کو نماز میں بھولنے کے بعد سجدہ سہو کی تلقین اور تربیت کیسے کی جاتی۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں۔بھول سکتے ہیں لیکن ان کی بھول ایسی نہیں ہوتی کہ اس سے شریعت کا نقصان ہو کیونکہ ان کی اس بھول پہ فوری اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی کی جاتی ہے۔یہی اس حدیث کا موضوع تھا۔اس میں کوئی اعتراض والی بات نہیں۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شاء اللہ نہیں کہا تو اللہ تعالی کی طرف سے وحی آئی کہ کوئی بات بھی ان شاء اللہ کے بغیر نہیں کرنی۔اب بخاری نے بھی یہی بات کی اور قرآن نے بھی یہی کہ بھول پہ رہنمائی کی گئی۔غلطی نہیں ہونے دی گئ۔اعتراض کی کیا بات ہے اس میں۔اگر اس وجہ سے بخاری پہ اعتراض ہے تو کیا پھر منکرین حدیث قرآن پہ بھی اعتراض کریں گے نعوذ بااللہ
چند روایات پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی مکمل تشریح جو خود بخاری نے لکھی ہے پیش نہیں کرتے۔یہ جھوٹ اور دھوکا بازی ہے عوام کے ساتھ۔
3:صحیح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو نے نہ تو بدنی طور پر اور نہ ہی عقلی اور ادراک کے طور پر اور نہ ہی ان کے دین اور عبادت میں کوئی نقصان پہنچایا اور نہ اس رسالت میں جس کی تبلیغ کا آپ کو مکلف بنایا گیا اور اسی بنا پر ان کی سیرت اور نماز اور اذکار اور تعلیم وغیرہ کے معاملات میں لوگوں میں کوئی بھی ناواقف نہیں ہے تو اس بنا پر اس جادو کا اثر صرف ازدواج مطہرات سےجماع پر تھا یا ان میں بعض کے ساتھ - تو اسی لۓ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا انہوں نے یہ ذکر کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال ہوتا تھا کہ وہ عورتوں کے پاس گۓ ہیں حالانکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوتا تھا تو یہ رسالت میں اثر انداز نہیں ہوتا اور یہ اللہ تعالی کی تقدیر وفیصلے میں سے ہے اور اس میں یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالی بعض اوقات صالحین مثلا انبیاء کو بھی آزمائش میں ڈالتا ہے اور پھر سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر اس سے کم اور اس سے کم کی ۔
دیکھیں کتاب اللولو المکین تالیف : الشیخ عبدالرحمن بن جبرین صفحہ نمبر 65
اس میں بھی بخاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طرح سے دفاع کیا ہے کہ جادو کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ کی رسالت اور عبادات پہ کچھ اثر نہیں پڑا نہ ہی عبادات پہ صرف ازدواجی زندگی پہ کچھ اثر پڑا اور وہ بھی خود بخاری کے مطابق اللہ تعالی نے ختم کردیا۔یہ ہے مکمل تفصیل جس کو چھپا کر منکرین حدیث بخاری پہ اعتراض کر رہے ہیں۔
3:ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ( بعض مرتبہ ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ ( کیوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلا ف تھا ) ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( میں کیا کروں ) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی ( اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں ) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔
حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ لینا اور بعد میں غسل کرنا جائز ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ فجر ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ساتھ صحبت کی وجہ سے جنبی ہوتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے ہیں اور آپ روزے سے ہوتے تھے۔
[بخاری: ۱۹۲۵، ۱۹۲۶۔ مسلم: ۱۱۰۹، ۱۱۱۰]
اس سے امت کو آسانی دی گئی کہ جنبی ر حالت میں روزہ رکھ کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی بات نہیں اعتراض والی۔
اس زمانے میں اج کی طرح موٹریں،بجلی اور پانی کو نظام نہیں ہوتا تھا۔لوگ دور دور سے پانی لاتے تھے۔اس لئے اجازت دی گئی کہ سہولت کے ساتھ صبح کو غسل کیا جا سکتا ہے اگر رات کو جنبی ہوں۔
4:ہم سے حماد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن حارث مصری نے عبد ربہ بن سعید سے بیان کیا، انہوں نے مخرمہ بن سلیمان سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ کے یہاں سو گیا۔ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔ پھر تیرہ رکعت ( وتر سمیت ) نماز پڑھی اور سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر مؤذن آیا تو آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے اس کے بعد ( فجر کی ) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے بیان کیا میں نے یہ حدیث بکیر بن عبداللہ کے سامنے بیان کی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھ سے کریب نے بھی بیان کی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو سونے سے نہیں ٹوٹتا تھا۔لہذا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سونے کے بعد نماز پڑھی تو اس میں کوئی اعتراض والی بات نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو ٹوٹا ہی نہیں تھا۔لہذا یہ کہنا کہ بخاری کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے وضو نماز پڑھی تو یہ اعتراض بخاری پہ الزام ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش یے
5:بخاری کی ایک صحیح روایت میں ضمنا منقول خود کشی والی خصوصی بات متصل سند کے ساتھ نہیں ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے بخاری وغیرہ میں موجود اس خودکشی والی بات کوضعیف قراردیاہے۔
وحی نہ آنے کی وجہ سے رنج کے مارے کئی بار آپ ﷺ خودکشی کرنے پر تیار ہوگئے اگر جبریل علیہ السلام آکر دلاسہ نہ دیتے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو آپ ﷺ خودکشی کرنے پر کئی بار تیار ہوگئے تھے ۔۔۔۔‘‘
صحیح بخاری کی حدیث جس پر اپنا زہر گھول رہا ہے وہ تو ابتدائی وحی تھی اور سورہ یوسف تو کافی سالوں بعد نازل ہوئی جس سے خودکشی کی حرمت ثابت ہوتی ہے ۔اندازہ کیجئیے !مصنف کس قدر جاہل اور بکواسی ہے ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کا ارادہ کیا تب خود کشی کی حرمت نازل ہی نہیں ہوئی تھی
دوسری بات صحیح بخاری کی حدیث میں ’’ارادے ‘‘کا ذکر ہے یعنی اس ارادے کے ساتھ پہاڑ پر نبی کریم ﷺ چڑھ جایا کرتے تھے لیکن جبریل علیہ السلام آکر انھیں دلاسا دیتے تو نبی کریم ﷺ ارادے سے باز آجاتے تھے کیونکہ ابھی نبی کریم ﷺ کو وحی کے ذریعے اس ارادے سے نہیںروکاگیاتھا ۔اس کی مثال میں قرآن سے پیش کرتا ہوں کہ :نبی کریم ﷺنے اپنے لئے شہد حرام قراردیا تھا قرآن کریم سورہ تحریم میں فرماتا ہے کہ :
یٰٓا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (التحریم 1/66)
’’اے نبی ! جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں کرتے ہیں ۔‘‘
بتایئے آپ کیا کہیں گے اس آیت مبارکہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ایک چیز کو اپنے لئے حرام کردیا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیاتھا۔یقینا ہم یہی کہیں گے کہ اس آیت مبارکہ سے پہلے نبی کریم ﷺکو روکا نہیں گیا تھا بالکل اسی طرح اس وقت نبی کریم ﷺ کو اس فعل(ارادے) سے وحی کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا
اس بات کو ایک دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔
مریم علیہا السلام کو جب حمل ٹہرا تو قرآن کریم فرماتا ہے ۔
قَالَتْ یَا لَیْْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیاً مَّنْسِیّاً (مریم 23/19)
’’کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا ۔‘‘
غور طلب بات ہے کہ مریم علیہا السلام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے مرنے کی آرزو کی کیا مصنف اس آیت کو بھی اسلام دشمنی قرار دے گا ۔اگر نہیں تو پھر صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف اتنا بغض کیوں ؟؟مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے اپنی کتاب کے صفحہ 13پر حدیث نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے موت کی تمنا رکھنے والے کو پسند نہ کیا اور موت کی تمنا کرنے سے منع فرمادیا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے :
’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن ‘‘ (الشعراء 3/26)
’’(اے نبی ﷺ)ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے ۔‘‘
اس آیت کے بارے میں منکرین حدیث کا کیا جواب ہے؟کیا اس آیت کے بارے میں بھی منکر حدیث وہی روّیہ رکھے گا جو حدیث کے بارے میں ہے نہیں تو پھر حدیث پر اعتراض کیوں ؟منکرین حدیث کا اعتراض بے ادبی، لغویات اور بکواس پر مبنی ہے جو ایک ادنی سے ادنی طالب علم پر بھی عیاں ہے
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
1:ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نبوت سے پہلے) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھے پر رکھ لیتے (تاکہ تم پر آسانی ہو جائے) جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )
اب اس حدیث کی وضاحت پڑھیں
تشریح : اللہ پاک نے آپ کو بچپن ہی سے بے شرمی اور جملہ برائیوں سے بچایاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اقدس میں کنواری عورتوں سے بھی زیادہ شرم تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سنا اور نقل کیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ اترا اور اس نے فوراً آپ کا تہبند باندھ دیا۔ ( ارشادالساری )
صرف اعتراض کرنا ہے منکرین حدیث کو۔ شرم کرنی چاہیے ان کو۔اس حدیث کو تو پیش کیا لیکن اس حدیث کی وہ وضاحت اور تشریح چھپا لی جو بخاری نے اس کی کی ہے۔منکرین حدیث نے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے اور انہیں بخاری کے بارے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
2:ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے پہر کی دونمازوں ( ظہر یا عصر ) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میراغالب گمان یہ ہے کہ وہ عصرہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو ( جلد باز قسم کے ) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نمازکی رکعتیں کم ہو گئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذو الیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو پھر تکبیر کہی اور پھرتکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
اس کی تشریح یہ لکھی ہے علماء نے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھولتے تو امت کو نماز میں بھولنے کے بعد سجدہ سہو کی تلقین اور تربیت کیسے کی جاتی۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں۔بھول سکتے ہیں لیکن ان کی بھول ایسی نہیں ہوتی کہ اس سے شریعت کا نقصان ہو کیونکہ ان کی اس بھول پہ فوری اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی کی جاتی ہے۔یہی اس حدیث کا موضوع تھا۔اس میں کوئی اعتراض والی بات نہیں۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شاء اللہ نہیں کہا تو اللہ تعالی کی طرف سے وحی آئی کہ کوئی بات بھی ان شاء اللہ کے بغیر نہیں کرنی۔اب بخاری نے بھی یہی بات کی اور قرآن نے بھی یہی کہ بھول پہ رہنمائی کی گئی۔غلطی نہیں ہونے دی گئ۔اعتراض کی کیا بات ہے اس میں۔اگر اس وجہ سے بخاری پہ اعتراض ہے تو کیا پھر منکرین حدیث قرآن پہ بھی اعتراض کریں گے نعوذ بااللہ
چند روایات پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی مکمل تشریح جو خود بخاری نے لکھی ہے پیش نہیں کرتے۔یہ جھوٹ اور دھوکا بازی ہے عوام کے ساتھ۔
3:صحیح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو نے نہ تو بدنی طور پر اور نہ ہی عقلی اور ادراک کے طور پر اور نہ ہی ان کے دین اور عبادت میں کوئی نقصان پہنچایا اور نہ اس رسالت میں جس کی تبلیغ کا آپ کو مکلف بنایا گیا اور اسی بنا پر ان کی سیرت اور نماز اور اذکار اور تعلیم وغیرہ کے معاملات میں لوگوں میں کوئی بھی ناواقف نہیں ہے تو اس بنا پر اس جادو کا اثر صرف ازدواج مطہرات سےجماع پر تھا یا ان میں بعض کے ساتھ - تو اسی لۓ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا انہوں نے یہ ذکر کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال ہوتا تھا کہ وہ عورتوں کے پاس گۓ ہیں حالانکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوتا تھا تو یہ رسالت میں اثر انداز نہیں ہوتا اور یہ اللہ تعالی کی تقدیر وفیصلے میں سے ہے اور اس میں یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالی بعض اوقات صالحین مثلا انبیاء کو بھی آزمائش میں ڈالتا ہے اور پھر سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر اس سے کم اور اس سے کم کی ۔
دیکھیں کتاب اللولو المکین تالیف : الشیخ عبدالرحمن بن جبرین صفحہ نمبر 65
اس میں بھی بخاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طرح سے دفاع کیا ہے کہ جادو کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ کی رسالت اور عبادات پہ کچھ اثر نہیں پڑا نہ ہی عبادات پہ صرف ازدواجی زندگی پہ کچھ اثر پڑا اور وہ بھی خود بخاری کے مطابق اللہ تعالی نے ختم کردیا۔یہ ہے مکمل تفصیل جس کو چھپا کر منکرین حدیث بخاری پہ اعتراض کر رہے ہیں۔
3:ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ( بعض مرتبہ ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ ( کیوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلا ف تھا ) ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( میں کیا کروں ) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی ( اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں ) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔
حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ لینا اور بعد میں غسل کرنا جائز ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ فجر ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ساتھ صحبت کی وجہ سے جنبی ہوتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے ہیں اور آپ روزے سے ہوتے تھے۔
[بخاری: ۱۹۲۵، ۱۹۲۶۔ مسلم: ۱۱۰۹، ۱۱۱۰]
اس سے امت کو آسانی دی گئی کہ جنبی ر حالت میں روزہ رکھ کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی بات نہیں اعتراض والی۔
اس زمانے میں اج کی طرح موٹریں،بجلی اور پانی کو نظام نہیں ہوتا تھا۔لوگ دور دور سے پانی لاتے تھے۔اس لئے اجازت دی گئی کہ سہولت کے ساتھ صبح کو غسل کیا جا سکتا ہے اگر رات کو جنبی ہوں۔
4:ہم سے حماد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن حارث مصری نے عبد ربہ بن سعید سے بیان کیا، انہوں نے مخرمہ بن سلیمان سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ کے یہاں سو گیا۔ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔ پھر تیرہ رکعت ( وتر سمیت ) نماز پڑھی اور سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر مؤذن آیا تو آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے اس کے بعد ( فجر کی ) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے بیان کیا میں نے یہ حدیث بکیر بن عبداللہ کے سامنے بیان کی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھ سے کریب نے بھی بیان کی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو سونے سے نہیں ٹوٹتا تھا۔لہذا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سونے کے بعد نماز پڑھی تو اس میں کوئی اعتراض والی بات نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو ٹوٹا ہی نہیں تھا۔لہذا یہ کہنا کہ بخاری کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے وضو نماز پڑھی تو یہ اعتراض بخاری پہ الزام ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش یے
5:بخاری کی ایک صحیح روایت میں ضمنا منقول خود کشی والی خصوصی بات متصل سند کے ساتھ نہیں ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے بخاری وغیرہ میں موجود اس خودکشی والی بات کوضعیف قراردیاہے۔
وحی نہ آنے کی وجہ سے رنج کے مارے کئی بار آپ ﷺ خودکشی کرنے پر تیار ہوگئے اگر جبریل علیہ السلام آکر دلاسہ نہ دیتے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو آپ ﷺ خودکشی کرنے پر کئی بار تیار ہوگئے تھے ۔۔۔۔‘‘
صحیح بخاری کی حدیث جس پر اپنا زہر گھول رہا ہے وہ تو ابتدائی وحی تھی اور سورہ یوسف تو کافی سالوں بعد نازل ہوئی جس سے خودکشی کی حرمت ثابت ہوتی ہے ۔اندازہ کیجئیے !مصنف کس قدر جاہل اور بکواسی ہے ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کا ارادہ کیا تب خود کشی کی حرمت نازل ہی نہیں ہوئی تھی
دوسری بات صحیح بخاری کی حدیث میں ’’ارادے ‘‘کا ذکر ہے یعنی اس ارادے کے ساتھ پہاڑ پر نبی کریم ﷺ چڑھ جایا کرتے تھے لیکن جبریل علیہ السلام آکر انھیں دلاسا دیتے تو نبی کریم ﷺ ارادے سے باز آجاتے تھے کیونکہ ابھی نبی کریم ﷺ کو وحی کے ذریعے اس ارادے سے نہیںروکاگیاتھا ۔اس کی مثال میں قرآن سے پیش کرتا ہوں کہ :نبی کریم ﷺنے اپنے لئے شہد حرام قراردیا تھا قرآن کریم سورہ تحریم میں فرماتا ہے کہ :
یٰٓا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (التحریم 1/66)
’’اے نبی ! جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں کرتے ہیں ۔‘‘
بتایئے آپ کیا کہیں گے اس آیت مبارکہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ایک چیز کو اپنے لئے حرام کردیا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیاتھا۔یقینا ہم یہی کہیں گے کہ اس آیت مبارکہ سے پہلے نبی کریم ﷺکو روکا نہیں گیا تھا بالکل اسی طرح اس وقت نبی کریم ﷺ کو اس فعل(ارادے) سے وحی کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا
اس بات کو ایک دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔
مریم علیہا السلام کو جب حمل ٹہرا تو قرآن کریم فرماتا ہے ۔
قَالَتْ یَا لَیْْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیاً مَّنْسِیّاً (مریم 23/19)
’’کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا ۔‘‘
غور طلب بات ہے کہ مریم علیہا السلام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے مرنے کی آرزو کی کیا مصنف اس آیت کو بھی اسلام دشمنی قرار دے گا ۔اگر نہیں تو پھر صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف اتنا بغض کیوں ؟؟مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے اپنی کتاب کے صفحہ 13پر حدیث نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے موت کی تمنا رکھنے والے کو پسند نہ کیا اور موت کی تمنا کرنے سے منع فرمادیا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے :
’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن ‘‘ (الشعراء 3/26)
’’(اے نبی ﷺ)ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے ۔‘‘
اس آیت کے بارے میں منکرین حدیث کا کیا جواب ہے؟کیا اس آیت کے بارے میں بھی منکر حدیث وہی روّیہ رکھے گا جو حدیث کے بارے میں ہے نہیں تو پھر حدیث پر اعتراض کیوں ؟منکرین حدیث کا اعتراض بے ادبی، لغویات اور بکواس پر مبنی ہے جو ایک ادنی سے ادنی طالب علم پر بھی عیاں ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔