کانگو وائرس اور فریضہ قربانی
کانگو وائرس کا سائنسی نام ’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ہے جس کی 4 اقسام ہیں۔ اس بیماری میں جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اس لئے ہر شخص کو ہر ممکن احتیاط کرنی چاہئے۔
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔ مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں۔ مریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔ لمبی آستینوں والی قمیض پہنیں۔ جانورمنڈی میں بچوں کوتفریح کرانے کی غرض سے بھی نہ لے جایا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کا ٹکس مختلف جانوروں کی جلد پر پایا جاتا ہے۔ یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ایسی کئ بیماریاں ہیں جو جانوروں سے انسان میں منتقل ہوتی ہیں مثلا بھیڑ بکری، بھینس لیکن انسان نے اج تک اس کا استعمال ترک نہیں کیا۔جس طرح کمبل میں جوئیں پڑنے کے بعد کمبل نہیں جلایا جاتا بلکہ جوئیں کا علاج کیا جاتا ہے اسی طرح اگر کچھ جانور کانگو وائرس کے ٹک سے متاثر ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ قربانی نہ کی جائے بلکہ متاثرہ جانوروں کو صحتمند جانوروں سے الگ کرنے اور احتیاط کی گنجائش شریعت میں پہلے سے ہی موجود ہے۔لہذا محض اس بات پہ ملحدین کی طرف سے شریعت کے فریضہ قربانی کو نشانہ تنقید بنانا محض تعصب اور سائنسی جہالت ہے اور کچھ نہیں
کانگو وائرس کا سائنسی نام ’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ہے جس کی 4 اقسام ہیں۔ اس بیماری میں جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اس لئے ہر شخص کو ہر ممکن احتیاط کرنی چاہئے۔
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔ مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں۔ مریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔ لمبی آستینوں والی قمیض پہنیں۔ جانورمنڈی میں بچوں کوتفریح کرانے کی غرض سے بھی نہ لے جایا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کا ٹکس مختلف جانوروں کی جلد پر پایا جاتا ہے۔ یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ایسی کئ بیماریاں ہیں جو جانوروں سے انسان میں منتقل ہوتی ہیں مثلا بھیڑ بکری، بھینس لیکن انسان نے اج تک اس کا استعمال ترک نہیں کیا۔جس طرح کمبل میں جوئیں پڑنے کے بعد کمبل نہیں جلایا جاتا بلکہ جوئیں کا علاج کیا جاتا ہے اسی طرح اگر کچھ جانور کانگو وائرس کے ٹک سے متاثر ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ قربانی نہ کی جائے بلکہ متاثرہ جانوروں کو صحتمند جانوروں سے الگ کرنے اور احتیاط کی گنجائش شریعت میں پہلے سے ہی موجود ہے۔لہذا محض اس بات پہ ملحدین کی طرف سے شریعت کے فریضہ قربانی کو نشانہ تنقید بنانا محض تعصب اور سائنسی جہالت ہے اور کچھ نہیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔