Thursday 26 April 2018

کیا خدا کی ذات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود ہے؟

کیا خدا کی ذات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود ہے؟
سائنسی طریقہ کار دو باتوں پر یقین رکھتا ہے مشاہدہ اور تجربہ. مشاہدہ کسی چیز کا براہ راست دیکھنا.  لیکن جدید سائنس خصوصاً کوانٹم فزکس کے عروج کے بعد مشاہدہ کی تعریف میں ترمیم کی ضرورت پیش آئی ہے. اب ہم ایسی بہت سی اشیاء پر یقین رکھتے ہیں جن کا براہ راست مشاہدہ ممکن نہیں اور شاید کبھی ممکن نہ ہو. جیسے الیکڑران، پروٹان، کوارکس، بگ بینگ اور متوازی کائنات کا نظریہ. اس ترمیم کے مطابق اگر ہم کسی چیز کا براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے تو ہم اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے اس کی موجودگی کا یقین کر لیتے ہیں. ہم نے الیکڑران نہیں دیکھا لیکن اس کے اثرات میگنیٹک فیلڈ میں اور بجلی کے صورت میں ہمارے سامنے ہیں اس لیے ہم اس کے وجود کے قائل ہیں.
مشاہدہ کی بنیاد پر کسی شہ کی موجودگی کا یقین براہ راست استدلال کہلائے گا اسے ہمprimary rationalism کہتے ہیں اور بنا دیکھے محض اثرات کی بنیاد پر یقین بالواسطہ استدلال کہلاتا ہے جسے ہمsecondary rationalism کہتے ہیں.
جدید سائنس یعنی کوانٹم فزکس کے مطابق ہم کسی شہ کی مکمل حقیقت سے کبھی واقف نہیں ہو سکتے. آج سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ کسی بھی شہ کی حرکت، حالت حتی کے وقت بھی معین نہیں ہے یہ سب اضافی ہیں اور  ہم بیک وقت ان میں سے کسی کے بارے میں یقین سے یہ دعوٰی نہیں کر سکتے کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کیا ایسا واقعی ہو رہا ہے؟ کیونکہ اگر وہ منظر جو میں دیکھ رہا ہوں کوئی دوسرا شخص جو کسی مختلف حالت میں ہے دیکھتے گا تو اس کے لیے یہ منظر شاید مختلف ظاہر ہو. اس لیے جدید سائنس میں کسی بھی سائنسی نظریہ کو تسلیم کرنے کے لیے ایک اہم شرط یہ لگائی جاتی ہے کہ یہ نظریہ ہمارے مشاہدات کی درست تفہیم کرتا ہو اور مستقبل کے بارے میں ایسے پیش گوئیاں کرتا ہو جن کی تصدیق ممکن ہو.
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اگر ہم جدید سائنس کے اصولوں کو اپنائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی موجودگی کا نظریہ غیر سائنسی نہیں ہے. خدا قرآن میں کہتا ہے کہ اس کائنات میں، دن رات کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں. یہ نشانیاں کس کی ہیں؟ کسی ذات کی موجودگی کی نشانیاں جو عقل کل ہے. یہ کائنات، اس کی ترتیب، اس کا ربط سب اس بات کی نشانیاں ہیں کہ یہ نظام حادثاتی طور پر وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ کسی ذہین ذات کی تخلیق ہے. یہ بالواسطہ استدلال ہے یعنیsecondary rationalism. یہاں ہم اس کائنات کو دیکھتے ہیں، اس کے ربط کا مشاہدہ کرتے ہیں خود اپنے ذات پر غور کرتے ہیں اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ کائنات، اس کا ربط، انسان کا اپنا وجود اور انسان کا باشعور ہونا اور ہماری دنیا کی ہر شہ کا بامقصد ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سب کا ایک خالق حقیقی ہے اور وہ ایک واحد و یکتا خدا ہے.
کیا یہ استدلال ہمارے مشاہدات کی درست تفہیم کرتا ہے. کامن سینس کہتی ہے کہ ہاں یہ درست تفہیم ہے کیونکہ اگر ہم ایسی کسی ذات کے وجود کی نفی کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کائنات بے مقصد ہو جاتی ہے بلکہ خود انسانی وجود اور یہ زندگی بے مقصد ہو جاتی ہے. جبکہ ہم مشاہدہ کی بنیاد پر یہ دعوٰی کر سکتے ہیں کہ ہمارے مشاہدہ میں کوئی شہ بے مقصد نہیں. اس کائنات کو، انسانی وجود کو اور اس کائنات کی ترتیب کو اگر کوئی نظریہ معنی دیتا ہے تو وہ خدا کے وجود کا اقرار ہے. اور ہم یہ پیش گوئی پورے یقین سے کر سکتے ہیں کہ اس کائنات میں ربط ہمیشہ ملے گا یہ کائنات بے ربط،  بے ہنگم نہیں ہو گی. اس میں تضاد نہیں ہو گا. اور اس بات کا اشارہ قرآن میں بھی ملتا ہے
لَوۡ  کَانَ فِیۡہِمَاۤ  اٰلِہَۃٌ  اِلَّا اللّٰہُ  لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ  رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۲۲﴾
"اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ﴿ زمین اور آسمان﴾ دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ۔"
ہم قدم قدم پر دیکھتے ہیں کہ کائنات ہر شہ میں ربط ہے اس میں کہیں کوئی بگاڑ نہیں.
سائنسدان خود بھی اس ربط کا برملا اظہار کرتے ہیں. جیسے کہ
Physicist and author Paul Davies wrote, "The cliché that 'life is balanced on a knife-edge' is a staggering understatement in this case: no knife in the universe could have an edge that fine."
کائنات کے اس ربط کو سائنسدانfine tuning کا نام دیتے ہیں.
قرآن کائنات کے اس ربط کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے.
وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ دَآئِبَیۡنِ ۚ  وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ﴿ۚ۳۳﴾
"اور تمہاری خاطر سورج اور چاند کو اس طرح کام پر لگایا کہ وہ مسلسل سفر میں ہیں ، اور تمہاری خاطر رات اور دن کو بھی کام پر لگایا ۔"
قرآن ہمیں کائنات کی اس ترتیب پر غور کرنے کی نہ صرف ترغیب دیتا ہے بلکہ مظاہر فطرت کو نشانیاں کہتا ہے جنھیں دیکھ کر اہل عقل اس کی ذات کا ادراک کر سکیں.

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ  بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ  ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ  یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾
"بیشک آسمان اور زمین کی تخلیق میں ، رات دن کے لگاتار آنے جانے میں ، ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کا سامان لیکر سمندر میں تیرتی ہیں ، اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا اور اس کے ‎‏ّذریعے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع دار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں ، ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں ( ١٠٥)"

نہ صرف کائنات میں ربط ہے بلکہ ہم قرآن کی روشنی میں یقین کے ساتھ یہ دعوٰی بھی کر سکتے ہیں کہ اس سارے نظام کی ایک ابتداء تھی اور اس کا ایک اختتام بھی ہو گا. یہ دونوں نظریات جدید سائنس تسلیم کر چکی ہے.
وَ تَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا ﴿ۙ۹۹﴾
"اور اس دن ہم ان کی یہ حالت کردیں گے کہ وہ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے ، ( ٥١) اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو ایک ساتھ جمع کرلیں گے ۔"
اور دوسری جگہ اس طرح فرمایا.
اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ  وَ انۡشَقَّ  الۡقَمَرُ ﴿۱﴾
قیامت قریب آلگی ہے اور چاند پھٹ گیا ہے ۔ ( ١)
یہ وہ دعوی ہیں جو مستقبل میں قابل مشاہدہ ہیں اور جدید سائنس ان کے درست ہونے  کو آج ہی تسلیم کرتی ہے.
جس طرح ہم جدید سائنس میں ارتقاء،  بگ بینگ،  اور الیکڑران یا اس طرح کے دوسرے ذرات و نظریات کوsecondary rationalism بالواسطہ طور پر مانتے ہیں یہی طریقہ کار خدا کے وجود کے دلائل کے طور پر بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ عین سائنسی اصولوں کے مطابق ہو گا.
ہاں اگر  کوئی ایسا شخص جو جدید سائنس پر یقین رکھتا ہو اور  پھر بھی اصرار کرے کہ اسے خدا ہر صورت دکھائی دے تو اس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ الیکڑران و پروٹان و بگ بینگ،  ارتقاء اور دوسرے مشہور سائنسی نظریات کا ہمیں براہ راست مشاہدہ کروا دے.  اگر وہ بنا براہ راست مشاہدے کے ان اشیاء اور نظریات کو درست تسلیم کرتا ہے تو خدا کی ذات پر اعتراض کا کوئی سائنسی جواز اس کے پاس موجود نہیں

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

گڈ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔