Saturday 18 November 2017

قرآن اور جدید سائنس چھٹی قسط

قرآن اور جدید سائنس چھٹی قسط
جمع و ترتیب ۔ ۔ ۔ ۔ اسرار احمد صدیقی
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔

جنینیات (Embryology)
ریڑھ کی ہڈی اور پسلیو ں کے درمیان سے خارج ہونے والا قطرہ
فَلْیَنْظُرِ الْاِ نْسَا نُ مِمَّ خُلِقَ ط ہ خُلِقَ مِنْ مَّآ ئٍٍ دَ افِقٍٍِِ ہ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَ آ ئِبِ ط ہ
ترجمہ:۔پھرانسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیاگیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔
جُنینی مراحل (embryonic stages) میں مردانہ وزنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے (testicle) اور بیضہ دان(Ovary) گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نموپذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعدازاں وہ کچھ نیچھے اُترآتے ہیں ، زنا تولیدی غدود (gonads) یعنی بیضہ دانیاں پیڑو( pelvis) میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولید(inguinal canal) کے راستے خصیہ دانی (scrotum) تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ (Abdominal aorta) کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ لمفی نکاس (Lymphatic drainage) اور خون کا وریدی بہائو بھی اس سمت ہوتاہے۔
نطفہ: مائع کی معمولی سی مقدار
قرآن کریم میں کم ازکم گیارہ مرتبہ کہا گیاہے کہ انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا گیا ہے جس کا مطلب مائع کی نہایت معمولی مقدار یا پیالہ خالی ہوجانے کے بعداس میں لگارہ جانے والا مائع ہے۔ یہ بات قرآن عالی شان کی کئی آیات مبارکہ میں وارد ہوئی ہے جن میں سورة٢٢آیت٥) سورة ٢٣آیت١٣کے علاوہ سورة ١٦آیت ٤ ،سورة ١٨آیت ٣٧، سورة٣٥آیت ١١، سورة ٣٦آیت ٧٧ ، سورة ٤٠آیات ٦٧، سورة٣ ٥آیت٤٦، سورة ٧٦ آیت ٢، سورة ٨٠ آیت ١٩شامل ہیں۔
سائنس نے حال ہی میںیہ دریافت کیا ہے کہ بیضے ( Ovum)کوبار آور کرنے کے لئے او سطاً تیس لاکھ خلیات نطفہ( sperms) میں سے صرف ایک کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ خارج ہونے والے نطفے کی مقدار تیس لاکھواں حصّہ یا0.00003 فیصد مقدار ہی بار آوری ( حمل ٹھہرانے ) کے لئے کافی ہوتی ہے
سُلٰلَة مائع کا جوہر
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآ ئٍ مَّھِیْنٍ ہ [
ترجمہ:پھر اسکی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح ہے ۔
عربی لفظ' سُللة' سے مراد کسی مائع کا بہترین حصہ خلاصہ یا جوہر ہے ۔ ا ب ہم جان چکے ہیں کہ زنانہ بیضے کی بار آوری (fertilization) کے لئے مرد سے خارج ہونے والے لاکھو ں کروڑوں خلیات نطفہ میں سے صرف ایک کی خلیہ نطفہ کو قرآن پاک نے سللة کہاہے۔ اب ہمیںیہ بھی پتاچل چکا ہے کہ عورت میں پیدا شدہ ہزاروں بیضوں (ovam) میں سے صرف ایک ہی بار آور ہوتاہے۔ ہزاروں میں سے اسی ایک بیضے کے لئے( جو بار آور ہوتا ہے ) قرآن پاک)نے سللة کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ کا ایک اور مفہوم کسی مائع سے ( کسی چیزکا) بڑی احتیاط سے اخراج بھی ہے۔ اس مائع سے مراد زنانہ اور مردانہ دونوں طرح کے تولیدی مائعات بھی ہیں جن میں صنفی تخم (gametes) موجود ہوتے ہیں۔ بارآوری کے مرحلے کے دورا ن نطفہ خلیہ اور بیضہ دونوں ہی اپنے اپنے ماحول سے بہ احتیاط جدا ہوتے ہیں۔
نُطْفَةٍ اَمْشَاج۔۔۔ باہم ملے ہوئے مائعات
اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا ج
ترجمہ:۔ہم نے انسان کو ایک مخلوط(آپس میں ملے ہویے) نطفے سے پیداکیا۔
عربی لفظ نُطْفَہٍ اَمْشاج کامطلب، ملے ہوئے مایٔعات ہے، بعض مفسرین کے نزدیک ملے ہوئے مائعات سے مراد عورت یا مرد کے ( تولیدی) عامل (agent) یامائعات ہیں۔ مردانہ اور زنانہ صنفی تخم (Gametes)کے باہم مل جانے کے بعد بننے والا جفتہ (zygote) بھی ابتداء میں نطفہ ہی رہتا ہے ۔باہم ملے ہوئے ( ہم آمیز) مائعات سے ایک اور مراد وہ مائع بھی ہو سکتاہے جس میں خلیات نطفہ تیر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ مائع کئی طرح کی جسمانی رطوبتوں (fluids)سے مل کربنتاہے جو کئی جسمانی غدود (glands)سے خارج ہوتی ہیں۔
لہٰذہ نطفةٍ امشاج یعنی آپس میں ملے ہوئے مائعات کے ذریعے مردانہ وزنانہ صنفی مواد (تولیدی مائع یا خلیات) اور اسکے اردگرد مائعات کے کچھ حصّے کی جانب اشارہ کیاجارہا ہے۔
جنس کاتعین
پختہ جنین( foetus) کی جنس کا تعین ( یعنی اس سے لڑکاپیداہوگا یالڑکی) نُطفہ کے خلیے ( sperm) سے ہوتاہے نہ کہ بیضے (ovum) سے۔ مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرے والے حمل سے لڑکاپیداہوگایالڑکی اسکاانحصارکروموسوم کے ٢٣ ویں جوڑے میں بالترتیب xx / xy کروموسومز کی موجودگی پرہوتاہے۔ ابتدائی طورپر جنس کا تعین بارآوری کے موقع پر ہی ہو جاتاہے اور اسکا انحصار خلوی نطفے (sperm) کے صنفی کروموسومchromosomes) sex) پرہوتاہے ۔ جو بیضے کو بار آورکرتاہے ۔ اگربیضے کو بارآورکرنے والے سپرم (sperm) میںxصنفی کروموسوم ہے توٹھہرے والے حمل سے لڑکی پیداہوگی۔ اسکے برعکس ، اگراسپرم (sperm) میںصنفی کروموسوم yہے توحمل کے نتیجے میں لڑکا پیداہوگا۔
وَ اَنَّہ خَلَقَ الذَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَ الْاُ نْثٰی ہ مِنْ نُّطْفَةٍ اِ زَ اتُمْنٰی ہ
ترجمہ:۔ اوریہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیداکیا ، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔
یہاں عربی لفظ نطفہ کا مطلب تومائع کی نہایت قلیل مقدار ہے جبکہ تمُنٰی کامطلب شدت سے ہونے والا اخراج یا پودے کی طرح بوئی گئی کوئی چیز ہے لہذہ نطفہ بطور خاص اسپرم (sperm) ہی کی طرف اشارہ کررہاہے کیونکہ یہ شدت سے خارج ہوتاہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے۔
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّ کَرَ وَالْاُنْثٰی ط ہ
ترجمہ:۔ کیاوہ ایک حقیرپانی کانطفہ نہ تھا جو(رحم مادرمیں) ٹپکایا جاتاہے ؟ پھروہ ایک لوتھڑابنا پھراللہ تعالی نے اسکا جسم بنایااوراسکے اعضاء درست کیے، پھراس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنایٔیں۔
ملأ خطہ فرمایے کہ یہاں ایک بارپھر یہ بتایا گیاہے کہ نہایت قلیل مقدار ( قطرے) پر مشتمل مادہ تولید( جس کے لئے عربی عبادت نُطْفَةًمّن مَّنِیٍّ واردہوئی ہے ) جوکہ مرد کی طرف سے آتاہے۔اوریہ رحم مادر میں بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار ہے۔
برصغیرمیں یہ افسوس ناک رواج ہے کہ عام طور پر ساسوں کی پوتیوں سے زیادہ پوتوں کاارمان ہوتاہے۔ اور اگربہو کے ہاں بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پیداہو رہی ہوں تووہ انہیں اولادِ نرینہ پیدانہ کرسکنے پر طعنہ دیتی ہیں ۔ اگرانہیں صرف یہی پتہ چل جاتاکہ اولادکی جنس کے تعین میں عورت کے بیضے کا کوئی کردار نہیں اور اسکی تمام ترذمہ داری مردانہ نطفے (sperm) پر عائد ہوتی ہے اور اگر پھربھی وہ لعن طعن پر آمادہ ہو تو اُنہیں چاہیے کہ وہ (اولادِنرینہ کے نہ ہونے پر) اپنی بہوؤں کی بجائے اپنے بیٹوں کو طعنہ دیں۔ قرآن پاک اور جدید سائنس دونوں اس بات پر متفق ہے کہ بچے کی جنس کا تعین میں مردانہ تولیدی مواد ہی ذمہ دارہے، عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
تین تاریک پردوں کی حفاظت میں رکھاگیا جنین (foetus)
یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْ نِ اُ مَّھٰتِکُمْ خَلْقًا مِنْ م بَعْدِ خَلْقٍٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ط
ترجمہ:۔ اسی نے تم کو ایک جان سے پیداکیا پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اسکا جوڑا بنایااور اسی نے تمھارے لئے مویشیوں میں سے آٹھ نروما دہ پیدا کیے ۔ اور وہ تمھاری ماؤں کے پیٹوں میںتین تین باریک پردوں کے اندرتمھیں ایک کے بعد ایک شکل دیتاچلاجاتاہے۔ یہی اللہ ( جس کے یہ کام ہیں) تمھارارب ہے۔ بادشاہ ہی اسی کی ہے۔ کوئی معبود اسکے سوانہیں ہے۔ پھرتم کدھرسے جارہے ہو۔
پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور(Keith L. Moore) کے مطابق قرآن پاک میں تاریکی کے جن تین پردوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
١۔ شکم مادر کی اگلی دیوار
٢۔ رحمِ مادر کی دیوار
٣۔ غلافِ جنین اور اس کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (amino-chorionic membrane)
جنینی مراحل (Embryological stages)
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍٍ ہ ثُمَّجَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَ ارٍٍ مَّکِیْنٍٍ ہ ثُمَّ خَلَقْنَا ا لںُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَْْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْ نَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْ نٰہُ خَلْقًا اٰ خَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ہ ط
ترجمہ:۔ اوریقینا ہم نے انسا ن کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے نطفہ بناکر ایک محفوظ جگہ (رحم مادر)میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو خون کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر لوکو گوشت کی بو ٹی بنا یا پھرہم نے لوتھڑے کو ہڈیاں بنادیا۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا پھر ہم نے اسے ایک نیٔی صورت دے دی ۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیداکرنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان مائع کی حقیر مقدار سے تخلیق کیاگیا جسے امن کی جگہ پر رکھاجاتاہے۔ مضبوطی سے جمایا ہوا( خوب مستحکم یا ٹھہرایا گیا) جس کے لیے عربی لفظ قرار مکین استعمال ہوا ہے۔ رحم مادر پچھلی جانب سے ریڑھ کے مہروں کے ستوں سے اچھی طرح محفوظ کیاگیا ہوتاہے جسے کمر کے پٹھے مضبوطی سے سہارا دیتے ہیں۔ جنین ایمنیا ٹک فلویڈ(amniotic fluid) سے بھرے ایمنیاٹک سیک( amniotic sac) سے مزید محفوظ بنایا گیاہوتاہے۔ چنانچہ جنین( foetus) کی ایک بہترین محفوظ دینے کی جگہ ہوتی ہے۔ سیال(fluid) کی اس قلیل مقدار کو 'علقہ' میں تبدیل کیا جاتاہے یعنی ایسی چیز جوچپک جاتی ہے ۔ اس سے جونک(Leech) جیسی چیز بھی مراد ہے ۔یہ دونوں تعریفیں سائنسی طورپرقابل قبول ہیں کیونکہ بالکل ابتدائی مراحل میں جنین ( رحم مادر کی) دیوار سے چپک جاتاہے اور شکل کے لحاظ سے جونک سے بھی مشابہ ہوتاہے ۔ یہ جونک ہی کی طرح رویہ رکھتا ہے ( خون چوسنے والا) اور اپنی خونی رسد ناف کے ذریعے ماں سے حاصل کرتاہے۔
'علقہ' کا تیسرا مطلب ہے جماہواخون۔ اس علقہ کے مرحلے کے دوران جو حمل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے پر محیط ہوتاہے خون بندنالیوں میں جم جاتا ہے چنانچہ جنین جونک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آسانی سے دسیتاب ہونے والے اس قرآنی علم کا سائنسی دریافتوں کے لئے انسانی محنت کے ساتھ موازنہ کرلیجئے۔
١٦٧٧ء میں ہیم اور لیون ہک (hamm& leewenhoek) وہ پہلے سائنس دان تھے جنھوںنے ایک خوردبین کے ذریعے اسانی تولیدی خلیوں کا مشاہدہ کیا۔ انکا خیال تھا کہ سپرم کے اندر انسان کا ایک مختصر نمونہ ہوتاہے۔ جو ایک نوزائیدہ بچے کی شکل پانے کے لئے رحم کے اندر نشوونما پاتا ہے ۔ یہ پر فوریشن تھیوری (perforation theory) کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ جب سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ بیضہ (ovum) یعنی مادہ تولیدی مادہ) سپرم (sperm) سے جسامت میں بڑا ہوتاہے توڈی گراف (De Graf)اور دوسرے سائیسندانوں نے سوچاکہ جنین(foetus) ایک چھوٹے نمونے کی شکل میں بیضہ کے اندر موجود ہوتاہے ۔بعد ازاں اٹھارویں صدی میں ماپر چو یئس (Maupertuis) نے مادرپدر دو طرفہ وراثت کا نظریہ پیش کیا۔
'علقہ' ' مُضغہ' میں تبدیل ہوتاہے۔ جس کا مطلب ہے ایسی چیز جوچبائی گئی ہو( جس پر دانتوں کے نشان ہو) اورایسی چیز بھی جو نرم چپکے والی ہو اور گم(gum)کی طرح منہ میں رکھی جا سکے۔ یہ دونوں وضاحتیں سائینسی طورپردرست ہے پروفیسر کیتھ مور( keith moore) نے پلاسٹرٔسیل(plaster seal) کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جنین کے ابتدائی مرحلے کی جسامت اور شکل دی اور اسے مضغہ بنانے کے لئے دانتوں کے درمیان چبایا۔ انہوں نے اسکا تقابل جنین کے ابتدائی مرحلے کی تصاویر سے کیا ۔دانتوں کے نشان سومائٹس(so-mites) سے مشابہ تھے جو ریڑھ کی ہڈی کی ابتدائی بناوٹ ہے۔ یہ مضغہ ہڈیوں ( عظام) میں تبدیل ہوتاہے ہڈیاں سالم گوشت یا پٹھوں ( لحم) سے لپٹی ہوتی ہیں۔پھر اللہ تعالی اس کو ایک دوسری تخلیق میں ڈال دیتاہے۔ پروفیسر مارشل جانسن(Marshal Johnson) جو امریکہ کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فایلاڈلفیا امریکہ کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embryology) سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ ابتداء میں انہوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ محمد ۖکے پاس کوئی طاقت ورخوردبین ہو ۔یہ یاد دلانے پرکہ کہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور خوردبینیں پیغمبر محمدۖ کے زمانے سے کئی صدیاں بعدایجاد کی گئیں ۔پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسیلم کیا کہ ایجاد ہونے والی اولین خوردبین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ(image) دکھانے کے قابل نہیں تھی اور ا سکی مدد سے واضح ( خردبینی) منظر بھی دیکھانہیں جاسکتا تھا ۔ بعدازاں انہوں نے کہا: سردست مجھے اس تصوّرمیں کوئی تنازعہ د کھائی نہیں دیتا کہ جب محمدۖ نے قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقینا کوئی آسمانی ( الہامی ) قوت بھی ساتھ میں کارفرماتھی ۔
ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشوونما کے مراحل کی وہ درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد( نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتاہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر2،وغیرہ۔ دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں، اسکی بنیادجداگانہ اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوںیاساختوں پر ہیں۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین مرحلہ وار انداز میں گزرتاہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں ( ساختیں) بھی قبل ازولادت نشوونما کے مختلف مراحل کی علمبردارہیں اور ایسی سائنسی توضیحات( وضاحتیں) فراہم کرتی ہیں۔جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتی ہیں ۔رحم مادرمیں انسانی جنین کی نشوونما کے مختلف مراحل درج ذیل آیات مبارکہ میں بھی بیان فرمایئے گئے ہیں:
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُ نْثٰی ط ہ
ترجمہ: کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو ( رحم مادر مین )ٹپکایا جاتاہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھراللہ نے اسکا جسم بنایا اور اسکے اعضا ء درست کیے ۔پھر اس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔
الَّذِ یْ خَلَقَکَ فَسَوّٰ کَ فَعَدَ لَکَ ہ فِیْ اَیِّ صُوْ رَ ةٍ مَّا شَآ ئَ رَ کَّبَکَ ط
ترجمہ۔ جس نے تجھے پیدا کیا، پھرتجھے درست کیا ، تجھے تناسب سے بنایا اور جس صورت میں چاہاتجھ کوجوڑ کرتیار کیا۔
نیم مکمل اورنیم نامکمل جنین(Embryo)
اگر' مضغہ' کے مرحلے پر جنینن کو درمیان سے کاٹاجائے اور اسکی اندرونی حصّوں کا مطالعہ کیاجائے توہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ ( مضغہ کے اندرونی اعضاء میں سے) بیشتر پوری طرح بن چکے ہیں جبکہ بقیہ اعضاء اپنی تکمیل کے مرحلے سے گزررہے ہیں۔ پروفیسر مارشل جونسن (Prof. Marshal Johnson)کاکہنا ہے کہ اگر ہم پورے جنین کو ایک مکمل بنے ہو یے وجود کے طورپر بیان کریں تو ہم صرف اسی حصّے کی بات کررہے ہوں گے جو پہلے سے مکمل ہو چکا ہے اور اگر ہم اسے نامکمل وجود کہیں تو پھرجنین کے ان حصّوں کا حوالہ دے رہے ہو گے جو ابھی پوری طرح سے مکمل نہیں ہوئے بلکہ تکمیل کے مراحل طے کررہے ہیں۔ اب سوال یہ اُٹھتاہے کہ اس موقعے پر جنین کو کیا کہنا چاہیے : مکمل وجود یا نامکمل وجود؟ جنینی نشوونما کے اس مرحلے کی جو وضاحت قرآن پاک نے ہمیں دی ہے اس سے بہتر کوئی اور ممکن نہیں۔ قرآن پاک اس مرحلے کو نیم مکمل اورنیم نامکمل قراردیتاہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ ملا خطہ فرمائیے۔
خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَ ابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط
ترجمہ: ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیاہے۔ پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو مکمل (بھی) ہوتی ہے اور نا مکمل بھی۔
سننے اور دیکھنے کی حِسّیات(Senses)
رحم مادرمیں نشوونما پانے والے انسانی وجود میں سب سے پہلے جو حس جنم لیتی ہے وہ سننے کی حسِ (حسِ سامعہ) ہوتی ہے ۔ ٢٤ ہفتوں بعد کاپختہ جنین ( foetus) آواز یں سننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر حمل کے ٢٧ ویں ہفتے تک دیکھنے کی حسِ( بصارت) بھی وجود میں آجاتی ہے اور پردہ چشم ( Retina) روشنی کے لئے حساس ہو جاتاہے ان مراحل کو قرآن پاک یوں بیان فرماتاہے؛۔
وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَ الْاَفِْدَ ةَ ط
ترجمہ:۔ اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور سمجھنے کی صلاحیت دی۔
اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا جٍٍٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا م بَصِیْرً ا ہ
ترجمہ۔: ہم نے انسان کوایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اسکا امتحان لیں اور اس فرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔
وَ ھُوَ الَّذِ یْ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَا لْاَ فْدَئِ ةَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ہ
ترجمہ:۔ وہ اللہ ہی ہے جس ے تمہیںدیکنھے اورسننے کی قوتیں دیں اور سوچنے اور سمجھنے کی صلا حیت دی ہے۔(لیکن) تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔
ملا خطہ فرمائے کہ تمام آیات مبارکہ میں حِس سماعت کاتذکرہ حسِ بصارت سے پہلے آیا ہے ، اس سے ثابت ہواکہ قرآن پاک کی فراہم کردہ توضیحات کے جدید جننیات میں ہونے والی دریافتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔