کشش ثقل کی طلسماتی لہریں
(دوسرا/آخری حصہ)
زمان و مکاں کی چادر ہرسو کائنات میں پھیلی ہوئی ہے جو کہ کشش ثقل کی لہروں کی اصل وجہ ہیں ، سائنسدانوں کو ایک لمبے عرصے تک اسی قسم کے چیلنج سامنا رہا ہے کہ ان لہروں کو دریافت کیسے کیا جائے؟آج سے 47 سال پہلے سائنسدانوں نے 2 نیوٹران ستاروں کے ماس کا حساب لگایا جو ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے اور ٹکرانے لگے تھے تو معلوم ہوا کہ ان کے ماس میں کمی زیادہ ہورہی ہے جبکہ ان کے اندر سے نکلنے والی توانائی اس کے مقابلے میں کم ہے جس کا مطلب تھا کہ بقیہ ماس یہ ستارے کسی "ان دیکھی توانائی "کی صورت میں ضائع کررہے ہیں ، جب آئن سٹائن کا نظریہ اضافت استعمال کر کے حساب کتاب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ ستارے اپنا بقیہ ماس دراصل کشش ثقل کی لہریں بنانے میں سرف کررہے ہیں، یہ پہلا واقعہ تھا جب سائنسدانوں کو کشش ثقل کی کوئی نشانی ملی ۔ آگے کئی عشروں تک یہ لہریں سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ بنی رہیں، پھر 1998 ء میں اِن لہروں کی تلاش کے لئے لائیگو ڈیٹیکٹر کی تعمیر کی گئی ، اس لیبارٹری میں 2 پائپ L Shape میں تعمیر کیے گئے، دونوں پائپس میں لیزر شعاعیں چھوڑی جاتی تھیں جو کہ سامنے لگے شیشے سے ٹکرا کر واپس اس مقام پر ملتی تھیں جہاں دونوں پائپس ملتے، اس مقام پر دونوں پائپس کی لیزر شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی تھیں، مقصد یہ تھا کہ اگر کشش ثقل کی لہروں کے باعث زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں پڑیں گیں تو پائپ کی لمبائی زیادہ ہوجانے اور شیشے کے پھیلاؤ کے باعث یہ شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے پیچھے لگے detectors پر پڑجائیں گیں اور معلوم ہوجائے گا کہ کوئی کششِ ثقل کی لہر "کھیلتے کودتے"یہاں سے گزری ہے، اس مقصد کے لئے اِن شیشوں کو انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھا گیا تا کہ یہ شیشے کسی اور وجہ سے اپنی جگہ سے تھوڑے سے بھی ہِل نہ سکیں، بالکل اسی طرح کی ایک اور لیبارٹری اس سے 2 ہزار کلومیٹر دور تعمیر کی گئی تا کہ اگر کوئی کشش ثقل کی لہر گزرے تو دونوں لیبارٹریوں سے ملنے والے اعداد و شمار کا موازنہ کرکے ان کے مصدقہ ہونے کا اندازہ لگایا جاسکے(یہ دونوں لیبارٹریز امریکا میں واقع ہیں)، 2002ء میں ان لیبارٹریز نے اپنا کام شروع کردیا مگر 2012ء تک انتھک محنت کے باوجود کچھ حاصل نہ ہوپایا، جس کی وجہ سے 2012ء کے بعد ان کو upgrade کرنے کے لئے بند کردیا گیا یہ پراجیکٹ سوچ سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہوا 18 ممالک اس پراجیکٹ کا حصہ بنے ، ستمبر 2015ء میں ان کو اپ گریڈ کرکے اس کا افتتاح کیا گیا ، اپ گریڈ ہونے کے فوراً بعد 14 ستمبر 2015ء کی رات کو دونوں لیبارٹریز نے ایک سیکنڈ سے بھی انتہائی کم وقت میں کشش ثقل کی لہروں کو پہلی بار دریافت کرلیا!۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ہمارے سورج سے 29 اور 36 گنا بڑے دو بلیک ہولز کی ٹکر ہوئی جس کے بعد جو نیا بلیک ہول وجود میں آیا وہ ہمارے سورج سے 62 گنا بڑا تھا، یعنی سورج سے 3 گنا زیادہ ماس ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اس تباہ کن ٹکراؤ کی وجہ سے کشش ثقل کی لہروں میں تبدیل ہوکر کائنات میں پھیل گیا!۔ اس کا باقاعدہ اعلان 11 فروری 2016ء کو کیا گیا ، اس اعلان کے ساتھ ہی سائنس کی دنیا میں ہنگامہ برپا ہوگیا، سائنس کے چاہنے والے ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغامات دینے پہنچ گئے ، آئن سٹائن کی سو سال پہلے کی گئی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔اس کو سائنس کی دنیا میں انتہائی بڑی دریافتوں میں سے ایک دریافت قرار دیا گیا۔ لائیگو کے Executive Director ڈیوڈ رِٹز نے اس موقع پر کیا خوب کہا کہ"پہلی بار کائنات ہم سے ہم کلام ہوئی ہے"۔بعد ازاں دسمبر 2015ء میں دوبارہ کشش ثقل کی لہریں دریافت کی گئیں، اب کی بار ڈیڑھ ارب نوری سال دور سورج سے 14 اور 8 گنا بڑے بلیک ہولز کی ٹکر سے 21 گنا بڑابلیک ہول وجود میں آیا۔ اس ٹکر میں ایک سورج جتنا مادہ ایک سیکنڈ سے بھی کم مدت میں کشش ثقل کی لہر بن کر کائنات میں پھیل گیا۔ یہ واقعہ ڈیڑھ ارب سال پہلے وقوع پذیر ہوا اور اس کی لہریں اب ہم تک پہنچیں۔بعد ازاں جنوری 2017ء اور اگست 2017ء میں دوبارہ لائیگو نے کششِ ثقل کی لہریں دریافت کیں۔ لائیگو کے ساتھ اب وِرگو نامی لیبارٹری نے بھی کام کا آغاز کردیا ہے جوکہ اٹلی میں واقع ہے ۔ آنے والے کچھ سالوں میں چین اور جاپان بھی ایسے ہی منصوبوں کو مکمل کرنے والا ہے ، اس کے علاوہ بھارت نے بھی ایسی لیبارٹری کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے ،یورپ اور امریکا نے ایسی لیبارٹریز خلاء میں بنانے کااعلان بھی کررکھا ہےجن کی مدد سے کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ آج سے چند سال پہلے تک ہم صرف Electro-magnetical wavesسے واقف تھے مگر ہم اب Gravitational waves کے نام سےلہر کی ایک اور قسم سے واقف ہوچکے ہیں۔ ذرا سوچئے آج سے سو سال پہلے جب ہم برقی مقناطیسی لہروں سے واقف ہوئے تو ان کے استعمال سے دنیا کو کتنا بدل کر رکھ دیا۔ ہماری کششِ ثقل کی لہروں سے "سلام دعا" ابھی بالکل نئی ہے، ان پر تحقیق اور استعمال سے آنے والے سو سال کتنے مختلف ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ فی الحال لگانا محال ہے۔ ان لہروں کی دریافت کے ساتھ علم الفلکیات کے ایک نئے دور "ثقلی فلکیات" (Gravitational Astronomy)کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کشش ثقل زمان و مکاں کا حصہ ہے، تو کیا ان لہروں کو قابو کرنے سے زمان و مکاں پر قابو پایا جاسکتا ہے ؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ یہ ثقلی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں تو ان کو استعمال کرتے ہوئے روشنی کی رفتار سے سفر ممکن بنایا جاسکتا ہے ؟ان لہروں کی دریافت کے فوراً بعد بہت سے "معصوم سوالات " ہمارے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہے ہیں جن کے متعلق سائنس فی الحال خاموش ہے ، کشش ثقل کی لہریں بلاشبہ کائناتی سفر میں روشنی کی کرن کی طرح نمودار ہوئی ہیں جس کا پیچھا دور حاضر کے سائنسدان ایک نئی صبح کی امید میں کررہے ہیں لیکن یہ تو فقط شروعات ہیں ابھی منزل کوسوں دُور ہے، اِتنی دُور کہ فی الحال اس کو گرفت میں لاتے ہماری سوچ بھی تھک جائے!
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
اس آرٹیکل کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے
https://m.facebookcorewwwi.onion/story.php…
#گریوٹیشنل_ویوز #کشش_ثقل_کی_لہریں #GravitationalWaves #Gravity #AlbertEinstein
(دوسرا/آخری حصہ)
زمان و مکاں کی چادر ہرسو کائنات میں پھیلی ہوئی ہے جو کہ کشش ثقل کی لہروں کی اصل وجہ ہیں ، سائنسدانوں کو ایک لمبے عرصے تک اسی قسم کے چیلنج سامنا رہا ہے کہ ان لہروں کو دریافت کیسے کیا جائے؟آج سے 47 سال پہلے سائنسدانوں نے 2 نیوٹران ستاروں کے ماس کا حساب لگایا جو ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے اور ٹکرانے لگے تھے تو معلوم ہوا کہ ان کے ماس میں کمی زیادہ ہورہی ہے جبکہ ان کے اندر سے نکلنے والی توانائی اس کے مقابلے میں کم ہے جس کا مطلب تھا کہ بقیہ ماس یہ ستارے کسی "ان دیکھی توانائی "کی صورت میں ضائع کررہے ہیں ، جب آئن سٹائن کا نظریہ اضافت استعمال کر کے حساب کتاب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ ستارے اپنا بقیہ ماس دراصل کشش ثقل کی لہریں بنانے میں سرف کررہے ہیں، یہ پہلا واقعہ تھا جب سائنسدانوں کو کشش ثقل کی کوئی نشانی ملی ۔ آگے کئی عشروں تک یہ لہریں سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ بنی رہیں، پھر 1998 ء میں اِن لہروں کی تلاش کے لئے لائیگو ڈیٹیکٹر کی تعمیر کی گئی ، اس لیبارٹری میں 2 پائپ L Shape میں تعمیر کیے گئے، دونوں پائپس میں لیزر شعاعیں چھوڑی جاتی تھیں جو کہ سامنے لگے شیشے سے ٹکرا کر واپس اس مقام پر ملتی تھیں جہاں دونوں پائپس ملتے، اس مقام پر دونوں پائپس کی لیزر شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی تھیں، مقصد یہ تھا کہ اگر کشش ثقل کی لہروں کے باعث زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں پڑیں گیں تو پائپ کی لمبائی زیادہ ہوجانے اور شیشے کے پھیلاؤ کے باعث یہ شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے پیچھے لگے detectors پر پڑجائیں گیں اور معلوم ہوجائے گا کہ کوئی کششِ ثقل کی لہر "کھیلتے کودتے"یہاں سے گزری ہے، اس مقصد کے لئے اِن شیشوں کو انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھا گیا تا کہ یہ شیشے کسی اور وجہ سے اپنی جگہ سے تھوڑے سے بھی ہِل نہ سکیں، بالکل اسی طرح کی ایک اور لیبارٹری اس سے 2 ہزار کلومیٹر دور تعمیر کی گئی تا کہ اگر کوئی کشش ثقل کی لہر گزرے تو دونوں لیبارٹریوں سے ملنے والے اعداد و شمار کا موازنہ کرکے ان کے مصدقہ ہونے کا اندازہ لگایا جاسکے(یہ دونوں لیبارٹریز امریکا میں واقع ہیں)، 2002ء میں ان لیبارٹریز نے اپنا کام شروع کردیا مگر 2012ء تک انتھک محنت کے باوجود کچھ حاصل نہ ہوپایا، جس کی وجہ سے 2012ء کے بعد ان کو upgrade کرنے کے لئے بند کردیا گیا یہ پراجیکٹ سوچ سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہوا 18 ممالک اس پراجیکٹ کا حصہ بنے ، ستمبر 2015ء میں ان کو اپ گریڈ کرکے اس کا افتتاح کیا گیا ، اپ گریڈ ہونے کے فوراً بعد 14 ستمبر 2015ء کی رات کو دونوں لیبارٹریز نے ایک سیکنڈ سے بھی انتہائی کم وقت میں کشش ثقل کی لہروں کو پہلی بار دریافت کرلیا!۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ہمارے سورج سے 29 اور 36 گنا بڑے دو بلیک ہولز کی ٹکر ہوئی جس کے بعد جو نیا بلیک ہول وجود میں آیا وہ ہمارے سورج سے 62 گنا بڑا تھا، یعنی سورج سے 3 گنا زیادہ ماس ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اس تباہ کن ٹکراؤ کی وجہ سے کشش ثقل کی لہروں میں تبدیل ہوکر کائنات میں پھیل گیا!۔ اس کا باقاعدہ اعلان 11 فروری 2016ء کو کیا گیا ، اس اعلان کے ساتھ ہی سائنس کی دنیا میں ہنگامہ برپا ہوگیا، سائنس کے چاہنے والے ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغامات دینے پہنچ گئے ، آئن سٹائن کی سو سال پہلے کی گئی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔اس کو سائنس کی دنیا میں انتہائی بڑی دریافتوں میں سے ایک دریافت قرار دیا گیا۔ لائیگو کے Executive Director ڈیوڈ رِٹز نے اس موقع پر کیا خوب کہا کہ"پہلی بار کائنات ہم سے ہم کلام ہوئی ہے"۔بعد ازاں دسمبر 2015ء میں دوبارہ کشش ثقل کی لہریں دریافت کی گئیں، اب کی بار ڈیڑھ ارب نوری سال دور سورج سے 14 اور 8 گنا بڑے بلیک ہولز کی ٹکر سے 21 گنا بڑابلیک ہول وجود میں آیا۔ اس ٹکر میں ایک سورج جتنا مادہ ایک سیکنڈ سے بھی کم مدت میں کشش ثقل کی لہر بن کر کائنات میں پھیل گیا۔ یہ واقعہ ڈیڑھ ارب سال پہلے وقوع پذیر ہوا اور اس کی لہریں اب ہم تک پہنچیں۔بعد ازاں جنوری 2017ء اور اگست 2017ء میں دوبارہ لائیگو نے کششِ ثقل کی لہریں دریافت کیں۔ لائیگو کے ساتھ اب وِرگو نامی لیبارٹری نے بھی کام کا آغاز کردیا ہے جوکہ اٹلی میں واقع ہے ۔ آنے والے کچھ سالوں میں چین اور جاپان بھی ایسے ہی منصوبوں کو مکمل کرنے والا ہے ، اس کے علاوہ بھارت نے بھی ایسی لیبارٹری کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے ،یورپ اور امریکا نے ایسی لیبارٹریز خلاء میں بنانے کااعلان بھی کررکھا ہےجن کی مدد سے کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ آج سے چند سال پہلے تک ہم صرف Electro-magnetical wavesسے واقف تھے مگر ہم اب Gravitational waves کے نام سےلہر کی ایک اور قسم سے واقف ہوچکے ہیں۔ ذرا سوچئے آج سے سو سال پہلے جب ہم برقی مقناطیسی لہروں سے واقف ہوئے تو ان کے استعمال سے دنیا کو کتنا بدل کر رکھ دیا۔ ہماری کششِ ثقل کی لہروں سے "سلام دعا" ابھی بالکل نئی ہے، ان پر تحقیق اور استعمال سے آنے والے سو سال کتنے مختلف ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ فی الحال لگانا محال ہے۔ ان لہروں کی دریافت کے ساتھ علم الفلکیات کے ایک نئے دور "ثقلی فلکیات" (Gravitational Astronomy)کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کشش ثقل زمان و مکاں کا حصہ ہے، تو کیا ان لہروں کو قابو کرنے سے زمان و مکاں پر قابو پایا جاسکتا ہے ؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ یہ ثقلی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں تو ان کو استعمال کرتے ہوئے روشنی کی رفتار سے سفر ممکن بنایا جاسکتا ہے ؟ان لہروں کی دریافت کے فوراً بعد بہت سے "معصوم سوالات " ہمارے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہے ہیں جن کے متعلق سائنس فی الحال خاموش ہے ، کشش ثقل کی لہریں بلاشبہ کائناتی سفر میں روشنی کی کرن کی طرح نمودار ہوئی ہیں جس کا پیچھا دور حاضر کے سائنسدان ایک نئی صبح کی امید میں کررہے ہیں لیکن یہ تو فقط شروعات ہیں ابھی منزل کوسوں دُور ہے، اِتنی دُور کہ فی الحال اس کو گرفت میں لاتے ہماری سوچ بھی تھک جائے!
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
اس آرٹیکل کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے
https://m.facebookcorewwwi.onion/story.php…
#گریوٹیشنل_ویوز #کشش_ثقل_کی_لہریں #GravitationalWaves #Gravity #AlbertEinstein
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔