فکری دہشت گردی
۔۔۔۔۔۔۔تحریر :محمد اسمٰعیل بدایونی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیورسٹی سے ماسٹر کررہا تھا،میری زندگی کا ایک ہی مقصد تھا وہ تھی لیکچرار شپ ۔۔۔۔لیکچرار شپ کی خواہش کا دیا سینے میں جلائے میں دن رات محنت کرتا رہا اور پھر میں نے اپنے سبجیکٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی لیکن شاید ابھی میری منزل بہت دور تھی ۔۔۔۔ماسٹر کے فورا بعد ہی میں نے ایم فل میں ایڈمیشن لے لیا ،سپر وائیزر سے میری انڈر اسٹینڈنگ بی ایس کے دوران ہی بہت اچھی تھی وہ بھی میری اس خواہش سے بہت اچھی طرح واقف تھے اور وقتا فوقتا اس بات کا اظہار بھی کیا کرتے تھے کہ یونیورسٹی میں لیکچرار شپ کے لیے محض قابلیت کافی نہیں مراسم کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اپنا سوشیل سرکل بڑھاؤ۔۔۔۔ لیکن سر میں تو اس شہر میں کسی کو نہیں جانتا کوئی کیوں میرے ساتھ رسم و راہ بڑھائے گا۔
میرے سپر وائیزر مسکرا دئیے کل تیار رہنا ایک مشاعرے میں چلیں گے ۔۔۔
بس پھر کبھی مشاعرے کبھی ترقی پسندوں کی ادبی محفلیں اور ان کا اپنا ایک ماحول ،مخلوط ہجوم ،ہم بھی ان کی طرح روشن خیالی کی روشنی میں نہا گئے ۔۔۔۔ آخر کب تک مینا و ساغر سے دور رہتے محفلیں چلتی رہیں جام چھلکتے رہے اور پھر اس دوران یونیورسٹی میں لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسر کی آسامیاں آگئیں میں نے بھی اپلائی کر دیا
سپر وائیزر صاحب نے میری کئی بڑی شخصیات سے ملاقاتیں کروائی اور میری تعریف کرتے ہوئے کہا یہ میرے ہونہار شاگرد ہیں ماسٹر میں انہوں نے پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا ان جیسے ذہین طالب علم کو یونیورسٹی میں ضرور ہونا چاہیے۔
بس یوں سمجھیے وہ سوشیل سرکل میرے بہت کام آیا اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھے یونیورسٹی میں لیکچرار نہیں بلکہ وی سی بنانا چاہتے ہیں ۔اور اس کا اظہار ایک دن میں نے اپنے سپر وائیزر سے کر بھی دیا
سر ! مجھے لگتا ہے یہ لوگ تو مجھے لیکچرار کی پوسٹ دلائے بغیر خاموش ہو کر بیٹھنے والے نہیں
لازمی بر خوردار ! اب یہ تمہارا نہیں ان کا مسئلہ ہے ۔
ایک دن پہلے ہی ٹیسٹ میرے سامنے ٹیبل پر رکھا ہوا تھا کل جو تمہارا ٹیسٹ ہو گا وہ یہ ہے تم اس کو دیکھ لو اچھی طرح سے باقی انٹر ویو پینل کی فکر نہ کرو وہاں تمہارے لیے ہم پہلے ہی شاندار اور جاندار لابنگ کر چکے ہیں ۔ ۔
پھر کیا ہوا ؟ میں نے بے ساختہ پوچھا
پھر کیا ہونا تھا میں لیکچرار بن گیا صحبتوں نے مجھے مذہب بیزار کر دیا اوپر سے مولویوں کی فرقہ واریت ان کا انداز گفتگو حقانیت کے نام پر ایک دوسرے کی تذلیل ۔ ۔۔۔۔مناظرے ، مجادلے بس ۔۔۔۔۔دعوت کا کام مولویوں نے ترک کر دیا تھا اور جو کررہے تھے وہ بس اپنی اپنی کتابوں اور اپنی اپنی جماعتوں اور فرقوں کی مارکیٹنگ میں مصروف تھے ۔۔۔میرے اندر کا مولوی تو نا جانے کب کابستر مرگ پر پڑا کراہ رہاتھا لیکن اس نے آخری سانس اس دن لی جس دن گرو نے کہا
آخر اس کتاب کی جو مسلمان قوم روز تلاوت کرتی ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواکا درس دیتی ہے یہ ٹکڑیوں میں بٹی قوم ان کے مولویوں نے یہ آیات قرآن کی نہیں پڑھی ؟
یہ گرو کون تھا ؟ میں نے پوچھا
گرو کو تو میں نہیں جانتا یہ کون تھا بس اس کی فکری اور فلسفیانہ گفتگو میں ایک سحر تھا یہ ہیپناٹایزم کا ماہر بندہ تھا اس کے علاوہ اس نے انسانی نفسیات کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا یہ بندے کو شیشے میں تارنے کا فن جانتا تھا ۔۔۔۔۔
یہ اسلام ، پیغمبرِ اسلام ﷺ پر اعتراضات کرتا یہ تمام وہی اعتراضات ہوتے جو کئی صدیوں سےاسلام سے خوفزدہ مستشرقین ،کتاب پرکتاب لکھ کر ،کررہے تھے سیمینارز اور جامعات کے ذریعے استشراق کا زہر نسل نو میں منتقل کیا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔افسوس کے ہمارے علماء ابھی تک اس سے غافل ہیں بلکہ وہ تحریک استشراق کو جانتے تک نہیں ۔
خیر تو میں کہہ رہاتھا روشن خیالی کی بڑھتی ہوئی تاریکی میرے قلب کوتو سیاہ کر چکی تھی میں غیر اعلانیہ لا دین ہو چکا تھا اپنی کلاس میں آتا اور اور اکثر لیکچر کے دوران وہ اعتراضات اسٹوڈینٹس کے سامنے رکھتا ۔۔۔۔اسٹوڈینٹس تو بے چارے کیا ان سوالات کا جواب دیتے ان کا جواب تو عام مولویوں کے پاس بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ گرو جی نہ جانے کہاں غائب ہو گئے ۔نا کبھی میں نے جاننے کی کوشش کی کہ کہاں سے آئے تھے کہاں چلے گئے ۔۔۔۔شاید اب مجھ جیسے کئی گرو اس معاشرے میں بن چکے تھے اور وہ اپنا کام کررہا تھے۔
اس سوشیل سرکل نےمیرے دائرے کو اس قدر بڑھایا کہ میں اب غیرملکی کانفرنسز میں جانے لگا میرے پیپر دنیا بھر کے ریسرچ جرنلز میں شائع ہو نے لگے اور یہ نوازشات سب کے لیے نہیں تھی ان نوازشات کے پیچھے وہی مقصد تھا جو میں ا ن کی برین واشنگ کے ذریعے اپنا مقصد زندگی بنا چکا تھا ۔۔۔۔۔لیکچرا سے اسسٹنٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر سے ایسوسی ایٹ پرووفیسر اور پروفیسر تک کے سفر میں یہ ہی لوگ میرے بہت کام آئے اور میری ترقی کی خواہش کو ہوا دے دے کر ۔۔۔۔مجھے خواہ مخواہ میں چودھری بنا کر انہوں نے مجھے ہر قسم کی اخلاقیات سے بھی عاری کر دیا تھا ۔
اچھے طلبا کو ہم پرو موٹ کرتے ویسے ہی جیسے مجھے کیا گیا تھا ۔۔۔۔فکری سیلیپر ز سیل نے اپنے کام کے دائرے کو بڑھا یا اور اساتذہ سے یہ نکل کر میڈیا تک جا پہنچے ۔۔۔۔ یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا طلباء میں شکوک و شبہات کے بیج ہم بوتے چلے گئے ۔۔۔میڈیا کے ذریعے ہم نے علم اور فکر کے ذریعے سوال کی آزادی اور مکالمہ کے نام پر خوب پروان چڑھایا اب یہ فصل پک چکی ہے کٹنے کا وقت قریب آنے والا ہے ۔
اب میری طرح کے کئی لوگ تعلیمی اداروں میں اس فکری دہشت گردی میں ملوث ہو چکے تھے ۔آخر ایک دن یہ الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے ۔
’’ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز ،میڈیا پرسنز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوسی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے‘‘
اس سے قبل میں سمجھتا تھا میں مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہو گیا ہوں ۔۔۔میں سچائی تک پہنچ گیا ہوں میری برین واشنگ انہی خطوط پر کی گئی تھی ۔۔۔
غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ میں نے چند مفاد پرست مولویوں اور ان کے افکار و کردار کو ہی اسلام سمجھ لیا ۔۔۔۔۔
اسی دوران ایک صاحب نے مجھے اشفاق احمد کی کتاب ’’بابا صاحبا ‘‘ پڑھنے کے لیے دی اس کے ساتھ کچھ اور اسکالرز کی چھوٹی چھوٹی تحریریں میری تشکیک کو دور کرتی چلی گئیں مجھے ایسے دوست میسر آگئے جو اسلام سے مخلص تھے انہوں نے پورے خلوص سے مجھے اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت دی اور مجھے واپس لے آئے ۔
اس وقت ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اس فکری سلیپرز سیل کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں ؟
اگر آپ کسی کالج یا یونیورسٹی میں اسٹو ڈینٹ ہیں اور آپ کا ٹیچر نصاب پڑھانے کے بجائے کلاس میں لبرل ازم ، سیکولر ازم یا الحاد کی تعلیم دیتا ہے جنت و جہنم ، حورو غلمان ،ثواب ،نیکی ،۔قرآن کریم یا شعائر اسلام کی توہین اور استہزاء کرتا ہے تو اسٹوڈینٹ کو چاہیے اپنا موبائل کیمرہ آن کیجیے ویڈیو بنائیے اور متعلقہ تھانے میں اطلاع دیجیے ۔کیونکہ الحاد کی تعلیم آئین پاکستان کی پہلی شق ’’حاکمیت اعلیٰ کا مالک اللہ ہے ‘‘سے بغاوت ہے
فکری سلیپر سیل پر گہری نگاہ رکھیے ۔۔۔۔ایسے کردار وں کو بے نقاب کیجیے ۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیورسٹی سے ماسٹر کررہا تھا،میری زندگی کا ایک ہی مقصد تھا وہ تھی لیکچرار شپ ۔۔۔۔لیکچرار شپ کی خواہش کا دیا سینے میں جلائے میں دن رات محنت کرتا رہا اور پھر میں نے اپنے سبجیکٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی لیکن شاید ابھی میری منزل بہت دور تھی ۔۔۔۔ماسٹر کے فورا بعد ہی میں نے ایم فل میں ایڈمیشن لے لیا ،سپر وائیزر سے میری انڈر اسٹینڈنگ بی ایس کے دوران ہی بہت اچھی تھی وہ بھی میری اس خواہش سے بہت اچھی طرح واقف تھے اور وقتا فوقتا اس بات کا اظہار بھی کیا کرتے تھے کہ یونیورسٹی میں لیکچرار شپ کے لیے محض قابلیت کافی نہیں مراسم کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اپنا سوشیل سرکل بڑھاؤ۔۔۔۔ لیکن سر میں تو اس شہر میں کسی کو نہیں جانتا کوئی کیوں میرے ساتھ رسم و راہ بڑھائے گا۔
میرے سپر وائیزر مسکرا دئیے کل تیار رہنا ایک مشاعرے میں چلیں گے ۔۔۔
بس پھر کبھی مشاعرے کبھی ترقی پسندوں کی ادبی محفلیں اور ان کا اپنا ایک ماحول ،مخلوط ہجوم ،ہم بھی ان کی طرح روشن خیالی کی روشنی میں نہا گئے ۔۔۔۔ آخر کب تک مینا و ساغر سے دور رہتے محفلیں چلتی رہیں جام چھلکتے رہے اور پھر اس دوران یونیورسٹی میں لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسر کی آسامیاں آگئیں میں نے بھی اپلائی کر دیا
سپر وائیزر صاحب نے میری کئی بڑی شخصیات سے ملاقاتیں کروائی اور میری تعریف کرتے ہوئے کہا یہ میرے ہونہار شاگرد ہیں ماسٹر میں انہوں نے پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا ان جیسے ذہین طالب علم کو یونیورسٹی میں ضرور ہونا چاہیے۔
بس یوں سمجھیے وہ سوشیل سرکل میرے بہت کام آیا اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھے یونیورسٹی میں لیکچرار نہیں بلکہ وی سی بنانا چاہتے ہیں ۔اور اس کا اظہار ایک دن میں نے اپنے سپر وائیزر سے کر بھی دیا
سر ! مجھے لگتا ہے یہ لوگ تو مجھے لیکچرار کی پوسٹ دلائے بغیر خاموش ہو کر بیٹھنے والے نہیں
لازمی بر خوردار ! اب یہ تمہارا نہیں ان کا مسئلہ ہے ۔
ایک دن پہلے ہی ٹیسٹ میرے سامنے ٹیبل پر رکھا ہوا تھا کل جو تمہارا ٹیسٹ ہو گا وہ یہ ہے تم اس کو دیکھ لو اچھی طرح سے باقی انٹر ویو پینل کی فکر نہ کرو وہاں تمہارے لیے ہم پہلے ہی شاندار اور جاندار لابنگ کر چکے ہیں ۔ ۔
پھر کیا ہوا ؟ میں نے بے ساختہ پوچھا
پھر کیا ہونا تھا میں لیکچرار بن گیا صحبتوں نے مجھے مذہب بیزار کر دیا اوپر سے مولویوں کی فرقہ واریت ان کا انداز گفتگو حقانیت کے نام پر ایک دوسرے کی تذلیل ۔ ۔۔۔۔مناظرے ، مجادلے بس ۔۔۔۔۔دعوت کا کام مولویوں نے ترک کر دیا تھا اور جو کررہے تھے وہ بس اپنی اپنی کتابوں اور اپنی اپنی جماعتوں اور فرقوں کی مارکیٹنگ میں مصروف تھے ۔۔۔میرے اندر کا مولوی تو نا جانے کب کابستر مرگ پر پڑا کراہ رہاتھا لیکن اس نے آخری سانس اس دن لی جس دن گرو نے کہا
آخر اس کتاب کی جو مسلمان قوم روز تلاوت کرتی ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواکا درس دیتی ہے یہ ٹکڑیوں میں بٹی قوم ان کے مولویوں نے یہ آیات قرآن کی نہیں پڑھی ؟
یہ گرو کون تھا ؟ میں نے پوچھا
گرو کو تو میں نہیں جانتا یہ کون تھا بس اس کی فکری اور فلسفیانہ گفتگو میں ایک سحر تھا یہ ہیپناٹایزم کا ماہر بندہ تھا اس کے علاوہ اس نے انسانی نفسیات کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا یہ بندے کو شیشے میں تارنے کا فن جانتا تھا ۔۔۔۔۔
یہ اسلام ، پیغمبرِ اسلام ﷺ پر اعتراضات کرتا یہ تمام وہی اعتراضات ہوتے جو کئی صدیوں سےاسلام سے خوفزدہ مستشرقین ،کتاب پرکتاب لکھ کر ،کررہے تھے سیمینارز اور جامعات کے ذریعے استشراق کا زہر نسل نو میں منتقل کیا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔افسوس کے ہمارے علماء ابھی تک اس سے غافل ہیں بلکہ وہ تحریک استشراق کو جانتے تک نہیں ۔
خیر تو میں کہہ رہاتھا روشن خیالی کی بڑھتی ہوئی تاریکی میرے قلب کوتو سیاہ کر چکی تھی میں غیر اعلانیہ لا دین ہو چکا تھا اپنی کلاس میں آتا اور اور اکثر لیکچر کے دوران وہ اعتراضات اسٹوڈینٹس کے سامنے رکھتا ۔۔۔۔اسٹوڈینٹس تو بے چارے کیا ان سوالات کا جواب دیتے ان کا جواب تو عام مولویوں کے پاس بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ گرو جی نہ جانے کہاں غائب ہو گئے ۔نا کبھی میں نے جاننے کی کوشش کی کہ کہاں سے آئے تھے کہاں چلے گئے ۔۔۔۔شاید اب مجھ جیسے کئی گرو اس معاشرے میں بن چکے تھے اور وہ اپنا کام کررہا تھے۔
اس سوشیل سرکل نےمیرے دائرے کو اس قدر بڑھایا کہ میں اب غیرملکی کانفرنسز میں جانے لگا میرے پیپر دنیا بھر کے ریسرچ جرنلز میں شائع ہو نے لگے اور یہ نوازشات سب کے لیے نہیں تھی ان نوازشات کے پیچھے وہی مقصد تھا جو میں ا ن کی برین واشنگ کے ذریعے اپنا مقصد زندگی بنا چکا تھا ۔۔۔۔۔لیکچرا سے اسسٹنٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر سے ایسوسی ایٹ پرووفیسر اور پروفیسر تک کے سفر میں یہ ہی لوگ میرے بہت کام آئے اور میری ترقی کی خواہش کو ہوا دے دے کر ۔۔۔۔مجھے خواہ مخواہ میں چودھری بنا کر انہوں نے مجھے ہر قسم کی اخلاقیات سے بھی عاری کر دیا تھا ۔
اچھے طلبا کو ہم پرو موٹ کرتے ویسے ہی جیسے مجھے کیا گیا تھا ۔۔۔۔فکری سیلیپر ز سیل نے اپنے کام کے دائرے کو بڑھا یا اور اساتذہ سے یہ نکل کر میڈیا تک جا پہنچے ۔۔۔۔ یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا طلباء میں شکوک و شبہات کے بیج ہم بوتے چلے گئے ۔۔۔میڈیا کے ذریعے ہم نے علم اور فکر کے ذریعے سوال کی آزادی اور مکالمہ کے نام پر خوب پروان چڑھایا اب یہ فصل پک چکی ہے کٹنے کا وقت قریب آنے والا ہے ۔
اب میری طرح کے کئی لوگ تعلیمی اداروں میں اس فکری دہشت گردی میں ملوث ہو چکے تھے ۔آخر ایک دن یہ الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے ۔
’’ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز ،میڈیا پرسنز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوسی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے‘‘
اس سے قبل میں سمجھتا تھا میں مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہو گیا ہوں ۔۔۔میں سچائی تک پہنچ گیا ہوں میری برین واشنگ انہی خطوط پر کی گئی تھی ۔۔۔
غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ میں نے چند مفاد پرست مولویوں اور ان کے افکار و کردار کو ہی اسلام سمجھ لیا ۔۔۔۔۔
اسی دوران ایک صاحب نے مجھے اشفاق احمد کی کتاب ’’بابا صاحبا ‘‘ پڑھنے کے لیے دی اس کے ساتھ کچھ اور اسکالرز کی چھوٹی چھوٹی تحریریں میری تشکیک کو دور کرتی چلی گئیں مجھے ایسے دوست میسر آگئے جو اسلام سے مخلص تھے انہوں نے پورے خلوص سے مجھے اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت دی اور مجھے واپس لے آئے ۔
اس وقت ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اس فکری سلیپرز سیل کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں ؟
اگر آپ کسی کالج یا یونیورسٹی میں اسٹو ڈینٹ ہیں اور آپ کا ٹیچر نصاب پڑھانے کے بجائے کلاس میں لبرل ازم ، سیکولر ازم یا الحاد کی تعلیم دیتا ہے جنت و جہنم ، حورو غلمان ،ثواب ،نیکی ،۔قرآن کریم یا شعائر اسلام کی توہین اور استہزاء کرتا ہے تو اسٹوڈینٹ کو چاہیے اپنا موبائل کیمرہ آن کیجیے ویڈیو بنائیے اور متعلقہ تھانے میں اطلاع دیجیے ۔کیونکہ الحاد کی تعلیم آئین پاکستان کی پہلی شق ’’حاکمیت اعلیٰ کا مالک اللہ ہے ‘‘سے بغاوت ہے
فکری سلیپر سیل پر گہری نگاہ رکھیے ۔۔۔۔ایسے کردار وں کو بے نقاب کیجیے ۔۔۔۔
مجھے اکبر الہ آبادی کا وہ شعر یاد آگیا
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اور علامہ اقبال نے گفتگو ہی سمیٹ دی
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
نکل جاتی ہے لبِ خنداں سے اِک آہ بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ
حمزہ اینڈرس زورٹس کو رد الحاد کے تمام احباب جانتے ہوں گے۔ حمزہ بھائ سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے اور یہ جدید الحاد کے خلاف بہت سرگرم رکن ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز، سیم ہیرس، لارنس کراس وغیرہ سے ان کی ڈیبیٹس موجود ہیں جن میں حمزہ بھائ کو واضح برتری حاصل رہی ہے۔ ان کی ایک کتاب حال ہی میں ریلیز ہوئ ہے "دا ڈیوائن رئیلیٹی"کے نام سے۔ کتاب انگریزی میں ہے اس لئے انگریزی جاننے والے اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
کتاب کو سیکن اور یونیکوڈ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے جسے آپ ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔
مزید اردو کتب کو یونیکوڈ کرنے کا کام جاری ہے اور انشا الله جلد ہی آپ لوڈ کی جائیں گی۔
ڈاؤنلوڈ لنک۔
https://ia601502.us.archive.org/2/items/the-divine-reality-god-islam-the-mirage-of-atheism/the-divine-reality-god-islam-the-mirage-of-atheism.pdf
جزاک الله.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔