Saturday, 30 December 2017

اربوں سال قبل بھی زمین پر زندگی کے آثار تھے،تحقیق

اربوں سال قبل بھی زمین پر زندگی کے آثار تھے،تحقیق
سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اربوں سال قبل بھی زمین پر زندگی کے آثار تھے۔
امریکی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دس سال کی تحقیق کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ زمین پر تین ارب نوے کروڑ برس قبل بھی زندگی کے آثارموجود تھے ۔
یہ تحقیق آسٹریلیا سے ملنے والے چٹانی پتھروں پر کی گئی ۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان پتھروں میں پائے جانے والے آثار بال سے بھی زیادہ باریک تھے اور دس سال کی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تقریبا ًچار ارب سال قبل زمین پر ابتدائی زندگی کے آثار موجود تھے۔
اس تحقیق کے مطابق زندگی نظریہ ارتقا کے دعووں کے برعکس نظریہ ارتقا کے دعووں سے بھی 500 ملین سال پہلے موجود تھی اور یہ نظریہ ارتقا کے دعووں کے برعکس گرم سمندروں میں نہیں بلکہ زمین پہ موجود گرم چشموں میں موجود تھی اور یہ نظریہ ارتقا کے دعووں کے برعکس زمیں پہ آج سے تین بلین یعنی تین ارب سال پہلے بھی موجود تھی۔اور یہ پروفیسر وان کرینی ڈانک کے مطابق صرف خوردبینی جانداروں کے برعکس جانداروں کے وسیع تنوع پہ مشتمل تھی یعنی نظریہ ارتقا کے دعووں کے برعکس۔اس طرح اس دریافت نے نظریہ ارتقا کے زندگی کی ابتدا کے حوالے سے دعووں اور مختلف جانداروں کے ارتقائی سلسلے کی تاریخ کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا ہے کیونکہ اگر زندگی آج سے چار ارب سال پہلے بھی صرف سمندروں کی بجائے زمین پہ موجود تھی تو مختلف جانداروں کے زمین پہ موجود ہونے کے حوالے سے نظریہ ارتقا کے جو تاریخی سلسلے ہیں وہ خود بخود ناقابل عمل قرار پاتے ہیں۔

مکمل تحریر >>

حاملہ عورت سے خون لینے میں ضروری احتیاط

حاملہ عورت سے خون لینے میں ضروری احتیاط
پیشکش: فیس بک گروپ سائنس فلسفہ اور اسلام
فیس بک پیج سائنس فلسفہ اور اسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیدرلینڈ کے سائنسدانوں نے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مریض خون لگوانے سے پہلے تسلی کرے کہ کہیں یہ کسی حاملہ خاتون کا تو نہیں۔
ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کبھی بھی حاملہ خاتون کا خون کسی مرد کو لگانا اس کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حاملہ خواتین کے خون میں بچے کی حفاظت کیلئے ایسی اینٹی باڈیز پیدا ہو جاتی ہیں جو مردوں کیلئے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔
اگر حاملہ خاتون کا خون کسی مرد کو لگا دیا جائے تو یہ اینٹی باڈیز خون کے ساتھ مردوں میں منتقل ہو کر ان کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
یہ تحقیقی رپورٹ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہوئی جس میں لیڈین کے سینکوین ریسرچ سنٹر کے سائنسدانوں نے 2005 سے 2015 کے درمیان نیدرلینڈ کے 6 ہسپتالوں میں انتقال خون کے باعث ہونے والی 31 ہزار 118 اموات پر تحقیق کی۔
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر روٹگر مڈلبرگ کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین کا خون مرد میں منتقل کرنے سے سب سے زیادہ اس کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
مذکورہ اینٹی باڈیز ہر اس خاتون کے خون میں پائی جاتی ہیں جو زندگی میں کبھی بھی حاملہ رہ چکی ہو۔ انتقال خون سے ہونے والی اموات میں ان مردوں کی اموات سب سے زیادہ ہوئیں جنہیں ایسی خواتین کا خون لگایا گیا جو زندگی میں کبھی حاملہ رہ چکی تھیں۔
اس کے برعکس جن مردوں کو دوسرے مردوں یا ایسی خواتین کا خون
مکمل تحریر >>

اصل انگریز اور لنڈے کے انگریز میں فرق

اصل انگریز نے جہاز ایجاد کئے
لنڈے کے انگریز خود جہاز بن گئے.

اصلی انگریز راکٹ بنانا پسند کرتے ہیں۔
کالے انگریز راکٹ پہ بیٹھنا۔

اصلی انگریز خلاء میں خوشیاں مناتے ہیں۔
لنڈے کے انگریز فٹ پیریوں پہ موم بتیاں جلاتے ہیں۔

اصلی انگریز ڈی این اے ٹیسٹ ٹیوب ایجاد کرتے ہیں۔
لنڈے کا انگریز ڈی این اے چیک کروانے کے مشورے سنتے ہیں۔۔

اصلی انگریز مصنوعی سیارے کو مدار میں جاتے دیکھتے ہیں۔
دیہاڑی دار انگریز باجی کو موٹر سائیکل والے کے ساتھ جاتے دیکھتے ہیں۔

اصلی انگریز خلاء میں جانے کے لئے خلائ ہیلمٹ کے شیشے کو ایمیون آئل سےصاف کرتے ہیں ۔
لنڈے کے انگریز موبائل کی اسکرین کو تھوک سے صاف کرتے ہیں۔۔

اصلی انگریز دماغ کو کام پر رکھتا ہے
لنڈے کا انگریز ہمیشہ****کو دماغ میں رکھتا ہے۔۔

اصلی انگریز سیارچوں کو ایلفابیٹ اور ہندسوں میں بانٹتے ہیں۔۔
لنڈے کے انگریز اپنی بہن کا موبائل نمبر لوگوں میں بانٹتے ہیں۔۔

اصلی انگریز ستاروں کے ٹکرانے کی آواز سے اس کے حجم کا پتہ چلاتے ہیں۔
بھاڑے کا انگریز بوٹوں کی آواز سے فوجی کے آنے کا پتہ بتاتے ہیں۔۔

اصلی انگریز سائنسی نظریات پر شواہد طلب کرتے ہیں
بھاڑے کے انگریز کم سن نوکروں کو گھر میں بند کرکے گھر والوں سے پیسے طلب کرتے ہیں۔

اصلی انگریز اپنے ملک کو قائم دائم رکھنا چاہتے ہیں۔
بھاڑے کے انگریز اپنا ملک توڑنا چاہتے ہیں۔

اصلی انگریز سائنسی ذرائع سے مجرمانہ سرگرمیاں ختم کرنا چاہتے ہیں۔
لنڈے کے انگریز قوم پرست دہشتگردوں کے ذریعے پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔۔

اصلی انگریز اپنے ایٹم بم اور نیو کلیئر ویپنس کو فروغ دیتے ہیں۔
بھاڑے کے انگریز اپنے ہی ملک کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف واویلا کرتے ہیں۔

اصلی انگریز دن رات تحقیقات اور مطالعہ کرتے ہیں۔۔
بھاڑے کے انگریز جعلی آئ ڈی بنا کردن رات مولویوں کو گالیاں دیتے ہیں۔۔

اصلی انگریز پڑھنے کے لئے اپنا گھر بار بیچ دیتا ہے۔۔
بھاڑے کا انگریز پیسوں کے لئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتا ہے۔۔

اصلی انگریز نت نئ ایجادات چاہتا ہے۔۔
لنڈے کا انگریز بس امریکہ کا ویزہ چاہتا ہے۔۔

اصلی انگریز ہبل دور بین سے خلاء کی اور دیکھ رہا ہوتا ہے۔
لنڈے کا انگریز مولوی کے پاجامے کی اونچائی نیچائی دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔

انگریز کہاں پہنچ گئے ۔۔دیسی باندڑ وہیں کے وہیں۔۔

....لنڈے کے انگریز پر کوئی تین حروف بھیج کر شیئر کریں۔۔۔
مکمل تحریر >>

مسلم سائنسدان ابو ریحان محمّد بن احمدّ البیرونی

خوارزم کے تاریخی شہر کے مضافات میں ایک قریہ بیرون واقع ہے۔ جسے دورِ اسلامی کے جامع صِفات سائنسدان ابو ریحان محمّد بن احمدّ البیرونی کے مولٙد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اُن کی ولادت ۹۷۳ء کو ہوئ۔ البیرونی آلِ عراق کا پروردہ تھا۔ اِس لیے اُسے انقلابِ حکومت کا بہت صدمہ ہوا۔ چناچہ اُس نے فوراٙٙ ترک وطن کا فیصلہ کیا اور جرجان کی راہ لی۔اُس کے بعد البیرونی جرجان رہا اور یہاں اُس نے اپنی پہلی تصنیف "آثار الباقیہ" ک۱۰۰۰ء میں مکمل کیا۔ اُس کے بعد علی بن مامون کی سفارش پر جرجان سے خوارزم آئے۔ اور یہاں اُس عہد کے اور فاضل زمانہ بو علی سینا سے ملاقات ہوئ۔ بو علی سینا بلعموم فلسفہ ارسطو کا مقلد تھا۔ لیکن البیرونی پوری آزادی سے ارسطو کی غلطیاں نکالتا تھا۔ بو علی سینا اور البیرونی کے درمیان اکثر علمٰی بحث و مباحثے ہوتے رہتے تھے۔
البیرونی کو خوارزم ہی میں اہلِ ہند کے حالات معلوم کرنے اور اُن کی زُبان سنسکرت سیکھنے کا شوق تھا۔ البیرونی نے چند علمی دوستوں سے رابطہ بڑھایا اور سنسکرت زُبان کے ابتدائ درس لینے شروع کیے۔ البیرونی نے اپنی پچاس سالہ تصنیفی زندگی میں جتنی کتابیں اور رسالے لکھے اُن کی تعداد ڈیڑھ سو سے ذائد ہے۔ اور اُن کے صفحوں کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے۔ یہ کتابیں اور رسالے ہر قسم کے علوم ریاضی، ہئیت، طبیعات، تاریخِ تمدن، علم آپارِ عتیقیہ، مذاہب عالم، ارضیات و کیمیا، حیاتیات اور جغرافیہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ البیرونی کی پہلی تصنیف "آثار الباقیہ" ہے، جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اِس کتاب کے اکیس باب ہیں جن میں دنیا کے مختلف اقوام اور مختلف مذاہب پوری تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔
البیرونی کی دوسری تصنیف "کتاب الہند" ہے۔اس کتاب میں ہر قسم کے مذہبی، تاریخی اور تمدنی معلومات کو جوکہ اہلِ ہند سے متعلق تھیں کو قلم بند کیا۔ البیرونی وہ پہلا شخص تھا جس نے دیگر مذہبی کتابوں مثلاٙٙ "بھگوت گیتا" ، "رمائن" ، "مہابھارت" اور "منوشاستر" وغیرہ کے اقتباسات کو عربی زُبان میں ڈھال کر "کتاب الہند" کی شکل میں پیش کیا۔
ہیئت اور ریاضی میں البیرونی کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ ایک کتاب کا نام "تفہیم" ہے۔ یہ کتاب چار سو صفحوں پر مشتمل ہے۔ البیرونی کی دوسری تصنیف "قانون مسعودی" ہے۔ اِس کتاب کی تیسری جلد علمِ مثلث سے متعلق ہے۔
البیرونی کا ایک حیران کُن کارنامہ زمین کے محیط کی پیمائش ہے۔ البیرونی نے اپنی تصنیف "قانون مسعودی" میں زمین کے محیط کا حوالہ دیا ہے۔ البیرونی کے مطابق زمین کا محیط ۲۵۰۰۹ء میل تھا۔ جدید پیمائش کے مقابلے میں البیرونی کی پیمائش میں محض 3 فیصد غلطی تھی۔ جوکہ حیرت انگیز طور پر کم ہے اور نظرانداز کیے جانے کے قابل ہے۔
البیرونی کی کتاب "آثار الباقیہ" کا انگریزی ترجمہ لندن سے ۱۸۷۹ء میں ہوا۔ اور دوسری کتاب "آثار الہند" کا ترجمہ لندن سے ۱۸۸۸ء کو ہوا۔ بدقسمتی سے البیرونی کی کتاب "قانونِ مسعودی" کا کسی بھی یورپی زُبان میں ترجمہ نہیں ہوا۔
تحریر
تالیف کردہ:مہر واصف الرحمنٰ
تحریر کردہ: محّمد ہارُون کانجو


مکمل تحریر >>

قیلولہ کی سنت نبوی اور اس کے ساینسی فوائد

قیلولہ کی سنت نبوی اور اس کے ساینسی فوائد
پیشکش: فیس بک گروپ اور پیج سائنس فلسفہ اور اسلام
۔۔۔۔۔۔
لیڈز یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق دوپہر کا وقت ایسا ہوتا ہے جب لوگوں کیلئے اپنے دفتری کام پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جبکہ تخلیقی سوچ بھی زوال کا شکار ہورہی ہوتی ہے۔ تو اس کا علاج دوپہر کو کچھ دیر کی نیند میں چھپا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ 20 منٹ کا قیلولہ لوگوں کی مسائل حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔ واضح رہے کہ قیلولہ حضور اکرم ﷺ کی سنت ہے جس کے متعدد فوائد اب سائنس بھی تسلیم کررہی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ دوپہر کو کچھ دیر کی نیند ذیابیطس، امراض قلب اور ڈپریشن جیسیاور ڈپریشن جیسی بیماریوں کا خطرہ بھی کم کرتی ہے خاص طور پر اگر آپ رات کو نیند پوری نہیں کرتے۔
تحقیق کے مطابق اگر آپ بھی رات کو چھ سے سات گھنٹے کی نیند نہیں لے پاتے تو دوپہر کو بیس منٹ تک کی نیند کارکردگی میں نمایاں مثبت فرق کا باعث بن سکتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ دوپہر دو سے چار بجے کے دوران صرف بیس منٹ تک سونا ہی واضح فرق کا باعث بنتا ہے۔ تاہم دوپہر کو کچھ دیر تک سونا ہی صحت کیلئے اچھا ہوتا ہے مگر اس دورانیہ طویل ہونا دل کے مسائل اور ذیابیطس جیسے امراض کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ انتباہ کچھ عرصے قبل امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
مشی گن یونیورسٹی کی تحقیق کے دوران 3 لاکھ سے زائد افراد کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا گیا جو افراد دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ دوپہر کی نیند لینے کے عادی ہوتے ہیں ان میں تھکاوٹ کا احساس بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جس کے باعث ذیابیطس کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
سارلینڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ دوپہر کو 45 منٹ تک کی نیند یا قیلولہ معلومات کا ذخیرہ ذہن میں برقرار رکھنے اور اسے دوبارہ یاد کرنے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ نیند کے دوران دماغی سرگرمیاں نئی معلومات کو محفوظ رکھنے کے لیے اہمیت رکھتی ہیں اور صرف 45 منٹ کا قیلولہ یاداشت کو پانچ گنا تک بہتر بناتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دن میں کچھ دیر کی نیند سیکھنے کے عمل میں کامیابی میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
خیال رہے کہ قیلولہ یا دوپہر کو کچھ دیر سونا سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیوروبائیولوجی آف لرننگ اینڈ میموری میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل رواں سال کے شروع میں امریکن ہیلتھ ان ایجنگ فاﺅنڈیشن کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ عادت دماغ کی عمر بڑھنے سے بچاتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ دوپہر میں ایک گھنٹے تک سونا دماغ کے لیے فائدہ مند ہے تاہم یہ دورانیہ اس سے زیادہ یا کم نہیں ہونا چاہئے ورنہ فائدہ نہیں ہوتا۔
تحقیق کے مطابق جو لوگ دوپہر میں ایک گھنٹے سونے کے عادی ہوتے ہیں وہ یاداشت، ریاضی کے مختلف سوالات اور دیگر چیزوں کو زیادہ بہتر طریقے سے کرپاتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی کارکردگی میں کمی آنے لگتی ہے مگر دوپہر کو سونے کی عادت ان افعال کو بہتر رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، جبکہ الزائمر یا دیگر امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس عادت سے دور رہنے والے افراد میں دماغی تنزلی کی رفتار زیادہ ہوتی ہے جبکہ کچھ منٹ کا قیلولہ کرنے والوں کو بھی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔

بشکریہ ہندوستان ٹائمز
مکمل تحریر >>

#دہریوں_سے_مکالمے_کے_لئے_کچھ_قیمتی_نصیحتیں

#دہریوں_سے_مکالمے_کے_لئے_کچھ_قیمتی_نصیحتیں
الحمدلله والصلوة والسلام على رسول الله
{پچھلے کچھ سالوں کے تجربات کا خلاصہ احباب کی خدمت میں}

1- دہریہ اور نیچری یوروپی ہو یا عربی یا عجمی اکثر و بیشتر حالات میں وہ نفسیاتی فٹنس کا محتاج ہوتا ہے ، اس کی پرابلم خدا اور دین کے ساتھ کم ہے پوری صراحت کے ساتھ کہا جائے تو اس کا مسئلہ اپنی نوعیت کا بہت خاص مسئلہ ہے وہ یہ کہ وہ نفسیاتی طور پر سوچتے سوچتے اپنے دل اور عقل کی اندرونی جنگ سے ہار چکا ہے اس کا ایک سبب وہ اہم سیاسی حوادث اور گردش ہائے روزگار بھی ہیں جن سے عرب اور دیگر اسلامی ممالک کو شرم ناک رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے ، یا اس سے بڑی عائلی اور خاندانی یا ذاتی مشکلات ہیں جن سے وہ دن بہ دن لڑ رہا ہے .
2- دہرئے اور دین بیزار سے آپ کو گفتگو اور سلوک میں نرمی اور حسن اخلاق سے پیش آنا چاہئے اللہ پاک نے موسی اور ہارون کو فرعون کے پاس از راہ نصیحت جاتے ہوئے کہا {فقولا له قولا لينا لعله يتذكر أو يخشى}
اس سے نرم گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت پکڑے یا خَشِیَّت اختیار کرے

جب یہ حُکْم مخلوق دو عالم کے سب سے بڑے کافر کے متعلق ہے تو یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں باقی رہتی کہ دوسرے کے متعلق یہ اہتمام اعلی درجے میں کیا جانا چاہئے۔دہرئے کے ساتھ آپ کی شفقت اور نرم دلی اور قلبی ہمدردی بناوٹی اور فرضی و تصنعاتی نہیں بلکہ حقیقی ہونی چاہئے ، بقول شاعر

تکلف سے بری ہے حُسن ذاتی
قبائے گُل میں گُل بوٹا کہاں ہے

اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس سے در گُزر کا معاملہ کریں اگرچہ وہ تمہارے ساتھ بدتمیزی اور درشت مزاجی کی انتہاء کردے؛

دلیل:- اس حوالے سے ہم سب کےلئے اس آدمی کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو دُور دراز شہر سے فقط (اگناسٹک) ربوبی ملحدین کے ایک گروپ سے مناظرہ کے لئے آیا تھا پس جنہوں نے اسے قتل کردیا اور اس کا خون بہا دیا لیکن بوقت موت بھی اس مرد مومن کی زبان پر جو کلمات جاری تھے وہ اس قدر سنہری اور قیمتی تھے کہ اسے قران نے نقل فرمایا ہے { قال يا ليت قومي يعلمون ﴿٢٦﴾ بما غفر لي ربي وجعلني من المكرمين ﴿٢٧﴾} سورة يس

اس نےکہا اے کاش میری قوم جان لیتی کہ کس چیز کے سبب میرے رب نے مجھے بخش دیا اور قابل اعزاز لوگوں میں شامل کر دیا ہے

آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ قتل کر دئے جاتے وقت بھی وہ مَردِ خُداوند جذبہ دعوت سے لبریز اپنی قوم کے اوپر مہربان تھا

اس لئے آپ بھی اپنے اندر ملحدین اور نیچریوں سے مناقشہ و مباحثہ میں تحمل اور شفقت کی خُو پیدا کیجئے !
4- جب کسی سوال کا جواب نا ہو تو صاف کہہ دیجئے کہ مجھے اس بابت علم نہیں یا مجھے تلاش کرکے جواب دینے کا موقعہ دیجئے کیونکہ قران کریم میں اسی بات کی تعلیم ہمیں دی گئی ہے
{فلم تحاجون فيما ليس لكم به علم}
جس چیز کے متعلق بے خبر ہو اس کے متعلق حجت کیوں کرتے ہو

اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ جس چیز کے متعلق علم نا رکھتا ہو اس کے متعلق کوئی بات کہے یا یا جھگڑا کرے ۔

4-اعلانیہ مجلسوں میں گفتگو سے بچیں تاکہ جس شخص کا الحاد سے دُور دُور کا لینا دینا نا ہو مُبادا اپنی کم علمی کے سبب وہ شکوک و الحاد کے فتنے میں گرفتار ہو جائے

کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے مصر میں ایک ملحد اور سیکولر کے درمیان ایک تاریخی مناظرہ ہوا تھا جس ميں رسمی طور پر تو فتح مومن مناظر کی ہوئی تھی لیکن جس شخص کو شہرت ملی یا جس کے اقوال پھیلے وہ لادین سیکولر مناظر تھا !

حضرت الامام اللالکائی رحمہ اللہ نے کیا ہی پتے کی بات کہی ہے لکھتے ہیں کہ
‫‏‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬: "فما جني على المسلمين جناية أعظم من مناظرة المبتدعة، فقد طرقت (بدعتهم) أسماع من لم يكن عرفها من الخاصة والعامة". شرح أصول الاعتقاد 1 / 29
مسلمانوں پر سب سے بڑی افتاد جو آن پڑی وہ اہل بدعت سے مناظرہ کرنا تھی اسلئے کہ مناظرہ کرنے سے ان کی بدعات کو خاص و عام لوگوں کے کانوں نے بھی سن لیا ۔
(معلوم ہواکہ الحاد کو ضروت سے زیادہ اپنے اعصاب پر سوار کرکے اسے زیادہ اہمیت نا دینا بھی اس کی موت کا سامان کرنے کا ایک فارمولہ ہے۔
لہذا لوگوں کی صاف ستھری فطرت کا خیال کرتے ہوئے مُلَمَّعْ اور مُزَخْرَف اقوال اور ملحدین کی دَجل و تلبیس کو فروغ نا دیجئے)
5- انٹرنیٹ پلیٹ فارم پر ملحد سے گفتگو کے بعد اسے ضرور کسی نا کسی کتاب یا آڈیو یا ویڈیو کا لنک ضرور دیں جس کا الحاد سے کوئی تعلق ہو ، آپ کو اس قسم کی فائلز اور کتابوں کا ضرور علم ہونا چاہئے جو آپ اور ملحد دونوں کے لئے بہر حال یکساں طور پر مُفِیْد ہو ۔

6- اپنی گفتگو میں شروعات سب سے قوی دلیل سے کرو جو شبہہ کو سب سے بہتر طریقے پر ڈائنامیٹ کرتی ہو ، بقیہ مانوس اور جانی پہچانی دلیلوں کا بعد میں استعمال کرو ؛ حضرت ابراہیم کے مناظرہ سے سیکھئے کہ جب انہوں نے نمرود سے مکالمہ کیا تو نمرود کے افکار کی دھجیاں اڑانے کے لئے براہ راست وہ دلیل پیش کی جس، سے فریق مخالف سے مجادلہ کیا جاتا ہے جس کی تاب وہ نہیں لا پاتا حتی کہ باطل کےپورے لاؤ لشکر استعمال کرتا ہے .
{ألم تر إلى الذي حاج إبراهيم في ربه أن آتاه الله الملك إذ قال إبراهيم ربي الذي يحيي ويميت قال أنا أحيي وأميت قال إبراهيم فإن الله يأتي بالشمس من المشرق فأت بها من المغرب فبهت الذي كفر}
7- تقابل ادیان کی اساسیات اور ابجدیات سیکھو اپنی گفتگو میں یقینا آپ کو ان اساسیات کی معلومات کی ضرورت پیش آئے گی ، اس لئے میں تمہیں ان کتابوں کے ہڑھنے کا مشورہ دوں گا جو رد عیسائیت و یہودیت اور وثنیت پر لکھی گئی ہیں توحید وتثلیث کے حوالے سے ون اور تھری ڈاٹ کام بہت بہترین ویب سائٹ ہے نیز شیخ احمد دیدات اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے لیکچرز بہت مفید ہیں
www.OnlyOneOrthree.com

www.Only1Or3.com

اس لئے کہ ان ویب سائٹس اور کتابوں اور لیکچرز میں ان بنیادی پوائنٹس کا ذکر ہے جس کے ذریعے آپ نا صرف نصرانی بلکہ ملحد کے ساتھ مکالمے میں بھی استعمال کرسکتے ہیں
8- اسلام کے صحیح ہونے اور یقین و ایمان کے مضبوط ہونے پر قِسم قِسم کی دلیلیں پیش کرنے پر حریص رہیں، توریت اور انجیل سے ان دلیلوں کا استعمال کیجئے جو نبی آخر الزمان کی بعثت و رسالت کا قطعی فیصلہ سناتی ہیں اس نوع کے دلائل سیکھو، .
9- ہمیشہ اللہ سے مدد طلب کرو اپنی نیت اس کے لئے خالص رکھو اپنے اعمال کے ثواب کی امید مخلوق سے نا رکھو
{ما أسألكم عليه من أجر}
کسی ملحد کی حالت پر رنجیدہ خاطر مت ہو اگر وہ وہ سرکش ہوجائے جیساکہ اللہ پاک نے اپنے نبی کو اسی بات کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا
{فلعلك باخع نفسك على آثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث أسفا} الکھف

10- آپ سب سے بس اتنا مطلوب ہے کہ مدعو کو حکمت اور اچھی نصیحت کے زریعے دعوت دو خدائی داروغہ اور وکیل نا بنیں کیونکہ آپ کا کام تبلیغ ہے ڈنڈے اور جبر و تشدد کے ذریعے شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہدایت کا اصلی حق دار کون ہے
کون راہ حق سچائی سے قبول کرنا چاہتا ہے اور کون فساد اور شر انگیزی پر آمادہ ہے.
اللہ پر بھروسہ رکھ کر اپنا کام کرتے

11-قرآن نے داعی وقت کو دعوت مکالمہ اور مناظرہ کی بنیادی تعلیم دیتے ہوئے اسی اہم نقطہ کی طرف رہ نمائی کی ہے کہ داعی جسے دین کی طرف دعوت دے رہا ہے اسے یہ کہہ کر مناظرہ کی محفل اور مکالمے کی میز تک لائے کہ
قُلۡ مَنۡ يَّرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ قُلِ اللّٰهُ ۙ وَ اِنَّاۤ اَوۡ اِيَّاكُمۡ لَعَلٰى هُدًى اَوۡ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏

آپ ان سے پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین سے تمہیں کون رزق دیتا ہے ؟ آپ کہئے کہ اللہ (ہی رزق دیتا ہے) اور ہم میں اور تم میں سے ایک فریق ہی ہدایت پر یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔

تشریح ۔ یعنی یہ بات تو فریقین (یعنی رسول اللہ اور قریش مکہ) میں مسلم تھی کہ رزق دینے والا اللّٰہ ہی ہے اب انسانوں کے لئے لازم تو یہی ہے کہ عبادت اسی کی جانی چاہئے جو کھانے کو دیتا ہے اور دیتا رہتا ہے۔ پھر آخر دوسرے معبودوں کو جن کا رزق کی پیدا یا تقسیم میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ کسی خوشی میں پوجا جائے، بنیاد تو دونوں کی ایک ہے کہ رازق اللہ ہے اور آگے اس کی دو راہیں بن گئیں۔ ایک ہم ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ گن اسی کا گانا چاہئے جو کھانے کو دیتا ہے اور ایک تم ہو کہ رزق دینے والے کو چھوڑ کر دوسروں کے گن گا رہے ہو۔ یا اللہ کی عبادت میں بلا وجہ شرک کر رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہم دونوں فریقوں میں سے ایک ہی حق پر ہوسکتا ہے اور تم خود ہی سوچ لو کہ حق پر کون ہو سکتا ہے اور گمراہی پر کون ؟

لیکن قبول مناظرہ کے بعد دوسرا مرحلہ اپنی دعوت پر کامل درجے یقین کا ہونا چاہئے ۔
مکالمے اور مباحثے کے میدان میں کود کر جو شخص یہ فکر لے کر باہر نکلے کہ اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب یا دوسرا دین یا دوسری فکر بہتر اور افضل ضابطہ حیات ہے ایسا انسان مخلوق میں سب سے جھوٹا ہے

قرآن مقدس میں ارشاد ہے

قُلۡ فَاۡتُوۡا بِكِتٰبٍ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ هُوَ اَهۡدٰى مِنۡهُمَاۤ اَتَّبِعۡهُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ

آپ ان سے کہئے : اگر تم سچے ہو تو اللہ کی طرف سے تم ہی کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے بڑھ کر رہنمائی کرنے والی ہو، میں بھی اس کی پیروی اختیار کروں گا۔

تشریح ۔۔ آپ ان کفار مکہ کو یہ جواب دیجئے کہ میں تو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کی کتاب کی پیروی کرنے کو تیار ہوں۔ اگر تمہارے پاس تورات اور قرآن سے بہتر کوئی ہدایت کی کتاب موجود ہے تو اسے چھپا کیوں رکھا ہے ؟ وہ لاؤ سب سے پہلے میں اس کی پیروی کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب اس لئے بتلایا کہ وہ تورات اور قرآن دونوں کو جادو کہتے ہیں اور جادو ایسی چیز ہے جس کا مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے اور اس سے بہتر قسم کا جادو لایا جاسکتا ہے۔ لہذا اگر یہ کتابیں جادو ہیں تو تم اس سے بہتر چیز کیوں پیش نہیں کرتے۔

اگلی آیت میں ذرا قدرے کھل کر فرمایا

فَاِنۡ لَّمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَكَ فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا يَـتَّبِعُوۡنَ اَهۡوَآءَهُمۡ‌ ؕ وَمَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰٮهُ بِغَيۡرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ

پھر اگر وہ کوئی جواب نہ دے سکیں تو جان لیجئے کہ وہ صرف اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تشریح ۔ ان کی باتوں اور ان کے اعتراضات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ لوگ قطعاً ہدایت کے طالب نہیں ہیں بلکہ یہ صرف ایسی کتاب کی پیروی کرسکتے ہیں جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ گویا یہ لوگ اپنی ہی خواہشات کے پیرو اور پرستار ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کو ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔

اس آیت سے صاف ہوتا ہے کہ
داعی دین کو اپنی دعوت کے سچ ہونے کا سو فی صدی ایمان و یقین ہونا چاہئے
ایک لمحے کا شک و ظن آپ کی دعوت کے لئے زہر قاتل ہے
لہذا اپنے میدان میں ماہر داعی دین اور مجاہد کو مخالف کافر و ملحد سے مکالمہ یا مباحثہ کرتے وقت پورے یقین و شرح صدر سے گفتگو کرنی چاہئے
کہ اے مخالف اگر تم واقعی سچ کے متلاشی اور کھوجی ہو تو مناظرہ قبول کرو۔۔

اب مکالمہ یا مناظرة إن شاء الله نافع اور فیصل ہوگا۔

12-دین اسلام پرقائم رهنا ( استقامت) بہت بڑی چیز ہے --شيطانى وسوسے نفسانى شبھات ہمیں اسلام اور تعلیمات اسلام سے بد ظن نا کردیں اسلئے احباب سے گذارش کی جاتی ہے کہ
فیس بوک پر جو لوگ دہریہ اور ملحدین سے صبح و شام سائبر جہاد کررہے ہیں وہ ان دعاؤں کا بطور خاص اہتمام فرمائیں جس سے ان کے دل مطمئن رہیں اور توفیق الہی ان پر سایہ فگن ہو
- دعا یہ ہے
-1(رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الوھاب ---
اے ہمارے رب ہمیں راه دکھلاکر ہمارے دل منحرف نا کیجیو خود كى رحمت عطا كرو یقینا تو ہی تو عطاکرنے والا ہے-

2-اور رسول اکرم اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے
"اللھم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک --
اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے پروردگار میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ-

3-- جب کوئی ایسا مسئلہ آجائے جہاں وقتی طور سے جواب نا بن پڑے وہاں بس اتنا کہ لیں
آمنت باللہ ربا و بالاسلام دینا وبمحمد رسولا------
میرا یمان یہ ہے کہ اللہ میرا رب ہے
اسلام میرا دین ہے
اور محمد میرے رسول ہیں----

اور اہل علم سے کسی بھی مشکوک مسئلہ کی تحقیق کریں تا کہ اپ کو اس مسئلہ میں دلی سکون مل جائے ---

۱۳.. یہ پتہ ہونا چاہئے کہ انسانی دل کمزور ہوتا ہے اور شبہات اس میں پیوست ہوجاتے ہیں لہذا کم علم بندے ملحدین کی محفلوں سے دور ہی رہیں جب تک پختہ دینی علم نا ہو انس سے مکالمہ مباحثہ نا کریں پہلے دہریوں کے پھیلائے جانے والے مختلف مرغوب موضوعات پر اپنی اصلاح اور تیاری و تربیت کرلیں تاکہ اپنا اور اپنے دوستوں کا دین بچاسکیں کہ دین سے زیادہ قیمتی کوئی شئی نہیں راتوں کو تہجد پڑھیں رب کے حضور گڑگڑائیں تہجد کی برکت سے دل کے زنگ مٹ جائیں گے اور آپ بھی زبان حال سے ملحدین کو مخاطب کرکے یہ کہتے نظر آئیں گے
اتحاجوننی فی اللہ و قد ھدانی

اگر اتنی استطاعت نا ہو تو سلامتی کے لئے خاموش رہیں ملحدین کے تعاقب کے لئے علمائے کرام کی خدمات لیں

14-ساتھ ہی ساتھ ایسے ساتھیوں کو رد دہریت کے خلاف بنائے گئے فیس بوک پر بنائے گئے گروپس پیجیز اور ویب سائٹس الحاد ڈاٹ کوم سے جڑا رہنا چاہئے تاکہ حسب ذائقہ علمی و فکری خوراک ملتی رہے

15-اگر اتنی استطاعت نا ہو تو سلامتی کے لئے خاموش رہیں ملحدین کے تعاقب کے لئے علمائے کرام کی خدمات لیں

یہ مسئلہ بہت خطرناک روپ دھار چکا ہے کہ بغیر کسی تیاری و ٹریننگ کے ہمارے نادان نوجوان ساتھی الحادی گروپس میں داخل ہوکر بغیر اسلحے کے لڑتے ہیں جب شبہات کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں تو مومن علمائے کرام کے پاس آکر کہتے ہیں
مجھے جواب دو ورنہ میں گھٹن سے ملحد ہوجاوں گا
دوسرا کہتا ہے کہ میں نے بہت چھان بین کی مجھے جواب نہیں ملا اسلئے ملحد ہوگیا
جبکہ وہ فیس بوک اور نیٹ کی دنیا چھوڑ کر محقق اور متخصص علمائے دین سے رابطہ کرتا تو اپنی مراد اور گوہر مقصود پاجاتا
یہ بات ذہن نشین رکھنی بہت ضروری ہے ان کفار اور منافقین کی مجلس میں شریک ہونا ان کا کلام پڑھنا شریعت کی روشنی میں ممنوع ہے ہاں چند قاعدہ و قانون کی پاس داری کرکے آپ شریک ہوں لیکن جہاں استہزا عام ہو وہاں سے اٹھ جائیں
جیسا کہ قران میں ہے
[ وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا فأعرض عنهم حتى يخوضوا في حديث غيره وإما ينسينك الشیطان

دوسری جگہ فرمایا گیا ہے

(وقد نزل عليكم في الكتاب أن إذا سمعتم آيات الله يكفر بها ويستهزأ بها فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره إنكم إذا مثلھم )

گفتگو بہت لمبی ہوگئی لیکن مجھے لگتا ہے بہت ساری ضروری باتیں آچکی ہیں جو نہیں آسکی ہیں ان کے لئے میں اپنی اہم ترین پوسٹوں کے لنکس ریفر کر رہا ہوں امید کہ باذوق افراد کو نفع ہوگا
مرزا سودا کے شعر کے ساتھ اجازت چاہتاہوں
قصہ خدا کے واسطے کر سودا مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے افسانوں میں

https://m.facebook.com/groups/186560831534965?view=permalink&id=438898836301162

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1439316242832976&id=100002638427120

https://m.facebook.com/groups/186560831534965?view=permalink&id=689619714562405

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1218547014909901&id=100002638427120

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1229136520517617&id=100002638427120
مکمل تحریر >>

فتنہ الحاد اور جدید تعلیمی ادارے

فتنہ الحاد اور جدید تعلیمی ادارے
انجینئر عامر خان نیازی
نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا:
كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْمِلَّةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُشَرِّكَانِهِ (سنن الترمذي:2138)
ہر بچہ ملت پہ پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی یامشرک بنادیتےہیں۔
ایک دوسری حدیث میں ملۃکی جگہ فطرۃ کالفظ ہےاور اصل میں ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے جو کہ اسلام ہے جیساکہ محدثین نےاس کی وضاحت کی ہے کیونکہ یہاں فطرت سے مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ رب العزت نے عالم ارواح میں ہم سب سے لیا تھا کہ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْاور ہم سب نے اسکے جواب میں کہا تھا کیوں نہیں اے رب العالمین۔
یہی بچہ جو کہ اصلا مسلمان اور مومن ہوتا ہے جب ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے والدین اور اردگرد رہنے والوں کی نقل کرنے لگ جاتاہے اور ان ہی جیسا بن جاتا ہے اس حدیث اور اسکی تشریح کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ بچوں کی تربیت کی کیا اہمیت ہے!
ہمارے معاشرے میں بچے ذرا سا ہوش سنبھالتے ہی سکولوں میں داخل کر دئیے جاتے ہیں اور والدین سے بھی زیادہ اثر بچے اپنے اسکولز کے ٹیچرز اور اردگرد کے بچوں کا لیتے ہیں اور یہیں سے بچوں کی وہ ذہنی نشوونما ہوتی ہے جس سے انکے رحجانات کا تعین ہوتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے سے اپنوں اور اغیار کا خاص نشانہ ہمارا نظام تعلیم ہے کیونکہ یہی وہ نسل نو ہے جو کل کلاں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے اور کیونکہ زمانہ طالب علمی وہ دور ہوتا ہے جس میں اذہان ہر نئی چیز کو قبول کرتے ہیں اور اگر مناسب وقت پہ رہنمائی نا کی جائے تو یہ نئے خیالات اور نظریات ذہن کے مستقل مکین ہو جاتے ہیں اور اس نوخیز دماغ کو کسی نا کسی فتنے کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں ۔نعوذ باللہ من ذلك
گزرے چند برسوں میں جدید تعلیمی اداروں اور وہاں پڑھنے والے طلبا کے لیے جو نیا فتنہ بھرپور طریقے سے آیا ہے وہ سیکولرازم اور لبرل ازم ہے جس کی انتہا الحاد ہے اور یہی اس تحریر کا موضوع گفتگو ہے۔
یقینا بہت سے اس بات سے چونک گئے ہونگے اور بہت سے ایسے ہوں گے جو اس سے اتفاق نہیں کر پا رہے ہونگے لیکن یہ فتنہ ہمارے در تک اچانک تو آیا نہیں کہ جس کے آنے کا معلوم ہو جاتا بلکہ اسکے پیچھے برسوں کی وہ پلاننگ موجود ہے جس کی وجہ سے یہ فتنہ اب زور آور ہو چکا ہے، اس پلاننگ میں نصاب پہ اثرانداز ہونا، معلمین کی ایسی کھیپ جو ان مقاصد کے لئے فائدہ مند ہو، پھر تعلیمی اداروں کا ماحول ایسا بنا دیا جانا کہ مذہب پہ عمل کرنا مشکل تر اور لہو و لعب کی محافل آسان تر لگیں اور ایک اور حربہ جو استعمال کیا گیا وہ این جی اوز کا تعلیمی اداروں میں بڑھتا ہوا رسوخ ہے۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے فوری بعد لارڈ میکالے کے لائے گئے اس نظام تعلیم کو ہی پاکستان کا نظام تعلیم بنا دیا گیا جس کے بارے میں اس نظام کے بانی لارڈ میکالے نے خود کہا تھا کہ اس نظام تعلیم سے ہم ایسے افراد تیار کریں گے جو ہونگے تو ہندوستان کے رہنے والے لیکن وہ وفادار انگریزوں کے ہونگے یعنی سادہ لفظوں میں دیسی مکس ولایتی دانشوڑ !
بدقسمتی سے پاکستان میں بھی وہی نظام تعلیم نافذ العمل رہا اور اسکے ساتھ ساتھ برطانوی دور کے چھوڑے ہوئے مشنری اسکولز جوں کے توں قائم رہے جن میں عیسائی تربیت یافتہ اساتذہ پڑھاتے تھے۔ مزید برآں ہماری اس سائیکی نے کہ انگلش زبان ہی ترقی کا زینہ ہے ہم نے امریکن سکول سسٹم اور برطانوی سکول سسٹم اپنے ہاں برآمد کیے۔ ان سسٹمز کے تحت چلنے والے سکولز میں نصاب مکمل طورپر غیر اسلامی ہے جس میں اردو اور اسلامیات کی کتب کو شامل تو کیا گیا لیکن ان میں ایسے اسباق شامل کیے گئے جو بجائے بچے کے نظریات مضبوط کرے بلکہ اس میں تشکیک پیدا کرتے ہیں۔ سکولز میں تو یہاں تک ہے لیکن یونیورسٹی لیول پہ آزادی اظہار رائے کے نام پہ کورس آوٹ لائن کے نام پہ عجیب گل کھلائے جاتے ہیں جہاں ایسی اسائنمنٹس اور پروجیکٹز شامل کیے جاتے ہیں جو کہ الحاد کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے پر اس پر ہماری خاموشی اور بھی تشویشناک ہے یہ نصاب عموما غیر ملکی این جی اوز، پاکستان میں کام کرنے والے آزادی اظہار رائے کے ادارے مل کر بناتے ہیں اور اس پہ عمل کرانے کے لیے اگلا مقصد ٹیچرز کی تربیت ہوتی ہے۔
کسی بھی نصاب کو عملی طور پہ کامیاب کرنے کے لیے یقینا ٹیچرز ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں دیار غیر سے پڑھے ٹیچرز کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ یہ معمار قوم تو اپنی حب الوطنی اور دین پہلے ہی یرغمال بنا کر آ چکے ہوتے ہیں یا پھر مقامی طور پہ تیار ٹیچرز کو بار بار ٹریننگ کے نام پہ این جی اوز سے تیار کروایا جاتا ہے جس سے انکے اذہان بھی کسی حد تک بدل ہی جاتے ہیں۔ نصاب اور ٹیچر دونوں جب بدل جاتے ہیں تو پھر تشکیک کا بیج با آسانی معصوم کونپلوں کے ذہن پہ نمو پانے لگتا ہے۔
تشکیک جو کہ الحاد کی پہلی سیڑھی ہے اس طریقہ واردات کے لیے ہر طرح کے مضامین سے مددلی جاتی ہے آپ اسلامیات پڑھ رہے ہیں تو اسلامی تاریخ کے بارے ابہام پیدا کرنا یہ باور کرانا کہ مسلمان جب مضبوط تھے تو انھوں نے قتل عام کیا، احادیث کی سند کو مشکوک ٹھہرانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عدالت کو غلط ثابت کرنا۔ ادبی مضامین کا تو اللہ ہی حافظ ہے کہ ناول اور افسانوں میں محبت وعشق کے نام پہ براہ راست اللہ سے شکوے شکایتیں اور جنگ کرنا، اسی طرح سوشل سائنس کے مضامین میں خاندانی نظام، غربت، معاشرے کے اندر بڑھتی عدم رواداری اور اس پہ مذہب کو قصوروار ٹھہرانا اور اس طرح منفی نفسیاتی رویوں کی وجہ اسلام پہ عمل کرنے کو ٹھہرانا۔
سائنس کے مضمون میں ڈارون کی تھیوری آف ایولوشن اس شدومد سے پڑھانا کہ کہیں نا کہیں پڑھنے والا اسکا قائل ہو جائے، تخلیق کے متعلق عجیب و غریب باتیں کرنا یہ سب وہ نکات ہیں جو ایک عام طالب علم کو آسانی سے الحاد کی طرف لےجاتےہیں اوراردگردمذہب کی مناسب راہنمائی نا ہونے کی وجہ سے یہی نظریات اس کو دین سے برگشتہ کرنے لگ جاتے ہیں یا پھر اس کا ایک اور ردعمل ہوتا ہے وہ کہ یونیورسٹیز کے طلباء شدت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے سوالوں کے جواب نا پا کے گالم گلوچ، دوسروں کو گمراہ اور کافر قرار دینے اور آخرکار خارجیت کی راہ لیتے ہیں۔ اس امر کی نشاندہی سندھ حکومت بھی کر چکی ہے کہ یونیورسٹیز کے طلبا اس قسم کی شدت پسندی کا شکار ہیں
تشکیک کے اس سفر میں آغاز ان باتوں سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو بھی سوال ہے وہ پوچھیے، اگرچہ یہ ایک مثبت بات ہے لیکن اسکو بنیاد بنا کر مذہب کے خلاف سوال اٹھائے جاتے ہیں، اسی طرح کے ایک واقعہ جو کہ ہمارے لیکچرار نے ایک کلاس میں اعلان کیا کہ آپ جو سوال پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیے، ایک ساتھی نے فوری سوال کیا کہ احادیث کے بارے اکثر اعتراضات ہوتے رہتے ہیں انکا کیسے جواب دیا جائے۔ لیکچرار خود اسی قبیل سے تھے کہنے لگے بیٹا اب باتیں تو انکی ٹھیک ہوئی ہیں، دیکھیں نا امام بخاری نے بھی تو دو لاکھ احادیث ضائع کیں تھیں۔ اب اس سوال کو لے کے بہت دن ڈسکشن ہوتی رہی اور بہت سے طلبا کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ امام بخاری نے احادیث ضائع کی ہیں اور احادیث کا جو مجموعہ ہم تک پہنچا ہے وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔
تیسرا جو حملہ کیا گیا وہ این جی اوز اور اس قبیل کی تنظیموں کا حملہ تھا جو ریسرچ اور تفریح کے نام پہ تعلیمی اداروں میں اپنی تقریبات کرتی ہیں اور مختلف اوقات میں ٹریننگ سیشنز، پروگرامز کرتی ہیں اور ان اداروں میں ہونے والے مختلف حیا باختہ پروگرامز کو سپانسر کرتی ہیں، ان کا طریقہ واردات بھی غیر محسوس سا ہوتا ہے مثال کے طور پہ مختلف سوالنامے فل کروانا، جس میں عجیب و غریب
سوالات ہوتے ہیں، مثلاً آپ مذہب پہ کتنا عمل کرتے ہیں؟ آپ کو اللہ پہ کتنا یقین ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں موجودہ دین ہماری دنیاوی ضروریات کو سمجھتا ہے؟ اسی طرح یہ احساس پیدا کرنا کہ اسلام آوٹ ڈیٹ ہو چکا ہے، مذہب اور دنیاوی زندگی الگ معاملات ہیں۔ اسی طرح دینی موضوعات پہ سیمینار کا انعقاد اور ان میں ایسے غامدی ٹائپ لوگوں کو دینی اسکالرز کے نام پہ بلایا جانا جو خود اسی فکر کے ہوتے ہیں اور انکو اس طرح متعارف کروانا کہ یہ دین کی جدید تعبیر کو سمجھتے ہیں اور فرقہ واریت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ وہ سب حربے ہیں جن کی مدد سے تشکیک، لبرل ازم کو فروغ دیا جاتا ہے اور یہی مراحل آخرکار الحاد پر منتج ہوتے ہیں۔ الا من رحم ربی!
اب کرنا کیا چاہیے یقینا اللہ کا یہ دین اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے اور اس نے غالب ہو کے رہنا اور ہمارا مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس دین کی سربلندی کے لیے کچھ کر جائیں۔
سب سے پہلا قدم تو گھر میں بچوں کی مکمل قرآن و حدیث کے مطابق اسلامی تربیت کا انتظام کیجیے انکے سوالات کا جواب دیجیے، اپنے بچوں کو اللہ پاک کا مکمل تعارف کروائیے، اسلام کے محاسن سے آگاہ کیجیے، نبی کریم ﷺکی بطور مبلغ قربانیوں سے انکو روشناس کروائیے، مستند اسلامی تاریخ کا مطالعہ کروایں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے روشن کردار کا بتائیے، تدوین احادیث اور محدثین کی لازوال اور انتھک محنت سے انھیں آگاہ کریں۔
لیکن پھر بھی بہت سے اسلامی اسکولز موجود ہیں ان میں اپنی اولادوں کو بھیجیں، انکے نظریات و خیالات کا مکمل احتساب کریں، اگر آپ کو ایسے تعلیمی ادارے نہیں ملے اور آپ کی اولاد، بہن بھائی ایسے کسی دوسرے اداروں میں داخل ہیں تو انکی سرگرمیوں اور افکار پہ نظر رکھیں اور کم ازکم تعلیمی ادارے کے پراگندہ ماحول کا مداوا کرتے رہیں جس کیلئے اپ کو انھیں گھر اور مسجد میں بہتر ماحول فراہم کرنا ہو گا۔
اس کے علاوہ ایسے اداروں میں یقینا بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں انھیں چاہیے کہ بطور معلم اپنے فرائض کا احساس کریں اور طلبا کی علمی اور نظریاتی بنیادیں مضبوط کریں، این جی اوز کے مدمقابل جو اسلامی علمی اور رفاہی تنظیمیں موجود ہیں اگرچہ وہ بہت کم ہیں لیکن انکا وجود غنیمت ہے اس لیے ان کی ہر ممکن مدد کریں۔
ان سب فتنوں نے اس لیے جگہ بنائی کیونکہ ہمارا اپنا رشتہ اللہ عزوجل اور اسکے دین سے مضبوط نہیں رہا اسکو مضبوط بنائیں اور اسکو مضبوط کرنے کے لیے مساجد جو کہ اللہ کے گھر ہیں انکو نوجوان نسل میں مقبول بنایا جائے، انکا ماحول اس طرح کا بنایا جائے کہ آج کا نوجوان ادھر آنا پسند کرے اور اسکا دل وہاں سکون محسوس کرے، وہاں ایسی سرگرمیاں شروع کی جائیں جو فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر خالص قرآن وسنت کی تعلیمات پر مشتمل ہوں اور جدید ذرائع کو استعمال کرتے قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کو پڑھایا جائے، احادیث نبویہ کے دروس دئیے جائیں جس میں جدید نسل کے سوالات کے جوابات ہوں۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمارے نیک اعمال قبول فرمائے، ہمارے دلوں کو ایمان سے منور کرے اور الحاد، لبرل ازم اور اس قبیل کے سب فتنوں سے ہمیں بچائے، ہماری نسل نو کو دین کا صحیح معنوں میں خادم بنائے

مکمل تحریر >>

الحاد کیا ہے ؟ (تربیتی سلسلہ)

الحاد کیا ہے ؟
(تربیتی سلسلہ)
تحریر : محمّد سلیم
الحاد کا لفظ لحد سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ایسی قبر جس میں درز بنائی جاتی ہے ۔ عربی زبان میں بھی اس کا مطلب اپنی جگہ سے ہٹا ہوا ہونا, راہ راست سے ہٹا ہوا ہونا اور انحراف ہیں ۔
انہیں دہریئے بھی کہتے ہیں ۔ عربی زبان میں دہر زمانے کو کہتے ہیں ۔ قران میں جہاں اہل کتاب, یہود, نصاریٰ, کفار, مشرکین اور منافقین کو عذاب کی وعید دی گئی ہے وہاں دہریت کا پہلو بھی تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ قران مجید کی اگر سورہ الجاثیہ اور سورہ الفرقان کو پڑھا جائے تو زیادہ تر آیات ایسے لوگوں کا ذکر کرتی نظر آتی ہیں جو اس دنیاوی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں ۔ ﷲ کے کلام کا مذاق بناتے ہیں ۔ روز جزا ان کے نزدیک ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ سورہ الفرقان میں وہ اعتراضات مومنوں کو بتائے گئے ہیں جو الحاد کا صبح شام کا وطیرہ ہے ۔ مثلاً قران ایک شخص نے خود گھڑ لیا یا خدا ہمارے سامنے آئے تو ہم اسے مانیں ۔ سورہ الجاثیہ ان لوگوں کی بات کرتی ہے جو روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے ۔
سورہ الحاثیہ ۔ آیت نمبر 24
وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ۚ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ ﴿۲۴﴾
"کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے ۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے ( دراصل ) انہیں اس کا کچھ علم ہی ۔ نہیں یہ تو صرف ( قیاس اور ) اٹکل سے ہی کام لے رہے ہیں ۔"
دہریت دراصل دنیاوی زندگی میں مبتلا ہو جانے کا نام ہے ۔ قوانین سے بغاوت, ضابطوں اور قاعدوں سے فرار, بس اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دینا کہ اس زندگی کے بعد کچھ نہیں ۔ انسان کا پیدا ہونا ایک حادثہ ہے اور مرنے کے بعد سب کچھ ختم ہو جائے گا ۔
الحاد کے اسباب بے شمار ہیں ۔ مگر بنیادی سبب خواہش نفس کی غلامی ہے ۔
سورہ الجاثیہ ۔ آیت 23
اَفَرَاَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٝ هَوَاهُ وَاَضَلَّـهُ اللّـٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشَاوَةًۖ فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْ بَعْدِ اللّـٰهِ ۚ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ (23)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے ۔"
سورہ الفرقان ۔ آیت 43, 44
اَرَاَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٝ هَوَاهُۖ اَفَاَنْتَ تَكُـوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًا (43)
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُـمْ يَسْـمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ ۚ اِنْ هُـمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ ۖ بَلْ هُـمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا (44)
"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے، پھر کیا تو اس کا ذمہ دار ہو سکتا ہے۔
یا تو خیال کرتا ہے کہ اکثر ان میں سے سنتے یا سمجھتے ہیں، یہ تو محض جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔"
ان آیات میں ایسے لوگوں کو واضح طور پر جانوروں سے تشبیہ دی جا رہی ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ ایک جانور کی زندگی کا کوئی اصول نہیں ہوتا ۔ کوئی ضابطہ کوئی قاعدہ نہیں ہوتا ۔ ہر وہ کام کرنا جس کی خواہش نفس میں ہو ۔ بغیر اس خوف کے کہ کوئی حساب ہو گا یہ دارصل جانوروں کا ہی وطیرہ ہے ۔
آپ کسی جانور سے صلہ رحمی کی توقع نہیں رکھ سکتے ۔ ایک دوسرے کی عزت کرنا, احترام کرنا, ایک دوسرے کی مدد کرنا, اپنے کمائے ہوئے مال سے خریدی گئی روٹی میں اپنے بھائی کو شریک کرنا, صدقہ, خیرات, زکات, انصاف, یہ سب جانوروں کی فطرت میں نہیں ہوتا ۔
انسان کی سوچ اور خواہش آخرکار اسے اسی نتیجے تک پہنچا دیتی ہے جس کی طرف اس کی تگ و دو ہوتی ہے ۔ جانوروں کی طرح زندگی گزارنے کے خواہاں آخرکار اس بات پر یقین کر لیتے ہیں کہ ہم درحقیقت جانور ہی تھے, جانور ہی ہیں اور جانور ہی رہیں گے ۔
مذکورہ آیت میں محض جانور نہیں کہا گیا ۔ بلکہ بعض معاملات میں یہ جانوروں سے زیادہ گئے گزرے ہیں ۔
مقدس آیات و شخصیات کی بے وجہ تضحیک و توہین جانوروں کا خاصہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ وہ عمل ہے جو کسی انسان کو جانور سے بھی بدتر بنا دیتا ہے ۔
سورہ التین ۔ آیت 4, 5
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ (4)
ثُـمَّ رَدَدْنَاهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ (5)
"بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔
پھر اسے الٹا پھیر کر سب نیچوں سے نیچ کر دیا ۔"
مکمل تحریر >>

The new darling of evolutionists after Lucy in the great game of supposed human evolution,the Kenyanthropus

The new darling of evolutionists after Lucy in the great game of supposed human evolution,the Kenyanthropus
Compiled by Dr Aheed Hassan

Kenyanthropus platyops is a 3.5 to 3.2-million-year-old (Pliocene) hominin fossil discovered in Lake Turkana, Kenya in 1999 by Justus Erus, who was part of Meave Leakey's team.
The discovery of these fossils led to the prediction of an early diet-driven adaptive radiation, which is when species diversify to fulfill new ecological niches; this would be attributed to the fact that many new species of Australopithecus and other hominins were being discovered that pre-dated or lived around the same time as Australopithecus afarensis. This indicated that species were much more diverse in the distant past than previously thought.Even with the findings of a skull, their diet is still relatively unknown at this time. Also, no evidence of material culture or anything that would lead to its behavioral adaptations or lifestyle has been discovered at this time.
In 1999, Meave Leakey led an expedition in Kenya to dig for fossils, the second such expedition in the area.A member of the team, Justus Erus, discovered a skull in the Nachukui Formation at Lomekwi, an area of specific geology right next to the lake. The total number of fossils recovered from both expeditions at the dig sites included a temporal bone, three partial mandibles, two partial maxillae, and forty four teeth, but it was the skull dubbed KNM-WT 40000 that sparked the most scientific interest because of its relative completeness (Leakey 2001). This skull had many characteristics that had been seen before in other specimens, however the combination of features had never been seen before; this led scientists to realize that this was indeed a separate and unique species.
The Kenyanthropusalso shows many differences to Homo, as well as Ardipithecus, which leaves only the Australopithecus. The cranial structure of the Kenyanthropus has a few similarities to the Australopithecus, such as brain size, parts of the nasal, the suborbital and the temporal regions, but the differences far outweigh the similarities leading to its new genus.
Having smaller molars at the date they existed, it is possible that the previous sister taxon of all modern hominins, Preanthropus afarensis, should be replaced by Kenyanthropus. Fragmentary specimens which were having trouble being classified are now being assessed to see if they fit with the Kenyanthropus.
Kenyanthropus platyops was singled out by the morphology of the maxilla, characterized by a flat and relatively orthognathic subnasal region, an anteriorly placed zygomatic process and small molars. In other words, the Kenyanthropushad small molars and a flat face which resembled anatomically modern humans. Other features of the Kenyanthropus are thick enamel, steep nasal cavity entrance and moderate mandibular depth.
Kenyanthropus platyops actually made the evolutionary path of the hominins more confusing, because of the fact that the specific species represented a new type of species and genus. However, after the discovery of the fossil in Kenya, it came to the notion that the K. platyops were one of the earlier species, living in the same time of the Australopithecus afarensis. After the finding of the K. platyops skull, the common ancestor has shifted to the K. platyops from the A. afarensis.
Very little is known about Kenyanthropus platyops—a flat-faced, small-brained, bipedal species living about 3.5 million years ago in Kenya. Kenyanthropus inhabited Africa at the same time as Lucy’s species Australopithecus afarensis, and could represent a closer branch to modern humans than Lucy’s on the evolutionary tree. Before the discovery of the only known skull of this species in 1999, the earliest fossil evidence known for a flat-faced early human, a significant shift in skull structure, was around 2 million years ago.But it is false.There is no evidence only on the discovered skull that it was bipedal or more close to humans but it has put more confusion on the part of evolutionists as it has shown that many of the so called ancestors of human were present at a same time in history making all human evolutionary tree false.The second thing is that the discovery of this fossil shows the scientific flaws in supposed human evolution that the Lucy which was supposed human ancestor for many years has been denied and new fossil has been claimed human ancestor.Every discovered fossil is claimed to be human ancestor by evolutionists but they are failed to prove it till today and every new discovered fossil adds to their confusion.
Below are some of the still unanswered questions about Kenyanthropus platyops that may be answered with future discoveries:
How large were Kenyanthropus platyops individuals? Was there a big difference between the sizes of males and females? Is Kenyanthropus platyops more closely related to modern humans than Australopithecus afarensis (Lucy’s species)?Does KNM-WT 40000 actually represent a new genus and species, or are its unique skull traits a result of distortion caused by depositional process?What gender was KNM-WT 400000? Its small teeth resemble those of a female, but the temporal lines on the skull reflect larger chewing muscles more similar to many early human males.KNM-WT 40000 resembles KNM-ER 1470, another flat-faced early human skull usually attributed to the Homo rudolfensis. Was Kenyanthropus platyops the ancestor of Homo rudolfensis?
Evolutionists without answering or knowing these questions, are insisting on it as a human ancestor.
Others in the scientific community believe more fossil evidence is needed before we can place Kenyanthropus within our family tree, as the only known skull from the species was found badly distorted. These scientists believe Kenyanthropus platyops is no more than a variant of Au. afarensis.
Kenyanthropus platyops is so far the only species belonging to the Kenyanthropus genus.So even many of scientists are reluctant to accept this badly distorted skull as human ancestor but evolutionists like always are trying to forcefully put it in supposed human evolutionary tree.
The species remains an enigma, and it supports the view that between 3.5 and 2 million years ago there were several human-like species, each of which were well adapted to life in their particular environments.
Tim White (2003) has claimed that this fossil is so severely distorted that it cannot be reliably identified, and that it may merely be a Kenyan version of Australopithecus afarensis.
At the time, anthropologists disagreed over K. platyops‘ identity and place in the human family tree. While some researchers take the species as a sign that there was a diversity of hominid types around during the middle Pliocene epoch, others say the K. platyops skull is not actually a distinct species at all—it’s simply a distorted skull of an A. afarensis.
The March 22, 2001, issue of Nature revealed an older specimen named Kenyanthropus platyops. It was dated at 3.5 million years old, and consisted of several bones and teeth, but especially a fairly complete, although "distorted" cranium. It is this skull which mainly distinguishes it from Lucy, for the face seems flatter, with jaw protruding slightly less than other chimps, and somewhat smaller molars. Since humans have relatively flat faces and small molars, platyops, being older and more "human," knocks Lucy right out of our family tree.
This is an event of no small magnitude, for Lucy has been the darling of evolutionists since the 1970s. It was claimed that she "proved" that man came from an ape-like ancestor, and she found her way into museums, textbooks, TV specials, and kids books. Diatribes against creationist critiques of Lucy were arrogant and vicious. Losing her should hurt!
According to Meave Leakey et al. in Nature, the "distorted" skull exhibits "expansion" and "compression" subsequent to burial. Furthermore, the flatness of the face is not visible in the photographs published. The jaw protrudes noticeably, and must be only a fraction less pronounced. The teeth were small for Australopithecus, but variety is expected with such a low number of specimens.
A new fossil discovery that is contemporaneous with Australopithecus afarensis in the middle Pliocene has caused paleoanthropologists to admit that their claims for A. afarensis as the distant human ancestor were too simplistic.The new skull has a much smaller cranial capacity than 1470, but because it is badly distorted, it's capacity is difficult to measure. However, it is said to be the size of a chimpanzee's skull, and in the range of the skulls of A. afarensis and A. africanus.
Creationists will claim, correctly, that the lack of specificity in the human fossil record is further proof that human evolution is a philosophical, rather than a scientific concept. Paleoanthropologists, never troubled by a lack of specificity, will claim that linear evidence for human evolution is not necessary. The diversity of the human fossil record is now so similar to the bush-like fossil record of other animals that further evidence is unnecessary.As long as A. afarensis was the only possible human ancestor in its time-span, it was easy for evolutionists to claim that it was in our family lineage. This in spite of the fact that there is no diagnostic tool, no methodological formula, let alone any genetic technique, to prove such a relationship. This new discovery will help force paleoanthropologists to be more straightforward in their assessments. One of the most honest statements made recently by a paleoanthropologist is by Daniel Lieberman. In an accompanying article in the same issue of Nature, he writes: "The evolutionary history of humans is complex and unresolved." He goes on to say that this new skull makes things even more confusing and all of our above discussion shows that the new darling of evolutionists has rejected them to be the queen of their supposed evolutionary theory as it is not fitting in any of the supposed human evolutionary tree nor any of the so called hominin species.Lucy remained the darling of evolutionists for almost thirty years and now kenyanthropus has taken this place and none of the fossil has confirmed the supposed human evolution from any of the hominid or hominn.The one century story of ever changing supposed ancestors of human evolution shows the internal conflict in the hearts of evolutionists which they are failed to satisfy even after one century struggle and will always fail as modern genetics and fossils record both have rejected supposed human evolution from any of the mammalian ancestor common to both humans and chimpanzees.
Thanks for God Almighty.
References:
https://www.smithsonianmag.com/…/whatever-happened-to-keny…/
https://creation.com/new-hominid-skull-from-kenya
http://www.talkorigins.org/faqs/homs/wt40000.html
http://www.icr.org/art…/do-we-now-have-new-monkey-for-uncle/
http://humanorigins.si.edu/…/human-fossils/species/kenyanth…
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Kenyanthropus
مکمل تحریر >>

موت کے بعد کی زندگی اور سائنس

موت کے بعد کی زندگی اور سائنس
پیشکش: فیس بک گروپ اور پیج سائنس فلسفہ اور اسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) موت کے بعد انسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا آج تک کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا لیکن اب ایک معروف امریکی ڈاکٹر نے اس حوالے سے ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ جان کر آپ بھی بے ساختہ سبحان اللہ پکار اٹھیں گے۔ ڈیلی سٹار کی رپورٹ کے مطابق نیویارک کے این وائی یو لینگون ہیلتھ سکول آف میڈیسن کے شعبہ انتہائی نگہداشت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سام پرنیا نے انکشاف کیا ہے کہ ”موت کے بعد انسان مرتا نہیں ہے بلکہ اس کا دماغ اور حواس کام جاری رکھتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مرنے والا شخص اپنی موت سے آگاہ ہوتا ہے۔ موت ایک پراسیس کا نام ہے، ہمارے خاتمے کا نہیں۔ موت کے وقت دماغ کو آکسیجن کی فراہمی رک جاتی ہے اور دماغ کے سرکٹ بند ہو جاتے ہیں جس سے انسان بیرونی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ “
ڈاکٹر سام کے مطابق جب دل دھڑکنا بند کرتا ہے تو زندگی کے تمام پراسیسز ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ اس سے دماغ، گردوں اور جگر وغیرہ کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے۔ موت کے اس پراسیس کے بعد انسان کی ایک اور زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ موت کے وقت انسان اپنی تمام عمر کے اعمال کو یاد کرتا ہے اور ایک طرح سے اپنا محاسبہ کرتا ہے۔ چنانچہ موت کے پراسیس کے بعد انسان مکمل تبدیل ہو کر دوبارہ ایک نئی زندگی کی طرف آتا ہے۔ اس بار وہ بہت عاجز اور منکسرالمزاج ہوتا ہے اور اس میں خودغرضی بالکل نہیں ہوتی ۔“

مکمل تحریر >>

سر کے ٹرانسپلانٹ کا ارادہ

ہم جسم کے مختلف حصوں کے ٹرانسپلانٹ کا تو سنتے رہتے ہیں پر اٹلی کے ایک نیورو سرجن سر کے ٹرانسپلانٹ کا ارادہ رکھتے ہیں ، اس طریقے میں ایک فرد کا سر کاٹ کر دوسرے فرد کے بدن پر لگا دیا جاتا ہے ، مختلف ممالیہ جانداروں بشمول بندروں میں یہ طریقہ معمولی کامیابی کے ساتھ آزمایا جا چکا ہے جس میں جانور کو چند گھنٹوں سے لے کر چند ہفتوں تک زندہ رکھا گیا پر بالاخر مختلف پیچیدگیوں کی وجہہ سے اسکی موت واقع ہوگئی .
اس آپریشن میں سرجنوں کو دو چیلنجز کا سامنا ہے ،
.. کٹے ہوے سر میں موجود دماغ کو زندہ اور فعال رکھنا
.. دماغ کے اعصابی نظام کو بدن کے اعصاب سے جوڑنا تا کہ دماغ اس نیے بدن کو کنٹرول کر سکے
پہلے چیلنج کا مقابلہ کرنا نسبتا آسان ہے ، بہت کم درجہ حرارت پر دماغ اور اس میں موجود اعصاب کو بدن سے کاٹ کر بھی زندہ رکھا جا سکتا ہے .
دوسرا چیلنج زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ جانوروں میں اگرچہ ایک دماغ اور دوسرے بدن کے اعصاب کو سیا جا چکا ہے پر ایسا کنکشن فعال نہیں ہوتا ، سو دماغ اس بدن کو کنٹرول نہیں کر پاتا اور ایسا جانور گردن سے نیچے تک مکمل مفلوج رہتا ہے. اگرچہ بندر کے آپریشن میں بندر سننا ، سونگھنا ، چکھنا اور کاٹنے کی صلاحیت رکھتا تھا پر ان کیلیے درکار اعصاب سر میں پہلے سے ہی موجود تھے .
اس موقعے پر ہمیں کچھ امید ''پولی ایتھاایلین گلائکول'' نامی مادے سے ملتی ہے ، یہ ایک کیمیکل ہے جس کو فارماسیوٹیکل کمپنیاں عام بناتی ہیں ، عموما اس کو دوسری دواؤں سے جوڑ کر استعمال کیا جاتا ہے تا کہ دوسری دواؤں کے عمل کے دورانیے کو بڑھایا جا سکے . یہ سرطان کے خلیوں کے خلاف بھی مفید ہے .
حال ہی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ کٹے ہوے اعصابی ریشوں کو جوڑنے میں بھی خاصا مفید ہے ، اگر آپ ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز کو کاٹ دیں تو وہاں سے نیچے تمام بدن مفلوج ہو جاتا ہے ، اگر آپ دونوں کٹے ہوۓ حصوں پر یہ کیمکل لگایئں تو ان کی ریپئر کا عمل تیز ہو جاتا ہے اور جڑنے کے بعد وہ بالکل نارمل کی طرح کام کرنے لگتے ہیں . چھوٹے جانداروں میں یہ تجربات کامیابی سے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق مکمل طور پر کٹے ہوے حرام مغز کو بھی بغیر مفلوج پن کے کامیابی سے جوڑ چکا ہے
پر یہ تمام تجربات دوسرے ممالیہ جانداروں میں ہوے تھے ، کیا انسانوں میں ایسا ممکن ہے ؟ اس پر سوالیہ نشان ہیں ،
اب اٹلی کے ایک نیورو سرجن سرگیو کناویرو اسی طریقے کو انسانوں میں آزمانے کا پروگرام رکھتے ہیں ، اس طرح کا پہلا آپریشن اگلے دو برس میں متوقع ہے . اس آپریشن کیلیے ایک رضاکار بھی دستیاب ہے ، اگر اس کے ذریے مریض کو چند گھنٹوں تک بھی زندہ رکھا جا سکا اور وہ اپنے بازو یا ٹانگ کو ہلا سکا تو یہ میڈیکل سائنس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی . اسی تکنیک کو بہتر بناتے ہوے مستقبل میں سر کے ٹرانسپلانٹ کی بھی ایسی ہی امید کی جا سکتی ہے جیسے بدن کے دوسرے اعضاء کی.
The Project outlines,
http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3821155/
Mouse Model,
http://onlinelibrary.wiley.com/doi/10.1111/cns.12341/full
Report on Polyethylene Glycol
http://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/24713436
The volunteer,
http://www.medicalnewstoday.com/articles/292306.php
The surgeon
http://www.dailymail.co.uk/…/Dr-Sergio-Canavero-predicts-he…
CNN report,
http://www.cnn.com/…/23/opini…/conversation-head-transplant/
Reservations,
http://www.popsci.com/no-human-head-transplants-will-not-be…
ایک اور بات سر یہ یہ دماغ کا ٹرانسپلانٹ نہیں کہلا سکتا بلکہ جسم کا ٹرانسپلانٹ کہلائے گا۔ کیونکہ انسانی شخصیت اسی کی ھو گی کہ جسکا دماغ ھو گا

مکمل تحریر >>

وجود باری تعالی جنت جہنم اور حوروں پر ملحدین کی جانب سے عقلی دلیل کا مطالبہ:

وجود باری تعالی جنت جہنم اور حوروں پر ملحدین کی جانب سے عقلی دلیل کا مطالبہ:
تحریر اسرار احمد صدیقی
اگرچہ وجود خدا کے ثبوت کے عقلی دلائل کوانٹم تھیوری اور the theory of Intelligent design کے آنے بعد مل چکے ہیں لیکن اسکے باوجود بھی اگر یہ دلائل نہ ہوتے تب بھی وجود باری تعالی کے ثبوت کے لئے عقلی دلائل کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کی ذات لامحدود ہے انسانی عقل محدود ہے
کیونکہ منقولات محضہ پر عقلی دلیل قائم کرنا ممکن ہی نہیں اس لئے ایسی دلیل کا مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں
کیونکہ کسی شئے کی موجودگی کے لئے مشاہدہ و محسوس ہونا ضروری نہیں
مثلا دھوپ کو دیکھ کر اگرچہ سورج نہ دیکھا ہو تب بھی سورج کی موجودگی پر دال ہے کہ دھوپ کا وجود موقوف ہے سورج پر بالکل اسہی طرح کسی شئے کو دیکھ کر اسکے صانع کی طرف عقل خود بخود جاتی ہے کیونکہ ہر شئے کا کوئی نہ کوئی صانع ضرور ہوتاہے
لیکن منقولات محضہ میں اسکی بھی ضرورت نہیں ہوتی فقط مخبر صادق پر اعتماد کرنا ہی لازم ہوتا ہے
مثلا : کسی نے کہا کہ صلاح الدین ایوبی رح اور رچرڈ شیر دل دو سپہ سالار تھیں اور دونوں کہ درمیان خونی جنگیں ہوئی تھیں
اب کوئی شخص یہ کہے کہ عقلی دلیل اس پر قائم کرو تو کوئی کتنا بڑا ہی فلسفی کیوں نہ ہولیکن بجز اسکے کیا جواب دے سکتا ہے کہ ایسے دو بادشاہوں کا وجود اور مقاتلہ کوئی امر محال نہی بلکہ ممکن ہے اور اس ممکن کے وقوع کی معتبر مؤرخین نے خبر دی ہے اور جس ممکن کے وقوع کی خبر مخبر صادق دیتا ہے اس کے وقوع کا قائل ہونا واجب ہے
اسکو یوں بھی سمجھ لیں کہ آپ ناگن چورنگی پر کھڑے ہیں راستہ بھول گئے اور کسی ٹریفک سارجنٹ سے پوچھا جناب یہ یہ ڈسکو موڑ کدھر ہے تو اس نے کہا کہ جناب ایک اسٹاپ آگے جائیں یوپی موڑ آئے گا وہاں سے الٹے ہاتھ مڑ جائیں
آگے جاکر ایک چھوٹی سی چورنگی آئے گی وہی ڈسکو موڑ ہے اب کیونکہ ٹریفک پولیس کا کام ہی یہی ہے ٹریفک کو درست سمت چلانا اب یہاں کوئی اس اہلکار سے کہے کہ مجھے دلیل عقلی سے سمجھاؤ کہ ڈسکو موڑ وہیں ہے تو ایسی دلیل طکب کرنا ہی جائز نہیں بلکہ اس مخبر صادق کے قول پر یقین کرنا واجب ہے اور دلیل طلب کرنے والے کو عقل سے پیدل تصور کیا جائے گا
بالکل اسہی طرح ذات باری جنت و جہنم اور حور کے وجود کی عقلی دلیل طلب کرنے والے کے بارے میں بھی کہا جائے گا

افادہ از انتبھات المفیدہ
مصنف حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ

مکمل تحریر >>

کیا اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدان سیکولر اور ملحد تھے؟ کیا مزہب پرستی کے ساتھ سائنسی ترقی ناممکن ہے؟

کیا اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدان سیکولر اور ملحد تھے؟ کیا مزہب پرستی کے ساتھ سائنسی ترقی ناممکن ہے؟
اسلام اور اسلامی دنیا کے سائنسدانوں پہ سیکولرز اور ملحدین کا ایک جھوٹ اعتراض اور اس کا پہلی بار تفصیلی و تحقیقی جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
پیشکش: فیس بک گروپ اور پیج سائنس فلسفہ اور اسلام
بلاگ :
http://debunking-atheism.blogspot.com/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جعفر صادق رحمۃاللہ علیہ پکے سنی مسلمان تھے۔وہ ریاضی،فلکیات ،فزکس،اناٹومی،الکیمی اور فلسفے کے ماہر تھے۔حضرت امام ابو حنیفہ اور امام ابو مالک رحمۃاللہ علیہما حضرت کے شاگرد تھے۔وہ اسلامی دنیا کے پہلے کیمیا دان خالد بن یزید کے استاد تھے۔
خالد بن یزید اموی بادشاہ معاویہ ثانی کا بھائی اور شہزادہ تھا مگر اس نے بادشاہت کی بجائے الکیمی میں دلچسپی لی۔مصر میں اس نے اس وقت کے موجودہ ادب کو جو الکیمی پر تھا،عربی میں ترجمہ کیا۔یہ بھی پکا سنی مسلمان تھا۔اسلامی دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا۔
ابن یونس مسلم مصری فلکیات دان اور ریاضی دان تھا۔اس نے وہ کارنامے انجام دیے جو اس کے وقت سے بہت پہلے تھے اور جن کی بنیاد جدید دور جیسے اعداد اور تفا صیل پر رکھی گئی۔
چاند کے ایک گڑھے کا نام اس کے نام پر ابن یونس کریٹررکھا گیا ہے۔اس کا والد مورخ،حدیث کا عالم اور سوانح نگار تھا جس نے مصر کی تاریخ پر دو والیم لکھے۔ایک مصر کے متعلق اور دوسرا مصر کے سفری تبصروں پر۔ابن یونس کے والد کو مصر کا نمایاں ترین ابتدائی مورخ قرار دیا جاتا ہے۔ابن یونس کا والد اس پہلی ڈکشنری کا مصنف ہے جس کی نسبت مصر یوں کی طرف کی جاتی ہے۔ابن یونس کا پڑ دادا امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا معاون تھا اور خود ابن یونس پکا سنی مسلمان تھا۔
ابن باجہ فلکیات دان، فلاسفر ،فزیشن،ماہر فزکس(طبیعیات)، ماہرمنطق، نفسیات اورشاعری تھا۔ابن باجہ نے عقلی روح (Rational soul ) کو انفرادی شناخت کا سربراہ قرار دیا جو ذہانت سے مل کر ان روشنیوں میں سے ایک ہو جاتی ہے جو خدا کی عظمت کی نشانی ہیں۔ابن باجہ کے مطابق آزادی عقلی طور پر سوچنے اور عمل کرنے کا نام ہے۔ابن باجہ کے مطابق زندگی کا مقصدروحانی علم کا حصول اور اللہ تعا لیٰ کے ساتھ اس کی دی گئی ذہانت کے ذریعے تعلق کی تعمیر ہونا چاہیے۔وہ فقہ شافعی کا مقلد اور پکا سنی مسلمان تھا۔
ابو طفیل سنی مسلمان اور فقہ مالکی سے تعلق رکھتا تھا۔وہ ماہر فلسفہ ،عربی ادب ،علم الکلام، میڈیسن(طب)،تصنیف اورناول نگار تھا۔ابن طفیل نے تاریخ کا پہلا فلسفیانہ ناول لکھا جو صحرائی جزیروں ،ایک گم شدہ بچے اور گزرے ہوئے ادوار کے حوالے سے بھی پہلا ناول ہے۔اس نے مردوں کی چیر پھاڑ(ڈائی سیکشن)اور پوسٹ مارٹم(Autopsy) کا ابتدائی نظریہ بھی پیش کیا۔اس کی مشہور تصنیف حی ابن یقظان ہے جسے یورپ میں Philosophus autodidactus کہا جاتا ہے۔یہ ایک فلسفیانہ ناول ہے۔
ابن رشدسنی مسلمان اور مقلد فقہ مالکی تھا۔ اس کی بنیادی دلچسپیاں اسلامی علم الکلام، اسلامک الاء، اسلامی فلسفہ، جغرافیہ، میڈیسن (طب) ریاضی، طبیعیات (فزکس) ، اسلامی فقہ ، عربی موسیقاتی نطریہ، فلکیات، فلکیاتی مرکبات تھے ۔اس کے نمایاں تصورات وجود(existence) جوہر یاروح(essence) سے پہلے ہوتا ہے، جمود (inertia) ، دماغ کی جھلی arachnoid mater،، توجیہہ اور عقیدے کی تفہیم، فلسفے اور مذہب کی تفہیم اور ارسطو ازم اور اسلام کی تفہیم ہیں۔وہ فلسفے کی شاخ رشدازم(averroism) کا بانی ہے، وہ یورپ کے روحانی بابوں میں سے ایک۔ابن رشد کی تصنیفات بیس ہزار سے زائد صفحات پر محیط ہیں لیکن اس کی اہم ترین تصنیفات اسلامی فلسفے، میڈیسن اور فقہ پر ہیں۔اس کی مذہب سے وابستگی کا اندازہ اس کی ان تصنیفات سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے فقہ مالکی پہ تصنیف کی ہیں لیکن ملحدین اور سیکولر طبقے نے س پہ الزام لگایا کہ وہ بے دین تھا اور ملحد ہوچکا تھا۔اس عظیم انسان کی شخصیت کو انتہائی مسخ کیا گیا۔یہاں تک کہ اس کو ملحد قرار دے کر ملحدین نے اس کے نام پہ آئی ڈیز بنا ڈالی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ فقہ مالکی کا فقیہ ،عظیم مسلم سائنسدان اور فلسفی تھا۔ابن رشد کی اہم ترین فلسفیانہ تصنیف تہافتہ التہافہ ہے جسے انگریزی میں The incoherence of the incoherenceکہتے ہیں۔اس میں اس نے غزالی کیکتاب تہافتہ الفلاسفہ(The incoherence of philosophers) میں غزالی کے دعووں کے خلاف ارسطو کا دفاع کیا۔غزالی کے مطابق ارسطو کے خیالات اسلام سے متصادم ہیں مگر ابن رشد کے مطابق یہ غزالی کی غلط فہمی ہے۔
ابن رشد کی دوسری تصنیف فصل الاعقال تھی جس نے اسلامی قانون کے تحت فلسفیانہ تحقیقات کے قابل عمل ہونے کی توجیہہ بیان کی۔ابن رشد کی ایک اور تصنیف ،کتاب الکشف تھی۔ایک قاضی(جج)کے طور پر ابن رشد نے فقہ مالکی کی مشہور کتاب بدایہ المجتہدونہایہ المقتصد تصنیف کی جو کہ الظہابی کے متعلق اس مضمون کی بہترین کتاب ہے۔ابن رشد نے اسلامی فتاویٰ کے جو خلاصے تیار کیے وہ آج تک اسلامی علماء پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ابن رشد نے آج سے ہزار سال پہلے کہا تھا کہ اسلام میں خواتین امن ہو یا جنگ ،دونوں صورتوں میں مردوں کے مساوی مقام رکھتی ہیں۔اس نے کہا کہ فقیہوں کے درمیان یہ طے ہے کہ کسی معاملے کے ثبوت کے طور پر ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہے۔اس نے اسلامی معاشیاتی فقہ اور سود کے حرام ہونے پر بھی بحث کی۔اس نے شراب نوشی کی شرعی سزا پر بھی لکھا۔
ابن رشد فقہ مالکی کا انتہائی معزز عالم ہے۔ اس میدان میں اس کی بہترین تصنیف بدایۃ المجتہد و النہایۃ ہے جو کہ مالکی فقہ کی نصابی کتاب ہے۔ ابن رشد کے مطابق مذہب اور فلسفہ ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی سچائی تک پہنچنے کے دو مختلف راستے ہیں۔ابن رشد دنیا کے فانی ہونے پر یقین رکھتا تھا۔اس کے مطابق روح دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ایک انفرادی اور دوسری خدائی۔انفرادی روح فانی نہیں ہے۔اس کے مطابق بنیادی طور پر تمام انسان مشابہہ اور خدائی روح رکھتے ہیں۔
ابن رشد کے مطابق سچائی کے علم کی دو قسمیں ہیں۔پہلی قسم عقیدے پر مبنی مذہب کی سچائی کا علم ہے اور سچائی کی دوسری قسم فلسفہ ہے جو ان اعلیٰ دماغوں کے لیے ہے جن کے پاس اس کے سمجھنے کی دانشورانہ صلاحیت ہے۔اس کے خیالات کی بنیاد پہ کسی طرح نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سیکولر یا ملحد تھا۔
نصیر الدین طوسی شیعہ اثناء عشری تھا۔ اس کی بنیادی دلچسپیاں علم الکلام،فلسفہ،فلکیات ،ریاضی، کیمسٹری، بیالوجی(حیاتیات)،میڈیسن(طب)،فزکس(طبیعیات) تھے۔
قطب الدین شیرزی کی بنیادی دلچسپیاں ریاضی،فلکیات(آسٹرونومی)،میڈیسن(طب)،فلسفہ،فارسی شاعری،فزکس،موسیقاتی نظریہ(میوزک تھیوری) اور تصوف تھے ۔شیرازی تصوف سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں شیراز(ایران) میں پیدا ہوا۔اس کا والد ضیائالدین ایک فزیشن اور اہم صوفی تھا۔قطب الدین کو والد نے دس سال کی عمر میں خرقۂ تصوف عنایت کیا۔بعد میں قطب الدین نے اپنی خرقہ نجیب الدین شیرازی سے بھی حاصل کی جو مشہور صوفی تھے۔وہ صوفی،سائنسدان اور پکا سنی مسلمان تھا۔اس کی تصنیف شرح حکمت الاشراق تھیجو عربی میں شاب الدین سہروردی کے فلسفے اور صوفیانہ پن پر لکھی گئی۔زمخشری کی قرآن پاک کی شرح کشف پر ایک کتاب،فتح المنان فی تفسیرالقر آن(عربی میں چالیس جلدوں میں)،حاشہ بر حکمت البیان،مفتاح المفتاح،مالکی فقہ کے قانون پر ایک کتاب تاج العلوم اور نسل اور غربت پر ایک کتاب جو شیراز کے گورنر معزالدین کے لیے لکھی گئی۔
عمر خیام کی بنیادی دل چسپی اور کارنامے فارسی ، فارسی شاعری، فارسی فلسفہ ، فلکیات طبیب (فزیشن) حرکیات(مکینک) ارضیات (جیولوجی گرافی) اور موسیقی الجبرا، لیپ سال۔ لیپ ائیر کا موجد ، ماہر موسمیات ہیں۔عمر خیام 10485 ء کو ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوا۔ اسے اسلامی (600-1600) کا بنیادی ماہرین ریاضی اور ماہرین فلکیات میں شمار کیا جاتا ہے اسے الجبرا ء پر اہم ترین مقالے کا مصنف سمجھا جاتا ہے۔
خیام کی شاعری میں شراب و شباب کے تذکرے کی وجہ سے بعض اوقات اسے ارتدادی اور خدا کا منکر سمجھا جاتا ہے ۔یہ خیالات رابرٹسن بیان کرتا ہے لیکن در حقیقت کچھ اشعار اس کی طرف غلط منسوب کیے گئے ہیں۔خیام نے اپنی شاعی میں یہ بھی کہا ہے کہ شراب سے لطف اندوش ہو لو کیونکہ خدا مہربان ہے۔یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہیں تھا۔ایرانی سکالرسید حسین نصر کا بھی یہی کہنا ہے۔در حقیقت خیام نے ایک مقالہ لکا جس کا نام ،خطبۃ الغرہ تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کی تعریف میں تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیام پختہ مذہبی عقائد رکھتا تھا اور وحدت خداوندی کا قائل تھا۔سید حسین نصر اس کی ایک مثال دیتا ہے جس میں خیام اللہ کی ذات کہ جانئنے کے مختلف طریقوں پر تنقید کے بعد اپنے آُپ کو صوفی قرار دیتا ہے۔
سید نصر حسین خیام کے ایک اور فلسفیانہ مقالے کا بھی حوالہ دیتا ہے جس کا نام ،رسالہ فی الوجود ہے۔یہ رسالہ قرآنی آیات سے شروع ہوتا ہیاور اس کے مطابق تمام چیزوں کا تعلق خدائے تعالیٰ سے ہے اور ان چیزوں میں ایک ربط ہے۔
ایک اور مقالے ،رسالہ جواب الثلاث المسائل میں وہ موت کے بعد روح کے بارے میں لکھتا ہے جو کہ اس بات کو رد کرتا ہے کہ خیام قیامت کا منکر تھا۔اس کی حقیقی شاعری
بھی اسلام کے مطابق ہے مثلا
تو نے کہا ہے کہ تو مجھے عذاب دے گا
لیکن اے اللہ۔میں اس سے نہیں ڈروں گا
کیونکہ جہایں تو ہے وہاں عذاب نہیں
اور جہاں تو نہ ہو،وہ جگہ ہو نہیں سکتی
سید حسین نصر لکھتا ہے
اگر خیام کی مستند رباعیات اور اس کے فلسفیانہ خیالات اور روحانی سوانح حیات ،سیر و سلوک کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان(خیام) نہ ایک ہندوستانی شراب خور ہے اور نہ ہی ایک دہریہ۔بلکہ وہ ایک دانشور اور سائنسدان ہے جس کی شخصیت مشکوک رباعیات سے بالاتر ہے۔
سی ایچ اے جیری گارڈ نے تو اس سے پہلے کہا تھا
خیام کی تصنیفات تصوف کے اچھے نمونے ہیں لیکن مغرب میں کوئی ان کو اہمیت نہہیں دیتا کیو نکہ اہل مغرب بد قسمتی سے خیام کو جیرلڈ کے ترجموں سے جانتے ہیں اور یہ بد قسمتی ہے کہ جیرالڈ اپنے آقا خیام کا وفادار نہیں اور بعض اوقات وہ اس صوفی کی زبان پر نا شائستہ الفاظ ڈالتا ہے۔اس نے خیام کی رباعیات میں بے ہودہ زبان استعمال کی ہے ۔جیرالڈ دوہرا مجرم ہے کیونکہ خیام اس سے زیادہ صوفی تھا جتنا وہ اپنے بارے میں کہا کرتا تھا۔
ا لفارابی بابا اسلامی نئے افلاطونی نظریات(نیو پلاٹونزم)،میٹا فزکس(فلسفہ ماورء الطبیعیات)،سیاسی فلسفہ،منطق، فزکس،اخلاقیات،تصوف ،میڈیسن(طب)
فارابی کا خیال تھا کہ میٹا فزکس کا نظریہ بذات خود موجود ہونے سے متعلق ہے اور اس کا تعلق خدا سے اتنا ہے کہ خدا مطلق وجود کا سربراہ ہے ۔فارابی کے مطابق مذہب سچائی کا علامتی اظہار ہے۔افلاطون کے بر عکس فارابی کی مثالی ریاست کی سربراہی پیغمبر کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اس کے مطابق مثالی ریاست مدینہ منورہ تھی ۔ جس کے حکمران حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رہنما کسی فلسفی کی بجائے اللہ تعالی تھے۔
فارابی کے مطابق جمہوریت یا ڈیموکریسی مثالی ریاست کے قریب ترین ہے۔ وہ خلفائے راشدین کی طرح کے طرز حکومت کو حقیقی جمہوریت قرار دیتا ہے ۔مکہیلویا کوبو وچ کے مطابق
فارابی کا مذہب اور فلسفہ نیک اقدار رکھتے ہیں۔فارابی لوگوں کے اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ مکمل اسلامی معاشرہ قائم نہیں کیا جا سکتا اور یہ انسانیت کے لیے موزوں نہیں ہے۔
فارابی نے اپنی کتاب مدینۃالفضیلۃ میں کہا کہ فلسفہ اور وحی ایک ہی سچائی تک پہنچنے کے دو راستے ہیں ۔اس کے یہ خیالات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پکا سنی مسلمان تھا۔
بو علی سینا
کی بنیادی اور اہم دلچسپیاں اسلامی طب (اسلامک میڈیسن ) ، الکیمی اور کیمیا، اسلامی فلکیا ت، اسلامی اخلاقیات، ابتدائی اسلامی فلسفہ ، اسلامی مطالعہ جات ، جغرافیہ، ریاضی، اسلامی علمِ نفسیات، فزکس (طبعیات)، فارسی شاعری، سائنس ، حجری علوم (Palaoentology) تھے۔وہ بانی جدید علم طب (مارڈرن میڈیسن) اور مومنٹم ،بانی سینائی منطق(ایوی سینن لاجک)، بانی نفسیاتی یا نفسیاتی تحلیلPsychoanalysis) ( اور علم اعصابی نفسیات(Neuropsychiatry) اور اہم شخصیت برائے علم جغرافیہ، انجینئرنگ تھا۔
جب سینا تیرہ سے اٹھارہ سال کے درمیان تھا تو وہ ارسطو کے نظریہ ماوراء الطبیعیات(میٹا فزکس)کو نہیں سمجھ پا رہا تھا۔وہ اسے اس وقت سمجھنے میں کامیاب ہوا جب اس نے اس پر فارابی کا ایک تبصرہ پڑھا۔ان لمحوں کے دوران وہ کتابیں چھوڑ کر وضو کرتا اور مسجد جا کر نماز ادا کرتا۔سینا نے علم القرآن،حدیث،فقہ،فلسفہ اور علم الکلام کو آگے بڑھایا۔اس کا مقصد اللہ کے وجود اور اس کی کائنات کی تخلیق کو وجہ اور منطق سے سائنسی طور پر ثابت کرنا تھا۔
سینا نے اسلامی علم الکلام پر کئی مقالے لکھے۔ان میں پیغمبروں پر بھی مقالے ہیں جنہیں سینا پر جوش فلاسفرز سمجھتا تھا۔سینا نے مختلف سائنسی اور فلسفیانہ تشریحات بھی کیں مثلاکس طرح قرآنی علم کائنات فلسفیانہ نظام کے عین مطابق ہے اور فلسفہ قرآن سے الگ کوئی چیز نہیں۔سینا نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔اس نے قرآنی سورتوں پر پانچ مقالے لکھے۔ان میں سے ایک میں اس نے پیشین گوئیوں کو بھی ثابت کیا۔وہ کئی قرآنی آیات پر تبصرہ کرتا ہے اور قرآن پاک کو ایک عظیم کتاب قرار دیتا ہے۔سینا کے مطابق اسلامی پیغمبر فلسفیوں سے کئی گنازیادہ اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں۔سینا گہری راتوں تک کتابوں میں مصروف رہتا۔کہا جاتا ہے کہ اس نے چالیس بار ارسطو کا فلسفہ پڑھا اور اسے سمجھ لینے پر صدقہ دیا اور شکرانے کے نوافل ادا کیے۔بستر مرگ پر اس نے غرباء پر صدقے کیے ،غلاموں کو آزاد کیا اور اپنی موت تک ہر تیسرے دن قرآن پاک سنتا یہاں تک کہ وہ جون 1037ء کو انتقال کر گیا۔اس وقت اس کی عمر پچاسی سال تھی۔اسے ہمدان(ایران) میں دفن کیا گیا۔ سینا بھی پکا سنی مسلمان تھا۔
قسطاابن لوقا قسطاابن لوقا (820 ؁ء تا912 ؁ء)ایک فزیشن ،سائنسدان اور مترجم تھا جو بازیطنی یونانی تھا۔و ہ مذہباِ عیسائی تھا وہ بعبک میں پیداہو ا ۔باز نیطنی رومی سلطنت سے وہ یونانی کتابیں بغداد لایا اور انہیں عربی میں ترجمہ کیا ۔
المسیحی ابوسہل عسیٰی ابن یحیٰی المسیحی الگرگانی گورگان( بحیرہ کیسپبن کے مشرق میں ایران کا علاقہ ) سے تعلق رکھنے والا ایک عیسائی طبیب تھا۔وہ ابن سینا کا استاد تھا عبداللطیف ( البغدادی)مشہور فزیشن ،مورخ ،مصری تاریخ کا ماہر اور سیاح تھا وہ اپنے وقت میں مشرق قریب (Near East) کا ضخیم ترین لکھاری تھا۔عبداللطیف کی دلچسپ خورنوشت کو اس کے ہم عصر ابن ابواسیبہ نے اضافوں کے ساتھ محفوظ کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں اس نے گرائمر ، قرآن پاک ، فلسفہ ،فقہ اور عربی شاعری کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے اہل علم کا ایک حلقہ قائم کیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس میں اپنے گرد جمع کرلیا ۔وہ قاہرہ اور دمشق میں میڈیسن اور فلسفہ پڑھا یا کرتاتھا۔وہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے قریب تھا اور پکا سنی مسلمان تھا۔اس کی کتاب الطب من الکتاب والسنتہ میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد کی اسلامی طب کو بیان کیا گیا ہے ۔ :
ابن بطوطہ نے تیس سالوں میں تقریباً ساری اسلامی دنیا (شمالی دنیا (شمالی و مغربی افریقہ، جنوری یورپ، مشرقی یورپ ، مشرق وسطیٰ، برصغیر، وسطِ ایشیاء ، جنوب مشرقی ایشیا، چین) کا سفر کیا۔ یہ فاصلہ اس کے قریبی ہم عصر مار کو پو یا اس سے پہلے بھی کسی نے طے نہیں کیا تھا۔ اسے ہمیشہ کے عظیم ترین سیاحوں میں شمار کیا جاتا ہے۔سالوں میں طے کردہ یہ فاصلہ 75ہزار کلو میٹر بنتا ہے۔ ابن بطوطہ 24فروری 1304 ؁ء کو اسلامی قانون کے علماء کے ایک گھرانے میں پیداہو ا۔جوانی میں اس نے فقہ مالکی کی تعلیم حاصل کی جو اس وقت شمالی افریقہ میں بہت مقبول تھی ۔ابن بطوطہ سنی مسلمان تھا ۔ابن بطوطہ کو عموماً ان علاقوں کی ثقافت سے صدمہ پہنچتا جن کی سیر کو وہ گیا کیونکہ کہ ان علاقوں کے لوگوں کی روایات اور ثقافت عموماً اسلامی روایات سے متصادم ہوتیں۔ ترکوں اور مغلوں کے علاقوں میں وہ عورتوں کے رویے پر حیران رہ جاتا ۔ وہ کہتا ہے کہ ایک ترک جوڑے کو دیکھ کر اسے محسوسہوا کہ مرد عورت کا غلام او رعورت اس کیسردار ہے، حالانکہ وہ عورت کا شوہر تھا۔ اسے مالدیب اور صحرائے صحارا کے افریقی علاقوں کا عریاں لباس بہت ناپسند لگا۔اس عظیم سیاح کی نظر میں پردہ ترقی کا دشمن نہیں تھا۔
زغلول النجار ارضیات(جیولوجی) کا پروفیسر ہے اس نے 1963 ؁ء میں ویلز یونیورسٹی (بر طانیہ)سے جیولوجی میں پی ایچ ڈی کی ۔ وہ اسلامی اکیڈمی آف سائنس ، جیولوجیکل سوسائٹی آف لندن ،جیولوجیکل سوسائٹی مصر کاممبرہے۔ النجارنے عربی، انگریزی اور فرانسسی میں 150سے زیادہ سائنسی مقالہ جات اور 45کتابیں شائع کی ہیں اس کے اکثر تصنیفات قرآن کے سائنسی معجزات پر ہیں۔
ابن الشاطر فلکیات دان (آسٹرونومر) ریاضی دان ،انجنیئر اور موجدتھا۔ دمشق شام میں جامع مسجد اموی کے موقت (وقت کا حساب رکھنے والے ) کے طور پر کام کیا ۔وہ عرب نسل سے تعلق رکھنے والا سنی مسلمان تھا۔
تقی الدین محمد ابن معروف سائنسدان ،فلکیات ،ماہر علم نجوم ،انجینئر، موحد گھڑی ساز ،ماہر فزکس ،ریاضی ، علم نباتات (باٹنی )علم حیوانیات (زوالوجی ) ، علم الادویہ ، فزیشن ، اسلامی جج ،موقت ،فلسفی ، ماہر علم المذاہب اور مدارس تھا۔
اس کی تصنیفات کی تعدادنوے ہے جو فلکیات ، علم نجوم ، گھڑیاں ، انجینئرنگ ،ریاضی مکینکس ، آٹیکس ،ینحیرل فلاسفی پہ ہیں۔
تقی الدین 1521 ؁ء میں دمشق (شام) میں پیدا ہوا ۔اس نے قاہرہ (مصر) میں تعلیم حاصل کی ۔جلد ہی وہ قاضی (جج) ،اسلامی عالم ، ایک مسجد کا موقت بن گیا۔وہ سنی مسلمان تھا۔
ابن تیمیہ کینمایاں تصورات:توحید، مل تھیوری۔(Mill's Theory) استقرائی منطق (indictive logic)اورمنطقی توجیہہ (analogical reasoning) ہیں۔اس کی مذہب سے شدید وابستگی کسی تعارف کی محتاج نہیں اور وہ راسخ العقیدہ پکا سنی مسلمان تھا۔ابن یتمیہ کا دادا ابوبرکت مجد الدین ابن یتمیہ الحنبلی (وفات 1255 ؁ء)حنبلی فقہ کا مشہور استاد تھا
شیخ مصظفر شکورکوالالمپور(ملائیشیا)میں پیدا ہوا۔وہ ہڈیوں کے امراض کا سرجن(آرتھو پیڈک سرجن)ہے۔وہ ملائیشیا کا پہلا آدمی ہے جو خلا میں گیا ۔وہ 10اکتوبر 2007ء کو بین ا لاقوامی خلائی سٹیشن پ ر بھیجا گیا۔وہ روس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت آنگکسوان پروگرام کے ذریعے خلا میں گیا۔وہ دس دن اکیس گھنٹے چودہ منٹ خلا میں رہا اور اکیس اکتوبر کو سویوز ٹی ایم اے 10کے ذریعے واپس آیا۔ شیخ جب خلا میں تھے تو اس وقت ماہ رمضان کا آخری حصہ تھا۔اسلامی فتویٰ کونسل نے خلا میں جانے والے مسلمانوں کے لیے پہلی دفعہ ہدایتنامہ جاری کیاجس میں بتایا گیا کہ کس طرح کم کشش(گریویٹی ) والے خلائی سٹیشن میں نمازدا کی جائے ،کس طرح سمت قبلہ کا تعین کیا جائے،روزہ کس وقت رکھا جائے اور افطار کیا جائے۔خلائی سٹیشن پر دن رات کا دورانیہ نوے منٹ ہوتا ہے لہٰذا روزے کا مسئلہ ہوتا ہے ۔اس ہدایتنامے کا روسی،عربی اور انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ملا ئیشیا کی اسلامی ڈیولپمنٹ کے عنان نے کہا کہ سفر میں روزے اختیاری ہوتے ہیں ۔لہٰذا شیخ کی مرضی کہ وہ روزے رکھے یا نہ رکھے۔شیخ نے عید الفطر خلا میں گزاری اور 13اکتوبر 2007ء کو میٹھے کھانے پکا کر وہیں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کیے۔وہ بھی سنی مسلمان ہے۔
ابو ریحان البیرونی کی بنیادی دلچسپیاں:آثار قدیمہ(Anthropology) ،" علم نجوم" علم فلکیات،کیمسٹری، سمات (سوشیالوجی)، علم جغرافیہ، علم الارضیات(جیولوجی) تاریخ ، ریاضی طب(میڈیسن)، فلسفہ، علم الادویہ( فارماکولو جی) ، فزکس، علم نفسیات(سائیکالوجی) ، سائنس، انسائیکلو پیڈیا۔فلکیات (آسٹرونومی )کی اور علم نجوم (آسٹرولوجی) میں پہلی واضح شناخت اور فرق بیرونی نے گیارہویں صدی عیسوی میں پیش کیا ۔ بعد کی ایک تصنیف میں اس نے علم نجوم کو مسترد کر دیا کیونکہ ماہرین نجوم کے طریقے تحقیق کی بجائے اندازوں پر مبنی تھے اور علم نجوم کے خیالات حقیقی اسلام سے متصادم تھے۔ یہ بات غیر یقینی ہے کہ بیرونی سنی تھا یا شیعہ ۔خیال کیا جاتاہے کہ وہ metarid خیالات رکھتا تھا اور اسماعیلیوں کا ہمدرد تھا۔لیکن وہ معتزلی فرقے کے افراد خصوصاً الجاحظ اور زرقان پر تنقید کیا کرتا تھا۔ وہ محمد بن زکریا الرازی کیmanichaism کے لیے ہمدردی پر بھی تنقید کرتا تھا۔یہ بات غیر یقینی ہے کہ بیرونی سنی تھا یا شیعہ لیکن ملحد بالکل نہیں تھا۔بیرونی نے قرآن پاک کو ایک الگ اور خود گار سلطنت قرار دیا۔ اس نے اسلام کا اسلام سے پہلے والے مذاہب سے موازنہ بھی کیا اور اسلام سے پہلے کی چندان حکمتوں کو قبول کرنے کے آمادہ تھا جو اس کے اسلامی تصور کے مطابق تھیں۔ اس کے مطابق اسلامی قانون او رفقہ میں بیرونی کے مطابق انسانوں کے درمیان تفریق صرف خدائی قانون سے ہی ختم کی جا سکتی ہے جسے پیغمبر اسلام ﷺ لائے تھے۔
محمد بن موسی الخوارزمی کی وجہ شہرت ریاضیاتی تحقیق ، فلکیات ، جغرافیہ اور علم نجوم ہے۔اس کی مشہور تصنیف:الجبرو المقابلہ (خطی یا لائینر اور مربعی Quadratic) ( مساواتوں کا پہلا منظم حل) یا لکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ اس کا مشہور کارنامہ بنیاد الجبرا ہے(اس میں وہ دیو فینطس یا (Disphantus) کا شریک ہے۔خوارزمی کی زندگی کے متعلق چند باتیں ہی یقینی طور پر معلوم ہیںیہاں تک کہ اس کی جا ے پیدا ئش بھی غیر یقینی ہے۔اس کے نام کے ساتھ المجوسی کا لفزظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مجوسی تھا لیکن اس کا الجبرا کا صوفیانہ پیش لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پکا مسلمان تھا۔الجاحظ
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ معتزلہ سے تعلق رکھتا تھا لیکن الجاحظ کے ابتدا ئی حالات بہت کم معلوم ہیں
حنیان بن اسحاق وہ مشہور نسطوری عیسائی عالم تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔۔ وہ ایک طبیب اور سائنسدان بھی تھا جو یونانی سائنسی کتابوں کو عربی اور شامی
میں ترجمہ کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔
ابن الہیشم کیبنیادی دلچسپیاں فلکیات (آسٹرونومی) ، اناٹومی، انجینئرنگ، ریاضی، مکینکس یا حرکیات طب (میڈیسن)، بصریات بصریات (آیٹکس) ، آنکھ کی بیماریاں(Opthalmology) فلسفہ ، فزکس ، علمِ نفسیات (سائیکالوجی)، سائنس تھیں۔
ٰیہ بات مشکو ک ہے کہ اس کا تعلق کونسے فرقے سے تھا۔ضیاء الد ین سردا رکے مطابق وہ سنی مسلمان تھا ۔لارنس بیٹینی (Bettany)کے مطابق بھی وہ سنی مسلمان تھا بلکہ پیٹر ایڈورڈ ہاجسن کے مطابق وہ معتزلہ فر قے سے تعلق رکھتاتھا ۔اے آئی سبر ا کے مطابق وہ شیعہ تھا ۔لیکن یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ وہ ملحد نہیں تھا۔ابن الہیشم نے اسلامی علم الکلام پر ایک مقالہ جس میں اس نے پیغمبری پر بحث کی ۔اس نے اپنے وقت کے پیغبر ی کے جھوٹے عوے داروں کو سمجھے کے لیے فلسفیانہ اصولوں کا نظام وضع کیا ۔ابن الہیشم نے ایک مقالہ لکھا جسکانام اعد ادو شمار سے سمت قبلہ معلوم کرنا ہے۔ اس نے ریاضیاتی طر یقے سمتِ قبلہ معلوم کرنے کے طریقے بیان کیے۔الہیشم نے اپنے سائنسی طر یقہ اور سائنسی کا رنامو ں کی نسبت اسلام پر اپنے یقین کی طرف کی ۔اس کا یقین تھا کہ انسان بنیادی طور پر نامکمل ہے اور خدا کی ہستی ہی مکمل ہے ۔اس نے یہ توجیہہ بیان کی کہ فطرت کے متعلق سچایؤ ں کو دریافت کرنے کے لیے انسانی آراء اور غلطیوں کو ختم کر ناہوگا۔اپنے مقالے میں جسکاتر جمہ The winding motion کے نا م ہے کیا گیا ہے الہیشم نے خرید لکھا ہے کہ یقین صرف پیغمبر اسلام ﷺ پر ہوناچاہے اور نہ کہ کسی اور ہستی پر ۔الہیشم نے اپنی سچائی اور علم کی تلاش کو اﷲتعالیٰ سے قریب ہونے کا ذریعہ قراردیا۔وہ لکھتاہے کہ میں نے مسلسل علم اور سچائی کی تلاش جاری رکھی اور یہ میرا ایمان بن گیاکہ ا ﷲتعالیٰ کی ذات کی قریب حاصل کر نے کے لیے علم اور سچائی سے اچھاذریعہ نہیں ہے ۔
علی مصطفی مشرفہ پاشانظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی پیش کرنے والا مسلم سائنسدان تھا۔اس کی وجہ شہرت کوائنٹم تھیوری اور نظریہ اضافت(تھیوری آف ریلویٹویٹی) ہیں۔وہ تھیوری آف ریلویٹویٹی پیش کرنے کی وجہ سے اضافت (ریلویٹویٹی) میں آئن سٹائن کا مد مقابل مصطفی کی فیملی کے ارکان تقوے اور سائنس میں دلچسپی کی وجہ سے مشہور تھے۔ اس کا باپ ایک مذہبی عالم اور جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ سے گہری دلسپی رکھتا تھا۔ اس کے والد نے قرآن پاک کی کئی تفسیریں لکھیں۔وہ خود بھی سنی مسلم تھا۔
سلطان فتح علی ٹیپو(ٹیپو سلطان) کی1790ء سے 1794ء کے دوران ٹیپو کی تعمیر کردہ flint lock blunderbuss gun آج تک اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی شمار کی جاتی ہے۔ٹیپو سلطان اور حیدر علی کو عسکری مقاصد کے لیے ٹھوس ایندھن راکٹ(سالڈفیول راکٹ)ٹیکنالوجی اور میزائلوں کے استعمال کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک عسکری حکمت عملی جو انہوں نے وضع کی ،وہ دشمن کی کی فوج پر راکٹ بریگیڈ کے ذریعے وسیع حملے تھے۔ٹیپو پکا سنی مسلمان تھا۔
منیر حسین نیفح امریکی شہریت رکھنے والا فلسطینی مسلمان سائنسدان ہے ۔نیفح نے نینو ٹیکنالوجی کے بانیوں کا کردار ادا کیا ہے ۔
ہبۃاللہ ابوابرکات البغدادی وہ ایک مسلمان فلسفی ،ماہر فزکس ، ماہرنفسیات اور فزیش تھا جو نسلا عرب اور مذہبا یہودی تھا ۔بعد ازاں اس نے اسلام قبول کر لیا ۔سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز السعود رائل سعودی ایئر فورس کا ریٹائرڈ آفیسر ہے جس نے STS - 51G سپیس شٹل میں پرواز کی ۔وہ بادشاہ ابن سعود کا پوتا ہے ۔وہ پہلا سعودی شہری تھا جس نے خلا کا سفر کیا ۔خلا میں پہلامسلمان ،پہلا عرب او ر پہلاشاہی آدمی تھا ۔وہ سنی مسلم ہے۔
جابر ابن حیان کی بنیادی دلچسپیاں الکیمی ،کیمسٹری،آسٹرونومی ۔علم نجوم (آسٹرولوجی ) ،طب (میڈیسن) ،علم الادویہ (فارمیسی )،فلسفہ ،فزکس ،ارضیات،فلاحی سرگرمیاں ،انجینئرنگ اور فزکس تھے
اس کی نمایاں تصنیفات کتاب الکیمیا،کتاب السبین،Book of balances , Book of kingdom , Book of eastern Mercury
الکیمی میں دلچسپی غالبااس کے استاد حضرت جعفر صادق نے ابھاری ۔ابن حیان بہت مذہبی آدمی تھا ۔اور اپنی تخلیقات میں باربار یہ لکھتاہے کہ الکیمی کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضاسے راضی رہے میں ہے اور زمین پر اللہ تعالیٰ کا حقیقی اوزار بن جانے میں ہے ۔کتاب الحجر میں ایسی لمبی دعاؤں کا ذکر کیا گیاہے جو الکیمی کے تجربات سے پہلے تنہاصحرا میں پڑھنی چاہییں ۔اس کے بارے میں تصدیق نہیں ہے کہ وہ سنی تھا یا شیعہ۔البتہ اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ ملحد یاسیکولر نہیں تھا۔
یعقوب الکندی پہلا مسلمان مشائی فلسفی تھا جس نے عرب دنیا میں یونانی ادب اور سریانی فلسفہ متعارف کرایا۔ وہ کیمسٹری، میڈیسن، میوزک تھیوری، فزکس، علمِ نفسیات اور فلسفہ سائنس کی اولین شخصیات میں سے ایک تھا۔الکندی کی فلسفیانہ تصنیفات کا بنیادی مضمون فلسفے اور مذہب میں اہم اہنگی پیدا کرنا ہے ۔اسکی کئی تصنیفات ان مضامین پر ہیں جن کا تعلق مذہب سے ہے مثلا خدا کیا ہے ، روح کیا ہے ،پیغمبر انہ علم وغیرہ ۔اس نے فلسفے تک مسلم دانشوروں کی رسائی کو ممکن بنا دیا لیکن اس پر فارابی کی شہرت غالب آگئی ہے ۔اور اس کی بہت کم تصنیفات جدید قاری کے لیے میسر ہیں ۔لیکن اسے عرب دنیا کے عظیم ترین فلسفیوں میں شمار کیا جاتاہے اس لیے اسے ’’ عربی فلسفی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔فلسفیانہ سوچ رکھنے کے باوجود اس کا یقین تھا کہ وحی عقل وتو جیہہ یعنی فلسفے سے بہتر ذریعہ ء علم ہے کیو نکہ یہ عقائد کے معاملات کی ضمانت دیتی ہے ۔وہ فقہ شافعی سے تعلق رکھنے والا سنی مسلمان تھا۔
ابن خلدون ماہر اسلامی معاشیاتی فقہ ،معاشرتیات ،سوشیالوجی ،تاریخ ،ثقافتی تاریخ ،فلکیات دان،اسلامی قانون دان ،حافظ ریاضی دان nutrionist ( ماہر غذائیات) تھا۔اس کی بنیادی دلچسپیاں فلسفہ تاریخ ،ڈیموگرافی ،ڈپلومیسی ، معاشیات (اکنامکس) ،اسلامیات ،عسکری نظریے (ملٹری تھیوری )، فلسفہ ،سیاسیات(Politic) اور علم الکلام،Statecraf تھے۔وہ بانی عمرانیات تھا ۔ابن خلدون کو سائنسی کی کئی شاخوں مثلا ڈیموگرافی ،تاریخ ثقافت ،فلسفہ تاریخ ، سوشیالوجی اور تاریخ نویسی (Historiography) کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔اس جدید اکنامکس (معاشیات) کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ہندوستانی عالم چناکیہ (Chanakya) کے ساتھ اسے سوشل سائنس کا بابا مانا جاتا ہے ۔اس نے مغرب سے صدیوں پہلے ان علوم کی بنیادیں فراہم کیں ۔وہ سب سے زیادہ مشہور اپنی کتاب مقدمہ ابن خلدون کی وجہ سے ہے جسے انگریزی میں Prolegomenon کہتے ہیں جواس کی دنیا کی تاریخ کی کتاب ’’ کتاب الابار‘‘(vitab al Ibar) کی پہلی جلد ہے ۔وہ پہلے عظیم ترین دانشمند تھے ۔جنہوں نے تاریخ نویسی میں مجتہدانہ نقطہ نظر پیش کیا ۔وہ پکا سنی مسلم سائنسدان تھا۔
اخوان الصفا دسویں صدی عیسوی میں بصرہ (اس وقت کا عباسی دارالخلافہ) میں مسلمان فلسفیوں کی خفیہ تنظیم تھی۔س پر اسرار تنطیم کا تنظیمی ڈھانچہ آج تک واضح نہیں ہے۔ ان کی فلسفیانہ تصانیف اور تعلیمات کو ایک کتاب " رسالہ اخوان الصفاء " میں پیش کیا گیا ہے جسے
Encyclopeia of brethern of purity
کہتے ہیں۔ یہ52 رسائل کا عظیم انسائیکلو پیڈیا ہے جس نے بعد کی تصانیف کو بہت متاثر کیا۔
رچرڈ نیٹن اپنی کتاب Muslim Neoplatonists میں جو 1982 ؁ء میں لندن میں شائع ہوئی کے صفحہ 80پر لکھتاہے ۔
’’ اخوان الصفا کے قرآن اوراسلامی روایات کے متعلق خیالات اسماعیلیوں سے مطابقت رکھتے ہیں ۔‘‘
تقریبا ہراوسط عالم نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اسماعیلی تھے ،مثلا ضیزی(Fyzes) اپنی کتاب Religion and Middle East میں جو 1969 ؁ء
میں شائع ہوئی کی جلد دوم صفحہ 324پر لکھتاہے ۔
’’ اخوان الصفا کے راستے اور طور طریقے واضح طور پر اسما عیلی معلوم ہوتے ہیں اور تمام اہل علم خواہ قدیم ہوں یاجدید اس بات پر متفق ہیں کہ اخوان کے رسائل اسماعیلی مذہب کی ابتدائی شکل کا مستند ترین اظہار معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘
برنارڈ لیوس 1940 ؁ء میں لندن سے شائع ہونے والی اپنی کتاب The Oringin of Ismailism کے صفحہ 40پر لکھتاہے۔
’اخوان الصفا کے رسائل اگرچہ اسماعیلی تعلیمات سے مشابہت رکھتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ وہ حقیقی طور پر اسماعیلی مذہب سے تعلق نہ رکھتے ہوں ۔‘‘
لیکن یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ وہ سیکولر یا ملحد نہیں تھے۔
ابن طاہر البغدادی نے اپنی مشہور تصنیف التکمیلہ فی الحساب میں عددی نظرے (نمبر تھیوری) پر بحث کی ۔وہ فقہ شافعی سے تعلق رکحنے والا سنی مسلم سائنسدان تھا۔
ابن یحییٰ المغربی السموأل وہ یہودی نسل سے تعلق رکھنے والا مسلمان ریاضی دان او ر فلکیات دان تھا ۔اگرچہ وہ ایک یہودی تھا لیکن 1163 ؁ء میں اس نے ایک خواب دیکھا جس میں اسے اسلام قبول کرنے کا حکم دیا گیا ۔اس پر اس نے اسلام قبول کرلیا ۔اس کا باپ مراکو (مراکش) سے تعلق رکھنے والا یہودی ربی تھا ۔
علی ابن سہل ربان الطبری ایک مسلمان حکیم ، عالم ،طبیب (فزیشن )اور ماہر نفسیات تھا۔قرآن پاک کے بارے میں اس نے کہا
’’ جب میں عیسائی تھا تو میں اپنے چچا کی طرح یہ کہاکرتاتھا کہ فصاحت وبلا غت پیغمبری کی علامت نہیں ہو سکتی کیو نکہ یہ تمام لوگوں کے لیے قدر مشترک ہے لیکن جب میں نے اس معاملے میں روایتی خیالات کو ترک کیااور قرآن پاک کے معانی پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے پیرکار صحیح دعویٰ کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج تک چاہے فارسی ہو یا ہندی ،یونانی ہو یا عربی ،مجھے کو ئی ایسی کتاب آغاز عالم سے آج تک معلوم نہیں ہوئی جو بیک وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف ،انبیاء پر ایمان ،امر بالمعروف ونہی عن المنکر ،جنت کی طلب اور جہنم سے بچنے کی دعوت دیتی ہو ۔لہٰذا جب کوئی شخص ہمارے پاس ایسی خصوصیات والی کتاب لاتا ہے جو ہمارے دلوں میں ٹھنڈک پیدا کرتی ہے ،حالانکہ وہ شخص (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بذات خودامی ہیں تویہ ان کے بلاشک وشبہ پیغمبر ہونے کی دلیل ہے ۔‘‘
ابو زید البلخی کی وجہ شہرت جغرافیہ ،ریاضی ،طب، نیوروسائنس ،نفسیات ہیں۔ وہ بانی ارضی نقشہ جات ( بلخی مکتب فکر ، بغداد) نفسات اور نیوروسائنس میں نفسیاتی صحت (mentas health) اور نفسیاتی پا کیزگی (mentel hygione) تھا۔اس نے مزید کہاکہ اگرجسم بیمار ہوجاتاہے تونفس(انسانی نفسیات) اپنی سوچنے (cognitive) اور سمجھنے (comprehensive) کی صلاحیت کھوبیٹھتاہے جس کا نتیجہ نفسیاتی بیماری کی صورت میں نکلتاہے ۔البلخی نے اس دعوے کی تصدیق قرآن وحدیث سے کی ۔مثلا قرآن پاک میں ہے ۔’’ ان کے دلوں میں مرض ہے ‘‘ (سورۃ البقرہ ،آیت نمبر10پارہ اول )۔وہ پکا مسلمان تھا۔ ابو القاسم الزہراوی بانی جدیدسرجری اور قرونِ وسطیٰ کا عظیم ترین سرجن تھا۔
اس کے کارنامے ایجاد آلاتِ سرجری، پیشاب کی نالی (یوریتھرا) کے اندرونی حصے، گلے میں پھنسی بیرونی چیزوں کو نکالنے اور کان کےء معانئے کے آلات کی ایجاد ہیں۔
وہ عرب کے انصار قبائل سے تعلق رکھتاتھا ۔جو اندلس میں رہائش پذیر ہوگئے عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگوں کی وجہ سے الزہرا کی تباہی کی وجہ سے اس کی زندگی کے متعلق زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہیں ۔لیکن اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ ملحد نہیں تھا۔
ابن زہرسنی مسلمان اور مقلدفقہ مالکی تھا۔اس کی بنیا دی دلچسپیاں طب (میڈیسن)، فارمیسی، سرجری، علم طفیلیات (پیرا سائٹالوجی)تھے۔
شا پو ر ابن سہلنویں صدی عیسوی کا فارسی عیسائی طبیب تھا ۔
ابن البیطاراندلس (سپین ) کے عظیم ترین سائنسدانوں میں سے ایک تھا۔ اس نے بحیرۂ روم کے وسیع ساحل پر سفر اس غرض سے کیا کہ وہ جڑی بوٹیاں اور پودے اکٹھے
کرے اور ان پر تحقیق کرے۔۔وہ سنی مسلم تھا۔
ابن جزلہگیارہویں صدی عیسوی کا بغداد کا ایک طبیب ( فزیشن) تھا۔ابن جزلہ بغداد میں نسیطوری عیسائی والدین کے ہاں پیدا ہوا ۔اس نے 1074 ؁ء میں اسلام قبول کرلیا ۔وہ 1100 ؁ء میں فوت ہوا۔
ابن النفیس فزیشن (طبیب) ، اناٹومی، ماہر فزیالوجی، سرجری، ماہرامراض چشم، حافظ عالم الحدیث ، فقیہہ فقہ شافعی ، قانون دان، ماہر سنی علم الکلام ، اسلامی فلسفہ، منطق، عربی ناول نگاری، سائنس فکشن مصنف، سائنسدان، ماہراسلامی علم نفسیات، سوشیالوجی، آسٹرونومی (فلکیات) علم کائنات ،futurology ، ارضیات (جیولوجی) اور عربی گرائمرتھا۔ابن النفیس وہ پہلا فزیشن ہے جس نے پھیپھڑوں میں خون کے بہاؤ (پلمونری سرکولیشن) کو بیان کیا۔ وہ اس دریافت کی دریافت کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔اس نے اسلامی مضامین مثلا حدیث پر ایک کتاب لکھی جو حدیث کے علم کی تقسیم بندی کا ایک بہتر اور مننظم نظام پیش کرتی ہے۔اس ۔وہ پکا سنی مسلم سائنسدان تھا۔
وہ فقہ شافعی کا مقلد تھا۔اس نے فلسفے پر کئی کتابیں لکھیں ۔وہ قرآن پاک اور حدیث شریف کا پکا پیروکار تھا۔ابن النفیس شراب کے استعمال سے سخت نفرت کرتا تھا اور اس نے اس کی مذہبی اور طبی وجوہات بیان کیں ۔تقویٰ رکھنے،سنت کی پیروی،ذہین فلسفے اور زبردست میڈیکل مہارتوں سے نفیس نے روایت پسندوں (Tradionalists) اور عقلیت پسندوں(Rationalists) سب کو متاثر کیا۔مشہور امام اابو حیان الغرناطی ابن النفیس کے شاگرد تھے۔ابن النفیس پکا سنی مسلم تھا۔
امام غزالی ماہر اسلامی علم المذاہب ، فلسفہ، علم کائنات (کاسمالوجی)، نفسیات تھا۔غزالی نے سائنس ، فلسفے ، نفسیات، خلا اور صوفی ازم پر 705 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کی اس کی کتاب The incoherence of philosophers میں غزالی نے Skepticism5 کا اصول دریافت کیا۔ جس سے مغرب والے رینی ڈسکارٹز، جارج برکلے اور ہیوم تک متعارف نہ ہو سکے۔ وہ پکا سنی مسلم تھا۔
موسیٰ ابن میمون(میمونید) 1138 ء میں پیدا ہوا اور 1204ء میں فوت ہوا۔وہ سپین کا عظیم ترین یہودی فلاسفر تھا جس کی تصنیفات کا آج بھی بہے مطالعہ کیا جاتا ہے۔اگرچہ وہ مسلمان نہیں تھا،مگر وہ قرون وسطیٰ کے ان فلسفیوں میں سے تھا جن کی تربیت اسلامی سائنس اور فلسفے کے زیر سایہ ہوئی۔
ا لمسعودی کیبنیادی دلچسپیاں:تاریخ اور جغرافیہ(جیوگرافی) تھے۔
اس کی مشہورتصنیفات مروج الذہب ومعدن الجواہر(The meadows of gold and mines of gems)،التنبیہہ والاشراف(Notification and review) ہیں۔مسعودی کو عربوں کا ہیرودوٹس اور پلینی کہا جاتا ہے ۔المسعودی پہلا انسان تھا جس نے تاریخ اور سائنسی جغرافیہ کو ایک بلند پایہ تصنیف میں مشترک کیاجس کا نام’’مروج الذہب و معدن الجواہر‘‘ ہے اور جسے آج Meadows of gold and mines of gemsکہا جاتا ہے۔تین سو جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مسعودی نے دنیا کی تاریخ اور اپنے ہندوستان سے یورپ تک کے سفروں کا حال بیان کیا۔۔سنی حضرات مسعودی پر اس کے شیعہ اور معتزلی اثراتکی وجہ سے یقین نہیں رکھتے۔ابن حجر اور الذہبی جیسے کئی سنی علماء نے اسے شیعہ اور معتزلی قرار دیا ۔ لیکن وہ ملحد یا سیکولر بالکل نہیں تھا۔
ڈاکٹر عبدالقیوم راناضلع مظفر گڑھ(پنجاب،پاکستان) سے تعلق رکھنے والا ایک نیورو فزیشن ہے جو کینیڈا میں مقیم ہے۔اس کی تحقیقی دلچسپی کا خاص میدان وہ اعصابی بیماریاں ہیں جن کا تعلق حرکا ت کی بے قاعدگی(Movement disorders) سے ہے۔ایسی ہی ایک بیماری پارکنسن کی بیماری(Parkinson disease) ہے۔ڈاکٹر رانا ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہے ۔اور تبلیغی جماعت سے وابستہ ہے۔
رازی کے بنیادی کارنامے تیزاب مثلا گندھک کا تیزاب(سلفیورک ایسڈ ایجاد )کرنے ،چیچک(Smallpox) اور کالا کاکڑا(Chickenpox)پر تحقیقیکالم ہیں۔وہ بچوں کے امراض یا امراض اطفال(Pediatics)پر پہلی کتاب لکھنے والا انسان(لہٰذا بانی علم امراض اطفال،آنکھوں کے امراض(Ophthalmology)کے بانیوں میں سے ایک،نامیاتی (آرگینک) اور غیر نامیاتی کیمیا(Inorganic chemistry) میں نمایاں کارنامے انجام دینے اور کئی فلسفیانہ کتب تصنیف کرنے والا
انسان,چیچک(Smallpox) کو خسرہ(Measles) سے الگ بیماری قرار دینے اور کئی کیمیکل مثلا الکحل اور مٹی کا تیل(کیروسین)دریافت کرنے والا پہلا انسان تھا۔رازی کے مطابق ڈاکٹر کا مقصد یہ ہے کہ وہ دشمنوں اور دوستوں سب کے ساتھ بھلائی کا مظاہرہ کرے۔اس کا شعبہ اسے اس بات سے روکتا ہے کہ وہ کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے۔اللہ تعالیٰ نے ماہرین طب پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ باعثِ اذیت علاج نہ تجویز کریں۔رازی مسلمان تھا لیکن یہ تصدیق نہیں ہے کہ اس کا تعلق کونسے فرقے سے تھا۔البتہ اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ ملحد یا دین بیزار نہیں تھا۔
یہ تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدانوں میں سے کوئی بھی سیکولر یا ملحد نہیں تھا۔ مسعودی اور نصیرالدین طوسی شیعہ تھے جب کہ تین لوگ عیسائی تھے، ایک یہودی تھا لیکن یہ سب وہ لوگ تھے جن کی تربیت اسلامی دنیا اور اس کی عظیم سائنسی ثقافت کے زیر اثر ہوئی اور یہ لوگ اسلامی دنیا میں مقیم اور اس کے براہ راست زیر اثر تھے جب کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت سنی مسلمانوں پہ مشتمل تھی۔ یہ ساری تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی دنیا کے تمام نامور سائنسدان مزہب سے وابستہ تھے اور ان میں سے کوئی بھی سیکولر یا ملحد نہیں تھا۔ان میں سے کچھ لوگ تو وہ تھے جو بیک وقت مولوی ،عالم ،فقیہ اور سائنسدان تھے۔ یہ ساری تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ سیکولر اور ملحد طبقے کا یہ اعتراض کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدان سیکولر اور ملحد تھے اور سائنس اور مزہب پرستی کا کوئی جوڑ نہیں، سفید جھوٹ ہے۔
ھذا ما عندی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ الحمداللہ
مکمل تحریر >>