قرآن اور جدید سائنس بارہویں قسط
جمع و ترتیب ۔ ۔ ۔ ۔ اسرار احمد صدیقی
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں
فعلیات (Physiology)
خون کی گردش (Blood circulation) اور دودھ۔ قرآن پاک کا نزول ، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن النفیس سے ٦٠٠(چھ سو)سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروانے والے ولیم ہاوے(William Harwey) سے ١٠٠٠(ایک ہزار) سال پہلے ہوا تھا ۔ تقریباً تیرہ صدیوں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے۔ جو نظام ۔ہاضمہ(Digestive System) میںانجام پانے والے افعال کے ذریعے دیگر جسمانی اعضاء کی نشود نما کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت مبارکہ ، جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے اس تصور کی عین مطابقت میں ہے۔
مذکورہ بالا تصور کے حوالے سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات (chemical reaction) واقع ہوتے ہیں اور یہ کہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گزر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں ۔ کھبی وہ (مادوں )کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے) غدود بھی شامل ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں، اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آجائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ ﴿سورۃ النحل، آیت 66﴾
ترجمہ:اورتمھارے لیے مویشیوںمیںبھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اورخون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کیلئے نہایت خوشگوارہے۔
وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہَا وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ کَثِیۡرَۃٌ وَّ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۙسورۃ المومنون، آیت 21﴾ہ
ترجمہ:۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ انکے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں ایک چیز (یعنی دودھ )ہم تمھیں پلاتے ہیں اور تمھارے لیے ان میں بہت فائدہ بھی ہیں۔ ان میںسے بعض کو تم کھاتے ہو۔
١٤٠٠ سال قبل ، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جوگائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔
جمع و ترتیب ۔ ۔ ۔ ۔ اسرار احمد صدیقی
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں
فعلیات (Physiology)
خون کی گردش (Blood circulation) اور دودھ۔ قرآن پاک کا نزول ، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن النفیس سے ٦٠٠(چھ سو)سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروانے والے ولیم ہاوے(William Harwey) سے ١٠٠٠(ایک ہزار) سال پہلے ہوا تھا ۔ تقریباً تیرہ صدیوں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے۔ جو نظام ۔ہاضمہ(Digestive System) میںانجام پانے والے افعال کے ذریعے دیگر جسمانی اعضاء کی نشود نما کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت مبارکہ ، جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے اس تصور کی عین مطابقت میں ہے۔
مذکورہ بالا تصور کے حوالے سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات (chemical reaction) واقع ہوتے ہیں اور یہ کہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گزر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں ۔ کھبی وہ (مادوں )کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے) غدود بھی شامل ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں، اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آجائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ ﴿سورۃ النحل، آیت 66﴾
ترجمہ:اورتمھارے لیے مویشیوںمیںبھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اورخون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کیلئے نہایت خوشگوارہے۔
وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہَا وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ کَثِیۡرَۃٌ وَّ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۙسورۃ المومنون، آیت 21﴾ہ
ترجمہ:۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ انکے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں ایک چیز (یعنی دودھ )ہم تمھیں پلاتے ہیں اور تمھارے لیے ان میں بہت فائدہ بھی ہیں۔ ان میںسے بعض کو تم کھاتے ہو۔
١٤٠٠ سال قبل ، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جوگائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔