مذہب كے آغاز كے بارے میں دو بڑے نظریئے پائے جاتے ہیں۔ ارتقائی نظریہ اور الہامی نظریہ۔
ارتقائی نظریہ
ڈارون كے نظریہِ ارتقاء سے متاثر ہوكر مغربی محققین اور مستشرقین كی اكثریت نے مذہب كا ارتقائی نظریہ پیش كیا ہے۔ جدید ماہرین كو چونكہ ہر چیز میں ارتقاء كی كارفرمائی نظر آتی ہے لہٰذا انہوں نے مذہب کے متعلق بھی ایسے ہی اندازے لگانے شروع کیے ۔مذہب كے ارتقائی نظریہ كی رو سے انسان كی ابتداء جہالت اور گمراہی سے ہوئی۔ بعدازیں اس نے بتدریج مشركانہ خدا پرستی اپنالی۔ ان ارتقائی مراحل كی تفصیل میں كافی اختلاف ہے۔ مثلاً: بعض محققین كا خیال ہے كہ مذہب كی ابتداء اكابر پرستی سے ہوئی جبكہ دوسروں كی رائے میں ابتداء مظاہر پرستی سے ہوئی۔ ان كا خیال ہے كہ انسان نے ابتداء میں اپنی كم فہمی اور لاعلمی كی وجہ سے مظاہرِ فطرت كی پرستش شروع كردی۔ كیونكہ ابتدا میں اس كی زندگی و موت كا انحصار كافی حد تك ان پر تھا۔ مثلاً: سیلاب، طوفان، زلزلے اور آتش فشاں وغیرہ، لیكن جوں جوں اس كا علم بڑھتا گیا اور جہالت دور ہوتی گئی تو اس نے محسوس كیا كہ یہ مظاہرِ فطرت خدائی قوتیں نہیں ركھتے۔ ابتدا میں لوگوں نے ہر چیز كو دیوتا بنالیا لیكن علمی ترقی كے ساتھ ساتھ خداؤں كی تعداد میں كمی ہونے لگی حتٰی كہ آخر میں صرف ایك خدا رہ گیا۔
جولین بكسلے پہلا مغربی مفكر ہے جس نے ڈارون كے نظریہِ ارتقاء كو مذاہب كی تاریخ پر چسپاں كیا۔ وہ لكھتا ھے:
’’پہلے جادو پیدا ہوا، پھر روحانی تصرفات نے اس كی جگہ لے لی۔ پھر دیوتاؤں كا عقیدہ اُبھرا، بعد ازیں خدا كا تصور آیا۔ اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر كر مذہب اپنی آخری حد كو پہنچ چكا ہے۔‘‘
نظریہِ ارتقاء كا ابطال:
اس نظرے کے مطابق توحید جدید اور شرك قدیم ہے۔ یہی بات نظریہِ ارتقاء كے ابطال كے لیے كافی ہے۔ تاریخ خود اس نظریئے كا ابطال كرتی ہے۔ مسیح علیہ الّسلام سے ڈھائی ہزار برس قبل حضرت ابراہیم علیہ الّسلام خالص توحید كے پرستار تھے اور مسیح علیہ الّسلام سے دو ہزار برس بعد آج بھی نوعِ انسانی میں كروڑوں آدمی شرك كے پرستار ہیں۔علم اور انسان كی جدید تحقیق سے خود اكثر مغربی مفكرین بھی اب ارتقائی نظریہ كو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور الہامی نظریہ كو ماننے پر مجبور ہوئے ۔ چنانچہ پہلا محقق جس نے دریافت کیا کہ بہت خداؤں پر یقین رکھنے والے مذاہب بھی اصل میں ایک مذہب پر یقین رکھتے تھے’ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن لینگڈن تھے ۔ 1931میں انھوں نے اپنی اس دریافت کو دنیا کے سامنے بالخصوص سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے سامنے پیش کیا۔اور یہ کہا کہ اس دریافت سے پتہ لگنے والی باتیں غیر متوقع ہیں اور ارتقاء کے حوالے سے دی جانے والی توجیحات کے منافی ہیں۔سٹیفن لینگڈن نے اپنی دریافت کی وضاحت اس طرح کی”۔۔انسانی تہذیب کی قدیم ترین تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان نے بہت تیزی سے ایک خدا کو ماننا چھوڑ کر بہت سے خداؤں اور بری ارواح کو ماننا شروع کر دیا ۔ ۔۔”
پانچ سال بعد سٹیفن لینگڈن نے سکاٹس مین میں کچھ یہ بیان دیا کہ:”شواہد بغیر کسی شک و شبہے کے ایک خدا کو ماننے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اہل یہود کی قدیم ترین کتابو ں اور ادبی باقیات بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس زمانے کے لوگ ایک خدا پر یقین رکھتے تھے۔ اور اب قدیم مذاہب اپنی ساکھ کھو چکے ہیں”۔
Stephen H. Langdon, The Scotsman, 18 November1936))
3000 قبل از مسیحؑ سے تعلق رکھنے والے ایک شہر سمیرین کے علاقے تل اسمار کی کھدائی سے جو شواہد ملے ہیں وہ پروفیسر سٹیفن لینگڈن کی دریافت کی تصدیق کرتے ہیں۔کھدائی کے ڈائریکٹر ہنری فرینکفرٹ نے سرکاری طور پر یہ رپورٹ شائع کروائی:
“کھدائی کے دوران بہت سے واضح نتائج سامنے آئے ہیں جو قدیم مذاہب کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔ ہمیں ایسی چیزیں دستیاب ہوئی ہیں جن کی بدولت ہم پہلی مرتبہ کسی مذہب کا اس وقت کے معاشرے کے مطابق مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ہمیں عبادت گاہوں اور ان میں عبادت کرنے والوں کے گھروں سے ایک جیسے شواہد ملے ہیں۔ جن کی بدولت ہم کچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت کی مہروں کے اوپر مختلف خداؤں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ ان تصویروں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تمام تصویریں ایک خاص تصویر میں اکھٹی ہوتی ہیں جس میں اہم جگہ ایک خاص خدا کے لیے وقف ہے جس کی ان کی عبادت گاہوں میں بھی سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔”
(H. Frankfort, Third Preliminary Report on Excavations at Tell Asmar (Eshnunna): quoted by P. J. Wiseman in New Discoveries in Babylonia about Genesis, London: Marshall, Morgan and Scott, 1936, p. 24.)
فرینکفرٹ کی دریافت سے بہت سے اہم حقائق پتہ چلتے ہیں کہ کیسے ایک توہم پرستانہ اور بہت سے خداؤں پر ایمان رکھنے کا نظام قیام میں آیا۔
مذاہب کے ارتقاء کی تھیوری یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بہت سے خداؤں کو ماننے کا تصور اس وقت عام ہوا جب لوگوں نے بری ارواح کو قدرتی طاقتوں کی نمائندگی بنا کر انکی پرستش شروع کر دی۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے خدا کی مختلف خوبیوں کے متعلق مختلف نظریات قائم کیے جس کی وجہ سے ایک خدا کے تصور میں بگا ڑ پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ ایک خدا کا تصور بہت سے خداؤں میں بدل گیا۔
لینگڈن کے سمیرین ٹیبلیٹس کے ترجمے سے بہت پہلے ایک محقق فرائیڈرک نے بھی اسی طرح کی دریافت کی۔ وہ تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچا کہ قدیم مذاہب میں پائے جانے والے بہت سے خدا اس وقت کے ایک بڑے خدا مدروک کے مختلف کرداروں سے وجود میں آئے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدروک پر ایمان ایک خدا پر ایمان کی خرابی سے پیدا ہوا۔ اس خدا مدروک کے بہت سے نام تھے جیسے کہ نینیب(طاقت کا مالک)، نرگل (جنگ کا مالک)، بیل(حکمرانی کا مالک)، نیبو(پیغمبروں کا مالک)، سِن یا رات کو روشن کرنے والا، شماش (تمام عدل کا مالک)، عبدو( بارش کا خدا)۔
وقت کے ساتھ مدروک کی ان صفات کو اس سے جدا کر دیا گیااور مختلف خداؤ ں کو ان اختیارات کا مالک بنا دیا گیا۔ اسی طرح سورج دیوتا، اور چاند دیوتا جیسے خدا لوگوں کے تخیلات سے وجود میں آئے۔ مدروک پر یقین اور ساتھ ساتھ اسی خدا کے دوسرے ناموں پر یقین ایک خدا پر ایمان میں خرابی کی صورت میں پیدا ہوا۔راہ راست سے ہٹنے کے اس جیسے شواہد ہمیں قدیم مصر میں بھی ملتے ہیں۔ محققین نے یہ دریافت کیا ہے کہ قدیم مصری پہلے ایک خدا پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ وہ سورج کی پوجا میں لگ گئے۔
ایم۔ ڈی روژ لکھتے ہیں:
“یہ بات شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ مصری مذہب کے پرشکوہ حصے وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ پر شکوہ حصے قدیم ہیں، اور جس حصے کو لاطینی اور یونانی مصنف سب سے پر شکوہ مانتے ہیں وہ در اصل قدیم مذہب کی سب سے بگڑی ہوئی صورت ہے۔ “
ماہر آثار قدیمہ سر فلنڈرز پیٹری لکھتے ہیں کہ توہمات اور بہت سے خداؤں پر یقین ایک خدا کے تصور میں بگاڑ کی صورت میں پیدا ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے کہا کہ یہ بگاڑ آج کے اور ماضی کے تمام معاشروں میں دیکھا جا سکتا ہے، بعض نسلیں جیسے کہ ماڈرن ہندو بہت زیادہ خداؤں کی موجودگی پر خوشی مناتے ہیں اور ان خداؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہتاہے۔ دوسری طرف بعض لوگ کسی عظیم خدا پر یقین نہیں رکھتے بلکہ بری ارواح اور شیاطین پر یقین رکھتے ہیں۔
اگر ایک خدا پر ایمان کا تصور بہت سے خداؤں، برائی کی طاقتوں کی پوجا سے ارتقاء کا نتیجہ ہوتا تو ہم ایک خدا کا مانا جانا بہت سے خداؤں کے مانے جانے کا نتیجہ دیکھتے ۔ جبکہ شواہد اس کے بر عکس ہے، شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پہلے پہل ایک خدا کی پرستش کی جاتی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس تصور میں خرابی سے بہت سے خداؤں پر یقین کا نظام وجود میں آتا گیا۔Sir Flinders Petrie, The Religion of Ancient Egypt, London: Constable, 1908, pp. 3, 4.))
پروفیسر شمٹ نے اپنی كتابThe Origin and Growth of Religion میں لكھا ہے:
’’علم شعوب و قبائل انسانی كے پورے میدان میں اب پرانا ارتقائی مذہب بالكل بے كار ہوگیا ہے۔ نشوونما كی كڑیوں كا وہ خوش نما سلسلہ جو ان مذاہب نے پوری آمادگی كے ساتھ تیار كیا تھا، اب ٹكڑے ٹكڑے ہوگیا اور نئے تاریخی رجحانوں نے اسے اٹھا كر پھینك دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہوچكی ہے كہ انسان كے ابتدائی تصور كی اعلیٰ ترین ہستی فی الحقیقت توحیدی اعتقاد كا خدائے واحد تھا اور انسان كا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایك توحیدی دین تھا۔‘‘(The Origin and Growth of Religion، page 242)
مذاہب کے متعلق تاریخی مواد پر غور پر کریں تو معلوم ہوگا کہ کبھی کوئی قوم ان معنوں میں مشرک نہیں رہی ہے کہ وہ بالکل یکساں نوعیت کے کئی خدا مانتی ہو ۔ بلکہ انکے نزدیک تعدد آلہ کا مطلب ایک بڑے خدا کو مان کر کچھ اس کے مقربین خاص کا اقرار کرنا ہے جو ذیلی خداؤں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔شرک کے ساتھ ہمیشہ ایک خدا یا متعد خدا نگان کا تصور پایا جاتا رہا ہے ۔ایسی حالت میں اوپر پیش کیا گیا ارتقائی مذہب کا استدلال ایک بے دلیل دعوی رہ جاتا ہے۔
مذہب کے متعلق اسی طرح اشتراکی مارکسی نظریہ تاریخ بھی موجود ہے ، یہ ان سے بھی زیادہ لغو ہے یہ نظریہ اس مفرو ضہ پر مبنی ہے کہ اقتصادی حالات ہی وہ اصل عامل ہیں جو انسان کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں، مذہب جس زمانے میں پیدا ہوا وہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کا زمانہ تھا اب چونکہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے اس لئے اس کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاقی و مذہبی تصورات بھی یقینی طور پر اپنے ماحول ہی کا عکس ہوں گے اور وہ لوٹ کھسوٹ کے نظریات ہوں گے۔ مگر یہ نظر یہ علمی حیثیت سے کوئی وزن رکھتا ہے اور نہ تجربہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
یہ نظریہ انسانی ارادہ کی بالکلیہ نفی کر دیتا ہے اور اس کو صرف معاشی حالات کی پیدا وار قرار دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں جس طرح صابن کے کارخانے میں صابن ڈھلتے ہیں اسی طرح آدمی بھی اپنے ماحول کے کارخانے میں ڈھلتا ہے وہ الگ سے سوچ کر کوئی کام نہیں کرنا بلکہ جو کچھ کرتا ہے اسی طرح مطابق سوچنے لگتا ہے اگر یہ واقعہ ہے تو سوال یہ ہے کہ مارکس جو خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیدا ہوا تھا اس کے لئے کس طرح ممکن ہوا کہ وہ اپنے وقت کے معاشی حالات کے خلاف سوچ سکے؟ کیا اس نے زمین کا مطالعہ چاند پر جاکر کیا تھا اگر مذہب کو پیدا کرنے والی چیز وقت کا اقتصادی نظام ہے تو مار کسزم بھی وقت کے اقتصادی نظام کی پیداوار کیوں نہیں ہے؟ مذہب کی جو حیثیت مارکسزم کو تسلیم نہیں ہے وہی حیثیت اس کے اپنے لئے کس طرح جائز ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اشتعال انگریز حد تک لغو ہے اس کے پیچھے کوئی بھی علمی اور عقلی دلیل موجود نہیں۔ تمام مشہور پیغمبر اپنے دور کے ظلم پر مشتمل سرمایہ دارانہ نظام کو توڑنے ہی آئے ، حضرت موسی ؑ ہوں یا ابراھیم ؑ یا حضرت محمدﷺ یہ اپنے دور کے ہر ظالم و جابر کے خلاف برسرپیکار رہے اور انہوں نے عدل ہی کی آواز لگائی ۔
مذہب کا الہامی نظریہ
مذہب كا الہامی نظریہ ہے كہ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ الّسلام كو جب دنیا میں بھیجا تو اوّل روز سے ہی ان كی تمام مادی ضروریات كی طرح ان كی روحانی ضروریات یعنی دینی ہدایت كا بھی سامان كیا۔اس طرح انسانِ اوّل پوری طرح ہدایت یافتہ تھا۔ وہ نہ صرف توحید پرست تھا بلكہ توحیدِ الٰہی كا پیغامبر تھا،انسانیت كو صراطِ مستقیم اور توحیدِ خالص سكھانے كے لیے وقفے وقفے سے ہر زمانے اور ہر قوم كی طرف رسول بھیجے گئے۔۔مختصر یہ کہ ابتدائے آفرینش سے انسان كا اصلی مذہب توحید رہا ہے۔ شرك اس وقت پیدا ہوا جب انسانی آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ ہوا اور انبیاء كی تعلیم دھندلی پڑگئی۔ آج بھی غیر الہامی اور مشرک مذاہب ہندو مت، جین مت، زرتشتی اور سكھ مت، بدھ مت اور افریقہ کے پرانے مذاہب وغیرہ میں الہامی تعلیمات کی ہلکی پھلکی جھلک دیکھی جاسکتی ہیں ۔اس وقت موجود الہامی مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام ہیں، ان كے داعی اللہ تعالیٰ كے رسول اور پیغمبر تھے۔ ان كی تعلیمات جزوی فرق سے خالص توحید پر مبنی تھیں، لیکن بعد میں عیسائیت اور یہودیت كے پیروكاروں نے اپنے مذاہب میں من مانی ترامیم اور تحریفات كرلیں۔
الہامی و غیر الہامی مذاہب
مذاہبِ عالم كو الہامی اور غیر الہامی میں تقسیم كیا جاتا ہے۔ الہامی سے مراد وہ ادیان ہیں جو خدا، اس كے رسولوں اور ان كی لائی ہوئی كتابوں پر یقین ركھتے ہیں۔ اس كے برخلاف غیر الہامی سے مراد وہ ہیں جو اپنی تعلیمات اور عقائد كو خدائے وحدہُ لاشریك كی معیّن ہدایات كے تابع نہیں سمجھتے۔ الہامی مذاہب میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام، جبكہ غیر الہامی میں بقیہ مذاہب آتے ہیں۔ الہامی مذاہب کو سامی مذاہب بھی کہتے ہیں ، سامی مذاہب سے مراد وہ مذاہب جو سام بن نوح کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ الہامی مذاہب سامی نسل سے تعلق ركھتے ہیں لیكن اس كے یہ معنی نہیں كہ ان مذاہب اور خصوصاً اسلام كا عقیدہ صرف سامی نسل كے لوگوں تك محدود رہا یا سامی نسل كی برتری پر مبنی ہے ،ان مذاہب كے سامی النسل ہونے كا منشاء صرف اس قدر ہے كہ ان مذاہب کے انبیاء سامی اقوام میں آئے ۔ ورنہ یہ تینوں سامی مذاہب آج عالمگیر اور دنیا كے ہر براعظم میں پائے جاتے ہیں
غیر الہامی مذاہب کو منگولی اور آریائی مذاہب بھی کہا جاتا ہے ، تاؤازم،شنوازم،بدھ مت اورکنفیوشزم ،یہ تمام مذاہب منگول قوم کی طرف منسوب ہیں۔بعض علماء بدھ مت کو آریائی مذاہب میں شمار کرتے ہیں اور بعض منگولی مذاہب میں شمارکرتے ہیں (ہندومت،جین مت،سکھ مت اور زرتشت یہ تمام مذاہب کی نسبت آریہ قوم کی طرف منسوب ہیں)
الہامی و غیر الہامی مذاہب كا تقابل: –
الہامی مذاہب اصلاً ایك خدا كے تصور پر مبنی ہیں، یہ مذاہب پیغمبروں كے قائل ہیں، مذاہب كا اصل منبع و سرچشمہ سماوی ہیں، مشرقِ وسطٰی سامی اقوام سے ابتدا ہوئی اور اپنی تعلیمات کی تبلیغ کے باعث باہر بھی پھیلے ۔
غیر الہامی مذاہب ایک تصور خدا كے پابند نہیں، بعض سرے سے خدا كے تصور سے بھی عاری ہیں، تعلیمات کا سرچشمہ سماوی نہیں رہا، ا ن میں پیغمبروں کا تصور ختم ہوچکا ہے ، ان کا علاقہ وہ ہے جہاں بعد میں سامی مذاہب کی تبلیغ نہیں ہوسکی ۔
تعلیمات کے لحاظ سے بھی ان میں فرق ہے ، الہامی مذاہب اپنی تعلیمات یا عملی تاریخ كے باعث تبلیغی ہیں اور غیر الہامی اپنی اصلی تعلیمات كے مطابق تبلیغی نہیں۔
اس طرح الہامی مذاہب كی تعلیمات معیّن اور واضح ہیں لیكن غیر الہامی مذاہب كی تعلیمات غیرمعیّن اور لچكدار ہیں۔ مزید الہامی مذاہب كی تعلیمات كلّی ہیں اور اپنی اصل كی بنا پر دینی اور دنیوی زندگی پر كم و بیش حاوی ہیں، لیكن غیر الہامی مذاہب كی تعلیمات جزوی ہیں یعنی یا تو صرف روحانی زندگی سے متعلق ہیں جیسے تاؤ مت یا پھر دنیوی زندگی سے متعلق ہیں جیسے كنفیوشسی مت۔
آسمانی/ الہامی مذاہب:
انبیاء کرام کے ایک طویل و مدید سلسلہ کی ابتدا حضرت آدمؑ سے ہوئی اور انتہاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی ، اس بڑی لمبی و طویل مدت کے درمیان انسانی زندگی کو سنوارنے کے لئے تقریباً کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام اس صفحہ ہستی پر تشریف لائے اور سب کا مشن بندوں کے مابین اللہ کی ذات کا تعارف، اور اس کے ہر چھوٹے بڑے حکم کو بجالانا تھا۔ خود قرآن کریم میں تقریباپچیس انبیاء کے اسمائے گرامی کا تذکرہ ہے۔ مثلاً آدم، نوح، موسیٰ، ابراہیم، اسحاق، اسماعیل، داؤد، سلیمان، عیسیٰ علیھم السلام اور حضرت محمد (ﷺ)۔مگر احادیث کے مطابق ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ حضرت محمد ﷺ سے قبل آنے والے پیغمبروں کا دور اپنی قوم تک محدود تھا اور ان کی تعلیمان بھی ایک قوم اور ایک وقت کیلئے مخصوص تھیں ان کی کتابیں اور شریعت بھی ایک محدود زمانے تک قابل عمل تھی ، خود انجیل کی شہادت اس سلسلے میں موجود ہے ” میں نہیں بھیجا گیا مگر اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی طرف” ( بائبل، انجیل متی، 24:15)اس لئے یکے بعد دیگرے کتابیں بھی اتاری جاتی رہیں اور نبی اور رسول بھی بھیجے جاتے رہے اور سابقہ کتابیں منسوخ ہوتی رہیں، تاآنکہ رسول اللہ کو آخری نبی اورآخری کتاب دے کر بھیجا گیا اور دین و شریعت کی تکمیل کردی گئی۔
اس وقت موجود الہامی مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام ہیں، ان كے داعی اللہ تعالیٰ كے رسول اور پیغمبر تھے۔ ان كی تعلیمات جزوی فرق سے توحید پر مبنی ہیں اور انکا منبع ایک ہی ہے۔ ان تینوں مذاہب کے پیغمبر حضرت ابراھیم ؑ کی اولاد سے ہیں ، حضرت ابراھیم ؑ کے دو بیٹے تھے ۔ حضرت اسحق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ۔حضرت اسحق ؑ اور انکے بیٹے حضرت یعقوب بھی پیغمبر تھے ، حضرت یعقوب ؑ کا نام اسرائیل بھی تھا اور اسی سے انکی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے ۔ حضرت اسماعیل ؑ مکہ میں آکر آباد ہوئے اور انکی اولاد میں صرف حضرت محمد ﷺ کو نبوت ملی ۔
عام باشندگانِ عرب شروع سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت وتبلیغ کے نتیجے میں دینِ ابراہیمی کے پَیرو تھے تاآنکہ بنو خزاعہ کا سردار عَمر و بن لُحَی منظر عام پر آیا۔ اس کی نشوونما بڑی نیکوکاری ، صدقہ وخیرات اور دینی امور سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی۔ اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اور اسے اکابر علماء اور افاضل اوّلیاء میں سے سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ اس شخص نے ملک شام کے سفر میں بتوں کی پوجا دیکھی تو اس نے سمجھا کہ یہی بہتر اور بر حق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سر زمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا اور اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔ اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقش قدم پر چل پڑے۔ کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اور اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت او ر بتوں کی بھر مار ہو گئی۔ ہبل سرخ عقیق سے تراشا گیا تھا۔ صورت انسان کی تھی۔ یہ مشرکین کا پہلا بت تھا اور ان کے نزدیک سب سے عظیم اور مقدس تھا۔ (کتاب الاصنام لابن الکلبی ص ۲۸)
مغرب ومشرق کے عروج وزوال کے فلسفے کی راکھ سے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مسلم جدیدیت کا آغاز ہوا۔ مسلم جدیدیت کے نقطہ نظر کے پس پشت خلافت ارضی کے زوال کا زیر لب مرثیہ ہے، زوال کی موج خوں سر سے گزر گئی اور مسلمان قوت، طاقت اور حاکمیت سے محروم کر دیے گئے لہٰذا عروج کیلئے طاقت، علم، قوت، سائنس، مغرب کا طریقہء علم وزندگی، مغربی آدرش، اقتدار اور استخلاف فی الارض ہی اصل اہداف ٹھہرے۔
حیرت انگیز طور پر تمام قوم پرست، بنیاد پرست، احیائی تحریکوں، جدیدیت پسند طبقات اور روایت پسند مفکرین کے یہاں عروج اور اقتدار کی زیریں لہریں مشترک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ وہ علم وہنر وفنون میں اور تسخیر کائنات میں پیچھے رہ گئے، مغرب نے ان میدانوں میں سبقت حاصل کی۔ عروج وزوال سے متعلق گزشتہ دو سو برس کے تجزیوں میں متفقہ تجزیہ یہی ہے کہ جدید علوم کے ذریعے ہی اسلام کا غلبہ قائم ہوگا، اس کے سوا کامیابی اور کامرانی کا کوئی راستہ نہیں ہے، یہ رویہ خالصتاً غلامانہ سوچ کا آئینہ دار ہے۔ اگر مغرب کے راستے کو کاملاً اختیار کر لیا جائے تو مشرق مغرب بن جائے گا مگر روحانی اخلاقی طور پر مغرب سے بدتر ہوگا۔ غلبے کی تشخیص وتجزیے میں تبلیغ اور دعوت دین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اندلس میں زبردست مادی ترقی کی لیکن روحانی طور پر وہ غیر مسلموں کو متاثر نہ کر سکے لہٰذا ہمیشہ اقلیت میں رہے۔ اندلس یورپ میں اسلام کی اشاعت نہ کر سکا۔ خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور دائرہ اسلام کو وسیع کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہ تمام سلطنتیں مادی طور پر بہت مستحکم سلطنتیں رہیں۔ لیکن رعایا پر یہ روحانی برتری قائم نہ کر سکے۔ انہوں نے زمین مسخر کرلی، دل مسخر نہ کر سکے۔ دعوت سے اغماض ہی ان کی ناکامی تھا لیکن عروج وزوال کی تمام قدیم وجدید بحثوں میں اس بحث کا ذکر نہیں۔
عروج وزوال کی بحث کرنے والے مفکرین اپنے تجزیوں میں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ خلافت عباسیہ جوٹیکنالوجی میں منگولوں اور تاتاریوں سے برتر تھی اور تہذیب وتمدن میں اس کا ان سے مقابلہ نہ تھا، آخر کیسے شکست کھا گئی؟ ایک غالب اور برتر تہذیب وحشیوں کی یلغار کا سامنا کیوں نہ کر سکی؟
یہ مفکرین یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ شکست خوردہ اسلامی تہذیب صرف پچاس سال کے عرصے میں بغیر کسی مادی ترقی کے دوبارہ کیسے غالب آگئی اور وہ کون سی سائنس ٹیکنالوجی، علوم اور فلسفے تھے جس نے چنگیز کے پوتے برقے کو قبولیت اسلام کیلئے آمادہ کیا اور طاقت کا توازن آناً فاناً تبدیل ہو گیا۔؟
اس سوال پر بھی غور نہیں کیا جاتا کہ ترکوں کا سیلاب ویانا میں کیوں داخل نہ ہو سکا جبکہ یورپی حکمران ٹیکنالوجی اور سائنس میں خلافت عثمانیہ کے مقابلے میں برتری کے حامل نہیں تھے۔؟
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور ریاستیں انگریزوں سے کیوں شکست کھا گئیں جبکہ اس وقت عسکری سطح پر دونوں گروہوں کے پاس کم وبیش توازن طاقت برابر تھا۔؟ پورے ہندوستان کو فتح کرنے والی انگریزی فوج کی تعداد صرف چند ہزار تھی لیکن ہندوستان کیونکر سرنگوں ہو گیا۔؟
لہٰذا مسئلہ صرف فنون علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا نہیں ہے، مسئلہ اس سے بڑھ کر گھمبیر ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان اہم تاریخی مباحث کو یہ مفکرین نظر انداز کرکے زوال کے سطحی تجزیے پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں زوال گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ ترکی، مصر، ملیشیا نے مغربی تہذیب اور تعلیم کو اختیار کرلیا تو وہاں کیا انقلاب برپا ہوا؟
سرسید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا خواب پورا ہو گیا لیکن اس جامعہ کے ذریعے کیا عروج کا وہ سفر طے ہو گیا جس کی آرزو کی گئی تھی اس جامعہ سے شائع ہونے والی کتنی کتابیں آج دنیا بھر کی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہیں؟
جدیدیت پسندوں کے یہاں ایک لہر مغربی علوم کو عروج کا ذریعہ سمجھتی ہے دوسری لہر صرف سائنس کو ترقی اور تیسری لہر مغربی علوم کے ساتھ مغربی ثقافت کو۔ ان تینوں لہروں میں ایک اندرونی غیر محسوس ادغام دنیا پر غلبے اور بالادستی کا تصور ہے۔ جدیدیت پسندوں کے یہاں یہ بالادستی دعوت ایمان، قلوب کی تسخیر، دین کے لئے محنت، پیغام محبت، عمل صالح، اتحاد، اجماع اور جہاد کے مراحل کے فلسفے کے بغیر صرف سائنسی علوم اور معیشت کی طاقت پر اصرار کرتی ہے۔ طاقت کے مختلف مظاہر اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہیں۔
کیا عروج صرف سائنس کے ذریعے اور مادی ترقیات کے بغیر نہیں مل سکتا؟
کیا فتح کا واحد راستہ جنگ، پیسہ، علم ہے؟
کیا فریق مخالف کو سرنگوں کیے بغیر فتح کا کوئی امکان نہیں؟
اس تاریخی مغالطے کی تشریح جدیدیت پسندوں اور احیائی تحریکوں میں بنیادی نوعیت کے نظریاتی فرق کے باوجود یکساں ہے۔ دونوں کے یہاں اقتدار حکومت، طاقت علم، سائنسی ترقی کے بغیر مسلمانوں کے غلبے کا واضح شعور اور تصور نہیں ملتا۔ غلبے کے تمام ذرائع صرف مادیت پر انحصار کرتے ہیں۔
قدیم اور جدید راسخ العقیدہ اور جدیدیت پسند مفکرین کے یہاں اس بات کا کوئی ادراک نہیں ہے کہ سلطنت روما کو عیسائیت نے ٹیکنالوجی کے بل پر شکست نہیں دی، روما جیسی عظیم الشان سلطنت فتح کرنے والے گدھوں پر سوار تھے، حملہ آوروں کی دعوت نے قلوب مسخر کر لیے تھے۔ روس کو امریکا نے عسکری میدان میں شکست نہیں دی بلکہ روسی عوام کا نظریہ زندگی بدل دیا۔ انہیں لبرل بنا دیا گیا۔ یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں عقیدہ اور نظریہ کی تبدیلی کے ذریعے کی گئی۔ یہی صورتحال چین کے ساتھ درپیش ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے باعث چین کا تشخص ختم ہو گیا ہے وہ نظریاتی اساس کھو بیٹھا ہے۔
عروج و زوال کی بحثوں میں جدیدیت پسند طبقات دین پرنقد کرتے ہیں بعض حدیث کا انکار کرتے ہیں بعض اسلامی اقدار کا استہزا اور تمسخر اڑاتے ہیں، بعض دین کو ہی زوال کا سبب سمجھتے ہیں، بعض اس زوال کی وجہ سائنس اور عقل سے انحراف کو قرار دیتے ہیں، بعض روحانیت کے ساتھ مادی ترقی کی ضرورت کو لازمی سمجھتے ہیں، بعض زوال کا سبب تصوف کو ///////گردانتے ہیں، بعض مظاہر کائنات سے عدم دلچسپی کو زوال کی وجہ بتاتے ہیں لیکن تنقید کرنے والے تمام طبقات مادیت کے ذریعے ہی عروج وزوال کی تشریح کرتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔