Saturday 23 December 2017

کیا موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے ؟

کیا موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے ؟

تحریر : محمّد سلیم

فری تھنکرز کے دیسی انڈوں میں سے ایک نیا ولائتی چوچہ پھوٹا ہے اور پھوٹتے ہی اس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قران تحریف شدہ ہے ۔ دعویٰ کرنے والوں کو بعض دفعہ یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ ان کی اصل باپ سیدھے ہاتھ والا پڑوسی ہے یا الٹے ہاتھ والا مگر قران پہ مکمل عبور کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ ماشاء ﷲ ۔ ﷲ سلامت رکھے اور شوق میں اضافہ کرے ۔
کیڑے کھانے کے شوقین ان چوچوں کو کچھ اور نہیں ملتا ۔ وہیں  ٹھونگیں مار مار کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں جہاں سے تیل چاہے نکل آئے کیڑا نہیں نکالا جا سکتا ۔
اعتراض یہ ہے جناب کہ

///عبداللہ بن عباس (و انذر عشیرتک الاقربین) کی تلاوت یوں کرتے تھے
"و اﻧﺬِﺭْ ﻋَﺸِﻴﺮَتک ﺍلاﻗْﺮَﺑِﻴﻦَ ﻭَ ﺭَﺣْﻄُﮏَ ﻣِﻨْﮭُﻢِ ﺍﻟْﻤُﺨْﻠِﺼِﯿْﻦَ"
(ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ 4971)
"و رحطک منھم المخلصین"موجودہ قرآن میں یہ نہیں\\\

جواب : پہلے حدیث کا پورا متن پڑھ لیتے ہیں جو موصوف لکھنا بھول گئے ۔ کوئی نہیں میں لکھ دیتا ہوں ۔
صحیح بخاری ۔ جلد نمبر 4۔ کتاب التفسیر ۔ حدیث نمبر 4971
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏}‏ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ ‏"‏ يَا صَبَاحَاهْ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا مَنْ هَذَا، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ‏"‏‏.‏ قَالُوا مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلاَّ لِهَذَا ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ ‏{‏تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ‏}‏ وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ‏.‏
"حضرت عبدﷲ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی "اور آپ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں ۔"اور ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جو آپ کے گروہ میں مخلص ہیں تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور باآواز بلند کہا ۔ "یا صبا حاہ !"قریش نے کہا یہ کون ہے ؟ پھر جب وہاں سب آکر جمع ہو گئے تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ۔ "تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے ؟"سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ ہمیں آپ سے جھوٹ کا کبھی تجربہ نہیں ہوا ۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ "پھر میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آرہا ہے ۔"اس وقت ابولہب نے کہا تیری تباہی ہو کیا تو نے ہمیں یہاں اس لئے جمع کیا تھا ؟ پھر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ سورہ نازل ہوئی "تبت یدا ابی لہب و تب"اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے ۔ "و قد تب"یعنی وہ یقیناً تباہ ہو چکا ہے ۔"

یہ ہے جناب حدیث جس میں پتہ نہیں کہاں لکھا ہے کہ حضرت عبدﷲ بن عباس اس آیت کو یوں پڑھا کرتے تھے ۔
اصل میں معاملہ یہ ہے کہ ہمارے اردو بولنے والے سیدھے سادھے پاکستانی بھائی جب کسی عرب ملک میں جاتے ہیں تو دو لوگوں کو آپس میں فصیح عربی میں باتیں کرتے دیکھ کر یہی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یقیناً ایک دوسرے کو قرآن پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہوں گے ۔ حدیث کا پورا متن چونکہ اصلیت میں عربی زبان پر ہی مبنی ہے لہٰذا موصوف نے قران کی آیت سے اگلے ٹکڑے کو جو کہ عبدﷲ بن عباس کی ذاتی تشریح تھی اس کو بھی قران کا حصہ سمجھ لیا ۔ یہ بھی شکر ہے کہ موصوف نے "عن ابنِ عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ قال"کو قران کا حصہ نہیں سمجھ لیا ۔ کیوں یہاں بھی عربی ہی لکھی ہوئی ہے ۔ امام بخاری نے پڑھنے والوں کی سہولت کے لیئے قرانی آیت کو الگ بریکٹ میں لکھا ہے اور عبدﷲ بن عباس رض کی تشریح کو الگ بریکٹ میں (اسکرین شاٹ میں دیکھیں ) ۔ فیر وی سمج نئیں لگی ۔ سید امجد حسین کو پوچھ لیتے ؟ اس کو تو عربی آتی ہے ۔ بے شک اس میں وٹامن شی کی کمی ہے جو وہ عرفان سے انجیکشن لگوا لگوا کر پوری کرتا رہتا ہے ۔ مگر عربی کی کوئی کمی نہیں ہے (ہو تو بتا دیں ہمارے پاس اس کے بھی انجیکشن دستیاب ہیں) ۔
حدیث کے آخری حصے کو پڑھنے سے یہ غلط فہمی کافی حد تک رفع بھی ہو جاتی ہے ۔ جہاں واضح ہے کہ
"یہ سورہ نازل ہوئی "تبت یدا ابی لہب و تب"اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے ۔ "و قد تب"یعنی وہ یقیناً تباہ ہو چکا ہے ۔"
اب یہاں واضح لکھا ہے کہ اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ۔ تو کیا قران میں تحریف کر دی ؟ جی نہیں ۔ یہ اس آیت کا جواب ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ کہ جو قران نے کہا وہ سچ ثابت ہو چکا اور چونکہ عربی میں ہی کہا لہٰذا اس بات کا غالب گمان موجود ہے کہ ملحدین کے زیرِ تربیت چوچے اسے قرآن کا حصہ سمجھ بیٹھیں ۔

آگے چلیں ۔
اگلا اعتراض ہے کہ

\\\"اسی طرح ایک آیت کچھ اس طرح پڑھتے تھے
"ﻟَﻴْﺲَ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ﺟُﻨَﺎﺡٌ اﻥ ﺗَﺒْﺘَﻐُﻮﺍ فضلا ﻣِّﻦ ﺭَّﺑِّﻜُﻢْ ﻓِﯽْ ﻣَﻮَﺍﺳِﻢِ ﺍﻟْﺤَﺞِّ"
(ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ 1770)
موجودہ قرآن میں "فی مواسم الحج"کے الفاظ درج نہیں ہیں"\\\

جواب ۔ اس کی بھی پہلے حدیث مکمل متن کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں ۔

صحیح بخاری ۔ کتاب الحج ۔ حدیث نمبر 1770
"حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ ذُو الْمَجَازِ وَعُكَاظٌ مَتْجَرَ النَّاسِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ كَأَنَّهُمْ كَرِهُوا ذَلِكَ حَتَّى نَزَلَتْ ‏{‏لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ‏}‏ فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ‏.‏"

"حضرت عبدﷲ بن عباس رض سے روایت ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ ذوالمجاز اور عکاز دورِ جاہلیت میں لوگوں کی منڈیاں تھیں ۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے وہاں خرید و فروخت کرنے کو اچھا خیال نہ کیا تاآنکہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ تمہارے لئے کوئی حرج نہیں کہ حج کے زمانے میں ﷲ کا فضل تلاش کرو ۔"

یہ ہے حدیث کا مکمل متن اور بات یہاں بھی وہی ہے ۔ اس حدیث میں ایک اور بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ﷲ تعالیٰ کچھ مسلسل آیات کسی خاص موضوع پر پیش کرتے ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ اصل موضوع کا ذکر بار بار آئے ۔ صرف پہلی آیت میں موضوع سمجھا دیا جاتا ہے بعد میں اس کے تسلسل سے آیات چلتی رہتی ہیں ۔ اس کی مثال یوں سمجھیئے کہ جیسے میں کہوں کہ
"اسد ایک شریف گھرانے کا چشم و چراغ ہے ۔ وہ چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے ۔"
اب ان دو جملوں میں سے پہلے جملے میں شخصیت کا نام موجود ہے مگر دوسرے جملے میں نام کی جگہ "وہ"کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اب اگر کوئی شخص میرے ان جملوں میں سے دوسرے جملے کو کہیں استعمال کرتا ہے تو اس کو اس لفظ "وہ"کی بریکٹ میں وضاحت کرنی پڑے گی ۔
ایسے ۔ ۔ ۔
"وہ(اسد) چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے ۔"
اب یہاں لفظ "اسد"اصل متن کا حصہ نہیں تھا مگر چونکہ سنانے والا صرف دوسرے ہی جملے کو استعمال کر رہا ہے لہٰذا اس کی مجبوری ہے کہ وہ بریکٹ میں اس بات کی وضاحت کرے کہ یہ بات اسد کے متعلق ہو رہی ہے ۔
یہی کام ابنِ عباس نے بھی کیا ہے ۔
قرآنی آیت یہ ہے ۔
سورہ البقرہ ۔ 198
لَيۡسَ عَلَيۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡؕ فَاِذَآ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰهَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَـرَامِ وَاذۡکُرُوۡهُ کَمَا هَدٰٮکُمۡ‌ۚ وَاِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِهٖ لَمِنَ الضَّآ لِّيۡنَ‏ ﴿۱۹۸﴾
اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام (یعنی مزدلفے) میں خدا کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا۔ اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) محض ناواقف تھے ﴿۱۹۸﴾

اب اس آیت میں حج کا ذکر نہیں ہے مگر چونکہ پچھلی کچھ آیات سے ذکر حج کا ہی چل رہا ہے اس لیئے آج تک ہر مترجم اس آیت میں بریکٹ میں اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ یہ حج کے موسم کے متعلق بات ہو رہی ہے ۔ یہی کام ابن عباس رض نے بھی کیا ۔ کیوں ابنِ عباس رض محض اسی آیت کا ذکر کر رہے ہیں لہٰذا اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ یہ حکم عمومی ہے یا حج کے لئے خاص ۔

آگے چلیں ۔
اگلا اعتراض ہے کہ
\\\مومنین کی اماں عائشہ
"ﺣَﺎﻓِﻈُﻮﺍ ﻋَﻠَﻰ ﺍﻟﺼَّﻠَﻮَﺍﺕِ ﻭَالصلاﺓِ ﺍﻟْﻮُﺳْﻄَﻰٰ"
میں "ﻭَ الصلاۃِ ﺍﻟْﻌَﺼْﺮ"کے اضافی الفاظ شامل کرتی تھیں
(ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ 1427)
حالانکہ "و الصلاۃ العصر بھی موجودہ قرآن میں درج نہیں\\\

جواب ۔ اس اعتراض کا جواب مجھے دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1427میں ایسا کچھ نہیں لکھا ۔ اسکرین شاٹ میں دیکھ سکتے ہیں کہ نہ تو یہ حدیث حضرت عائشہ رض نے روایت کی ہے نہ ہی اس میں حضرت عائشہ یا والصلاہ العصر کا سرے سے کوئی ذکر ہے ۔
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کا موضوع زکوات ہے ۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ چوچے نے ٹھونگ غلط جگہ مار دی یا نمبر غلط لکھ دیا ۔ اوپر کی دو احادیث کے نمبر صحیح بخاری کی انٹرنیشنل رینکنگ کے حساب سے دیئے گئے ہیں تو یقیناً تیسرا بھی اسی رینکنگ کے حساب سے ہونا چاہئے تھا ۔ بہرحال جو بھی ہے صحیح نمبر درج کر دیں اور اس کا جواب بھی ہاتھ کے ہاتھ لے لیں ۔
پوسٹ کے آخری حصے میں کچھ شیعہ علماء کی کتابوں کے حوالے ہیں کہ وہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں ۔ ہوتے رہیں ۔
تو پھر ہم کیا کریں ؟
ملحدین بھی تو قائل ہیں قرآن کی تحریف کے ؟
ثابت کس نے کیا ؟
اصول یہ ہے کہ انڈے سے نکلنے کے بعد چوچے کو دنیا میں پہلے ادھر ادھر گھوم کر کچھ دن گزار لینے چاہیئں ۔ اپنے اجداد کا حشر بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے ۔ پھر پوسٹ لکھنی چاہیئے ۔ ابھی انڈے سے نکلا ۔ آنکھیں پوری طرح کھلی نہیں اور چندھی چندھی آنکھوں سے قرآن پڑھ کر اعتراضی ٹھونگیں مارنی شروع کر دیں کہ اس میں سے کیڑے نکلیں گے ۔ منہ دھو کے سو جاؤ ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔